اتوار، 9 ستمبر، 2012

ہفتہ، 8 ستمبر، 2012

خادم اور خادمہ کے مسائل

0 تبصرے

تمہارےیہ بھائی تمہارے خدمت گار ہیں، اللہ تعالیٰ نے انہیں تمہارے قبضہ میں دیاہے، بس جس شخص کا بھائی اس کے ہاتھ کے نیچے یعنی قبضہ میں ہو، اسے چاہئے کہ جو چیز وہ خود کھائے، اسے بھی وہی کھلائے،اور جو لباس خود پہنتا ہے،اسے بھی اسی طرح کا پہنائے اور ان پر ان کی طاقت سے زیادہ بوجھ نہ ڈالو اور اگر ان کی طاقت سے زیادہ کوئی بوجھ ڈالو تواس میں ان کی مدد کرو۔(بخاری)

«إخوانكم وخولكم. جعلهم الله تحت أيديكم. فمن كان أخوه تحت يديه فليطعمه مما يأكل. وليلبسه مما يلبس. ولا تكلفوهم ما يغلبهم. فإن كلفتموهم فأعينوهم عليه» متفق عليه


حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں:  نبی کریم ﷺ کے پاس ایک آدمی آیا اور کہا: اے اللہ کے رسول! میں خادم کو کتنا معاف کرسکتا ہوں؟ نبی کریم ﷺ خاموش رہے، اس نے پھر کہا: اے اللہ کے رسول ! میں خادم کو کتنا معاف کرسکتا ہوں؟ تو آپ نے فرمایا: ’’ہر روز ستر دفعہ‘‘۔ (ترمذی)

