جمعہ، 15 مئی، 2015

Khud Pasandi Aur Kibr

0 تبصرے
خودپسندی
خودپسندی  ایک خطرناک  روحانی مرض ہے، جو انسان کو خالق  ومالک کی نعمتوں پر ناشکری اور اپنے نفس پر اعتماد کرنے اور اسی کو سب کچھ سمجھنے پر مجبور کرتی ہے، اللہ تعالیٰ کی تعریف سے  توجہ ہٹاکر خود کی تعریف کرنے پر آمادہ کرتی ہے، یہ بیماری خالق ارض وسماں کے سامنے عاجزی وانکساری کے بجائے کبروغرور، عجب وبڑائی اورلوگوں کے احترام اور ان کے درجات کا پاس ولحاظ رکھنے کے بجائے انہیں حقارت کی نگاہ سے دیکھنے اور ان کے حقوق کو پامال کرنے کی ترغیب دیتی ہے۔خودپسندی نام ہے اپنے آپ کو بڑھانے چڑھانے کا، اپنے اعمال کو بڑا سمجھنے اور ان پر اعتماد کرنے کا،اورخود پسندی نام ہے  اپنی محنتوں اور کامیابیوں کی نسبت اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے بجائے اپنے آپ کی طرف کرنے کا۔
خودپسندی کے نقصانات:
اس کا سب  سے بڑا نقصان یہ ہے کہ بندے کے نیک اعمال برباد ہوجاتے ہیں۔ اچھے اعمال اور نیکیاں ختم ہوتی جاتی ہیں اوربندہ  اللہ تعالی کی ناراضی کامرتکب ہوتا جاتاہے۔
امام ماوردی ؒ کا قول ہے: خودپسندی سے اخلاق حسنہ غائب ہوتے ہیں، خرابیاں اور برے اخلاق  ان کی جگہ لیتے ہیں اور تمام برائیاں یکجا ہونے لگتی ہیں نیز خودپسندی بندے کو شرافتوں سے محروم کردیتی ہے، یہ اللہ تعالیٰ کی ایسی ناراضگی اور غضب کا باعث بنتی ہے جس کی کوئی حد نہیں ہے اور اس کے ذریعہ جو جہالت اور نادانی آتی ہے اس کی بھی کوئی انتہا نہیں ہے۔ یہانتک کہ خودپسندی کی آگ تمام محاسن کو جلادیتی ہے اور ساری شرافتوں کو ختم کرجاتی ہے اور سارے نیکوں کو ختم کرنے کے لیے یہی ایک برائی کافی ہے۔
خودپسندی کا شرعی حکم:
خودپسندی شرعا حرام ہے کیونکہ یہ شرک کی ایک قسم ہے ، شیخ الاسلام ابن تیمیہ ؒ کا قول ہے'' ریا  کا ذکر عُجب یعنی خودپسندی کے ساتھ بہت زیادہ ہوتا ہے اس طرح ریاء (دکھلاوا اور خودنمائی) کا مطلب ہے مخلوق کو شریک ٹھہرانا اور خودپسندی کا مطلب ہے  نفس اورذات کو شریک بنانا اور تکبر کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے۔ اس لئے ریاء اور خودنمائی  سے کام لینے والا(ایاک نعبد) کے مقام کو نہیں پہنچ سکتا اور خود پسندی سے کام لینے والا (ایاک نستعین) کی منزل کو نہیں پاسکتا، جس نے (ایاک نعبد) کو اپنی زندگی میں اپنالیا اس نے گویا اپنے آپ کو ریاء اور خودنمائی سے پاک کرلیا اور جس نے (ایاک نستعین) کی منزل طے کرلی گویا خودپسندی کی دلدل سے نکل گیا۔
ابوحامد الغزالی ؒ کا قول ہے : یاد رکھو کہ قرآن وحدیث میں خود پسندی کی بڑی مذمت کی گئی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
 وَيَوْمَ حُنَيْنٍ إِذْ أَعْجَبَتْكُمْ كَثْرَتُكُمْ فَلَمْ تُغْنِ عَنكُمْ شَيْئًا [سورة توبہ:25]
