بدھ، 7 اگست، 2013

مسجد کی اہمیت اور میدان تعلیم میں اس کا کردار

1 تبصرے

ترجمہ: مبصرالرحمن قاسمی

مسجد کی اہمیت اور میدان تعلیم میں اس کا کردار

مسلم معاشرہ میں تعلیم کی تاریخ کا مسجد سے گہرا ربط وتعلق ہے، بلکہ ابتدائے اسلام سے ہی ثقافت اسلامیہ کی نشر واشاعت اور تبلیغ میں مسجد کا کلیدی کردار رہا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد نبوی کو درس وتدریس کی جگہ مقرر کی تھی، جہاں صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین جمع ہوتے تھے اور قرآن کریم سیکھتے سکھاتے تھے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم انھیں دین کے احکام سکھاتے تھے، عہد خلفاء میں بھی مسجد نے اپنا تعلیمی مشن جاری رکھا، عہد اموی اور عہد عباسی میں بھی مسجد نے عظیم درسگاہ کا کردار ادا کیا۔ مسجد وہ مقام ہے جہاں محدثین اور مفسرین نے کلام اللہ کی تفسیر وتشریح کے فرائض انجام دیئے، جہاں محدثین نے احادیث رسول کی روایات بیان کیں، مسجد دمشق ایک وقت میں دنیا کا ثقافتی مرکز رہی، جہاں علمی حلقے منعقد ہوتے تھے، جس کے متعدد زاویوں میں طلباء اپنی علمی پیاس بجھاتے تھے، خطیب بغدادی کا مسجد دمشق میں ایک عظیم علمی حلقہ لگتا تھا، جس میں دنیا کے گوشوں سے آئے ہوئے طلباء دکھائی دیتے تھے۔

مساجد کے علمی حلقے:

عہد صحابہ میں مسجد نبوی میں علمی حلقے لگتے تھے، مکحول ایک شخص سے روایت کرتے ہوئے کہتے ہیں: ہم مسجد نبوی میں حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے حلقے میں بیٹھے ہوئے تھے اور قرآن کریم کے فضائل کا مذاکرہ کررہے تھے۔

مسجد نبوی میں حضرت ابوہریرہ کا بھی علمی حلقہ لگتا تھا، حضرت ابوہریرہ حدیث رسول کا درس دیتے تھے، یہ حلقہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے وسعت حفظ اور قوت حافظہ کا عکاس تھا، ایک مرتبہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس ایک شخص آیا اور کہنے لگا: میں مدینہ گیا تھا، میں نے مسجد میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو دیکھا، ان کے اردگرد لوگ حلقہ لگائے ہوئے تھے، وہ انھیں حدیث رسول بیان کررہے تھے، وہ کہہ رہے تھے: مجھ سے میرے خلیل ابوالقاسم نے بیان کیا، اس کے بعد وہ ۔۔۔ثم استعبر، فبکی ثم عاد، فقال: حدثنی خلیلی نبی اللہ ابوالقاسم ثم استعبر، فبکی ثم قام

ابواسحاق السبیعی؛ صحابی جلیل براء بن عازب کی مجلس میں علمی حلقے کے نظم ونسق کو بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں: ہم براء رضی اللہ عنہ کے پاس ایک کے پیچھے ایک بیٹھے ہوئے تھے 6 ابواسحاق کی یہ بات حضرت براء بن عازب کے حلقے کی وسعت کی جانب بھی اشارہ کرتی ہے، عہد صحابہ میں مسجد نبوی کے مشہور علمی حلقوں میں حضرت جابر بن عبداللہ الانصاری کا حلقہ بھی قابل ذکر ہے۔

ادھر مسجد دمشق میں عہد صحابہ کا مشہور حلقہ حضرت معاذ بن جبل سنبھالے ہوئے تھے، ابوادریس الخولانی اس حلقے کی منظر کشی کرتے ہوئے فرماتے ہیں: میں مسجد دمشق میں داخل ہوا، تو میری نظر ایک نوجوان پر پڑی جس کے اگلے دو دانت چمک رہے تھے، جو خاموش اور پرسکون انداز میں بیٹھا ہوا تھا، اس کے اطراف لوگ دائرہ بنائے ہوئے علمی موشگافیوں کو حل کررہے تھے، جب ان کے درمیان کسی بات پر اختلاف ہوتا تو وہ سب اس نوجوان کی جانب رجوع ہوتے اور اپنے مسئلے کو حل کرتے، میں نے اس شخص سے متعلق دریافت کیا تو معلوم ہوا کہ وہ معاذ بن جبل ہیں۔

اس زمانے میں مساجد کے علمی حلقے موجودہ دور کے اعلی تعلیمی نظام کی حیثیت رکھتے تھے، اس دور میں اسلامی معاشرہ کا ہر فرد علم کا شوقین دکھائی دیتا تھا، حتی کہ مجتہدین، علماء اور قوم کے سرکردہ اشخصاص بھی اپنے آپ کو ان علمی حلقوں سے وابستہ رکھتے تھے، یہی وجہ ہے کہ ابن کثیر نے بیان کیا کہ علی بن حسین جب مسجد میں داخل ہوتے تھے تو لوگ زید بن اسلم کے حلقے میں بیٹھنے کے لیے لوگوں کی گردنوں کو پھاندتے ہوئے حلقہ میں بیٹھتے تھے، اس موقع پر نافع بن جبیر بن مطعم نے حضرت علی بن حسین سے کہا: اللہ آپ کی مغفرت کرے، آپ تو لوگوں کے سردار ہیں، آپ تو قریش ہیں، اور آپ اس کالے غلام کے ساتھہ بیٹھ رہے ہیں؟ علی بن حسین نے کہا: آدمی وہیں بیٹھتا ہے جہاں اسے نفع حاصل ہوتا ہے اور علم جہاں بھی ہو حاصل کیا جانا چاہیے۔ 9

