جمعرات، 29 نومبر، 2012

Taaziyat Ahkaam Aadaab

0 تبصرے



تعزیت احکام وآداب
تعزیت کا حکم :
اللہ تعالیٰ کا ہم پر یہ احسان وانعام ہے کہ اس نے ہمیں ایسا دین دیا ، جو اعلی ترین کاموں اور اعلی ترین اخلاق کی دعوت دیتا ہے، تعزیت کی مشروعیت دین اسلام کی خوبیوں میں سے ایک خوبی ہے، تعزیت کا مطلب میت کے رشتے داروں اور اقرباء کے ساتھ غمخواری وہمدردی،ان کے غم والم میں شرکت اور انہیں صبراور اجر وثواب پر آمادہ کرنا ہے۔ میت کے لئے دعاء مغفرت ورحمت  کرنا تعزیت میں شامل ہے۔اسی طرح میت کی تجہیز وتکفین اور تدفین میں شرکت کرناایک مسلمان پر فرضِ کفایہ ہے۔
فقہاء کرام ؒ  کے بقول جس گھر میں کسی کا انتقال ہو، ان گھروالوں کی تعزیت کرنا مستحب ہے، ان کی دلیل ہے وتسن تعزیۃ المصاب بالمیت۔  لہٰذا تعزیت حسب حال مستحب، سنت مؤکدہ اور اگر رشتے دار ہوں تو واجب کے درجے میں ہے۔
تعزیت اور عزا کا طریقہ:        
تعزیت کے لئے شریعت نے کوئی مخصوص طریقہ مقرر نہیں کیا ہے، ہاں تعزیت کی چند شکلیں ہیں جو ہم ذیل میں بیان کررہے ہیں:
۱)۔ تعزیت کے لئے جائے تو میت کے لیے  مغفرت کی دعا کریں اور اس کے وارثین کو صبر کی تلقین کریں ، اس موقع پر سب سے بہتر دعا یہی ہوسکتی ہے، جسے نبی ﷺنے کہی ہے:
 ''للہ ما اخذ ولہ ما اعطی، وکل شی ء عندہ باجل مسمی'' 
نیز اس موقع پر میت کے رشتے داروں اور اقرباء کو صبر وثواب کی امید کی ترغیب دی جائے۔ نبی کریم ﷺ نے اپنی صاحبزادی کوجب ان کے پیارے کی وفات ہوئی تو حکم دیتے ہوئے فرمایا:
''مرھا فلتصبر ولتحتسب'' [متفق علیہ]
تعزیت کے موقع پر میت کے رشتے داروں کو یہ کلمات بھی کہے جاسکتے ہیں
'' احسن اللہ عزاءکم وجبر مصابکم وغفر لمیتکم'' ۔
یا یہ بھی کہہ سکتے ہیں :
عظم اللہ اجرکم
یا ان کلمات کی طرح مناسب دعائیہ کلمات جس میں میت کے لئے تسلی، صبر اور اجر وثواب ہو کہے جاسکتے ہیں۔
۲)۔ تعزیت کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ میت کے گھر والوں کے لئے کھانے کا انتظام کرکے یا اس سلسلے میں ان کی ضرورتوں کو پوری کرکے انہیں تسلی دی جائے، نبی کریم ﷺ کو جب اپنے چچا حضرت جعفر بن ابی طالب کی جنگ موتہ میں شہادت کی اطلاع ہوئی تو آپ نے اپنے گھر میں حکم دیا:
'' اصنعوا لآل جعفر  طعاما، فقد اتاھم ما یشغلھم''
 (جعفر کے اہل خانہ کے لیے کھانا تیار کرو، غم کے سبب ان کے اہل خانہ یہ نہیں کرسکتے)
اسی طرح اہل میت کے لئے چائےبنانے، کپڑوں کے دھونے، گھر کی صفائی کرنے اور اس طرح کے روزمرہ کے کاموں میں ان کی مدد کی جائے چونکہ یہ کام بھی گھر میں وفات ہونے کے سبب اہل میت انجام دینے سے رک جاتے ہیں۔
۳)۔اہل میت کے ساتھ ہمدردی کا مظاہرہ کرتے ہوئے انہیں صبر وثواب کی ترغیب دی جائے،اور اچھی باتیں کرکے ان کے غم کو ہلکا کرنے کوشش کی جائے، نیز اس موقع پر انبیاء اور صالحین کے قصے سنائے، اور شجاعت پر مبنی امثال اور کہانیاں سنائی جائے۔
اس موقع پر اہل میت کے سامنے پیارے نبی ﷺ کے صبر اور آپ پر آنے والی مصیبتوں کا مذاکرہ کیا جائے۔
۴)۔تعزیت میں یہ بھی شامل ہے کہ اہل میت کے بچوں کی نگہداشت کا اہتمام ہو ، ان کا دل بہلایا جائے اور انہیں اپنے گھر کے بچوں میں شامل کیا جائے، کیونکہ چھوٹے بچوں کو گھر میں کسی کے فوت ہونے کا کوئی احساس نہیں ہوتا ہے، لہٰذا اہل میت کے بچوں کی تربیت اور ان کا خیال رکھنا بھی تعزیت کی ایک شکل ہے۔