   ترجمہ: اور (جنگ) حنین کے دن۔ جب تم کو اپنی (جماعت کی) کثرت پر غرّہ تھا تو وہ تمہارے کچھ بھی کام نہ آئی''۔ اللہ تعالیٰ نے اسے یہاں مذمت اور نکیر کے سیاق میں بیان فرمایا ہے۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
 وَظَنُّوا أَنَّهُم مَّانِعَتُهُمْ حُصُونُهُم مِّنَ اللَّهِ فَأَتَاهُمُ اللَّهُ مِنْ حَيْثُ لَمْ يَحْتَسِبُوا [سورة الحشر:2]
 ترجمہ: اور وہ لوگ یہ سمجھے ہوئے تھے کہ ان کے قلعے ان کو خدا  (کے عذاب) سے بچا لیں گے۔ مگر خدا نے ان کو وہاں سے آ لیا جہاں سے ان کو گمان بھی نہ تھا''۔  اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے کافروں کی شوکت اور ان کے قلعوں کا رد فرمایا  ، نیز ارشاد ہے: 
وَهُمْ يَحْسَبُونَ أَنَّهُمْ يُحْسِنُونَ صُنْعًا [سورةالكهف: 104]
ترجمہ: اور وہ یہ سمجھے ہوئے ہیں کہ اچھے کام کر رہے ہیں''۔
   کافروں کا یہ عمل بھی ان کی خود پسندی وخودنمائی کی جانب اشارہ کرتا ہے، یقینا بعض اوقات انسان کوئی کام کرتا ہے حالانکہ وہ کام غلطی اور خطا پر مبنی ہوتا ہے اسی طرح بعض اعمال کرتا ہے اور ان سے نقصان سے دوچار ہوتا ہے۔
ارشاد نبوی ﷺ  ہے: ''( بنی اسرائیل میں ) ایک شخص ( قارون یا ہیزن فارس کا رہنے والا ) ایک جوڑا پہن کر بالوں میں کنگھی کیے اتراتا جا رہا تھا یکایک اللہ تعالیٰ نے زمین میں اس کو دھنسا دیا وہ قیامت تک اس میں تڑپتا رہے گا'' (بخاری)۔
امام قرطبی کہتے ہیں: خودپسندی یہ ہے کہ انسان اپنے آپ کو باکمال خیال کرے اور اللہ تعالیٰ کی نعمت کو بھول جائے، اور اگر اس کے ساتھ ساتھ وہ دوسروں کو حقیر سمجھے تو یہ قابل مذمت کبرہے۔
خود پسند ی سلف صالحین کے نظر میں:
ابن مسعودؓ کہتے ہیں: ہلاکت وبربادی دو چیزوں میں ہے : ناامیدی ومایوسی اور خودپسندی میں۔
ابوحامد کہتے ہیں: ہلاکت کو ناامیدی اور خود پسندی میں جمع اس لئے کیا ، کیونکہ سعادت کا حصول کوشش، طلب اور جدوجہد کے بغیر ناممکن ہے جبکہ ناامید اور مایوس فرد نہ کوشش کرتا ہے اور نہ اسے طلب کرنے کی جستجو ہوتی ہے۔
جہاں تک خودپسند کا تعلق ہے تو وہ یہ گمان کر بیٹھتا ہے کہ وہ کامیاب ہوگیا اور اس نے اپنے مقصد کو پالیا لہٰذا وہ کوشش بھی نہیں کرتا۔
مطرف کہتے ہیں: مجھے رات بھر عبادت کرنے اور صبح خودپسندی کا اظہار کرنے سے زیادہ پسند یہ ہے کہ میں سوکر رات گذاروں اور سوکر صبح کروں۔
بشربن منصور ان لوگوں میں سے ہیں جنہیں ہمہ وقت عبادت میں مصروف دیکھا جاتا تھا، ایک روزانھوں نے نماز طویل کردی، اور ان کے پیچھے ایک شخص انتظار میں تھا، بشر سمجھ گئے، جب نماز سے فارغ ہوئے تواس سے کہا: میرا عمل تمہیں تعجب میں نہ ڈالے، چونکہ ابلیس پر اللہ کی لعنت ہو، اس نے فرشتوں کے ساتھ ایک لمبے زمانے تک اللہ تعالیٰ کی بندگی کی، پھر اس کے بعد اس کا وہ حال ہوا جس پر وہ چل پڑا تھا۔
