پیر، 21 نومبر، 2016

Ham Ummat e Takhleeq Wa Amal Hain

0 تبصرے

تحریر : مبصرالرحمن قاسمی
ہم امت تخلیق وعمل ہیں
مسلمانوں نے ہر زمانے میں مختلف میدانوں میں تخلیقات اور عمل کا انسانوں کے لیےایک قیمتی تحفہ پیش کیا، کاہلی، سستی اور لاپرواہی کو ہمارے بزرگوں اور اسلاف نے قریب بھی آنے نہیں دیا، قرآنی آیات ، احادیث شریفہ اور نبوی موقف سے پتہ چلتا ہے کہ تخلیق وعمل مسلمان کے لیے شرف وعزت ہے۔ اس کے ذریعے اسے دنیا میں عزت ملتی ہے اور اگر نیت درست ہوتو آخرت میں باعث اجروثواب بھی ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ مسلمان عزت وفخر کی منزلوں تک اور تہذیبوں کے درمیان بلند مقام تک اس وقت تک نہیں پہنچ سکے جب تک کہ انھوں نے محنت، جہد اور عرق ریزی کو اپنا شیوہ نہ بنالیا۔
ہمارا دین ہمیں تخلیق وعمل کی ترغیب دیتا ہے :
متعدد قرآنی آیات میں مسلمانوں کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ زمین میں رزق تلاش کرنے اور حلال مال حاصل کرنے کے لیے محنت کریں، یہ قرآنی آیات مسلمانوں کو محنت ومشقت کرنے پر آمادہ کرتی ہیں اور ان آیات میں محنت کے بعد بہترین نتیجے کی خوشخبری بھی سنائی گئی ہیں، ارشاد باری تعالی ہے : ترجمہ : وه ذات جس نے تمہارے لیے زمین کو پست ومطیع کردیا تاکہ تم اس کی راہوں میں چلتے پھرتے رہو اور اللہ کی روزیاں کھاؤ (پیو) اسی کی طرف (تمہیں) جی کر اٹھ کھڑا ہونا ہے۔(الملک ۱۵)
سیرت کی کتابوں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی پر اگر نظر ڈالی جائے تو یہ پتہ چلتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے محنت اور کام کی اہمیت کو اجاگر کیا، اور ہاتھ پھیلانے والے سے زیادہ ہاتھ کی کمائی کو معزز قرار دیا، حضرت مقداد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : کسی انسان نے اس شخص سے بہتر روزی نہیں کھائی، جو خود اپنے ہاتھوں سے کما کر کھاتا ہے اللہ کے نبی داؤد علیہ السلام اپنے ہاتھ سے کام کرکے روزی کھایا کرتے تھے۔(البخاري (1966)، وابن حبان :6333) ، اسی لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات کو ناپسند فرمایا ہےکہ  امت کا کوئی فرد بالکل عیش وآرام  اور سستی وکاہلی کا سہارا لے، آپ نے واضح کرتے ہوئے فرمایا : اوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے بہتر ہے اور (صدقہ) شروع کر ان لوگوں سے جو تیری نگرانی میں ہوں اور بہتر صدقہ وہ ہے جو ان لوگوں پر کیا جائے جن کا تو ذمہ دار ہے اور جو شخص سوال سے بچنا چاہتا ہے، تو اللہ تعالیٰ اسے بچالیتا ہے اور جو شخص بے پروائی چاہے، تو اللہ اسے بے پرواہ بنا دیتا ہے۔ (بخاری: ۱۳۶۲.)
انسان جس قدر محنت ومشقت کرے، لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلانے  سے بہتر ہے، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتےہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر کوئی شخص رسی سے لکڑیوں کا بوجھ باندھ کر اپنی پیٹھ پر جنگل سے اٹھا لائے (پھر انہیں بازار میں بیچ کر اپنا رزق حاصل کرے ) تو وہ اس شخص سے بہتر ہے جو کسی کے پاس آکر سوال کرے۔ پھر جس سے سوال کیا گیا ہے وہ اسے دے یا نہ دے۔(البخاري :1402، وابن ماجه :1836، وأحمد :1429)
اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مفہوم کو سمجھانے کے لیے ایک عملی مثال پیش کی جب ایک شخص آپ کی خدمت میں آیا وہ کچھ مانگ رہا تھا ۔ آپ نے فرمایا : کیا تمہارے گھر میں کچھ نہیں ہے ؟ کہنے لگا کیوں نہیں ، ایک کملی سی ہے ، اس کا ایک حصہ اوڑھ لیتے ہیں اور کچھ بچھا لیتے ہیں اور ایک پیالہ ہے جس سے پانی پیتے ہیں ۔ آپ نے فرمایا  “ یہ دونوں میرے پاس لے آؤ ۔ ” چنانچہ وہ لے آیا ۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اپنے ہاتھ میں لیا اور فرمایا  “ کون یہ چیزیں خریدتا ہے ؟”  ایک شخص نے کہا : میں انہیں ایک درہم میں لیتا ہوں ۔ آپ نے فرمایا  “ایک درہم سے زیادہ کون دیتا ہے ؟ ” آپ نے دو یا تین بار فرمایا ۔ ایک ( اور ) شخص نے کہا : میں ان کے دو درہم دیتا ہوں ۔ چنانچہ آپ نے دونوں چیزیں اسے دے دیں اور دو درہم لے لیے اور وہ دونوں اس انصاری کو دے دیے اور اس سے فرمایا  “ ایک درہم کاغلہ خریدو اور اپنے گھر والوں کو دے آؤ اور دوسرے سے کلہاڑا خرید کر میرے پاس لے آؤ ۔”  چنانچہ وہ لے آیا تو آپ نے اس میں اپنے دست مبارک سے دستہ ٹھونک دیا اور فرمایا “جاؤ ! لکڑیاں کاٹو اور بیچو اور پندرہ دن تک میں تمہیں نہ دیکھوں ۔”  چنانچہ وہ شخص چلا گیا ، لکڑیاں کاٹتا اور فروخت کرتا رہا ۔ پھر آیا اور اسے دس درہم ملے تھے ۔ کچھ کا اس نے کپڑا خریدا اور کچھ سے کھانے پینے کی چیزیں ، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا  “یہ اس سے بہتر ہے کہ مانگنے سے تیرے چہرے پر قیامت کے دن داغ ہوں ۔ بلاشبہ مانگنا روا نہیں ہے سوائے تین آدمیوں کے ازحد فقیر محتاج خاک نشین کے ، یا بے چینی میں مبتلا قرض دار کے ، یا دیت میں پڑے خون والے کے ( جس پر خون کی دیت لازم ہو ) ۔ (أبو داود (1641)، والترمذي (653)، وابن ماجہ (2198)، وأحمد (12155.)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کو رزق کی تلاش میں صبح سویرے نکلنے کی تاکید فرماتے تھے، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : صبح سویرے  رزق اور ضرورتوں کو تلاش کرو، کیونکہ صبح  کے وقت کے کام میں برکت اور کامیابی ہے۔ (المعجم الأوسط للطبراني، تحقيق طارق بن عوض الله، حدیث نمبر : 7250.)
صخر غامدی رضی اللہ عنہ ایک تاجر صحابی ہیں ، آپ   رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث نقل کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے : اللهم بارك لأمتي في بكورها (ترجمہ :اے اللہ! میری امت کے صبح کے اوقات میں برکت عطاء فرما۔) صخر کہتے ہیں جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کسی جماعت یا لشکر کو روانہ فرماتے تو انھیں دن کے اول وقت میں یعنی صبح سویرے روانہ فرماتے تھے، صخر کیونکہ تاجر تھے، وہ اپنے تاجروں کو صبح روانہ کرتے تھے، جس کا اثر ان کی تجارت میں خوب ہوا اور ان کے مال میں زبردست اضافہ بھی ہوا۔ (أبوبكرالشيباني:الآحاد والمثاني، تحقيق باسم فيصل الجوابرة)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک کام کا میدان کسی ایک خطے، علاقے اور شہر تک محدود نہیں تھا، بلکہ اس سلسلے میں آپ کی ہدایات قرآن مجید کی ہدایات کے بالکل مطابق تھیں، قرآن مجید انسانوں سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ رزق کی تلاش میں زمین میں چلے پھرے ، آپ نے ارشاد فرمایا : تم اپنی روزی کو زمین کے پوشیدہ خزانوں میں تلاش کرو۔(مسند أبي يعلى، تحقيق حسين سليم أسد، 7/347، ح4384.)
مذکورہ احادیث اور واقعات سے یہ پیغام ملتا ہے کہ عوام الناس اپنے ہاتھوں سے کام کرنے کو حقیر نہ جانیں۔ حضرت رسول اکرم ﷺ کی ساری زندگی اور زندگی کا ایک ایک گوشہ چھان لینے کے بعد ہم پر یہی ثابت ہوتا ہے کہ حضرت رسولِ اکرم ﷺ نے محنت مزدوری کرنے والوں کے لئے بہترن نمونہ چھوڑا۔ زندگی کا وہ کون سا پہلو ہے جس کے بارے میں ہمیں اسوۂ رسول ﷺ سے رہنمائی نہ ملتی ہو۔
میدان عمل وتخلیق کے شہسوار :
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم، صحابہ کرام، تابعین، تبع تابعین اور اس امت کے ائمہ کرام کی زندگی ہمارے لیے ایک نمونہ اور مثال ہے، ان تمام کے نزدیک کام، محنت اور تخلیق کی اہمیت ومحبت پر اتفاق ہے اور ان حضرات نے سستی، کاہلی اور ذمہ داری سے پیچھے ہٹنے کو ناپسند کیا ہے۔ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: مجھے ناپسند ہے کہ میں آدمی کو فارغ دیکھوں نہ دنیا کے کام میں اور نہ آخرت کے کام میں۔(حلیۃ الاولیاء وطبقات الاصفیاء: ابونعیم)
حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے چند سست وکاہل  لوگوں کو دیکھا جو یہ سمجھتے تھے کہ صرف بات کرنے اور زبان درازی سے انھیں رزق مل جائے گا، آپ ان لوگوں کے پاس گئے اور ان سے پوچھا آپ کون ہیں؟ انھوں نے کہا ہم تو توکل اوربھروسہ کرنے والے ہیں، آپ رضی اللہ عنہ نےکہا : نہیں تم تو سہارا لینے والے ہو، کیا میں تمہیں توکل والے لوگ بتاوں ؟ توکل اور بھروسہ والا شخص تو وہ ہے جو زمین کے پیٹ میں دانہ ڈالے پھر اپنےپروردگار پر بھروسہ کرے۔ (بیہقی، شعب الایمان، تحقیق : عبدالعلی عبدالحمید حامد۲/۴۲۹)
جانفشانی ومحنت اور کام کے میدان کی سب سے بڑی مثال صحابی جلیل عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ ہیں، یہ وہ عظیم صحابی رسول ہیں جنھیں کام اور محنت کرنےسے شرم وحیاء نے نہیں روکا، یہ وہ  غریب وفقیر صحابی تھے جنھوں نے ہجرت کی وجہ سے اپنی ساری دولت اور مال مکہ میں چھوڑ دی تھی، وہ کہتے ہیں : جب ہم مدینہ آئے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اور سعد بن ربیع کو بھائی بھائی بنایا، سعد بن ربیع نے  مجھ سے کہا  میں انصار کا سب سے مالدار شخص ہوں، لہذا میں تمہیں میرا آدھا مال تقسیم کرتا ہوں، اور میری بیویوں میں سے جو عورت تمہیں اچھی لگے دیکھ لو میں تمہارے لیے اس سے دست بردا ر ہوجاتا ہوں (روای کہتے ہیں) حضرت عبدالرحمن نے کہا : مجھے اس کی کوئی ضرورت نہیں ہے، مجھے ایسا بازار بتادیجیے جہاں میں تجارت کروں، انھوں نے سوق قینقاع کی رہنمائی کی، راوی کہتے ہیں :دوسرے دن صبح عبدالرحمن بازار گئے، اور پنیر و گھی لے کر آئے پھر برابر صبح کو جانے لگے کچھ دن ہی گزرے، تو عبدالرحمن اس حال میں آئے کہ ان پر زردی کا اثر تھا، رسول اللہ ﷺ نے پوچھا کیا تم نے شادی کی ہے؟ انہوں نے جواب دیا ہاں! آپ نے پوچھا کس سے؟ کہا کہ ایک انصاری عورت سے، آپ نے پوچھا، مہر کتنا دیا، کہا کہ گٹھلی کے برابر سونا، نبی ﷺ نے فرمایا کہ ولیمہ کرو، اگرچہ ایک بکری ہی کیوں نہ ہو۔(رواہ البخاری)
توکل علی اللہ کے نام پر ہر چیز میں بغیر محنت کیے بھروسہ کرنے اور سستی ولاپرواہی برتنے کو اسلام نے سرے سے مسترد کیا ہے، اسلام کا رکن حج بھی بغیر محنت کے صرف توکل کی بنیاد پر درست نہیں ہے، بلکہ اس کے لیے بھی حاجی کو توشہ تیار کرنے اور اپنی ذمہ داری کو سنبھالنے کی تاکید کی گئی ہے، اہل یمن جب حج کے لیے آتے تھے تو ساتھ میں توشہ نہیں لاتے تھے اور وہ کہتے تھے، ہم توکل والے ہیں، اور مکہ آکر لوگوں سے مانگتے تھے، تو اللہ تعالی نے یہ آیت نازل فرمائی : ترجمہ : اور اپنے ساتھ سفر خرچ لے لیا کرو، سب سے بہتر توشہ اللہ تعالیٰ کا ڈر ہے (بقرہ:۱۹۷)
اس سلسلے میں امام ابوبکرابن الخلال رحمہ اللہ (متوفی: 311هـ) کی کتاب ۔تجارت وصنعت کی ترغیب۔ قابل توجہ ہے۔ اس کتاب میں مصنف نے ان اکابرین ائمہ کی زندگی پر روشنی ڈالی ہے جنھوں نے تجارت وصنعت کےپیشوں کو اختیا کیا، محنت ، کام اور تخلیق کی ترغیب کے لیے یہ کتاب اہمیت کی حامل ہے، اس کتاب سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہمارے اسلاف نے تخلیق وعمل کو کس قدر اہمیت دی۔
یہاں ہم مذکورہ کتاب    کی ایک جھلک پیش کررہے ہیں : جصاصی کہتے ہیں :  میں نے امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ سے پوچھا : چار درہم  میں سے آپ کو  کونسا پسند ہے؟ ایک درہم بغیر شبہ کی تجارت کا، ایک درہم قرابت داری کا، ایک درہم تعلیم کی اجرت کا، اور ایک درہم بغداد کے غلے کا، کہا : مجھے بغیر شبہ کی تجارت کا درہم پسند ہے، قرابت داری کا درہم مجھے ناپسندہے، تعلیم کی اجرت کے پیسے وقت ضرورت لے لینا چاہیے ، البتہ بغداد کے غلے کے سلسلے میں آپ جانتےہیں۔(الحث علی التجارۃ والصناعۃ ۔ ص ۳۵)
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے کئی سال  اینٹ بنانے اور مستری کا کام کیا، کبھی کبھی آپ  بڑھئی کا سامان لےکر بغداد کے محلوں میں نکل جاتے اور اپنے ہاتھ سے کام کرتے تھے۔(الحث علی التجارۃ والصناعۃ ۔ ص ۳۹)
امت کے تابناک ماضی کی یہ چند روشن مثالیں ہیں، امت کے ان اکابرین نے محنت، مزدوری اور کام کو سوال کرنے، مانگنے اور سستی ولاپرواہی پر ترجیح دی، ان کی بلندشان اور علمی مرتبہ ومقام ان کے لیے یومیہ مزدوری کی راہ میں رکاوٹ نہیں بنے اور انھوں نے حلال کام اور حلال رزق کے حصول کے لیے یومیہ مزدوری پر کوئی ذلت وحقارت محسوس نہیں کیں بلکہ محنت ، جستجو، کوشش اور تخلیق کے ذریعے انھوں نے امت کی دینی اور دنیاوی دونوں میدانوں میں رہنمائی کیں۔

