پیر، 25 جولائی، 2016

0 تبصرے

تحریر : مبصرالرحمن قاسمی
بچوں کی تربیت کےلیے
 130 نسخے

 

بسم الله الرحمن الرحيم
الحمد لله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده، أما بعد:
بچوں کی تربیت بھِی ایک فن ہے،اور اس فن میں بہت کم لوگ ماہر ہوتے ہیں، بچوں کی تربیت پر چھوٹی بڑی بے شمار کتابیں لکھی گئیں، لیکن ہم نے یہاں ان مفصل ومختصر کتابوں کا  ایک نچوڑ پیش کرنے کی کوشش کی ہے، کتاب میں مذکور یہ طریقے انشاء اللہ والدین، سرپرست اور مربی حضرات کے لیے سودمند ثابت ہونگے۔



 

عقیدہ:

۱- بچوں کو کلمہ توحید سکھائیے اور غیر اللہ کی نفی اور اللہ کے ایک ہونے کے اثبات کا مطلب واضح کیجئے۔

۲- بچوں کو ہمارے پیدا کیے جانے کا مقصد بتائیے اور اس آیت  }وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ{. کے وسیع معنی ومفہوم کی بھی وضاحت کیجئے ۔

۳-بچوں کے سامنے عذاب، جہنم اور اللہ کے غضب وعقاب کو بار بار بیان نہ کیجئے۔

۴-بچوں میں اللہ کی محبت کا کثرت سے ذکر کیجئے، انھیں بتائیے کہ وہی ذات ہے جو ہمیں کھلاتی ہے پلاتی ہے، ہمارے پہننے اوڑھنے کا نظم کرتی ہے اور اسی نے ہمیں مسلمان بنایا ہے۔

 ۵-تنہائی میں غلط  کام نہ کرنے کی تنبیہ کیجئے ، اور انھیں اس بات سے خبردار کیجئے کہ اللہ تعالی ہر حال میں دیکھ رہا ہے۔

۶- بچوں کے سامنے ایسے جملوں کا کثرت سے استعمال کیجئے جن میں اللہ کا نام ہو، مثال کے طور پر کھانا کھاتے وقت، پانی پیتے وقت گھر میں داخل ہوتے وقت اور گھر سے نکلتے وقت: «بسم الله» کہیے، کھانے سے فراغت پر «الحمد لله»کہیے، اور تعجب کے موقع پر یا کوئی چیز اچھی لگنے پر«سبحان الله» اور اس جیسے کلمات کہنا نہ بھولیے۔

۷- نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صفات طیبہ، سیرت مطہرہ کے قصوں اور درود کے کلمات کی تعلیم کے ذریعے بچوں میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت پیدا کریں۔

۸- بچوں کے ذہن ودماغ میں عقیدہ قضاء وقدر کو راسخ کیجئے۔انھیں اس بات کی تعلیم دیجئے کہ جو اللہ چاہے وہی ہوتا اور جو وہ نہ چاہے نہیں ہوتا۔

۹- اپنے بچوں کو ایمان کے چھ ارکان سکھائیے۔

 ۱۰- بچوں سے عقیدہ سے متعلق سوالات کرتے رہیے مثال کے طور پر ان سے سوال کیجئے: تمہارا رب کون ہے؟ تمہارا دین کیا ہے؟ ہمارے نبی کون ہیں؟ اللہ تعالی نے ہمیں کیوں پیدا کیا؟ کون ہے وہ جو ہمیں کھلاتا ہے پلاتا ہے اور بیماری سے شفا دیتا ہے؟ توحید کی قسمیں کیا ہیں؟ کفر، شرک اور نفاق کیا ہے؟ مشرک، کافر اور منافق کا انجام کیا ہے؟ وغیرہ سوالات پوچھتے رہئے۔[1]

عبادت:

۱۱- بچوں کو اسلام کے پانچوں ارکان سکھائیے۔ [2]

۱۲- انھیں نماز کا عادی بنائیے۔ حدیث میں ہے: « اپنی اولاد کو سات برس کی عمر میں نماز کا حکم دو اور دس سال کی عمر میں نہ پڑھنے پر انھیں(تنبیہ کے طور پر)  مارو۔[3].

۱۳- بچوں کو اپنے ساتھ مسجد لے جائیے اور انھیں وضو کا طریقہ سکھائیے۔

۱۴-  انھیں مسجد کے آداب، احترام اور تقدس سے واقف کرائیے۔

۱۵- بچوں کو روزہ رکھنے کی مشق کرائیے تاکہ بڑے ہونے کے بعد وہ روزہ رکھنے کے عادی ہوں۔

۱۶- حفظ قرآن کریم، حفظ حدیث اور حدیث سے ثابت دعاوں کے یاد کرنے پر بچوں کی حوصلہ افزائی کیجئے۔

۱۷-حفظ قرآن میں بچوں کی ہر ترقی پر انعام دیجئے۔ ابراہیم بن ادھم کہتے ہیں: مجھ سے میرے والد نے کہا: "بیٹا حدیث یاد کرو، تمہیں ہر حدیث سننے اور یاد کرنے پر ایک درھم انعام" وہ کہتے ہیں: میں نے میرے والد کی اس حوصلہ افزائی پر ہی حدیثیں یاد کی۔