۵)۔اگر صاحب میت کافر ہو، جیسے پڑوسی یا کوئی قریبی ، تو اسے صبر کی ترغیب دی جائے، اور زندوں کے لئے دعاء کی جائے نہ کہ میت کے لئے: جیسے یہ دعا کرے: 
''احسن اللہ عزاءکم وجبر مصابکم وھداکم وفتح علی قلوبکم''۔
تعزیت کی حکمت:
اہل میت کی تعزیت کی مشروعیت سے عظیم حکمتوں کا ظہور اور بیشمار منافع کا اندازہ ہوتا ہے:
۱۔ گھر میں وفات کے سبب غم ولم کے شکارافراد کی تسلی ،غمخواری وہمدردی کے لئے ان کی تعزیت کرنے سے دین اسلام کی عظمت اور اس کی خوبیوں کا مظاہرہ ہوتا ہے۔
۲۔مسلمانوں میں یکجہتی اور ایک دوسرے سے ہمدردی کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ کافروں کے ساتھ بھی یہ معاملہ ہوتو مسلمانوں کے ساتھ ان کی ہمدردی پیدا ہوتی ہے۔
۳۔ اہل میت کی مصیبت میں تخفیف ہوتی ہے، ان کی ضرورتوں کی تکمیل کی راہ پیدا ہوتی ہے اور اس طرح کے حالات میں انہیں خوشی ومسرت کا سامان مہیا ہوتا ہے۔
۴۔ اس موقع پر میت اگر مسلمان ہوتو اس کی رحمت ومغفرت اور گناہوں سے معافی کی دعا کا موقع ملتا ہے۔
تعزیت کے موقع پر زندہ اور مردہ افراد دونوں کے لئے خیر اور دعا نیز تعزیت کے ذریعے تسلی وہمدردی کا موقع ملتا ہے۔ تعزیت دین اسلام کا ایک مظہر جلیل ہےجس کی شریعت نے اجازت اور ترغیب دی ہے۔
کیا تعزیت کے لئے کوئی وقت متعین ہے؟
دراصل تعزیت کے لئے وقت کی کوئی تعیین نہیں ہے، بلکہ تعزیت مصیبت کے وقت سے مربوط ہے، یعنی جب تک مصیبت ہے اس تک وقت تعزیت کی جاسکتی ہے، جب تک میت کے آثار باقی ہے اس وقت تک تعزیت کی جاسکتی ہے۔لیکن یہ الگ بات ہے کہ انسان کومیت کی مصیبت کو بھلانا نہیں چاہیے، بلکہ اس پر آنے والی مصیبت سے عبرت حاصل کرنا چاہیے، تاہم میت کی تدفین سے قبل اور اسی طرح تدفین کے بعد تعزیت کرنا شریعت سے ثابت ہے۔
جبکہ مصیبت کے ختم ہوجانے اور ایک مدت گذرنے جانے کے بعد تعزیت کرنا شریعت سے ثابت نہیں بلکہ یہ مکروہ عمل ہے، جس سے اہل میت کی مصیبت اور ان کے غم میں اضافہ اور اس کی تجدید ہوتی ہے اور انھیں اپنے فوت ہونے والے کی یاد ستانے لگتی ہے ۔ایسی تعزیت ان کے جذبات کو بھڑکانے کا کام کرتی ہے، لہٰذا تعزیت کا صحیح وقت میت کی تدفین سے قبل اور تدفین کے بعداتنی مدت تک ہے جب تک کہ اہل میت اپنی مصیبت سے متاثر ہیں۔
بعض فقہاء کرامؒ نے کہا ہے کہ تین دن کے بعد تعزیت نہیں ہے، لیکن صحیح بات یہی ہے کہ میت کے فوت ہونے کے بعد زیادہ قریب دنوں تک تعزیت کی جاسکتی ہے یہی قول شیخ الاسلام ابن تیمیہ کا بھی ہے۔
نہ کرنے کے کام :
زیب وزینت، صفائی اور اچھے کپڑوں کو ترک کرکے تین دن سے زیادہ سوگ مناناسوائے میت کی بیوی کے کسی کے لئے جائز نہیں ہے، میت کی بیوی اپنے شوہر کی وفات پر چار ماہ دس دن کی مدت میں اپنی عدت کو پورا کرے گی۔
تعزیت کے فضائل
تعزیت کے فضائل میں متعدد احادیث وآثار منقول ہیں اور مسلمانوں کا اسی پر عمل ہے، تعزیت کے باب میں جو احادیث نقل کی گئی ہیں ان سے اندازہ ہوتا ہے کہ تعزیت سنت مؤکدہ کا درجہ رکھتی ہے۔
ترمذی اور ابن ماجہ نے حضرت ابن مسعود ؓ سے نقل کیا ہے آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
'' من عزی مصابا فلہ مثل اجرہ'' 
