جمعہ، 31 اکتوبر، 2014

اسلام کے بغیر آپ کچھ بھی نہیں

0 تبصرے

اسلام کے بغیر آپ  کچھ بھی نہیں
از-  ڈاکٹر عائض القرنی

دین اسلام پر فخر کرنا ہمارے بنیادی اصولوں اور مقدس تعلیمات میں سے ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں مسلمان ہونے کا شرف بخشا ہے، جو مسلمان اپنے مسلمان ہونے پر فخر نہ کرے تو اس کا مطلب اس کا دل قلت ایمانی اور شک کے مرض کا شکار ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے حبیب  کو مخاطب کرکے ارشاد فرماتا ہے: 
 {وَإِنَّهُ لَذِكْرٌ لَّكَ وَلِقَوْمِكَ وَسَوْفَ تُسْأَلُونَ} [الزخرف:44]،
ترجمہ:اور یہ (قرآن) تمہارے لئے اور تمہاری قوم کے لئے نصیحت ہے اور (لوگو) تم سے عنقریب پوچھ ہوگی۔
یعنی یہ دین ، دین اسلام آپ کے لئے ، آپ کی قوم کے لئے اور قیامت تک آنے والے آپ کے متبعین کے لئے شرف، عزت اور مجد وبزرگی کی علامت ہے، آپ پر واجب ہے کہ آپ قرآن کریم پر فخر کریں، اس لئے کہ آپ قرآن اور اسلام والی  امت کے ایک فرد ہیں۔
بُشـرى لنا معشر الإسلام إن لنا **** مـن العناية ركناً غير مُنْهَدِمِ
لـمّا دعا الله داعِينا لطـاعته**** بأكرم الرُّسْلِ كنّا أكرمَ الأُمَمِ
اے اسلام کے ماننے والو! ہمارے لئے خوشخبری ہے، یہ ایسا ستون ہے  جو منہدم نہیں ہوسکتا۔ جب اللہ تعالیٰ نے سب سے معزز رسول کے ذریعے ہمیں اپنی اطاعت کا  حکم دیا  تو ہم سب سے مکرم ومحترم امت بن گئے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
{وَلاَ تَهِنُوا وَلاَ تَحْزَنُوا وَأَنتُمُ الأَعْلَوْنَ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ } [آل عمران: 139]
 ترجمہ: اور (دیکھو) بے دل نہ ہونا اور نہ کسی طرح کا غم کرنا اگر تم مومن (صادق) ہو تو تم ہی غالب رہو گے۔
سندکے اعتبار سے سربلند،اصول ومبادی کے اعتبار سے سربلند، منہج وطریقے کے اعتبار سے سربلندہماری بنیاد اصل بنیاد ہے، اور ہماری کتاب مقدس ومحترم قرآن پاک ہے،ہماری سند رب ذوالجلال ہے۔بھلا جس کی سند رب ذوالجلال ہو وہ کیسے  بے دل ہوسکتا ہے، بھلا وہ شخص کیسے ذلیل ہوسکتا ہے جس کا رب ومولی اللہ تعالیٰ ہے،  بھلا وہ شخص کیسے غمگین ہوسکتا ہے جس کا نبی ورسول اور رہنما محمد عربی ﷺ ہے اور بھلا وہ شخص کیسے ذلیل ہوسکتا ہے جس کا دین اسلام ہے۔
ہمارے لیے  ضروری ہے کہ ہم اپنے دین پر فخر کریں، ہم مسلمان ہونے پر عزت وشرف محسوس کریں۔
اللہ تعالیٰ  نے ان لوگوں کا رد فرمایا جنہوں نے مال ودولت اور دنیاوی جاہ وعزت کے حصول کو رفعت شان، سربلندی اور عزت وشرف کے بنیادی اصول گمان کر رکھے ہیں،  ارشاد باری تعالیٰ ہے:
 {وَقَالُوا لَوْلَا نُزِّلَ هَذَا الْقُرْآنُ عَلَى رَجُلٍ مِّنَ الْقَرْيَتَيْنِ عَظِيمٍ أَهُمْ يَقْسِمُونَ رَحْمَةَ رَبِّكَ نَحْنُ قَسَمْنَا بَيْنَهُم مَّعِيشَتَهُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَرَفَعْنَا بَعْضَهُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجَاتٍ لِيَتَّخِذَ بَعْضُهُم بَعْضاً سُخْرِيّاً وَرَحْمَتُ رَبِّكَ خَيْرٌ مِّمَّا يَجْمَعُونَ} [الزخرف: 31-32] }
ترجمہ: اور (یہ بھی) کہنے لگے کہ یہ قرآن ان دونوں بستیوں (یعنی مکّے اور طائف) میں سے کسی بڑے آدمی پر کیوں نازل نہ کیا گیا؟کیا یہ لوگ تمہارے پروردگار کی رحمت کو بانٹتے ہیں؟ ہم نے ان میں ان کی معیشت کو دنیا کی زندگی میں تقسیم کردیا اور ایک کے دوسرے پر درجے بلند کئے تاکہ ایک دوسرے سے خدمت لے اور جو کچھ یہ جمع کرتے ہیں تمہارے پروردگار کی رحمت اس سے کہیں بہتر ہے۔
شرف ومجد نہ  مکانات میں ہے،نہ  محلات میں ،نہ  دولت وثروت میں،نہ عہدوں اور ذات پات میں ،شرف اور عزت تو  رب ارض وسما کے بندے بننے میں ہے، شرف اور عزت تو اللہ تعالیٰ کے دوست بننے میں ہے، شرف اور عزت  تو ان لوگوں کے لئے ہے جو نیک اعمال کرتے ہیں، محرمات سے اجتناب کرتے ہیں، اور نیک لوگوں سے محبت کرتے ہیں۔
پرہیزگار اور متقی انسان کو دیکھو گے، تو اگر آپ مسلمان ہیں تو آپ کا دل اس سے محبت کی گواہی دے گا، اس لئے کہ اس کی ذات خیرخواہی اور قبولیت ورضا کا مجسم پیکر نظرآئے گی، اور کافر کو دیکھو گے تو  اس پر نظر پڑتے ہی دل سے بغض کے اثرات ظاہر ہونگے، اگرچہ کافر وضع قطع میں بہت خوبصورت اور حسین وجمیل ہی کیوں نہ ہو، چونکہ کافر پر اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کی علامتیں چھائی ہوئی ہوتی ہیں:
{وَإِذَا رَأَيْتَهُمْ تُعْجِبُكَ أَجْسَامُهُمْ وَإِن يَقُولُوا تَسْمَعْ لِقَوْلِهِمْ كَأَنَّهُمْ خُشُبٌ مُّسَنَّدَةٌ} [المنافقون: 4]
 ترجمہ: اور جب تم ان (کے تناسب اعضا) کو دیکھتے ہو تو ان کے جسم تمہیں (کیا ہی) اچھے معلوم ہوتے ہیں۔ اور جب وہ گفتگو کرتے ہیں تو تم ان کی تقریر کو توجہ سے سنتے ہو (مگر فہم وادراک سے خالی) گویا لکڑیاں ہیں جو دیواروں سے لگائی گئی ہیں۔
وہ جسم کے اعتبار سے لمبے تڑنگے اور حسن وجمال میں سب سے آگے دکھائی دیں گے، لیکن ان کے دل گمراہ دل ہونگے، ان کے دل جاہلوں کے دل ہونگے۔ یہی وجہ ہے کہ صحابہ رضی اللہ عنہم دنیا میں نہ کم کے مالک تھے اور نہ زیادہ کے بلکہ ان میں سے بعض کے پاس روٹی کا ٹکڑا بھی نہیں ہوتا تھا اور حال یہ تھا کہ وہ مارے بھوک کے راستوں میں سوجایا کرتے تھے۔ لیکن ایسے بدحال لوگوں کے دلوں کو اللہ تعالیٰ نے دیکھا اور انہیں اسلام کی ہدایت سے نوازا۔
میرے بھائی! اپنے مسلمان ہونے پر فخر کیجئے، آپ جس دین پر قائم ہیں اس کی عظمت شان میں اور آپ پر اثرانداز ہونے والے اس کے قابل تعریف اثرات پر کوئی شک نہ ہونا چاہئے، اسے مضبوطی سے تھام لیجئے، اس سے وابستہ ہوجائیے، اپنی ترقی وسربلندی کے لئے اس دین کے علمبردار بن جائیے،عنقریب مجدوبزرگی اور شرف وعزت آپ کے قدموں میں ہونگے،سربلندی آپ کا مقام ہوگا،نصرت ومدد آپ کے حلیف ہونگے،اگر آپ ثابت قدم رہے تو پھر آپ کی رسی آپ کو اپنے رب سے ملائے گی،مجھے آپ کے مسلمان ہونے پر فخر ہے،اور یاد رکھیے اسلام کے بغیر آپ کچھ بھی نہیں۔
 ترجمہ: مبصرالرحمن قاسمی