 ۱۸- بچوں کو  زیادہ سے زیادہ حفظ کرنے اور مستقل پڑھنے پر مجبور نہ کیجئے، ایسا نہ ہو کہ وہ حفظ قرآن وحفظ حدیث کو سزا تصور کرنے لگیں اور پھر ان کے ذہنوں میں اس مبارک تعلیم سے نفرت ہوجائے۔

۱۹-خیال رہے کہ آپ اپنی اولاد کے لیے نمونہ ہیں، اگر آپ عبادات میں سستی کریں گے تو آپ کی اولاد بھی آپ کے نقش قدم پر چلیں گی۔

۲۰- بچوں کو صدقہ اور نیک کام میں خرچ کرنے کی مشق کرائیے، اس طور پر کہ آپ ان کے سامنے کسی سائل وفقیر کو صدقہ دیں، اگر بچوں کو ان ہی کی جمع پونجی سے صدقہ دینے کی ترغیب دی جائے تو یہ زیادہ بہتر ہے۔

اخلاق :

۲۱- اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کی اولاد سچی ہوں، تو اپنی اولاد کے دل میں خوف کا بیج نہ اگائیے۔

۲۲-پہلے خود سچ بولیے تاکہ آپ کی اولاد آپ سے سچ بولنا سیکھیں۔

۲۳-بچوں کے سامنے سچ بولیے اور امانت کے فضائل بیان کیجئے۔

۲۴- بچوں کو احساس ہوئے بغیر ان کی امانت داری کا امتحان لیجئے۔

 ۲۵-بچوں کو صبر کرنے اور کسی بھی کام میں جلدی نہ کرنے کی مشق کرائیے، اس مشق کے لیے روزہ اور صبر وتحمل والے کام مفید ہونگے۔

۲۶- بچوں کے درمیان انصاف کیجئے؛ کیونکہ بچوں کو انصاف سکھانے کا افضل طریقہ یہی ہے۔

۲۷-بچوں کو عملی طور پر یا  ایثار وقربانی پر مشتمل قصوں کے ذریعے ایثار وقربانی کی مشق کرائیے۔

۲۸- بچوں کو دھوکہ، چوری اور جھوٹ کے سنگین نتائج سے آگاہ کرتے رہیے۔

۲۹- اگر بچے کبھی اپنی بہادری کا مظاہرہ کرنے لگیں تو ان کی تعریف کیجئے اور اس پر انھیں انعام بھی دیجئے نیز اس موقع پر انھیں یہ بھی بتائیے کہ بہادری کا مظاہرہ کن مواقع پر درست اور ضروری ہے۔

۳۰-والدین بچوں کے سامنے اپنے آپ کی سنگدل پیش نہ کریں، یہ کیفیت بچوں کو خوف،جھوٹ اور بزدلی کی جانب بڑھاتی ہے۔

۳۱-بچوں میں تواضع، انکساری اور نرمی پیدا کرنے اور کبر وغرور نہ کرنے کا شوق پیدا کیجئے۔

۳۲-بچوں کو یہ تعلیم دیجئے کہ لوگوں کو ان کے تقوی، پرہیزگاری اور نیک اعمال کی وجہ سے عزت وشرف کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے، نہ کہ حسب ونسب اور مال ودولت کی وجہ سے۔

۳۳- بچوں کو بتائیے کہ ظلم کا انجام بُرا ہوتا ہے اور خیانت ہلاکت تک پہنچاتی ہے۔

۳۴-بچوں کے سامنے اُن چیزوں کے درمیان فرق کو واضح کیجئے جن سے بچے واقف نہیں ہوتے مثال کے طور پر بہادری اور سرکشی، شرم وحیاء اور بزدلی، تواضع اور ذلت اور ذکاوت ودغا بازی۔

۳۵- بچوں کو سخی بنائیے، اس طور پرکہ آپ خود اپنے گھر میں سخی ثابت ہوئیے ۔

۳۶- وعدہ خلافی ہرگز نہ کیجئے بالخصوص اپنی اولاد کے ساتھ کبھی وعدہ خلافی نہ کیجئے، آپ کا عہد وفا بچوں کے دلوں میں وفا شعاری کو راسخ کرتا ہے۔

آداب وسلوک:

۳۷- بچوں کو خود سلام کیجئے۔

۳۸- بچوں کے سامنے اپنے سترکی حفاظت کیجیے، یعنی ایسے کپڑے زیب تن کیجیے جن سے آپ کے ستر پر بچوں کی نگاہ نہ پڑسکے۔

۳۹- ہمسایوں کے ساتھ حُسن سلوک سے پیش آئیے۔

۴۰- بچوں کو ہمسایوں کے حقوق اور پڑوسی کو تکلیف دینے کے انجام سے باخبر کیجئے۔

 ۴۱- آپ خود اپنے والدین کے ساتھ حسن سلوک کیجئے، رشتہ داری کو جوڑئیے اور اس کام میں اپنے ساتھ اپنے بچوں کو بھی شامل کیجئے۔

۴۲-بچوں کو بتائیے کہ لوگ اُن مہذب بچوں سے پیار کرتے ہیں جو دوسروں کو تکلیف نہیں دیتے۔

۴۳-بچوں کے نام آداب اور نصیحتوں پر مشتمل خطوط لکھئے۔

۴۴- بچوں کو یہ بھی بتائیے کہ بعض کام مکمل طورپر ممنوع ہے،انھیں نہ کرنے کی وجوہات بھی بیان کیجئے۔

