پیر، 21 اکتوبر، 2013

Amanat ki Ahmiyat

0 تبصرے
اخلاق مسلم اور امانت
فتح مکہ کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مسجد حرام میں داخل ہوئے ،کعبہ کا طواف فرمایا، طواف ہونے کے بعدکلیدبردارکعبہ عثمان بن طلحہ  کو بلایا، اور ان سے کعبہ کی چابی لے کر کعبہ بھی فتح کرلیا، پھر آپ ﷺ کعبۃ اللہ میں داخل ہوئے اور کعبہ کے دروازے پر کھڑے ہوکر فرمایا:
لا إله إلا الله وحده، صدق وعده، ونصر عبده وهزم الأحزاب وحده.
پھر آپ بیٹھ گئے،علی بن بن طالب کھڑے ہوئے، اور کہا: اے اللہ کے رسول،حجاج کو پانی پلانے اور کعبۃ اللہ کی چابی کی ذمہ داری ہمیں سونپ دیجیئے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عثمان بن طلحہ کہاں ہے؟ انہیں بلایا گیا، وہ آئے ، آپ نے فرمایا: عثمان! یہ لیجیئے تمہاری چابی، آج نیکی اور وفاداری کا دن ہے۔[سیرت ابن ہشام] اسی اثناء آیت قرآنی نازل ہوئی:
إِنَّ اللّهَ يَأْمُرُكُمْ أَن تُؤدُّواْ الأَمَانَاتِ إِلَى أَهْلِهَا].النساء: 58[
’’اللہ تم کو حکم دیتا ہے کہ امانت والوں کی امانتیں ان کے حوالے کردیا کرو‘‘
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حجاج کو پانی پلانے اور کلید کعبہ کی ذمہ داری اللہ کے حکم پر عمل کرتے  ہوئے اہل امانت کے سپرد فرمائی اور حضرت علی کو اس سے دور رکھا۔
امانت کیا ہے؟
حقوق کی ادائیگی اور ان کی حفاظت کرنا امانت ہے، لہٰذا مسلمان ہر حقدار کا حق ادا کرتا ہے، اللہ کا حق عبادت کے ذریعے ادا کرتا ہے اور اپنے اعضاء کو حرام سے بچاتا ہے۔
امانت اسلام کا بہترین خلق ہے، امانت اسلام کی بنیاد ہے، یہ ایک عظیم فریضہ ہے جسے انسان نے اٹھایا ہے، جبکہ اسی فریضہ کو سنبھالنے سے آسمان وزمین اور پہاڑوں نے اس کے بوجھ اور عظمت کی وجہ سے انکار کردیا ، فرمان باری تعالیٰ ہے:
إِنَّا عَرَضْنَا الْأَمَانَةَ عَلَى السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَالْجِبَالِ فَأَبَيْنَ أَن يَحْمِلْنَهَا وَأَشْفَقْنَ مِنْهَا وَحَمَلَهَا الْإِنسَانُ إِنَّهُ كَانَ ظَلُوماً جَهُولاً[الأحزاب: 72]
’’ہم نے بارِ امانت کو آسمانوں اور زمین اور پہاڑوں پر پیش کیا تو انہوں نے اس کے اٹھانے سے انکار کیا اور اس سے ڈر گئے اور انسان نے اس کو اٹھالیا، بیشک وہ بڑا ظالم اور بڑا جاہل ہے۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے ہمیں امانتوں کے ادا کرنے کا حکم دیا ہے، ارشاد ربانی ہے:
إِنَّ اللّهَ يَأْمُرُكُمْ أَن تُؤدُّواْ الأَمَانَاتِ إِلَى أَهْلِهَا] النساء: 58]
’’اللہ تم کو حکم دیتا ہے کہ امانت والوں کی امانتیں ان کے حوالے کردیا کرو‘‘
اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انسان کے ایمان اور اخلاق کی دلیل امانت قرار دی ہے، فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔
لا إيمان لمن لا أمانة له، ولا دين لمن لا عهد له» ]أحمد[
