اتوار، 26 اگست، 2012

امام حرم مکی شیخ فیصل بن جمیل الغزاوی

0 تبصرے

امام حرم مدنی شیخ ایوب

0 تبصرے

امام حرم مکی شیخ خالد بن علی الغامدی

0 تبصرے

بشکریہ: ماہنامہ مصباح ، کویت۔

امام حرم مکی شیخ صالح بن محمد ابراہیم آل طالب

0 تبصرے

امام حرم فیصل بن جمیل بن حسن الغزاوی

0 تبصرے
فیصل بن جمیل بن حسن الغزاوی حرمی مکی میں امام ہیں، آپ کی پیدائش 1385 ھ میں مکہ مکرمہ میں ہوئی، ابتدائیہ، متوسطہ اور ثانویہ کی تعلیم مکہ مکرمہ ہی میں مکمل کی، شیخ فیصل کو علم قراءات سے بے پناہ لگاؤہے ، یہی وجہ ہے کہ آپ نے اعلی تعلیم میں علم قراءات کو اپنا مقصد بنایا اور ثانویہ کی تعلیم کے بعد 1409ھ میں ام القری یونیورسٹی سے قراءات قرآن میں بی اے کیا، اور 1417ھ میں کتاب وسنت میں ماسٹر کی ڈگری حاصل کی، آپ نے ایم اے میں ابن ملقن کی توضیح شرح جامع الصحیح کے ایک حصہ پر تحقیقی مقالہ تحریر کیا،سال 1423ھ میں ” امام ابن عطیہ کا قراءات قرآن میں طریقہ کار اور ان کی تفسیرمیں اس کے اثرات” کے موضوع پر پی ایچ ڈی کا مقالہ تحریر کیا، آپ نے ماسٹر اور ڈاکٹریٹ ام القری یونیورسٹی سے مکمل کیا اور1432ھ میں پروفیسر بنے۔
علمی اور دعوتی سرگرمیاں:شیخ فیصل نے 1404ھ سے مکہ مکرمہ کی متعدد مساجد میں امامت کے فرائض انجام دیئے، حرم مکی میں امامت کے منصب پر فائز ہونے سے قبل شیخ فیصل جامع الھدی رصیفیہ میں 1411ھ سے 1428ھ تک امام وخطیب رہے۔ آپ نے سال 1424سے دو سال کے عرصے میں دعوت اور اصول دین کالج میں مختلف ثقافتی سرگرمیوں کی سرپرستی کی،اسی طرح 1419ھ سے 1428ھ تک رصیفیہ دعوت وارشاد کے مندوبین کے سربراہ رہے،چار برس تک مساجد اور ائمہ مساجد کمیٹی کے سربراہ رہے، سال 1426ھ سے قراءات ڈپارٹمنٹ کے ہیڈ کی حیثیت سے خدمات انجام دیں ،1431ھ میں دعوہ کالج میں طلباءکے امور کے انڈرسیکریٹری منتخب ہوئے، اسی طرح 1432 ھ میں دعوہ کالج برائے اعلی تعلیم کے انڈرسیکریٹری کے عہدے پر فائز ہوئے۔
مسجد حرام میں امامت:شیخ فیصل الغزاوی 25 ذی القعدہ 1428 ھ کو شاہی فرمان کی رو سے مسجد حرام میں امامت کے عہدے پر فائز ہوئے۔

