جمعہ، 12 جون، 2015

Akabireen k Ramzan Aur Tilawat e Quran

0 تبصرے

رمضان المبارک میں قیام لیل اور معاصر علماء کرام کی روشن مثالیں

ترجمہ:  مبصرالرحمن قاسمی

 الشيخ ابراهيم بن صالح التركي ( ت ١٤٢٦(
بارہ برس کی عمر میں حفظ قرآن کی تکمیل، آپ ماہر ومتقن قاری تھے، کثرت سے قرآن مجید کی تلاوت کیا کرتے تھے، آپ ہر دو دن میں ایک قرآن ختم کیا کرتے تھے، جبکہ رمضان المبارک میں بیس مرتبہ قرآن کریم ختم کرتے تھے۔ شیخ ابراہیم خود بیان کرتے ہیں کہ وہ نوجوانی کی عمر میں ایک عرصہ قرآن کریم کی مسلسل تلاوت نہ کرسکے، جس کی وجہ سے قرآن کی بعض سورتوں کا حفظ کمزور ہوگیا ، قرآن کریم کے حفظ میں اس کمزوری کی وجہ سے انھوں نے ایک سال تک اپنی دکان کو بند کردیا اور قرآن کریم کا دور کیا حتی کہ ان کا حفظ پختہ ہوگیا۔

 الشيخ أحمد ياسين ( ت ١٤٢٥(
ڈاکٹر احمد الصویان کہتے ہیں کہ ان سے شیخ احمد یاسین کے فرزند نے بیان کیا کہ شیخ احمد کا یہ معمول تھا کہ ہر چار رات میں ایک قرآن کریم ختم کرتے تھے، سخت ترین حالات میں بھی وہ اپنے معمول کو ترک نہیں کرتے تھے، شیخ احمد کے فرزند کے بقول وہ خود اپنے والد کے لیے قران کریم کے صفحات کو پلٹتے تھے اور شیخ احمد یاسین تلاوت کیا کرتے تھے، کیونکہ شیخ احمد یاسین معذور تھے، وہ بیان کرتے ہیں کہ ایک رات انھوں نے اپنے والد کو دیکھا کہ وہ اپنی زبان سے قرآن کریم کے صفحات کو الٹ رہے ہیں۔

 الشيخ أحمد بن عبد الرحمن بن قاسم (ت ١٤٢٩(
شیخ احمد بن عبدالرحمن بن قاسم کا یہ معمول تھا کہ ہر سات دن میں ایک قرآن ختم کرتے تھے، اپنی زندگی کے آخری مہینوں میں آپ نے ہر تین دن میں ایک قرآن ختم کرنے کا معمول بنادیا تھا، آپ نے اٹھارہ سال کی عمر سے ہی روزانہ دو گھنٹے قیام لیل شروع کردیا تھا، آپ کا یہ سلسلہ عمر کے اخیر مہینوں تک جاری رہا۔

 أحمد بن عبد الله الخضيري ( ت ١٤٠٥(
آپ کے فرزند شیخ ڈاکٹر محمد بن عبدالعزیز الخضیری کے مطابق شیخ احمد بن عبداللہ الخضیری ہر روز ایک قرآن ختم کرتے تھے جبکہ ماہ رمضان میں 60 مرتبہ قرآن کریم ختم کرتے تھے، جب رمضان کا چاند نظر آتا تو آپ حرم میں داخل ہوجاتے اور شوال کے چھ روزوں کے بعد ہی حرم سے نکلتے۔

 سعد بن عبد الله العبيد ( ت ١٤٢٨(
شیخ سعد بن عبداللہ العبید کے فرزند شیخ محمد کہتے ہیں: میں نے جب سے شادی کی ہے اس وقت سے اپنے والد کو قیام اللیل کا پابند پایا، میں نے اپنی پوری زندگی میں کبھی بھی انھیں نماز فجر کے لیے بیدار نہیں کیا، جب آپ کو مرض لاحق ہوا تو آپ نے علاج کے لیے امریکا جانے کا ارادہ کیا اور امریکا میں صرف پندرہ دن قیام کیا، جب وہ امریکا سے لوٹے تو مجھے بڑی خوشی سے بیان کیا کرتے تھے کہ مجھے امریکا میں جو سب سے پسندیدہ چیز ملی وہ طویل راتیں تھیں،  جہاں آپ اپنے معمول کے مطابق قیام لیل کے وقت میں دو گھنٹوں کا اضافہ کیا کرتے تھے اور چار پاروں کے بجائے چھ پارے قیام لیل میں پڑھا کرتے تھے، اس طرح آپ نے دوہفتوں کے اندر تین دفعہ قرآن کریم ختم کیا تھا۔

 الشيخ عبد الله بن عبد الرحمن بن غديان (ت١٤٣١(
ڈاکٹر سعد بن مطر العتیبی کے بقول میں شیخ عبداللہ بن عبدالرحمن کو قرآن کریم کی کثرت سے تلاوت اور حد درجہ قرآن کریم میں تفکر وتدبر کرتے ہوئے پایا، مجھ سے ان کے فرزند نے بیان کیا کہ وہ ایک دفعہ شیخ کے ساتھ بذریعہ کار طائف سفر پر نکلے، ابھی گھر سے ہم نکلے بھی نہیں تھے کہ والد محترم نے مجھے قرآن کریم پڑھنے کے لیے کہا لہذا میں نے سورہ فاتحہ سے شروع کیا ، جب ہم طائف پہنچے تو والد محترم کا قرآن ختم ہوچکا تھا ۔ آپ کا معمول تھا کہ روزانہ سات سے آٹھ گھنٹے تلاوت صرف تلاوت کیا کرتے تھے۔
ڈاکٹر سعد بن مطر العتیبی بیان کرتے ہیں کہ مجھ سے ان کے فرزند محمد نے بیان کیا کہ وہ شیخ محمد بن ابراہیم رحمہ اللہ کے زمانے میں جمعہ کے دن نماز فجر سے ہی جمعہ کے لیے مسجد پہنچ جایا کرتے تھے اور نماز فجر کے بعد سے ہی صف اول کو پانے کے لیے کوشش کرتے تھے، اس اثناء اکثر لوگ جمعہ کی اذان ثانی سے پہلے ایک قرآن ختم کردیا کرتے تھے۔