’’اس کا ایمان نہیں جسے امانت کا پاس ولحاظ نہیں، اور اس کا دین نہیں جس کے پاس عہدوپیمان کا پاس ولحاظ نہیں۔‘‘
امانت کی قسمیں:
امانت کی بہت ساری قسمیں ہیں، جن میں سے چند یہ ہیں:
عبادات میں امانت:
عبادات میں امانت یہ ہےکہ انسان دین کے تمام فرائض کو کما حقہ ادا کرے، نماز، روزہ، والدین کی فرمانبرداری اور دیگر وہ فرائض اور واجبات جو ہم پر ضروری ہیں اللہ کی امانت سمجھ کر انہیں سرانجام دے۔
اعضاء وجوارح کی حفاظت کرنا امانت ہے:
مسلمان پر ضروری ہے کہ اس کے سارے اعضاء اس کے پاس امانت ہے، لہٰذا ان کی حفاظت ضروری ہے، اپنے اعضاء کو ان چیزوں میں استعمال نہ کرے جس سے اللہ ناراض ہوتا ہو،آنکھ امانت ہے، ضروری ہے کہ اسے ناجائز چیزوں پر ڈالنے سے بچائے، کان امانت ہے، ضروری ہے کہ حرام سننے سے اس کی حفاظت کرے، ہاتھ امانت ہے، پیر امانت ہے اور اسی طرح دیگر تمام اعضاء امانت ہیں۔
مال اور چیزوں میں امانت:
رقومات اور چیزوں کی حفاظت کرنا، اور انہیں ان کے مالکوں تک جب وہ طلب کرےاپنی اصل حالت میں پہنچانابھی امانت میں شامل ہے، جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مشرکین کے ساتھ کیا ، مشرکین اپنی اشیاء آپ کےپاس بطور امانت رکھا کرتے تھے، یہی وجہ ہے کہ آپ ﷺ اہل مکہ کے درمیان صدق وامانت میں مشہور تھے، اہل مکہ آپ کو صادق وامین کے لقب سے پکارتے تھے، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ سے مدینہ ہجرت فرمائی، تو حضرت علی بن ابی طالب کو مشرکین کے سامان اور امانتوں کا ذمہ دار بنایا  تھا۔
کام میں امانت:
یہ امانت میں شامل ہے کہ انسان اپنی ذمہ داری کو بخوبی انجام دے، لہٰذا ایک مزدور کو اپنا کام بحسن وخوبی اور امانت سمجھ کر انجام دینا چاہیے، طالب علم کو اپنے فرائض بخوبی سرانجام دینا چاہیے، علم کی تحصیل میں محنت کرنا چاہیے، اور اپنے والدین کے بوجھ کو ہلکا کرنے کی کوشش کرنا چاہیے۔
بات چیت اور کلام میں امانت:
یہ امانت میں شامل ہے کہ مسلمان اچھی بات کرے، زبان سے نکلنےوالے الفاظ کی اہمیت اور قدر کو جانے، چونکہ ایک ہی کلمہ بسا اوقات انسان کو جنت میں داخل کردیتا ہے اور اس کے بدولت وہ متقین میں شامل ہوجاتا ہے، جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:  
أَلَمْ تَرَ كَيْفَ ضَرَبَ اللّهُ مَثَلاً كَلِمَةً طَيِّبَةً كَشَجَرةٍ طَيِّبَةٍ أَصْلُهَا ثَابِتٌ وَفَرْعُهَا فِي السَّمَاء۔ [إبراهيم: 24]
’’کیا تم نے نہیں دیکھا کہ اللہ نے کلمہ طیبہ کی کیسی مثال بیان فرمائی ہے وہ ایسی ہے جیسے پاکیزہ درخت جس کی جڑ مضبوط ہو اور شاخیں آسمان میں پھیلی ہوں۔‘‘
اسی طرح کبھی انسان زبان سے ایسا کفریہ کلمہ ادا کردیتا ہے جس کے باعث وہ جہنم کا مستحق ہوجاتا ہے، اللہ تعالیٰ نے ایسے کلمے کو ناپاک درخت سے تشبیہ دی ہے، ارشاد فرمایا:
وَمَثلُ كَلِمَةٍ خَبِيثَةٍ كَشَجَرَةٍ خَبِيثَةٍ اجْتُثَّتْ مِن فَوْقِ الأَرْضِ مَا لَهَا مِن قَرَارٍ۔ [إبراهيم: 26]
’’اور ناپاک بات یعنی غلط عقیدے کی مثال ناپاک درخت کی سی ہے کہ وہ زمین کے اوپر ہی سے اکھیڑ کر پھینک دیا جائے، اس کو ذرا بھی قرار وثبات نہیں۔‘‘
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کلمہ کی اہمیت اور اس کے اثرات بیان فرمائے:
«إن الرجل لَيتَكَلَّمُ بالكلمة من رضوان الله، ما كان يظن أن تبلغ ما بلغتْ، يكتب الله له بها رضوانه إلى يوم يلقاه، وإن الرجل ليتكلم بالكلمة من سخط الله، ما كان يظن أن تبلغ ما بلغتْ، يكتب الله له بها سخطه إلى يوم يلقاه۔[مالك]
’’ایک آدمی ایک کلمہ اللہ کی رضامندی کا بولتا ہے، اسے نہیں معلوم کہ وہ کہاں تک پہنچے گا، تو اس کلمے کی بناء پر اس کیلئے قیامت تک اللہ کی رضامندی لکھ دی جاتی ہے۔ اسی طرح آدمی اللہ کی ناراضگی کا کوئی کلمہ بولتا ہے، اسے نہیں معلوم کہ وہ کہاں تک پہنچے گا، تو اس کلمے کی وجہ سے اس کیلئے قیامت تک اللہ کی ناراضگی لکھ دی جاتی ہے۔‘‘
مسلمان اچھی اور اللہ سے قریب کرنے والی بات بولتا ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:  والكلمة الطيبة صدقة۔[مسلم]
’’اچھی بات صدقہ ہے‘‘
ذمہ داری امانت ہے:
ہر ذمہ دار انسان کسی نہ کسی چیز کا ذمہ دار ہے، لہٰذا وہ چیز اس کے گلے میں امانت ہے، چاہے وہ حاکم ہو یا محکوم، والد ہو یابیٹا یا پھر وہ مرد ہو یا عورت ، ہر ایک ذمہ دار ہے اور ہر ایک سے اس کے ماتحتوں کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے:
«ألا كلكم راعٍ وكلكم مسئول عن رعيته، فالأمير الذي على الناس راعٍ وهو مسئول عن رعيته، والرجل راعٍ على أهل بيته وهو مسئول عنهم، والمرأة راعية على بيت بعلها (زوجها) وولده وهي مسئولة عنهم، والعبد راع على مال سيده وهو مسئول عنه، ألا فكلكم راع وكلكم مسئول عن رعيته۔[متفق عليه]
’’سنو! تم میں سے ہر ایک ذمہ دار ہے، اور تم میں سے ہر شخص سے اس کے ماتحتوں سے متعلق پوچھا جائے گا، لوگوں کا امیر ذمہ دار ہے اور اس سے اس کے ماتحتوں سے متعلق پوچھا جائے گا، مرد اپنے گھر والوں کا ذمہ دار ہے اور اس سے ان کے متعلق پوچھا جائے گا، عورت اپنے شوہر کے گھر اور اس کے اولاد کی ذمہ دار ہے، اور اس سے ان سے متعلق پوچھا جائے گا، غلام اپنے آقا کے مال کا ذمہ دار ہے اور اس سے اس کے متعلق پوچھا جائے گا، سنو! تم میں سے ہر ایک ذمہ دار ہے اور ہر ایک سے ماتحتوں سے متعلق پوچھ ہوگی۔‘‘
راز کی حفاظت کرنا امانت ہے:
مسلمان اپنے بھائی کے رازوں کی حفاظت کرتا ہے، اس میں خیانت نہیں کرتا، اور اس کے رازوں کو افشاء نہیں کرتا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
إذا حدَّث الرجل بالحديث ثم التفت فهي أمانة۔[أبو داود والترمذي]
’’جب آدمی  بات کرے پھر(بات کے دوران) اپنے آس پاس دیکھے(کہ کوئی سن نہ سکے)، تو اس کی بات امانت ہے‘‘۔