امام حرم مکی شیخ خالد الغامدی

0 تبصرے

  شیخ خالد بن علی بن عبدان الابلجی الغامدی حفظہ اللہ تعالی حرم مکی میں امام ہیں ۔
شیخ حرم مکی کے علاوہ ایام حج میں منی میں واقع مسجد خیف میں بھی امامت کے فرائض انجام دیتے ہیں،آپ حرم مکی میں امامت سے قبل مکہ مکرمہ کے الخالدیہ علاقے میں واقع مسجد امیرہ شیخہ میں امام وخطیب تھے۔
 آپ کا تعلق سعودی عرب کے مغرب میں سرات نامی پہاڑی سلسلے کے غامد علاقے میں واقع قبیلة بنی خیثم کے الحبشی قصبے سے ہے۔
شیخ خالد الغامدی کی پیدائش سن 1388 ہجری میں مکہ مکرمہ میں ہوئی، ابتدائی تعلیم مکہ مکرمہ میں حاصل کی، سال 1406 ہجری میں ام القری یونیورسٹی میں داخل ہوئے اور اس یونیورسٹی کے دعوت واصول دین کالج کے شعبہ  کتاب وسنت سے امتیازی درجے سے گریجویشن کیا اور 1416ہجری میں ام القری یونیورسٹی کے قرآن کریم کالج کے شعبہ  قرآت سے ماسٹرس کی ڈگری حاصل کی، سن 1421 ہجری میں شیخ خالد الغامدی نے ام القری یونیورسٹی کے مذکورہ کالج سے قرآتِ قرآن کریم اور قرآنی علوم پرڈاکٹریٹ کی، ڈاکٹریٹ کے لیے آپ نے تفسیرثعلبی پر تحقیقی مقالہ تحریر کیا۔
عملی زندگی کا آغاز
شیخ خالد الغامدی کی غیرمعمولی صلاحیتوں اور گریجویشن کے امتحانات میں امتیازی درجات سے کامیابی پر ام القری یونیورسٹی کے ذمہ داران نے آپ کو دوران تعلیم ہی  ام القری یونیورسٹی کے دعوت اور اصول دین کالج کے شعبہ  قرآت میں لیکچرار کی حیثیت سے مقرر کردیا تھا۔
 تاہم آپ کا رسمی طور پرتقرر سن 1422 ہجری میں عمل آیا، اسی سال شیخ خالد شعبہ  قرآت میں ہیڈ آف دی ڈپارٹمینٹ کے عہدے پرفائز ہوئے اور اس شعبے میں دو برس تک خدمات سرانجام دیں۔
1423 ہجری میں وزیراسلامی امور اوردعوت وارشاد کے حکم پر شیخ خالد کو منی کی مسجد خیف میں رسمی طور پر امام مقرر کیا گیا، جبکہ سن 1426 سے آپ دعوت اور اصول دین کالج میں انڈرسیکریٹری کے منصب پر فائز ہیں۔
25 ذی قعدہ 1428 ہجری کا دن شیخ خالد الغامدی کی زندگی کا وہ موڑ ہے، جہاں سے انھیں دنیا بھر کے مسلمانوں کی امامت اور انھیں خطاب کرنے اور حرم مکی میں اپنی مسحور کن اور رقت آمیز آوازمیں تلاوت کلام پاک سے مستفید کرنے کا موقع ملا، اسی تاریخ کو خادم حرمین شریفین شاہ عبداللہ بن عبدالعزیز آل سعود نے شیخ خالد بن علی الغامدی اور شیخ فیصل جمیل حسن غزاوی کے حرم مکی میں امام نامزد کیے جانے کا فرمان جاری کیا۔ اور شیخ خالد الغامدی نے 1429 ہجری کے آغاز سے حرم مکی میں باضابطہ امامت کے فرائض انجام دینا شروع کردیئے۔
شیخ خالد الغامدی حرم مکی میں امام وخطیب اور ام القری یونیورسٹی کے زیر انصرام کالج کے انڈرسیکریٹری کے عہدے پر فائز ہونے کے ساتھ ساتھ مختلف تحقیقی، تدریسی اصلاحی، ادارتی کمیٹیوں کے رکن بھی ہیں۔ اسی طرح شیخ موصوف ام القری یونیورسٹی میں ماسٹرس اور ڈاکٹریٹ کے مقالات کے لیے گائڈ کے فرائض بھی انجام دیتے ہیں۔
تصنیفی وتحقیقی خدمات
شیخ خالد الغامدی ماہرعلم قراءات ہیں،چونکہ قرآن کریم صحیح حدیث کے مطابق سات طریقوں یا سات لہجوں میں نازل ہوا، شیخ خالد نے قرآن کریم کی قرا ت اور قرآنی علوم کو اپنی تحقیق کا میدان بنایا ہے۔ انھوں نے اب تک علم قرا ت اور علوم قرآنی پر نو سے زائد تحقیقی کتابیں تحریر کیں جن سے شیخ خالد الغامدی کی علم قرا ت اور قرآنی علوم سے شیفتگی اور بے پناہ ذوق کا پتا چلتا ہے۔