• محمد بن عبد الرحمن بن قاسم ( ت ١٤٢١(
شیخ عبدالملک جو شیخ محمد عبدالرحمن بن قاسم کے فرزند ہیں وہ بیان کرتے ہیں کہ ان کے والد رحمہ اللہ قرآن کریم اور اہل قرآن سے حد درجہ محبت کیا کرتے تھے، آپ نے بچپن میں ہی حفظ قرآن کی سعادت حاصل کرلی تھی، رمضان میں آپ کا معمول ہر تین دن میں ایک قرآن ختم کرنے کا تھا، جبکہ عمر کے آخری زمانے میں آپ ہر روز ایک قرآن ختم کرتے تھے، والدمحترم کے سلسلے میں مشہور ہے کہ آپ کم عمری سے ہی قیام لیل کے پابند تھے، آپ کا قیام لیل روزانہ تین گھنٹے ہوتا تھا، برادر عبدالمحسن نے والد محترم سے ایک دفعہ سوال کیا کہ آیا شیخ محمد بن ابراہیم نے آپ کو اس طرح قیام لیل کی ہدایت کی ہے، کہنے لگے نہیں، بلکہ میں نے 19 سال کی عمر میں قیام لیل کے فضائل سے متعلق ایک کتاب پڑھی تھی، لہذا اس وقت سے میں نے قیام لیل ترک نہیں کی۔ والدہ محترمہ کے مطابق والد محترم نے اپنی شب زفاف میں بھی اپنے اس معمول کو ترک نہیں کیا تھا۔

.• محمد المختار بن محمد الأمين الشنقيطي ( ت١٤٠٥)
محمد شنقیطی کے فرزند شیخ محمد کے بقول میں کالج کی تعلیم کے دوسرے سال میں تھے، ان دنوں میں نے والد محترم سے ایک رات میں قرآن کریم ختم کرنے سے متعلق سوال کیا تو آپ نے فرمایا یہ بہت آسان ہے کہ ایک رات میں قرآن ختم کیا جائے البتہ خلاف سنت ہے۔ پھر آپ کہنے لگے : بیٹا! اللہ کی قسم ! اللہ کا شکر ہے ، کئی سال ایسے گذرچکے ہیں کہ میں عشاء کی نماز کے بعد قرآن کریم شروع کرتا ہوں اور سحر آنے آنے تک قرآن کریم کے آخری حصے تک پہنچ جاتا ہوں۔
)استفادہ  : شذا الياسمين من أخبار المعاصرين (