جمعہ، 24 اکتوبر، 2014

ڈاکٹر حضرات کے لیے دعوتی رہنمائی

0 تبصرے
فرمان باری تعالی ہے:
{وَفِي أَنْفُسِكُمْ أَفَلَا تُبْصِرُونَ} [الذاريات: 21].
ترجمہ: اور خود تمہارے نفوس میں تو کیا تم دیکھتے  نہیں۔                                     تدبر وتفکر(غوروفکرکرنا) بھی ایک عبادت ہے، جس کا ہمیں اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ اس کے ذریعہ اس کی عبادت بجا لائیں۔ انسان اپنے اردگرد موجود تمام مخلوقات ، آسماں وزمین اور کائنات کی ساری مخلوق کے بارے میں غوروفکر کرتا ہے جو اللہ تعالیٰ کے وجود پر دلالت کرتی ہے، اور انہیں مخلوقات میں سے انسانی وجود ، اس کی ساخت اور حیرت انگیز تخلیق اور صورت گری ہے، جس میں غوروفکر کرنے کا اللہ تعالیٰ نے تمہیں حکم دیا ہے اور اس حکم کے سب سے زیادہ حقدار ڈاکٹر حضرات ہیں۔ کیونکہ وہ اپنے یومیہ اعمال کے دوران اس انسانی وجود اور اس کی باریکیوں نیز کارکردگی سے گذرتے ہیں، اگر انسانی جسم کا کوئی معمولی عضو اور حصہ بھی خراب ہوجائے تو تمام جسم بیمار ہوجائیں اور تعطل کا شکار ہوجائیں اور وہ بیمار آدمی اس کے علاج کے لئے بھاری رقم خرچ کرنے کے لئے مجبور ہوگا۔
سبحان اللہ ! اس لئے ضروری ہے کہ ایک طبیب اپنے پیشے کے دوران روحانی اور جسمانی علاج کا ایک ساتھ اہتمام کرے ، کیونکہ ایک ڈاکٹر ہمارے معاشرے کا بہت ہی فعال اور سرگرم حصہ ہوتا ہے اور یہ پیشہ نہایت اہم پیشہ ہونے کے ساتھ بہت بڑی ذمہ داری کا کام بھی ہے، اس لئے اس کے شایان شان یہ ہے کہ اپنے پیشے کو حکم الٰہی کے مطابق انجام دے۔تاکہ اس طرح اللہ تعالیٰ کی عبادت اور بندگی کے فریضے کو انجام دے سکے۔(عمومی عبادت وبندگی)
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
{قُلْ إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ}
ترجمہ: ۔ (یہ بھی) کہہ دو کہ میری نماز اور میری عبادت اور میرا جینااور میرا مرنا سب اللہ رب العالمین ہی کےلئے ہے ۔ (سورۂ انعام آیت162)
 کیونکہ ہمارا تعلق اس گروہ سے نہیں ہے جو دو جداگانہ حیثیت سے زندگی گذارتے ہیں، جب نماز کا وقت آتا ہے تو انسان اللہ کا بندہ ہوتا ہے اور نمازکے بعد اپنی روزمرہ کی زندگی میں واپسی کے بعد خالص مادہ پرست بن جاتا ہے جس کے پاس زندگی گذارنے کے لئے کوئی الٰہی اصول وضابطۂ حیات اور آداب نہیں ہوتے، نہیں بالکل نہیں، بلکہ ایک مسلمان اپنی پوری زندگی میں اللہ کا ہی بندہ ہوتا ہے خواہ وہ گھرمیں ہو یا مطب میں(کلینک میں) اور اس کا کھانا ، پینا ، سونا جاگنا اور چلنا پھرنا سب کچھ اللہ کے حکم کے مطابق ہونا چاہیے۔
عبادت وبندگی کے دائرے میں پوری زندگی اور اسکے تمام شعبے آتے ہیں، اس بنیاد پر اللہ کی بندگی کا احساس ہمہ وقت ہونا چاہیے خواہ مریض دیکھنے کا وقت ہو یا علاج کرنے اور آپریشن کرنے کا وقت، یہ کیفیت آدمی کے اندر اس وقت پیدا ہوتی ہے جب اس کے اندر اخلاص کی صفت آجائے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
{وَمَا أُمِرُوا إِلَّا لِيَعْبُدُوا اللَّهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ حُنَفَاءَ وَيُقِيمُوا الصَّلَاةَ وَيُؤْتُوا الزَّكَاةَ وَذَلِكَ دِينُ الْقَيِّمَةِ} [البينة: 5].
ترجمہ: اور ان کو حکم تو یہی ہوا تھا کہ اخلاص کے ساتھ اللہ کی عبادت کریں   اور یکسو ہو کر اور نماز پڑھیں اور زکوٰة دیں اور یہی سچا دین ہے۔
اس لئے ایک داعی ڈاکٹر کی حیثیت یہ نہیں ہے کہ وہ صرف بڑی ڈگری کے لئے اپنے اہل وعیال اور وطن سے دور گیا ہو ، بلکہ پہلی فرصت میں وہ فعل اور کردار کے ذریعے اللہ کے دین کی طرف لوگوں کو دعوت دینے والا ہے اور جس پیشہ کو وہ اختیار کرتا ہے اس میں دعوت الی اللہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے لئے بہت زیادہ موقع میسر آتا ہے۔
ایک داعی ڈاکٹر کی حیثیت دوسرے دعوتی امور انجام دینے والے (داعیان کرام) حضرات سے مختلف ہے جو عام جگہوں اور راستے میں اور خاص ونجی نشستوں میں دعوتی اور اصلاحی کام انجام دیتے ہیں کیونکہ یہ حضرات تو بڑی بڑی رکاوٹوں، سخت کشمکش اور دوسرے بہترے فیکٹر(محرکات) کا سامنا کرتے ہیں جنکی وجہ سے سب اوقات اور زیادہ تر دعوت وارشاد اور نصیحت وتذکیر کا پیغام لوگوں تک پہنچانے میں ناکام رہتے ہیں، مگر ڈاکٹر حضرات کی بات الگ ہے کیونکہ انہیں سنہرے مواقع دستیاب ہوتے ہیں جو دوسرے کو کبھی نہیں مل سکتے ، کیونکہ ان کا سابقہ ایسے لوگوں سے پڑتا ہے جو یا تو بیماری کی وجہ سے بہت ہی کمزور حالت میں چل کر ان کے پاس آتے ہیں یا اپنے موت سے بہت ہی قریب ہوچکے ہوتے ہیں ایسے وقت میں ان کی طبیعت اور نفسیات دوسرے لوگوں کے مقابلے میں ہر اچھی بات قبول کرنے کے لئے زیادہ آمادہ ہوتی ہے۔یہاں وہ مثبت پہلو نمایاں ہوکر سامنے آتا ہے جو ڈاکٹر کی ایک امتیازی شان ہے اور دوسرے دعوت واصلاح کے کام کرنے والے حضرات کے اندر یہ بات موجود نہیں ہوتی ہے۔
چنانچہ تجربہ یہ کہتا ہے کہ نصاری نے اپنے باطل مذہب کی نشرواشاعت کے لئے اس پیشے کا زبردست استعمال کیا ہے،وہ ایک بیمار شخص کو اس وقت تک دوا مہیا نہیں کرتے جب تک کہ وہ صلیب اپنے سینے سے نہ لٹکالے اور اسے کوئی خدمت اس وقت تک پیش نہیں کرتے جب تک وہ بیمار شخص یہ تسلیم نہ کرے کہ ان کا مذہب ہی حق ہے۔
اس لئے ہم ان کے مقابلے میں اس کے زیادہ مستحق تھے کہ اپنے عقیدے وایمان اور شریعت کی طرف لوگوں کو دعوت دیں۔
طب اور میڈیکل کے شعبے میں کا م کرنے والوں کے لئے دعوتی ہدایات ومشورے
ڈاکٹر حضرات !
آپ کو یہ پیشہ مبارک ہو، یہ عظیم کام جسے اللہ نے آپ کے لئے آسان کیا ہے اور جسے اختیار کرنے اور اس کی ذمے داریوں کو نبھانے کی توفیق دی ہے اور اس خوش نصیبی کے لئے آپ کے لئے آپ کے بھائیوں کے دل سے دعائیں نکلتی ہیں، کتنے ایسے بیمار ہیں جن کی بیماری کے بوجھ کو آپ نے اللہ تعالیٰ کی مشیت اور ارادہ سے ہلکا کیا ہے اور کتنے غم زدہ جن کے غم والم کو آپ نے دور کیا ہے ، اور کتنی جانیں ہیں جو اللہ تعالیٰ کے حکم سے آپ کے ذریعہ ہلاکت وتباہی سے دوچار ہونے سے محفوظ ہوئی ہیں اور کتنے ایسے افراد ہیں جو اولاد کی نعمت سے محروم تھے، مگر آپ کے ذریعہ اللہ نے انہیں ماں باپ بننے کا شوق پورا کیا ہے۔ اس کے علاوہ بے شمار کارنامے اور قربانیاں جنہیں شمار نہیں کیا جاسکتا اور انہیں کے لئے لوگ آپ سے بے حد محبت کرتے ہیں اور آپ کو دعائیں دیتے ہیں یہ اللہ تعالیٰ کا فضل واحسان ہے جسے چاہتا ہے نوازتا ہے۔
اس لئے میں پھر آپ کو اس وسیع دعوتی میدان میں کام کرنے کے لئے مبارکباد دیتا ہوں ، اور یہ ہاسپٹل اور شفاخانے دعوتی سرگرمیوں کے لئے انتہائی زرخیز جگہ ہے ، بیمار چل کر آپ کے پاس آتا ہے اور اپنا پورا وجود آپ کے حوالے کردیتا ہے تاکہ آپ اس کے فائدہ اور بھلائی کی خاطر اس کا علاج کریں، آپ کے ایک ایک حکم کو بجالانے کے لئے تیار رہتا ہے، آپ حکم دیں تو اس کی تعمیل کرتا ہے اور روک دیں تو اس سے رک جاتا ہے۔
ان جانوں کو جہنم اور اس کے عذاب سے بچانے ،اور ان دلوں کو اپنے رب کی جانب متوجہ کرنے کے لئے آپ کو حتی الامکان کوشش کرنا چاہیے، کیونکہ کمزوری کے وقت قلب کی کیفیت اللہ پر بھروسہ کرنے میں کمزور ثابت ہوتی ہے اور سارا بھروسہ اور اعتماد ظاہری اسباب پر ہونے لگتا ہے، کتنے گمراہ ہدایت پائے!۔۔ اور کتنے کافر حلقہ بگوش اسلام ہوئے،اور کتنے نافرمانوں نے توبہ کرکے اپنے گناہ اور نافرمانی سے کنارہ کشی اختیار کی!۔۔ یہ سب صرف آپ کی ایک بات اور ایک اشارے پر.
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ آپ  نے ارشاد فرمایا:
”یقینا اگر اللہ تیرے ذریعے ایک آدمی کو ہدایت دے دے تو وہ تیرے لئے سرخ اونٹوں(سب سے مرغوب دولت) سے بھی بہتر ہے“
 اے توفیق باری تعالیٰ کوپانے والے بندے اور بندی! میں پھرتمہیں اس بات پر مبارکباد دیتا ہوں کہ کثرت احادیث پر عمل پیرا ہونے کا تمہیں موقع ہاتھ آیا ہے، جس پر ایک معمولی آدمی اپنے میدان میں عمل پیرا نہیں ہوسکتا ہے، آپ کی حالت کے برعکس اس کو بجالانا تمہارا لیے ممکن ہے۔
میری آپ سے محبت کا تقاضا یہ ہے کہ میں آپ کے اس عظیم پیشے میں شرکت کروں، میں اللہ سے دعاگو ہوں وہ آپ کے عظیم پیشے کے اجر سے آپ کومحروم نہ کرے، میں چاہتا ہوں کہ آپ کو ایسی باتیں بتاؤں جو دعوت الی اللہ میں تمہارے لئے معاون ثابت ہو اور آپ کی نیکیوں میں اضافہ کا باعث بنے اور اللہ کے حکم سے آپ مریضوں کے علاج کے وقت یابراہ راست مریض کے ساتھ، یا مریض کے آرام کے روم میں ، یا عموما ہاسپٹل میں ان باتوں کواستعمال میں لاسکیں:
۱۔مریض کو دوائیوں کا نسخہ دیتے وقت ممکن ہے کہ آپ نسخہ کے ساتھ کتابچہ،کیسیٹ،یاکوئی پمفلیٹ کی شکل میں ایسا ہدیہ دیں جومریض کے لئے مفید ہو،اوریہ بھی ممکن ہے کہ مریض کو ایسی کتاب ہدیہ کریں جو مریض کے لئے شفا کی دعاؤں پر مشتمل ہو۔
 ۲۔ مریض کو قضا وقدر اور رضاءباری تعالیٰ کے مسئلے کی یاددہانی کرانا:
بیشک بیماری اور شفا دونوں بھی اللہ تعالیٰ کے قبضہ قدرت میں ہے۔حضرت جابرؓ کہتے ہیں کہ آپ  ام سائب یا ام مسیب کے پاس آئے اور ارشاد فرمایا: ”اے ام سائب(یا ام مسیب) تمہیں کیا ہوگیا ہے؟تم کانپتے ہو۔انہوں نے کہا: بخار ہے اللہ تعالیٰ اس کو نہ بڑھائے۔ (ان کے اس قول پر) آپ  نے کہا کہ بخار کو گالی نہ دو؛ اس لئے کہ وہ آدم کے اولاد کے گناہوں کو ویسا ہی ختم کردیتا ہے جیسا کہ آگ لوہے کے میل کچیل کو ختم کردیتی ہے“ (مسلم)