۴۵- بچوں کے ساتھ کچھ دیر بیٹھیے اور ہر مرتبہ کوئی ایک نبوی ادب انھیں پڑھ کر سنائیے، پھر ان سے کیا حاصل ہوا معلوم کیجئے۔ اگر آپ سُنیں اور بچےکسی کتاب میں سے پڑھیں تو زیادہ بہتر ہے ۔

۴۶- بچوں کو نصیحت کرنا ہوتوتنہائی میں کیجئے اور دوسروں کے سامنے انھیں سزا نہ دیجئے۔

۴۷-بچوں کو لعن طعن نہ کرنے کی حتی الامکان کوشش کیجئے۔

۴۸- گھر میں داخل ہونے سے پہلے بچوں سے اجازت لیجیے، بچوں کو گھر میں داخل ہوتے وقت اجازت لینے کی عادت ڈالنے کا یہ سب سے اچھا طریقہ ہے۔

۴۹- آپ یہ ہرگز توقع نہ رکھئے کہ آپ کے بچے آپ کی بات ایک ہی دفعہ میں سمجھ لیں گے۔ }وَأْمُرْ أَهْلَكَ بِالصَّلَاةِ وَاصْطَبِرْ عَلَيْهَا{.کو ہر وقت یاد رکھیے۔

۵۰- کھانا شروع کرنے سے پہلے بآواز بلند اللہ کا نام لینا نہ بھولیے، اسی طرح کھانے سے فارغ ہونے پر اللہ کی تعریف کرنا بھی نہ بھولیے۔

۵۱-بچوں کی بعض غلطیوں کو نظرانداز کیجئے، اور اپنے دل کو بچوں کی غلطیوں کا خزانہ نہ بنائیے۔

۵۲- جب آپ سے کوئی لغزش اور غلطی ہوجائے تو بچوں سے معذرت کا اظہار کیجیے۔

۵۳- بچوں کی ان کی ہوشیار ی پر حوصلہ افزائی کیجیے اور ان سے کہتے رہیے کہ آپ تو ماشاء اللہ بہت اچھے بچے ہیں اور آپ تو ماشاء اللہ یہ اور یہ کرسکتے ہیں۔

۵۴- بچوں کی باتوں اور کاموں کا مذاق نہ اڑائیے ۔

۵۵- بچوں کو مبارکباد، تہنیئت اور خوش آمدید کے کلمات سکھائیے۔

۵۶- رہنمائی میں مبالغہ سے کام نہ لیجیے۔

 ۵۷- بچوں کو ان کی کسی کامیابی کی وجہ سے مادیت پرستی  کی عادت نہ ہونے دیجیے، کیونکہ مادیت پرستی ان کی شخصیت کو کمزور کرتی ہے۔

۵۸- بچوں کو اپنا  دوست نمبر ون بنائیے۔

 

جسمانی نشوونما :

۵۹-  بچوں کو کھیل کے لیے کافی وقت مہیا کیجئے۔

۶۰- بچوں کے لیے مفید سامان کھیل فراہم کیجئے۔

۶۱-. بچوں کو ان کی پسند سے کھلونے منتخب کرنے کا موقع دیجئے۔

۶۲- بچوں کو تیراکی اور دوڑ جیسے کھیل سکھائیے۔

۶۳-بعض کھیلوں میں بچوں کو آپ پر فوقیت کا موقع دیجئے۔

۶۴- بچوں کو مناسب غذا فراہم کیجیے۔

 ۶۵- بچوں کے کھانے کا مکمل اہتمام کیجیے۔

۶۷- انھیں کھانا ضائع کرنے سے خبردار کیجئے۔

۶۸- کھانے کے دوران بچوں کی غلطیوں کا ہرگز محاسبہ نہ کیجئے۔  

۶۹- بچوں کے لیے ایسا کھانا بنائیے جسے وہ پسند کرتے ہیں۔

نفسیاتی نشونما :

۷۰-  بچوں کو بغور سنیے اور ان کے ایک ایک لفظ پر غور کیجئے۔

۷۱-  بچوں کو ان کی مشکلات کا سامنا انھیں خود کرنے دیجئے، اگر ممکن ہوتو انھیں احساس دلائے بغیر اُن کی مدد کیجئے۔

۷۲-  بچوں کا احترام کیجئے اور کسی بھی کام کو عمدگی سے کرنے پر اُن کا شکریہ ادا کیجئے۔

۷۳- قسم کھاکر ان سے کوئی کام نہ کروائیے بلکہ ان سے کہیے میں تمہیں تمہارے کام میں سچ پا     ؤں گا۔

۷۴- سزا اور ڈرانے دھمکانے کے الفاظ سے پرہیز کیجئے۔

۷۵- بچوں کو احساس نہ دلائیے کہ وہ بداخلاق ،غبی،احمق اور بیوقوف ہیں۔

۷۶- بچوں کے کثرت سوالات پر کبیدہ خاطر نہ ہوئیے، بلکہ ان کے ہر سوال کا سادہ اور اطمینان بخش جواب دیجئے۔

۷۷- اپنی اولاد کو اپنے گلے سے لگائیے اور انھیں پدرانہ محبت کا احساس دلائیے۔

۷۸-  بعض کاموں میں اپنی اولاد سے مشورہ کیجئے اور ان کے مشورے کے مطابق کام کیجئے۔

۷۹- فیصلے لینے میں اولاد کو کسی قدر آزادی دیجیے۔

سماجی نشونما :