اے مسلمانو!
 بہت کم لوگ ایسے ہیں جو اپنے گھر میں روزانہ کے کام کاج کے لیے کسی خادم یا خادمہ کا انتظام کرتے ہیں، اسی قلیل تعداد میں  اہل کویت کی ایک بڑی تعداد شامل ہے جو اپنے گھر میں خادم اور خادمہ کا انتظام کرتی ہیں، یہ ایک عظیم نعمتِ الٰہی ہے، اس نعمت پر ہر مسلمان کو اپنے رب کا شکر ادا کرنا چاہیے، کیونکہ آج بھی بہت سے ایسے ممالک موجود ہیں جہاں لوگ اپنے ذاتی یومیہ اخراجات کی تکمیل بھی نہیں کرسکتے، چہ جائے کہ وہ اپنے گھر میں خادم اور خادمہ رکھے۔
  اس نعمت پر اللہ تعالیٰ کے شکر کی بہت ساری علامات ہیں:
۱۔ ان کمزور اور مسکین جانوں کے ساتھ حسن ِسلوک سے پیش آنا۔
۲۔ان کے ساتھ انصاف کرنااور ان کے حقوق ادا کرنا۔
۳۔ ان کے کام میں تخفیف سے کام لینا۔
۴۔ ان کے کندھوں سے ظلم وجور اور زیادتی کے بوجھ کو ہلکا کرنا۔
خادمین سے متعلق چند باتیں:
اولا: صاحب بیت کے نزدیک خادم اور خادمہ کا مقام ایک مزدور کی مانند ہے، لہٰذا ان کے ساتھ مزدوروں کی طرح ہی معاملات کیے جائیں، ان کے لائق ان کی ماہانہ تنخواہ ادا کرنا ؛ ان پر صاحب بیت کی جانب سے کوئی احسان اور فضل نہیں ہوگا، بلکہ ماہانہ تنخواہ ان کا حق ہے۔ حدیث قدسی میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:  
ثلاثة أنا خصمهم يوم القيامة.. ورجل استأجر أجيرا فاستوفى منه ولم يعطه أجره [البخاري]
’’ تین افراد ایسے ہیں کہ جن کے بارے میں قیامت کے دن میں خود ہی دعوی دائر کر دوں گا (جن میں ایک ) وہ شخص ہے جس نے کسی مزدور کو کام پر رکھا، اس سے پورا کام لے لیا لیکن اس کی اجرت عطا نہیں کی۔‘‘
ارشاد نبوی ﷺ ہے: مطل الغني ظلم۔[متفق عليه]
’’مالدار کا ٹال مٹول کرنا ظلم ہے‘‘۔
۳۔ مزدور کی کیا ذمہ داریاں ہے واضح کردینا چاہیے:
لہٰذا انہیں غیر محدود  طور پر گھنٹوں  تک کام سے لگائے رکھنا  اور آرام وراحت کے لیے کوئی موقع نہیں دینا جائز نہیں ہے،  ہاں اگر زیادہ کام کی ضرورت ہوتو انہیں مالی اور معنوی طور پر بدل دینا ضروری ہے، ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے:
ولا تكلفوهم ما يغلبهم ، فإن كلفتموهم ما يغلبهم فأعينوهم۔[البخاري]
’’اوران کو اتنے کام کی تکلیف نہ دو کہ ان کے لیے مشکل ہو جائے اور اگر کوئی سخت کام ڈالو تو تم خود بھی ان کی مدد کرو۔‘‘۔
۴۔ان کے ساتھ بدسلوکی جائز نہیں ہے:
خادم یا خادمہ کو برا بھلا کہنا، گالی گلوج کرنا، مارنا ، ایذا پہنچانا اور ان کی غیبت کرنا کسی بھی حال میں جائز نہیں ہے، حرمت کے اعتبار سے وہ بھی دیگر تمام مسلمانوں کی طرح ہیں، ارشاد نبوی ﷺؒ ہے:
المسلم من سلم المسلمون من لسانه ويده۔[متفق عليه]
’’مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں‘‘۔
۵۔ ان کوحقیر جاننا اور ان کو ذلیل کرنا جائز نہیں ہے:
ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے:
بحسب امرئ من الشر أن يحقر أخاه المسلم۔[مسلم]
’’انسان کے شریر ہونے کے لیے کافی ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کو حقیر سمجھے‘‘۔
۶۔ باب اور ماں کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ اپنی اولاد کو خادمین کےساتھ بدسلوکی کی اجازت دیں یا ان کی بدسلوکی پر خاموشی اختیار کریں، اگر خادمین کے ساتھ وہ بدسلوکی سے پیش آئیں تو انہیں خوش کرنا اور بدسلوکی پر معذرت پیش کرنا ضروری ہے، کیونکہ ماں باپ ذمہ دار ہیں، نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے: « كلكم راع وكلكم مسؤول عن رعيته۔[متفق عليه]
’’تم میں سے ہر ایک حاکم ہے اور تم میں سے ہر ایک سے اس کے ماتحتوں کے بارے میں پوچھا جائے گا‘‘۔
۷۔اکثر ایسا ہوتا ہے کہ خادم اور خادمہ  اپنے حق کو حاصل کرنے اور حق تک پہنچنے کے لیے کسی معین ومددگار اور منصف کو نہیں پاتے ، (اللہ تعالیٰ بعض پولس والوں کو ہدایت دے) جب ان کے پاس  خادم یا خادمہ صاحب بیت کی شکایت لے کر پہنچتے ہیں تو وہ پولس کے اہلکاروں کو صاحب بیت کی طرف مائل پاتے ہیں اور ان کے مسائل کو بالکل نظر انداز کرتے ہوئے دیکھتے ہیں، یہ چیز حرام اور ناجائز ہے۔
ارشاد نبوی ﷺ ہے:
انصر أخاك ظالماً أو مظلوماً۔ [البخاري]
’’اپنے بھائی کی مدد کرو ظالم ہو تب بھی(یعنی ظلم سے روک کر) اور مظلوم ہو تب بھی‘‘ (اسے ظلم سے نجات دلاکر)
ثانیا: خادمین کے ساتھ احسان اور اچھا برتاؤ:
۱۔گھروالوں کے کھانے میں سے انہیں بھی کھانا کھلانا چاہیے، ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے:
إذا صنع لأحدكم خادمه طعامه ثم جاءه به ، وقد ولى حره ودخانه ، فليقعده معه . ليأكل . فإن كان الطعام مشفوها قليلا ، فليضع في يده منه أكلة أو أكلتين۔[مسلم]
(جب تمہارا کوئی خادم کھانا پکائے اور اسے لے کر تمہارے پاس آئے تو چونکہ اس نے کھانا پکانے کے لئے تپش اور دھواں برداشت کیا ہے، اس وجہ سے اسے اپنے ساتھ بٹھا لو اور کھانا کھلاؤ۔ اگر کھانا کم مقدار میں ہو تو اپنے ہاتھ سے اس کے لئے (کم از کم) ایک دو لقمے ہی الگ کر دو۔)
۲۔ انہیں مناسب اور اچھے کپڑے پہنائیں، ارشاد نبوی ﷺ ہے:
وليلبسه مما يلبس۔ [البخاري]
’’(خادم) کو وہ پہنائے جو (خود) پہنے۔‘‘
۳۔بسا اوقات خادم یا خادمہ کسی دنیاوی مصیبت یا پریشانی کا شکار ہوتے ہیں، انھیں اس موقع پر صاحب بیت کی مدد وتعاون کی سخت ضرورت ہوتی ہے،ایسے موقع پر ان کی حسب استطاعت مدد کی جائے۔ ارشاد نبوی ﷺ ہے:
من استطاع منكم أن ينفع أخاه فلينفعه۔[مسلم]
’’تم میں سے جو اپنے بھائی کو فائدہ پہنچانے کی طاقت رکھتا ہو اسے چاہیے کہ فائدہ پہنچائے۔‘‘
۴۔ پیارے بھائی ہدیے، تحایف اور عیدی دینا،اسی طرح ہر وہ کام کرنا جس سے خادم کو خوشی ہوسکتی ہے نہ بھولیے، کیونکہ اگر آپ ایسا کروگے تو یہ آپ کی طرف سے صدقہ ہوگا اور باعث اجر ہوگا، ارشاد نبوی ﷺ ہے:
اتقوا النار ولو بشق تمرة۔[متفق عليه]
’’جہنم سے بچو گرچہ کھجور کی گڈلی کے ذریعے  ہی کیوں نہ ہو‘‘
۵۔ بسا اوقات خادم کے لیے  اسلام کی تعلیمات اور احکامات  جاننے کی ضرورت ہوتی ہے، لہٰذا اس سلسلے میں کوتاہی سے کام نہ لیجیے، ارشاد نبوی ﷺ ہے:
من دعا إلى هدى كان له من الأجر مثل أجور من تبعه۔[مسلم]
۶۔خادمین کی غلطیوں کو معاف کرنا چاہیے، اور ان کی خامیوں کو نظرانداز کرنا چاہیے، کیونکہ وہ بھی بشر ہی ہے، ان سے بھی غلطی ممکن ہے، ہر ابن آدم غلطی کرتا ہے لیکن غلطی کرنے والوں میں بہترین وہ ہیں جو توبہ کرتے ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
فَمَنْ عَفَا وَأَصْلَحَ فَأَجْرُ‌هُ عَلَى اللَّـهِ۔ [الشورى]
’’جس نے معاف کیا اور اصلاح کی تو اس کا اجر اللہ کے ذمہ ہے‘‘
ثالثا: ہمارے نبی ﷺ کا خدام کے ساتھ برتاؤ:
انس بن مالک ؓ فرماتے ہیں: میں نے نبی کریم ﷺ کی دس برس خدمت کی، آپ ﷺ نے کبھی مجھے اف بھی نہیں کہا، اور نہ کسی چیز کے کرنے پر آپ نے مجھے : کیوں کیا؟ کہا، اور نہ ہی کسی چیز کے چھوڑنےپر آپ نے مجھے کیوں چھوڑا کہا؟۔
رابعا: خادمین کے سلسلے میں ہمارے نبی ﷺ کی وصیت:
ارشاد نبوی ﷺ ہے: لا يرحم الله من لا يرحم الناس۔[متفق عليه]
’’جولوگوں پر رحم نہیں کرتا اللہ اس پر رحم نہیں کرتے‘‘
فائدہ:
مسلمانوں نے خاص طور پر صحابہ رضی اللہ عنہم کے زمانے میں نبی کریم ﷺ کی وصیت پر عمل کیا، یہانتک کہ ایک مستشرق نے نقل کیا ہے کہ رومی عورت جب اپنے فرزند کو دعا دینا چاہتی تھی تو وہ دعا میں کہتی تھی: اللہ تجھے کسی مسلمان مرد کا غلام بنائے۔۔اللہ اکبر۔
 پیارے دوستو!
خادمین، کمزور اور مسکینوں کے سلسلے میں اللہ سے ڈرو، اللہ سے ڈرو، یہ وہ لوگ ہیں جنھوں نے اپنے وطن، اپنے ملک اور اپنے اہل وعیال اور بچوں کو چھوڑ کر رزق حلال کی کوشش میں یہاں پناہ لی ہیں، ان لوگوں کے لیے اجنبیت اور اہل و وطن سے دوری ہی کتنی بڑی مصیبت اور آزمائش ہے ، ہر روز ہم خودکشی کی تقریبا خبریں سنتے ہیں  جس کی وجہ اجنبیت اوروطن عزیز سے باہر کے سفر کی آزمائش کے بعد ظلم وزیادتی کا شکار ہونا ہے۔
پیارے بھائی !کیاآپ نے کسی دن اپنے نفس سے یہ پوچھا: کیا آپ اس طرح کی اجنبیت برداشت کرسکتے ہیں؟!!
ہم میں سے کوئی جب کسی ملک کا سیاحتی سفر کرتا ہے، اور پرشکوہ ہوٹلوں میں ٹھہرتا ہے، اعلی قسم کے کھانے کھاتا ہے، لیکن اس کے باوجود ارض وطن، اپنے گھر اور اپنے اہل وعیال کی جانب واپسی کے لیے بے چین رہتا ہے۔۔جب آپ کا یہ حال ہے تو۔ ان بیچارے خادم مسکینوں پر کیا گذرتی ہوگی۔۔؟؟
ملاحظات:
۱۔ خادم یا خادمہ اجنبی ہیں، لہٰذا ماں، بیٹی کے لیے گھر کے خادم کے ساتھ تنہائی یا خلوت جائز نہیں ہے، اسی طرح باب اور بالغ بیٹوں کے لیے گھر کی خادمہ کے ساتھ تنہائی جائز نہیں ہے۔
ارشاد نبوی ﷺ ہے:
لا يخلون رجل بامرأة إلا ومعها ذو محرم
’’کوئی مرد کسی عورت کے ساتھ تنہائی میں نہ رہے، ہاں عورت کے ساتھ اس کا محرم ہو‘‘
اس سلسلے میں لاپرواہی شرور اور فساد کا عظیم باب کھولنے کے مترادف ہے۔
۲۔اسی طرح خادمہ کو دیکھنا، گھر کی خواتین کا خادم کے سامنے  ستر کا ظاہر کرناناجائز ہے، کیونکہ یہ اجنبی ہیں، اور یہ دونوں غیر کے حکم میں شامل ہے۔
اخیر میں: اے مسلمانو!
کیا ہمیں اللہ تعالیٰ کا شکرگذار نہیں ہونا چاہیے کہ اس نے ہمارے لیے خادمین مہیا فرمائے، کیا ہوتا اگر ہم فقیر ہوتے، مجبور وبے بس ہوتے، اگر ہماری مائیں، ہماری بیٹیاں اور ہماری بہنیں دوسروں  کے پاس خادم ہوتیں، کیا ہمیں ہمارے ماؤں ، بیٹیوں اور بہنوں کے لیے اس طرح کے فقر  سے خوشی ہوگی۔
خامسا: اب یہ خوشخبری سن لیجیے:
کمزروں اور مسکینوں کا اکرام اور ان کی عزت وتکریم  خیر اور برکتِ عظیم کی بشارت ہے، نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے:
هل تنصرون وترزقون إلا بضعفائكم۔[البخاري]
’’تمہاری مدد نہیں کی جاتی اور تمہیں رزق نہیں دیا جاتا مگر تمہارے کمزروں کی وجہ سے۔‘‘