اور ارشاد باری تعالیٰ ہے:
{وَعَسَى أَنْ تَكْرَهُوا شَيْئًا وَهُوَ خَيْرٌ لَكُمْ} [البقرة: 216].
ترجمہ: ایک چیز تمہیں بُری لگے اور وہ تمہارے حق میں بھلی ہو۔
 کبھی کبھی مریض دردوتکلیف کی شدت کی وجہ سے موت کی تمنا کرنے لگتا ہے،لہٰذا ایسے وقت میں آپ  کے مرض موت کے واقعے کو اسے یاد دلائے اور آپ  کی اس حدیث کو بیان کرے: ”تم سے کوئی کسی مصیبت کے آنے پر موت کی ہرگز تمنا نہ کرے، اگر(حالت اتنی خراب ہو) موت کی تمناضروری ہے تو پھر یہ کہے: اللھم احینی ماکانت الحیاة خیرا لی وتوفنی اذا کانت الوفاة خیرا لی“(اے اللہ جب تک زندگی میں میرے لیے خیر ہے،مجھے باحیات رکھ،اور جب موت میں میرے لیے خیر ہو تو مجھے موت دے دے۔) (بخاری، مسلم، بخاری کے الفاظ)
 ۳۔ چہرے کی بشاشت اور تازگی:
حضرت ابوذرؓ روایت کرتے ہیں کہ آپ  نے ارشاد فرمایا:” اور اپنے بھائی سے خندہ پیشانی سے ملنا بھی صدقہ ہے“
(ترمذی، ابن حبان، شیخ البانی نے اسے صحیح کہا ہے)
 جب ڈاکٹر مریض کے پاس آئے تو بہتر ہے کہ چہرے پر تازگی ہو، مسکراتا ہوا چہرہ ہو اور زبان میٹھی ہو اور مریض کو یہ جملہ کہے: لَابَاسَ طَھُورۡ (کوئی بات نہیں جلد اچھے ہوجائیں گے آپ   ) (بخاری)
آپ  نے جب بھی کسی مریض کی عیادت کی اس دعا کو پڑھا، کیونکہ مرض کا ایک حصہ نفسیاتی اثرات کے سبب ہوتا ہے، لہٰذا آپ اس کا علاج بھی کریں اور اس کے لئے دعا بھی کریں اور ساتھ ہی اطمئنان بھی دلائیں اور اللہ تعالیٰ کے ذکر کی یاد دہانی کرائیں۔ اس طرح کے کلمات اور ہلکے اور آسان حرکات مریض کے دلی خوف، بے چینی اور  اِضطراب کو دور کردیتے ہیں اور اسے راحت وآرام نصیب ہوتا ہے اور اس طرح آپ اسے آپ کی ہر چیزقبول کرنے کا عادی بناسکتے ہیں۔
 ۴۔ دوران علاج مریض کے ساتھ نرمی سے پیش آنا، اسے اپنی بیماری کا علم ہونے پرحکمت اور درجہ بندی کے ساتھ علاج کرنا، مریضوں کے نفسیات کا خیال رکھنا، اگر مریض کی مایوسی اور اکتاہٹ کا خدشہ ہو تو اس سے اس طرح کے جملے نہ کہنا۔۔آپ کو ایک خطرناک بیماری ہوگئی ہے اور آپ کی حالت بہت زیادہ نازک ہے۔۔
نہیں نہیں۔۔ بلکہ اسے اللہ کے ذکر کی یاددہانی کرائے اور اطمئنان دلائے۔ا سے اچھی امید دلائے اور اس پر نیک توقع رکھے اور اس سے کہے: یہ اللہ تعالیٰ کا فیصلہ ہے اور تقدید ہے، لہٰذا آپ اللہ کے ذکر کو کثرت سےکیجیے۔۔خصوصا ایسے وقت میں مریض کواس بات کا احساس دلائے کہ وہ اپنی جان اور اپنے مال کا محاسبہ کرلے اور بلاواسطہ طریقہ سے موت کی تیاری کرلے،اور یہ بھی ممکن ہے کہ مریض کے رشتہ داروں میں سے اہل رائے کے مشورے کے ذریعہ مریض کو اس بات کا احساس دلانے میں تعاون حاصل کرے۔
 ۵۔مقیم مریض سے متعلق ہاسپٹل میں فتاوی کی تقسیم، جس میں طہارت، نماز اور اس کے علاوہ مریض کے لئے ضروری مسائل ہو۔
 ۶۔مریض کے وقت کو آخرت کے لئے نفع مند بنانا:
لہٰذا اس سلسلے میں آپ ہر کمرہ میں ایک قرآن مجید کا نسخہ اور کتابچے اور دینی پرچے رکھیں،اور مریض کو فرصت کے اوقات میں ان کتابچوں اور پرچوں کے مطالعہ اور سنت ومستحبات کے ادائیگی کی یاد دہانی کرائے، یہ عمل چاہے تو ہر ایک کے پاس جاکر کرے یا پھر کمروں میں اس کے لئے اسپیکر کا انتظام کرے، جو گائڈنگ روم سے متصل ہو ، گائڈنگ روم کے بارے میں ہم آگے بتائیں گے۔
 ۷۔ مریض کو معروف کا حکم کرنا اور منکر سے روکنا:
اس سلسلے میں مریض سے نماز کے بارے میں دریافت کریں، پھر اسے وضو اور نماز کا طریقہ بتائیں،اور اگرمریض کو قبلہ رخ کرانے کی ضرورت ہو تو اسے قبلہ رخ کرائیں،نیز آپریشن کے دوران بے ہوشی کے سبب اس کی فوت شدہ نمازوں کی یاددہانی کرائیں، اسی طرح اگر بیماری کا سبب معصیت یا گناہ کبیرہ تھا تو اسے اس کے فعل کا حکم بھی بتادیں،اسے اس بیماری کے اثرات بھی یاد دلاتے رہے یہاں تک وہ نافرمانی سے باز آجائے۔اور اگر اس پر کوئی شرعی خلاف ورزیاں ہوں جس کا بیماری سے کوئی تعلق نہ ہوتو بھی اسے نصیحت کرے اور اس جانب اس کی توجہ مبذول کرائے۔
 ۸۔ ٹی وی کا کوئی متبادل رکھے جیسے شرعی پابندیوں سے پاک اور فائدہ مند کیسیٹ وغیرہ جن میں لیکچرز، کانفرنس وغیرہ
9- داعیان کرام اور مشایخ کی مریضوں کے استفتاءکے لئے ضیافت کرنا:یہ کام یا تو داعیان کرام اور شیوخ کو دعوت دے کر انجام دے سکتے ہیں یا پھر بذریعہ فون ۔
 ۱۰۔بیماروں کے حال کی خبرگیری لینے پر اجر کی امید رکھنا کیونکہ یہ بھی مریض کی عیادت میں شامل ہے،کبھی کبھی کاموں کے بوجھ اور اس میدان میں مستقل محنت کے سبب ثواب کی امید کا خیال نہیں رکھا جاتا ہے۔
حضرت ثویر اپنے والد سے نقل کرتے ہیں کہ حضرت علی نے میرا ہاتھ پکڑا، اور کہا: حسن بن علی کی جانب لے چلیں،ہم ان کی عیادت کریں گے، ہم نے وہاں حضرت ابو موسی اشعری کو پایا، حضرت علی نے ابوموسی سے کہا: کیا آپ عیادت کے لئے تشریف لائے ہیں یا ملاقات کے لئے ؟ تو انھوں نے کہا: عیادت کے لئے ، (اس بات پر)حضرت علی نے کہا: ”میں نے نبی کریم  سے سنا: آپ ﷺفرماتے تھے: ”کوئی مسلمان کسی مسلمان کی صبح عیادت کرتا ہے تو شام تک ستر ہزار فرشتے اس کے لئے دعا رحمت کرتے ہیں، اور جو کسی مسلمان کی شام میں عیادت کرتا ہے تو صبح تک ستر ہزار فرشتے اس کے لئے دعا رحمت کرتے ہیں، اور جنت میں اس کے لئے پھل ہونگے“۔
(احمد، شیخ البانی نے اس حدیث کو صحیح کہا ہے)
 ۱۱۔ مریض کا شریعت کی روشنی میں علاج کرنا:
درد اور تکلیف کی جگہ پر ہاتھ رکھے، اور یہ دعا سات مرتبہ پڑھے:
”اَساَلُ الٰله العَظِیمۡ ، رَبَ العَرۡشِ العَظِیم اَنۡ یَشفِیَك
(ابوداؤد، ترمذی، اس حدیث کو شیخ البانی نے صحیح کہا ہے۔)
نیز مریض کو ذاتی طور پر شرعی علاج کرنے کی ترغیب دینا، کہ وہ اپنا ہاتھ اس تکلیف والے حصہ پر رکھے اور تین مرتبہ بسم اللہ پڑھے اور پھر سات مرتبہ یہ دعا پڑھے:
 اَعُوذُبِالله مِنۡ شَرِّ مَا اَجِدُ وَ اُحَاذِرۡ“
ترجمہ: اللہ تعالیٰ اور اس کی قدرت کاملہ کی پناہ چاہتا ہوں اس برائی اور تکلیف سے جو میں محسوس کرتا ہوں اور جس سے میں ڈرتا ہوں (ابن حبان، صحیح مسلم)
اور پھر سورئہ فاتحہ پڑھے۔
۲۱۔بیمار شخص جب اپنی موت سے قریب ہوجائے اور جانکنی سے دوچار ہوتو آپ کی ذمہ داری بنتی ہے کہ اس کے پاس رہیں تاکہ اس کی وصیت سن سکیں،(اگر وہ کوئی وصیت کرنے والا ہو) کیونکہ ایسا شخص بہت سی راز کی باتیں کرسکتا ہےجسے آپ کے سوا کوئی دوسرا نہیں جان سکتا، اسی طرح آپ کلمہ شہادت کی تلقین اور یاددہانی کے ذریعہ اس کی مدد بھی کرسکتے ہیں، خواہ جانکنی میں مبتلا شخص کافر ہی کیوں نہ ہو، اور اس کے پاس بیٹھ کر اللہ کا نام بآواز بلندلینا چاہیے تاکہ سن کر اسے پڑھ سکے نبی  کا فرمان ہے ان للموت سکرات“ (البخاری) موت سے پہلے حالت نزع ہے۔
روح نکل جانے کے بعد دونوں آنکھیں بند کردینا چاہیے، اور جوڑوں کو نرم کردینا چاہیے تاکہ غسل دینے میں آسانی ہو اور جسم کوکپڑے کی چادر سے ڈھانپ دینا چاہیے، پھر آخر میں اس کے رشتے دار اور وارثین کو موت کی خبراس انداز میں دینا چاہیے کہ وہ حواس باختہ نہ ہوں اور اس کی خبر دینے میں کچھ جلد بازی سے کام لینا چاہیے کیونکہ اس کے بعد بہت سے امور میں جن کا انجام دینا ضروری ہے جیسے قرض کی ادائیگی، جنازے کی تیاری، جنازہ اور دفن اور کچھ شرعی احکام ہیں جو اس سے مرتب ہوتے ہیں جیسے عورت کے لئے عدت اور سوگ منانا وغیرہ۔