۸۰- سرمائی مراکز میں حفظ قرآن کے حلقوں ، علمی مسابقوں اور دیگر دینی سرگرمیوں میں اپنی اولاد کا نام درج کیجئے۔

۸۱- بچوں کو مہمان کا اکرام اور ان کی ضیافت کی ذمہ داری دیتے رہیں، اس طورپر کہ وہ مہمان کو چائے، قہوہ اور میوے وغیرہ پیش کریں۔

۸۲- بچوں کا اس وقت بھی خیر مقدم کیجیے اور انھیں ویلکم کہیے جب آپ اپنے دوست واحباب کے ہمراہ محفو گفتگو ہوں۔

۸۳- بچوں کو مسجد کی سماجی سرگرمیوں میں شرکت کرنے کا موقع دیجیے جیسے یتیموں اور بیواؤں کی رہنمائی   کے کام وغیرہ۔

۸۴- بچوں کو کام، خریدوفروخت ، شاپنگ اور حلال کمائی کی ٹریننگ دیتے رہیے۔

۸۵- بچوں میں دوسروں کا درد سمجھنے اور انھیں ہلکا کرنے کا احساس پیدا کیجیے۔  

۸۶- بچوں کودنیاوی فکروں میں سرگرداں رہنے  کا عادی نہ بنائیے۔

۸۷-بچوں میں یہ احساس پیدا کیجیےکہ وہ اپنے سماجی کاموں کے نتائج پر  ازخودغور کریں۔

۸۸-  بچوں میں اعتماد پیدا کرنےکے لیے انھیں اپنی  ضروریات کی چیزیں خود خریدنے کا موقع دیجیے۔

۸۹- بچوں کو خود ہی دوست کا انتخاب کرنے دیجیے، آپ اپنے اختیار سے بچوں کے لیے دوست کا انتخاب کرسکتے ہیں لیکن انھیں اس بات کا احساس نہ ہونے دیجیے۔

بچوں کی صحت پر توجہ:

۹۰-  بچوں کی صحت پر توجہ دیجیے۔

۹۱- بچوں کو ٹیکے دینے میں کوتاہی نہ کیجیے۔

۹۲-  بچوں کو حسب ضرورت مناسب دوائیں دیجیے لیکن انھیں دوائیں دینے میں مبالغہ نہ کریں۔

۹۳- شرعی اذکار واوراد کے ذریعے خود ہی اپنے بچوں پر دم کیا کریں۔

۹۴- بچوں سے اپنے جسم، دانت اور کپڑوں کو پاک صاف رکھنے کا اہتمام کروائیے۔

۹۵- بچوں کی مستقل بیماری پر ماہر ڈاکٹر سے رجوع کریں۔

۹۶- متعدی مریضوں سے بچوں کو دور رکھیے۔

۹۷-مرض کے خطرے کا بچوں کو احساس نہ دلائیے۔

۹۸- تمام امراض سے شفاء کے لیے اللہ تعای کی جانب متوجہ ہوں کیونکہ ہر مرض کی شفاء اسی کے ہاتھ میں ہے۔

ثقافتی نشونما :

۱۰۰- بچوں کو بعض پہلیاں حل کرنے کے لیے دیتے رہیں۔

 ۱۰۱- بچوں سے وقتا فوقتا مناسب موضوعات پر لکھواتے رہیے۔

۱۰۲- بچے جو لکھے اسے ہمیشہ پڑھتے رہنے کی کوشش کیجیے۔

۱۰۳- تحریر میں ہونے والی ہر نحوی اور لغوی غلطی پر بچوں کو نہ ٹوکیں۔

۱۰۴- بچوں کو مطالعہ کرنے پر آمادہ کرتے رہیے۔

۱۰۵- ان کے لیے قصے کہانیوں کی مناسب کتابیں فراہم کیجیے۔

۱۰۶- اگر آپ کسی چیز کا مطالعہ کررہے ہیں تو بچوں کو بھی اس میں شریک کیجیے۔

۱۰۷- بچوں کے لیے بعض  مفید کھلونے فراہم کرتے رہیے۔

۱۰۸- درسی کتابوں میں کامیابی پر بچوں کو وقتا فوقتا ترغیب دیتے رہیے۔

۱۰۹- درسی نصاب میں پیش آنے والی رکاوٹوں کو دور کرنے میں بچوں کی مدد کیجیے۔

۱۱۰- بچوں کو قدیم وجدید شعراء کے بعض اشعار اور حکمت کی باتیں یاد کروائیے۔

۱۱۱- اسی طرح اردو ، عربی ، انگریزی اور فارسی کی کہاوتیں یاد کرنے کی انھیں ترغیب دیجیے۔

۱۱۲- بچوں کو خطابت اور تقریر کی بھی مشق کرواتے رہیے۔

۱۱۳- بچوں کو کسی ایک موضوع پر گروپ میں بحث کرنے کی بھی مشق کرواتے رہیے۔

۱۱۴- شخصی ارتقاء جیسے  پروگراموں میں بچوں کو شریک کروائیے۔

۱۱۵- بچوں کو مشہورعالمی زبانیں سیکھنے پر آمادہ کرئیے۔

بدلہ اور سزا

۱۱۶-  بچوں کی تربیت میں انعام اور سزا کا  پہلو اختیار کیجیے

۱۱۷- ہمیشہ بدلہ د یجیے اور ہمیشہ سزا سے پرہیز کیجیے۔

۱۱۸-  بدلہ یا انعام کے طریقے پر بھی دھیان رکھیے، ہر وقت مالی شکل میں انعام نہ دیجیے، بلکہ انعام کے طور پر کسی مناسب جگہ کی سیر کرائیے، یا کچھ دیر کمپیوٹر پر اخلاقی کھیل کھیلنے کی اجازت دیجیے یا کوئی اچھے دوست کے ساتھ کچھ دیر گذارنے کا موقع دیجیے۔