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ تمام مسلمانوں کو منصف، عدل پرور اور کمزروں، ضعیفوں، مسکینوں اور مظلوموں کی مدد کرنے والے بنا۔۔۔وہی ذات اس پر قادر ہے۔۔
وصلى الله وسلم على نبينا محمد وعلى آله وصحبه أجمعين.. وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين.
ترجمہ: مبصرالرحمن قاسمی
عربی متن: 
 http://www.wathakker.info/flyers/view.php?id=2457
انگریزی: 
http://wathakker.info/english/flyers/view.php?id=826





جمعرات، 6 ستمبر، 2012

عیسائی مملکت کے تاجدار نجاشی کا قبول ِاسلام

0 تبصرے



ترجمہ: مفتی انیس الرحمن ندوی 

حبشہ کے باشاہ نجاشی نے جب دیکھا کہ صلیب کے پجاری کسی طرح اپنی پرانی صلیب پرستی کو ترک کرنے اور خداواحد کی پرستش پر لوٹ آنے کے لیے راضی نہیں ہیں تو خاموشی سے خود مسلمان ہوگئے، اور اپنے حاشیہ برداروں اور ارباب اقتدار میں شریک ذی اثر افراد سے وہ اور ان کے اہل خانہ اپنے ایمان کو چھپاتے رہے۔
ابن اسحاق نے لکھا ہے کہ رسول اللہ  ﷺ نے  عمروبن امیہ الضمری ؓ کو نجاشی کی خدمت میں دعوت اسلام دینے کے لیے بھیجا تھا، عمرو نے اس کے دربار میں پہنچ کر فرمایا: یا اصحمہ میں کچھ باتیں تم سے کہنا چاہتا ہوں، امید کہ تم بغور سماعت کروگے، ہم جانتے ہیں کہ آپ ہمارے سلسلے میں نرم گوشہ رکھتے ہیں اور ہمیں آپ کی ذات پر بھروسہ  واعتماد بھی ہے کیونکہ ہم نے آپ کے اندر سوائے خیروبھلائی کے اور کچھ نہیں دیکھا اور اس خوبی کو جانچنے ، دیکھنے کا آنمحترم نے ہم کو خوب موقعہ بھی دیا ہے اور ہم نے ہماری کسی بات کو کبھی آپ سے چھپایا بھی نہیں ہے، انجیل ہمارے اور آپ کے بیچ گواہ ہے جس کی تردید نہیں کی جاسکتی، وہ اب بہترین منصف ہے جو ناانصافی نہیں کرتا اس میں وقت کی قدر کرنے اور بہتری کو پانے کے گر موجود ہیں، اگر آپ اس موقع سے فائدہ نہ اٹھاسکے تو پھر آپ بھی ان یہودیوں کی طرح ہوجاؤگے جنھوں  نے حضرت عیسی ٰ بن مریم ؑ کی شان میں گستاخی کی تھی۔ہمارے نبی ﷺ نے اپنی رسالت کو لوگوں کے سامنے بیان کردیا ہے، لیکن آپ سے قوی امید ہے کہ آپ اسے تسلیم کرلیں گے۔اے بادشاہ وقت! بھلائی خیر اور دنیا وآخرت کی کامیابی تمہارا انتظار کررہی ہے۔
نجاشی نے کہا: میں اللہ تعالیٰ کو گواہ بناکر اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ وہ ساری امت کے نبی ہیں جن کا انتطار اہل کتاب بہت دنوں سے کررہے ہیں اور یہ کہ یہ حضرت زکریا ؑ کی کھلی بشارت ہے جس کا انکار کوئی کورچشم ہی کرسکتا ہے، واقدی کہتے ہیں: پیغمبر اسلام ؑ نے اپنا دعوت اسلام نامہ کچھ اس طرح تحریر کروایا تھا:
’’محمد رسول اللہ کی طرف سے نجاشی عظیم حبشہ کے نام! سلام ہو اس پر جو ہدایت کی پیروی کرے، اما بعد! میں تمہارے سامنے اس اللہ کی حمد وثنا کرتا ہوں جس کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ ملک ، قدوس، سلام ، مومن اور مہیمن ہے اور میں گواہی دیتا ہوں کہ عیسی ؑ بن مریم روح اللہ ہیں اور اس کا کلمہ ہیں جسے اللہ نے پاک عفت مآب مریم پر القا کیا تو وہ اللہ کی روح اور اس کے نفخ سے حاملہ ہوئی، جیسے اللہ نے حضرت آدمؑ کو اپنے ہاتھ سے پیدا کیا اور میں تمہیں اللہ وحدہ لاشریک کی طرف بلاتا ہوں، اور اس کی اطاعت کی طرف اگر تم میری پیروی کروگے اور میرے پیغام پر یقین کروگے تو میں اللہ کا رسول ہوں، تمہیں اور تمہارے لشکر کو اللہ عزوجل کی طرف بلاتا ہوں، میں نے تمہیں پیغام پہنچادیا اور تمہاری خیرخواہی کردی ہے، پس میری خیرخواہی کو قبول کرو اور سلام ہو اس پر جو ہدایت کی پیروی کرے۔‘‘
جب یہ نامہ مبارک اصحمہ نجاشی کو ملا تو اس نے اسے اپنی آنکھوں پر رکھا اور تخت سے اتر کر زمین پر بیٹھ گیا، پھر اپنے اسلام کا اعلان کردیا اور نامہ مبارک کو ہاتھی دانت کے ڈبے میں رکھا اور کہا: جب تک یہ خطوط ہمارے پاس رہیں گے حبشہ تمام آفات سے محفوظ رہے گا اور پھر نجاشی نے اس خط کا اس طرح جواب دیا:
’’محمد رسول اللہ ﷺ کے نام نجاشی کی طرف سے!اے نبی اللہ ! آپ پر سلام ، اللہ کی رحمتیں اور برکات ہوں، اس اللہ کی جس کے سوا کوئی معبود نہیں اور جس نے مجھے اسلام کی طرف ہدایت دی ہے۔اما بعد!
اے رسول اللہ ﷺ آپ کا خط میرے پاس پہنچا، آپ نے جو عیسیؑ کاذکر کیا ہے آسمان وزمین کے رب کی قسم ! عیسیؑ نے بھی اس پر ذرہ برابر بھی زیادہ نہیں کیا اور وہ ایسے ہی ہیں جیسا آپ نے فرمایا۔آپﷺ نے  جو دعوت بھیجی ہے اسے ہم نے جان لیا، آپ کے چچا زاد بھائی اور ان کے ساتھی آئے اور میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ اللہ کے رسول ﷺ ہیں، میں نے آپ کی بیعت کی اور آپ کے چچا زاد بھائی کے ہاتھ پر بیعت کی، اللہ رب العالمین کے واسطے میں آپ کی خدمت میں اپنے بیٹے کو بھیج رہا ہوں اور آپ حکم دیں تو میں خود بھی حاضر ہوسکتا ہوں، میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ جو کچھ فرماتے ہیں سچ ہے۔ 
(بشکریہ: ماہنامہ منشورکاشف، اورنگ آباد،شمارہ مئی2012)