http://saaid.net/mktarat/ramadan/675.htm




منگل، 2 جون، 2015

Waqt Ki Qadar Kijiye

0 تبصرے
وقت کی قدر کیجیے

ترجمہ : مبصرالرحمن قاسمی

اگر کوئی فرد عام لوگوں کے حالات، احوال، واقعات ، ان کے وقت کے استعمال اور ان کی لمبی لمبی عمروں کے بارے میں تحقیق کرے تو اخیر میں وہ اسی نتیجے پر پہنچے گا کہ ان میں سے اکثر نے اپنے اوقات کو ضائع وبرباد کیا، وہ عمرعزیزکے صحیح استعمال اور وقت کو کام میں لانے سے محروم رہے۔ ایک انسان کو ایسے لوگوں پرحیرت  کرنی چاہیے جو گذرے ہوئے دنوں پر خوشی اور جشن مناتے ہیں، حالانکہ ان کی بیش بہا عمر کا ہر لمحہ اور ہر سیکنڈ انہیں قبر اور آخرت کی جانب ڈھکیل رہا ہے۔اور دنیا سے دور کرتا جارہا ہے۔
 ایک عربی شاعر کے بقول:
إنا لنفرح بالأيام نقطعها   وكل يوم مضى جزء من العمر
 (غافل تجھے گھڑیاں یہ دیتا ہے منادی۔ گردش نے گھڑی عمر کی اک اور گھٹادی)
 وقت ہی زندگی اور انسان کی حقیقی عمر ہے،وقت کی حفاظت ہر بھلائی کی اصل ہے، وقت کا ضائع کرنا ہر برائی اور شر کاسرچشمہ ہے،ایک مسلمان کی زندگی میں وقت کی کیا قیمت ہے، وقت کے تئیں اس کے کیا فرائض ہیں، وقت کی حفاظت کے کونسے عوامل ہیں اور کس چیز کے ذریعہ ایک مسلمان اپنے اوقات کو کارآمد اور فائدہ مند بناسکتا ہے، ‍ ذیل کی سطور میں ہم ان باتوں پر روشنی ڈال رہے ہیں، اللہ رب العزت ہمیں طویل عمروالوں اور اعمال صالحہ کرنے والوں میں شامل فرمائے اور ہمیں اپنے اوقات سے حسن استفادے کی توفیق دے۔انہ خیر مسؤول
 وقت کی اہمیت:
جب انسان کسی چیز کی قیمت کیا ہے جان لیتا ہے، اس کا حریص ہوجاتا ہے، اس کو اس چیز کا چلا جانا یا ضائع ہونا شاق گذرتا ہے، اور یہ ایک بدیہی چیز ہے،لہٰذا ایک مسلمان جب اپنے وقت کی قیمت اور اس کی اہمیت سے واقف ہوجاتا ہے تو پھر وہ وقت کی حفاظت اور اس کو اپنے رب سے قریب کرنے والے اعمال میں استعمال کرنے کا خواہاں ہوتا ہے۔
 امام ابن قیم ؒاس حقیقت کو واضح کرتے ہوئے رقم طراز  ہیں:
انسان کا وقت دراصل اس کی عمر ہے،وقت جنت میں اس کی دائمی زندگی کا ایک عنصر ہے، اسی طرح وقت دردناک عذاب میں تنگ وتاریک زندگی کا بھی ایک راستہ ہے۔وقت بادل کی طرح گذرتا ہے، لہٰذا جس کا وقت اللہ تعالیٰ کے لئے (یعنی اطاعت باری تعالیٰ) میں خرچ ہوتا ہو، تو پھر اس کی زندگی اور عمر بھی اللہ ہی کے ذمہ ہے، اور جو اپنے وقت کو غفلت، بھول چوک اورباطل تمناؤںمیں گذارتا ہے، تواس کی زندگی کوئی زندگی نہیں بلکہ اس سے وہ شخص بہتر ہے جو اپنے بستر پر سوئے پوری زندگی گذاردے اور اسے اسی حال میں موت آجائے“۔
 ابن جوزی کہتے ہیں:
”انسان کو اپنے زمانے کے شرف اور اپنے وقت کی قدر سے آگاہ رہنا چاہیے، اسے اپنے وقت کا ایک لمحہ بھی فضول ضائع نہیں کرنا چاہیے، اسے اپنے وقت میں عملا اور قولا اچھے سے اچھا عمل پیش کرنا چاہیے،اور خیر کے کاموں  میں اچھی نیت رکھنی چاہیے جس میں کوئی فتور نہ ہو۔
قرآن وحدیث میں مختلف مقامات پر مختلف اسلوب میں وقت کی اہمیت پر روشنی ڈالی گئی ہے، اسی طرح اللہ تعالیٰ نے متعدد سورتوں کے آغاز میں اوقات کے ذریعہ قسم کھائی ہے،جیسے سورۂ لیل، سورۂ نہار، سورۂ فجر، سورۂ ضحی، سورۂ عصر وغیرہ میں۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَالْفَجْرِ (1) وَلَيَالٍ عَشْرٍ
ترجمہ:فجر کی قسم!۱۔ اور دس راتوں کی ۔ (سورۂ فجرآیت نمبر ۱۔۲)
 وَاللَّيْلِ إِذَا يَغْشَىٰ (1) وَالنَّهَارِ إِذَا تَجَلَّىٰ
ترجمہ:رات کی قسم جب (دن کو) چھپا لے۔ ۱۔ اور دن کی قسم جب چمک اٹھے۔ (سورۂ لیل آیت نمبر۱۔۲)
 وَالضُّحَىٰ (1) وَاللَّيْلِ إِذَا سَجَىٰ
ترجمہ:آفتاب کی روشنی کی قسم۔ ۱۔ اور رات (کی تاریکی کی) جب چھا جائے۔ (سورئہ ضحی آیت نمبر۱۔۲)
 وَالْعَصْرِ (1) إِنَّ الْإِنسَانَ لَفِي خُسْرٍ