امام حرم مکی شیخ عبداللہ بن عواد بن فہد الجہنی

0 تبصرے
آپ کا پورا نام عبداللہ بن عواد بن فہد بن معیوف بن عبداللہ بن محمد بن کدیوان الہمیمی الذبیانی الجہنی ہیں ،شیخ موصوف مسجد حرام میں امام ہیں۔ شیخ عبداللہ کی پیدائش بروز منگل11 شوال 1396 ہجری مطابق 13 جنوری 1976 کو مدینہ منورہ میں ہوئی،شیخ عبداللہ نے بچپن ہی میں اپنے والد کی نگرانی میں حفظ قرآن مکمل کرلیا تھا، اور 16 برس کی عمر میں مکہ مکرمہ میں منعقدہ عالمی مسابقہ حفظ قرآن کریم میں اول درجہ سے کامیاب ہوئے تھے۔
شیخ موصوف نے ثانویہ کی تعلیم کے بعد جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ کے قرآن فیکلٹی سے بی اے کی تعلیم حاصل کی، تعلیم سے فراغت کے بعد مدینہ منورہ کے ٹیچر کالج میں معید کی حیثیت سے مقرر ہوئے، اس کے بعد شیخ عبداللہ نے مکہ مکرمہ میں ام القری یونیورسٹی سے ایم اے کی تکمیل کی، اور حال میں ام القری یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کررہے ہیں۔
شیخ عبداللہ نے 21 برس کی عمر میںمسجد قبلتین سے امامت کا آغاز کیا،مسجد قبلتین کے بعد مسجد نبوی میں دو برس منصب امامت پر فائز رہے۔اس کے بعدچار برس تک مسجد قبا میں امامت کے فرائض انجام دیئے،ماہ رمضان 1426ھ میں شیخ عبداللہ کے نام مسجد حرام میں نماز تراویح کی امامت کا شاہی فرمان جاری ہوا۔
شیخ عبداللہ کو عالمی سطح پر مشہور قرائے کرام سے اجازت حاصل ہے، جن میں شیخ زیات، مسجد نبوی میں شیخ القراءشیخ ابراہیم الاخضر، امام مسجد نبوی ڈاکٹر علی الحذیفی شامل ہیں۔
شیخ عبداللہ کو مسجد حرام، مسجدی نبوی، مسجد قبا سمیت مسجد قبلتین یعنی چار اہم مساجد میں امامت کے فرائض انجام دینے کا شرف حاصل ہے۔