بدھ، 5 ستمبر، 2012

نبی رحمت ﷺ اور بچے

0 تبصرے


نبی کریم ﷺ تعلیمی نظریے کے اسلوب کے مطابق بچوں کے ساتھ کامیاب معاملات کی حقیقت سے بخوبی آشنا تھے،آپ کا اسلوب  تربیت علم، تجربہ،کشادہ دلی، صبر اور  برداشت پر مشتمل تھا، بچپن کے مرحلے کی اہمیت کے پیش نظر آپ ﷺ نے  بچوں کے ساتھ  ایسا تربیتی اور تعلیمی تعامل  کا اسلوب اختیار کیا، جس کے نتیجے میں کامیاب شخصیات، بے نظیر قائدین،  اورجینیس  اور نابغۂ روزگار افراد پیدا  ہوئے ۔ نبی کریم ﷺ کا بچوں کے ساتھ برتاؤ کیسا تھا؟ اس موضوع پر روشنی ڈال رہے ہیں:
بچوں سے لطف ومحبت:
بچے  ہر وقت اس شخص سے محبت کرتے ہیں ، جو ان کے ساتھ محبت و سادگی سے پیش آئے، اور ان کے ساتھ اس طرح رہے گویا کہ وہ خود بھی بچہ ہی ہے۔بچے ایسے شخص سے نفرت کرتےہیں جو غصہ والا،ترش رو اور بےصبرا ہو۔ نیزبچے محترم اورسنجیدہ انسان کو پسند کرتے ہیں،نبی کریم ﷺ بچپن کی عمر کی فطرت سے بخوبی واقف تھے،لہٰذا آپ ﷺ بچوں کے ساتھ ویسا ہی معاملہ فرماتے تھے جیسی ان کی پسند ہوتی تھی، لیکن آپ ﷺ انکے ساتھ اپنی سادگی،ان سے مذاق دل لگی،اور ان کی شفقت کے ساتھ ساتھ ان کے اخلاق اوران کی شخصیت سنوارنے اورانہیں کامیاب انسان بنانے کی کوشش بھی کرتے تھے۔
حضرت ابوہریرہ ؓ سے مروی ہے ، وہ فرماتے ہیں:  «كنَّا نصلي مع رسول الله -صلَّى الله عليه وسلَّم- العشاء، فإذا سجد وثب الحسن والحسين على ظهره، وإذا رفع رأسه أخذهما بيده من خلفه أخذًا رفيقًا، فوضعهما وضعًا رفيقًا، فإذا عاد؛ عادا، فلما صلذَى وضعهما على فخذيه» ([1]).
 (ہم نبی کریم ﷺ کے ہمراہ عشاء کی نماز پڑھ رہے تھے، جب آپ نے سجدہ فرمایا تو حسن اور حسین آپ کی پیٹ مبارک پر چڑ گئے، جب آپ نے اپنے سر کو اٹھایا توان دونوں کو آہستہ سے پیچھے سے پکڑا اور محبت سے اتار دیا، جب آپ نے نماز ختم فرمائی تو ان دونوں کو اپنے گود میں لے لیا )۔
بچہ، واجبات، حقوق، اصول ومبادی اور اخلاق ومعانی کو سمجھنے سے قاصر رہتا ہے، یہ باتیں اسے اس کی زندگی کے کئی سالوں میں قدم قدم پر حاصل ہوتی ہے، وہ شخص غلطی پر ہے جو بچوں کے ساتھ بڑوں جیسا سلوک کرتا ہے اور یہ سمجھتا ہے کہ بچہ اصول وضوابط کو جانے، لیکن بہت سے لوگوں کو بچوں کے ساتھ اسی طرح کا براسلوک کرتے ہوئے دیکھا گیا، ایسے لوگوں کا بچوں سے مطالبہ ہے کہ وہ پرسکون، وقار وچین کے ساتھ اور خاموش رہے، حالانکہ ان باتوں پر بچے عمل نہیں کرسکتے۔
اُم خالد جو خالد بن سعید کی بیٹی تھی وہ کہتی تھی میں رسول اللہﷺ کے پاس اپنے باپ کے ساتھ آئی میں ایک زرد قمیض پہنی تھی ، رسول اللہ ﷺ نے مجھ کو دیکھ کر فر مایا واہ واہ کیا کہنا ''سنہ سنہ'' یہ حبشی زبان کا لفظ ہے ام خالد کہتی ہے (میں کم سن بچی تو تھی ہی )میں جاکر رسول اللہ ﷺ کی پشت پر مہر نبوّت سے کھیلنے لگی میرے باپ نے مجھ کو جھڑکایا،  رسول اللہ ﷺ نے فر مایا اس کو کھیلنے دے پھر آپ ﷺ نے مجھ کو یوں دُعا دی یہ کپڑ ا پرا نا کر پھاڑ، پرانا کر پھاڑ تین بار یہی فر مایا۔ عبد اللہ کہتے ہیں وہ کرتہ تبرک کے طور پررکھارہا یہاں تک کہ کالا پڑگیا ۔([2])
یہ ایک عبرت آموز واقعہ ہے کہ ایک باپ اپنی بیٹی کو نبی کریم ﷺ کی خدمت میں لے کر حاضر ہوتا ہے، جسے یہ بھی پتا ہے کہ نبی کریم ﷺ بچوں سے بہت محبت فرماتے اور آپ بچوں  سےملنے میں اکتاتے نہیں ہے بلکہ خوشی محسوس کرتے ہیں، اور باپ کے سامنے بچی آپ ﷺ کے سامنے جرات کرتی ہیں اور آپ کے پشت مبارک سے لٹکتی اور کھیلتی ہیں اور آپ ہنستے ہیں اور اسے اپنے ساتھ کھیلنے کے لئے بلاتے ہیں۔
کبھی ایسا بھی ہوا کہ چھوٹے بچے کو آپ نے گود میں لیا، اور اس نے آپ کے کپڑوں پر پیشاب کردیا، تو آپ نے پانی منگوایا اور اپنے کپڑوں پر چھڑک دیا، اور دھویا نہیں، آپ کی بچوں کے ساتھ کثرت محبت اور انہیں لینےکے سبب آپ ﷺ کے کپڑوں اور آپ کے حجروں میں چھوٹے بچوں کے پیشاب کرنے کے کثرت سے واقعات ہوئے ہیں، آپ ﷺ نے نہ صرف لڑکوں کو ہی اپنے گود میں نہیں اٹھایا بلکہ لڑکیوں کو بھی آپ پیار سے گودمیں لیتے تھے۔
حضرت ابوموسی اشعری ؓ فرماتے ہیں: «وُلد لي غلامٌ، فأتيت به النّبيّ -صلَّى الله عليه وسلَّم- فسمّاه إبراهيم، فحنكه بتمرةٍ، ودعا له بالبركة» ([3]).
(مجھے بیٹا ہوا، تو میں نے اسے نبی کریم ﷺ کے پاس لایا، تو آپ نے اس کا نام ابراھیم رکھا، پھر کھجورچباکراسے چٹایا اور اس کے لئے برکت کی دعا فرمائی)
آپ ﷺ بچوں کے ساتھ راستے میں بھی کھیلا کرتے تھے، یعلی بن مرہ کہتے ہیں: میں نبی کریم ﷺ کے ساتھ کھانے پر نکلا، تو حسین بن علی راستے میں کھیل رہے تھے، نبی ﷺ لوگوں کے درمیان سے جلدی آگے بڑھے، پھر اپنے ہاتھوں کو بڑھایا، تاکہ حسین کو لیں، لیکن حسین ادھر ادھر بھاگنے لگے،آپ ﷺ ان کا پیچھا کرتے اور انہیں ہنساتے، آپ نے اسامہ بن زید اور حسن بن علی کو لیا اور اپنے گود میں دونوں کو بٹھایا، پھر ان کو گلے سے لگاتے ہوئے ارشاد فرمایا : «اللهمّ ارحمهما فإني أرحمهما» ([4]).