۱۱۹- سزا کی نوعیت کو وقتا فوقتا بدلتے رہیے، صرف مار ہی سزا کی اولین ترجیح نہ ہو، بلکہ غصے سے دیکھنا، دھمکی دینا، مخصوص مدت کے لیے گھر نکالنا،  یومیہ خرچ سے یا ہفت وار سیر سے محروم رکھنا بھی سزا کے طریقے ہوسکتے ہیں۔

۱۲۰- یاد رکھیے مناسب سزا ہی بار بار کی غلطی سے بچوں کو روک سکتی ہے اور صحیح کام پر آمادہ کرسکتی ہے۔

۱۲۱- یاد رکھیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی کسی بچے کو مارا نہیں۔

۱۲۲- پہلی ہی غلطی پر سزا مت دیجیے۔

۱۲۳- سزا دینے کے دوان سنگدلی سے اپنے آپ کو بچائیے۔

۱۲۴- بچے کو جب سزا دو تو بچے کو سزا کی وجہ بھی بتائیے۔

۱۲۵- بچوں کو یہ محسوس نہ ہو کہ سزا دینے میں آپ کو مزہ آتا ہے۔ یا پھر آپ کے دل میں بچے کے سلسلے میں کینہ کپٹ ہے۔

۱۲۶- بچے کو لوگوں کے سامنے نہ مارئیے اور غصے کی حالت میں بھی ہرگز نہ ماریے۔

۱۲۷-  بچے کو منہ پر نہ ماریے، اور ضرورت سے زیادہ بچے پر اپنا ہاتھ نہ اٹھائیے۔

۱۲۸- بچے سے نہ مارنے کا وعدہ کرنے کے بعد نہ ماریئے ، ممکن ہے اس سے آپ سے بچے کا اعتماد ختم ہوگا۔

۱۲۹- بچے کو یہ محسوس کروائیے کہ آپ اسے اسی کے فائدے کے لیے سزا دیتے ہیں۔

۱۳۰- اور بچے کو یہ بتائیے کہ سزا ادب سکھانے کے لیے دی جاتی ہے۔

نسأل الله الهداية والتوفيق والسداد وصلى الله وسلم على نبينا محمد..







[1] اس کے لیے ہماری کتاب (عقیدے سے متعلق 50 سوال وجواب) سے رہنمائی حاصل کرسکتے ہیں،یہ کتاب آن لائن مفت دستیاب ہے۔

[2] -کلمہ، نماز، روزہ، زکوۃ اور حج- اس کے لیے آپ "تعلیم الاسلام "نامی کتاب سے رہنمائی لے سکتے ہیں، یہ کتاب مفتی کفایت اللہ صاحب نے  آسان زبان میں لکھی ہے۔
[3] مسند احمد ، وسنن ابی داود
0 تبصرے

   
نبی کریم rکا پڑوسیوں کے ساتھ برتاؤ
از- مبصرالرحمن قاسمی   (ریڈیو کویت)
 