امام حرم مکی شیخ محمد السبیل

0 تبصرے
شیخ محمد بن عبداللہ بن محمد بن عبدالعزیز آل عثمان نجد میں رہائش پذیر قبیلے بنی زید سے تعلق رکھتے ہیں، بنی زید عرب کے مشہور قبیلے قحطان کی ایک شاخ ہے۔ شیخ محمد ”السبَیل” کے لقب سے مشہور ہیں۔
 پیدائش اور تعلیم وتربیت:
شیخ کی پیدائش سال 1345 ھ میں سعودی عرب کے علاقے قصیم کے شہر بکیریہ میں ہوئی، حفظ قرآن کی تکمیل اپنے والد محترم اور شیخ عبدالرحمن الکردیدیس کے پاس کی، نیز مکہ مکرمہ میں رابطہ عالم اسلامی کے رکن شیخ سعدی یاسین لبنانی سے بھی قرآن کریم کی تعلیم حاصل کی۔
شیخ نے علوم شرعیہ اور علوم عربیہ کی تعلیم روایتی طریقے کے مطابق اپنے شہر کے علماءکے پاس مساجد میں جاکر حاصل کی، شیخ سبیل کے شیوخ اور اساتذہ میں شہر بکیریہ کے قاضی شیخ محمد بن مقبل، اور شیخ کے حقیقی بھائی مسجد حرام کے مدرس شیخ عبدالعزیز بن سبیل وغیرہ شامل ہیں۔شیخ سبیل نے ابتدائی شرعی تعلیم حاصل کرنے کے بعد مزید تعلیم کے لیے مملکت سعودی عرب کے علاقے بریدہ کا سفر کیا ، اورعلاقہ قصیم کی عدالتوں کے سربراہ شیخ عبداللہ بن محمد بن حمید سے علم دین حاصل کیا، اسی طرح شیخ سبیل نے مکہ مکرمہ میں اپنے زمانے کے مشہور محدثین شیخ عبدالحق ہاشمی اور شیخ ابو سعید عبداللہ ہندی سے اجازت حدیث حاصل کی۔
میدان عمل میں :
شیخ نے وزارة المعارف اور دیگر تعلیمی اداروں میں تقریبا 20 برس تک دریسی خدمات سر انجام دیں ، سال 1385 ھ میں شیخ سبیل حرم مکی میں امام وخطیب اور صدرالمدرسین مقرر ہوئے،اور سال 1390 ہجری میں حرم مکی میں مذہبی امور سے متعلق کمیٹی کے نائب سربراہ مقرر ہوئے، اور پھر سال 1411ھ میں حرمین شریفین میں عمومی امور سے متعلق کمیٹی کے سربراہ بنائے گئے۔ شیخ سبیل رابطہ عالم اسلامی میں فقہ اکیڈمی کے روز اول سے رکن ، اسی طرح مملکت سعودی عرب میں کبار علماءکمیٹی کے رکن ہیں۔شیخ، حرم مکی میں علوم شرعیہ اور علوم عربیہ کی تدریس کے فرائض بھی انجام دیتے ہیں۔
 اسفار:
شیخ سبیل نے اسلامی دنیا کے اکثر ممالک میں دعوتی دورے کئے، اندرون سعودی عرب سمیت بیرونی ممالک میں منعقدہ متعدد دینی کانفرنسوں میں شرکت کی۔
تالیفات:
شیخ سبیل کے حرم مکی میں دیئے گئے خطبات کتابی شکل میں متعدد جلدوں میں منظر عام پر آئے ہیں، اسی طرح آپ نے مختلف موضوعات پر رسالے لکھے ہیں جن میں چوری کی حد، راعی اور رعایا اور قادیانیت شامل ہیں، شیخ سبیل شعروشاعری سے بھی دلچسپی رکھتے ہیں،آپ کا ایک شعری دیوان بھی منظر عام پر آیا ہے۔