۳۱۔ مطب(کلینک) کے دروازے پر، یا آرامگاہ اور ویٹنگ روم میں یا مریضوں کی رہائش گاہ میں دعوتی کارڈ وغیرہ رکھنا(آویزاں کرنا)اس میں مفید معلومات اور ایسے فتوی درج ہوں جن کی ضرورت عام طور پر پڑتی ہے، اور یہ ماہ کے حساب سے ہوں تاکہ ان کا فائدہ عام ہوسکے اور اسی طرح ایسی دعائیں اور کلمات تحریر کرکے لگائے جائیں جن سے یاد الٰہی کی رغبت پیدا ہو۔
                                                  
۴۱۔ہاسپٹل میں ایک دعوتی لائیبریری رکھی جائے جس کا کام ہی یہ ہو کہ مریضوں کے دینی امور کی نگہبانی کرے اور ہر ایک کمرے کے اندر اس کتبخانے کے داخلی نمبر فراہم کیا جائے تاکہ بیمار حضرات اپنی ضرورت اور پریشانی کے مسائل کے متعلق فون کرکے دیافت کرسکیں۔

۵۱۔ شعبہ صحت میں غیر مسلم ملازمین کو دین اسلام کی دعوت دینا، یا تو آپسی اور نجی گفتگو کے ذریعے یا کتابوں کے ذریعے، کافر لوگ باہری ملکوں سے آکر ہمارے ساتھ ایک عرصہ تک کام کرتے ہیں اور ہمارے ساتھ رہتے بھی ہیں اور صرف یہی نہیں بلکہ ہماری زبان سیکھ کربولنے بھی لگتے ہیں اور بہت سے اسلامی الفاظ اور جملے استعمال کرتے ہیں، ان سب کے باوجود انہیں اسلام کی دعوت نہیں پہنچتی خواہ بات کے ذریعہ ہو یا کتابچے کے ذریعہ یا آڈیو کیسیٹ کے ذریعہ، اللہ ہی ہمارا مالک ہے،یہ ذمے داری ہماری نہیں تو اور کس کی ہے؟ اور اس سب سے بڑھ کر یہ کہ ان غیر مسلموں کو اپنے کردار اور عمل کے ذریعہ دین کی دعوت دی جائے، کیونکہ دعوت کا یہ وسیلہ قول اور زبانی دعوت سے زیادہ مؤثر ہے اور اس کے لئے ہمارے پاس اسوۂ نبوی  کا بہترین نمونہ موجود ہے۔