بعثت نبوی ﷺ کے وقت لوگوں میں پڑوسیوں کے ساتھ بدسلوکی عام تھی، ہر آدمی اپنی جگہ ظالم تھا، ایک پڑوسی دوسرے پڑوسی کے ساتھ بدسلوکی اور ایذاررسانی  کا معاملہ کرتا تھا، ان دنوں پڑوسی کوتکلیف دینا  کوئی معیوب بات نہیں تھی، اور نہ ہی اسے غلط تصور کیا جاتا تھا، جب جعفر بن ابوطالب نجاشی کے دربار میں خطاب کررہے تھے تو انھوں نے اپنے خطاب میں اہل مکہ کے ظلم وجور کی جانب اشارہ کرتے ہوئے  فرمایا تھا: ہم جاہل قوم تھی، بتوں کو پوجتے تھے، مردار کھاتے تھے، فحش کام کیاکرتے تھے، رشتہ داری کو توڑا کرتے تھے اور پڑوسیوں کے ساتھ بدسلوکی سے پیش آیا کرتے تھے۔ (رواه أحمد (3/180) وصححه الألباني (115) في فقه السّيرة.)
حالات اس حد تک بگڑے ہوئے تھے کہ ایک پڑوسی کو اپنے دوسرے پڑوسی کے شر سے حفاظت کا یقین نہ تھا، بلکہ ایک پڑوسی دوسرے پڑوسی کی جانب سے ہر لمحہ شر کا منتظر ہوا کرتا تھا، ایسے حالات میں نبی کریم ﷺ کی بعث ہوئی، آپ ﷺ نے حسن جوار اورپڑوسی کی اہمیت پر زور دیا، اور پڑوسی کو بے شمار حقوق سے نوازا، جس کی وجہ سے معاشرے کی حفاظت، اور افراد کے درمیان محبت، امن، سلامتی اور باہمی تعاون کی بنیادیں  قائم ہوئیں۔
نبی کریم ﷺ کا مشن صرف عبادت اور دین کی اصلاح کی حد تک محدود نہیں ہے، بلکہ آپ کا مشن انسانی زندگی کی اصلاح، معاشرے کی امن وسلامتی اور تمام قسم کے معاملات میں اصلاح کی دعوت دینا ہے،آپ کامشن زندگی کے مختلف النوع گوشوں کی اصلاح پر مشتمل ا یک پیغام ہے، یہی وجہ ہے کہ نبی کریم ﷺ پہلے فرد ہے جنھو ں نے انسانیت کے تئیں ان حقوق اور ذمہ داریوں کو عمل میں لایا اور ساری انسانیت کے لئے عملی نمونہ ثابت ہوئے۔
رسالت نبوی ﷺاور  پڑوسی کے حقوق:
پڑوسی کے حق سے متعلق قرآن کریم  میں متعدد آیات وارد ہیں، ارشاد ربانی ہے:
[وَاعْبُدُوا اللَّهَ وَلا تُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا وَبِذِي الْقُرْبَى وَالْيَتَامَى وَالْمَسَاكِينِ وَالْجَارِ ذِي الْقُرْبَى وَالْجَارِ الْجُنُبِ وَالصَّاحِبِ بِالْجَنْبِ وَابْنِ السَّبِيلِ وَمَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ إِنَّ اللَّهَ لا يُحِبُّ مَنْ كَانَ مُخْتَالا فَخُورًا} [النّساء: 36[
(ترجمہ: اور خدا ہی کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ بناؤ اور ماں باپ اور قرابت والوں اور یتیموں اور محتاجوں اور رشتہ دار ہمسائیوں اور اجنبی ہمسائیوں اور رفقائے پہلو (یعنی پاس بیٹھنے والوں) اور مسافروں اور جو لوگ تمہارے قبضے میں ہوں سب کے ساتھ احسان کرو کہ خدا (احسان کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے اور) تکبر کرنے والے بڑائی مارنے والے کو دوست نہیں رکھتا۔)
ابن کثیر آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں: جارذی القربی اورجارالجنب سے کیا مراد ہے؟ جارذی القربی وہ پڑوسی ہے جو رشتہ دارہوں، جبکہ جارالجنب سے مراد وہ پڑوسی ہے،جس کا آپس میں رشتہ داری کا کوئی تعلق نہ ہو،اس سلسلے میں بعض علماء کا قول  منقول ہے: جارذی القربی سے مراد مسلم پڑوسی ہے اور جار الجنب سے مراد غیر مسلم پڑوسی، تاہم دونوں قول میں  پڑوسی سے متعلق  وصیت ہے۔ تفسير ابن كثير (1/424)
نبی کریم ﷺ سے متعدد ایسی احادیث منقول ہیں جس میں پڑوسی سے متعلق شدت سے وصیت فرمائی گئی،جس کی وجہ پڑوسی کا مقام اور اس کے تئیں مسلمان پر  واجب حقوق ہیں، پڑوسی کے سلسلے میں حضرت جبرئیل نے آپ ﷺ کو اتنی وصیت فرمائی کہ پڑوسی کو بھی وارث  کا درجہ دیئے جانے اور خاندان کا ایک فرد بنائے جانے  کا آپ ﷺ کوگمان ہونے لگا تھا۔
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے: نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
«ما زال جبريل يوصيني بالجار، حتَّى ظننت أنه سيوَّرثه]  متفقٌ عليه[
(ترجمہ: جبرئیل مجھ سے ہمسائے کے بارے میں وصیت کرتے رہے یہاں تک کہ مجھے یہ گمان ہونے لگا کہ اسے وارث قرار دیا جائے گا۔)
دین اسلام نے بہترین پڑوسی اس شخص کو قرار دیا جو اپنے پڑوسیوں کے لئے بہتر ہو، حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