ترجمہ:عصر کی قسم! ۱ ۔ کہ انسان نقصان میں ہے۔ (سورۂ عصر آیت نمبر۱۔۲)
اللہ رب العزت جب اپنے مخلوق میں سے کسی چیز کی قسم کھاتے ہیں تو یہ قسم اس چیز کی اہمیت اور عظمت پر دلالت کرتی ہے، اور اس وجہ سے ہر کوئی اس چیز کی منفعت اور فائدے سے آگاہ ہوجاتا ہے۔
 وقت کی اہمیت اور اس کی قیمت کے سلسلے میں احادیث رسول میں بھی تاکید آئی ہے، جس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ انسان سے کل قیامت کے دن اس کے وقت کے بارے میں سوال کیا جائے گا۔
حضرت معاذ بن جبلؓ سے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
” قیامت کے روز بندے کے قدم اس وقت تک(اپنی جگہ سے) ہٹ نہ سکیں گے جب تک کہ اس سے ان چار باتوں کے بارے میں سوال نہ کرلیا جائے:
۱۔ عمر کن کاموں میں گذاری؟
۲۔ جوانی کی توانائی کن کاموں میں لگائی؟
۳۔ مال کہاں سے کمایا اور کہاں لٹایا؟
۴۔ علم پر کس حدتک عمل کیا؟
 (ترمذی، شیخ البانی نے اس حدیث کو حسن کہا ہے)
نبی ﷺ نے یہ بھی  بتایا کہ وقت مخلوق پر اللہ کی نعمتوں میں سے ایک نعمت ہے، لہٰذا بندے پر نعمت کا شکر ادا کرنا ضروری ہے ورنہ نعمت کو چھین لیا جاتا ہے ،  وقت کی نعمت کا شکر کیا ہے؟وقت کی نعمت کا شکر  یہ ہے کہ اسے اللہ کی اطاعت میں استعمال کیاجائے اورباقی رہنے والے نیک اعمال میں اس کو فائدہ مند بنایاجائے۔
پیارے نبی ﷺ کا ارشاد ہے :
” دو عظیم نعمتیں ہیں:تاہم بہت سے لوگ ان کے بارے میں غفلت برتتے ہیں،: اوروہ صحت اور فرصت ہیں“(بخاری)
 مسلمان کی وقت کے تئیں ذمہ داری:
جب وقت کی اتنی اہمیت ہے کہ اسی کوحقیقی زندگی کہاگیاتو ایک مسلمان پر اپنے وقت کے تئیں بہت ساری ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں ،جن کی معرفت اور ان ذمہ داریوں سے استفادہ  اس کے لیے ضروری ہے۔
 وقت سے استفادے کی خواہش:
 انسان مال اور مال کی حفاظت اور اس کو کام میں لانے کا سخت حریص اور لالچی ہوتا ہے حالانکہ وہ جانتا ہے کہ مال آنے جانے والی چیز ہے، لہٰذا انسان کو اپنے وقت اور اس کے صحیح استعمال کے ذریعے دین ودنیا میں استفادے کا زیادہ حریص ہونا چاہیے، اور وقت کے ذریعے خیر وبھلائی کا حصول سب سے بڑی چیز ہے، خصوصا جب انسان کے علم میں یہ بات ہو کہ جوجاچکا وہ کبھی لوٹنے والا نہیں ہے، سلف اپنے اوقات کے صحیح استعمال کے بہت زیادہ حریص ہوتے تھے، اس لئےکہ وہ لوگ وقت کی قیمت کو اچھی طرح جانتے تھے، اسلاف کا معمول تو یہ تھا کہ وہ ایک دن یا دن کا کچھ حصہ یا لمحات بھی پاتے تو وہ اسے علم نافع کے حصول یا کسی نیک کام یا نفس کے مجاہدے یا دوسروں کو نفع پہنچانے کے لئے خرچ کرنے کی شدید خواہش رکھتے تھے۔
 حضرت حسن کے بقول میں نے کچھ ایسے  لوگوں کو دیکھا جو تم سے درہم اور دینار کے مقابلے اپنے اوقات کے صحیح استعمال کے بہت زیادہ حریص تھے۔
 وقت کی منصوبہ بندی اور پلاننگ:
دینی یا دنیوی کاموں کے لئے مسلمان کی وقت کے تئیں منصوبہ بندی اور پلاننگ ضروری ہے،باایں طور پر کہ دینی اور دنیاوی کاموں میں توازن برقرار ہو اور اہم غیراہم کا لحاظ رہے۔
ایک بزرگ کا قول ہے: ”بندے کے صرف چار اوقات ہیں جن میں پانچویں کی کوئی گنجائش نہیں:
پہلا نعمت، دوسرا آزمائش، تیسرا طاعت اور چوتھا معصیت، اور ان اوقات میں سے ہر ایک میں اللہ رب العزت کی جانب سے بندگی کا ایک حصہ شامل ہے، جس کے سبب حق تجھ سے (بندے سے)اللہ تعالیٰ کی ربوبیت کے حکم کا متقاضی ہے: بہر حال جس کا وقت اطاعت باری تعالیٰ میں خرچ ہوتو اس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ کا احسان اس کی ہدایت اوراس وقت کو اطاعت باری تعالیٰ میں خرچ کرنے کی توفیق کامتمنی رہے ۔اور جس کا وقت نعمت ثابت ہو(یعنی نعمت سمجھ کر بندہ اسے خرچ کرے) تو پھر اسے اللہ تعالیٰ کاشکربجالانا چاہیے، اور جس کا وقت معصیت ثابت ہو(یعنی بندہ اپنے وقت کو اللہ تعالیٰ کی نافرمانی میں خرچ کرے) تو پھر اسے توبہ اور استغفار میں جلدی کرنا چاہیے، اور جس کا وقت مصیبت وآزمائش میں گذرے تو (بندے کے لئے) صبرکرنے اوراللہ تعالیٰ کو خوش کرنے کا موقع ہاتھ آیا ہے“۔
