ہفتہ، 29 اگست، 2015

shaitan se Guftagu

0 تبصرے

معروف مصنف عائض القرنی کی کتاب "مقامات " سے  ماخوذ، ایک دلچسپ گفتگو  ضرور پڑھیں - (ترجمہ : مبصرالرحمن قاسمی)

شیطان سے گفتگو
تاریک رات تھی، اذان فجر کی آواز کانوں میں گونج رہی تھی، مسجد جانے کے ارادے سے میں بیدار ہی ہونا چاہتا تھا کہ شیطان مردود سے میری بات چیت شروع ہوئی۔
کہنے لگا : ابھی رات بڑی ہے، سوتے رہو-
میں نے کہا: مجھے ڈر لگتا ہے کہ کہیں تو میری فرض نماز ضانع نہ کردے۔
کہنے لگا : ارے بھائی  وقت بڑا لمبا ہے -
میں نے کہا : مجھے ڈر ہے کہ جماعت کی نماز چھوٹ نہ جائے-
کہنے لگا : عبادت کے لیے  اپنے نفس پر اتنی زبردستی مت کرو۔
لہذا میں  اس کی باتوں کا شکار ہوگیا اور سورج نکلنے تک اٹھ نہ سکا۔
تو کان میں کہنے لگا : نماز کے چھوٹنے پر اتنا افسوس مت کرو، ابھی نماز کے لیے پورا دن پڑا ہے۔
جب میں ذکر واذکار کے لیے بیٹھا تو میرے سامنے فکروں کے دفتر کھول دیا-
میں نے دل ہی دل میں کہا : تونے مجھے دعاء سے غافل کردیا-
کہنے لگا : دعاء اور ذکر واذکار شام میں کرلینا-
میں نے توبہ اور رجوع کا پکا ارادہ کیا -
کہنے لگا : ارے ابھی جوانی کے مزے لے لو۔
میں نے کہا : مجھے موت کا ڈر ہے-
کہنے لگا : ابھی تو بہت عمر باقی ہے۔
میں قرآن پڑھنے بیٹھا-
کہنے لگا : ارے گانوں سے اپنے دل کو راحت پہنچاو-
میں نے کہا: وہ تو حرام ہے-
کہنے لگا : اس سلسلے میں علماء کے درمیان اختلاف ہے-
میں نے کہا : میرے پاس ایک کتاب میں گانوں کی حرمت پر کئی احادیث ہیں۔
کہنے لگا : ارے  وہ سب ضعیف ہیں۔
اسی اثناء ایک حسین وجمیل عورت گذری تو میں نے نگاہوں کو نیچے کردیا-
کہنے لگا : دیکھنے میں کیا حرج ہے؟
میں نے کہا : اس میں ہلاکت ہے-
کہنے لگا : ارے اس کے حسن وجمال میں غوروفکر کرو، کیونکہ غوروفکر کرنا حلال ہے-
میں کعبۃ اللہ جانے لگا، اس نے راستے میں مجھے روک دیا-
اور کہنے لگا : اس سفر کا کیا فائدہ؟
میں نے کہا : عمرے کا ارادہ ہے۔
کہنے لگا : تم نے عمر  ےکے ارادے سے کئی خطرات مول لے لیے، اگر خیر وبھلائی اور نیکی ہی کرنی ہے تو نیکی اور بھلائی کے اور بھی میدان ہیں، جہاں اس سے زیادہ ثواب مل سکتا ہے۔
میں نے کہا : حالات کی اصلاح بہت ضروری ہے-
کہنے لگا : تم جنت میں اعمال کی بدولت نہیں جاوگے۔
جب میں لوگوں کو نصیحت اور وعظ کے لیے جانے لگا-
کہنے لگا : اپنے آپ کو رسو ا نہ کرو-
میں نے کہا : اس سے تو لوگوں کو فائدہ ہوتا ہے-
کہنے لگا : مجھے ڈر ہے کہ تم شہرت کا شکار ہوجاو گے، پتہ ہے آپ کو شہرت ہی ساری برائیوں کی جڑ ہے۔
میں نے اس سے پوچھا : پھر جو لوگ مشہور ہوئے ان کے بارے میں تیری کیا رائے ہے؟
کہنے لگا : ذرا مجھے مشہور شخصیات کے نام گناو۔
میں نے کہا : احمد بن حنبل؟
کہنےلگا : مجھے ان کے قول "سنت کو لازم پکڑو اور قرآن منزل من اللہ ہے" نے ہلاک کردیا۔
میں نے کہا : ابن تیمیہ؟
کہنے لگا : ان کی پھٹکار تو مجھے ہر روز پڑتی ہے۔
میں نے کہا : بخاری کے بارے میں کیا خیال ہے؟
کہنے لگا : انھوں نے تو اپنی کتاب کے ذریعےمیرے گھر دار کو خاکستر کررکھا۔
پھر میں نے اس کےسامنے حجاج کا ذکر کیا۔
کہنے لگا : کاش کہ ہر گھر میں ایک ہزار حجاج پیدا ہوتے، اس کا کردار ہمارے لیے باعث خوشی ہے، اور اس کا طریقہ کار ہمارے لیے علاج ہے۔
میں نے پھر فرعون کا تذکرہ کیا ۔
کہنے لگا : اس کے لیے تو ہماری ہر مدد اور تعاون شامل رہی۔
پھر میں نے اخلاق سوز فحش  میگزن کا ذکر کیا۔
کہنے لگا : یہ تو ہمارا دستور ہے-
میں نے کہا : قہوہ خانوں کے بارے میں کیا رائے ہے؟
کہنے لگا : اس میں تو ہم ہر غافل کا استقبال کرتے ہیں۔
میں نے پوچھا : تمہارا ذکر کیا ہے؟
کہنے لگا : گانے ہمارا ذکر ہے۔
میں نے کہا : تمہارا کام کیا ہے؟
بتایا : امنگیں اور خواہشات ہمارا کام ہے۔
میں نے  بازار کے بارے میں اس کی رائے طلب کی-
کہنے لگا : یہاں تو ہمارےدوست واحباب جمع ہوتے ہیں۔
میں نے اس سے پوچھا : تم لوگوں کو گمراہ کیسے کرتے ہو؟
کہنے لگا : شہوتوں، شبہات، لایعنی باتوں، امنگوں اور گانوں کے ذریعے۔
میں نے پوچھا : اور عورتوں کو ؟
کہنے لگا : زیب وزینت، بے پردگی اور گناہوں میں ملوث کرکے۔
پھر میں نے اس دریافت کیا : تم علماء کو کیسے گمراہ کرتے ہو؟
کہنے لگا : عجب اور خودپسندی کی محبت  سے، غرور وتکبر میں مبتلا کرکے اور ان کے دلوں کو ایک دوسرے کے حسد سے بھر کر۔
میں نے کہا : عام لوگوں کو کیسے گمراہ کرتے ہو؟
کہنے لگا : غیبت ، چغلی اور فضول بات چیت کے ذریعے۔
میں نے کہا : تاجروں کو گمراہ کرنے کا کیا طریقہ ہے؟
کہنےلگا : ہم تاجروں کو  سود کے ذریعے، صدقات سے روک کر اور فضول خرچی کے ذریعے گمراہ کرتے ہیں۔
میں نے کہا : نوجوانوں کو کیسے گمراہ کرتے ہو؟
کہنے لگا : غزل، عشق، دھوکہ دہی اور  ناجائز وحرام کاموں کے ارتکاب کے ذریعے۔
میں نے  اس سےاس موقع پر ایک اہم سوال کیا : اور پوچھا ،  اسرائیل کے بارے میں کیا خیال ہے؟