امام حرم مکی شیخ ماہرحمدمُعَیقِل المُعَیقلِی

0 تبصرے
شیخ ماہرحمدمُعَیقِل المُعَیقلِی حرم مکی میں امام وخطیب ہیں، فضیلة الشیخ ڈاکٹر عبدالرحمن بن عبدالعزیز السدیس اور فضیلة الشیخ ڈاکٹر سعود بن ابراہیم الشریم کے بعد عالمی سطح پر اپنی دلسوز تلاوت پاک سے مسلمانانِ عالم میں مشہور ہیں، خلیجی ملکوں میں حفظِ قرآن کررہے زیادہ ترطلباء تلاوت پاک میں آپ کی نقل کرنا پسند کرتے ہیں، شیخ ماہر کی آواز میں سوز ، شیرینی اور خوفِ الہی کا اثر جھلکتا ہے۔ آپ کی شیریں اور سوز سے بھری تلاوتِ قرآن کی آواز سے سامعین میں رقتِ قلب اور خوفِ الہی پیدا ہوتا ہے اور دل چاہتا ہے کہ صاف وشفاف بہتے چشمے کی طرح رواں اس آواز کو بلاتوقف سنتے رہیں۔
پیدائش اور ابتدائی حالات وتعلیم
شیخ ماہر حمد 18شوال 1388ہجری کو مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے،اور اللہ کے محبوب کے محبوب شہر میں پرورش پائی ، آپ کے والد بزرگوار کا نام شیخ حمد بن معیقل ہے اور’ ابو محمد‘ کنیت ہے جنکا تعلق مملکت سعودی عرب کے ینبع النخل علاقے میں واقع سویقہ نامی ایک قصبے سے ہے، شیخ ماہر نے حفظ ِقرآن کی تکمیل کا مرحلہ مدینةالرسول میں طے کیا۔
 حفظِ قر آن کریم کے بعد مدینہ منورہ کے ایک اسکول سے ثانویہ کی تعلیم حاصل کی،ثانویہ کے بعد کلیة المعلمین میں داخل ہوئے اور وہاں سے ریاضی کے مضمون میں تدریس کی تربیت حاصل کی۔
عملی زندگی کا آغاز
شیخ ماہر تعلیمی سلسلہ مکمل ہونے کے بعد عملی زندگی اور کسبِ معاش کی جانب متوجہ ہوئے، سب سے پہلے آپ کسب معاش کے لیے مکہ مکرمہ پہنچے اور مکہ مکرمہ میں مدرسہ بلاط الشہداءمیں درس وتدریس کے پیشے سے منسلک ہوگئے،مدرسہ بلاط الشہداء میں تدریسی خدمات شروع کیے، زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا کہ شیخ موصوف کومتوسطہ امیرعبدالمجید اسکول میں خصوصی نگراں منتخب کرلیا گیا؛اسی اثناء میں شیخ موصوف نے اپنا اعلی تعلیم کا سلسلہ بھی جاری رکھا اور ام القری یونیورسٹی میں شریعہ میں ماسٹرس کی اسٹڈی کرتے رہے اور سال 1425 ہجری میں ماسٹرس ڈگری حاصل کرلی۔ آپ کے ماسٹرس کے مقالے کا موضوع فقہ حنبلی تھا۔ اس کے بعد آپ نے علم تفسیر کے موضوع پر ڈاکٹریٹ کا مقالہ تحریر کیا اور اس طرح شریعہ میں پی ایچ ڈی بھی مکمل کرلی۔فی الحال شیخ ماہر حمد ام القری یونیورسٹی کے شریعہ اوردراسات اسلامیہ فیکلٹی کے شعبہ قضاءمیں لیکچرار کی خدمات انجام دے رہے ہیں۔
حرمین شریفین میں امامت کا شرف
شیخ ماہرحمدپہلے ہی سے امامت وخطابت کے میدان سے وابستہ تھے اور مکہ مکرمہ کے علاقے العولی میں واقع مسجد جامع السعدی میں امام وخطیب تھے۔ یہ وہ مسجد ہے جہاں آپ ماہ رمضان کے علاوہ ایام میں آج بھی امامت وخطابت کے فرائض انجام دیتے ہیں۔آپ سن 1426ھ میں مسجدنبوی میں امام مقرر ہوئے، اسی طرح آپ پر اللہ تعالی کا مزید کرم احسان ہوا اور آپ کو حرم مکی میں امامت کے لیے شاہی فرمان کے ذریعے مقرر کرلیا گیا۔