جمعہ، 11 نومبر، 2016

Solution of Poverty

0 تبصرے

– مبصرالرحمن قاسمی(ریڈیو کویت)

غربت اور بے روزگاری کا خاتمہ - نبوی علاج

دین اسلام نے فقر وفاقہ ، غربت اور بے روزگاری  کے خاتمے پر خاص توجہ دی ہے، بلکہ معاشرے میں ان مسائل کے پنپنے سے پہلے متعدد ذرائع کے ذریعے ان کے حل کی کوشش کی ہدایت بھی دی ہے، غربت اور بے روزگاری ایسے مسائل ہیں جو معاشرے کو نہ صرف اخلاقی اعتبار سے نقصان پہنچاتے ہیں بلکہ عقائد پر بھی اثر انداز ہوتے ہیں، سائنسی سروے  سے بھی یہ انکشاف ہوا ہے کہ غربت اور بے روزگاری جیسے مسائل کےانسانی صحت پر نفسیاتی اثرات پڑتے ہیں، اس سے خصوصا وہ لوگ بہت جلد متاثر ہوتے ہیں جو دینی دھارے سے کٹے ہوئے ہیں، غربت اور بے روزگاری کے شکار یہ  افراد یا تو شراب کے عادی ہوجاتے ہیں یا بسا اوقات بے روزگاری کے باعث قتل وغارت گری جیسے جرائم میں بھی ملوث ہوجاتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کثرت سے دعاء کرتے تھے کہ اللہ تعالی فقروفاقہ سے محفوظ رکھے بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  فقر ومحتاجی اور کفر سے حفاظت کے لیے ایک ساتھ یہ دعاء کرتے تھے ، اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنَ الْكُفْرِ وَالْفَقْرِ ( اے اﷲ! میں کفر اور محتاجی سے تیری پناہ چاہتا ہوں) ۔( أبو داود (5090)، والنسائي (1347)، وأحمد (20397) وقال شعيب الأرناءوط:)

جس طرح آج دنیا غربت اور بے روزگاری جیسے مسائل سے دوچار ہے، اسی طرح  ماضی میں بھی دنیا اس مسئلے سے دوچار ہوتی رہی ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان مسائل کے حل کے لیے اسلامی تعلیمات واحکامات پر مبنی عملی اور تدریجی حل اپنایا تھا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کو مختلف کام کرنے، مختلف پیشوں کو اختیار کرنے اور سابقہ انبیاء کی طرح بعض صنعتی کاموں کو شروع کرنے کی ترغیب دیتے تھے، آپ صلی اللہ علیہ سلم اس سلسلے میں حضرت داود کی مثال دیا کرتے تھے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: کسی انسان نے اس شخص سے بہتر روزی نہیں کھائی، جو خود اپنے ہاتھوں سے کما کر کھاتا ہے اللہ کے نبی داؤد علیہ السلام اپنے ہاتھ سے کام کرکے روزی کھایا کرتے تھے۔(البخاري (1966)، وابن حبان :6333)

اس میدان میں ہمارے لیےسب سے بہترین نمونہ خود حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی بھی زندگی ہے، آپ نے نبوت ملنے سے پہلے تک بکریاں چرائی اور حضرت خدیجہ کے مال سے تجارت کی،حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے کوئی ایسا نبی نہیں بھیجا جس نے بکریاں نہ چرائی ہوں۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضوان اللہ علیہم نے پوچھا: کیا آپ نے بھی بکریاں چرائی ہیں؟ فرمایا کہ ہاں ! کبھی میں بھی مکہ والوں کی بکریاں چند قیراط کی تنخواہ پر چرایا کرتا تھا۔( البخاري (2143)، وابن ماجه (2149)