بغیر تاخیر کے کہنے لگا : ارے ارے غیبت نہ کرو، اسرائیل تو ایک محبوب ملک ہے، اس کا ہمارے دل میں  بڑا  احترام ہے۔
میں نے کہا : تونے قارون سے کیا کہا تھا ؟
کہنےلگا : میں نے قارون سے کہا اے بوڑھی ماں کے فرزند کا میابی چاہتے ہوتو اپنے خزانوں کی حفاظت کرو، لوگ تمہیں یاد کریں گے۔
میں نے کہا : اور فرعون سے کیا کہا ؟
کہنے لگا : میں نے اس سے کہا، اے عظیم محلات کے مالک  !کہہ ! میں مملکت مصر کا  مالک ہوں، مدد ونصرت میرا ہی حق ہے۔
میں نے کہا : شرابی کا کیسے حوصلہ بڑھاتے ہو؟
کہنے لگا : میں اس سے کہتا ہوں اے معزز ماں کے فرزند ! شراب پیا کر، غم دور ہوتے ہیں،  کوئی فکر کی بات نہیں ہے،  توبہ کا دروازہ ابھی کھلا ہی ہے۔
میں نے کہا : کون سی چیز ہے جو تجھے قتل کرتی ہے؟
کہنے لگا : آیۃ الکرسی – اس سے میں بہت زیادہ تنگی محسوس کرتا ہوں، جب تک بندہ پڑھتا رہتا ہے میں اپنے آپ کو ایک  قیدی محسوس کرتا ہوں۔
میں نے کہا : تو لوگوں میں سب سے زیادہ کن سے محبت کرتا ہے؟
کہنے لگا : گلوکاروں سے، شاعروں سے، گناہگاروں سے، فتنہ پروروں سے اور ہر اس فرد سے جو اپنے ذہن میں خباثت کو جگہ دیتا ہے۔
میں نے کہا : تجھے لوگوں میں سب سے زیادہ کن سے بغض ہے؟
بڑے افسوس کے ساتھ کہنے لگا : آہ !  مسجد والوں سے، ہر رکوع ، سجدہ کرنے والے سے، ہر زاہد ، عابد اور مجاہد سے۔

میں نے کہا : أعوذ بالله منك، میرے اس کہنے پر وہ غائب ہوگیا، ایسا غائب ہوا گویا زمین میں دھنس گیا، دراصل ہر جھوٹے، کذاب کا یہی حشر ہے۔



جمعہ، 7 اگست، 2015

SABR KARNE WALON K LIYE KHUSH KHABRI

0 تبصرے
ترجمہ: مبصرالرحمن قاسمی
صبر کرنے والوں کے لیے خوشخبری

بسم اللہ الرحمن الرحیم
صبر آدھا ایمان ہے، صبرنفس انسانی کی سب سے بڑی خوبی ہے ، صبر اطاعت باری تعالٰی کی جانب رہنمائی کرتا ہے، صبر بندے کو اللہ تعالیٰ کی معصیت سے بچانے کا باعث ہوتا ہے، لہٰذا صبر کی حقیت ، اس کے فضائل، اس کی قسمیں ، درجات اور صبر کے بارے میں لوگوں کے احوال اور اس سلسلے میں قابل مذمت اور منافی امور کی جانب اشارہ کرنا ضروری ہے، خصوصا ایسے وقت میں جب کہ مشکلات اور پریشانیوں کا ایک سیلاب ہے ، فتنوں کی کثرت ہیں، شک وشبہات بڑھتے جارہے ہیں ، اور دین کی حفاظت آگ کی چنگاری کو ہاتھ میں لیے چلنے کے مترادف ہوگئی ہےاور آج کھانے پینے کی ضرورت سے زیادہ صبر کی ضرورت  ہے۔
ہم اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں کہ ہمیں اس کی اطاعت پر اور اس کی معصیت ونافرمانی سے پچنے پر، اس کے فیصلوں پر اور تقدیر پر صبر کی توفیق دے۔ انہ ولی ذلک والقادر علیہ

صبر کی تعریف
بے صبری ، بے چینی، زبان سے شکوی شکایت اور اعضاء سے رخسار یا چہرہ پر مارنا اور ان کو نوچنا اور کپڑے پھاڑنا ، ان تمام کاموں سے اپنے نفس کو روکے رکھنا صبر ہے، صبر انسان کے اخلاق کی سب سے بڑی صفت ہے، صبر کے ذریعے بُرے انجام اور قابل مذمت کاموں سے رُکا جاسکتا ہے ، صبر نفس کی وہ طاقت ہے جس پر اس کے دُرست اور صحیح ہونے کا دارومدار ہے، اسی لیے کہاگیا ہے کہ صبر ایسا مقام ہے جس میں مصیبت کے وقت ویسا ہی حسن صحت کا مظاہرہ کرے جیسا عافیت کے وقت کیا جاتا ہےاس کا مطلب یہ ہے کہ بندے پر اللہ تعالیٰ کا حق یہ ہے کہ پریشانی ہویاخوشی کا موقع ہو اس پر اللہ تعالیٰ کی بندگی ضروری ہے، لہٰذا عافیت کے وقت شکر کا مظاہرہ کرے اور مصیبت کے وقت صبر کے دامن کو تھامے رکھے۔
حضرت جنید بغدادی سے صبر کے بارے میں دریافت کیا گیا، انھوں نے کہا:  یہ کڑواہٹ کو چہرے پر شکن پڑے بغیر نگلنا ہے۔
حضرت ذوالنون کہتے ہیں: صبر کا مطلب خلاف شرع چیزوں سے دوری اختیار کرنا، مصیبت وآزمائش سے بھرے لقموں کو نگلنا اور روزی روٹی کے معاملے میں فقروفاقہ میں مبتلا ہونے کے باوجود بے نیازی کا اظہار کرنا ہے۔
صبر نفس کے لیے بمنزلۂ لگام ہے، صبر بندے کو یا تو جنت کی جانب لے چلتا ہے یا پھر دوزخ کی جانب، اگر سواری کے جانور کو لگام نہ ہو تو پھر وہ راستہ میں بھٹکتا پھرے گا۔
 ایک بزرگ کا قول ہے کہ :اپنے نفس پر قابورکھو کیونکہ یہ ہربرائی  کادروازہ ہے، اللہ تعالیٰ اس بندے پر رحم کرے جس نے اپنے نفس کو لگام لگایا ہو اور اسے نکیل کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں چلاتا ہو، اور اسے اللہ تعالیٰ کی معصیت ونافرمانی سے روکتا ہو، بے شک اللہ تعالیٰ کی حرام کردہ چیزوں پر صبر کرنا اللہ کے عذاب کو برداشت کرنے سے آسان ہے۔
صبر کی حقیقت
صبر یہ ہے کہ بندہ اپنے اقدام کی قوت کو نفع مند امور میں خرچ کرے،اور ضرررساں امور سے اپنے نفس کو باز رکھے۔
صبر اور صبر کرنےوالے