 فرصت کے لمحات کو مفید اورغنیمت سمجھے:
فرصت؛ نعمت خداوندی ہے، تاہم بہت سے لوگ اس سے غفلت برتتے ہیں،ہم انہیں دیکھیں گے کہ وہ فرصتِ وقت کا شکر بھی ادا نہیں کرتے اور اس کی ویسی قدر بھی نہیں کرتے جیسا اس کے قدر کرنے کا حق ہے،حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا:
”دو نعمتیں ایسی ہیں جن سے لوگ کماحقہ، فائدہ نہیں اٹھاتے اور وہ صحت اور وقتِ فرصت ہیں“ (بخاری)  اور آنحضرت ﷺ نے فرصت کو غنیمت جاننے کی ترغیب دیتے ہوئے ارشاد فرمایا: ”پانچ چیزوں کی آمد سے پہلے پانچ چیزوں کو غنیمت جان لو، اورآپ ﷺنے ان پانچ میں بیان کرتے ہوئے کہا: فرصت کو مصروفیت سے پہلےغنیمت جانو یعنی مفیدبناؤ“۔ (بروایت حاکم، اس روایت کو شیخ البانی نے صحیح کہا ہے)۔
 ایک بزرگ کا قول ہے:
”مصروفیات میں فرصتِ وقت ایک عظیم نعمت ہے،اگر بندہ اس نعمت کو ٹھکرادیتا ہے یا اس سے کفر کربیٹھتا ہے، تو بلاشک وشبہ وہ اپنی جان کو ہلاکت میں ڈالنے والا ہے،جس کے نتیجے میں وہ خواہشات کے بہاؤ میں بہہ جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ ایسے بندے کی عطا کردہ قلب کی نعمت کو الجھن میں ڈال دیتے ہیں اور اس کے دل کی خوبیوں کو سلب کردیتے ہیں“۔
عقلمند کوچاہیے کہ اپنے فرصت کے وقت بھلائی اور خیر کے کام میں لائے،ورنہ فرصت ِوقت صاحبِ فرصت پرمصیبت اور آزمائش کا باعث ہوتا ہے۔اسی لیے کہاجاتا ہے کہ: مردوں کے لئے فرصت غفلت کا باعث ہوتی ہے اور عورتوں کے لئے یہ شہوات میں پڑنے کامحرک بنتی ہے۔
 وقت کی حفاظت کے لیے معاون عوامل:
خوداحتسابی:
اپنا احتساب یااپنے آپ کا جائزہ لینا یہ وہ اہم ذریعہ ہے جو مسلمان کواطاعت باری تعالیٰ کے لیے اپنے وقت کو مفید سمجھنے اور اس کے صحیح استعمال کے لئے مددگار ثابت ہوتا ہے اور یہ اسلاف کا طریقۂ کار اور پرہیزگاروں کی عادت ہے۔
لہٰذا  غور کرئیے کہ  گذرے ہوئے دن آپ نے کیا کام کیا؟
اور دیکھئے کہ آپ کا وقت کہاں خرچ ہوا؟ اور کن چیزوں میں آپ نے اپنے دن کے لمحات کو گذارا ہے؟ کیا آپ نے گذرے دن اپنی نیکیوں میں اضافہ کیا ہے یا پھر گناہوں کے بوجھ کو مزیدبڑھایا ہے؟
بلندہمتی  اور شخصی تربیت:
جس نے بلندمقاصد سے قربت اور گھٹیا کاموں سے دوری پراپنے آپ کی تربیت کی، تو ایسا شخص وقت کی سب سے زیادہ قدروقیمت کو پہچان نے والا ہے،اور جس کے ارادے بلند ہوں وہ کمتر کے سامنے نہیں جھکتا ہے، اورعزم وارادے کے حامل افراد کے مطابق عزائم پیدا ہوتے ہیں۔
 وقت کے پابندلوگوں کی صحبت میں رہنا:
کیونکہ ایسے لوگوں کی صحبت میں رہنا ، ان کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا اوران سے قریب ہونے کی خواہش رکھنا وقت کے صحیح استعمال میں مددگار ومفید ثابت ہوتا ہے۔نیزاطاعت الٰہی اورتزکیۂ نفس میں بھی یہ چیز بہت فائدہ مند ثابت ہوتی ہے۔
 اللہ تعالیٰ کی رحمت ہو شاعرپر وہ نصیحت کرتے ہوئے کہتا ہے:
إذا کنت فی قوم فصاحب خیارھم۔۔۔۔ ولا تصحب الاردی فتردی مع الردی
ترجمہ: جب تولوگوں کے درمیان ہو تو ان میں بہترشخص کو اپنا ساتھی بنا،اور یاد رکھ کہ خراب اوربدمزاج انسان کو اپنا ساتھی اوردوست نہ بنانا،چونکہ اس سے دوستی تیری خرابی کا باعث بنے گی۔
عن المرءلا تسل وسل عن قرینه        فکل قرین بالمقارن یقتدی
ترجمہ: آدمی کے بارے میں معلومات نہ لے بلکہ اس کے دوست یا ساتھی کے بارے میں معلومات لے
چونکہ ہر دوست اور ساتھی اپنے ہمجولیوں کی اتباع کرتا ہے۔