محنت ، مزدوری اور کام کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عزت اور احترام کی نگاہ سے دیکھا ہے،محنت کا کام  چاہےجو بھی ہولوگوں سے مانگنے اور ان کے سامنے ہاتھ پھیلانے سےبہتر ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نےاسی جانب اشارہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا : اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر کوئی شخص رسی سے لکڑیوں کا بوجھ باندھ کر اپنی پیٹھ پر جنگل سے اٹھا لائے (پھر انہیں بازار میں بیچ کر اپنا رزق حاصل کرے ) تو وہ اس شخص سے بہتر ہے جو کسی کے پاس آکر سوال کرے۔ پھر جس سے سوال کیا گیا ہے وہ اسے دے یا نہ دے۔(البخاري :1402، وابن ماجه :1836، وأحمد :1429)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسلمانوں کے معاشی منصوبوں کی ہمت افزائی فرماتے تھے اور انھیں کھیتی باڑی کرنے پر آمادہ کرتے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار صحابہ کو مالی حالت سے کمزور مہاجرین صحابہ کے ساتھ بھائی بھائی بنایا تاکہ انصار صحابہ مہاجرین صحابہ کی مدد کرسکے،کیونکہ مہاجرین صحابہ نے اپنا سب کچھ مکہ میں چھوڑ کر مدینہ  آگئے تھے۔حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : انصار نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ ہمارے باغات آپ ہم میں اور ہمارے ( مہاجر ) بھائیوں میں تقسیم فرما دیں۔ آپ نے انکار کیا تو انصار نے ( مہاجرین سے ) کہا کہ آپ لوگ درختوں میں محنت کرو۔ ہم تم میوے میں شریک رہیں گے۔ انہوں نے کہا اچھا ہم نے سنا اور قبول کیا۔( البخاري: 2200، وأبو يعلى (6310)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سود کے حرام ہونے کا اعلان فرمایا تاکہ اس کے نقصانات سے سماج کے غریب لوگ محفوظ رہ سکیں، سود ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہے ، سود غریب کو غریب تر بناتا ہے اور اس کا نتیجہ ہلاکت ہوتا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سات گناہوں سے جو تباہ کر دینے والے ہیں‘ بچتے رہو۔ صحابہ رضی اللہ عنہ نے پوچھا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! وہ کون سے گناہ ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرانا‘ اور سود کھانا۔( البخاري (2615)، ومسلم 89.)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری زندگی اقدار ، اخلاق اور اصولوں کی عملی  مثال تھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت   میں محتاجی، فقر وغربت اور بے روزگاری جیسے مسائل کے حل کی بے شمار مثالیں ملتی ہیں۔

سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک انصاری نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آیا وہ کچھ مانگ رہا تھا ۔ آپ نے فرمایا : کیا تمہارے گھر میں کچھ نہیں ہے ؟ کہنے لگا کیوں نہیں ، ایک کملی سی ہے ، اس کا ایک حصہ اوڑھ لیتے ہیں اور کچھ بچھا لیتے ہیں اور ایک پیالہ ہے جس سے پانی پیتے ہیں ۔ آپ نے فرمایا  “ یہ دونوں میرے پاس لے آؤ ۔ ” چنانچہ وہ لے آیا ۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اپنے ہاتھ میں لیا اور فرمایا  “ کون یہ چیزیں خریدتا ہے ؟”  ایک شخص نے کہا : میں انہیں ایک درہم میں لیتا ہوں ۔ آپ نے فرمایا  “ایک درہم سے زیادہ کون دیتا ہے ؟ ” آپ نے دو یا تین بار فرمایا ۔ ایک ( اور ) شخص نے کہا : میں ان کے دو درہم دیتا ہوں ۔ چنانچہ آپ نے دونوں چیزیں اسے دے دیں اور دو درہم لے لیے اور وہ دونوں اس انصاری کو دے دیے اور اس سے فرمایا  “ ایک درہم کاغلہ خریدو اور اپنے گھر والوں کو دے آؤ اور دوسرے سے کلہاڑا خرید کر میرے پاس لے آؤ ۔”  چنانچہ وہ لے آیا تو آپ نے اس میں اپنے دست مبارک سے دستہ ٹھونک دیا اور فرمایا “جاؤ ! لکڑیاں کاٹو اور بیچو اور پندرہ دن تک میں تمہیں نہ دیکھوں ۔”  چنانچہ وہ شخص چلا گیا ، لکڑیاں کاٹتا اور فروخت کرتا رہا ۔ پھر آیا اور اسے دس درہم ملے تھے ۔ کچھ کا اس نے کپڑا خریدا اور کچھ سے کھانے پینے کی چیزیں ، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا  “یہ اس سے بہتر ہے کہ مانگنے سے تیرے چہرے پر قیامت کے دن داغ ہوں ۔ بلاشبہ مانگنا روا نہیں ہے سوائے تین آدمیوں کے ازحد فقیر محتاج خاک نشین کے ، یا بے چینی میں مبتلا قرض دار کے ، یا دیت میں پڑے خون والے کے ( جس پر خون کی دیت لازم ہو ) ۔(أبو داود (1641)، والترمذي (653)، وابن ماجه (2198)، وأحمد (12155.)

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بے روزگاری کا عملی حل تلاش کیا اور اس کے لیے اس فقیر شخص کے پاس موجود تمام امکانات اور طاقت کا استعمال کیا اگرچہ کہ  اس کے پاس بہت معمولی چیزیں تھیں لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان چیزوں کا بھی سہارا لے کر اپنی ذاتی محنت کی ترغیب دی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص کو یہ تعلیم  دی کہ شریفانہ کام کے ذریعے  کس طرح رزق حلال حاصل کیا جاسکتا ہے۔

اگر انسان اس حد تک تنگ دست ہوجائے کہ اسے کوئی کام نہ مل سکےاور وہ سخت ضرورت مند اور محتاج وفقیر بن کر رہ جائے تو اس صورت میں اسلامی حل یہ ہے کہ خوشحال مالدار  رشتہ دار اپنے غریب رشتہ داروں کی کفالت کریں،اللہ تعالی نےرشتہ داروں کے درمیان حقوق کی ادائیگی کو فرض قرار دیا ہے ارشاد ہے :  فَأتِ ذَا الْقُرْبَىٰ حَقَّهُ وَالْمِسْكِينَ ۔ تو اہلِ قرابت اور محتاجوں کو ان کا حق دیتے رہو۔( الروم 38)

سیرت نبوی میں بھی غربت اور بے روزگاری جیسےمسئلے کے حل کی بہترین مثالیں موجود ہیں ، حضرت جا بر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے۔ انھوں نے کہا: بنو عذرہ کے ایک آدمی نے ایک غلام کو اپنے بعد آزادی دی (کہ میرے مرنے کے بعد وہ آزاد ہو گا )یہ بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچی تو آپ نے پو چھا:کیا تمہارے پاس اس کے علاوہ بھی کو ئی مال ہے ؟اس نے کہا :نہیں اس پر آپ نے فرمایا :"اس (غلام ) کو مجھ سے کو ن خریدے گا ؟ تو اسے نعیم بن عبد اللہ عدوی نے آٹھ سو (۸۰۰)درہم میں خرید لیا اور درہم لا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پیش کر دیے ۔اس کے بعد آپ نے فر ما یا :"اپنے آپ سے ابتدا کرو خود پر صدقہ کرو اگر کچھ بچ جا ئے تو تمہارے گھروالوں کے لیے ہے اگر تمہارے گھروالوں سے کچھ بچ جا ئے تو تمہارےقرابت داروں کے لیے ہے اور اگر ت تمہارے قرابت داروں سے کچھ بچ جا ئے تو اس طرف اور اس طرف خرچ کرو ۔(راوی نے کہا: ) آپ اشارے سے کہہ رہے تھے کہ اپنے سامنے اپنے دائیں اور اپنے بائیں (خرچ کرو۔) (مسلم: 997، والنسائي :2546)

 

اگر قریبی مالدار رشتہ  دار فقیر رشتہ داروں کی ضرورت کو پورا کرنے سے قاصر ہوں تو اس صورت میں  پورے معاشرے اور سماج پرزکوۃ اور صدقات کے ذریعے  اس فقیر کی محتاجی اور ضرورت کو پورا کرنے کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے، زکوۃ کو اللہ تعالی نے مالداروں پر فرض کیا ہے تاکہ زکوۃ کے مال سے غریبوں اور ضرورتمندوں کی مدد ہوسکے۔لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےزکوۃ کا زیادہ حقدار اس شخص کو بتایا ہے  جو کام، محنت اور کسب معاش کی استطاعت نہ رکھتا ہو، اسی لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : لا تَحِلُّ الصَّدَقَةُ لِغَنِيٍّ، وَلا لِذِي مِرَّةٍ سَوِيٍّ ۔ صدقہ کسی مالدار کے لیے حلال نہیں ہے اور نہ کسی طاقتور صحیح سالم کے لیے ۔ (أبو داود: (1634)، والترمذي (652)، والنسائي (2597)، وقال الألباني: صحيح.) اس طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کاہل، سست  اور بے کا طاقتور اور صحیح سالم انسان  کا صدقات  میں کوئی حق نہیں رکھا ہے، اس لیے کہ وہ محنت، کام  ، مزدوری اور کسب معاش کی طاقت رکھتا ہے۔

