منگل، 9 جولائی، 2013

مومنین کے گھر کیسے ہوں؟

0 تبصرے

ترجمہ: مبصرالرحمن قاسمی

مومنین کے گھر کیسے ہوں؟

گھر اللہ تعالیٰ کی عظیم نعمتوں میں سے ایک نعمت ہے،گھر کی دولت سے انسان بیشمار فوائد حاصل کرتا ہے، اسے جہاں راحت وآرام حاصل ہوتا ہے وہیں یہ گھر دھوپ، گرمی، سردی اور بارش وغیرہ سے  حفاظت کا ذریعہ بنتا ہے، گھر اس کے کھانے اور سونے کی جگہ ہوتا ہے ، گھر میں وہ اپنے اہل وعیال کے ساتھ رہ کر راحتِ نفس حاصل کرتا ہے ، اسی میں اپنی جنسی ضروریات کی تکمیل کرتا ہے۔تاہم بندۂ مومن  کے لئے گھر جہاں فطری ضروریات کی تکمیل کا ذریعہ ہے وہیں یہ گھر علم ومعرفت کا چراغ، حکمت ودانائی کا سرچشمہ اور  عدل وانصاف کی جگہ اور ایک عظیم انسانی تربیت گاہ ثابت ہوتا ہے ، جہاں نسلیں  تربیت حاصل کرتی ہیں، جہاں سے انسان انسانوں کا رہبر ورہنما بن کر نکلتا ہے، جہاں سے  نوروہدایت کی کرنیں پوری دنیا میں پھیلتی ہیں اور ان کی روشنی میں دنیا کے انسان رہنمائی حاصل کرتے ہیں۔ کتاب وسنت میں گھر کی نعمت کو مختلف انداز سے بیان  کیا گیا  تاکہ انسان اللہ تعالیٰ کی اس نعمت کی قدر کرے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
ترجمہ: " اور اللہ تعالٰی نے تمہارے لئے گھروں میں سکونت کی جگہ بنادی ہے اور اس نے تمہارے لئے چوپایوں کی کھالوں کے گھر بنادیئے ہیں " {النحل:80}۔
فرعون کی بیوی نے دعا کی تھی کہ اللہ تعالیٰ اس کے لئے جنت میں گھر تعمیر کرے، اس دعا کو اللہ تعالیٰ نے مومنین کے لئے بطور مثال بیان فرمایا: ترجمہ: اور مومنوں کے لئے (ایک) مثال (تو) فرعون کی بیوی کی بیان فرمائی کہ اس نے خدا سے التجا کی کہ اے میرے پروردگار میرے لئے بہشت میں اپنے پاس ایک گھر بنا اور مجھے فرعون اور اس کے اعمال (زشت مآل) سے نجات بخش اور ظالم لوگوں کے ہاتھ سے مجھ کو مخلصی عطا فرما۔  (سورة التحريم.11)
گھر کی نعمت  کی قیمت کا اندازہ وہی شخص لگا سکتا ہے  جس کا گھر اجڑ گیا ہو، یا جو جیل کی سلاخوں کے پیچھے اپنی زندگی کے دن کاٹ رہا ہو، یا جو  اپنا گھر بار چھوڑ کر تنِ تنہا دیار ِغیر میں کسبِ معاش کی فکر میں  سرگرداں ہو۔ گھر کی نعمت کا احساس اس سے محروم شخص کو ہی ہوتا ہے ، یہی وجہ ہے کہ آپ ﷺ اس دعا کا اہتمام فرمایا کرتے تھے''حضرت انس بن مالک ؓ روایت کرتے ہیں  کہ نبی کریم ﷺ جب اپنے بستر پر پہنچتے تو فرماتے: الحمد لله الذي أطعمنا وسقانا وكفانا وآوانا وكم ممن لا كافي له ولا مأوى " '' تمام تعریفیں اس اللہ کے لئے ہیں جس نے ہمیں کھلایا ، اور ہمیں پلایا، اور ہمیں کافی ہوگیا، اور ہمیں جگہ دی، پس کتنے لوگ ہیں جنہیں کوئی کفایت کرنے والا ہے اور نہ جگہ دینے والا،،۔[ ترمذی 5 / 470]