۱۶۔ سنٹرال(ٹیلیویژن ) سے فائدہ اٹھانا
 اس طرح کہ گانے کے بجائے کوئی دوسرا متبادل ریکارڈ شدہ مفید پروگرام لگایا جائے یاقرآن ریڈیو سے جوڑدیا جائے۔

محترم ڈاکٹر حضرات!
اس میں کوئی شک نہیں کہ دعوت کا کام مشقت کا کام ہے، اس لئے نبی کریم  نے ارشاد فرمایاہے : حفت الجنة بالمکارہ، وحفت النار بالشھوات“
ترجمہ: ”جنت کو تکلیف اور مشقت سے ڈھانپ دیا گیا ہے اور جہنم کو شہوت اور خواہشات نفس سے ڈھانپ دیا گیا ہے“۔(ابن حبان، مسلم)
 مگر آپ کی خوش بختی کے لئے یہی کافی ہے جو آپ کے دل سے نکلتی ہوئی دعائیں سنتے ہیں اور آپ کو خوشی حاصل ہوتی ہے، ایسا آدمی بھی آپ کو دعائیں دیتا ہے جو اگر اللہ کے سامنے قسم کھالے تو اللہ اسے پورا کردے اور ایسا شخص بھی آپ کو دعائیں دیتا ہے جس نے پوری زندگی سجدے اور رکوع میں گذاری ہے، ایسے دوسرے بہت سے بدلے ہیں جو صرف اس شخص کو ہی نصیب ہوتے ہیں جسے توفیق کی دولت حاصل ہوئی ہو، آپ اپنے مسلسل جدوجہد، اخلاص اور ان کمزور بیمارحضرات کی نصیحت اور خیرخواہی کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کی توفیق کے اہل ہوسکتے ہیں۔ ایک آدمی کے ذہن میں یہ سوال اٹھ سکتا ہے اور وہ یہ اعتراض کرسکتا ہے کہ یہ جتنی باتیں بیان کی گئی ہیں ان کا تعلق صرف مثال اور نمونہ سے ہے، حقیقت اور امرواقعہ سے ان کا کوئی واسطہ نہیں۔
اس کا جواب یہ ہے کہ ہاں بے شک مثال کی باتیں ہیں، مگر کتنی خوبصورت مثالیں ہیں، جنہیں پانے کے لئے یہ مومن شخص بے قرار ہوتا ہے ، یہ وہ مثالیں ہیں جن کے لئے دل بیتاب ہوتے ہیں کیونکہ جس کے اندر یہ مثالیں پیدا ہوگئیں اس نے بہت سے شرعی احکام کو اپنی زندگی میں اتارلیا ہے۔
اس لئے ڈاکٹر حضرات ہمارے لئے آئیڈیل اور نمونے ہیں جو لوگوں کے لئے اسوئہ حسنہ (اچھے نمونے) قائم کرتے ہیں، اور ان پر بنی کریم  کی یہ حدیث منطبق ہوتی ہے، جس میں آپ  نے فرمایا ہے کہ جس نے اسلام کے اندرکوئی اچھا راستہ نکالا تو اسے اس کا اجر ملے گا اور اس پر چلنے والے کے برابر بھی اجر ملے گا اور دوسرے شخص کے بدلے میں کوئی کمی نہیں کی جائے گی(مسلم)
اور نصیحت اور دعوت وارشاد کا کام کرنے والے آدمی کا شمار اس طبقے میں ہوتا ہے جس کے متعلق آپ  نے ارشاد فرمایا ” نیکی کا راستہ بتانے والا شخص اس پر عمل کرنے والے کی مانند ہے“ ۔(ترمذی) اور جو شخص کسی تباہ وبرباد ہونے والے شخص کو تباہ ہونے سے بچاتا ہے وہ اس آیت قرآنی کے مصداق ہے  وَمَنْ أَحْيَاهَا فَكَأَنَّمَا أَحْيَا النَّاسَ جَمِيعًا} [المائدة: 32].
ترجمہ: اور جس نے کسی انسان کی جان بچائی اس نے گویا کہ ساری انسانیت کی جان بچائی۔ (مائدہ ۔۲۳)
اور جس شخص نے کسی مصیبت زدہ آدمی کی پریشانی اور مصیبت کو دور کیا وہ اس فضیلت اور مقام کا مستحق ہے جس کے بارے میں نبی کریمﷺ کا ارشاد گرامی ہے: ”جس نے کسی مسلمان کی مصیبت دنیا میں دور کیا تو اللہ تعالیٰ اس کے صلے میں قیامت کے دن کی پریشانیاں اس سے دور فرما دے گا۔(بروایت احمد وترمذی)
اور جو شخص بیمار آدمی سے خندہ پیشانی کے ساتھ ملتا ہے اور اس کے لئے خوشی کا باعث بنتا ہے ایسا شخص نبی کریم  کے اسوے میں آتا ہے ” اپنے بھائی کے ساتھ کسی بھی بھلائی کو معمولی نہ سمجھو ، خواہ خندہ پیشانی کے ساتھ اس سے ملنا ہی کیوں نہ ہو“۔ (بروایت مسلم شریف)
اور اس شخص کے بارے میں جو بیمار سے اچھی بھلی بات کرے نبی پاک  نے فرمایا فرمایا  : ” اچھی بات کہنا صدقہ کرنا ہے“۔
 ان مذکورہ فضیلتوں کے علاوہ بھی دیگر بہت ساری نیکیاں اور بہتر ے اجر وثواب ہے جنہیں شمار نہیں کیا جاسکتا بس شرط یہ ہے کہ آدمی اخلاص ، صبر اور دلجمعی وپابندی سے کام لے۔ فرمان باری تعالیٰ ہے: ” {يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آَمَنُوا اصْبِرُوا وَصَابِرُوا وَرَابِطُوا وَاتَّقُوا اللَّهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ} [آل عمران: 200]

ترجمہ: ۔ اے اہلِ ایمان! (کفار کے مقابلے میں) ثابت قدم رہو اور استقامت رکھو اور (مورچوں پر) جمے رہو اور اللہ سے ڈرو تاکہ مراد حاصل کرو ۔

محترم ڈاکٹر حضرات! معذرت اور معافی کے ساتھ:
اس میں کوئی شک نہیں کہ آپ کے دل قدران اور محبت وپیار کے گہوارے ہیں،تاہم مجھے بعض لوگوں کی خامیوں نے اس پر روشنی ڈالنے پر مجبور کیا ہے ، جسے کوئی غیرت مند انسان آپ حضرات میں یا آپ کے علاوہ کسی میں بھی دیکھنا پسند نہیں کرتا، اگر آپ ان خامیوں کی اصلاح نہ کریں تو انجام کار یہ ہوگا کہ وہ خامیاں عام ہوجائیں گی اور مجھے اس بات کا اندیشہ ہے کہ ان کا آپ بھی شکار ہوجائیں گے۔ اللہ ہی بہتر جانتا ہے ہے کہ یہ چند کلمات  ہیں جو دل سے نکلے ہیں اور امید ہے کہ آپ کے دلوں کو دستک دیں گے۔

بعض ڈاکٹر حضرات سے واقع ہونے والی خامیاں:

اس میں کوئی شک نہیں کہ طب کا میدان بہت ساری شرعی اور دینی خامیوں کا شکار ہے، تاہم ان خامیوں کے سبھی ڈاکٹر حضرات شکار نہیں ہوتے ہیں،بلکہ ان میں تو بعض افراد ایسے ہیں جن کے دیدار سے دلوں کو ٹھنڈک پہنچتی ہے، اور زبان سے ان کے حق میں دعائیں نکلنے لگتی ہیں، دراصل ان کی شخصیت دلی تعریف کی مستحق ہوتی ہیں اور ان کی تعریف کا حق ناقابل فراموش ہوتا ہے، ان کی شخصیت دین حنیف کی تعلیمات پر عمل پیرااعلی نمونہ ہوتی ہیں جو بیک وقت شرعی حدود وقوانین کی جانکاری کے ساتھ ساتھ علم طب کی بھی شہسوار ہوتی ہیں۔ یہ حضرات اللہ تعالیٰ کی حرام کردہ چیزوں کا پاس ولحاظ نہ کرنے پر ناراض ہوجاتے ہیں، اے اللہ ایسے مثالی افراد میں اضافہ فرما ، اور خیر کی راہ میں ان کو غلطیوں سے محفوظ رکھ۔۔

لیکن دوسری جانب ہم چند ایسے چہروں کو دیکھتے ہیں جن کو دیکھ کردل تنگ ہونے لگتے ہیں، یہ لوگ نافرمانیوں میں ڈوبے ہوئے ہیں، جنہیں اصول وضوابط کا کوئی پاس ولحاظ نہیں اور نہ ہی حدود اللہ کی کوئی پرواہ ہے۔