خریدوفروخت میں امانت:
مسلمان کسی کو دھوکہ نہیں دیتا، نہ دھوکہ کھاتا اور نہ خیانت کرتا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک آدمی کے پاس سے گذرے، جو غلہ بیچ رہا تھا، آپ نے اپنا ہاتھ غلہ کے ڈھیر میں ڈالا، تو آپ نے اسے گیلا پایا، آپ نے فرمایا: یہ کیا ہے، اے غلہ والے؟ اس آدمی نے کہا: اے اللہ کے رسول بارش ہوئی، اس لیے، تو آپ نے فرمایا: تم نے اسے اوپر کیوں نہیں کیا کہ لوگ دیکھ لیں؟ جس نے دھوکہ دیا وہ ہم سے نہیں‘‘۔ [مسلم]
امانت کی فضیلت:
جب لوگ امانت کا خیال رکھیں گے، خیر کے دروازے کھلیں گے، محبت عام ہوگی، اللہ تعالیٰ نے اپنے  ان مومن بندوں کی تعریف فرمائی جو امانت کا لحاظ رکھتے ہیں، ارشاد فرمایا:
وَالَّذِينَ هُمْ لِأَمَانَاتِهِمْ وَعَهْدِهِمْ رَاعُونَ۔ [المعارج: 32].
اور جو اپنی امانتوں اور اپنے عہدوپیمان کا پاس کرتے ہیں۔
آخرت میں امانتدار لوگ اپنے رب کی خوشنودی، اور آسمان وزمین کی اتنی جنت جو متقین کے لیے تیار کی گئی حاصل کرکے کامیاب قرار پائیں گے۔
خیانت:
ہر وہ انسان جو اپنی امانت کو ادا نہیں کرتا خیانت دار ہے،اور اللہ تعالیٰ خیانت کرنے والوں کو پسند نہیں فرماتے، ارشاد باری تعالیٰ ہے:
إِنَّ اللّهَ لاَ يُحِبُّ مَن كَانَ خَوَّاناً أَثِيماً [النساء: 107]
’’اللہ تعالیٰ دغاباز اور گنہگار کو دوست نہیں رکھتا‘‘
اللہ تعالیٰ نے خیانت نہ کرنے کا حکم دیتے ہوئے ارشاد فرمایا:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ لاَ تَخُونُواْ اللّهَ وَالرَّسُولَ وَتَخُونُواْ أَمَانَاتِكُمْ وَأَنتُمْ تَعْلَمُونَ۔[الأنفال: 27]
’’اے ایمان والو! نہ تو اللہ اور رسول سے خیانت کرو اور نہ اپنی امانتوں میں خیانت کرو اور تم ان باتوں کو جانتے ہو‘‘۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر ایک  کے ساتھ امانت کا پاس ولحاظ رکھنے کا حکم دیا اور فرمایا کہ جو خیانت کرے اس کے ساتھ ہم خیانت نہ کریں۔ آپ کا ارشاد ہے:
أدِّ الأمانة إلى من ائتمنك، ولا تَخُنْ من خانك۔ [أبو داود والترمذي وأحمد]
جو تمہیں امین بنائے، اس کی امانت ادا کرو، اور جو تمہارے ساتھ خیانت کرے تم اس کے ساتھ خیانت نہ کرو۔
خیانت کا انجام:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمایا کہ خیانت کرنے والے کو خیانت کی وجہ سے عذاب جہنم ہوگا، اور قیامت کے دن افسردگی اور ندامت کا سامنا ہوگا، قیامت کے دن ذلیل وخوار اور پشیمانی کے ساتھ آئے گا، ارشاد نبوی ﷺ ہے:
لكل غادر لواء يعرف به يوم القيامة۔[متفق عليه]
ہر دھوکہ باز کا ایک پرچم ہوگا، جس کے ذریعے قیامت کے دن اس کی پہچان ہوگی۔
خیانت کرنے والا منافق ہے:
امانت ایمان کی علامتوں میں سے ایک علامت ہے، اور خیانت نفاق کی علامتوں میں سے ایک علامت ہے، فرمان نبوی ﷺ ہے:
آية المنافق ثلاث: إذا حدَّث كذب، وإذا وعد أخلف، وإذا ائْتُمِنَ خان» [متفق عليه].