«خير الأصحاب عند الله خيرُهم لصاحبه، وخير الجيران عند الله خيرُهم لجاره [رواه التّرمذي (1944) وصححه الألباني.]
(ترجمہ: اللہ تعالیٰ کے نزدیک بہترین ساتھی وہ ہے جو اپنے ساتھیوں کے لئے بہتر ہو، اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک بہترین پڑوسی وہ ہے جو اپنے پڑوسی کے لئے بہتر ہو۔)
نبی کریم ﷺ نے ہمسائے کو تکلیف پہنچانے کو ایک  قبیح عمل ، اللہ تعالیٰ کی نافرمانی اور پڑوسی کے حق میں خیانت  قرار دیا ہے، چونکہ ایک پڑوسی کا دوسرے پڑوسی پر یہ حق ہے کہ وہ اپنے ہمسائے کے مال کا امین ہواوراس کی عزت وناموس کا محافظ ہو، حضرت مقداد بن اسود نبی کریم ﷺ کا قول نقل فرماتے ہیں: کہ آپ ﷺ نے ایک دن اپنے صحابہ سے دوران گفتگو فرمایا:
«ما تقولون في الزّنا؟ قالوا: حرام، حرّمه الله ورسوله، فهو حرامٌ إلى يوم القيامة. قال: فقال رسول الله: لأن يزني الرجل بعشر نسوة؛ أيسر عليه من أن يزني بامرأة جاره، قال: ما تقولون في السّرقة؟ قالوا: حرّمها الله ورسوله، فهي حرامٌ. قال: لأن يسرق الرّجل من عشرة أبياتٍ؛ أيسر عليه من أن يسرق من جاره۔ [صححه الألباني (2549) في صحيح التّرغيب.]
(ترجمہ: زنا کے بارے میں کیاکہتے ہو؟ہم نے عرض کیا اس کو اللہ اوراس کے رسول نے حرام قراردیاہے اوروہ قیامت تک  حرام ہے۔فرمایا دس عورتوں کے ساتھ زناکرنے سے زیادہ برایہ ہے کہ کوئی شخص اپنے پڑوس کی عورت سے زناکرے۔۔(پھرفرمایا) چوری کے بارے میں تمہاراکیاخیال ہے۔ہم نے عرض کیا ۔حرام ہے اس کو اللہ نے حرام قراردیاہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا دس گھروں سے چوری کرنے سے زیادہ برایہ ہے کہ اپنے پڑوسی کے گھر میں چوری کرے ۔)
حضرت ابن مسعود ؓ سے روایت ہے:
سألت النّبيّ -صلّى الله عليه وسلّم: أيّ الذّنب أعظم عند الله؟ قال: أن تجعل لله ندًا وهو خلقك. قلت: إن ذلك لعظيم، قلت: ثمّ أيّ؟ قال: وأن تقتل ولدك تخاف أن يطعم معك. قلت: ثمّ أيّ؟ قال: أن تزاني حليلة جارك ۔ [متفقٌ عليه.]
(فرماتے ہیں: میں نے نبی کریم ﷺ سے دریافت کیا: اللہ تعالیٰ کے پاس سب سے بڑا گناہ کونسا ہے؟ فرمایا: تم اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو مددگار بناؤ حالانکہ اس نے تمہیں پیدا کیا،  میں نے کہا: بیشک یہ بہت بڑا گناہ ہے، پھر میں نے کہا: اس کے بعد کونسا گناہ ہے؟ فرمایا: تم اپنی اولاد کو اس خوف سے قتل کردو کہ وہ تمہارے ساتھ کھائیں گی،  پھر میں نے کہا: اس کے بعد کونسا گناہ سب سے بڑا ہے؟ فرمایا:تمہارا اپنے ہمسائے کی بیوی کے ساتھ زنا کرنا۔)
حضرت عائشہ صدیقہ ؓ نبی کریم ﷺ سے دریافت کرتی ہیں: میرے دو ہمسائے ہیں، اگر میرے پاس ہدیے کے لئے ایک ہی چیز ہو،تو میں ان دونوں میں سے کسے ہدیہ دوں، نبی کریم ﷺ نے فرمایا: اس شخص کو دینا جس کا دروازہ تمہارے دروازے سے زیادہ قریب ہو۔
نبی کریم ﷺ نے پڑوسی پڑوسی کے درمیان مسکراہٹ کے تبادلے  اور آپس میں خوش دلی سے ملنے کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے اور اپنے کھانے میں پڑوسی کو شریک کرنے کی اہمیت کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا:  «
لا تحقرنّ من المعروف شيئًا، ولو أن تلقى أخاك بوجهٍ طلقٍ»
ترجمہ: نیکی میں کسی بھی چیز کو حقیر نہ سمجھو اگرچہ تم اپنے بھائی سے خندہ پیشانی سے ہی ملو.( صحیح مسلم:جلد سوم:حدیث نمبر 2193)
اور آپ ﷺ نے حضرت ابوذر سے فرمایا:
«يا أبا ذرٍّ! إذا طبخت مرقةً، فأكثر ماءها، وتعاهد جيرانك [رواه مسلم 2625 :[
(ترجمہ: ابوذر! جب تم شوربہ بناؤ، تو اس میں پانی کا اضافہ کرلو، اور اپنے پڑوسی کا خیال رکھو۔)
نبی کریم ﷺ نےتعلیم دی کہ پڑوسی کا دوسرے پڑوسی پر خوشی اور غم کے موقع پر ساتھ دینے کا حق ہے، نیز  آپ ﷺ نے پڑوسی کو اپنے کھانے میں شریک کرنے، اس کے مرتبہ کا خیال رکھنے، اسے ایذانہ پہنچانے، اور اس کی غیرموجودگی میں اس کے  اہل واولاد کی حفاظت کرنے کی تعلیم دی۔
نبی کریم ﷺ نے ہمسائے سے محبت، اس کے احترام، اس کے ساتھ حسن سلوک وحسن معاملات اور اس سے لگاؤ ،اس کے مریضوں کی عیادت، اور اس کی خدمت کرنے نیز وقت ضرورت اس کے کام آنے ، اس کے لئے خیرخواہی  چاہنے اور اس کے گھر کی عورتوں سے نگاہ نیچی رکھنے کی وصیت فرمائی۔