اسلاف وقت کو کیسے گذارتے تھے؟
اسلاف کے حالات، ان کی سوانح اور وقت کے تئیں ان کے واقعات کا علم وقت کے بہتر استعمال کے لیے مؤثر ثابت ہوتا ہے، اسلاف نے وقت اورعمر کی قدر وقیمت کوبخوبی سمجھا،انھوں نے اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں عمر عزیز کے لمحات کومفید سمجھ کر خرچ کرنے میں بہترین مثال قائم کی۔
 کاموں کی تقسیم وقت کو مفید بناتی ہے:
چونکہ انسان فطرتا جلد اکتاہٹ کا شکار ہونے والا ہے، وہ بار بار پیش آنے والی چیزوں سے بہت جلد اکتا جاتا ہے، جبکہ کاموں کو متنوع بنانا یا ان کی تقسیم کرنا، انسان کو وقت کے کارآمد اور زیادہ مفید بنانے میں معاون ثابت ہوتا ہے۔
 تضییعِ اوقات کا ادراک:
ہر دن گذرتا جارہا ہے، ہر لمحہ ختم ہورہا ہے، اور ہر پل آگے بڑھتا جارہا ہے ،کسی میں ان کو لوٹانے کی طاقت نہیں،اور نہ ہی ان کا کوئی بدل ہے
حضرت حسن کے قول سے یہی مراد ہے:
”ابن آدم پر کوئی دن ایسا نہیں گذرتا جس میں وہ یہ نہ کہتا ہو:
اے ابن آدم، میں (تیری زندگی کا)نیا دن ہوں، میں تیرے اعمال پر گواہ رہنے والا ہوں، جب میں تیرے پاس سے چلے جاؤں تو دوبارہ واپسی نہیں، کل کے بدلے کے لئے جو چاہے (آج) کرلے ، اورجو چاہے چھوڑ دے ،( لیکن یاد رکھ)اس کا موقع تجھے دوبارہ کبھی میسر نہیں آئے گا“۔
 موت کی یاد اور احتضار کے لمحات:
جب انسان دنیا کو پیچھے چھوڑدیتا ہے اورآخرت اس کے سامنے ہوتی ہے،توپھریہ تمناکرنے لگتا ہے کہ اسے دنیاوی زندگی کا تھوڑا سا بھی وقت میسر آئے تو وہ اسے اصلاح حال اور چھوٹے ہوئے اعمال کی بھرپائی میں لگادے گا، لیکن افسوس، اعمال کے کرنے کا وقت ختم ہوچکا ہوتا ہے اور حساب اور بدلہ کا وقت آچکاہوتا ہے۔ انسان کا اس بارے میں سوچنا اور موت کے وقت کو یاد کرنابھی اللہ کی خوشنودی اور اس کی رضا کے لئے اپنے وقت کو استعمال کرنے پرآمادہ کرتا ہے۔
 وقت ضائع کرنے والوں کی صحبت سے دور رہنا:
سست ، کاہل اور وقت کو ضائع کرنے والے افراد کی صحبت انسان کی طاقتوں اور صلاحیتوں کو برباد کرکے رکھ دیتی ہے، اس کے اوقات کو بے کار بنادیتی ہے۔ انسان کو اس کے دوست اور ساتھیوں کے ذریعے پہچانا جاتا ہے،حضرت عبداللہ ابن مسعودؓ کہتے ہیں:” آدمی کو اس کے ساتھی کے ذریعے پہچانو، کیونکہ آدمی اپنے طرح لوگوں ہی کو اپنا ساتھی بناتا ہے“۔
 روز قیامت ہونے والے سوال و جواب کو یاد کرنا:
جب انسان اس سخت دن اپنے رب کے سامنے کھڑا ہوگا، تواللہ تعالیٰ بندے سے اس کے وقت اور عمر کے بارے میں سوال کریں گے: کہ عمر کیسے گذاری؟
کہاں خرچ کی؟
کن کاموں میں اس کو استعمال کیا؟
اورکس چیز سے اس کو بھرا؟
آپ ﷺ کا ارشاد ہے:
” قیامت کے روز بندے کے قدم اس وقت تک(اپنی جگہ سے) ہٹ نہ سکیں گے جب تک کہ اس سے پانچ باتوں کے بارے میں سوال نہ کرلیا جائے: (جن میں سے عمر اور جوانی کے بارے میں سوال ہوگا)
۱۔ عمر کن کاموں میں گذاری؟
۲۔ جوانی کی توانائی کن کاموں میں لگائی؟ (بروایت ترمذی ، شیخ البانی نے اسے حسن کہا ہے)        
 ان سوال جواب کی یاد ہانی بھی مسلمان کو اپنے وقت کی حفاظت اور اسے اللہ کی رضا اور خوشنودی والے اعمال میں صرف کرنے میں معاون ثابت ہوتی ہے۔
 سلف صالحین کی وقت کے صحیح استعمال  پر قیمتی نصیحتیں:
امام حسن بصری ؒ کہتے ہیں:
”اے ابن آدم ! تیری ذات خود دن اور زمانہ ہے، جب ایک دن نکل جاتا ہے تو گویا تیرے جسم کا ایک حصہ ختم ہوجاتا ہے“
مزید کہتے ہیں:
”اے ابن آدم! تیرا دن تیرا مہمان ہے ، لہٰذا اس کے ساتھ حسن سلوک کر، چونکہ تو اگراس کے ساتھ اچھے برتاؤ کے ساتھ پیش آئے گا تو وہ تیری تعریف کرتے ہوئے روانہ ہوگا، اور اگر تو اس کے ساتھ بدسلوکی کے ساتھ پیش آئے گا تو پھر وہ تیری مذمت کرتے ہوئے روانہ ہوگا، اسی طرح تیری رات کا بھی حال ہے۔