منافق ہی امانت میں خیانت کرتا ہے اور مسلمان خیانت سے بچتا ہے۔
ترجمہ:مبصرالرحمن قاسمی
نظرثانی: علاءالدین عین الحق مکی
(اس مقالے کا وذکر ویب سائٹ کے لیے ترجمہ کیا گیا تها)



بدھ، 9 اکتوبر، 2013

Hajj e Baitullah.........Fazael e Hajj

0 تبصرے

ترجمہ: مبصرالرحمن قاسمی

فضائل حج

وَلِلَّهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ البَيْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَيْهِ سَبِيل [ ال عمران]
’’اور لوگوں پر اللہ کا حق یعنی فرض ہے کہ جو اس گھر تک جانے کا مقدور رکھتے  وہ اس کا حج کرے، ‘‘
نبی کریم ﷺ کا ارشاد گرامی ہے: اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے: لاالہ الا اللہ اور محمد ﷺ کے رسول ہونے  کی گواہی دینا،نمازقائم کرنا، زکوۃ دینا، روزہ رکھنا اور بیت اللہ کا حج کرنا۔[متفق علیہ]
اسلام پانچ ستونوں پر قائم ہے: اگر کوئی مسلمان اس میں سے ایک کا بھی انکار کردیتا ہے تو گویا وہ دین سے خارج ہوجائے گا۔
امیرالمومنین ابوحفص ، خلیفہ راشد اُم المومنین زوجہ نبی ﷺ کے والد محترم فاروق اعظم عمر بن خطاب ؓ نے حجر اسود کا بوسہ لیا اور فرمایا: ’’إني أعلم أنك حجر لا تضر ولا تنفع ، ولولا أني رأيت النبي صلى الله عليه وسلم يقبلك ما قبلتك‘‘
(مجھے معلوم ہے کہ تو ایک پتھر ہے، جو نفع ونقصان سے خالی ہے،اگر میں نبی کریم ﷺ کو تیرا بوسہ لیتے ہوئے نہ دیکھتا تو کبھی بوسہ نہیں لیتا)  [متفق علیہ]
حج: جنت کے خزانوں میں سے ایک خزانہ:

ارشاد نبوی ﷺ ہے :   ’’الحج المبرور ليس له جزاء إلا الجنة‘‘

(حج مبرور کا بدل جنت ہی ہے)۔
حج:  ایک ایسا موقع ہے جو بار بار نہیں ملتا،، لہٰذا حج کے سلسلے میں جلدبازی سے کام لو۔۔
ارشاد ربانی ہے: وَسَارِعُواْ إِلَى مَغْفِرَةٍ مِّن رَّبِّكُمْ وَجَنَّةٍ عَرْضُهَا السَّمَاوَاتُ وَالأَرْضُ أُعِدَّتْ لِلْمُتَّقِينَ [ال عمران]
(اور اپنے پروردگار کی بخشش اور اس بہشت کی طرف لپکو جس کا عرض آسمانوں اور زمین کے برابر ہے اور جو پرہیزگاروں کے لیے تیار کی گئی ہے۔)
حج: دنیا ومافیھا سے بہتر ہے:
۱۔حج :گناہوں سے پاکی کا ذریعہ ہے: فرمان نبوی ﷺ ہے: " مَنْ حَجَّ فَلَمْ يَرْفُثْ وَلَمْ يَفْسُقْ رَجَعَ كَمَا وَلَدَتْهُ أُمُّهُ‘‘
(جس نے حج كيا اور نہ تو حج ميں بيوى سے جماع كيا اور نہ ہى فسق و فجور تو وہ ايسے واپس پلٹتا ہے جيسے آج ہى اسے ماں نے جنم ديا ہے)۔[متفق علیہ]
۲۔حج: پچھلے تمام گناہوں کو ختم کردیتا ہے: فرمان نبوی ﷺ ہے:  ’’أَنَّ الْحَجَّ يَهْدِمُ مَا كَانَ قَبْلَهُ‘‘
(حج سابقہ گناہوں كو مٹا ديتا ہے)۔[مسلم]
۳۔ حج: افضل جہاد ہے: حضرت عائشہ صدیقہ ؓ  نے کہا: اے اللہ کے رسول : ہم جہاد کو افضل ترین عمل سمجھتے ہیں تو کیوں ہم جہاد نہ کریں؟ آپ ﷺ فرمایا: نہیں، لیکن افضل جہاد تو حج مبرور ہے۔[ بخاری]
۴۔ حاجی کی دعا مقبول ہوتی ہے: نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے:  الغازي في سبيل الله والحاج والمعتمر وفد الله دعاهم فأجابوه ، وسألوه فأعطاهم ( رواه ابن ماجه وانظره في السلسلة الصحيحة (1920) .