 (اے اللہ ان دونوں پر رحم فرما کیونکہ میں ان پر شفقت کرتا ہوں)
اور ایک حدیث میں ہے: آپ ﷺ باہر تشریف لائے اور آپ کے کاندھوں پر امامہ بنت ابوالعاص تھیں، پھر آپ نے نماز پڑھی، جب رکوع کیا تو امامہ کو نیچے اتاردیا، پھر جب رکوع سے اٹھے تو امامہ کو اٹھالیا۔
محمود بن ربیع کہتے ہیں: مجھے ابھی تک نبی کریم ﷺ کی وہ کُلی یاد ہے جو آپ ﷺ نے ایک ڈول سے لے کر میرے منہ پر کی تھی اس وقت میں پانچ سال کا تھا۔
جب آپ ﷺ نماز کے دوران کسی بچے کے رونے کی آواز سنتے تو اپنی نماز کو ہلکی کردیتے تھے، تاکہ بچے کی ماں اپنی نماز ختم کرے اور بچے کو لے، یا اس کے رونے کو خاموش کرے اور بچے کی ضرورت کو پوری کرے، آپ ﷺ کا ارشادہے: «إني لأقوم إلى الصّلاة، وأنا أريد أن أطول فيها، فأسمع بكاء الصّبيّ، فأتجوز في صلاتي، كراهية أن أشقَّ على أمّه» ([7]).
(میں نماز کے لئے کھڑا ہوتا ہوں تو چاہتا ہوں کہ نماز کو طویل کروں، (لیکن جب) بچے کے رونے کی آواز سنتا ہوں تو اپنی نماز کو مختصر کردیتا ہوں، اس کراہت سے کہ بچے کی ماں کو مشقت میں نہ ڈالوں۔)
آپ ﷺ بچوں کے ساتھ کھیلتے تھے اور ان کے خصوصی معاملات کے سلسلے میں ان سے گفتگو فرمایا کرتے تھے، اگرچہ کے بچوں کے معاملات معمولی ہوتے تھے، حضرت انس بیان کرتے ہیں : «كان النّبيّ -صلَّى الله عليه وسلم أحسن النّاس خلقًا، وكان لي أخٌ يقال له أبو عمير -قال: أحسبه- فطيم، وكان إذا جاء قال: يا أبا عمير، ما فعل النُّغَيْر؟» ([8]).
(نبی کریم ﷺ لوگوں میں سے سب سے زیادہ اچھے اخلاق کے مالک تھےِ میرا  ایک بھائی تھا، جسے ابوعمیر کہا جاتا تھا، (راوی کہتے ہیں میرا خیال ہے اس کا دودھ چھٹ چکا تھا ) جب وہ آتا تو آپ فرماتے تھے: اے ابوعمیر تمہاری نغیر تو بخیر ہے۔(نغیرایک چڑیا تھی جس سے ابوعمیر کھیلا کرتے تھے)۔
بچوں کا احترام اور ان کی قدر کرنا:
نبی کریم ﷺ نے بچوں کے ساتھ لطیفانہ معاملات میں ان کے درمیان اپنے احترام کو باقی رکھتے ہوئے انہیں آسان اور ٹھوس وسائل کے ذریعے افضل ترین مفاہیم کو سمجھانے کی کوشش کی، آپ بچوں کے ساتھ سختی سے پیش نہیں آتے تھے، نبوی دور کا ایک بچہ عبداللہ بن عامر نبی کریم ﷺ کے اس موقف کو بیان کرتے ہوئے کہتا ہے: میری والدہ نے مجھے ایک دن بلایا اور نبی کریم ﷺ ہمارے گھر میں تشریف فرما تھے، وہ کہنے لگی: آؤ میں تمہیں کچھ دیتی ہوں، تو نبی کریم ﷺ نے میری والدہ سے کہا: آپ انہیں کیا دیں گی؟ فرمانے لگی: میں انہیں کھجور دینا چاہتی ہوں، تو آپ ﷺ نے فرمایا: اگر آپ انہیں کوئی چیز نہ دیتی تو آپ پر ایک جھوٹ لکھ دیا جاتا۔ ( رواه أبو داود (4991) وحسنه الألباني.)
آپ ﷺنے مذکورہ واقعہ میں جھوٹ بول کر بچوں کے احساسات سے کھیلنے سے خبردار فرمایا۔
جب آپ ﷺ بچوں کو دیکھتے تو ان کے ساتھ نرمی سے پیش آتے اور ڈانٹ دپٹ نہیں فرماتے، عمر بن ابو سلمہ کہتے ہیں: «كنت غلامًا في حِجْر رسول الله -صلَّى الله عليه وسلَّم-، وكانت يدي تطيش في الصّحفة، فقال لي رسول الله -صلَّى الله عليه وسلَّم-: يا غلام، سم الله، وكل بيمينك، وكل ممّا يليك» ([10]).
(میں نبی کریم ﷺ کے گود میں ایک بچہ تھا، اور میرے ہاتھ برتن میں بے جگہ پڑتے تھے، تو نبی کریم ﷺ نے مجھے سے کہا: اے بچے: اللہ کا نام لو اور اپنے سیدھے ہاتھ سے کھاؤ اور اپنے سامنے سے کھاؤ )۔
آپ ﷺ نے بچوں کی ان کے بچپن ہی سے رجولت اوربہادری کے مفاہیم کی بنیادوں پر اپنے اخلاق کریمانہ اور اپنی تعلیمات کے ذریعے تربیت فرمائی، آپ ﷺ مختلف طریقوں سے بچوں کو اعلی معانی ومفاہیم کے تدریجی گھونٹ پلاتے تھے۔آپ ﷺ کبھی کبھی بعض بچوں کو جیسے عبداللہ بن عباس اور عبداللہ بن عمر کو اپنی مجلس میں اپنے صحابہ کے ساتھ بٹھاتے تھے تاکہ وہ سیکھے اور ان میں پختگی آئے۔ عبداللہ بن عمر بیان کرتے ہیں: كنا عند النّبيّ -صلَّى الله عليه وعلى آله وسلَّم- فأُتِي بجُمَّار، فقال: إن من الشّجر شجرةً مثلها كمثل المسلم، فأردت أن أقول هي النّخلة، فإذا أنا أصغر القوم فسكتُّ، قال النّبيّ -صلَّى الله عليه وعلى آله وسلَّم-: «هي النّخلة» ([11]).
(ایک مرتبہ کا ذکر ہے ہم نبی ﷺ کے پاس بیٹھے تھے آپ ﷺ کے سامنے کجھور کا ایک گچھا لایا گیا، (جسے دیکھ کر) آپ ﷺ نے پوچھا درختوں میں ایک ایسا درخت ہے جس کی مثال مسلمان کی سی ہے بتاؤ! وہ کون سا درخت ہے؟ میرے دل میں آیا کہ میں کہہ دوں وہ کھجور کا درخت ہے لیکن کم سنی کی وجہ سے شرما گیا اور خاموش رہا، آخر نبی ﷺ نے فرمایا وہ کجھور کا درخت ہے۔)
ایک مرتبہ کا واقعہ ہے کہ حضرت عبداللہ بن عباس صغیرالسن تھے، اوروہ آپ کے ساتھ سواری پر آپ کے پیچھے سوار تھے، تو آپ نے انہیں سادہ مفہوم پر مشتمل لیکن پراثر چند کلمات کی تعلیم دی، آپ نے فرمایا: «يا غلام، إنّي أعلمك كلماتٍ: احفظ الله يحفظك...» إلى آخر الحديث  ([12]).
(اے بچے: میں تمہیں چند کلمات کی تعلیم دیتا ہوں: اللہ کو یاد رکھو، وہ تمہاری حفاظت کرے گا۔۔۔۔ )