بعض لوگوں کا قوت صبر ضرررساں چیزوں کے مقابلے نفع مند اور کارآمد چیزوں پر زیادہ قوی ہوتا ہے،تو ایسے لوگ اطاعت باری تعالیٰ میں پیش آنے والی مشقتوں پر صبر کرتے ہیں ، اور منع کردہ چیزوں کے ارتکاب کے لئے ان کے دل میں کوئی داعیہ پیدا نہیں ہوتا، اور بعض افراد ایسے ہوتے ہیں جو اللہ کی نافرمانیوں اور خلاف شرع کاموں کے کرنے میں خوب مصیبتیں برداشت کرتے ہیں جبکہ اطاعت باری تعالیٰ کے لئے ان کی قوت برداشت جواب دینے لگتی ہے، اور بعض افراد ایسے ہوتے ہیں جو کسی بھی معاملہ میں برداشت اور صبر سے کام نہیں لیتے، بہت سارے لوگ موسم گرما میں روزے کی مشقت برداشت کرتے ہیں اور موسم سرما میں قیام اللیل کی مشقتوں اور تھکاوٹ برداشت کرتے ہیں ، انہیں حرام کردہ چیزوں پر نظر ڈالنا بھی ناقابل برداشت ہوتا ہے، جبکہ دوسری جانب بہت سے لوگوں کا حال یہ ہوتا ہے کہ وہ حرام کردہ اشیاء  اور عریاں و ننگی تصاویر کو دیکھنا گوارا کرتے ہیں لیکن امر بالمعروف اور نہی عن المنکر، اور کفارو منافقین کے ساتھ جہاد ان کے لئے ناقابل برداشت ہوتا ہے۔بلکہ یہ باتیں ان کے نزدیک بہت ہی معمولی ہوتی ہے، اور بہت سے لوگ ایسے ہیں جو نہ دنیاوی امور میں صبر سے کام لیتے ہیں اور نہ ہی دینی امور میں بلکہ دین ودنیا دونوں سے متعلق امور میں بہت کم صبر کرتے ہیں، اسی لئے کہاجاتا ہے :صبرخواہش نفس اور شہوت کے مقابلے دین اور عقل کے ثبات کا باعث ہے“.
صبر کے فضائل
قرآن وحدیث میں صبر سے متعلق بہت سارے فضائل وارد ہوئے ہیں جن میں سے چند ہم یہاں بیان کررہے ہیں:
۔  اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کے اجر میں بے صبروں کے مقابلے اضافہ فرماتے ہیں۔
۔  اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کے اجر کو بغیر حساب کے پورا پورا عطا فرماتے ہیں۔
۔  ہر عمل کا ثواب معروف ہےلیکن صبر کا بدلہ اور ثواب صرف اللہ تعالیٰ کے علم میں ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے:
إِنَّمَا يُوَفَّى الصَّابِرُونَ أَجْرَهُم بِغَيْرِ حِسَابٍ
ترجمہ:  جو صبر کرنے والے ہیں ان کو بے شمار ثواب ملے گا  ۔(سورۂ زمر:۱۰)
نیز صبر کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ کی معیت نصیب ہوتی  ہے ، اورصابرین کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی ہدایت، نصرت اور فتح ہوتی ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے:
إِنَّ اللَّهَ مَعَ الصَّابِرِينَ
ترجمہ: بیشک اللہ تعالیٰ صبرکرنے والوں کے ساتھ ہے۔ (سورۂ بقرہ: ۱۵۳)
ابوعلی الدقانی کہتے ہیں:
صبر کرنے والے دونوں گھروں (یعنی دنیا وآخرت ) کی عزت کے نتیجے میں کامیاب ہوگئے، اس لئے کہ انھوں نے اللہ تعالیٰ کی معیت کو پالیا۔
اور اللہ تعالیٰ نے صبر کرنے والوں سے اپنی محبت کا اظہار فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا وَاللَّهُ يُحِبُّ الصَّابِرِينَ
ترجمہ: اور اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں سے محبت کرتے ہیں۔(آل عمران : ۱۴۶)
آیت بالا میں رغبت والوں کے لئے عظیم انداز سے رغبت دلائی گئی ہے اور یہ بھی بتایا گیا کہ صبر صابرین کے حق میں بھلائی اور خیر ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے  وَلَئِن صَبَرْتُمْ لَهُوَ خَيْرٌ لِّلصَّابِرِينَ
ترجمہ: اور اگر صبر کرو تو وہ صبر کرنے والوں کے لئے بہت اچھا ہے۔(سورۂ نحل :۱۲۶)
اللہ تعالٰی نے صابرین کے لئے تین انعامات کا ایک ساتھ ذکر فرمایا جبکہ صبر کے علاوہ کسی عمل پر اس طرح کی خوشخبری سنائی نہیں گئی، صبر کے بدل میں صابرین کو اللہ تعالیٰ کی جانب سے مہربانی، رحمت اور ہدایت کی خوش خبری سنائی گئی، ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَلَنَبْلُوَنَّكُم بِشَيْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الْأَمْوَالِ وَالْأَنفُسِ وَالثَّمَرَاتِ ۗ وَبَشِّرِ الصَّابِرِينَ ۔ الَّذِينَ إِذَا أَصَابَتْهُم مُّصِيبَةٌ قَالُوا إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ ، أُولَـٰئِكَ عَلَيْهِمْ صَلَوَاتٌ مِّن رَّبِّهِمْ وَرَحْمَةٌ ۖ وَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْمُهْتَدُونَ
ترجمہ: تو صبر کرنے والون کو (اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کی) بشارت سنادو، ان لوگوں پر جب کوئی مصیبت واقع ہوتی ہے تو کہتے ہیں کہ ہم اللہ ہی کا مال ہیں اور اسی کی طرف لوٹ کرجانے والے ہیں، یہی لوگ ہیں جن پر ان کے رب کی مہربانی اور رحمت ہے اور یہی سیدھے رستے پر ہیں۔  (سورۂ بقر آیت نمبر ۱۵۵۔۱۵۷)
ایک بزرگ کا قول ہے:  میں صبر کیوں نہ کروں، حالانکہ اللہ تعالیٰ نے صبر پر مجھ سے تین خوبیوں کا وعدہ لیا ہے ، ہر خوبی اور خاصیت دنیا ومافیہا سے بہتر ہے۔
 اللہ تعالیٰ نے دنیا اور آخرت کی کامیابی وکامرانی کو صبر سے جوڑا ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے:
 يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اصْبِرُوا وَصَابِرُوا وَرَابِطُوا وَاتَّقُوا اللَّهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ
ترجمہ: اے اہل ایمان! (کفار کے مقابلے میں)ثابت قدم رہو اور استقامت رکھو اور (مورچوں پر) جمے رہو اور اللہ سے ڈرو تاکہ مراد حاصل کرو۔ (سورۂ آل عمران آیت نمبر : ۲۰۰)
لہٰذا کامیابی وکامرانی اور مراد حاصل کرنے کا دارومدار صبرہی پر ہے۔
صبر کی قسمیں
اہل علم کے مطابق صبر کی تین قسمیں ہیں:
اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں صبر کا مظاہرہ کرنا، اللہ تعالیٰ کی معصیت ونافرمانی سے بچنے میں صبر کا مظاہرہ کرنا اور اللہ تعالیٰ کی مقدرکردہ یا تقدیر کے فیصلوں پر صبر کا مظاہرہ کرنا۔
ان تینوں صورتوں کا مرجع یہ ہے کو تین حالتوں سے گذرنا ضروری ہے:
۱۔ حکم الٰہی :  بندے پر ضروری ہے کہ وہ حکم الٰہی کو بجالائے
۲۔ رکنے کے کام: بندے پر ضروری ہے کہ وہ ان کاموں میں ملوث نہ ہو جن سے روکا گیا ہے اور ان میں ملوث ہیں تو ان کو ترک کردے۔
۳۔  تقدیر اور فیصلۂ الٰہی:  بندے پر لازم ہے کہ فیصلۂ الٰہی اور تقدید پر صبر کرے۔
جب تک بندۂ مومن شریعت کا مکلف ہے ، وہ ان تینوں کاموں سے جدا نہیں رہ سکتا، بلکہ مذکورہ تینوں امور میں اسے صبر کرنا ہوگا ، یہی وہ تین باتیں ہیں جسے حضرت لقمان نے اپنے بیٹے کو وصیت کرتے ہوئے کہا تھا:
يَا بُنَيَّ أَقِمِ الصَّلَاةَ وَأْمُرْ بِالْمَعْرُوفِ وَانْهَ عَنِ الْمُنكَرِ وَاصْبِرْ عَلَىٰ مَا أَصَابَكَ ۖ إِنَّ ذَ‌ٰلِكَ مِنْ عَزْمِ الْأُمُورِ
ترجمہ: بیٹا ! نماز کی پابندی رکھنا ( اور لوگوں کو) اچھے کاموں کے کرنے کا امر اور بری باتوں سے منع کرتے رہنا اور جو مصیبت تجھ پر واقع ہو اس پر صبر کرنا بے شک یہ بڑی ہمت کے کام ہیں۔  (سورۂ لقمان: ۱۷)
 صبرکے لغوی معنی دراصل رکنےیا باز رہنے  کے ہیں، لہٰذا اس کا مطلب اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں نفس کو مشغول رکھنااور نافرمانی سے روکے رکھنا اور جب کوئی مصیبت یا پریشانی آپڑے تو ناراضی ، چیخ وپکار، کپڑوں کو پھاڑنے، چہروں کو نوچنے اور جاہلیت کے نعرے لگانے سے نفس کو باز رکھنا ہے۔
 اللہ تعالیٰ کی اطاعت کے لئے صبر:
اس کا مطلب یہ ہے کہ بندہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں رکاوٹ بننے والی چیزوں پر صبر کرے، (یعنی اپنے نفس کو ان میں  ملوث ہونے سے بچائے رکھے) اس لئے کہ فطرت انسانی عبادات میں متنفر واقع ہوتی ہے، سستی وکاہلی اور  راحت پسندی کے سبب نفس کے لئے نماز کی ادائیگی ناگوار محسوس ہونے لگتی ہے، اسی طرح بخل اور لالچ کے سبب زکوۃ کی ادائیگی گراں گذرتی ہے، اسی طرح حج اور جہاد کا مسئلہ ہے جبکہ روزہ رکھنا اس لئے شاق گذرتا ہے کہ نفس انسانی کھانے پینے  کاسخت حریص ہوتا ہےجسے ہم کہہ سکتے ہیں کہ اطاعت باری تعالیٰ میں حائل رکاوٹوں کو برداشت کرنے کا نام صبر ہے۔
بندے کو اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں تین صورتوں میں صبر کرنے کی ضرورت ہے:
پہلی صورت:
عمل سے پہلے صبر کرے تاکہ نیت صحیح ہو۔ عمل کے ساتھ صبر کرے تاکہ یادِ خدا سے غافل نہ ہو اور ریاکاری کا جذبہ قریب نہ آنے پائے۔ عمل کے بعد صبر کرے کہ خودپسندی نہ پیدا ہو ورنہ عمل ضائع اور برباد ہو جائے گا۔
یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آیت قرآنی میں صبر کو عمل سے پہلے بیان فرمایا: ارشاد باری تعالیٰ ہے: إِلَّا الَّذِينَ صَبَرُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ
ترجمہ: ہاں جنہوں نے صبر کیا اور عمل نیک کیئے۔  (سورۂ ہود:۱۱)
 دوسری صورت:
عمل یا کام کے دوران اس طورپرصبر کرنا کہ اللہ تعالیٰ کی یاد سے غفلت نہ ہو،نیز اس کے آداب، سنتیں اور ارکان کی ادائیگی میں سستی سے بچنا، اعمال میں کمی یا زیادتی کے محرکات پر صبر کو لازم پکڑنا اور معبود الٰہی کے سامنے نیت اور حضور قلب کے ساتھ اعمال کے قیام میں صبر کرنا۔
 تیسری صورت:
عمل سے فراغت کے بعد صبر کرنا، کیونکہ ایسے وقت میں انسان دکھلاوے اور شہرت وریا کی غرض سے عمل کو ظاہر کرنے کا محتاج ہوجاتا ہے ، نیز اپنے عمل کو عجب اور بڑائی کی نظر سے دیکھنے سے باز رہنا، اور ایسی باتوں سے باز رہنا جن کے کرنے سے عمل باطل ہوجاتے ہیں اور ان کا اثر مٹ جاتا ہے، جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
 لَا تُبْطِلُوا صَدَقَاتِكُم بِالْمَنِّ وَالْأَذَىٰ
ترجمہ: اپنے صدقات (وخیرات)احسان رکھنے اور ایذا دینے سے برباد نہ کردینا۔(سورۂ بقرہ: ۲۶۴)
لہٰذا جو شخص صدقہ دینے کے بعد احسان کرنے اور تکلیف دینے سے باز نہیں رہتا تو اس کا عمل باطل ہوجاتا ہے۔
اس لئے اطاعت باری تعالیٰ کے لئے صبر اور مجاہدہ کی ضرورت ہوتی ہے، اسی لئے نبی کریم  نے ارشاد فرمایا: جنت کو (ایسے کاموں سے) بھردیا گیا ہےجن کو کرنا (انسان کے لئے)ناپسندیدہ ہوتا ہے(مسلم)
یعنی ایسے اعمال سے بھردیا گیا ہے جن کا کرنا نفوس پر شاق گذرتا ہے۔
نافرمانی اور معصیت سے رکنا:
گناہوں کا ارتکاب کرنے سے رکے رہنا، انسان اپنے خیال میں ہر وقت گناہوں کی ضرورت محسوس کرتا ہے۔ جھوٹ، غیبت، چغل خوری، بہتان اس کی عادت بن چکا ہے اور عادت فطرت کا درجہ پیدا کرلیتی ہے۔ اس کے ساتھ جب خواہش کا اضافہ ہو جاتا ہے تو شیطان کے دو لشکر بیک وقت حملہ آور ہو جاتے ہیں اور گناہوں میں لذت پیدا ہو جائے تو اور بھی قیامت ہے۔  آپ   نے ارشاد فرمایا:وحفت الناربالشھوات
ترجمہ: اور جہنم کو شہوتوں اورخواہشات سے گھیردیا گیا ہے۔
اس لئے نفوس کی رغبت اور آمادگی شہوات کی جانب ہوتی ہے، اور وہ شہوات میں ملوث ہوتے ہیں ، اگر انسان اپنے نفس کو قابو میں رکھے اور شہوات سے بچنے پر صبر کا مظاہرہ کرے تو یہ اس کے لئے بہت بہتر ثابت ہوتا ہے۔
مصیبت پر صبر کرنا:
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَلَنَبْلُوَنَّكُم بِشَيْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الْأَمْوَالِ وَالْأَنفُسِ وَالثَّمَرَاتِ ۗ وَبَشِّرِ الصَّابِرِينَ
ترجمہ: اور ہم کسی قدر خوف اور بھوک اور مال اور جانوں اور میووں کے نقصان سے تمہاری آزمائش کریں گے تو صبر کرنے والوں کو (اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کی)بشارت سنادو۔  (سورۂ بقرہ: ۱۵۵)
صبر یہ ہے کہ غیر اللہ کے سامنے شکوی شکایت سے ہم اپنی زبان کو روکے رکھے، دل کو ناراضگی وناشکری اور بے صبری سے باز رکھے، اسی طرح اعضاء وجوارح  کے ذریعے چہرے نوچنے، کپڑے پھاڑنے اور اس طرح کے دیگراعمال سے بچے۔
مصیبت کے وقت صبر کرنا بندے کی جانب سے ثواب وبدلے کی امید کا اعتراف ہے ، حضرت ام سلمہ ؓ سے روایت ہے ، وہ فرماتی ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:  جب تم میں سے کسی کو کوئی مصیبت پہنچے تو اسے چاہیے کہ وہ یہ دعا پڑھے: إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ ، اللھم عندک احتسب مصیتی فاجرنی فیھا، ابدل لی بھا خیرا منھا۔
ترجمہ: کہ ہم اللہ ہی کا مال ہیں اور اسی کی طرف لوٹ کرجانے والے ہیں،اے اللہ  میں اپنی مصیبت کے اجرکی امید آپ کے پاس کرتی ہوں، لہٰذا  آپ مجھے اس کا اجر عطا فرمائیےاور اس سے بہتر بدلہ عطا فرمائیے۔
جب ابوسلمہ کی موت کاوقت قریب آیا تو انھوں نے یہ دعاپڑھی: اللھم اخلفنی فی اھلی خیرا منی  “
ترجمہ: اے اللہ میرے خاندان میں مجھ سے بہتر کومیرا جانشین بنا۔
جب ان کا انتقال ہوگیا تو ام سلمہ نے یہ جملے کہے: إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ، عنداللہ احتسب مصیبتی
ترجمہ: ہم اللہ کی ملکیت ہیں اور اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں، میں اپنی پریشانی کے اجر کو اللہ  کےپاس پانے کی امید کرتی ہوں۔
صبراور اس کی دعا پڑھنے نیز اتباع رسول اور اللہ تعالیٰ کے فیصلوں پر رضامندی کا انجام ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت ام سلمہ کا اللہ کے رسول کے ساتھ نکاح ہوا ، جو اللہ تعالیٰ کی مخلوق میں سب سے افضل اور اشرف ہیں۔ﷺ۔
صبر کے درجات
ابن قیم رحمہ اللہ کے قول کے مطابق صبر کے تین مراتب اور درجات ہیں:
پہلا: اللہ تعالیٰ کی مدد سے صبر کی توفیق ہونا، مطلب یہ ہے کہ ہر وقت اسی سے مدد طلب کی جائےاور اس بات کا یقین ہو کہ صبر کی توفیق اللہ تعالیٰ ہی کی مدد سے ہوئی، جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَاصْبِرْ وَمَا صَبْرُكَ إِلَّا بِاللَّهِ
ترجمہ: اور صبرہی کرو اور تمہارا صبر بھی اللہ ہی کی مدد سے ہے۔ (سورۂ نحل:۱۲۷ )
مطلب یہ ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ صبر کی توفیق نہ دیتے تو آپ صبر نہیں کرسکتے۔
دوسرادرجہ:
اللہ تعالیٰ کے لئے صبر کرنا:
مطلب یہ ہے کہ صبر کا محرک اللہ تعالیٰ  کی محبت ، اس کے دیدار کی خواہش اور اس سے قربت کی چاہت ہونہ کہ طاقت کا مظاہرہ، اورمخلوق سے داد وتحسین حاصل کرنایاکوئی دنیاوی غرض ۔
تیسر ادرجہ:
 اللہ تعالیٰ کے ساتھ صبر کرنا:
اس کا مطلب یہ ہے کہ  بندہ جہاں کہیں بھی ہو اپنی زندگی کواللہ تعالیٰ کے مرادوں ، اور اس کے احکام کے مطابق صبر کے ساتھ اس کے احکام کو بجالاتے ہوئے گذارے، وہ اپنے نفس کو اللہ تعالیٰ کے اوامر اور اس کو خوش کرنے والے اعمال کے لیے وقف کرے،یہ صبر کا سب سے شدیداور مشکل درجہ ہے۔
صبرقرآن کی روشنی میں:
ابن قیمؒ نے صبر کے موضوع پر بہت ساری آیات قرآنیہ کو بیان کیا، اور امام احمد ؒ کا یہ قول نقل کیا کہ:قرآن میں  اللہ تعالیٰ نے صبرکو ۹۰ مقامات پر ذکر کیاہے، لہٰذا ہم یہاں قرآن مجید میں صبر کے موضوع پر آئی  چند آیتوں کو بیان کررہے :
1۔  صبر کا حکم کرنا:
 ارشاد باری تعالیٰ ہے: وَاصْبِرْ وَمَا صَبْرُكَ إِلَّا بِاللَّهِ ۚ
ترجمہ:اور صبر ہی کرو اور تمہارا صبر بھی خدا ہی کی مدد سے ہے۔
  وَاصْبِرْ لِحُكْمِ رَبِّكَ فَإِنَّكَ بِأَعْيُنِنَا ۖ وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ حِينَ تَقُومُ