بندۂ مومن ہزار مشکلوں اور پریشانیوں کے باوجود   اپنے گھر میں راحت، سکون، چین اور محبت ومودت پاتا ہے، اور اس کی دنیا وی واخروی کامیابی کی پہلی سیڑھی گھر ہی  ہوتی ہے ، اگر گھر ایمانی ماحول سے متاثر ہے تو بندۂ مومن کے لئے دنیاوی واخروی کامیابی کا راستہ آسان ہوجاتا ہے۔
گھر ایک شوہر اور بیوی  کے پاس امانت ہے، لہٰذا شوہر اور بیوی کی اولین ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے  گھرکی بنیادوں کو تقوی، ایمان باللہ اور پرہیزگاری پر رکھے، چونکہ  سعادت مند مومن گھرانہ وہ گھرانہ ہے جس میں قولاً اور فعلاً دین اسلام کے اصولوں اور ضوابط پر عمل کیا جاتا ہو۔
حضرت ابوامامہ  حضرت عقبہ بن  عامر سے روایت کرتے ہیں :وہ کہتے ہیں: میں نے کہا اے اللہ کے رسول نجات کیا ہے؟ آپ نے ارشاد فرمایا: ''اپنی زبان کی حفاظت کرو، گھر کی نعمت پر راضی ہوجاؤ اور اپنی غلطی پر رویا کرو''۔

 مومنوں کے گھروں کی خوبیاں:
۱۔ پاک صاف اور تقوی والے گھر
مومنوں کے گھر اسلامی تعلیمات اور شریعت الہٰی کی دلیل ثابت ہوتے ہیں، یہ گھر عبودیتِ کاملہ اور خلوص وللہیت کے مراکز ہوتےہیں، جن کا شعار تقوی، اخلاص اور خوفِ خدا ہوتا ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے:ترجمہ اور ہم نے موسیٰ اور اس کے بھائی کی طرف وحی بھیجی کہ اپنے لوگوں کے لیے مصر میں گھر بناؤ اور اپنے گھروں کو قبلہ (یعنی مسجدیں) ٹھہراؤ اور نماز پڑھو۔ اور مومنوں کو خوشخبری سنادو ۔[ سورة يونس:87.]
مومن گھرانے اطاعت وفرمانبرداری اور ایمان کے قبلے  اور عبادت وگریہ وزاری کی مساجدہوتے ہیں۔حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے فرماتی ہیں: آپ ﷺ رات میں نماز پڑھا کرتے تھے تو جب وتر پڑھنے لگتے تو فرماتے: ''اے عائشہ اٹھ جاؤ اور وتر پڑھو''  [رواه مسلم ، مسلم بشرح النووي 6/23 .]
اسی طرح ارشاد نبوی ہے: اللہ تعالیٰ اس بندے پر رحم فرمائے جو رات میں بیدار ہو۔ اور نماز پڑھے پھر اپنی بیوی کو بھی بیدار کرے تو وہ بھی نماز پڑھے اگر وہ بیدار ہونے سے انکار کرے تواس کے چہرے پر پانی چھڑکے'' . [رواه أحمد وأبو داود ، صحيح الجامع 3488]
زندوں کے گھر:
جس گھر میں اللہ تعالیٰ کا ذکر ہوتا ہو وہ گھر زندوں کا گھر ہے اور جس گھر میں اللہ تعالیٰ کا ذکر نہ ہوتا ہو وہ گھر مردوں کا گھر شمار کیا جاتا ہے۔حضرت ابوموسی اشعری ؓ روایت کرتے ہیں فرماتے ہیں: نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:اس گھر کی مثال جس میں اللہ کا ذکر کیا جاتا ہو زندہ لوگوں کے گھر کی ہے اور جس میں اللہ کا ذکر نہ کیا جاتا ہو مردہ لوگوں کے گھر کی ہے۔ [مسلم.]