اگر معاشرے اور سماج میں ایک بھی ایسا فقیر اور محتاج انسان ہو جو کام کی طاقت نہیں رکھتا ہو تو پورے سماج اور معاشرے  کا یہ فرض ہے کہ وہ اللہ تعالی کی خوشنودی اور ثواب کی نیت سے صدقات جمع کرے اور اس کی ضروریات کی تکمیل کرے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنےصحابہ کووقتا فوقتااس بات کی ترغیب دیتے تھے اور انھیں غریبوں پر خرچ کرنے کے عملی انداز سکھاتے تھے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں کچھ دیہاتی حاضر ہوئے، انہوں نے اون کے کپڑے پہن رکھے تھے۔ آپ نے ان کی بدحالی دیکھی کہ وہ ضرورت مند اور محتاج ہو گئے تھے تو آپ نے لوگوں کو (ان کے لیے) صدقہ کرنے کی ترغیب دی لیکن لوگوں نے اس میں سستی سے کام لیا، حتی کہ یہ بات آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ انور سے ظاہر ہونے لگی۔ کہا: پھر انصار میں سے ایک شخص چاندی (کے سکوں، درہموں) کی ایک تھیلی لے کر آ گیا، پھر دوسرا آیا، پھر لوگ ایک دوسرے کے پیچھے (صدقات لے کر) آنے لگے۔ یہاں تک کہ آپ کے چہرہ انور پر مسرت جھلکنے لگی، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جس نے اسلام میں کسی اچھے کام کی ابتدا کی اور اس کے بعد اس پر عمل ہوتا رہا، اس کے لیے (ہر) عمل کرنے والے (کے اجر) جتنا اجر لکھا جاتا رہے گا۔ اور ان کے گناہوں میں کسی چیز کی کمی نہ ہو گی۔( مسلم: 1017، والنسائي :2554، وأحمد : 19225)

یہ وہ نبوی اقدار ،اخلاق اور اصولو ل ہیں جن  کے سائے میں پورا معاشرہ اور سماج باہم جڑا ہوا   ہوتا ہے، اس کے تمام ستون برابر رہتے ہیں، اسے حقد وحسد جیسے امراض نقصان نہیں پہنچاتے، اس طرح فقر وفاقہ اور بے روزگاری کے خاتمے کے لیے دین اسلام نے کامیاب عملی او ر حقیقی حل پیش کیے ہیں، اس اہم مسئلے کے حل کے لیے شاید ہی نبوی حل کے علاوہ  دنیا میں کوئی کامیاب علاج ہوگا، یقینا بے روزگار ی اور غربت کا یہ نبوی حل اور طریقہ کار دنیا کا سب سے  کامیاب تجربہ ہے، کیونکہ اسے اللہ تعالی نے اپنے نبی کو  وحی کے ذریعے سکھایا ہے ۔  وما ینطق عن الہوی۔

TAHAFFUZ E SHARIAT K TARIQE

0 تبصرے

مبصرالرحمن قاسمی 

تحفظ شریعت کے طریقے

دین اسلام کو شروع سے ہی مخالفین کا سامنا رہا ہے، اگر ہم نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے پر ہی نظر ڈالیں تو آج کے چیلنجز ان کے سامنے کچھ بھی نہیں، نبوی دور کے بعد خلفاء راشدین کی شہادتیں اسی شریعت اور دین کے تحفظ کی راہ میں ہوئی ہیں، صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین نے بھی اپنے زمانے میں دین اور اس کی تعلیمات کی حفاظت کے لیے جو قربانیاں دی ہیں وہ ناقابل فراموش ہیں، اگر اسلاف کی زندگی پر نظر ڈالی جائے تو امام احمد بن حنبل، امام ابن تیمیہ، امام بخاری اور  وطن عزیز میں دور جدید کے علماء میں شاہ ولی اللہ دہلوی اور ان کے بعد کے  علماء کی زندگی  تحفظ شریعت کے سلسلے میں ہمارے لیے بہترین نمونہ ہے۔ 

حال میں ایک بار پھر ملک  میں دین وشریعت اور شرعی تعلیمات  کو مٹانے کے لیے ایک طوفان آیا ہوا ہے، خدا کرے یہ طوفان یوں ہی بے نتیجہ گذرجائے، لیکن اس طرح کی آندھیاں ماضی میں بھی آئی ہیں اور مستقبل میں بھی آسکتی ہیں،  البتہ مومنین کو پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ تعلیم دی ہے کہ وہ ہر آزمائش وآفت کے وقت چوکنا ہوجائیں اور جہاں خدائے باری تعالی سے رجوع ہوں وہیں اس آزمائش کی وجوہات کا پتہ لگاکر ان کے حل کی کوشش میں لگ جائیں اورمایوس ہونے کی بجائے پرامید رہیں۔

حضرت خباب بن ارت رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے  شکایت کی، آپ اس وقت اپنی ایک چادر اوڑھے کعبہ کے سائے میں ٹیک لگاکر بیٹھے ہوئے تھے، ہم نے آپ کی خدمت میں عرض کی کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے لیے مدد کیوں نہیں طلب کرتے، ہمارے اللہ سے دعاء کیوں نہیں کرتے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ (ایمان لانے کی سزا میں) گذشتہ امتوں کے افراد کے لیے گڑھا کھودا جاتا تھا اور انھیں اس میں ڈال دیا جاتا تھا، پھر آرا ان کے سر پر رکھ کر ان کے دوٹکڑے کردیئے جاتے تھے، اور یہ سزا بھی انھیں ان کے دین سے روک نہیں سکتی تھی، لوہے کے کنگھے ان کے گوشت میں دھنسا کر ان کی ہڈیوں اور پٹھوں پر پھیرے جاتےتھے، اور یہ سزا بھی انھیں ان کے دین سے نہیں روک سکتی  تھی، خدا گواہ ہے کہ یہ امر (اسلام) بھی کمال کو پہنچے گا اور ایک زمانہ آئے گا کہ ایک سوار مقام صنعاء سے حضر موت تک سفر کرے گا، لیکن(راستوں کے قطعا محفوظ ہونے کی وجہ سے) اسے اللہ کے سوا اور کسی کا خوف نہیں ہوگا یا پھر اسےنہ بھیڑیوں کا خوف ہوگا کہ کہیں اس کی بکریوں کو نہ کھا جائے، لیکن تم عجلت سے کام لیتے ہو۔(بخاری )

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کی اس طرح تربیت فرمائی کہ انھیں چھوٹی آزمائش کے مقابلے بڑی آزمائش کی  یاد دلائی اور پرامید رہنے کی ہدایت کی۔

آج تحفظ شریعت کے ضمن میں ملک میں مختلف سرگرمیاں سرانجام دی جارہی ہیں، جو قابل ستائش ہیں، لیکن دین وشریعت کے تحفظ کے لیے آج ہمیں کئی سطحوں پر کام کرنے کی ضرورت ہے، یہ ذمہ داری صرف ایک ادارے یا پھر  کسی جماعت تک محدود نہیں ہے، بلکہ اس میں تمام   افراد ، ادارے، تنظیمیں اور جماعتیں یکساں طور پر ذمہ دار ہیں۔جب شریعت اور دین پر آنچ آنے کا ڈر محسوس ہوا تو اسی وقت ہمارے اکابرین نے دین کے تحفظ کے لیے  اپنی کوششیں شروع کردیں اور مسلم پرسنل لاء کا قیام عمل میں آیا،اوراپنے قیام کے پہلے دن سے ہی بورڈ شریعت میں کسی بھی تبدیلی کو قبول کرنے سے انکار کرتا آیا ہے، یقینا قانونی کوششیں کرنا ہماری اولین ذمہ داری ہے ، لیکن اس کے ساتھ ہمیں بھی اپنے معاشرے کے اندر پنپنے والی ایسی خامیوں کو دور کرنے کی ضرورت ہے جن سے شریعت کو نقصان پہنچنے کا ڈر ہو۔ اس کے لیے ہمیں کئی اعتبار سے محنت کرنے کی ضرورت ہے ۔یہاں ہم نے چند اہم طریقوں کی جانب اشارہ کیا ہے، اگر کم از کم ان طریقوں پر بھی ہم پختگی  کے ساتھ عمل کریں تو ان شاء اللہ کئی راہیں ہموار ہوں گی۔

۱-  اتحاق واتفاق

اتحاد کی تعلیم جتنی اسلام میں دی گئی ہے، شایدہی کسی مذہب کی تعلیمات میں شامل ہیں، لیکن اس کے باوجود ہم مختلف ٹکڑیوں میں بٹے ہوئے ہیں، آج ہمیں تحفظ دین کی خاطر متحد ہونے کی سخت ضرورت ہے، رنگ ونسل ، ذات پات اور فقیر وامیر  کے پیمانوں کو بھلاکر آج ہم سب کو اسی طرح متحد رہنے کی ضرورت ہے جس طرح ہم مسجد میں ایک ساتھ کھڑے ہوکر خدائے باری تعالی کے سامنے پیش ہوتے ہیں ،یہ خصوصیت صرف اسلام کی ہی ہے کہ یہاں ایک ہی صف میں محمود وایاز کھڑے ہوجاتے ہیں،  نماز کے ذریعے جہاں دیگر کئی چیزوں کی روحانی تربیت مقصود ہے وہیں پانچ وقت بغیر کسی تفریق کے  ایک صف میں  کھڑے کرواکر متحد رہنے کی تعلیم دی جاتی ہے، جب تک ہمارے درمیان اختلاف رہے گا تحفظ شریعت کا کام ناقص ہی رہے گا ، لہذا مسلکوں اور جماعتوں کے اختلافات کو بھلا کر آج ہمیں صرف  اور صرف  دین کے نام پر متحد ہونے کی ضرورت ہے۔

۲- باشعور نوجوانوں پر مشتمل رابطہ کمیٹیوں کا قیام:

اب وقت آچکا ہے کہ ہم اپنی قیادت کو نوجوانوں کے حوالے کریں، اور ہمارے اکابرین/ نوجوانوں کی سرپرستی کے فرائض انجام دیں، کیونکہ یہ وقت کا تقاضا ہے کہ ہم اپنی  نوجوان نسل کو  قیادت حوالے کرکے مستقبل کے چلینجوں کے مقابلے کے لیے آج سے ہی انھیں تیارکریں، تحفظ شریعت کے ضمن میں صوبائی سطح پر ہر مسلک وجماعت اور طبقے سے تعلق رکھنے والے باشعور نوجوانوں کو جوڑا جائے اور مسلم پرسنل لاء کے پرچم تلے ان سے رضاکارانہ خدمات حاصل کی جائیں، ہر صوبے کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے نوجوان افراد  کی ایک ایک کمیٹی تشکیل دی جائے اور انھیں ملت کے مختلف کاموں کی نگرانی کی ذمہ داری دی جائے، نیز کمیٹی کے ان باشعور نوجوانوں کو ملکی سطح پر متعارف بھی کیا جائے تاکہ ملت کے افراد ان کا تعاون کرسکیں۔ یقینا  آج کئی باصلاحیت نوجوان ہمارے پاس ہیں لیکن ان کا صحیح استعمال کرنے کے لیے ہم تیار نہیں ہیں۔

۳-  مسلکی وجماعتی اختلافات کا ازالہ:

آج ہم ٹیکنالوجی اور تیز رفتار انٹرنیٹ کی دنیا میں جی رہے ہیں، لیکن  اس کے باوجود انتہائی معمولی مسائل کی بنیاد پر آج بھی ہمارے درمیان غلطی فہمیاں عام ہیں، جنھیں بہت آسانی کے ساتھ دور کیا جاسکتا ہے اور سب کو جوڑا جاسکتا ہے، لیکن یہ ہماری کاہلی کہیں یا پھر  معلوم ہونے کے باوجود ہم چاہتے ہی نہیں ہیں کہ محمد عربی کی یہ امت متحد ہوجائے۔ تحفظ شریعت کے لیے ہمیں تمام جماعتوں اور مسالک کے ذمہ داران کو وقتا فوقتا  ایک جگہ جمع کرکے  اختلافات کا ازالہ کرنا چاہیے اور پھر جدید ذرائع کے استعمال کے ذریعے امت کو اس سے واقف کرانا چاہیے۔تمام مسلکوں اور جماعتوں کے ذمہ داران کو جب قوم ایک جگہ دیکھی گی تو ان شاء اللہ غلطیوں فہمیوں کا ازالہ بہت جلد ممکن ہے، تحفظ شریعت کے خاطر بعض کی بعض  چیزوں کو  نظر انداز کرکے کلمہ  کی بنیاد پر  جوڑ ہو تو ان شاء اللہ  تمام غلط رسومات بھی بہت جلد دور ہوسکتی ہیں۔

۴- مسلم پرسنل لاء کی ویب سائٹ پر ہندی اور انگریزی زبانوں میں شبہات کے ازالے پر مشتمل لٹریچر:

مسلم پرسنل لاء بورڈ ملک کے تمام مسلمانوں کے نزدیک شرعی ادارہ تسلیم کیا جاتا ہے، اور ہم اسے تسلیم بھی کروانے کی کوشش کرتے ہیں، بورڈ اپنے قیام کے پہلے ہی روز سے مختلف میدانوں میں  سیمیناروں، کانفرنسوں اور اجلاسوں کے ذریعے کام کررہا ہے، بورڈ کی ایک ویب سائٹ بھی ہے، جو وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے، ویب سائٹ پر اردو زبان میں شبہات کے ازالے اور مسائل سےمتعلق کئی ایک کتابچے بھی پیش کیے گئے ہیں، لیکن  ہندی اور انگلش میں راقم الحروف کی تحقیق کے مطابق  کوئی بھی مواد نہیں ہے، حالانکہ آج کے ترقی یافتہ دور میں جب بھی کوئی مسئلہ پیش آتا ہے تو نوجوان نسل اور خصوصا میڈیا کے لوگ نیٹ پر اس مسئلے سے متعلق کھوج کرنے لگ جاتے ہیں، جب مسلم پرسنل لاء کا مسئلہ عروج پر ہوتو یقینا لوگ/ بورڈ کی ویب سائٹ سے ہی رجوع ہونگے اور اس سلسلےمیں بات کرنے سے پہلے وہ بورڈ سے متعلق تمام معلومات کا جائزہ لیں گے،  اس موقع پر بورڈ کی ویب سائٹ پر شبہات کے ازالے پر مشتمل ہندی اور انگلش زبانوں میں بھر مور مواد ہونا چاہیے تھا، تاکہ دوسرے مذاہب کے لوگ طلاق  جیسےمسائل کو یہیں سمجھ جاتے  اور  بے لگام زبان درازی سے پرہیز کرتے۔ اگر بورڈ کے ذمہ داران اس جانب توجہ دیں تو یہ کام بہت آسان ہے،اس کے لیے ہر صوبے کی رابطہ کمیٹی کو  اس صوبے کی زبان میں مختلف عناوین تقسیم کردیئے جائیں اور ساتھ ہی صفحات کا بھی تعین کیا جائے، ہمارے پاس لکھنے والے افراد کی کمی نہیں ہے، شرط ہے کہ ہم انھیں استعمال کریں۔ تحفظ شریعت کے لیے بورڈ کی ویب سائٹ پر شبہات کے ازالے پر مشتمل ہر زبان میں مدلل اور سائنٹفک انداز میں مواد پیش کرنا بھی ایک بڑی  ذمہ داری ہے۔

۵- میڈیا میں موثر نمائندگی:

یہ دور ذرائع ابلاغ کا ہے، ہر دور کی ایک خصوصیت ہوتی ہے، اور اسلام بھِی  اس خصوصیت کا خیر مقدم کرتا ہے،  جب جادو کا بول بالا تھا، تو اللہ تعالی نے حضرت موسی علیہ السلام کو جادو کا معجزہ دیا تھا، اور انسانوں کو اس معجزے کے ذریعے اپنی قدرت دکھائی تھی، جب  شعروشاعری عروج پر تھی، لوگ زباندانی پر فخر کرتے تھے تو اللہ تعالی نے اسی کے مطابق  قرآن کا نزول فرمایا اور انسانوں نے قرآن کے اعجاز کو تسلیم کیا، اسی طرح جب فلسفہ عام ہوا تو ہمارے اسلاف نے فلسفے کی جانب توجہ دی اور دین کی تعلیمات کو فلسفے کی روشنی میں سمجھایا، اب ذرائع ابلاغ کا زمانہ ہے، ہمیں چاہیے کہ ہم اس جانب توجہ دیں اور انسانوں کو اس اسٹیج سے اپنا دین سمجھائیں، میڈیا کے بھی چند اصول وضوابط ہیں،  قبل اس کے کہ ہم میڈیا میں شریعت کی نمائندگی کریں ہمیں اس کے اصول وضوابط سے واقف ہونا ضروری ہے،اس کے لیے نوجوانوں کو تیار کیا جائے اور جو نوجوان تیار ہیں ، ان کو تلاش کرکے ان کا استعمال کیا جانا چاہیے، تحفظ شریعت کے لیے میڈیا میں صحیح نمائندگی وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے، ہمارا نظام شریعت منصفانہ ہے، لیکن ہماری صحیح نمائندگی نہ ہونے کے باعث یہی میڈیا اسے ظالمانہ بناکر پیش کرتا آیا ہے۔

۶- تعلیم وتربیت:

دین اسلام کی بنیاد ہی تعلیم پر رکھی گئی ہے، اگر علم نہ ہوتو انسان وحدانیت کو بھی سمجھنے سے قاصر رہتا ہے، لہذا سب سے پہلے قرآنی آیت اقرا نازل ہوئی،جس سے صاف الفاظ میں علم کے حصول کی تعلیم دی گئی،  تحفظ شریعت کے لیے  قصبہ قصبہ، گاوں گاوں اور شہر شہر مسلمانوں میں تعلیم کو عام کرنے کی ضرورت ہے۔یقینا کئی ادارے اس میدان میں کام کررہے ہیں، لیکن اگر مسلم پرسنل لاء کی نگرانی میں رابطہ کمیٹیوں کی تشکیل کے ذریعے  مسلمانوں میں مسلک وجماعت کی تفریق کے بغیر تعلیم پر نگرانی کا  کام کیا جائے تو ان شاء اللہ بہتر نتائج ملنے کی توقع ہے۔

۷- تعلیم بالغان اور بیروزگاری کے خاتمے کے لیے اجتماعی کوشش :

شریعت کو نقصان پہنچانے میں کچھ ایسے واقعات  کا بڑا حصہ ہے جو ہم سے ہی سرزد ہوجاتے ہیں، جس کی بڑی وجہ لاعلمی ، جہالت ، بے روزگاری اور بے دینی ہے، آج ہمیں ایسے نوجوانوں تک فردا فردا رسائی کی ضرورت ہے ، جو دینی، معاشی اور سماجی اعتبار سے کمزور ہیں، اصلاح  کےبہت کام جاری ہیں، لیکن یہ کام یا تو امیرزادوں میں یا پھر شہروں میں انجام دیے جارہے ہیں، چھوٹے مقامات اور گاوں ، دیہاتوں میں  آج بھی اصلاحی کاموں کی سخت ضرورت ہے، تحفظ شریعت کے تئیں علماء اور باشعور نوجوانوں کی کمیٹیاں تشکیل دے کر وقتا فوقتا چھوٹے چھوٹے مقامات  پر جاکر نوجوانوں سے فردا فردا ربط کرنے ، انھیں دین کی تعلیمات سے آگاہ کرنے اور ان کے معاشی وسماجی مسائل کو حل کرنے کی کوشش ہونی چاہیے۔

۷- خواتین کو دین کے اہم مسائل سے واقف کرانا:

دین کی تعلیمات سے واقفیت کا جتنا حق مردوں کا ہے اتنا ہی خواتین کا بھی ہے، لیکن ہمارے معاشرے میں خواتین کو گھر کی چہاردیواری تک ہی محدود کردیا جاتا ہے، عمومی طور پر خواتین کو دین کی تعلیمات سے آگاہ کرنے کے لیے ہمارے پاس کوئی نظم نہیں ہے، آج بھی ملک کے کئی علاقوں میں خواتین کے لیے دینی اجتماعات ، دینی تعلیم کے حلقوں اور دین کے اہم مسائل سے واقف کرانے کا کوئی رواج نہیں ہے۔ یوں بھی ہم نےخواتین کو مکمل طور پر مسجد سے دور کردیا ہے، حالانکہ نماز کو نہیں تو کم از کم ان کے دینی پروگرامس مساجد میں منعقد کیے جاسکتے ہیں، اس سلسلے میں تو کوئی ممانعت نہیں ہے، اس کے علاوہ کئی ایسے مسلمان ہیں جو بچیوں کو عصری تعلیم تو ضرور دیتے ہیں لیکن دین کی تعلیم دینےکے بارےمیں انھیں ذرہ برابر بھی فکر نہیں ہوتی ہے، جس کے باعث ان سے ایسےمخالف کام سرزد ہوجاتے ہیں جس سے شریعت کو بڑا نقصان ہوتا ہے۔

۸- غیر مسلم بھائیوں کے ساتھ تعلقات :

برادران وطن سے تعلقات میں جو فاصلے ہم نے بنا رکھے ہیں انھیں کم کرنے کی ضرورت ہے، اگر ہم ان سے فاصلے بنائے رکھیں گے تو وہ دین وشریعت کو کیسے سمجھ سکیں گے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ ہمارے لیےبہترین نمونہ ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ صرف  غیر مسلموں کی جنازے میں شرکت اور ان کی تعزیت کی بلکہ ان کے ساتھ تجارتی تعلقات بھی قائم کیے۔ تحفظ شریعت کے لیے ہمیں تعلیم سمیت ہر سطح پر برادران وطن کے ساتھ  خوشگوار تعلقات قائم کرنے کی ضرورت ہے۔

۹- ملکی سطح پر ائمہ مساجد کے نیٹ ورک کا قیام:

ٹیکنالوجی اور انٹرنیٹ کے اس زمانے میں یہ کام کوئی مشکل نہیں رہا ہے، ائمہ مساجد معاشرے میں فعال کردار ادا کرتے ہیں، انھیں معاشرے کے افراد کے ساتھ فردا فردا ملاقات  کا موقع  ملتا ہے، اگر ملکی اور صوبائی سطح پر مسلم پرسنل لاء بورڈ کی زیر نگرانی ہی ائمہ مساجد کا ایک نیٹ ورک قائم کیا جائے اور ذمہ داریوں کو تقسیم کیا جائے تو ان شاء اللہ تحفظ شریعت کے کام میں بڑا تعاون ملے گا۔

۱۰- جمعے کے خطبوں  سے صحیح استفادہ :

جمعہ کا خطبہ معاشرے کی اصلاح اور ان تک پیغام پہنچانے کا ایک بڑا ذریعہ ہے، لیکن عموما یہ دیکھا جاتا ہے کہ ہمارے بعض ائمہ کرام جمعے کے خطبے کے لیے اختلافی موضوع کا انتخاب کرتے ہیں، جس سے امت کا فائدہ تو درکنار امت کو نقصان ہی پہنچتا ہے۔اگر مسلم پرسنل لاء کی صوبائی فعال رابطہ کمیٹیوں کے ذریعے اور ائمہ کرام کے ملکی وصوبائی نیٹ ورک کی مدد سے جمعے کے خطبوں کاصحیح استعمال کیا جائے تو ان شاء اللہ تحفظ شریعت کے کام کو تقویت ملے گی۔

۱۱-  مدارس اور کالجز کے اساتذہ سے ربط:

اسکول اور کالجز کے اساتذہ کا معاشرے کی اصلاح وترقی میں اس سے زیادہ کردار ہوتا ہے جو ایک امام یا خطیب مسجد کےمنبر سے ادا کرتا ہے، کیونکہ بچے ہی ہمارا مستقبل ہے، اور بچپن میں جو بیچ بویا جائے پھل بھی ویسے ہی اگتے ہیں، لہذا  ہمیں اسکولوں اور کالجز کے اساتذہ کو  نظر انداز نہیں کرنا چاہیے بلکہ خصوصا مسلم پرسنل لاء بورڈ اور اس کے ماتحت اداروں کو  اسکولوں اور کالجز کے اساتذہ سے گہرے روابط قائم کرنا چاہیے اور انھیں تحفظ شریعت کے کام سے وقتا فوقتا واقف کرانا چاہیے۔

ان چند طریقوں، تقاضوں  اور ذمہ داریوں کے علاوہ اور بھی بہت سارے کام ہیں لیکن اگر مذکورہ طریقوں کو ہی صحیح انداز میں سرانجام دیا جائے تو ان شاء اللہ سیاسی، سماجی، تعلیمی اور قانونی اعتبار سے  ہمارے لیےآزادانہ  طور پراپنے  دین وایمان کے ساتھ جینے کے مواقع اللہ تعالی کی جانب سے خود بخود پیدا ہونگے۔

Bachon k Sawalat

0 تبصرے

بچوں کے سوالات ۔ فضول ہوتے ہیں یا وہ کچھ جاننا چاہتے ہیں؟

تحریر: ہبہ محمد ابوالفتوح 

ترجمہ : مبصرالرحمن قاسمی

اکثر اوقات والدین بچوں کے کثرت سے سوالات کرنے پر پریشان ہوجاتے ہیں،انھیں یہ پتہ نہیں ہوتا ہےکہ عمر کے ہر مرحلے میں بچے کے سوالات کا انداز بدلتا ہے، یہ چیز دراصل بچے کی علمی پیاس کی علامت ہے، کبھی کبھی بے چینی اور خوف کی وجہ سے بھی بچہ طرح طرح کے سوالات کرتا ہے، لیکن اس موڑ پر والدین کی سب سے بڑی غلطی یہ ہوتی ہے کہ وہ بچے کو اس کے عجیب وغریب سوالات کا جواب دینے کے بجائے اس کے سوالات سے بچ نکلتے ہیں یا اکتاہٹ اور بوریت کا اظہار کرتے ہیں یا جان بوجھ کر جواب دینے میں تاخیر کرتے ہیں، خصوصا حساس سوالات کے سلسلے میں بعض والدین کا رویہ انتہائی افسردہ ہوتا ہے، لیکن یہ چیز بچے کی نفسیات پر گہرااثر چھوڑتی ہے، اگر سوال شرمناک ہوتو پھر بچہ میں گناہ پرآمادگی کا جذبہ پروان چڑھنے لگتا ہے، اسی طرح اگروالدین کے جواب ناقص ہوں تو بچہ کسی دوسرے ذریعے سے جواب ڈھونڈنے کی کوشش کرتا ہے، اسی کے ساتھ بچے کا والدین پر سے بھروسہ ختم ہونا شروع ہوجاتا ہےاور پھر بچے کی یہ کیفیت اور حالت اسے کئی لاجواب سوالات اور مصائب کے بیچ تنہائی پر مجبور کردیتی ہے۔

ماہرین نفسیات کا کہنا ہے کہ بچے کے ساتھ لین دین کا معاملہ کرنا اور اس کے ہر سوال کا جواب دیناوالدین کے لیے ضروری ہے، اس لیے کہ اس میں بچے کے لیے کئی بڑے بڑے فوائد پوشیدہ ہیں۔ جن میں  بچے کی شخصی ترقی، زبان پر قدرت، نئے نئے الفاظ اور محاوروں کے استعمال میں ترقی، فن سماعت میں بہتری اور والدین کے ساتھ گہرا تعلق شامل ہے، نیز بچے کی خوداعتمادی میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔

ماہرین نفسیات کے مطابق بچے کے لیے بچپن کی زندگی ایک ایسے جنگل کی طرح ہے جس سے وہ ناواقف ہے، وہ اس جنگل میں اپنے آپ کو اجنبی محسوس کرتا ہے، اس لیے بار بار سوال کرکے اپنی بے چینی ، نفسیاتی کشیدگی اور خوف کو دور کرنا چاہتا ہے۔

بچہ اپنے آپ کو دیکھتا ہے اور خوش ہوتا ہے، وہ باتیں کرتا ہے اور چلتا پھرتا ہے لیکن زندگی کے بارے میں اسے کچھ پتہ نہیں رہتا، اسے ان باتوں کا علم نہیں رہتا کہ سورج کہاں غروب  ہوتا ہے؟ رات کیوں آتی ہے؟ بارش کیوں ہوتی ہے؟ موت کیوں آتی ہے؟ ان سارے سوالات کو بچہ اپنے گھر کے ماحول میں پاتا ہے، لیکن ان کے مطالب ومفاہیم سے ناواقف رہتا ہے، جن کی وجہ سے اس کے سوالات کا سلسلہ تھمتا نہیں، لہذا ایسی صورتحال میں والدین کو چاہیے کہ وہ بچوں کے سوالوں کا جواب دیں، اور ان کے سوالات کی اہمیت کو قدر کی نگاہ سے دیکھیں اور اہمیت دیں۔

ماہرین نفسیات کا کہنا ہے کہ بچہ تین برس کی عمر میں اپنے اطراف کی ہر چیز کے بارے میں بغیر کسی ہچکچاہٹ  کے پوچھنے لگتا ہے، وہ جو بھی دیکھتا ہے یا محسوس کرتا ہے ماں باپ سے فورا اس کے بارے میں پوچھتا ہے، ماہرین نفسیات کے بقول بچوں کے فضول سوالات ایک فطری چیز ہے، یہ چیز ان کے اطراف کے ماحول کو سمجھنے اور جاننے کے سلسلے میں ان کی ذکاوت ، ذہانت اور رغبت کی علامت ہے، چیزوں کے بارے میں جاننے کے لیے بچے کی عمر کا ابتدائی مرحلہ انتہائی حساس ہوتا ہے، لہذا والدین کو اس مرحلے میں خاص توجہ دے کر بچوں کے ذہنی وشخصی ارتقاء میں مددگار بننا چاہیے۔