ترجمہ:اور تم اپنے پروردگار کے حکم کے انتظار میں صبر کئے رہو۔ تم تو ہماری آنکھوں کے سامنے ہو اور جب اُٹھا کرو تو اپنے پروردگار کی تعریف کے ساتھ تسبیح کیا کرو۔(سورۂ طور: ۴۸)
  صبر کے مخالف امر سے روکنے: یعنی عجلت اور جلد بازی سے منع کرنا:
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
فَاصْبِرْ كَمَا صَبَرَ أُولُو الْعَزْمِ مِنَ الرُّسُلِ وَلَا تَسْتَعْجِل لَّهُمْ ۚ
ترجمہ:پس (اے محمدﷺ) جس طرح اور عالی ہمت پیغمبر صبر کرتے رہے ہیں اسی طرح تم بھی صبر کرو اور ان کے لئے (عذاب) جلدی نہ مانگو۔(سورۂ احقاف: 35)
وَلَا تَكُن كَصَاحِبِ الْحُوتِ
ترجمہ:اور مچھلی (کا لقمہ ہونے) والے یونس کی طرح  نہ رہو۔(سورۂ قلم ۴۸)
 3۔  صبر کرنے والوں کی تعریف کرنا:
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَالصَّابِرِينَ فِي الْبَأْسَاءِ وَالضَّرَّاءِ وَحِينَ الْبَأْسِ ۗ أُولَـٰئِكَ الَّذِينَ صَدَقُوا ۖ وَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْمُتَّقُونَ
ترجمہ: اور سختی اور تکلیف میں اور (معرکہ) کارزار کے وقت ثابت قدم رہیں۔ یہی لوگ ہیں جو (ایمان میں) سچے ہیں اور یہی ہیں جو (خدا سے) ڈرنے والے ہیں۔(سورۂ بقرہ: ۱۷۷)
 4۔ نصرت ومدد الٰہی کا صبر اور تقوی پر معلق ہونا:
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
بَلَىٰ ۚ إِن تَصْبِرُوا وَتَتَّقُوا وَيَأْتُوكُم مِّن فَوْرِهِمْ هَـٰذَا يُمْدِدْكُمْ رَبُّكُم بِخَمْسَةِ آلَافٍ مِّنَ الْمَلَائِكَةِ مُسَوِّمِينَ
ترجمہ:ہاں اگر تم دل کو مضبوط رکھو اور (خدا سے) ڈرتے رہو اور کافر تم پر جوش کے ساتھ دفعتہً حملہ کردیں تو پروردگار پانچ ہزار فرشتے جن پر نشان ہوں گے تمہاری مدد کو بھیجے گا۔(سورۂ آل عمران : ۱۲۵)
اور ارشاد نبوی  ﷺ ہے:یاد رکھوکہ صبرکے ساتھ اللہ تعالیٰ کی مدد ونصرت ہے
 یہ خبردینا کہ مقصد میں کامیابی، ناپسندیدہ امور اورخطرات سے نجات،جنت میں داخلہ اور فرشتوں کا سلام کہنا مومنین کو صبرکے بدلے میں حاصل ہوا، جیسا کہ ارشادباری تعالیٰ ہے:
وَالْمَلَائِكَةُ يَدْخُلُونَ عَلَيْهِم مِّن كُلِّ بَابٍ۔ سَلَامٌ عَلَيْكُم بِمَا صَبَرْتُمْ ۚ فَنِعْمَ عُقْبَى الدَّارِ
اور فرشتے (بہشت کے) ہر ایک دروازے سے ان کے پاس آئیں گے ۔(اور کہیں گے) تم پر رحمت ہو (یہ) تمہاری ثابت قدمی کا بدلہ ہے اور عاقبت کا گھر خوب (گھر) ہے۔(سورۂ رعد:23۔24)        
6۔  یہ خبردینا کہ اللہ تعالیٰ کی آیتوں سے فائدہ اور نصیحت صابرین ہی حاصل کرسکتے ہیں، جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا مُوسَىٰ بِآيَاتِنَا أَنْ أَخْرِجْ قَوْمَكَ مِنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ وَذَكِّرْهُم بِأَيَّامِ اللَّهِ ۚ إِنَّ فِي ذَ‌ٰلِكَ لَآيَاتٍ لِّكُلِّ صَبَّارٍ شَكُورٍ
ترجمہ: اور ہم نے موسیٰ کو اپنی نشانیاں دے کر بھیجا کہ اپنی قوم کو تاریکی سے نکال کر روشنی میں لے جاؤ۔ اور ان کو خدا کے دن یاد دلاؤ اس میں ان لوگوں کے لیے جو صابر وشاکر ہیں (قدرت خدا کی) نشانیاں ہیں۔ (سورۂ ابراھیم: 5)
 7۔  یہ خبردینا کہ خیرکی صفتیں اور علم کے حصے صبر والے ہی حاصل کرسکتے ہیں: جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
 وَيْلَكُمْ ثَوَابُ اللَّهِ خَيْرٌ لِّمَنْ آمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا وَلَا يُلَقَّاهَا إِلَّا الصَّابِرُونَ
ترجمہ: تم پر افسوس۔ مومنوں اور نیکوکاروں کے لئے (جو) ثواب خدا (کے ہاں تیار ہے وہ) کہیں بہتر ہے اور وہ صرف صبر کرنے والوں ہی کو ملے گا۔(سورۂ قصص: 80)
اورارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَمَا يُلَقَّاهَا إِلَّا الَّذِينَ صَبَرُوا وَمَا يُلَقَّاهَا إِلَّا ذُو حَظٍّ عَظِيمٍ
ترجمہ:اور یہ بات ان ہی لوگوں کو حاصل ہوتی ہے جو برداشت کرنے والے ہیں۔ اور ان ہی کو نصیب ہوتی ہے جو بڑے صاحب نصیب ہیں۔ (سورۂ فصلت:35)
8۔  دین کی امامت ورہبری صبر ویقین پر معلق ہے:  جیساکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَجَعَلْنَا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنَا لَمَّا صَبَرُوا ۖ وَكَانُوا بِآيَاتِنَا يُوقِنُونَ
ترجمہ: اور ان میں سے ہم نے پیشوا بنائے تھے جو ہمارے حکم سے ہدایت کیا کرتے تھے۔ جب وہ صبر کرتے تھے اور وہ ہماری آیتوں پر یقین رکھتے تھے۔(سورۂ سجدہ: 24)
لہٰذا صبر ویقین کے ذریعے دین کی امامت ورہبری حاصل کی جاسکتی ہے۔
9۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندے حضرت ایوب علیہ السلام کی ان کے صبر پر بہترین تعریف کی اور ارشاد فرمایا:  إِنَّا وَجَدْنَاهُ صَابِرًا ۚ نِّعْمَ الْعَبْدُ ۖ إِنَّهُ أَوَّابٌ
ترجمہ: بےشک ہم نے ان کو ثابت قدم پایا۔ بہت خوب بندے تھے بےشک وہ رجوع کرنے والے تھے۔(سورۂ ص:44)