 مزید کہتے ہیں:
”دنیا صرف تین دن کا نام ہے،بہرحال گذشتہ کل تو وہ جاچکا ،جہاں تک آئندہ کل کا تعلق ہے تو کوئی یقینی بات نہیں ہے کہ تو اسے پاسکے، رہا آج کا دن تو یہ ا بھی تیرے ہاتھ میں ہے لہٰذا جو بھی عمل کرناہو کرلے۔“
 اور ابن مسعود کہتے ہیں:
 ”مجھے کسی چیز پر اتنی ندامت اور شرمندگی نہیں ہوئی، سوائے ایک دن کے جس کاسورج غروب ہوگیا ہواور اس میں میری عمر کا وقت ختم ہوچکاہو اور میرے اعمال میں کوئی اضافہ نہ ہوا ہو“۔
 ابن قیم کہتے ہیں:
”وقت کا ضائع کرنا موت سے زیادہ سخت ہے؛ کیونکہ وقت کا ضیاع اللہ تعالیٰ اور آخرت سے دور کردیتا ہے اور موت دنیا اور دنیاوالوں سے کاٹ کر رکھ دیتی ہے“۔
 سری بن مفلس کہتے ہیں:
” اگر تو اپنے مال کے نقصان پر رنجیدہ ہوتا ہے، تو اپنے عمر کے کم ہونے پر رویا کر“
 ہم اپنے اوقات کو کارآمد کیسے بنائیں؟
وقت کو کارآمد اور مفید سے مفید تر بنانے کے لیے بہت سارے میدان ہیں،تاہم  ایک مسلمان  کوایسے میدان کا انتخاب کرنا چاہیے جو دینی اعتبار سے زیادہ مناسب ہو۔ ذیل میں ہم ان کی جانب اشارہ کررہے ہیں:
۱۔ قرآن کریم کو سیکھنا اور اس کا حفظ کرنا:
 مسلمان کو اپنے وقت کے صحیح استعمال کے لئے قرآن کریم کوسیکھنا اور اس کو حفظ کرنا سب سے بہتر عمل ہے، نبی ﷺ نے قرآن کریم کوسیکھنے سکھانے کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے ارشاد فرمایا:
” خيركم من تعلم القرآن وعلمه“
ترجمہ: ”تم میں بہترین شخص وہ ہے جو قرآن کریم سیکھے اور سکھائے“ (بخاری)
 ۲۔ طلب علم (علم کا حاصل کرنا)
 اسلاف طلب علم میں اپنے اوقات کو کارآمد بنانے کے بہت زیادہ حریص ہوا کرتے تھے، وہ جانتے تھے کہ انہیں کھانے پینے سے زیادہ علم کے حصول کی بڑی ضرورت ہے۔طلب علم یا علم کے حصول میں اپنے اوقات کو مفید اور کارآمد بنانے کی مختلف شکلیں ہیں جن میں اہم دروس اورلیکچرس میں شرکت کرنا، مفید کیسیٹ سننا،مفیدکتابوں کا مطالعہ کرنا اور ان کی خریدی کرنا شامل ہے۔
 ۳۔ذکرالٰہی:
ذکر کے علاوہ کوئی ایسا عمل نہیں جو تمام اوقات کوشامل ہو، ذکرایسا ہرا بھرا ، ثمر آوراور آسان تر عمل ہے جس میں مسلمان کو نہ کسی زیادہ مشقت اورتھکن سے دوچار ہونا پڑتا ہے اور نہ اس کے لئے مال ودولت درکار ہے۔آنحضرت ﷺ نے اپنے ایک صحابی کو وصیت فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا:” آپ کی زبان برابر اللہ کے ذکر سے تر رہے“۔(بروایت احمد، اسے شیخ البانی نے صحیح کہا ہے) اس سے بڑھ کر اچھی بات کونسی ہوسکتی ہے کہ مسلمان کا دل اپنے رب تعالیٰ کی یاد سے ہمہ وقت معمور رہے، اگر بولے تواس کی بڑائی اور اگر حرکت کرے تو اسی کے حکم کے مطابق۔
 ۴۔ نوافل کی کثرت:
یہ عمر میں ملنے والی فرصتوں کواللہ کی اطاعت میں استعمال کرنے کا اہم میدان اور تزکیہ نفس کا اہم محرک ہے، نیزکثرت نوافل فرائض میں واقع ہونے والے نقص کی بھرپائی کے لئے سنہرا موقع ہے بلکہ ان سب سے بڑھ کرکثرت نوافل اللہ رب العزت کی محبت کے حصول کا ذریعہ ہے۔
”ولا يزال عبدي يتقرب إلي بالنوافل حتى أحبه" (بخاری)
ترجمہ: اور بندہ نوافل کے ذریعے مجھ سے قریب ہوتا جاتا ہے یہانتک کہ میں اس سے محبت کرنے لگ جاتا ہوں۔
 ۵۔ دعوت الی اللہ، نیکی کا حکم دینا، برائی سے روکنا اور مسلمانوں کی خیرخواہی کرنا:
 عمر بھر کے اوقات کو سرسبزوشاداب اورکارآمد ومفید بنانے کے یہ تمام میدان ہیں، جبکہ دعوت الی اللہ رسولوں، انبیاءاورپیغمبروں کا طریقہ ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے:
” وَلَقَدْ ذَرَأْنَا لِجَهَنَّمَ كَثِيرًا مِّنَ الْجِنِّ وَالْإِنسِ ۖ لَهُمْ قُلُوبٌ لَّا يَفْقَهُونَ بِهَا وَلَهُمْ أَعْيُنٌ لَّا يُبْصِرُونَ بِهَا وَلَهُمْ آذَانٌ لَّا يَسْمَعُونَ بِهَا ۚ أُولَـئِكَ كَالْأَنْعَامِ بَلْ هُمْ أَضَلُّ ۚ أُولَـئِكَ هُمُ الْغَافِلُونَ “ ( یوسف ۱۰۸)
ترجمہ: ۔ کہہ دو کہ میرا رستہ تو یہ ہے میں اللہ کی طرف بلاتا ہوں (ازروئے یقین و برہان) سمجھ بوجھ کر میں بھی (لوگوں کو اللہ کی طرف بلاتا ہوں) اور میرے پیرو بھی اور اللہ پاک ہے اور میں شرک کرنے والوں میں سے نہیں ہوں ۔