شیاطین سے پاک گھر:
جن گھروں میں تلاوت کلام پاک کا اہتمام ہوتا ہے ، ایسے گھروں میں شیاطین کے لئے کوئی ٹھکانہ نہیں ہوتا ،ارشاد نبوی ہے: اپنے گھروں کو قبرستان نہ بناؤ، بیشک شیطان اس گھر سے راہ فرار اختیار کرتا ہے جس میں سورۂ بقرہ پڑھی جاتی ہو۔ [مسلم]
اور آپ ﷺ کا ارشاد ہے: جب آدمی اپنے گھر میں داخل ہوتا ہے اس وقت اور کھانا کھاتے وقت اللہ تعالیٰ کو یاد کرتا ہے، تو شیطان کہتا ہے: یہاں تمہارے لئے نہ سونے کا موقع ہے اور نہ کھانا کھانے کا، اور اگر آدمی بغیر ذکر کے اپنے گھر میں داخل ہوتا ہے، شیطان کہتا ہے: تمہیں قیام گاہ مل چکی ہے، اور اگر آدمی کھانے کے وقت بھی اللہ کا نام نہیں لیتا ہے تو شیطان کہتا ہے: تم نے قیام گاہ بھی پائی اور کھانا بھی مل گیا،[ رواه الإمام احمد ، المسند 346:3 ،و مسلم 1599:3.]
نیز آپ ﷺ کا ارشاد ہے: جب آدمی اپنے گھر سے  یہ دعا پڑھ کر نکلتا ہے :'' بسم الله ، توكلت على الله ، لا حول ولا قوة إلا بالله ، تو اس سے کہا جاتا ہے تمہارے لئے کافی ہے، تم نے ہدایت پالی، تمہاری لئے کافی ہے اور تم بچ گئے، تو شیطان اس کے پاس سے ہٹ جاتا ہے اور اس شیطان سے دوسرا شیطان کہتا ہے: اس آدمی کے ساتھ تیرا کیا معاملہ رہا، وہ تو ہدایت پاگیا، اور اس کے لئے کافی ہوگیا اور وہ بچ گیا؟ [رواه أبو داود والترمذي ، وهو في صحيح الجامع رقم 499 .]
خیروبرکت والے گھر:
جس گھر میں تلاوت کلام پاک کا اہتمام کیا جاتا ہو تو ایسے گھروں میں خیروبرکت کا نزول ہوتا ہے، حضرت ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں:جس گھر میں تلاوت کلام پاک کی جاتی ہو، تو اس کے رہنے والوں کے لئے (وہ گھر) کشادہ ہوجاتا ہے، گھر میں خیروبرکت کا اضافہ ہوتا ہے، فرشتے اس گھر میں تشریف لاتے ہیں، اورشیاطین ایسے گھر سے نکل جاتے ہیں اور جس گھر میں تلاوت کلام پاک کا اہتمام نہ کیا جاتا ہو تو( ایسا گھر )اس کے رہنے والوں پر تنگ ہوجاتا ہے، خیروبرکت میں کمی کردی جاتی ہے، فرشتے( ایسے گھر) کو خیر باد کہتے ہیں اور شیاطین اپنا ٹھکانہ بنادیتے ہیں۔
عابدوں اوراللہ تعالیٰ سے ڈرنے والوں کے گھر:
صاحب احیاء علوم الدین ربیع بن خیثم کا ان کے گھر میں حال نقل کرتے ہیں کہ ربیع بن خیثم کی بیٹی ربیع بن خیثم سے کہتی: ابو جان تمام لوگ سوجایا کرتے ہیں اور آپ سوتے نہیں، ربیع اپنی بیٹی سے کہتے: اومیری بیٹی: آپ کے باپ کو رات میں ہونے والے حملے سے خوف ہے۔ جب ربیع کی والدہ اپنے بیٹے کو گڑگڑاتے ہوئے دیکھتی تو کہتی بیٹا کیا تم نے کسی کو قتل کردیا ہیں؟ وہ کہتے ہیں ہاں امی جان۔ والدہ کہتی: بھلا  آپ نے کسے قتل کیا ، ہم اس کے گھر والوں سے معافی کا مطالبہ کریں گے، بخدا اگر مقتول کے اہل والے تمہاری حالت کو دیکھ لیں تو وہ ضرور تمہیں معاف کردیں گے، ربیع کہتے: امی جان مقتول میرا نفس ہی ہے۔ [إحياء علوم الدين 4/410]