اللہ تعالیٰ نے حضرت ایوب علیہ السلام کو بہت خوب بندے کہا، کیونکہ انہیں صبرپر قائم پایا، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مصیبت وآزمائش میں جو بندہ صبر نہ کرے تو اس کا شمار خراب بندوں میں ہوتا ہے۔
10۔  اللہ تعالیٰ نے صبر کو ارکان اسلام اور مقامات ایمان سے مربوط کیا ہے: ایک مقام پر نماز کے ساتھ ذکرکرتے ہوئے ارشاد فرمایا:
وَاسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلَاةِ ۚ
ترجمہ: ور (رنج وتکلیف میں) صبر اور نماز سے مدد لیا کرو۔ (سورۂ بقرہ: 45)
اور ایک جگہ تقوی کے ساتھ ذکر فرمایا: ارشاد باری تعالیٰ ہے:
 إِنَّهُ مَن يَتَّقِ وَيَصْبِرْ
جو شخص خدا سے ڈرتا اور صبر کرتا ہے۔ (سورۂ یوسف : ۹۰)
اور ایک مقام پر شکر کے ساتھ ذکر فرمایا: ارشاد باری تعالیٰ ہے: 
إِنَّ فِي ذَ‌ٰلِكَ لَآيَاتٍ لِّكُلِّ صَبَّارٍ شَكُورٍ
ترجمہ: یشک اس میں ہر صبر کرنے والے (اور) شکر کرنے والے کے لئے نشانیاں ہیں۔  (سورۂ لقمان: 31)
اور ایک مقام پر رحمت کے ساتھ ذکر فرمایا: ارشاد باری تعالیٰ ہے: 
وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ وَتَوَاصَوْا بِالْمَرْحَمَةِ
ترجمہ: ور صبر کی نصیحت اور (لوگوں پر) شفقت کرنے کی وصیت کرتے رہے۔ (سورۂ بلد: 17)
اور ایک مقام پر سچائی اور صدق کے ساتھ بیان فرمایا: ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَالصَّادِقِينَ وَالصَّادِقَاتِ وَالصَّابِرِينَ وَالصَّابِرَاتِ
ترجمہ: اور راست باز مرد اور راست باز عورتیں اور صبر کرنے والے مرد اور صبر کرنے والی عورتیں (سورۂ احزاب:)
اللہ تعالی نے ان آیتوں کے علاوہ دیگر آیتوں میں صبر کو اپنی محبت ، معیت، نصرت ومدد اور اچھے بدلے کو پانے کا سبب اور ذریعہ بنایا ہے، اگر بندہ کو ان انعامات  میں سے چند ہی حاصل ہوجائے تو فضل وشرف کے لیے بہت کافی ہے۔
صبر حدیث کی روشنی میں:
صبرکی فضلیت اور ترغیب کے باب میں نبی  سے متعدد احادیث منقول ہیں، ان احادیث میں دنیا وآخرت میں صبر کے فوائد اور اجر وانعام کو بیان کیا گیا ہے، علماء کرام نے اپنی کتابوں میں صبر کے کئی کئی ابواب باندھے ہیں، اور ان کے تحت احادیث کو جمع کیا ہے، تاہم یہاں ہم چند احادیث کو بیان کررہے ہیں۔
۱۔  بخاری ومسلم میں حضرت انس ؓ سے منقول ہے ، فرماتے ہیں، نبی  کا ایک خاتون کے پاس سے گذر ہوا، جو ایک قبر کے پاس رو رہی تھیں،آپ  نے ارشاد فرمایا: اے بندی!اللہ تعالیٰ سے ڈر اور صبر کے دامن کو تھامے رکھ (اس خاتون نے جواب میں )کہا: آپ مجھ سے دورہوجائیے، میری پریشانی آپ کو نہیں پہنچی ہے۔ اس کو آپ کیا جانے۔ اس خاتون سے کہا گیا: یہ( جو آپ کو نصیحت کررہے ہیں) نبی  ہیں،  تو (اس خاتون نے) آپ  کے ساتھ اپنی اس حرکت کو موت تصور کردی،اور آپ  کے دروازے پر آئی، تو اس نےآپ کے دروازے پر دربانوں کو نہیں پایا، پھر اس نے آپ  سے کہا: اے اللہ کے رسول ﷺ، میں نے آپ کو پہچانا نہیں تھا، آپ  نے ارشاد فرمایا:صبر تومصیبت  کے پہلے جھٹکے پر ہوتا ہے۔
یقینا اچانک پیش آنے والی مصیبت اور پریشانی ایک ایسا جھٹکا ہوتی ہے جو قلب کو ہلاکر رکھدیتی ہے، اور اس کے صدمے اوررنج سے قلب گھبراہٹ کا شکار ہوجاتا ہے، اگر بندہ پہلے ہی صدمے یا مصیبت کے پہلے ہی جھٹکے پر صبر کرلے تو پھر مصیبت کے حدود ٹوٹ کر رہ جاتے ہیں اوراس کی قوت میں ضعف پیدا ہوجاتا ہے اور بندہ پر صبرکرنا آسان ہوجاتا ہے۔
۲۔  حضرت ابوسعید خدری سے روایت ہے کہ رسول اللہ  نے ارشاد فرمایا: جوصبر کی کوشش کرتا ہے اللہ تعالیٰ اسے صبر کی توفیق عطا فرماتے ہیں، اور کسی کو صبر سے زیادہ وسیع تر اور بہترین بھلائی عطا نہیں کی گئی۔(بخاری ومسلم)
۳۔  حضرت انس ؓ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں : میں نے نبی کریم  کو فرماتے ہوئے سنا: اللہ تعالیٰ  نے ارشاد فرمایا: جب میں اپنے بندے کو اس کو دو محبوب چیزوں کے ذریعے آزماتا ہوں، یعنی اس کی آنکھوں کے ذریعے۔ تو وہ اس پر صبر کرتا ہے، تو میں ان دونوں کے بدلے میں اسے جنت عطا کرتا ہوں''  (بخاری)
۴۔   بخاری ومسلم میں ہے کہ نبی کریم  نے مال تقسیم فرمایا تو لوگوں میں سے کسی نے کہا: اس تقسیم سے اللہ تعالیٰ کی رضا مراد نہیں ہے، یہ بات نبی کریم  کو بتائی گئی، آپ  نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ موسی پر رحم کرے، ان کے ساتھ اس سے زیادہ ایذا رسانی کی گئی، لیکن انہوں نے صبر کیا۔
صبر اور اس کی ترغیب کے باب میں ان کے علاوہ بھی کئی احادیث منقول ہیں۔
صبر سے متعلق اسلاف کے اقوال

۱۔ حضرت عمر بن خطاب ؓ کہتے ہیں: "ہم نے صبر کے ذریعے بہترین زندگی پائی''
نیز آپ کا ارشاد ہے:
صبر کے ذریعے ہم نے افضل ترین زندگی دیکھی ہے، اگر صبرمردوں میں ہوتا ، تو وہ باعزت ہوتا“.
۲۔  حضرت حسن کہتے ہیں: صبر بھلائی اور خیر کے خزانوں میں سے ایک خزانہ ہے، یہ اللہ تعالیٰ اپنے نیک اور شریف انسان ہی کو عطا کرتے ہیں.