 ۷۔ رشتے داروں سے ملاقات اور صلہ رحمی:
 یہ عمل جنت میں داخلے، رحمت الٰہی کے حصول، عمر میں اضافے اور رزق میں کشادگی کا ذریعہ ہے، آنحضرت ﷺ نے ارشاد فرمایا: جو یہ چاہتا ہو کہ اس کے رزق میں کشادگی کی جائے،اور اس کی عمر میں اضافہ کیا جائے تواس کو چاہیے کہ اپنے رشتے دار کے ساتھ حسن سلوک کرے۔(بخاری)
 ۸۔ روزانہ کے خالی اوقات کا صحیح استعمال:
جیسے نمازوں کے بعد کے اوقات، اذان اور اقامت کے درمیان ملنے والا وقت، تہجد کا وقت اور فجر کے بعد اشراق تک کا وقت یہ وہ اوقات ہیں جو عظیم عبادتوں سے جڑے ہوئے ہیں۔لہٰذا بندۂ مومن ان اوقات میں اجرِکبیر اور ثواب ِعظیم کو حاصل کرسکتا ہے۔
 ۹۔فائدہ مند چیزوں کا سیکھنا:
فرصت کے اوقات میں اپنے یا مسلمان بھائیوں کے فائدے کے لئے کمپیوٹر،زبانیں،ٹائیپنگ، بجلی کا کام یا بڑھائی کا کام وغیرہ سیکھنا۔
 اوراخیر میں میرے مسلمان بھائی ! یہ قیمتی گھڑیاں، اور یہ دستیاب ذرائع، اور یہ ایک سے زائدمیدان ہیں، جنہیں ہم نے بطور مثال بیان کیا ہے، لیکن خیر کے کام ان کے علاوہ بھی بیشمار ہیں، جن کے ذریعے آپ اپنے مطلوبہ بنیادی مقاصد کے تئیں اپنے اوقات کو کارآمد بناسکتے ہیں۔
 وقت کو برباد کرنے والی بلائیں:
مسلمان کے وقت کو ضائع کرنے والی بہت ساری بلائیں اور مشکلات ہیں،جن کے سبب وہ بسااوقات پوری عمراس میں سے نکل نہیں پاتا۔جن میں سے چند ہم یہاں بیان کررہے ہیں:
 ۱۔غفلت:
یہ ایک ایسا مرض اور بیماری ہے جس سے مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد متاثر ہے، جس کے نتیجے میں ان میں سے اکثریت کو اس کا احساس بھی نہیں ہے۔قرآن کریم نے بڑی سختی کے ساتھ غفلت سے خبردار کیا ہے بلکہ غافلین کو جہنم کی لکڑیاں قرار دیا:
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَلَقَدْ ذَرَأْنَا لِجَهَنَّمَ كَثِيرًا مِّنَ الْجِنِّ وَالْإِنسِ ۖ لَهُمْ قُلُوبٌ لَّا يَفْقَهُونَ بِهَا وَلَهُمْ أَعْيُنٌ لَّا يُبْصِرُونَ بِهَا وَلَهُمْ آذَانٌ لَّا يَسْمَعُونَ بِهَا ۚ أُولَـئِكَ كَالْأَنْعَامِ بَلْ هُمْ أَضَلُّ ۚ أُولَـئِكَ هُمُ الْغَافِلُونَ
ترجمہ: اور ہم نے بہت سے جن اور انسان دوزخ کےلئے پیدا کئے ہیں، اُن کے دل ہیں لیکن اُن سے سمجھتے نہیں اور اُن کی آنکھیں ہیں مگر اُن سے دیکھتے نہیں اور اُن کے کان ہیں پر اُن سے سنتے نہیں یہ لوگ (بالکل) چوپایوں کی طرح ہیں بلکہ اُن سے بھی بھٹکے ہوئے، یہی وہ ہیں جو غفلت میں پڑے ہوئے ہیں۔(سورۂ اعراف:  179)
 ٹال مٹول:
ٹال مٹول کرنا، آج کا کام کرپرٹالنا ، وقت اور عمر کو برباد کرنے والی آفت ہے، افسوس ہے کہ لفظ (عنقریب یا کچھ ہی دیر بعد )بہت سے مسلمانوں کا شعاراور عادت بن گیا ہے۔
حضرت حسن کہتے ہیں:
” آج کا کام کل پر ٹالنے سے بچو، کیونکہ تو آج کے لئے ہے اور کل کا کوئی بھروسہ نہیں“۔
ٹال مٹولی سے بچیے، چونکہ کل تک زندہ رہنے کی کوئی ضمانت نہیں، اوراگرکل کی زندگی کی ضمانت مل بھی جائے تو،اچانک بیماری، یا کوئی رکاوٹ، یا کوئی مصیبت سے تو راہ فرار نہیں۔یہ یاد رکھیے کہ ہر دن کا ایک کام ہے،اور ہر وقت کے تئیں چند ذمہ داریاں ہوتی ہیں، لہٰذا مسلمان کی زندگی میں فرصت کا کوئی وقت نہیں ہے،جبکہ بندگی سے متعلق اعمال میں ٹال مٹول کرنا ان کو چھوڑنے کا عادی بناتا ہے۔
 اور شاعر کے قول کے مطابق اپنی زندگی کو ڈھالنے کی کوشش کیجیے:

تزود من التقوى فإنك لاتــــــدري
إن جن ليــل تعيش إلى الفجــــــــــر
فكم من سليم مات من غير علة
وكم من سقيم عاش حينا من الدهر
وكم من فتى يمسي ويصبح آمنا
وقــد نسجت أكفــــــانه وهـــو لايدري
ترجمہ :
تقوی کا توشہ تیار رکھیے، کیونکہ تمہیں پتہ نہیں کہ رات کے چھاجانے کے بعد فجرتک بھی جی سکوگے۔کتنے تندرست اور صحت مند تھے جو بغیر کسی سبب یا مرض کے مرچکے اور کتنے بیمار تھے جو زمانہ کے ایک عرصہ تک جیتے رہے۔اور کتنے نوجوان تھے جو امن وامان کے ساتھ صبح وشام کیا کرتے تھے لیکن انہیں پتہ بھی نہیں چلا اور وہ کفن میں باندھ دیے گئے۔

عربی متن کے لیے دی گئی لنک پر کلک کریں :