انہیں صرف اور صرف اپنے میدان طب میں کام کرنا ہے، امانت،نماز کے مسائل کا اہتمام، جسم انسانی کی ستر پوشی اور ان کے علاوہ بہت ساری غلطیوں کا ان کے نزدیک کوئی اعتبار نہیں ہے، وہ لوگ ایسی ایسی خامیوں اور غلطیوں کے شکار ہیں جن سے انسان کی عزت وشرافت پر حملہ ہوتا ہے۔ہم آگے بعض ڈاکٹر حضرات سے سرزد ہونے والی خامیوں کی جانب اشارہ کررہے ہیں۔
یہ وہ چند قابل غور امور ہیں جن سے ہم ہمارے معاشرے کی حقیقی صورتحال کا اندازہ لگاسکتے ہیں، اگرچہ کہ بعض باتوں کو ہم نے یہاں وضاحت کے ساتھ بیان کی ہیں۔جس سے ہمارا مقصد صرف یاددہانی اور حسب استطاعت اصلاح کرنا ہے اور توفیق کا دینا اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے۔
۱۔ نماز:
 بغیرکسی ضرورت کے نماز کو موخر کرنا، یہ ایک عظیم گناہ ہے، چونکہ نمازہی دین کا ستون ہے، لہٰذا ضروری ہے کہ آپ نماز کو موخر کرنے کے بارے میں احکام اور حالات سے باخبر ہوں، اگر بطور مثال کوئی ایمرجنسی کیس ہو اور ایسی حالت میں آپریشن میں تاخیر کی کوئی صورت دکھائی نہیں دیتی ہے تو آپ کے لئے نماز کو موخر کرنا جائز ہے، تاہم مریض کی حالت معمولی ہو تو اس صورت میں نماز کو موخرکرنا جائز نہیں ہے بلکہ اس کے وقت میں ادائیگی ضروری ہے، یہ بھی ضروری ہے کہ آپریشن کے لئے مناسب وقت مقرر کیا جائے، اس طور پر کہ نماز کو اس کے وقت میں ادا کرنا ممکن ہو۔ اور اگرآپریشن کا وقت لمبا ہوتا جارہا ہواور ایک وقت کے بعد دوسری نماز کا وقت شروع ہورہا ہو تو ایسی صورت میں جمع بین الصلاة کرنا ضروری ہے مثال کے طور پر ظہر اور عصر ایک ساتھ ادا کریں اور مغرب وعشاءایک ساتھ (شیخ ابن عثیمینؒ) لہٰذا اس فرض کے بارے میں چوکنا رہنا چاہیے۔

۲۔ مردوعورت کا اختلاط اور تنہائی:
کیاآپ جانتے ہیں تنہائی کیا ہے؟ یہ ایک بڑ ی تباہ کن مصیبت ہے؛ڈاکٹر کے پیشے کے سبب مرد وعورت کسی بھی شکل اور کسی بھی صورت میں تنہائی پاتے ہیں، ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اب یہ بات دین میں قابل قبول ہوچکی ہے، حالانکہ غیرمرد وعورت کی تنہائی کے بارے میں صریح اور صحیح حدیثِ رسول موجود ہے، مگر ہاسپٹلس میں یہ بات عام ہوچکی ہے۔
نبی  کا ارشاد گرامی ہے:
”خبردار! کوئی مرد (اجنبی) کسی عورت کے ساتھ تنہائی نہیں پاتا ہے مگر ان دونوں میں تیسرا فرد شیطان ہوتا ہے“
(شیخ البانی نے اسے صحیح کہا ہے)
پریشانیوں اور مشکلات کے بارے میں ہم سنتے ہیں جن کا سبب یہی تنہائی ہوا کرتی ہے، لہٰذا مرد وعورت کی حفاظت مطلوب ہے، عورت اپنے فتنوں کو چھپائے اور اپنے نفس کو پاک رکھے، جبکہ مرد کو چاہیے کہ وہ فتنوں کے اڈوں سے دور رہے،اپنی نگاہوں کو جھکائے رکھے، اور کبھی بھی (کسی غیرمحرم) عورت کے ساتھ تنہائی کو قبول نہ کرے  کیونکہ شیطان ہمہ وقت حاضر رہتا ہے، جس کے ذریعے بگاڑ پیدا ہوتا ہے اور پھر مرد ایسے فعل میں ملوث ہوجاتا ہے جس کا انجام ناقابل تعریف ہے۔

۳۔ امانت کے بارے میں عدم اہتمام:
جب آپ کی فراغت ہوئی تھی ،اس وقت آپ نے یہ حلف لیاتھا کہ آپ مریض کے ساتھ خیرخواہی کا معاملہ کریں گے، لیکن ہم اس سلسلے میں حلف کی امانت میں عدم اہتمام پاتے ہیں۔اور اسی کے ساتھ امانت میں خلل انداز کئی صورتوں کو ہم پاتے ہیں ، جن میں سے چند اس طرح ہیں:
۔ کہ مریض آپریشن روم(تھیٹر) سے باہر بھی نہیں نکلتا کہ اسے بھلا دیا جاتا ہے۔۔(یہانتک کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اسے راحت حاصل ہوجاتی ہے)، پھر آپ اس کی حالت کے بارے میں کوئی خبربھی نہیں لیتے۔
۔ اسی طرح مریض سے اس کی حالت کی تشخیص کے لئے مکمل طور پر جانکاری نہ لینا
۔ مریض کو ایسی دوائیاں دینا جو اسے نہ فائدہ دے سکے اور نہ نقصان۔
۔ کتنے لوگوں کو ہم نے دیکھا ہے کہ وہ غفلت اور لاپرواہی کے سبب فالج،بینائی سے محرومی، اور موت کے شکار ہوئے ہیں!؛ کبھی کبھی یہ نقصان انجکشن کی صلاحیت کی مدت کے ختم ہونے،(ایکسپائرڈ) یا مریض کے مناسب نہ ہونے،اوراسی طرح مریض کی صحت کے بارے میں عدم اہتمام سے ہوتا ہے۔اور مریض کے بارے میں اہتمام بسااوقات بڑے لوگوں یا پھر جن لوگوں کی پہنچ ہے کے ساتھ کیا جاتا ہے اور یہ ایک خامی ہے۔
 ارشاد باری تعالیٰ ہے:
” {يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آَمَنُوا كُونُوا قَوَّامِينَ بِالْقِسْطِ شُهَدَاءَ...} [النساء: 135].
ترجمہ: اے ایمان والو! انصاف پر قائم رہو اور خدا کے لئے سچی گواہی دو۔

۴۔بعض بڑے ڈاکٹرحضرات دنیاوی مشغولیت کا شکار ہوجاتے ہیں، جو ان کی اصل ذمہ داری کی ادائیگی میں مخل ثابت ہوتی ہے۔پھر اس طرح کے ڈاکٹر حضرات اپنے اوقات میں تاخیر کرتے اور مریضوں کے بارے میں لاپرواہی برتتے ہیں، جبکہ مریضوں کا اسپیشلست سینٹرز میں بیٹھ بیٹھ کر ان کے مرض میں مزید اضافہ ہونے لگتا ہے۔

۵۔ ستر کے چھپانے کے سلسلے میں لاپرواہی:
ستر کے چھپانے کے بارے میں عدم اہتمام دیکھا جاتا ہے، نبی  کا ارشاد ہے: ” مرد، مرد کی ستر کو نہ دیکھے، اور عورت، عورت کی ستر کو نہ دیکھے، اور مرد، مرد کے ساتھ ایک کپڑے میں تنہائی حاصل نہ کرے، اور عورت، عورت کے ساتھ ایک کپڑے میں تنہائی حاصل نہ کرے“۔
(مسلم، احمد بروایت ابوسعیدخدری)
اور یہ ایک شرعی اصول ہے کہ ہر وہ چیز جس کے دیکھنے کو شریعت نے حرام قرار دیا ہو اسے چھونا بھی حرام ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
{قُلْ لِلْمُؤْمِنِينَ يَغُضُّوا مِنْ أَبْصَارِهِمْ وَيَحْفَظُوا فُرُوجَهُمْ ذَلِكَ أَزْكَى لَهُمْ إِنَّ اللَّهَ خَبِيرٌ بِمَا يَصْنَعُونَ (30) وَقُلْ لِلْمُؤْمِنَاتِ يَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَارِهِنَّ وَيَحْفَظْنَ فُرُوجَهُنَّ} [النور: 30-31]؛
 ترجمہ: ” مومن مردوں سے کہہ دو کہ اپنی نظریں نیچی رکھا کریں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کیا کریں یہ ان کےلئے بڑی پاکیزگی کی بات ہے اور جو کام یہ لوگ کرتے ہیں اللہ تعالیٰ ان ُسے خبردار ہے ۔۰۳۔ اور مومن عورتوں سے بھی کہہ دو کہ وہ بھی اپنی نگاہیں نیچی رکھا کریں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کیا کریں “

لہٰذا اس مسئلے پر اہتمام کیا جانا چاہیے اور عورت کے چہرے کو علاج کے لئے جتنا کھولنے کی ضرورت ہو اتنا ہی کھولنا چاہیے، اگر عورت کی بیماری اس کے کان میں ہو اور ڈاکٹر مرد ہوتو اسے اپنا پورا چہرا کھولنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔
اس مثال کے ذریعے ستر سے متعلق تمام مسائل کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔


۶۔کام کے لیے آنے اورجانے کے اوقات میں عدم تعین اورایسے بے فائدہ کاموں میں وقت کو ضائع کرنا:
اور یہ چیز جائز نہیں،کیونکہ جومال تم حاصل کررہے ہووہ دراصل کام کے انجام دینے کے سبب ہے۔
۷۔ صبر، بردباری اور نرمی کا نہ ہونا۔
۸۔ اللہ تعالیٰ سے لگاؤاور اس کی خوشنودی کے حصول کو پہلی ترجیح دینے میں کمی، لہٰذا ڈائریکٹر یا ذمہ دار ہی آپ کا سب کچھ نہ ہونا چاہیے کہ اس کی غیرموجودگی میں آپ جو چاہے کریں۔۔۔۔ اگر ایسا ہو تو پھر آپ کے دل میں اللہ تعالیٰ کی عظمت کہاں ہے؟!
۹۔ گانوں اور ان چیزوں کا سننا جسے اللہ تعالیٰ نے حرام قرار دیا ہے؛ ارشاد باری تعالیٰ ہے: {وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَشْتَرِي لَهْوَ الْحَدِيثِ لِيُضِلَّ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ بِغَيْرِ عِلْمٍ وَيَتَّخِذَهَا هُزُوًا أُولَئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ مُهِينٌ} [لقمان: 6]،
ترجمہ: اور لوگوں میں بعض ایسا ہے جو بیہودہ حکایتیں خریدتا ہے تاکہ (لوگوں کو) بے سمجھے اللہ کے رستے سے گمراہ کر ے اور اس سے ہنسی کرے یہی لوگ ہیں جن کو ذلت والا عذاب ہو گا ۔
ابن مسودؓ نے آیت بالا میں مذکور لہوالحدیث کو گانا کہا ہے، لہٰذا اس ذیل میں میوسیقی والے موبائل کے بھی گانے شمار ہونگے۔
۱۱۔ جلن ، حسد، غیرت، غیبت، چغلی اور بہت ساری وہ بیماریاں جن سے پیشہ کی شرافت میں فساد پیدا ہوتا ہو اور آگ کا لڑکی کو کھانے کی طرح جن سے نیکیاں ضائع ہوجاتی ہوں۔۔۔اور دل غموں اور بیماریوں کا شکار ہوجاتا ہو۔

۱۰۔ خاتون داکٹر اور مرد ڈاکٹر کے درمیان یا ڈاکٹر اور مریضا کے درمیان یا خاتون ڈاکٹر اور مرد مریض کے درمیان ناجائز تعلقات، ہنسی مذاق اور غیرمناسب بات چیت کرنا۔
  
۱۱۔تعویذ کا لٹکانا:
نبی  کا ارشاد ہے: ”جس نے تعویذ لٹکایا اللہ اس کے کام کو پورا نہ کرے“ (احمد ، بروایت عقبی بن عامر)
اور ارشاد نبوی ہے: جو کوئی چیز لٹکاتا ہے اللہ تعالیٰ اس کو اسی کے حوالے فرمادیتے ہیں۔(ترمذی، احمد، شیخ البانی نے اسے صحیح کہا ہے)
بلکہ توکل اور اللہ تعالیٰ پر بھروسہ رکھنا چاہیے، جو اللہ تعالیٰ پر بھروسہ رکھتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے لیے کافی ہوجاتے ہیں، ارشاد باری تعالیٰ ہے:
” {وَعَلَى اللَّهِ فَتَوَكَّلُوا إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ} [المائدة: 23].
ترجمہ: اور اللہ ہی پر بھروسہ رکھو بشرطیکہ صاحب ِ ایمان ہو ۔
۱۲۔ ذی روح تصویروں کا لٹکانا:
ارشاد نبوی  ہے:
”فرشتے ایسے گھروں میں داخل نہیں ہوتے جس میں کتے یا تصویر ہوں “ (مسلم، نسائی، ابوداؤد بروایت میمونہؓ)

۱۳۔ مریض کو اس کے بیماری یا مرض سے مطلع کرنے کا مسئلہ:
کبھی کبھی مریض کے مہلک مرض سے متعلق مریض کی نفسیات اور اس کے اہل خانہ کو اس بارے میں اطلاع دینے میں خیال نہیں رکھا جاتا ہے یا پھر مریض سے اس کی مہلک بیماری کو چھپایا جاتا ہے، جبکہ یہ بات مریض کے حق میں بہتر نہیں ہے، چونکہ اس حال میں اس کی موت ہوجاتی ہے اور مریض پر جو قرض یا حقوق ہیں وہ اس کی ادائیگی سے محروم رہ جاتا ہے، لہٰذا ایسی صورت میں چاہے مرض کتنا ہی خطرناک ہو مریض کو اس کے مرض سے بلاواسطہ ذرائع کے ذریعے مطلع کردینا چاہیے، اور اگر مرض مہلک نہیں تو مریض کو اس کے مرض سے باخبر کردینا چاہیے، کیونکہ یہ اس کا حق ہے۔

۱۴۔ خوبصورتی کے لیے سرجری کرنا:
یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جو شرح وبسط کا متقاضی ہے، اور اس چھوٹے سے ر سالے میں اس پر سیرحاصل بحث کرنا ناممکن ہے، تاہم اس سے متعلق تنبیہ ضروری ہے:
لہٰذا خوبصورتی کے لیے سرجری کرنے کے عمل میں تین صورتوں پر توجہ دینا ضروری ہے: اور وہ یہ ہیں ضروریات، حاجیات، اور تحسینات

۱لف: ضروریات: یہ ہے کہ مریض سرجری نہ کرے تو اسے ہلاکت کا خدشہ ہو،بطور مثال اگر مریض کے بدن سے چربی یا چکنائی کو نہ نکالا جائے تواس کی وجہ سے دل متاثر ہوتاہے اور پھر مریض کو اپنی زندگی سے محروم ہونا پڑتا ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
{وَمَنْ أَحْيَاهَا فَكَأَنَّمَا أَحْيَا النَّاسَ جَمِيعًا} [المائدة: 32]..

ترجمہ: اور جو اُس کی زندگانی کا موجب ہوا تو گویا تمام لوگوں کی زندگانی کا موجب ہوا ۔

ب: حاجیات: یہ ہے کہ مریض اس خلقت اور بناوٹ میں کسی عضو کو دوبارہ لگانے کا ضرورت مند ہوجس بناوٹ پر اللہ تعالیٰ نے انسان کو بنایا ہے، اگر مریض اسے نہ بھی لگائے تو اس کی جان کو کوئی خطرہ نہیں ہوتا۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:” {لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسَانَ فِي أَحْسَنِ تَقْوِيمٍ} [التين: 4]
ترجمہ: کہ ہم نے ا نسان کو بہت اچھی صورت میں پیدا کیا ہے۔
مثال کے طور پر جسے اللہ تعالیٰ نے اس طور پر پیدا کیا کہ اس کی ناک کچھ مائل ہے، لہٰذا حاجت سمجھ کر اس میں تعدیل کرنے کی کوئی ضرورت نہیں، اسی طرح پھٹے ہوئے ہونٹ کی مثال ہے۔
مذکورہ دونوں صورتوں میں سرجری کی کوئی ضرورت نہیں، کیونکہ شریعت الٰہی نقصان کے خاتمے کے لیے ہے۔
ج۔ تحسینات: (جسم کو خوبصورت بنانا) یہ ہے کہ کوئی انسان اپنے حسن وجمال اور خوبصورتی کو دوبالا کرنے کا خواہاں ہو، اور یہ صورت حرام ہے، اور آپ حضرات پر بھی کسی کے مطالبے پر اس کام کو انجام دینا حرام ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
{وَلَآَمُرَنَّهُمْ فَلَيُغَيِّرُنَّ خَلْقَ اللَّهِ} [النساء: 119].
ترجمہ: اور (یہ بھی) کہتا رہوں گا کہ وہ اللہ کی بنائی ہوئی صورتوں کو بدلتے رہیں ۔
حضرت ابن مسعود ؓ سے روایت ہے، آپ  نے ارشاد فرمایا:
اللہ تعالیٰ نے گودنے والیوں گدانے والیوں چہرے کے بال نکالنے والیوں دانتوں کو حسن کے لیے کشادہ کرانے والیوں پر لعنت کی جو اللہ تعالیٰ کی خلقت کو بدلتی ہیں کیا وجہ ہے کہ میں ان پر لعنت نہ کروں جن پر اللہ تعالیٰ کے رسول ﷺ نے لعنت کی اور اس کی دلیل اللہ تعالیٰ کی کتاب میں موجود ہے ۔[بخاری:کتاب اللباس:5950]

۱۵۔ مریض یا مریضا کے پاس جانے کے لیے اجازت کا نہ لینا:
کیونکہ بسااوقات کوئی مریض ایسی حالت میں ہوتا ہے کہ وہ نہیں چاہتا کہ اس کی اس حالت سے کوئی دوسرا شخص واقف ہو، اور اجازت لینا اسلامی آداب میں شامل ہے۔۔مریض کے پاس اس وقت داخل ہونا چاہیے جب وہ اپنی حالت کو درست کرلے۔