حضرت عمرؓ حسب معمول ایک رات  گھومتے گھومتے ایک گھر کے پاس سے گزرے۔صبح کا وقت قر یب تھا ،اذان ہو نے والی تھی۔ایک بڑھیا اپنی بیٹی سے کہہ رہی تھی بیٹی دودھ میں پانی ملا دو تاکہ زیادہ فائدہ ہوسکے۔بیٹی سمجھدار تھی اس نے کہا خلیفہ کا حکم ہے ،میں تو نہیں ملا تی۔بڑھیا نے کہا کونسا عمر رضی اللہ عنہ دیکھ رہا ہے۔ملا دے نا! کیو نکہ عمر رضی اللہ عنہ کا بہت رعب تھا۔لڑکی نے کہا: ہاں عمر رضی اللہ عنہ تو نہیں دیکھ رہا مگر عمر رضی اللہ عنہ کا ا ﷲ تو دیکھ رہا ہے۔وہ عالم الغیب،احکم الحاکمین اور رب العالمین دیکھ رہا ہے۔
صبروتحمل کے اعلی نمونے:
حضرت انسؓ اپنی والدہ محترمہ حضرت ام سلیم کے بارے میں ایمان افروز واقعہ بیان کرتے ہیں۔کہتے ہیں کہ حضرت ابوطلحہ کی جانب سے میرا ایک چھوٹا بھائی تھا جس کی کنیت ابوعمیر تھی ، نبی کریم ﷺ بڑے شفقت بھرے انداز میں اسے خوش کرنے کے لئے فرمایا کرتے تھے: (یا ابا عمیر ما فعل النغیر) '' اے ابوعمیر تیری چڑیا کا کیا بنا''۔
ایک دفعہ ایسا ہوا کہ ابوطلحہؓ سفر پر تھے، چھوٹا بھائی ابوعمیر بیمار ہوا اور فوت ہوگیا۔امی جان نے صبر وتحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسے چار پائی پر لٹایا اور اسے چادر سے ڈھانپ دیا، امی جان نے سب سے کہہ دیا کہ ابوطلحہ کو بیٹے کی وفات کے بارے میں نہ بتانا، ابوطلحہ گھر تشریف لائے بیٹے کا پوچھا انہیں بتایا کہ پہلے سے زیادہ سکون میسر ہے پھر ان کی خدمت میں کھانا پیش کیا گیا، انہوں نے کھانا تناول کیا ، انہیں سفر کی تھکان اتارنے کے پورے مواقع فراہم کیے گئے، جب امی جان نے دیکھا کہ ہر طرح سے وہ خوش وخرم ہیں تو ان سے پوچھا ابوطلحہ مجھے ایک بات بتائیں۔ اگر کوئی امانت رکھنے والا اپنی چیز کی واپسی کا مطالبہ کردے لیکن جس کے پاس امانت رکھی گئی ہے وہ واپس کرنے کبیدہ خاطر ہو۔ اس کا دل نہیں چاہتا کہ امانت واپس کی جائے۔ آپ کے نزدیک اس کا یہ رویہ کیسا ہے؟۔ ابوطلحہ نے کہا: مطالبے پر اسے امانت فوری طور پر واپس کردینی چاہیے، امانت واپس کرتے ہوئے کبیدہ خاطر ہونا تو سراسر ناانصافی ہے۔ یہ جواب سنتے ہی اپنے خاوند ابوطلحہ سے کہا: دیکھئے یہ بیٹا ہمارے پاس اللہ تعالیٰ کی امانت تھی اس نے واپس لے لی۔