امام حرم مکی شیخ سعود بن ابراہیم بن محمد الشریم

0 تبصرے
شیخ سعود بن ابراہیم بن محمد الشریم مسجد حرام میں امام وخطیب اور مکہ مکرمہ کی عدالت کے سابق جج ہیں، آپ کا تعلق نجد کے شہر شقراءکے مشہور قبیلے بنی زید سے ہے۔
شیخ سعود کے دادا محمد بن ابراہیم الشریم 1322 ھ سے 1325 ھ تک شقراءمیں امیر کے منصب پر فائز رہے ، عربی کے مشہور شاعر سلیمان بن شریم بھی آپ ہی کے خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔
شیخ سعود سن 1386ھجری میں سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم عرین اسکول میں حاصل کی، اس کے بعد نموذجیہ سے مڈل اسکول پاس کیا۔ اور سن 1404 ھ میں سیکنڈری کی تعلیم سے فارغ ہوئے۔
آپ نے 1409ھ میں سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں واقع امام محمد بن سعود اسلامک یونیورسٹی سے عقیدہ اور معاصرمذاہب میں بیچلرس کی ڈگری حاصل کی۔
 سن 1410ھ میں ہائیرانسٹی ٹیوٹ آف جسٹس میں داخلہ لیا اور وہاں سے 1413ھ میں امتیازی درجات سے ماسٹرس کی ڈگری حاصل کی۔
اس کے بعد آپ نے سن 1416ھ میں ام القری یونیورسٹی سے اسلامیات میں پی ایچ ڈی کی۔
 پی ایچ ڈی میں آپ کے مقالے کا عنوان (المسالک فی المناسک ) تھا۔ آپ نے پی ایچ ڈی کا تحقیقی مقالہ مملکت سعودی عرب کے مفتی عام شیخ عبدالعزیز آل الشیخ کے زیر نگرانی لکھا جو بعد میں کتابی شکل میں منظر عام پر آیا۔
امام شیخ سعود بن ابراہیم الشریم کو اپنے زمانے کے ماہرینِ فن اساتذہ سے براہ راست استفادے کا شرف حاصل ہے، ان کے اساتذہ میں شیخ عبداللہ بن جبرین رحمه الله ، شیخ عبدالعزیز بن باز رحمه الله،شیخ عبداللہ الغدیان رحمه الله، شیخ فہدالحمین، شیخ عبدالعزیز الراجحی، شیخ عبدالرحمن البراک ، شیخ عبدالعزیز بن عقیل اور شیخ صالح ابن فوزان الفوزان شامل ہیں۔
شیخ سعود نے تدریسی میدان سے اپنی عملی زندگی کا آغاز کیا، سن 1410ھ میں آپ نے ہائیرانسٹی ٹیوٹ آف جسٹس میں اپنی تعلیمی لیاقت میں اضافے کے ساتھ ساتھ تدریسی خدمات بھی انجام دیں۔ آپ کو اس انسٹی ٹیوٹ میں مدرس مقرر کیا گیا۔
سن 1412ھ میں حرم مکی میں امامت وخطابت کے لیے آپ کے تقرر کے سلسلے میں خادم حرمین شریفین مرحوم شاہ عبدالملک فہد بن عبدالعزیز آل سعود نے فرمان جاری کیا۔ اور اس کے بعد سے اب تک آپ اس مقدس منصب پر فائز ہیں۔ حرم مکی میں منصب امامت پر فائز ہونے سے قبل شیخ سعود دارالحکومت ریاض کی ایک مسجد میں امامت کے فرائض انجام دیتے تھے۔ تاہم ریاض بھر کے ائمہ کرام میں شیخ سعود اپنی مسحور کن اور رقت آمیز تلاوت کے سبب انفرادی پہچان رکھتے تھے۔
حرم مکی میں منصب امامت پر فائز ہونے کے ایک برس بعد سن 1413ہجری میں ایک اورشاہی فرمان جاری ہوا جس کی رو سے شیخ سعود نے مسجد حرام میں مسند درس وتدریس کو زینت بخشی۔
حال میں شیخ سعود بن ابراہیم حرم مکی میں امامت وخطابت کے فرائض کے ساتھ ام القری یونیورسٹی کے شریعہ فیکلٹی میں استاد فقہ کی خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔
 قرآن کریم سے آپ کا لگاو
 شیخ سعود کا عالم اسلام کے مایہ ناز قراءمیں شمار ہوتا ہے، آپ کی آواز میں درد وسوز ہے ، آپ قرآن کریم کو حفص کی روایت کے مطابق پڑھتے ہیں۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ تمام اکابرین امت اسلام کی تعلیمات پرنہایت مضبوطی سے عمل پیرا ہوتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ وہ وقت کے ضیاع سے بچنے کی ہمیشہ تلقین کرتے ہیں تاکہ امت اسلامیہ کی نسلیں اپنے وقت کو صحیح اور اسلامی خطوط پر گزارکر دنیا میں اسلام کے پرچم کو بلندکرسکیں۔ شیخ شریم بھی ہمارے ان ہی اکابرین امت میں سے ہیں جنہوں نے وقت کی قدر کی ویسے ہی جیسے اس کی قدر کرنے کا حق ہے۔
شیخ اپنے بارے میں خود کہتے ہیں کہ آپ نے نوجوانی کی عمر میں وقت ضائع نہیں کیا۔ آپ کے بقول ‘آپ نے راستے میں ٹریفک سگنل کے وقفوں پر گزرنے والے ان مختصر اوقات کو بھی آپ نے قرآن پاک کے حفظ میں استعمال کیا، آپ کے مطابق آپ نے ٹریفک سگنل کے ان اوقات میں سورہ نساءحفظ کی ہے۔
تصنیفی وتالیفی خدمات
آپ کے قلم سے دینی موضوعات پر 13 سے زائد قابل قدر کتابیں نکلی ہیں، حرم مکی میں دیئے گئے دروس پرمشتمل 5 مجموعوں کے علاوہ حرم مکی کے منبرومحراب سے پیش کئے گئے آپ کے خطبات کے متعدد مجموعے منظرعام پر آئے جو قرآن وحدیث کی نورانی ہدایتوں پر مشتمل ہیں۔