آپ ﷺ بچوں کے احترام اور ان کی قدر کے سلسلے میں اس قدر اہتمام فرماتے تھے کہ کبھی بڑوں کی مجلس میں بچے شامل ہوتے تو آپ ﷺ بڑوں کے مقابلے بچوں کو ترجیح دیتے: حضرت سہل بن سعد الساعدی کہتے ہیں: إن رسول الله -صلَّى الله عليه وعلى آله وسلَّم- أُتِي بشرابٍ فشرب منه، وعن يمينه غلام وعن يساره الأشياخ، فقال للغلام: «أتأذن لي أن أعطي هؤلاء؟ فقال الغلام: لا. والله! لا أوثر بنصيبي منك أحدًا» ([13]).
(رسول اللہﷺ کے پاس دودھ پینے کے لئے لایا گیا آپؐ نے پیا آپؐ کی داہنی طرف ایک لڑکا تھا (ابن عباسؓ) اور بائیں طرف عمر والے لوگ۔آپؐ نے لڑکے سے پوچھا میاں لڑکے تم اس کی اجازت دیتے ہو کہ پہلے میں یہ پیالہ بوڑھوں کو دوں اس نے کہا نہیں قسم خدا کی یا رسولؐ اللہ میں تو اپنا حصہ جو آپؐ کا جھوٹا ملے کسی کو دینے والا نہیں آخر آپؐ نے وہ پیالہ اسی کے ہاتھ میں دے دیا۔)

آپ ﷺ نے ایک ساتھ دو امر کا خیال رکھا، آپ نے بچے کے حق  کاخیال رکھا اور اس سے اجازت طلب کی، نیز آپ ﷺ نے بڑوں کے حق کا بھی خیال رکھا اور بچے سے مطالبہ فرمایا کہ وہ بڑوں کے لئے اپنے حق سے بری ہوجائے، جب بچہ اپنے موقف پر ڈٹا رہا تو آپ ﷺ نے بچے کو نہ ڈانٹا اور نہ اس کے ساتھ سختی فرمائی بلکہ اسے اس کا حق دیدیا۔
بچوں کے خاندانی اور اجتماعی حقوق کی حفاظت:
نبی کریم ﷺ نے نومولود کے نسب،اور زواج صحیح سے اس کی پیدائش، نیز شرعی تعلقات کے بغیر بچوں کی عدم پیدائش جیسے حقوق کی حفاظت کا اہتمام فرمایا، اس طرح آپ نے بچوں کے مستقبل کی حفاظت فرمائی نیز آپ نے معاشرے کی پاکیزگی کو رذائل، فساد اور اختلاط انساب سے محفوظ فرمادیا۔
آپ نے بچوں کے حقوق کے سلسلے میں ہدایت دی کہ بچہ کا باب بچے کے لئے اخلاق حمیدہ کی حامل ماں کا انتخاب کرے، اسی طرح باب اس کا ایسا اچھا نام رکھے جس میں کسی قسم کا نقص نہ ہو،اسی طرح آپ ﷺ نے بچے کے فطری رضاعت اور بہترین ایمانی ماحول میں اسکی تربیت کا حکم دیا نیز آپ ﷺ نے بچوں کے حقوق کے سلسلے  میں یہ بتایا کہ والدین اسے جنسی اور بے دینی کے ماحول  سےمحفوظ رکھے۔
اسی طرح نبی کریم ﷺ کے پیغام کے مطابق بچہ میراث اور وصیت کا حقدارہے،نیز شریعت محمدی نے یتیم بچے کی کفالت اور اس کی مکمل تربیت کی خوب تاکید کی ہے،اور یتیم بچے کے مال کی حفاظت پر زور دیا ہے نیز یتیم بچوں کی مدد کی ترغیب دی گئی۔
                                                                                                                                     ترجمہ: مبصرالرحمن قاسمی
----------------------------------------------------------------------------------------

([1]) حسنه الألباني 3325 في السّلسلة الصّحيحة.

([2]) رواه البخاري (3071).

([3])متفقٌ عليه.

([4])رواه البخاري (6003).

([5]) متفقٌ عليه.

([6])متفقٌ عليه.

([7])رواه البخاري (868).

([8])متفقٌ عليه.

([9])رواه أبو داود (4991) وحسنه الألباني.

([10])متفقٌ عليه.

([11])متفقٌ عليه.

([12])رواه التّرمذي (2516) وصححه الألباني.

([13])متفق عليه.

یہانتک کہ آپ مقبول بن جائیں۔۔۔

0 تبصرے


 