۱۶۔ غیروں کے سلام کے طریقوں کے بجائے اسلامی سلام کو زندہ کرنا:
اس سلام کو مکمل کہنے پر آپ کے لیے تیس نیکیاں لکھی جاتی ہیں،لہٰذا آپ داخل ہوتے وقت اور نکلتے وقت اس اجر عظیم سے اپنے آپ کو محروم نہ کریں۔

بعض ڈاکٹرحضرات سے سرزد ہونے والےمخالف شرع امور:
۱۔ سونے کی انگوٹھی پہننا:
آپ  کا ارشاد ہے: ریشم اور سونا میری امت کے مردوں پر حرام اور اس کی عورتوں پر حلال ہے“ ۔(احمد بروایت ابوموسیٰ، اس حدیث کے روات کو شیخ البانی نے ثقہ کہا ہے)

۲۔ کپڑوں یا پینٹ کا لٹکانا:
آپ  کا ارشاد ہے: ”(پاجامہ وغیرہ کا جوحصہ) ٹخنوں سے نیچے ہوگا وہ دوزخ میں ڈالا جائے گا“ (بخاری، نسائی)

۳۔ داڑھی کا حلق کرنا:
آنحضرت  کا ارشاد ہے: ”مشرکوں کی مخالفت کرو، مونچھوں کو کاٹو،اور داڑھیاں بڑھاؤ (مسلم بروایت ابن عمرؓ)

۴۔ سیگریٹ نوشی:
ہمیں یقین ہے کہ آپ سیگریٹ کے نقصانات اور اس کی حرمت کے بارے میں سب سے زیادہ علم رکھتے ہونگے، لہٰذا اپنے بارے میں اور ان لوگوں کے بارے میں جوآپ کے آس پاس ہیں، اللہ تعالیٰ سے ڈرو،کیونکہ آپ ہی اس میدان کے نمونے ہیں۔

۵۔ مشابہت:
رہن سہن میں یا لباس کے ذریعے یا بات چیت کے ذریعے کافروں کی مشابہت اختیار کرنا۔۔

خواتین ڈاکٹروں اور دیگر سے سرزد ہونے والےخلاف شرع امور:
۱۔ چہرے کا کھلا رکھنا،زیب وزینت کا مبالغہ آرائی کے ساتھ مظاہرہ کرنا:
یہ چیزیں اختلاط کے سبب عورتوں کو مردوں کی نظروں کا شکار بناتی ہیں۔۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
 وَلَا يَضْرِبْنَ بِأَرْجُلِهِنَّ لِيُعْلَمَ مَا يُخْفِينَ مِن زِينَتِهِنَّ''
ترجمہ: اور اپنی آرائش (یعنی زیور کے مقامات) کو ظاہر نہ ہونے دیا کریں ۔(سورۂ نورآیت نمبر۱۳) آیت میں ممانعت ، ممانعتِ تحریمی ہے۔

۲۔ خوشبو لگانا:
حضرت ابوموسی اشعری ؓ سے روایت ہے : آنحضرت  نے ارشاد فرمایا: ”جو عورت بھی خوشبو لگائے، پھر وہ لوگوں میں گھومے، تاکہ لوگ اس کی خوشبو پائے، تو ایسی عورت زانی ہے“ (نسائی، شیخ البانی نے اسے صحیح کہا ہے)

۳۔ پینٹ کا پہننا:
آپ  کا ارشاد ہے: ”دوزخ والوں کی دو قسمیں ایسی ہیں جنہیں میں نے نہیں دیکھا(کیونکہ وہ ابھی پیدا نہیں ہوئے، جن میں آپ نے بیان کیا) وہ عورتیں جو (کپڑے ) پہنیں گی(مگر) ننگی ہونگی“۔
اس حدیث کی تفسیر کرتے ہوئے علماءنے کہا ہے کہ اس سے عورت کا تنگ، پتلے اور چھوٹے چھوٹے کپڑے پہننا مراد ہے۔
۴۔ ایسا تنگ کوٹ زیب تن کرناجس سے جسم کے وہ اجزاءظاہر ہونے لگے جو فتنہ کے باعث ہوتے ہیں، اور مذکورہ حدیث کے مطابق یہ بھی حرام میں شامل ہے۔

۵۔سرکے بالوں پر زینت والا گچا لگانا:(Capuchin)
علماءکہتے ہیں: اگرآپ یہ پہنتی ہیں تو آپ کا شمار بھی نازنخرے سے مٹک مٹک کر اپنے طرف مائل کرنے والیوں میں ہوگا۔

۶۔ بال اکھڑوانا
نبی کریم  کا ارشاد ہے: ”اللہ تعالیٰ نے بال اکھڑنے والی اور اکھیڑنے والی عورتوں پر لعنت کی ہے“۔ (احمد، شیخ البانی نے اسے صحیح کہا ہے)
لعنت کا مطلب اللہ تعالیٰ کی رحمت سے محرومی ہے، کیا جنت کا سودا چند بالوں کے بدل میں کیا جاسکتا ہے؟ یہ تو دراصل اللہ تعالیٰ کی تخلیق میں تبدیلی ہے۔اور جسم کو تکلیف میں ڈالنا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
” {وَلَا تُلْقُوا بِأَيْدِيكُمْ إِلَى التَّهْلُكَةِ} [البقرة: 195].
ترجمہ: اور اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو۔

۷۔ ہاسپٹل کے لیے ڈرائیور کے ساتھ تنہا آنا:
نبی کریم  کا ارشاد ہے: ”کوئی مرد کسی عورت کے ساتھ محرم کے علاوہ تنہائی میں نہ رہے“ (متفق علیہ، الفاظ بخاری)
 اوراخیر میں :
میرے ڈاکٹر بھائی اور ڈاکٹر بہن!کیا ہی اچھا ہوگا اگر ہم اپنی بات کو اس حدیث رسول پر ختم کریں "خیرالناس انفعھم لوگوں میں سب سے بہتر وہ ہے جس سے لوگوں کو سب سے زیادہ نفع ہو۔ (شیخ البانی نے اسے حسن کہا ہے)
غورکرنے والوں کے لیے یہ حدیث بہت بڑی بات ہے۔۔۔
تو کیا آپ لوگوں میں سب سے بہتر بننا چاہتے ہو؟
تو پھر۔۔آپ کے ذریعے لوگوں کو سب سے زیادہ نفع پہنچے، لوگوں کو جس چیز کی ضرورت ہے اس میں انہیں فائدہ پہنچائیے۔۔ اپنی بات کے ذریعے انہیں بہرہ مند کیجیے، اپنی فکر کے ذریعے انہیں نفع پہنچایئے۔۔ ان کے فائدے کے لیے اپنے مال کو خرچ کیجیے۔۔ان کے نفع کے لیے اپنے بدن کو استعمال میں لایئے۔۔ اپنے کام کو ان کے نفع کے مقصد سے کیجیے۔۔اپنے منصب اور عہدے کو لوگوں کے مفاد کے لیے استعمال کیجیے۔۔
اس عظیم درجہ کو پانے کے لیے آپ کے بس میں جو بھی ہو کرگذریئے۔۔
اورجب لوگوں سے آپ کوناشکری اوراحسان فراموشی کا اظہار ہونے لگے تو ان سے کہدیجیے۔۔
” {إِنَّمَا نُطْعِمُكُمْ لِوَجْهِ اللَّهِ لَا نُرِيدُ مِنْكُمْ جَزَاءً وَلَا شُكُورًا (9) إِنَّا نَخَافُ مِنْ رَبِّنَا يَوْمًا عَبُوسًا قَمْطَرِيرًا (10) فَوَقَاهُمُ اللَّهُ شَرَّ ذَلِكَ الْيَوْمِ وَلَقَّاهُمْ نَضْرَةً وَسُرُورًا (11) وَجَزَاهُمْ بِمَا صَبَرُوا جَنَّةً وَحَرِيرًا} [الإنسان: 9-12].
ترجمہ: (اور کہتے ہیں) کہ ہم تم کو خالص اللہ کے لئے کھلاتے ہیں نہ تم سے عوض کے خواستگار ہیں نہ شکر گزاری کے (طلبگار)۔ ۹۔ ہم کو اپنے پروردگار سے اس دن کا ڈر لگتا ہے جو (چہروں کو) کریہہ المنظر اور (دلوں کو) سخت (مضطر کر دینے والا) ہے۔ ۰۱۔ تو اللہ ان کو اس دن کی سختی سے بچا لے گا اور تازگی اور خوشدلی عنایت فرمائے گا۔ ۱۱۔ اور ان کے صبر کے بدلے ان کو بہشت (کے باغات) اور ریشم (کے ملبوسات) عطا کرے گا۔

اے اللہ ! ہمارے ڈاکٹرحضرات کو ان اعمال کی توفیق دے ، جس میں آپ کی رضامندی ہے،اور انسانوں کے لئے ان کی تمام کوششوں کوان کے میزان میں حسنات اور نیکیوں کا ذریعہ بنا،، اور انہیں ظاہری اور باطنی فتنوں سے محفوط رکھ۔۔۔۔
اور درود وسلام ہو ہمارے بنی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے تمام صحابہ پر۔۔۔
ترجمہ: مبصرالرحمن قاسمی
(ماخوذ:   وذکر ویب سائٹ- کویت)