یہ اندوہناک خبر سنتے ہی انا للہ وانا الیہ راجعون کہا:۔ کہنے لگے تونے مجھے پہلے بتادیا ہوتا!صبح ہوئی  مسجد نبوی میں گئے رسول اللہ ﷺ نے ابوطلحہ کو دیکھتے ہی فرمایا، اللہ تعالیٰ نے تمہاری اس رات کو بابرکت بنادیا، اس شپ بسری کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ نے بیٹا عطا کیا ، رسول اللہ ﷺ نے اپنے دست مبارک سے اسے گھڑتی دی اور اس کا نام عبداللہ رکھا۔(الطبقات: /431.4328)
اپنے لخت جگر ابوعمیر کی وفات کا صدمہ صبروتحمل سے برداشت کیا تو اللہ تعالیٰ نے اس کا نعم البدل عبداللہ کی صورت میں عطا کیا، جس کے سارے بیٹے قرآن وحدیث کے حافظ اور علوم دینیہ کے ماہر تھے۔
علم وادب والے گھر:
حضرت سعید بن مسیب کو سید التابعین ہونے کا شرف حاصل ہے، علم وفقہ کے امام سمجھے جاتے تھے، آپ کی ایک بیٹی تھی، جو اپنی خوبصورتی کے ساتھ ساتھ اپنے زمانے کی خواتین میں کتاب وسنت کا سب سے زیادہ علم رکھنے والی تھی، جسے اموی خلیفہ عبدالملک بن مروان نے اپنے بیٹے ولید کے لئے رشتہ بھیجا، لیکن سعید بن مسیب نے اس رشتہ کو ٹھکرادیا اور اپنی بیٹی کا نکاح اپنے ایک شاگرد کثیر بن ابو وداعہ سے کیا، جوایک فقیر ومسکین انسان تھا،آپ نے اسے خرچ کے لئے پانچ ہزار دینار بھی عطا کیے، جب صبح ہوئی تو ابووداعہ حسب معمول سعید بن مسیب کے حلقہ درس میں شرکت کے ارادے سے نکلے، تو ان کی بیوی نے کہا: کہاں کا ارادہ ہے؟ ابو دواعہ نے کہا: سعید بن مسیب کے حلقہ درس میں تعلیم حاصل کرنے کے لئے جارہاہوں۔ بیوی نے کہا: تشریف رکھیے میں آپ کو سعید کا علم سکھاتی ہوں، ابووداعہ بیٹھ گئے اور سعید بن مسیب کی بیٹی نے اپنے شوہر کو اپنے باپ کا علم سکھایا۔ [الذهبي في سير أعلام النبلاء (4/233]
رحم وکرم اور ہمدردی ومہربانی والے گھر:
اہل ایمان کے گھر رحم وکرم اورہمدردی ومہربانی کے اعلی نمونے ہوتے ہیں۔ جہاں ہر شخص کو اس کا حق ملتا ہے، اور ظلم وزیادتی سے مومنین کے گھر پاک ہوتے ہیں۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: (لوگو) تمہارے پاس تم ہی میں سے ایک پیغمبر آئے ہیں۔ تمہاری تکلیف ان کو گراں معلوم ہوتی ہے اور تمہاری بھلائی کے خواہش مند ہیں اور مومنوں پر نہایت شفقت کرنے والے (اور) مہربان ہیں۔ [سورة التوبہ128] نیز ارشاد باری تعالیٰ ہے: اور (اے محمدﷺ) ہم نے تم کو تمام جہان کے لئے رحمت (بنا کر) بھیجا ہے  [سورة الأنبياء107]