ماہرین نفسیات کی والدین کو یہ بھی نصیحت ہے کہ وہ بچوں کے سوالات کو بغور سنیں، انھیں ان کی استطاعت وقابلیت کو دیکھتےہوئے مناسب اور صحیح جواب دیں، بچوں کی گفتگو کو ختم کرنے کی غرض سے ناقص یا غلط جواب دینا یا جواب دینے میں تاخیر کرنا یا یہ کہنا کہ جب بڑے ہونگے تو معلوم ہوجائے گا، یہ چیز  بچوں کےمستقبل کے لیے نقصاندہ ہے۔

 افسوس ہے کہ اکثر خاندانوں میں بچوں کی تربیت میں غلط طریقے کو اپنایا جاتا ہے، بچوں کے ساتھ سختی اور سنگدلی کا معاملہ کیا جاتا ہے اور اس کےذریعے یہ خیال کیا جاتا ہے کہ سختی اور سنگدلی بچوں کی صحیح تربیت میں معاون ومددگار ہے۔ بعض والدین بچوں کی ضروریات اور تقاضوں کو بھی یہ سمجھ کر پورا نہیں کرتے ہیں کہ یہ عمل تربیت کے لیے ضروری ہے، اسی طرح بعض والدین بچوں کو دینی نصیحت کرنا بھی اس لیے ضروری نہیں سمجھتے ہیں کہ بچے کی عمر ابھی پانچ ہی سال ہے، اسے کسی نصیحت وغیرہ کی ضرورت نہیں، والدین اس عمر کو بے اثر سمجھتےہیں اور اس کی دینی رہنمائی کرنا بھی گوارا نہیں کرتے اور نہ اسے عقیدے سے متعلق کسی سوال کا جواب دینا مناسب سمجھتے ہیں۔

لیکن اس سلسلے میں والدین کو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اور طریقے کو اپنا نا چاہیے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم بچوں کے مسائل حل فرماتے تھے، ان کے سوالات کا جواب دیتے تھے، ان سےکبھی کبھی سوال بھی فرمایا کرتے تھے اور غلطیوں کو بہت ہی نرمی اور شفقت کے ساتھ دور فرماتے تھے۔

والدین کے لیے ضروری ہے کہ وہ بچوں میں یہ احساس پیدا کریں کہ وہ ان کی فکر اور سوچ کا احترام کرتے ہیں، وہ عموما ان کے کسی بھی سوال کو برا نہیں سمجھتے ہیں، خاص طور پر دین اور عقیدے سے متعلق سوالات پر خوش ہوتے ہیں، یہ احساس بچےکی شخصیت پر مثبت اثر ڈالتا ہے۔(مجلہ الوعی  الاسلامی کویت ، شمارہ   فروری ۲۰۱۷،)

10 Points about Memorizing The Holy Quran

0 تبصرے



حفظ قرآن مجید
  دس اہم نکات

امام شافعی کا قول ہے : ( من تعلَّم القرآن عظُمتْ قيمته ) 
||جس نے قرآن سیکھا اس کی حیثیت دوسرے لوگوں کے مقابلے بڑھ جاتی ہے ||

۱-  قرآن مجید کو حفظ  کرنا آسان ہے :

ارشاد باری تعالی ہے : (ولقد يسرنا القرآن للذكر)

 ترجمہ: اور ہم نے قرآن کو سمجھنے کے لئے آسان کردیا ہے ۔

اس بات کی سب سے بڑی دلیل بچوں، جوانوں ، بوڑھوں اور غیر عربوں کا قرآن کو زبانی یاد کرنا ہے۔مذکورہ آیت کی تفسیر کے بعد ابن جزی لکھتے ہیں : مشاہدے سے پتہ چلتا ہے کہ دوسری کتابوں کے مقابلے قرآن مجید ہی واحد کتاب ہے جسے کم عمر بچے بھی پوری صحت کے ساتھ حفظ کرتے ہیں۔

یوٹیوب پر عالمی حفظ قرآن کے مسابقوں کے آپ کو ایسے کئی ویڈیوز دکھائی دیں گے، جس میں چھوٹے چھوٹے غیر عرب بچے قرآنی آیات کو ان کے نمبروں اور صفحہ نمبر اور معانی کے ساتھ پوری مہارت کے ساتھ پڑھتے ہوئے ملیں گے۔ بڑی عمر کے لوگوں کی مثالیں تو اس کثرت سے ہے کہ ہم شمار بھی نہیں کرسکتے، یہ ابن جوزی ہیں، جنھوں نے ۸۰ سال کی عمر میں قراءات عشر سیکھی، اسی طرح اورنگ زیب  جو وقت کے بادشاہ ہیں اور عمر کی ۶۰ ویں بہار میں قرآن مجید کو حفظ کیا۔

۲-  جب حفظ قرآن کرنے کا  ارادہ کرلو تو اللہ تعالی پر بھروسہ کرلیجیے :

اگر قرآن مجید کو حفظ کرنے پر دل پوری طرح تیار ہوجائے تو اس موقع  کو ہاتھ سے جانے نہ دیں، دل کا تو حال یہ ہے کہ کبھی ہاں اور کبھی نہ کہتا ہے، لہذا نہ سے ہاں بہتر ہے ، کسی عربی شاعر نے بجا کہا ہے :

إذا هَـبَّتْ رياحُك فاغتنمْها = فإنّ لكل خافقـةٍ ســــــــــــــــــــــكونُ
ولا تزهَدْ عن الإحسان فيها = فما تدري السكونُ متى يكونُ
وإن دَرَّتْ نياقك فاحتلبها = فما تدري الفصيل لمن يكـــــــــــــون

جب بہاریں چلنے لگیں تو اسے غنیمت جانیے، کیونکہ ہر اُفق میں ٹھہراو ہوتا ہے۔ لہذا اس ٹھہراو کے وقت اچھے کام کرنے سے نہ کتراو، پتہ نہیں اس طرح کا موقع پھر ہاتھ آئے نہ آئے، اگر اونٹنیوں کے تھن بھر آئے تو دودھ نکال لو، پتہ نہیں کہ دیری کی صورت میں دودھ  سےمحروم ہوجاو-

ان  چند نکات کو پیش کرنے کا ہمارا مقصد یہ ہے کہ آپ حفظ قرآن کے لیے آمادہ ہوجائیں ، اس میں کوئی شک بھی نہیں کہ کلام اللہ سے بڑھ کر کوئی چیز نہیں ہوسکتی، لہذا دیر کس بات کی، اور حفظ قرآن کو شروع کرنے میں تذبذب کس بات کا۔

إذا كُنتَ ذا رأيٍ فكُنْ ذا عزيمَةٍ = فإنَّ فسادَ الرأيِ أنْ تَترددا

ترجمہ : اگر آپ صاحب رائے ہیں تو عزم وحوصلہ کرلیجیے، رائے کا بگاڑ آپ کو تردد اور تذبذب میں ڈال سکتا ہے۔

۳- حفظِ قرآن کا سب سے اچھا طریقہ :

اکثر لوگ یہ سوال کرتے ہیں کہ قرآن کو حفظ کرنے کا آسان اور صحیح طریقہ کیا ہے ؟

میرے خیال میں یہ سوال ہی صحیح نہیں ہے، عمومی طور پر قرآن کو حفظ کرنے کا آسان اور صحیح یا کوئی افضل طریقہ نہیں ہے، ایک طریقہ کسی شخص کے لیے بہتر ہوسکتا ہے تو ضروری نہیں کہ دوسرے کے لیے بھی وہی طریقہ حفظ بہتر یا اچھا ہو، اسی طرح کسی اور کے لیے ایک طریقہ مفید ہو تو ضروری نہیں کہ تیسرے فرد کے لیے وہی طریقہ افضل یا اچھا ہو۔

اہم بات تو یہ ہے کہ قرآن حفظ کرنے کے طریقے سے متعلق آپ جس کسی  ماہرسے  بھی رہنمائی لے رہے ہوں، اس شخص کو آپ کی صلاحیتوں، کام کی نوعیت اور مصروفیت  کا پتہ ہونا چاہیے، کیونکہ ایک ملازمت پیشہ انسان طالب علم کی طرح  نہیں ہوتا ہے، اسی طرح بیوی بچوں والا انسان  غیر شادی شدہ فرد کی طرح نہیں ہوتا ہے، ہر ایک کی مصروفیات   مختلف ہوتی ہیں۔

۴-  قرآن کی آیات کو حفظ شروع کرنے سے پہلے  یہ یقین کرلیجیےکہ آپ ان کی صحیح ادائیگی کرسکتے ہیں :

اکثر حفاظ بعض آیتوں میں بار بار غلطیاں کرتے ہیں، ان سے جب اس کی وجہ  پوچھی جاتی ہے تو وہ کہتے ہیں کہ بہت پہلے میں نے ایسا ہی یاد کرلیا تھا اور ایک زمانے تک کسی نے میری اصلاح نہیں کی تو اب جب بھی پڑھتا ہوں زبان پر غلط ہی آجاتا ہے۔لہذا حفظ شروع کرنے سے پہلے کسی مُتقن وماہر استاذ کو یاد کی جانے والی آیتیں سنائیے یا پھر کم از کم کسی اچھے قاری کی آواز میں ان آیتوں کی ریکارڈنگ سنیے، آج اس کے لیے تمام ذرائع مہیا ہیں، اس کے لیے آپ اپنے موبائل فون میں کسی اچھے قاری کا ایپ بھی لوڈ کرسکتے ہیں۔