(اللہ کے راستے میں لڑنے والا غازی،حاجی، اور عمرہ کرنے والا شخص یہ اللہ کے وفد ہیں،اللہ نے انہیں بلایا تو انھوں نے دعوت قبول کی،پھر انھوں نے اللہ سے مانگا تو اللہ نے انہیں عطا کیا)۔
۵۔حاجی اللہ کی ضمان میں ہوتا ہے: نبی کریم ﷺ کا ارشاد گرامی ہے:
" ثَلاثَةٌ فِي ضَمَانِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ : رَجُلٌ خَرَجَ مِنْ بَيْتِهِ إِلَى مَسْجِدٍ مِنْ مَسَاجِدِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ ، وَرَجُلٌ خَرَجَ غَازِيًا فِي سَبِيلِ اللَّهِ تَعَالَى ، وَرَجُلٌ خَرَجَ حَاجًّا " . [صححہ الالبانی]
(تین قسم کے لوگ ہیں جو اللہ کی ضمانت میں ہوتے ہیں: ایک وہ آدمی جو اللہ کی مسجدوں میں سے کسی مسجد کی جانب نکلا، ایک وہ آدمی جو اللہ کی راہ میں لڑتے ہوئے نکلا، اور ایک وہ آدمی جو حج کی نیت سے نکلا)۔
حدیث میں ضمان کا لفظ آیا ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ اگر انسان زندہ بچ جائے تو اسے اجر ملے گا، اور اگر موت ہوجائے تو جنت میں داخل ہوگا۔
حج کی چند حکمتیں اور بے شمار فوائد ہیں: جن میں سے کچھ ہم یہاں ذکر کررہے ہیں:
اولا: حج میں ظاہری اور باطنی طور پر مساوات اور برابری کی مکمل تصویر عیاں ہوتی ہے۔
۱۔ظاہری طورپر اس طرح کہ تمام حاجی؛ممالک اورذائقہ وشوق  کے اعتبار سے بالکل مختلف ہونے کے باوجود ایک ہی طرح کے ملبوسات زیب تن کرتے ہیں، تمام حاجی کفن کے مشابے بالکل سادہ لباس پہنتے ہیں،شاہ وامیر بھی یہی پہنتا ہے اور مسکین وفقیر بھی، شاہ وامیر بھی بیت اللہ کا طواف کرتا ہے اور مسکین وفقیر بھی،حج کے موقع پر اربوں کھربوں کے مالک اور دینار درہم کے ضرورت مند کے درمیان کوئی فرق نہیں رہتا،بلکہ ہر ایک، ایک ہی عمل میں یکساں دکھائی دیتا ہے۔
۲۔ باطنی طور پر اس طرح کہ ، یہاں کسی  حسب ونسب اورکسی رنگ وجنس کی بنیاد پر کوئی اہمیت وفضیلت نہیں بلکہ فضیلت کا معیار خالص تقوی ہے، ارشاد نبوی ﷺ ہے:
’’لا فضل لعربي على عجمي ، ولا لعجمى على عربي ، ولا لأبيض على أسود . ولا لأسود على أبيض ، إلا بالتقوى ، الناس من آدم ، وآدم من تراب‘‘ ( رواه الترمذي (3270) وحسنه الألباني .