دور صحابہ کے مشہور علمی حلقے:

تاریخ اسلام میں بے شمار علمی حلقوں کو شہرت حاصل ہے، تاہم دور صحابہ میں سب سے زیادہ مشہور علمی حلقہ حبر الامہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کا تھا، جب آپ کی وفات ہوئی تو حضرت عطاء بن ابی رباح اس حلقے کے روح رواں تھے۔ ان حلقوں میں معلم کی عمر کا کوئی اعتبار نہیں تھا، بلکہ معلم کی بصیرت، اس کے علم کی گہرائی وگیرائی اور پختگی کو دیکھا جاتا تھا، مورخ حافظ الفسوی نے اس دور کے مساجد کے حلقوں سے متعلق لکھا ہے کہ میں نے مسجد حرام میں ایک علمی حلقہ دیکھا جس میں مسلم بن یسار درس رہے تھے، اور وہ درس میں شریک تمام متعلمین میں سب سے کم عمر تھے۔

دور صحابہ میں مسجد رسول میں مشہور حلقہ نافع بن عبدالرحمن القاری کا لگتا تھا، جہاں کتاب اللہ اور حدیث رسول کا درس ہوتا تھا، نافع کے حلقے میں دنیا کے گوشے گوشے سے طلباء استفادے کے لیے آتے تھے، امام ورش مصری مسجد نبوی میں امام نافع کے حلقے سے متعلق اپنا تجربہ بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں، میں نے امام نافع سے علم حاصل کرنے کے لیے مصر سے رخت سفر باندھا اور مدینہ منورہ پہنچا، مدینہ میں مسجد نافع میں حاضر ہوا تو نافع کے حلقے میں طلباء کا ایک ہجوم تھا اورنافع کو سبق سنانا طلباء کی کثرت کی وجہ سے ناممکن تھا، تو میں حلقہ کے پیچھے بیٹھ گیا، اور وہاں موجود ایک طالب علم سے پوچھا کہ نافع کے نزدیک سب سے زیادہ بڑا کون ہے؟ تو اس نے کہا: کہ کبیرالجعفریین، میں نے کہا وہ کیسے؟ اس نے کہا: میں آپ کو اس کے گھر لے چلتا ہوں، لہذا ہم دونوں اس کے گھر پہنچے تو ایک بزرگ باہر نکلے، میں نے کہا: مصر سے آیا ہوں، تاکہ نافع سے علم حاصل کروں لیکن ان تک پہنچنا مشکل ہورہا ہے، مجھے بتایا گیا ہے کی آپ نافع کے نزدیک قابل اعتبار ہو، لہذا میں چاہتا ہوں کہ اس کام میں آپ میرے لیے واسطہ بنیئے، بزرگ نے کہا: ٹھیک ہے، ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (جاری)



 

روح گئی روح آئی

0 تبصرے

روح گئی روح آئی

34 سالہ شیخ طلال خوبرو، نیک وصالح ،کم گو، منکسرالمزاج باجماعت نمازوں کا پابند اور کثرت سے قرآن کریم کی تلاوت کرنے والا ایک کویتی نوجوان تھا، شیخ طلال ہمارے امام صاحب شیخ نواف کے حقیقی بھائی تھے، جس کی وجہ سے موصوف کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا، شیخ نواف/ کویت کی مسجد حبیب المناور میں امام ہیں، یہ مسجد امام صاحب کے والد حبیب المناور نے ہی تعمیر کی، یہ خاندان کویت کے متمول گھرانوں میں سے ایک ہے، شیخ نواف کے بھائی شِیخ طلال کویتی فوج میں اعلی عہدے پر ملازم تھے، ساتھ ہی قرآن کریم سے لگاو کی وجہ سے عربی زبان میں مہارت کے لیے اردن کے کسی جامعہ میں اعلی تعلیم حاصل کررہے تھے۔

رمضان المبارک کے عشرے اولی میں شیخ طلال نے اپنی اہلیہ کو میکے روانہ کرکے تعلیمی غرض سے اردن کے لیے روانہ ہوے، اردن میں ایئرپورٹ سے ابھی کچھ ہی فاصلے دور اپنی منزل کی جانب بڑھے تھے کہ ملک الموت نے ایک حادثے کی شکل میں ان کی روح قبض کرلی اور شیخ طلال روزے کی حالت میں وقت افطار سے کچھ ہی پہلے اس جہان فانی سے چل بسے۔۔ انا للہ وانا الیہ راجعون

ادھر کویت میں تیسرے دن ان کی تدفین کے لیے گھر سے ان کا جنازہ اٹھ رہا تھا اور طلال کے گھر ایک ننھی بیٹی جنم لے رہی تھی۔۔۔۔۔۔۔ 15 بھائیوں اور والد نے طلال کی بیٹی کا نام  جنّہ رکھا۔۔۔۔۔۔۔ جنّہ اب اپنے باپ کو جنت میں ہی دیکھی گی، اور باپ اپنے دو بیٹوں کے بعد عطا ہونے والی اللہ کی نعمت جنۃ سے جنت میں ہی ملاقات کرسکے گا۔ للہ ما اخذ ولہ ما اعطی وکل شیء عندہ باجل مسمی