جس نے کسی مصیبت زدہ کی تعزیت کی تو اس کے لئے مصیبت زدہ کے برابر ثواب ملتا ہے۔
ابن ماجہ اور دیگر نے حضرت عمرو بن حزم سے نقل کیا ہے کہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
''ما من مؤمن یعزی اخاہ بمصیبتہ الا کساہ اللہ من حلل الکرامۃ یوم القیامۃ'' 
جو مومن اپنے بھائی کی مصیبت کے وقت اس کی تعزیت کرتا ہے ، اللہ تعالیٰ اسے قیامت کے دن عزت وشرف کا لباس پہنائےگا۔
طبرانی اور دیگر محدثین نے نبی ﷺ کا یہ قول نقل کیا ہے: "جس نے کسی مصیبت زدہ کی تعزیت کی اللہ تعالیٰ اسے جنت کے کپڑوں میں سے ایسے دو جوڑے پہنائیں گے ، دنیامیں جو عدیم المثال ہے۔
تعزیت کے بارے میں مذکورہ فضائل اور اس کے ثواب کے علاوہ تعزیت کی سب بڑی فضیلت ہونے کے لئے یہی کافی ہے کہ یہ عمل نبی ﷺ کی قولا، فعلا، اور حالا واقرارا سنت ہے۔
تعزیت کے مقصد سے اجتماعی طور پر جمع ہونے کا حکم
فقہاء کرام نے تعزیت کے لئے اجتماعی طور پر جمع ہونے کو مکروہ کہا ہے، دوسری بات یہ ہے کہ یہ سلف صالحین کا طریقہ بھی نہیں رہا ہے،لہٰذا آج کے دور میں تعزیت کا طریقہ بدل گیا ہے ، اور تعزیت کے موقع پر جاہلیت کے رسم ورواج دہرائے جارہے ہیں۔
تعزیت کے لئے منعقد کی جانے والی مجالس کی چند شکلیں رائج ہیں:
۱۔ایک مجلس وہ ہے جو بغیر کسی مقصد اور پہلے سے ترتیب کے ساتھ منعقد ہوئی ہو، ایسے موقع پر میت کے برادران، اس کی اولاد وغیرہ اپنے بڑوں سے ہمدردی حاصل کرتے ہیں،اور بڑوں کا سفر بغیر کسی ترتیب کا ہوتا ہے جس طرح کے ہمارے آباء واجداد کا طریقہ کار تھا، یہ طریقہ جاہلیت کے طریقوں میں سے نہیں ہے، میں شیخ ابن باز ؒ سے سنا کرتا تھا کہ آپ کہتے تھے کہ اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔
۲)۔تعزیت کی دوسری شکل یہ ہے کہ میت کے اہل خانہ، اس کے رشتہ داروں اور دیگر اقارب کے اجتماع کے لئے ایک جگہ کا تعین کیا جاتا ہے، اور مرد حضرات کے لئے فلاں مقام اور خواتین کے لئے فلاں مقام کا اعلان کیا جاتا ہے، یہ اعلان ذرائع ابلاغ کے ذریعے نشر کیا جاتا ہےاور مردوخواتین کے گھروں کے فون نمبرات پر اس اعلان کو بطور میسیج ارسال کیا جاتا ہے نیز شاہراہوں پر پوسٹروں کے ذریعے  اس اعلان کو آویزاں کیا جاتا ہے، مزید یہ کہ تعزیت کے لئے بعض لوگ تو فنکش ہال اور عالیشان مقامات بطور کرایہ لیتے ہیں۔اورخیمے لگائے جاتے ہیں، کرسیاں بچھائی جاتی ہیں اور تعزیت کے لئے آنے والوں کے استقبال کے لئے لائٹنگ کی نمائش کی جاتی ہے، اور دیکھنے والے کو شک ہوتا ہے کہ آیا یہ تعزیتی نشست ہے یا پھر شادی کی تقریب۔۔؟
تعزیت کی یہ شکل جاہلیت کے مظاہر سے مشابہ ہونے کی صورت میں حرام وناجائز ہے، امام احمد ؒ وابن ماجہ ؒنے ثقہ رواۃ کی سند سے جریر بن عبداللہ ؓ کی روایت کو نقل کیا ہے کہ صحابہ میت کے اہل خانہ کے پاس اجتماع اور کھانا بنانے کو نوحہ شمار کرتے تھے۔
آج ہم صورتحال دیکھ رہے ہیں کہ لوگ تعزیتی نشستوں میں حد سے بڑھ رہے ہیں، تعزیت کے لئے اعلانات کا مختلف طریقے سے اہتمام اور پھر انعقاد کے لئے بے پناہ اہتمام یہ سب باتیں کبیرہ گناہوں میں پڑنے کا اشارہ دیتی ہیں، ان امور سے نوحہ خوانی، اور جاہلیت کے رسم وراوج کا مظاہرہ ہوتا ہے۔
اہل میت اور تعزیت کرنے والوں کے لئے ان آداب کو ملحوظ رکھنا چاہیے:
۱)۔اہل میت کی نفسیاتی، اجتماعی اورمعاشی حالت کا خیال رکھنا ضروری ہے، باربار اس کے پاس آنے سے اسے تکلیف نہ ہو،اس کے پاس قیام کرنے سے ضیافت کا اس پر بوج نہ پڑے، اسی طرح گھر کی تنگی کے سبب اسے تکلیف نہ ہو۔ اور سب سے اہم  بات یہ ہے کہ تعزیت کے وقت اہل میت کی نفسیات کا خیال رکھا جائے اور اس موقع پر مناسب بات چیت کا بھی خیال رکھا جائے، ایسا نہ ہو کہ گفتگو سے ان کے غم میں مزید اضافہ ہو۔
میں اس موقع پر خواتین کی جانب خصوصی اشارہ کرتا ہوں کہ وہ تعزیت کے موقع پر آوازوں کو بلند کرنے، چہروں کو نوچنے، کپڑوں کے پھاڑنے اور بالوں کو نوچنے یا میت کی خوبیوں کو بلند آواز کے ساتھ گنانے یا اس کے مناقب کو یاد کرکرکے رونے سے پرہیز کریں کیونکہ یہ سب باتیں حرام نوحہ میں شامل ہیں۔نبی کریم ﷺ نے ان باتوں کو جاہلیت کے امور بتایا ہے۔
۲)۔ اہل میت اس موقع پر صبر، اللہ تعالیٰ کی حمد وثناء، اس مصیبت میں ثواب کی امید،کثرت سے میت کے لئے دعا و استغفار،اگر میت پر کسی کے حقوق ہیں تو اس کی تلافی،اور اگر اس پر قرض ہیں تو غسل ونماز جنازے سے قبل ان کی ادائیگی کی کوشش کریں۔
۳)۔اسی طرح میت  کے متعلقین کے لئے ضروری ہے کہ وہ کھیل کود، ہنسی مذاق،حرام مشروبات کے پینے اور حرام چیزوں کے کھانے سے قطعی طور پر پرہیز کریں۔
تعزیت کے وقت واقع ہونے والے خلاف شریعت امور:
تعزیت کے موقع پر مختلف قسم کے خلاف شریعت امور کئے جاتے ہیں، جس کے کرنے پر میت کو تکلیف ہوتی ہے، نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے: "المیت یعذب ببکاء اھلہ'' میت کو اس کے اہل خانہ کی آہ وبکا کی وجہ سے عذاب دیا جاتا ہے۔
اور ایک روایت میں ہے ''بنیاح علیہ'' یعنی میت کو اس پر نوحہ خوانی کرنے کے سبب عذاب دیا جاتا ہے۔
لوگوں میں عام خلاف شریعت باتوں کو ہم یہاں مختصراً ذکر کررہے ہیں:
۱)۔ تعزیت کے لئے مخصوص مقامات کا تعین کرنا، یا خیمہ لگانا، لائٹنگ لگانا، کرسیاں بچھانا، تعزیت  کے لئے اعلانات چسپاں کرنا یہ سب باتیں ممنوعہ نوحہ میں شامل ہیں ، اور یہ سب باتیں جاہلیت کے اعمال میں شامل ہیں۔جن سے باز رہنے کا نبی کریم ﷺ نے حکم دیا ہے۔
۲)۔قرآن کریم کی تلاوت کے لئے اس موقع پر قراء کو اجرت پر لانا، یا اس موقع پر قرآن کریم کی تلاوت پر مشتمل آڈیو کیسیٹ بنانا اور اسے مجلس میں سننا، گویا قرآن کریم صرف ان جیسے مواقع کے لئے ہی نازل ہوا، ہم ذرائع ابلاغ میں دیکھتے ہیں کہ کسی نامور اور شہرت یافتہ شخصیت کی وفات ہوتی ہے تو ذرائع ابلاغ کے ذریعے اس کے لئے تلاوت کلام پاک کا اہتمام کیا جاتا ہے اور کئی کئی قرآن ختم کئے  جاتے ہیں۔
۳)۔قرآن کریم پڑھانے والوں کو میت کی جانب سے تلاوت کے اجر کے طور پر ہدیہ دینا، یہ سراسر بدعت عمل ہے، ہمیں نبی کریم ﷺ اور آپ کے صحابہ میں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی ہے۔دوسری بات یہ ہے کہ میت کو وہی اعمال نفع دیتے ہیں جو قرآن وحدیث سے ثابت ہیں، جن میں حج، عمرہ، صدقہ، روزہ ، میت کے لئے اس کے اقرباء کی دعائیں وغیرہ شامل ہیں۔
۴)۔میت کے پاس ایک ہفتے یا چالیس روز بعد جانا، یا ایک برس بعد برسی منانا، اور میت کے مناقب بیان کرکے نوحہ خوانی کرنا، اسی طرح میت کی تدفین کے تین راتوں بعد محفل منعقد کرنا یا اس کے بعد مخصوص مدت میں میت کی یاد میں محفلیں منعقد کرنا یہ سب بدعت اور نوحہ میں شامل ہیں۔