(كسى عربى كو عجمى ( غير عربى ) پر كوئى فضيلت نہيں، اور نہ ہى كسى عجمى كو عربى پر كوئى فضيلت حاصل ہے، اور نہ كسى سفيد رنگ والے كو كسى سياہ رنگ والے پر اور نہ كسى سياہ رنگ والے كو سفيد رنگ والے پر كوئى فضيلت حاصل ہے، مگر تقوى اور پرہيزگارى كے ساتھ، سب لوگ آدم كى اولاد ہيں اور آدم مٹى سے پيدا ہوئے۔)
ثانیا: حج میں ہم اسلامی اتحاد کو بہت واضح انداز میں دیکھتے ہیں، اتحادِ جذبات، اتحادِ شعائر، اتحادِ ہدف ومقصد، اتحاد ِعمل، اتحادِ قول اور  اتحادِ خطہ جیسے اتحاد سے متعلق تمام عناصر پائے جاتے ہیں، یہاں ذات پات، قومیت ، وطنیت،تحریکیت، اور جمہوریت جیسی خرابیوں کا شائبہ بھی نہیں ہوتا، بلکہ پوری امتِ مسلمہ ایک اسلامی امت کا نمایاں مظہر اور شان  ہوتی ہے۔
تمام حاجی ایک ہی رب پر ایمان رکھتے ہیں، ایک ہی گھر کا طواف کرتے ہیں، ایک ہی کتاب کو تھامےہوئے ہوتے ہیں، ایک ہی رسول کی اتباع کررہے ہوتے ہیں، ایک ہی عمل سرانجام دے رہے ہوتے ہیں، اور ایک ہی ہدف ومقصد کی امید لگائے ہوتے ہیں۔۔۔بھلا اس اسلامی وحدت اور اتحاد سے زیادہ گہرا اتحاد کہیں دکھائی دیتا ہے؟؟؟
ثالثا: حج میں بندے کے لیے وہ تمام عبادتیں جمع ہوجاتی ہیں جو دیگر عبادات کے ساتھ نہیں ہوتی، مثال کے طور پر حج میں نماز، طواف، سعی، صدقات، ذکر، قرآن کریم کی تلاوت اور  وقوف عرفات یہ ساری عبادات ایک ساتھ ادا کی جاتی ہیں۔یہی وجہ ہے کہ حج کو اعظم العبادات کہا جاتا ہے۔
رابعا: حج میں انسان خواہشات کو ترک کرنے، اوطان کو ترک کرنے اور اہل وعیال کی جدائی اور رحمن کی اطاعت وفرمانبرداری کا عادی بنتا ہے۔
خامسا: حج میں صعوبتوں کو جھیلنے اور مصائب کو برداشت کرنے کی مشق ہوتی ہے، یہی وجہ ہے کہ حج  کی ادائیگی کےلیے ایسے وادی کا انتخاب عمل میں آیا،جو ناقابل کاشت ہے، جو عمیق صحراء میں واقع ہے، جہاں حرارت اور شدت غالب آجاتے ہیں، اورانسان کو سادہ زندگی گذارنے پر مجبور ہونا پڑتا ہے، یہ اس لیے تاکہ مسلمان کو مصائب اور شدائد پر برداشت کرنے کی تربیت ہو، اور سخت اورکڑوی زندگی سے مقابلہ کرسکے، اس حکمت کا انداز ہ یہاں ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حج کو قمری سال کے اخیر میں رکھا،  ہم جانتے ہیں کہ سفر حج کبھی موسم گرما میں آتا ہے، اور کبھی موسم سرماں میں ، تاکہ مسلمان ہر قسم کی آب وہوا کو برداشت کرنے کے قابل ہو،اور تمام مشکلات کو جھیلنا اس کےلیے آسان ہو۔
وجوب حج:
اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر عمر میں ایک مرتبہ بیت اللہ کا حج کرنا فرض کیا، اور اسے اسلام کےپانچ ارکان میں شامل کیا، نبی کریم ﷺ کا ارشاد گرامی ہے: اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے، اللہ تعالیٰ کے ایک ہونے اور حضرت محمد ﷺ کے نبی ہونے کی گواہی دینا، نماز قائم کرنا، زکوۃ دینا، اور رمضان کے روزے رکھنا اور بیت اللہ  کا حج کرنا۔ [متفق علیہ]
اگر مسلمان کے پاس استطاعت وقدرت ہوتو حج کا بار بار کرنا مستحب ہے۔
ایک اللہ کے نیک بندے کا قول ہے: حج کی قبولیت کی علامت یہ ہے کہ مسلمان معاصی ومنکرات کو ترک کردیتا ہے، اور اپنے برے ساتھیوں کو نیک وصالح بناتا ہے،لہوولعب اور غفلت کی مجالس سے ذکر وبندگی کی مجالس سے منسلک ہوجاتا ہے۔
وجوب حج کے شرائط:
۱۔ اسلام              
۲۔ بلوغت            
۳۔ عقل     
۴۔آزادی (غلام پر حج فرض نہیں ہے)
۵۔قدرت واستطاعت  (مال ہو اور پرامن پہنچنے کے اسباب ہو)     
۶۔عورت  کے ساتھ محرم کا ہونا۔
پیارے دوست: اگر آپ مسلمان ہیں، بالغ ہیں، عقلمند ہیں، آزاد ہیں، صاحب استطاعت ہیں، تو پھر جان لیجیے:
آپ پر حج فرض ہے۔۔تو پھر آپ حج کیوں نہیں کرتے؟؟؟ کس چیز کا انتظار ہے؟؟؟
تاخیر کس بات کی؟ بھلا یہ تاخیر آخر کب تک؟  کیا آپ کو معلوم نہیں : فرصت اور مواقع بار بار نہیں ملتے؟ کیا آپ کو معلوم نہیں کہ موت اچانک آنے والی ہے؟
کل اپنے رب کو کیا جواب دوگے؟  کیا آپ کو معلوم نہیں کہ آپ کے پاس کوئی عذر نہیں ؟
نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’مَن أراد الحج فليتعجل‘‘[حسنه الالبانی]
 (جس نے حج کا ارادہ کیا اسے چاہیے کہ جلدی کرے)۔
حج کے لیے جلدی کرو۔۔۔کوئی نہیں جانتا کہ کل کیا ہوگا!!!

پیارے بھائی: حج مبرور کی کوشش کیجیے۔۔۔جو نبی کریم ﷺ کی سنت کے مطابق ہو، جس میں مکمل اخلاص ہو، معاصی اور منکرات نہ ہو، ارشاد باری تعالیٰ ہے:  فَلا رَفَثَ وَلا فُسُوقَ وَلا جِدَالَ فِي الْحَجِّ ۔[بقرہ]

(تو حج کے دنوں میں نہ عورتوں سے اختلاط کرے نہ کوئی برا کام کرے اور نہ کسی سے جھگڑے)

اور اخیر میں: پیارے بھائی حج سے واپسی کے بعد سب سے پہلے مسجد جائیے، اپنے اہل وعیال سے ملاقات سے قبل دو رکعت نماز پڑھیے، کعب بن مالک ؓ سے مروی ہے:
’’كان عليه الصلاة والسلام إذا قدم من سفر بدأ بالمسجد فركع فيه ركعتين‘‘ [متفق علیہ]
(نبی کریم ﷺ جب سفر سے لوٹتے مسجد سے آغاز کرتے، پھر اس میں دو رکعت نماز پڑھتے)
ہم دعا کرتے ہیں اللہ تعالیٰ حج مبرور ، سعی مشکور اور ذنب مغفور کے ساتھ آپ کا  حج کرائے۔۔۔ پیارے بھائی!  اپنی دعاؤں میں ہمیں اور تمام مسلمانوں کو بھی ضرور یاد رکھیں۔۔والحمدللہ رب العالمین۔



متن کے لیے دیکھیے:۔۔۔۔۔۔۔