نیز آپ ﷺ کا ارشاد ہے: تم ہرگز مومن نہیں ہوسکتے یہانتک کہ ایک دوسرے پر رحم کرو، صحابہ نے کہا: اے اللہ کے رسول، ہم سب رحم کرنے والے ہیں، آپ نے ارشاد فرمایا: رحم یہ نہیں ہے کہ تم صرف اپنے ساتھی پر رحم کرو، بلکہ رحم یہ ہے کہ تم ہر شخص پر رحم کرو۔ [رواه الطبراني ورجاله ثقات.] اور حضرت جریر بن عبداللہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: جو رحم نہیں کرتا اس پر رحم نہیں کیاجاتا۔ نیز آپ ﷺ کا ارشاد ہے: ''تم زمین والوں پر رحم کرو، آسمان والا تم پر رحم کرے گا'' [ابوداؤد، ترمذی]
آپ ﷺ نے ایک مرتبہ حضرت حسن اور حضرت حسین کا بوسہ لیا، اس وقت آپ ﷺ کے پاس اقرع بن حابس موجود تھا، اس نے کہا: میرے دس بیٹے ہیں، لیکن میں نے ان میں سے کسی کا کبھی بوسہ نہیں لیا،آپ ﷺ نے اس کی جانب  دیکھا اور ارشاد فرمایا: جو رحم نہیں کرتا اس پر رحم نہیں کیاجاتا(بروایت حضرت عائشہ، حضرت ابوہریرہؓ)
آپ ﷺ کے پاس ایک آدمی آیا اور دریافت کرنے لگا: میں اپنے خادم کو کتنے بار معاف کرسکتا ہوں؟ آپ نے ارشاد فرمایا: ''ہر روز ستر دفعہ''[ابوداؤد]
ذمہ داری کا احساس رکھنے والے گھر:
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ روایت کرتے ہیں کہ میں نے نبی کریم ﷺ کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا: خبردار تم میں سے ہر ایک نگہبان ہے
اور ہر ایک سے اس کی رعایا کے متعلق سوال کیا جائے گا،پس امام جو کہ لوگوں پر نگہبان ہے ، اس سے اس کی رعایا کے بارے میں پوچھا جائے گا،مرد اپنے گھر والوں کا نگہبان ہے اور اس سے اس کی رعایا کے متعلق سوال ہوگا،اور عورت اپنے شوہر کے گھر والوں اور اس کے بچوں کی نگہبان ہے ، اور اس سے ان کے بارے میں سوال ہوگا،کسی شخص کا غلام اپنے آقا کے مال کا نگہبان ہے اور اس سے اس کے متعلق پوچھا جائے گا۔،آگاہ ہو جاؤ پس تم میں سے ہر ایک نگہبان ہے اور ہر ایک سے اس کی رعایا کے متعلق پرسش ہوگی۔(صحیح بخاری ، کتاب الاحکام)
حاصل کلام یہ کہ معاشرے میں ہمارے گھر ہر اعتبار سے اعلی نمونے ثابت ہونا چاہیے، اوراقوام عالم بھی ایسی ہی مثالوں کی تلاش میں سرگرداں ہیں، بخدا، دنیا میں ایسے گھروں کی مثال اگر کسی قوم کے پاس ہے تو وہ صرف اور صرف دین اسلام کے ماننے والوں کے پاس ہے، ضرورت ہے کہ ہر مسلمان سب سے پہلے اپنے گھر کو مومنین کا گھر بنانے کی فکر میں لگ جائے،ہمارے گھر پاکی وصفائی ،علم وہنر اور امن وآشتی کے گہوارے ہوں،رحم وکرم،امانت ودیانت داری اور صبر وتحمل ہمارے گھروں کی نمایاں خوبیاں ہوں اور نماز،ذکر اور تلاوت کلام پاک سے ہمارے گھر ہمہ وقت  منور ہوں۔