۵)۔مردوں اور خواتین کا سیاہ لباس زیب تن کرنا، یا اس موقع پر غم والم پر مشتمل تعویذ لٹکانا۔
۶)۔ میت کی تصاویر کو آویزاں کرنا اور اس پر سیاہی ڈالنا یہ سب حرام کے مشابہ امور ہیں۔
 ترجمہ: مبصرالرحمن قاسمی                              


بچوں میں حفظ قرآن کا شغف کیسے پیدا کریں؟

0 تبصرے


تحریر: د. المصطفى إيدور
ترجمہ: مبصرالرحمن قاسمی


بچوں میں قرآن کریم کے حفظ کرنے کا شوق پیدا کرنے کے مختلف طریقے ہیں،  لیکن قبل اس کے کہ شوق پیدا کرنے والے کی ذات بچوں کے لیے نمونہ ہوتو ترغیب اور آمادگی پیدا کرنے میں بہت زیادہ آسانی ہوجاتی ہے،ساتھ ہی اس کے لیے والدین کی جانب سے دعا، توکل اور عاجزی وانکساری  کا اہتمام،صبر وتحمل، نرمی اور مسلسل اولاد کی رہنمائی مقصد کے حصول  کے لیے بے حد ضروری ہے۔باپ اور ماں اس کام میں برابر کے شریک ہیں، گرچہ اس کام میں ماں کا مقام اللہ کے نزدیک اولین بنیاد ہے۔
ایام حمل میں قرآن کریم کی سماعت:
متعددامریکی ماہرین  کا کہنا ہے کہ ماں  کے خوشی، غم، غصہ اور پریشانی ومصیبت جیسے حالات سے جنین متاثر ہوتا ہے، اگر ماں بآواز بلند کچھ پڑھتی ہے تو  بچہ ماں کی قرات کا اثر لیتا ہے۔ اگر ماں قرآن کریم پڑھے  یا کثرت سے قرآن کریم سنے تویقینا سعادتمندی کی بات ہے، چونکہ بچہ اپنی ماں کی جانب سے حاصل ہونے والےخیر  کے ذریعے راحت پائے گا، اس میں کوئی شک بھی نہیں کہ اللہ تعالی کاکلام ماں کی جانب سےبچے کے لیے سب سے عظیم چیز ثابت ہوسکتاہے، شیخ ڈاکٹر محمد راتب النابلسی کے بقول" قرآن پڑھنے والی حاملہ ماں  کا نومولود قرآن سے تعلق رکھنے والا ہوتا ہے"۔
ایام رضاعت میں سماعت قرآن اور تلاوت:
ماہرین کا کہنا ہے کہ دودھ پیتہ بچہ اپنے اطراف کی چیزوں کا اثر لیتا ہے،جبکہ اس کے حواس میں سے سماعت کی سب سے پہلے شروعات ہوتی ہے، اور بچہ ایام رضاعت میں مفرد الفاظ کو جمع کرنا شروع کردیتا ہے، گرچہ وہ ایام رضاعت میں ان الفاظ کو ادا نہیں کرسکتا لیکن  یہی  مفردات کو وہ بعد میں ادا کرنے پر قادر ہوجاتا ہے، اگر مرضعہ یعنی دودھ پلانے والی ماں کو اس عرصے میں قرآن کریم کی سماعت یا  بآواز بلندتلاوت  کا موقع میسر آجائے،تو کوئی شک نہیں کہ اس کا یہ عمل بچہ پر بہت زیادہ اثر انداز ہوگا، اور بچے کے لیے حفظ قرآن کریم کرنا آسان ہوگا،یہی وجہ ہے کہ ہم  خالق ومالک کو دیکھتے ہیں کہ اللہ تعالی ماں کو حکم دیتا ہے  کہ وہ اپنے بچے کو دو برس تک دو پلائے، اور اللہ تعالی نے اسے بچے کا حق قرار دیا ، اسی طرح اللہ تعالی رضاعت کے عرصے میں ماں کو بچے کے کھانے، پینے اور اسے لباس پہنانے کا ذمہ دار بناتا ہے، جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے:
وَالْوَالِدَاتُ يُرْضِعْنَ أَوْلَادَهُنَّ حَوْلَيْنِ كَامِلَيْنِ ۖ لِمَنْ أَرَادَ أَن يُتِمَّ الرَّضَاعَةَ ۚ وَعَلَى الْمَوْلُودِ لَهُ رِزْقُهُنَّ وَكِسْوَتُهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ
ترجمہ:﴿ مائیں اپنی اود کو دو سال کامل دودھ پلائیں جن کا اراده دودھ پلانے کی مدت بالکل پوری کرنے کا ہو اور جن کے بچے ہیں ان کے ذمہ ان کا روٹی کپڑا ہے جو مطابق دستور کے ہو۔ ﴾ [البقرة: 233].