حضرت عائشہ ؓ سے دریافت کیا گیا: آدمی بُرا کب ہوتا ہے؟ ارشاد فرمایا: جب اسے یہ گمان ہونے لگے کہ وہ اچھا ہے۔
 حضرت علی بن ابوطالب کہتے ہیں: خودپسندی صواب کی ضد ہے، اور اہل خرد کے لیے آزمائش ہے۔     
کسی کا قول ہے: ایک نعمت ہے جسے وہ حاصل ہوجائے اس  پر حسد نہیں کیا جاتا: وہ نعمت تواضع وانکساری ہے،اور ایک آزمائش ہے جو اس میں متبلا ہو اس پر رحم نہیں کیا جاتا، اور وہ آزمائش خودپسندی ہے۔
خودپسندی اور کفر:
بسا اوقات خودپسندی انسان کو کفر تک پہنچادیتی ہے اور دین اسلام سے خارج کرنے کا سبب بن جاتی ہے جیسا کہ ملعون ابلیس کے ساتھ ہوا، جب اس نے اپنی اصلیت اور اپنی عبادت پر فخر کیا، لہٰذا خودپسندی نے اسے کبر پر آمادہ کیا اورپھر اس نے  اللہ رب العزت کے فرمان  جس میں  آدم کو سجدہ کرنے کا حکم دیا تھا اس  سے روگردانی کردی۔
احنف بن قیس کہتے ہیں: مجھے اس شخص پر بڑا تعجب ہے جو دو مرتبہ شرمگاہ سے گذرا ہو اور پھر بھی اپنے آپ کو بڑا سمجھتا ہو۔
خودپسندی کا علاج:
ابن قدامہ کہتے ہیں: جان لو کہ خودپسندی کبروتکبر کو دعوت دیتی ہے، اس لئے کہ خودپسندی سے کبر پیدا ہوتا ہے اور کبر کے نتیجے میں بیشمار آفتیں، آزمائشیں اور مصیبتیں پیدا ہوجاتی ہیں،اگر یہ کبر مخلوق کے ساتھ ہو۔
اگر کبر خالق کے ساتھ ہو تو اطاعت پر خودنمائی وخودپسندی کے نتیجے میں انسان اپنی عبادات کو بہت کچھ سمجھنے لگتا ہے، گویا وہ اپنی عبادتوں کے ذریعے اللہ تعالیٰ پر احسان کررہا ہے، اور وہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے اس عمل کرنے کی توفیق کی نعمت کو بھلادیتا ہے، اور اپنی خودنمائی کی آزمائش میں بھٹکنے لگتا ہے، لیکن جو شخص اپنے اعمال کے رد کیے جانے سے ڈرتا ہے تو وہ اعمال کی آفتوں اور آزمائشوں سے  متنبہ رہتا ہے۔
ابوحامد الغزالی کا قول ہے:خوشی، غرور اور زعم کا درجہ خودپسندی کے بعد ہے، تجربہ سے ثابت ہے کہ ہر وہ شخص جو اپنی عبادت کے تئیں خوشی اور زعم میں مبتلا ہو تو وہ لازمی طور پر خودپسند بھی ہوتا ہے جبکہ بہترے ایسے خود پسند افراد ہیں جو خوشی اور زعم کے شکار نہیں ہیں اس طرح سے خود پسندی پیدا ہی اس وقت ہوتی ہے جب آدمی اپنے  آپکو بڑا تصور کرنے لگے اور اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو بھول بیٹھے اور اسے کسی اجر وثواب اور بدلے کی امید نہ ہو۔ اور خوش فہمی اور زعم کے لئے جزاء اور بدلے کی امید رکھنا ضروری ہے اس لئے آدمی کو جب قبولیت دعا کی امید ہو اور باطنی طور سے عدم قبولیت کو ناپسند کرتا ہو ، ساتھ ہی ساتھ اپنی دعاء کے تعلق سے تعجب میں متلا ہوتو ایسا شخص اپنے علم پر خوش سمجھا جائے گا۔ کیونکہ ایسے شخص کو کسی فاسق کی دعاء نہ قبول ہونے پر کوئی حیرت اور تعجب نہیں ہوتا ہے۔ جبکہ اپنی دعاء اگر قبول نہ ہوتو تعجب اور حیرانگی کا اظہار کرتا ہے۔ یہی تو ہے خودپسندی اور خوش فہمی اور زعم۔