۳۔  حضرت علیؓ کہتے ہیں: سن لوکہ ایمان میں صبرکا مقام ویساہی ہے جیسا  جسم میں سر کا مقام ہے، جب سر کانٹ دیاجاتا ہے تو پورا بدن ہلاکت کا شکار ہوجاتا ہے، پھر آپ نے بلند آواز سے کہا: سن لو! اس کا ایمان نہیں جس کے پاس صبر نہیں"۔
نیز آپ کا ارشاد ہے:صبر ایسی سواری ہےجوٹھوکر کھاکر نہیں گرتی۔
۴۔  حضرت عمر بن عبدالعزیز ؒ کہتے ہیں : اللہ تعالیٰ کسی بندے کو کوئی نعمت عطا کرے پھر اس سے اسے چھین لےاور اس کے بدل میں اسے صبر عطا فرمائے تو یہ اس کے لیے اس سے چھینی جانے والی نعمت سے زیادہ باعث خیر ہے۔
۴۔ سلیمان بن قاسم ؒ کہتے ہیں:ہر عمل کا ثواب معروف ومعلوم ہے لیکن صبر کا ثواب اور بدل اللہ تعالیٰ ہی جانتے ہیں۔
۶۔ میمون بن مہران ؒ کہتے ہیں : صبر کی دو قسمیں ہیں: مصیبت کے وقت صبر کرنا اچھا ہے، لیکن اس سے زیادہ افضل اور بہترین صبر معصیت ونافرمانی سے رکنے کے لیے صبر کرنا ہے۔وہ مزید کہتے ہیں: صبر کے بغیر کسی انسان کو کوئی خیروبھلائی حاصل نہیں ہوتی ہے۔
صبر کے منافی امور
جب صبر کا مطلب زبان کو غیراللہ کے سامنے شکوی وشکایت سے روکنا، قلب کو ناراضگی وناشکری سے باز رکھنا، اور اعضاء وجوارح سے چہروں پر مارنا، کپڑوں کو پھاڑنا اور چہرے نوچنا یا اس کے دیگر امور سے بچنا ہے تواگر بندہ ان کے علاوہ امور میں ملوث ہوتا  ہےتوا یسے امور صبر کے منافی نہیں کہلائیں گے:جن میں یہ امور شامل ہیں:
۱۔ مخلوق کے سامنے شکایت کرنا:
جب بندہ اپنی ہی جیسی مخلوق کے سامنے اپنے رب کی شکایت کرتا ہے تو اس نے اس ذات کی شکایت کی جو اس پر رحم ومہربانی کرتی ہے، اسے معاف کرتی ہے، اسی کے ہاتھ میں نفع ونقصان ہے، اس نے ایسی مخلوق کے سامنے شکایت کی جو نہ رحم کرتی ہے اور نہ وہ نفع نقصان کی مالک ہے، یہ لاعلمی اور ضعف ایمان کی علامت ہے، ایک بزرگ نے ایک آدمی کو فقروفاقہ اور ضرورت کی شکایت کرتے ہوئے پایا ، اس سے کہا ، اے اللہ کے بندے،  تو اس ذات کی شکایت جو تجھ پر رحم کرتی ہے ایسی مخلوق کے سامنے کررہا ہے  جو تجھ   پر رحم نہیں کرتا۔
پھر انہوں نے یہ اشعار پڑھے:
وإذا عرضتك بلية فاصبر لها
صبرا لكريم فانه بك أعلم
وإذا شكوت إلى ابن آدم إنما
تشكو الرحيم إلى الذي لايرحم
ترجمہ:
جب تجھے کوئی مصیبت پہنچے تو اس پر صبر کر،شریف انسان کی طرح صبر کر، کیونکہ اللہ تعالیٰ تجھے بخوبی جانتا ہے
اور جب تو  کسی انسان کے سامنے شکوی کرتا ہے، تو تجھ پر رحم کرنے والی ذات کا شکوی ایسی مخلوق کے سامنے کررہا ہے جو تجھ پر رحم نہیں کرتی۔
اللہ تعالیٰ کے حضور شکوی کرنا صبر کے منافی امور میں سے نہیں ہے، حضرت یعقوب نے اپنے رب تعالیٰ کے حضور شکوی کیا تھا، حالانکہ انہوں نے صبر کا وعدہ کیا تھا: ارشاد ہے:
 إِنَّمَا أَشْكُو بَثِّي وَحُزْنِي إِلَى اللَّهِ
میں اپنے غم واندوہ کا اظہار خدا سے کرتا ہوں۔ (سورۂ یوسف: 86)
مخلوق کو اپنے حال سے واقف کرانا بھی صبر کے منافی امور میں سے نہیں ہے، جیسے مریض کا ڈاکٹر کو اپنی حالت بتانا،مظلوم  کا مدد کرنے والے کو اپنی حالت بتانا، جب کہ یہ باتیں نقصان کو دور کرنے کے لیے بطور مدد ہو۔
۲۔  ہمارے دور میں بہت سے لوگ مصیبت کے وقت کپڑے پھاڑتے ہیں، چہرے نوچتے اور چہروں پرمارتےہیں ، بال اکھاڑتے ہیں،ہاتھوں پر ہاتھ مارتے ہیں، ہلاکت کی دعائیں کرتے ہیں،آوازیں بلند کرتے ہیں، یہ سب اعمال صبر کے منافی ہےاور اسی لیے نبی ﷺ نے ان امور سے اپنے آپ کو بری کہا ہے۔
 ۔  بغیر آواز کے غم کے مارے رونا،اور ایسی بات کرنا جو حرام نہ ہوتو اس طرح کے اعمال صبر کے منافی نہیں ہے، (بلکہ جائز ہے) ، حضر ت یعقوب سے متعلق ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَابْيَضَّتْ عَيْنَاهُ مِنَ الْحُزْنِ فَهُوَ كَظِيمٌ
اور رنج والم میں (اس قدر روئے کہ) ان کی آنکھیں سفید ہوگئیں اور ان کا دل غم سے بھر رہا تھا۔(سورۂ یوسف: 84)
3۔  صبر میں مذموم امور یہ ہیں کہ مصیبت کا اظہار کرے اور اس موضوع پر باتیں کرے، کہا جاتا ہے: مصیبتوں اور پریشانیوں، بیماریوں اور صدقہ کو چھپانا نیکی ہے، اور یہ بھی قول مشہور ہے : مصیبتوں کا چھپانا صبرکی بنیاد ہے۔
4۔ مصیبت کے وقت بے چینی اور گھبراہٹ کا اظہار کرنا اور نعمت ملنے پر اس کا انکار کرنا بھی صبر کے منافی امور میں شامل ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے:
إِنَّ الْإِنسَانَ خُلِقَ هَلُوعًا۔ إِذَا مَسَّهُ الشَّرُّ جَزُوعًا۔  وَإِذَا مَسَّهُ الْخَيْرُ مَنُوعًا
 ترجمہ: کچھ شک نہیں کہ انسان کم حوصلہ پیدا ہوا ہے۔ جب اسے تکلیف پہنچتی ہے تو گھبرا اٹھتا ہےاور جب آسائش حاصل ہوتی ہے تو بخیل بن جاتا ہے۔(سورۂ معارج:19۔21)
۔  عبید بن عمیر کہتے ہیں :  آنکھوں سے آنسوؤں کا بہنا اور دل کا مغموم ورنجیدہ ہونا بے صبری کی علامت نہیں ہے بلکہ بے صبری یہ ہے کہ زبان سے بری بات سرزد ہو اور بدگمانی کا اظہار کرے۔
اخیر میں ہم اللہ تعالیٰ سے دعا گو ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں صبر کی توفیق دے، اور صبرکرنے والوں میں ہمیں شامل فرمائے۔آمین
وصلی اللہ علی محمد وعلی آلہ وصحبہ وسلم۔
مآخذ :