۳۔ بچے کے سامنے تلاوت قرآن:
چھوٹے بچے اکثر اپنی ماں کی حرکات وسکنات اور ماں  کے رکوع وسجود کی نقل کرتے ہیں ، اگر بچے کےسامنے کثرت سے تلاوت ہوتو یہ عمل بچے کےلیے یقینا محبوب بن جائے گا، بعدمیں ماں کا یہی عمل بچہ کے حفظ کرنے میں مددگار ثابت ہوگا، مزید یہ کہ تلاوت کی برکات پورے گھر اور پورے کنبے کے لیے باعث خیر ہوگی،یقینا تلاوت کی فضیلت اور اس کےثواب کا ہم انداز ہ نہیں لگا سکتے۔
۴۔ قرآن مجید سب سےبیش قیمت اور خوبصورت ہدیہ:
انسان کی فطرت میں ہی شامل ہے کہ وہ اپنی ملکیت  کی چیزسے محبت کرتا ہے، ہم اکثر بچوں کو دیکھتے ہیں کہ وہ اپنے کھلونوں کو بدن سے چمٹائے رکھتے ہیں،ان کی حفاظت کرتے ہیں اور وقتا فوقتا اس کی نگرانی کرتے ہیں،بچوں کے اس رجحان کو ہم  ایک بڑے مقصد کی جانب موڑ سکتے ہیں، اگر مختلف مواقع پر قرآن کریم گفٹ دیئے جائیں تو بچوں کا قرآن سے تعلق مزید بڑھے گا اور یہی تعلق انہیں قرآن کریم کے حفظ پر آمادہ کرے گا۔
۵۔ ناظرہ ختم قرآن کے موقع پر تقریب کا اہتمام:
ترغیب اور حوصلہ افزائی انسانی نفس کو مرغوب ہے، جبکہ یہ چیز بچوں میں اور بھی زیادہ پائی جاتی ہے،لہذا جب بھی بچوں کا ناظرہ ختم قرآن ہو، ایک چھوٹی سی تقریب میں ان کی حوصلہ افزائی کی جائے، اس موقع پر اسے قرآن کریم کا خوبصورت نسخہ گفٹ دیا جائے،نتیجۃً  بچہ اس  طرح کی تقریب کو زندگی بھر یاد رکھے گا بلکہ اس طرح کی تقاریب کے بار بار آنے کا منتظر رہے گا، اور ظاہر بات ہے اس کے نتیجے میں قرآن کریم سے اس کے تعلق میں مزید مضبوطی پید اہوگی، لہذا حفظ قرآن کریم کے لیے بچہ محبت وشوق میں تیار ہوجائے گا اور اس پر زبردستی اور زور ڈالنے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔  
۶۔ قرآن کریم میں بیان کیئے گئے قصے سنائیے:
قصے کہانیاں بچوں کے لیے محبوب ہوتے ہیں،اگر والدین اپنے بچوں کو آسان فہم زبان میں قرآن کریم کے قصے سنانے کے اہل ہوں تو بچوں کو قرآن کریم کے نصوص کی جانب بھی اشارہ کریں کہ یہ قصہ فلاں سورہ اور فلاں آیت میں بیان کیا گیا ، جس کی وجہ سے بچوں میں قرآن سے لگاو اور تعلق میں اضافہ ہوگااور بچے بہت آسانی سے قرآنی الفاظ اور زبان سے مانوس ہوجائیں گے۔
۷۔حفظ قرآن کریم کے مسابقوں کا انعقاد،بالخصوص چھوٹی چھوٹِی سورتوں پر مشتمل مسابقے:
گھر کے اندر بھائیوں اور بہنوں کے مابین اسی طرح اڑوس پڑوس کے بچوں اور ان کے دوست واحباب سے مدد لے کر ان بچوں کے  مابین حفظ قرآن کریم کی ترغیب وحوصلہ افزائی کے لیے مسابقات منعقد کرائے جائیں، اس موقع پر بچوں کی عمر کا خیال رکھا جائے کہ اگر بہت چھوٹے بچے ہوں تو مثال کے طور پر ان سے یہ پوچھا جائے کہ ابرہہ نے قریش کے خلاف جنگ میں کونسا جانور استعمال کیا تھا وغیرہ، اس طرح کے سوالات بچوں کو حفظ قرآن کریم پر آمادہ کرنے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں۔
۸۔ ابتدائی سالوں میں قرآن  کریم کے ذریعے تعلیم دینا:
بچوں کو قرآن کریم کی آیات کے ذریعے لکھنا پڑھنا سکھایا جائے، اسی طرح حساب کی ابتداء نماز کی رکعات کے ذریعے کریں، جبکہ علم احیاء کا آغاز قرآن کریم میں وارد مختلف قسم کے حیوانات کے ناموں سے کریں، اور تاریخ کا آغاز قرآن کریم میں مذکور سابقہ قوموں کے قصوں سے کریں، جبکہ کائنات کے مناظرکا  یعنی جغرافیہ کا آغاز قرآن کریم میں مذکور آسمان وزمین، لیل ونہار اور بحر وبر سے متعلق باتوں سے کریں۔ اگر ہم اس طرح سے بچوں کی تعلیم کا آغاز کریں گے تو یہ ضرور بچوں کو حفظ قرآن کریم کی طرف مائل کرنے میں معاون ہوگا۔
۹۔ عمر کے لحاظ سے  قرآنی کلمات کی تلاش کا کام:
بچے ابتدائی سالوں میں الفاظ معانی کو بڑھانے کے شوقین ہوتے ہیں، بچوں کی کوشش ہوتی ہے کہ ہر نئے لفظ کو سیکھیں اور اسے جملوں میں استعمال کریں، ہم بچوں کے اس شوق میں قرآن کریم کے الفاظ کے ساتھ بھر پور حصہ لے سکتے ہیں، مثال کے طور پر تیسویں پارے کی آخری سورتوں میں سے بچوں سے پوچھے  جائے: لفظ قریش کس سورۃ میں ہے؟ اور لفظ "تین" اور" زیتون" کس سورہ میں ہیں وغیرہ؛ ہمارا یہ عمل بچوں کو ان سورتوں کے حفظ کرنے پر ضرور آمادہ کرے گا۔
۱۰۔ ہر وقت قرآن کریم کا نسخہ ساتھ رکھنے پر آمادہ کرنا:
مثال کے طور پر ہم انھیں چھوٹے سائز  کا قرآن کریم کا خوبصورت نسخہ ہدیہ دیں، اور انھیں صبح وشام ساتھ رکھنے کی ترغیب دیں، ساتھ رکھنا ان کے لیے نہ صرف باعث اطمینان وبرکت ہوگا بلکہ ہر قسم کے شرور سے ان کی حفاظت بھی ہوگی، اس عمل سے بچوں میں قرآن کریم کے ادب کو ملحوظ رکھنے کے ساتھ ساتھ اسے سینوں میں محفوظ کرنے کا شوق بھی پیدا ہوگا۔
۱۱۔ قرآن کریم سے  متعلق خصوصی چینل دیکھنے کی ترغیب،خاص طور پر حفظ قرآن کے مسابقات:
جب بچے اپنے ہم عمر بچوں کو مسابقوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہوئے اور انعام پاتےہوئے  دیکھیں گے تو ان میں بھی حفظ قرآن کا جذبہ کار فرما ہوگا، بچے یہ سوچنے پر مجبور ہونگے کہ وہ بھی ان انعام یافتہ بچوں کی طرح  یا ان سے ممتازاور اچھے بن سکتے ہیں۔
۱۲۔ حفظ قرآن کے لیے موجودہ جدید ذرائع کا استعمال:
بہت سے بچے جدید ذرائع کو حاصل کرنے کے شوقین ہوتے ہیں، اگر ہم بچوں کو قرآن کے حفظ کے لیے دستیاب جدید ذرائع مہیا کریں اور انھیں اس کے استعمال کی ترغیب دیں تو اس سے بچوں کو کئی فائدے ہونگے، وہ قرآن کریم کو خوش اسلوبی سے پڑھ سکتے ہیں، اپنی غلطیوں کی نشاندہی کرسکتے ہیں اور اپنے لہجے کو اچھے سا اچھا بنانے کی کوشش کرسکتے ہیں۔چونکہ آج کل بازار میں متعدد قراء کی تلاوتوں پر مشتمل سستے داموں میں ڈیجیٹل قرآن کریم دستیاب ہیں۔
13: بچوں کو اپنی قراءت ریکارڈ کرانے کی ترغیب:
یہ عمل بچوں میں خوداعتمادی پیدا کرنے  کا باعث ہے،  اس سے بچوں میں یہ جذبہ پیدا ہوگا کہ وہ بھی عمدہ لہجے میں قرآن کریم کی تلاوت کرسکتے ہیں، اور معروف قراء کے لہجے میں تلاوت کرسکتے ہیں۔

14: بچوں کی تلاوت اور قرآنی قصوں کو بغور سننا:
مربی اور سرپست حضرات کو اس سلسلے میں  مکمل توجہ دینی چاہیے  کہ جب بچے تلاوت کررہے ہوں یا قرآنی قصے بیان کررہے ہوں تو  بغور سماعت کریں ، جس سے بچوں کو حوصلہ ملے گا اور ان کے اعتماد میں اضافہ ہوگا۔

15- گھر میں ایک دوسرے کی امامت پر ہمت افزائی کرنا:
گھر میں جب سب بچے اور ان کے پڑوسی دوست واحباب جمع ہوں تو سب کو ایک ساتھ نماز پڑھنے  کی ترغیب دینا اور ان میں سے جو قرآن کریم اچھا پڑھتا ہو اسے امام بنانا، یہ عمل بچوں میں حفظ قرآن کا جذبہ پیدا کرنے میں معاون ثابت ہوگا۔
16- گھر میں قرآن کریم کی ہفت وار مجلس کا اہتمام:
خاندان کے تمام افراد کو گھرمیں ہفت وار قرآن کریم کی مجلس میں ایک دوسرے کا تعاون کرنا چاہیے، اور اس مجلس میں پورے شوق اور احترام کے ساتھ شرکت کریں تاکہ یہ مجالس گھر کے بچوں کو حفظ قرآن کریم قرآن سے لگاو میں ترغیب کا ذریعہ بن جائے۔
17۔مسجد کے حلقے  میں شرکت :
والدین اپنے بچوں کو قریبی مسجد کے تعلیمی حلقوں میں بیٹھنے کی ترغیب دیں، بچوں کی زندگی میں ان حلقوں کی بے پناہ اہمیت ہے، کیونکہ ان حلقوں کے ذریعے ہی بچے اپنے ہم جماعت طلباء کے ساتھ مقابلہ  کے لیے تیار ہوتے، اور ان حلقوں میں بچے تجوید وقراءت میں بھی مہارت حاصل کرسکتے ہیں۔

18-: آسان لغتوں میں قرآن کے الفاظ کے معانی تلاش کرنے پر ہمت افزائی کرنا:
اس کی وجہ سے بچوں کے قرآنی الفاظ کے ذخیرے میں اضافہ ہوگا جو ان کے حفظ قرآن کریم میں معاون ثابت ہوگا۔
19- بچوں کو تفسیر کی  آسان کتابوں کے مطالعہ کی ترغیب دینا:
قرآن مجید کی ایک ایک  آیت کی تفسیر کا علم بچے کو حفظ کرنے پر آمادہ کرے گا، خصوصا قرآن مجید میں قصوں والی آیات اور چھوٹی چھوٹی سورتوں کی تفسیر کے مطالعہ پر توجہ دی جائے۔
20۔ علم کی محفلیں بچوں کے لیے قرآن کریم کی طرف راہیں ہموار کرتی ہیں۔
کتنے بچوں کے واقعات سامنے آئے ہیں جنھوں نے اپنے والدین کے ساتھہ علمی محفلوں میں شرکت کی، حالانکہ قرآن کریم سے ان کا کوئی تعلق نہیں تھا، لیکن صرف محفلوں میں شرکت نے ان بچوں کے ذہنوں میں قرآن سے متعلق سوالات پیدا کیے، اوران کو والدین کے ساتھ قرآن محفلوں سے متعلق بات چیت کرنے پر آمادہ کیا، یہی سوالات وجوابات کے نتیجے میں وہ بچے علم وفن کے عظیم درجات تک پہنچ گئے۔
21- بچے کی زندگی میں قرآنی اصطلاحات کو بار بار دہرانا:
اگر ہم بچے کو تقوی سے متعلق یاد دہانی کرائیں تو قرآنی ﴿ إِنَّ اللَّهَ مَعَ الَّذِينَ اتَّقَوْا ﴾ [النحل: 128] (یقین مانو کہ اللہ تعالیٰ پرہیزگاروں اور نیک کاروں کے ساتھ ہے )پڑھ کر اس کی رہنمائی کرے، اگر والدین کی اطاعت سے متعلق انھیں یاد دہانی کراونا ہو تو قرآنی آیت ﴿ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا ﴾ [البقرة: 83]، (اور والدین کے ساتھہ حسن سلوک سے پیش آو)پڑھ کر ان کی یومیہ زندگی میں خیر ورشد کی جانب رہنمائی کرتے رہیں۔
بچہ کے حفظ قرآن کریم میں معاون بعض ہدایات:
·       شدت اور سختی کی بجائے ترغیب اور شوق پیدا کرنا
·       ہمت افزائی اور حوصلہ کے لیے انعام دینا
·       دیگر بچوں کے ساتھ شریفانہ مقابلہ اور اجتماعی تعلیم
·       قرآن میں ہی سے اور قرآن ہی کے ذریعے تعلیم کا آغاز
·       مسلسل صبر اور استقامت
·       مسلسل دعاوں کا اہتمام


[1] فضيلة الشيخ الدكتور محمد راتب النابلسي، "تربية الأولاد في الإسلام": الدرس (2: 30) التربية الإيمانية، على الرابط:http://www.nabulsi.com/tarbya/awlad/awlad-2.html