خودپسندی کے مظاہر:
خودپسندی کی بہت ساری علامتیں ہیں ذیل میں چند علامتوں کی جانب اشارہ کررہے ہیں:
·        حق کو ٹھکرانا اور لوگوں کو ذلیل وحقیر سمجھنا۔
·        تکبر سے منھ پھیرنا۔
·        اہل خرد  واہل علم  حضرات سے مشورہ نہ لینا۔
·        کبرکی چال چلنا۔
·        اپنی اطاعت وعبادت کو بہت زیادہ خیال کرنا۔
·        اپنے علم پر فخرکرنا۔
·        طعنہ وتنقید کرنا۔
·        حسب،نسب اور خوبصورتی پر اترانا۔
·        لوگوں کی مخالفت کو بلندی کا معیار خیال کرنا۔
·        متقی پرہیزگارعلماء کی شان میں نقص تلاش کرنا
·        خودکی تعریف کرنا۔
·        گناہوں کو بھلادینا اور اسی حالت پر قائم رہنا۔
·        غلطی کو باربار دھرانا۔
·        کمال کے درجے پر پہنچنے کے گمان سے اطاعت وفرمانبرداری میں کمی کرنا۔
·        نافرمانوں اور فاسقین کو حقیرسمجھنا۔
·        اہل علم سے بہت کم مستفید ہونا۔
خودپسندی  کی وجوہات:
· جہالت، یہ عجیب بات ہے کہ بعض لوگ اختلافی مسائل میں علماء کرام کے اقوال کے سلسلے میں اپنے علم وعمل پر خودپسندی کا مظاہرہ کرتے ہیں، ایسے افراد کو معلوم ہونا چاہیے کہ ان کی خودپسندی جہالت پر مبنی ہے۔امام غزالی رحمہ اللہ  کہتے ہیں: خودپسندی کی وجہ جہلِ محض ہے اور اس کا علاج اس جہالت کے مخالف علم کا حاصل کرنا ہے۔
·  تقوی کی کمی
·  مراقبہ کی کمزوری۔
·  خیرخواہی کی کمی۔
·  بدنیتی
·  کسی کی حد سے زیادہ تعریف کرنا جس کی وجہ سے وہ شخص شیطان کے فریب کا شکار ہوجائے۔
·  دنیا کے فتنے میں پڑنا، خواہشات کی اتباع کرنا۔
·  کم سوچنا، کیونکہ اگر وہ سوچے اور غوروفکر کرے تو اسے معلوم ہوجائے گا کہ اس کو عطا کردہ ہر نعمت اللہ تعالیٰ کی جانب سے  ہے۔
·  کم شکر کرنا۔
·  کم ذکر کرنا۔
·  قرآن اور حدیث میں غوروفکر نہ کرنا۔
·  اللہ تعالیٰ کے عذاب سے مطمئن رہنا اور اس کی مغفرت ومعافی کا سہارا لانا۔
خودپسندی  کی سات اہم وجوہات اور انکا علاج:
ابوحامد الغزالی نے خودپسندی کی سات اہم وجوہات اور ان کا  علاج بتایا ہے:
۱)۔ کہ انسان اپنے جسم کی خوبصورتی، صحت وتوانائی، بناوٹ اور حسن صورت  وحسن صوت کے تناسب پر خودپسندی کا مظاہرہ کرتا ہے، اسے چاہیے کہ وہ اپنے نفس کی خوبصورتی وجمال پر توجہ دیں۔انسان یہ بھول جاتا ہے کہ یہ سب چیزیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے اسے بطور نعمت عطا کی گئی ہیں اور جنہیں ہر حال میں ختم ہونا ہے۔
علاج:
 انسان اول وآخر اپنے پیٹ میں موجود گندگیوں کے بارے میں غور کرے،اور یہ غور کرے کہ خوبصورت چہرے اور نرم نرم جسم مٹی میں بربادہوجاتے ہیں اور ان کی وجہ سے قبروں میں کس طرح کی سڑن اور تعفن پیدا ہوجاتا ہے۔
۲)۔اپنی طاقت وتوانائی پر خودنمائی:
جیسا کہ قوم عاد کے بارے میں ذکر ہے کہ وہ کہا کرتے تھے: مَنْ أَشَدُّ مِنَّا قُوَّةً  [سورة فصلت: 15] ترجمہ:''اور کہنے لگے کہ ہم سے بڑھ کر قوت میں کون ہے؟''۔
علاج:
 انسان اللہ تعالیٰ کی عطاکردہ عقل پر اس کا شکر بجالائے، اور یہ خیال کرے کہ اگر اس کے دماغ میں ادنی ترین مرض پیدا ہوجائے، اور وہ وسوسوں کا شکار ہوجائے، جس پر وہ خود ہنسنے لگے، اگر وہ اپنے اس عقل پر خودپسندی کا مظاہرہ کرتا ہے تو وہ اپنی عقل کے سلب ہونے سے محفوظ نہیں رہ سکتا، اور اللہ تعالیٰ کی نعمت پر شکر بھی نہیں کرسکتا۔لہٰذا انسان کو یہ جاننا چاہیے کہ اسے جو بھی علم دیا گیا وہ بہت تھوڑا ہے اور اس کی جہالت معرفت سے بڑھ کر ہے۔
۳)۔ نسب پر خودپسندی:
بعض لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ وہ شریف النسب ہونے سے نجات پالیں گے اور انہیں معاف کردیا جائے گا، اور بعض تو یہ بھی خیال کرتے ہیں کہ پوری مخلوق ان کی غلام ہے۔
علاج:
 وہ جان لے کہ اس کے تمام اعمال و عادات اس کے آباء  واجدادکے اعمال سے مطابقت نہیں رکھتے،اگر وہ اپنے آباء واجداد کی اقتداء کرے تو ان کے اخلاق میں کوئی خودپسندی نہیں تھی، بلکہ انھوں نے اپنے نفوس کو خوف باری تعالیٰ سے جوڑ رکھا تھا،اور ان کی عزت وبزرگی اور شرف  کی وجہ صرف اور صرف  اطاعت ، علم اور اچھے ونیک اعمال تھے  نہ کے حسب نسب، لہٰذا ان لوگوں کی طرح شرف حاصل کرنا چاہیے، اللہ تعالیٰ نے شرف وبزرگی کا معیار تقوی رکھا ہے نہ کہ حسب و نسب، ارشاد باری تعالیٰ ہے: إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِندَ اللَّهِ أَتْقَاكُمْ [سورةالحجرات: 13] ۔
ترجمہ: ''اور خدا کے نزدیک تم میں زیادہ عزت والا وہ ہے جو زیادہ پرہیزگار ہے۔''
۴)۔  تعداد کی کثرت پر خودپسندی :: جیسے اولاد، خدام، رشتے دار ، اقارب، انصار اور متبعین کی کثرت پر خودپسندی کا مظاہرہ کرنا، جس طرح کہ کافروں کا کہنا ہے: وَقَالُوا نَحْنُ أَكْثَرُ أَمْوَالا وَأَوْلادًا [سورة سبأ: 35] ترجمہ: اور (یہ بھی) کہنے لگے کہ ہم بہت سا  مال اور اولاد رکھتے ہیں اور ہم کو عذاب نہیں ہوگا۔
علاج:
انسان اپنی کمزوری اور ان کی کمزوری پر غورکرے، کیونکہ وہ تمام عاجز غلام ہیں، جو اپنی جان کے لئے نہ نفع کے مالک ہیں اور نہ نقصان کے، پھر انسان ان پر کیونکر خودپسندی کا مظاہرہ کرتا ہے،حالانکہ یہ سب جب موت  آئے گی تو  ایک دن اس سے جدا ہونے والے ہیں، پھر اسے حالت ذلت میں تن تنہا قبر کے گڑھے میں دفن کردیں گے،اس کے ساتھ نہ اس کے گھر والے ہونگے،نہ اس کی اولاد ہوگی، نہ اس کے رشتے دار ہونگے، نہ دوست ہوگا اور نہ اس کی ٹولی ہوگی۔