اس ذات کی تعریف ہے، جس کا فرمان ہے:
يَا بَنِي آدَمَ خُذُواْ زِينَتَكُمْ عِندَ كُلِّ مَسْجِدٍ وكُلُواْ وَاشْرَبُواْ وَلاَ تُسْرِفُواْ إِنَّهُ لاَ يُحِبُّ الْمُسْرِفِينَ۔ [الأعراف:31]
’’اے بنی آدم ہر نماز کے وقت اپنے آپ کو مزین کیا کرو اور کھاؤ اور پیو اور بے جا نہ اڑاؤ کہ اللہ بے جا اڑانے والوں کو دوست نہیں رکھتا۔‘‘
اور درود وسلام  ہونبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم پر، اما بعد:
پیارے بھائی:
اللہ تعالیٰ کی ہم پر بے شمار نعمتیں ہیں، جن میں سے ناک ایک نعمت ہے، جس سے ہم مختلف قسم کی اچھی اور بری بو سونگتے ہیں، میں ایک اہم سوال پوچھنا چاہتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ : لوگ اس شخص سے نفرت کیوں کرتےہیں جو اپنے بدن اور لباس کی صفائی کا خیال نہیں رکھتا؟
جواب: کیونکہ گندا رہنا  اور نظافت کا خیال نہیں رکھنا، اسی طرح بدن اور کپڑوں کے سلسلے میں غفلت سے کام لینا بدبو کا باعث ہے۔ بدن کے مختلف حصوں سے بدبو نکلنےلگتی ہے، اگر انسان بدن کے بعض حصوں کی صفائی کرے اور بعض حصوں کو ترک کردےتو بھی بدبو سے محفوظ نہیں رہ سکتا۔
بدن  جب گرمی اور سخت محنت سے دوچار ہوتا تو اس کے نتیجے میں جسم کے تمام حصوں سے پسینہ نکلتا ہے، تاہم ہر انسان کا پسینہ اس کی حالت اور صحت کی وجہ سے کم زیادہ  ہوتا ہے۔اسی طرح  پسینہ کی بو کی قوت بھی  ہر انسان کے بدن کے حصوں سے نکلنے میں مختلف ہوتی ہے، یعنی کسی کے کسی حصے کے پسینے میں بدبو پیدا ہوتی ہے اور کسی انسان کے کسی اور حصے سے بدبو آتی ہے۔لہٰذا بدن کے تمام حصوں کی صفائی کا دوسروں سے زیادہ خیال رکھنا ضروری ہے۔
پیارے بھائی: ہم آپ کو بدن کے ان  اندرونی اور بیرونی حصوں سے آگاہ کررہے ہیں، جہاں سے بدبو خارج ہوسکتی ہے۔
۱۔ بغل :  یہ بدن کا وہ حصہ ہے جہاں سے سب سے زیادہ پسینہ خارج ہوتا ہے، لہٰذا اس کا خیال رکھنا ضروری ہے، اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کرتے ہوئے بغل کے بالوں کو نکالنے کا اہتمام کرنا چاہیے، جو شخص اپنے بغل کے بالوں اور صفائی کا خیال نہیں رکھتا ، اس سےایسی بدبو آتی ہے جو لوگوں کی تکلیف کا باعث بنتی ہے، اس کو دور کرنے کے لیے اس کےلیے مخصوص مواد کا استعمال بہتر ہےلیکن اس شرط پر کہ وہ نقصاندہ نہ ہو، شریعت مطہرہ نے بعض فطری عادتوں کے سلسلے میں تنبیہ کی ہے، جیسے زیرناف بالوں کا کتروانا، ناخن کا کٹوانا،بغل کے بالوں کا کتروانا وغیرہ تاکہ ایک مسلمان صورت وہیئت کے لحاظ سے خوبصورت اور پاک وصاف دکھائی دے۔
۲۔ منہ، اور منہ کے اندر کی چیزیں جیسے دانت، زبان اور مسوڑھوں کی صفائی کا اہتمام:
ہم مختلف چیزیں کھاتے ہیں، ہر کھانے والی چیز کا گذر زبان، دانتوں اور مسوڑھوں سے ہوتا ہے، لہٰذا کھانوں  کے بقیہ جات منہ میں جمع ہوجاتے ہیں، اگر غفلت اور کاہلی سے منہ کی صفائی کا خیال نہ رکھا جائے تو یہی کھانے کی بچی ہوئی چیزوں پر بیکٹریا  پیدا ہونا شروع ہوجاتا ہے، اور اس سے گندی بو آنے لگتی ہے، جسے خود وہی شخص سونگنا پسند نہیں کرتا، اور اس بدبو سے اس کے ارگرد والے لوگوں کو تکلیف ہونے لگتی ہے، دانتوں ، مسوڑھوں اور زبان پر جمع ہوا یہی مواد دانتوں کے خراب ہونا کا باعث ہوتا ہے، وسوسہ پیدا کرتا ہے، مسوڑھوں کو نقصان پہنچاتا ہے، لہٰذا جو شخص اپنے دانتوں  اور مسوڑھوں کی سلامتی چاہتاہے تو  اسے مندرجہ ذیل طریقہ کار پر عمل کرنا چاہیے:
الف۔ہر چند دنوں بعد دانتوں کے داکٹر کے پاس جائے اور اپنے دانتوں کا معائنہ کرائے۔
ب۔ہر وقت دانتوں کو  آگے سے ، پیچھے سے، اوپر سے اور نیچے سے مسواک سے صاف کرے، ساتھ میں سوتے وقت اور نیند سے بیدار ہونے پر ٹوتھ پیسٹ اور برش کا بھی استعمال کرے۔اور بعض موقع پر ماوتھ واش بھی استعمال میں لائے۔
ج۔ زبان کی صفائی کا خصوصی خیال رکھے،کیونکہ زبان کھانوں کو جذب کرتی ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی زبان کا خصوصی خیال فرماتے تھے ؛ ابوموسی ؓ فرماتے ہیں: میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا ، آپ  کچی مسواک کے ایک کونے سے اپنی زبان پر رگڑ رہے تھے، اور ’’اع اع‘‘ کہہ رہے تھے،مسواک آپ کے منہ مبارک میں تھی،(آواز ایسی تھی) گویا کہ آپ کو قئی  ہورہی ہے۔دیکھیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مسواک کے استعمال میں کتنا زیادہ اہتمام فرماتے تھے، حضرت حذیفہ ؓ کی حدیث میں وارد ہے:
كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا قام من الليل يشوص فاه بالسواك
’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم رات میں جب بیدار ہوتے تو مسواک سے اپنے منہ کو صاف کرتے۔‘‘
مسلمان کے لیے مسواک سے اپنی زبان کا صاف کرنا سنت ہے، زبان کی صفائی کے لیے مخصوص طبی چمچا بھی استعمال میں لایا جاسکتا ہے۔
د۔ سگریٹ نوشی سے دو رہیئے، کیونکہ اس کی وجہ سے  منہ سے نفرت آمیز بدبو آتی ہے، سگریٹ نوشی ناجائز امور میں سے ہے، سگریٹ نوشی متعدد بیماریاں پیدا کرتی ہے، سگریٹ نوشی کرنے والا اپنے اردگرد کے لوگوں کو تکلیف  پہنچاتا ہے، یاد رہے کہ سگریٹ نوش اپنے منہ سے نفرت آمیز بدبو چھوڑتا ہے۔
ابن جوزی ؒ اپنی ذات کے سلسلے میں غافل رہنے والوں سے متعلق کہتے ہیں: ’’ میں نے خودی سے غافل لوگوں کی ایک جماعت کو دیکھا،جو راز میں باتیں کررہے تھے، جب مجھ سے راز کے انداز میں بات کرنے لگے، تو مجھ سے رہا نہ گیا اور میں نے ان سے منہ پھیر لیا،ان کی منہ کی بدبو کی وجہ سے انہیں سخت مصائب کا سامنا کرنا پڑا، شاید ان میں سے اکثر نے نیند سے بیدار ہونے کے بعد سے ایک بار بھی اپنی انگلی کو زبان پر نہیں پھیرا تھا،  یہی وجہ ہے کہ اس طرح کی حالت کے نتیجے میں عورت اپنے شوہر سے نفرت کرنے لگتی ہے، جس کا نتیجہ ایک دوسرے کی جدائی ہوتا ہے۔‘‘
۳۔ معدہ: جب انسان خراب  بو والی اشیاء کھاتا ہےتو یہ بدبو منہ کے راستے سے یا بغل میں پسینہ کے ذریعے خارج ہوتی ہے،اور باتوں کے دوران مخاطب کے لیے ایذارسانی  کا  باعث بنتی ہے، لہٰذا اس طرح کے کھانوں سے احتراز ضروری ہے، یا اگر کھائے تو اس کے بعد اس کی بدبو کو ختم کرنے کے لیے کوئی مناسب چیز ضرور استعمال کرے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:
من أكل البصل والثوم والكرات فلا يقربن مسجدنا ، فإن الملائكة تتأذى مما يتأذى منه بنو آدم   ( صحيح البخاري : 855 ، الأذان / صحيح مسلم : 564 ، المساجد )
’’جو شخص پیاز ، لہسن اور گندنا کھائے وہ ہماری مسجد کے قریب نہ آئے اس لئے کہ فرشتے بھی ان چیزوں سے تکلیف محسوس کرتے ہیں جن سے انسانوں کو تکلیف ہوتی ہے‘‘۔
 ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جب کھانا پیش کیا جاتا اور اس میں ان چیزوں میں سے کوئی چیز ہوتی تو آپ تناول نہیں فرماتے۔
آپ ہر وہ کھانا تناول کرنا پسند فرماتے تھے،جس سے منہ سے خوشبو آتی ہو اور جو  معدہ کے لیے بہتر ہو،کیونکہ معدہ خالی ہونے کے سبب بھی بدبو آتی ہے اور دوسروں کے لیے باعث تکلیف ہوتا ہے، ہاں اگر کوئی روزہ دار ہوتو اسے مسواک کا استعمال کرنا چاہیے۔
۴۔ چہرہ
ظاہر بات ہے چہرہ سب سے مقدم اور ایسا عضو ہے جسے ہوا، مٹی اور گردوغبار سے بچایا نہیں   جاسکتا ، فضا  میں اڑنے والی دھول اور گردوغبار چہرے پر جمع ہوجاتے ہیں۔لہٰذا چہرے کی صفائی کا خیال رکھنا ضروری ہے، وضو میں چہرے کے دھونے اور صفائی کی حکمت چہرے پر جمنے والی تکلیف دہ چیزوں کا زائل کرنا ہی ہے۔
۵۔ داڑھی اور مونچھ:
داڑھی اور مونچھ کے نیچے چھپی ہوئی جلد پر بھی دھول اور گندگی جمع ہوتی ہے، جس کے نتیجے میں بدن میں پیدا ہونے والے سیال مادوں سے بدبو نکلتی ہے ، لہٰذا چہرے کے دھوتے وقت اس مادے کی بھی صفائی ہوجاتی ہے، اگر ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت مطہرہ پر نظر ڈالیں تو ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا داڑھی کے کنگا کرنے اور مونچھوں کے کتروانے میں اہتمام پاتے ہیں۔
۶۔ سر کی جلد اور بال: سر کی جلد کی چربی مردار خلیات کا مجموعہ ہوتی ہے،  جو شخص اپنے سر کی جلد کی صفائی پر توجہ نہیں دیتا ، اس سے گندی بو آنے لگتی ہے، لہٰذا  اس کے لیے مخصوص طبی ادویات کا استعمال ضروری ہے، جس سے سر میں پیدا ہونے والی گندگی دور ہوگی اور بدبو کا ازالہ ہوگا، اسی طرح سر کے بالوں پر بھی خصوصی توجہ دینا چاہیے، ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے سر کے بالوں پر کنگی کیا کرتے تھے اور اس پر خاص توجہ دیا کرتے تھے، ۔میرے ماں باپ آپ پر قربان۔آپ کے بال غایت درجہ خوبصورت اور صاف ستھرے ہوتے تھے۔
۷۔لباس: مسلمان پر ضروری ہے کہ وہ اپنے کپڑوں اور لباس پر توجہ دے، بعض لوگ اللہ انہیں ہدایت دے، اپنے لباس اور کپڑوں  پر کوئی توجہ نہیں دیتے، ان کے لباس گندے ہوتے ہیں، کپڑوں پر پسینے کے اثرات ہوتے ہیں، اور ان سے کراہت آمیر بدبو پھوٹتی ہے، حالانکہ مساجد میں نماز کے لیے حاضری کے وقت  ہمیں زیب وزینت اختیار کرنے کا حکم دیا گیا ہے، جمعہ کے دن غسل کرنے کا حکم دیا گیا  ہے، یہ تمام احکامات اور ہدایات اس لیے ہے کہ مسلمان بہتر سے بہتر اور عمدہ وضع قطع اور لباس اور کپڑوں میں ہو،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے لباس کی صفائی کا خیال فرماتے تھے، یہ سنت بھی ہے، بعض سلف سے مذکور ہے کہ وہ اپنے دینی بھائیوں کے لیے زیب وزینت کا اہتمام کیا کرتے تھے، بعض حکما کا قول ہے’’ جس نے اپنے کپڑوں کو صاف رکھا، اس کے غم کم ہوگئے، اور جس نے خوشبو کا استعمال کیا اس کی دانشمندی میں اضافہ ہوا‘‘۔
۸۔بعض لوگ کسی بھی قسم کے عطر کا استعمال نہیں کرتے ہیں، جبکہ بعض لوگ بہت ہی تیز خوشبووالا عطر استعمال کرتے ہیں، جس سے دوسروں کو تکلیف ہونے لگتی ہے،لہٰذا ایسے عطر کا استعمال کرنا چاہیے جس کی خوشبو خفیف اور ہلکی ہلکی ہو، تاکہ آپ کا عطر آپ کے لیے باعث مذمت نہ ہو۔
ابن جوزی ؒ کے کلام سے خوبصورت تراشے ملاحظہ فرمائیں:
’’نبی کریم ﷺ لوگوں میں سب سے زیادہ نظیف  اور پاک وصاف تھے،آپ اپنا ہاتھ مبارک اٹھاتے تو آپ کے بغل  کی چمک ظاہر ہوجاتی، اور جب آپ کی پنڈلیاں  ظاہر ہوتی تو ایسا لگتا جیسے چنگاری ہے۔‘‘
’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مسواک کبھی نہیں چھوٹتا تھا، آپ کو ناپسند تھا کہ آپ کے منہ سے بدبو ظاہر ہو‘‘۔
’’مسواک کے ساتھ پڑھی جانے والی نماز کو بغیر مسواک کیے نماز پر فضیلت عطا کی گئی، لہٰذا صاف ستھرا رہنے والا اپنے نفس  کی نعمت سے لطف اٹھاتا ہے ‘‘۔
’’مرد صفائی کی وجہ سے اپنی بیوی کو مانوس کرتا ہے، کیونکہ عورتیں مردوں  کے بالکل مخالف ہوتی ہیں، ممکن ہے کہ مرد عورت کی کسی چیز کو ناپسند کرے، اسی طرح عورت مرد کی کسی چیز کو ناپسند کرے، لیکن مرد کبھی عورت کی کسی چیز پر صبر کرلے لیکن عورت اس کی کسی چیز پر صبر نہ کرسکے۔‘‘
ابن عباس ؓ فرماتے تھے: ’’ میں چاہتا ہوں کہ عورت کے لیے  خود بھی زیب وزینت اختیار کروں، جس طرح میری خواہش ہوتی ہے کہ  عورت میرے لیے زیب و زینت اختیار کرے‘‘۔
’’وہ عقلمند انسان بُرا ہے جو اپنے آپ کے سلسلے میں لاپرواہ ہو‘‘۔
’’شریعت نے ہر مسلمان کو بعض چیزوں کو مکمل طور پر کرنے کی تنبیہ دی ہے، لہٰذا ناخن کتروانے، بغل اور زیرناف بال کے کتروانے کا حکم دیا،  اور بدبو کی وجہ سے پیاز اور لہسن سے منع کیا۔(پیاز ولہسن سے ہم دیگر بدبو دار چیزوں کو بھی اس میں شامل کرسکتے ہیں جیسے سگریٹ نوشی وغیرہ)، اسلام  میں غایت درجہ صفائی اور انتہاء درجہ کی زینت  مطلوب ہے۔
’’نبی کریم ﷺ اچھی چیز پسند فرماتے تھے‘‘۔
پیارے بھائی: یہ بات بڑی تکلیف دہ ہوتی ہے کہ کوئی شخص کسی شخص کو براہ راست یا بلا واسطہ طور پر اسے اس کی بدبو کے سلسلے میں نصیحت کرے،لہٰذا ہر مسلمان کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے بدن کی اندرونی اور بیرونی طور پر مکمل صفائی اور نظافت کا خیال رکھے، تاکہ رب تعالیٰ سے مناجات کے وقت اور اپنے بھائیوں کے سامنے وہ بہتر سے بہتر شکل میں دکھائی دے۔
اللہ تعالیٰ ہم میں سے ہر ایک کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے پر چلنے کی توفیق دے، اور ہمیں اپنے پرہیزگار بندوں میں شامل فرمائے۔
درود وسلام ہو نبی پاک ﷺ پر۔
اعداد: عبدالرحمن بن محمد الیحی
مراجعہ: ڈاکٹر حمدی عبدالحمید علوان، ڈاکٹر فتحی موسی، ڈاکٹر احمد محمد علی، ڈاکٹر محمد محمود ابوالیزید
ترجمہ: مبصرالرحمن قاسمی