ارشاد نبوی ﷺ ہے: چار چیزیں سعادت مندی کی علامت ہیں:  نیک بیوی، کشادہ گھر، نیک ہمسایہ اور آرام دہ سواری، اور آپﷺ نے فرمایا: چار چیزیں بدبختی کی علامت ہیں:  خراب پڑوسی، بدمزاج عورت، تکلیف دہ سواری، اور تنگ گھر۔
نبی کریم ﷺ نے پڑوسیوں کے ساتھ عملی سرگرمیوں کو راسخ کرنے پر زور دیا تاکہ اُن مفاہیم اور مطالب کا نفاذ ہو جس پر آپ نے زور دیا، مثال کے طور پر آپ ﷺ نے ایذا رسانی سے بازرہنے کی عملی مشق کرائی؛کیونکہ ایک پڑوسی دوسرے پڑوسی کے راز سے واقف ہوتا ہے، اور بسااوقات  پڑوسی اپنے پڑوسی کی ان خامیوں سے بھی واقف ہوتا ہے جو اس کے علاوہ کسی کے علم میں نہیں ہوتیں، لہٰذا ممکن ہے کہ پڑوسی اپنے دوسرے پڑوسی کی ان خامیوں کو مد نظر رکھ کر اس کا استحصال کرنا چاہے، لہٰذا  پڑوسی کی جانب سےدوسرے پڑوسی کو تکلیف دوسروں کی ایذا رسانی کے مقابلے میں بہت زیادہ درد والم کا باعث ہوتی ہے، چونکہ پڑوسی اپنے پڑوسی کے عیوب اور زخموں سے اچھی طرح واقف ہوتا ہے ، اسے علم رہتا کہ کونسا زخم اپنے ہمسایے کے لئے زیادہ دردوالم کا باعث ہے، یہی وجہ ہے کہ نبی کریم ﷺ نے پڑوسی کو تکلیف دینا ایمان کی سلامتی کے لئے خطرہ بتایا ہے، فرمان نبوی ﷺ ہے:
من كان يؤمن بالله واليوم الآخر فلا يؤذِ جاره .
  (ترجمہ: جو شخص اللہ اور اس کے رسول پر ایمان رکھتا ہو، اپنے پڑوسی کو تکلیف نہ پہنچائے۔)
حضرت ابوہریرہ ؓ فرماتے ہیں:ایک شخص نے کہا:
 يا رسول الله إن فلانةً يُذكر من كثرة صلاتها وصدقتها وصيامها غير أنّها تؤذي جيرانها بلسانها قال: «هي في النّار»، قال: يا رسول الله! فإن فلانةً يُذكر من قلة صيامها [وصدقتها] وصلاتها، وإنّها تتصدق بالأثوار من الإقط، ولا تؤذي جيرانها [بلسانها] قال: «هي في الجنّة۔ [صححه الألباني (2560) في صحيح التّرغيب]
ترجمہ: اے اللہ کے رسول!(ﷺ) فلاں خاتون نماز، صدقہ اور اپنے روزوں کی وجہ سے مشہور ہے، تاہم وہ اپنے پڑوسیوں کے ساتھ زبان کا غلط استعمال کرتی ہیں، آپ ﷺ نے فرمایا: وہ جہنم میں ہے، اس شخص نے  پھر کہا: اے اللہ کے رسول(ﷺ) فلاں خاتون ہے، جس کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ بہت کم روزے رکھتی ہیں، بہت کم صدقہ وخیرات کرتی ہیں اور بہت کم نماز پڑھتی ہیں لیکن اپنے پڑوسیوں کو زبان سے تکلیف نہیں پہنچاتی؛ آپ ﷺ نے فرمایا: وہ جنتی ہے۔
حضرت ابوہریرہ ؓ سے مروی ہے ،نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
«لا يدخل الجنّة من لا يأمن جاره بوائِقَهُرواه مسلم (46].
( ترجمہ: وہ شخص جنت میں داخل نہیں ہوگا جس کا پڑوسی اس کے شرور سے محفوظ نہ ہو)
اسی طرح آپ ﷺ نے پڑوسی کے تعلق سے رہنمائی فرماتے ہوئے  حکم دیا کہ اگر ایک  پڑوسی اپنے دوسرے پڑوسی کے چیزوں کے استعمال کی اجازت چاہے تو دوسرے پڑوسی کو اپنے پڑوسی کے مطالبہ کو پورا کرنا چاہیے،حضرت ابوہریرہ ؓ سے مروی ہے ؛ نبی کریم ﷺ نے ارشا د فرمایا:
«لا يمنع جارٌ جاره أن يغرز خشبه في جداره۔] متفقٌ عليه[
(ترجمہ:تم میں سے کسی سے اس کا پڑوسی اس کی دیوار میں لکڑی گاڑنے کی اجازت مانگے تواس کومنع نہ کرے۔)
کبھی کبھی  کوئی  پڑوسی  اپنے اہل خانہ کی ضرورت پوری کرنے کا محتاج ہوجاتا ہے، ایسے موقع پر وہ اپنے ہمسایے سے اپنی ضرورت پوری کروانے کا ارادہ رکھتا ہے ،لہٰذا بندۂ مومن کو اس کی اس ضرورت کو پورا کرنا چاہیے، چونکہ جب تک بندہ اپنے بھائی کی مدد میں لگا رہتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی مدد فرماتے رہتے ہیں۔نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے:
ما آمن بي من بات شبعانًا وجاره جائعٌ إلى جنبه وهو يعلم [صححه الألباني (2561) في صحيح التّرغيب.].
(ترجمہ:وہ مومن نہیں ہے جو خود توپیٹ بھرکر سوئے اوراس کا پڑوسی بھوکاہواو راس بات  کا  اسے علم بھی ہو۔)
یقینا نبی کریم پیغمبر اسلام حضرت محمد رسول اللہ ﷺ انسانوں میں سب سے بہترین اور سب سے افضل پڑوسی تھے۔

(یہ مضمون عربی کا ایک مقالہ ہے، جسے احقر نے مرکز وذکر کویت کے لیے اردو میں ترجمہ کیا )