۵)۔ظالم وجابر سلاطین اور ان کے چیلوں سے نسبت پر خودپسندی وخودنمائی :
علاج:
بندہ ان کی ذلت ورسوائی پر غوروفکر کرے، نیز اللہ کے بندوں پر ان کے ظلم وستم اور دین الہٰی میں  ان کے فساد پر غور کرے، اس بات پر بھی غورکرے کہ اللہ تعالیٰ ان لوگوں سے ناراض ہے، اگر جہنم میں ان کی صورتوں اور گندگیوں کا مشاہدہ کیا جائے تو انسان ان کی جانب اپنی نسبت کرنا موجب عار سمجھے گا۔اور ان سے اپنی نسبت کی برات کا اظہار کرنے لگے گا۔
۶)۔ مال کے ذریعے خودپسندی:
قرآن کریم میں دوباغ والوں کے واقعے میں ایک باغ والے کا یہ قول نقل ہے :
 أَنَا أَكْثَرُ مِنكَ مَالًا وَأَعَزُّ نَفَرًا[سورة الكهف: 34]
ترجمہ: ''میں تم سے مال ودولت میں بھی زیادہ ہوں اور جتھے (اور جماعت) کے لحاظ سے بھی زیادہ عزت والا ہوں''۔
علاج:
 انسان مال کی آفتوں،اس کے حقوق کی کثرت اور اس کی خطرناک مکاریوں پر غوروفکر کرے، اور فقراء مساکین کی فضیلت ا ور قیامت کے روز جنت کی جانب ان کی سبقت پر غورکرے، اور اس بات پر بھی غورکرے کہ مال آنے جانے والی شی ہے جس کا کوئی مستقل ٹھکانہ نہیں۔ نیز نبی کریم ﷺ کے اس ارشاد پر غورکرے:
 ترجمہ: ''( بنی اسرائیل میں ) ایک شخص (قارون یا ہیزن فارس کا رہنے والا ) ایک جوڑا پہن کر بالوں میں کنگھی کیے اتراتا جا رہا تھا یکایک اللہ تعالیٰ نے زمین میں اس کو دھنسا دیا وہ قیامت تک اس میں تڑپتا رہے گا'' ۔
۷)۔ غلط رائے پر خودپسندی:
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
 أَفَمَن زُيِّنَ لَهُ سُوءُ عَمَلِهِ فَرَآهُ حَسَنًا [سورة فاطر: 8]  
ترجمہ: ''بھلا جس شخص کو اس کے اعمال بد آراستہ کرکے دکھائے جائیں اور وہ ان کو عمدہ سمجھنے لگے۔
 نیز ارشاد ہے:
 وَهُمْ يَحْسَبُونَ أَنَّهُمْ يُحْسِنُونَ صُنْعًا[سورة الكهف: 104]
 ترجمہ: ''اور وہ یہ سمجھے ہوئے ہیں کہ اچھے کام کر رہے ہیں'۔
لہٰذا جتنے بھی اہل بدعت  واہل ضلال  لوگ ہیں ان کا بدعت اور گمراہی پر اصرار  ہی ان کی اپنی غلط رائے پر خود پسندی کا نتیجہ ہے۔
اس کا علاج یہ ہے کہ: انسان اپنی رائے پر توجہ دے، اس کے بارے میں دھوکہ میں نہ پڑے، اگر کوئی کتاب وسنت، یا دلیل کے شرائط پر مبنی صحیح عقلی دلیل دے تو اس کی رائے کو قبول کرے، اگر انسان خواہشات اور بدعات میں پڑجائے اور عقیدے کے بارے میں تعصب کا شکارہوجائے تو وہ غیر شعوری طور پر ہلاکت کی جانب بڑھنے لگتا ہے۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ اپنے سارے بندوں کی خودپسندی  اور کبر وغرور  جیسے امراض سے حفاظت فرمائے۔
وصلى الله على نبينا محمد وعلى آله وصحبه وسلم۔

ترجمہ: مبصرالرحمن قاسمی
زیراہتمام:  موقع وذكر الاسلامي