۵- حفظ کے دوران اس کے نتائج کے حصول میں جلدی نہ کیجیے :

یہ اہم نہیں ہے کہ آپ نے کتنا یاد کیا، اہم تو یہ ہے کہ آپ نے کیسا یاد کیا،ہمارا دین بھی ہمیں یہ تعلیم دیتا ہے کہ ہم جو بھی کام کریں اس میں مہارت حاصل کریں،ماہرین کی تھوڑی تعداد  نااہلوں کی کثرت سے بہتر ہے، ذرا غور کیجیے ! اس آیت پر (هو الذي خلق الموت والحياة ليبلوكم أيكم أحسن عملًا) ترجمہ : جس نے موت اور حیات کو اس لیے پیدا کیاکہ تمہیں آزمائے کہ تم میں سے اچھے کام کون کرتا ہے، آیت میں احسن یعنی اچھا کام مطلوب بتایا گیا نہ کہ زیادہ ۔ عربی کی کہاوت ہے :

ما حُفِظ سريعًا= نُسِيَ سريعًا

ترجمہ : جو جتنا تیز یاد کیا جاتا اتنی ہی تیزی کے ساتھ اس کی بھول بھی ہوجاتی ہے۔

حضرت ابن عمر کے بارے میں مشہور ہے کہ آپ نے سورہ بقرہ کو چار سال میں سیکھا، میمون بن مہران کہتےہیں کہ ابن عمر  نےسورہ بقرہ کو سیکھنے میں چار سال لگائے، الزرقانی ان کے اس عمل پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں : اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ حضرت ابن عمر کا حفظ کمزور تھا، بلکہ انھوں نے سورہ بقرہ کو اس کے فرائض، احکامات، اصول اور ضوابط کے ساتھ سیکھا، بغیر سمجھ کر  اور جلدی جلدی قرآن حفظ کرنا سنت نبوی کے مطابق مکروہ ہے،  کیا یہ ممکن ہے کہ کیا کوئی فرد کسی خوبصورت اور نعمتوں سے بھرے باغ میں داخل ہو اور پھر وہ اس باغ سے نکلنے میں جلدی کرے؟ جب آپ قرآن کو حفظ کرتے ہیں تو آپ دنیا کی جنت میں ہوتے ہیں،پھر اس دنیاوی جنت سے نکلنے میں جلدی کیوں؟

۷-  ||وقت گذرچکا ||   نہ کہیے :

آپ کی جو بھی عمر ہو اورجو بھی کام یا ملازمت ہو، آپ قرآن مجید کو مکمل یا اس کا اکثر حصہ حفظ کرسکتے ہیں، ہم نے اوپر ابن جوزی کے بارے میں بتایا ، جنھوں نے ۷۰ سال کی عمر میں قرآن مجید کو پڑھنے کے ۱۰ طریقے  یعنی قراءات عشر سیکھا اور اورنگ زیب رحمہ اللہ نے ۶۰ سال کی عمر میں حفظ قرآن مکمل کیا۔

یہ توہوئی بات عمر کی، لیکن آج بھی کیسے ایسے افراد ہیں جو مختلف پیشوں سے وابستہ ہیں ، انھوں نے اپنے پیشوں کو جاری رکھتے ہوئے قرآن مجید کو حفظ کیا،یہاں کویت میں کئی ایسے غیر عرب نوجوان ہیں جو گھروں میں ڈرائیور کا کام کرتے ہیں اور بعض افراد مختلف کمپنیوں میں مختلف ملازمتوں سے وابستہ ہیں، یہ لوگ اپنے فارغ اوقات میں قرآن مجید کے حلقوں میں بیٹھ کر حفظ قرآن کی سعادت حاصل کررہے ہیں، ان میں سے کئی افراد نے تجوید کے ساتھ قرآن کے کئی کئی پاروں کا حفظ کرلیا ہے۔ ایک شخص صبح صبح لوگوں کی گاڑیاں دھونے کا کام کرتا ہے، معلوم ہوا کہ وہ قرآن کا حفظ کررہا ہے اور صحیح بخاری ومسلم شریف بھی پڑھ رہا ہے۔ ابن قیم رحمہ اللہ نے بجا فرمایا :

من لاح له فجر الأجر= هانت عليه مشقة التكليف

مطلب یہ ہے کہ جسے صبح سویرے کے کام کا چسکا لگ جائے  اس کے لیے مشکل کام بھی آسان ہوجاتا ہے۔

۷- گھر کی تعمیر سے پہلے سامانِ گھر میں مصروف نہ ہوجائیے۔

.بعض لوگ حفظ کے دوران تجوید اور اس کے چھوٹے بڑے مسائل کو سیکھنے میں ہی کافی وقت خرچ کرتے ہیں، بعض کا یہ خیال ہے کہ تجوید کے تمام مسائل سے واقفیت کی وجہ سے حفظ میں مہارت  اور پختگی پیدا ہوتی ہے۔ تجوید ضرور اہم ہے،  لیکن  ابتداء میں کلمات کی صحیح ادائیگی اور تجوید کے  ان بنیادی قواعد کا جاننا کافی ہے جو قرآن میں بار بار آتے ہیں، باقی تمام چھوٹے بڑے اور دقیق قواعد واصول کو  حفظ قرآن کے بعدعلاحدہ سے سیکھا جاسکتا ہے، یہ اس لیے کہ حفظ قرآن کا طالب علم اگر ایک عرصہ تجوید کے چھوٹے بڑے تمام مسائل کو سیکھنے میں ہی گذار دے تو ہوسکتا ہے کہ وقت کے گذرنے کے ساتھ اس کا حوصلہ جواب دے۔لہذا تجوید کے بنیادی قواعد سیکھنے اور کلمات کی صحیح ادائیگی کے بعد حفظ قرآن شروع کردینا چاہیے۔

۸- پورا قرآن مجید حفظ کرنا شرط نہیں ہے :

بہت سے لوگ حفظ قرآن مجید سے اس لیے کتراتے ہیں کہ وہ قرآن مجید کو مکمل حفظ کرنےکی طاقت نہیں رکھتے ، جس کی وجہ سے وہ قرآن مجید کے کچھ حصے کو بھی حفظ نہیں کرپاتے، اس طرح کی سوچ سے انسان ایک عظیم خیر سے محروم ہوجاتا ہے۔

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں تمام صحابہ نے پورا قرآن حفظ نہیں کیا تھا، بلکہ ا ن میں سے بعض نےسورہ بقرہ اور آل عمران حفظ کر رکھا تھا اور بعض نے مفصل یعنی سورہ ق سے سورہ ناس حفظ کررکھا تھا، اس طرح صحابہ نے قرآن کی برکت سے اپنے آپ کو محروم نہیں کیا تھا اور نہ ہی مکمل قرآن کو حفظ کرنے کی سوچ ان کے لے حفظ قرآن کی راہ میں رکاوٹ بنی۔

ہوسکتا کہ مکمل قرآن مجید حفظ کرنے کے لیے آپ کے پاس وقت نہ ہو، اور یہ بھی ہوسکتا کہ عمردرازی کی وجہ سے مکمل قرآن مجید کے حفظ کے لیے آپ کی یادداشت ساتھ نہ دے، لہذا جتنا ممکن ہوسکے حفظ کیجیے، اور سورہ بقرہ، آل عمران، کہف، سورہ ملک جیسی سورتوں کو کم از کم حفظ کیجیے۔ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان آپ کے ذہن میں تازہ رکھیے :

 (إن الذي ليس في جوفه شيء من القرآن كالبيت الخَرِب). ترجمہ : وہ شخص جس کے پیٹ میں کچھ بھی قرآن نہیں، وہ اجڑے ہوئے گھر کی طرح ہے۔

۹- حفظِ قرآن سب کے لیے :

موجودہ دور کا یہ فتنہ ہے کہ لوگوں نے معاشرے کو دو گروہوں میں تقسیم کردیا ہے، ایک گروہ دیندار لوگوں کا اور دوسرا بے دین لوگوں کا، حالانکہ یہ سوچ بالکل غلط ہے، قرآن تو سب کے لیے ہدایت ہے، بلکہ قرآ ن میں دعوت غوروفکر والی آیتوں کے مخاطب کفار بھی ہیں،  جس نے قرآن کو حفظ کیابرکتیں اور اجر وثواب اسے ڈھانک لیتے ہیں، اور جو برکت اور اجر وثواب سے اپنے آپ کو دور رکھے، گویا اس نے اپنے نفس پر  زیادتی کی،  قرآن کو حفظ کرنا دنیا وآخرت میں فخر وشرف اور بلندی کا ذریعہ ہے، یہ ایسا مقام ہے جس کے لیے ہر مسلمان کو کوشش کرنی چاہیے۔

حامد ایک عام نوجوان تھا، جس کا مشغلہ گلی کوچوں میں  بیٹھنا، دوست واحباب کے ساتھ ہنسی ٹھٹا کرنا اور دیگر نوجوانوں کی طرح کھیل کود میں وقت ضائع کرنا تھا، حامد نے ایک دن اپنی روحانی پیاس بجھانے کی غرض سےقرآن کی کچھ آیتیں حفظ کرنے کا ارادہ کیا،جیسا جیسا وہ قرآن کی آیتیں یاد کرنے لگا، اسے زندگی میں خوشی، راحت اور اطمینان محسوس ہوا، اسی دُھن میں اس نے ایک ماہر استاذ کےپاس  پورا قرآن مجید حفظ کرلیا  یہاں تک کہ آج حامد کا شمار ایک ماہر اور انتہائی خوبصورت آواز میں قرآن پڑھنے والے حفاظ میں ہوتا ہے، نہ صرف یہ بلکہ کئی دنوں سے حامد کا یہ معمول ہے کہ وہ روزانہ پانچ پاروں کا دور کرتا ہے ، اور یہی وہ حامد ہے جو آج سعودی عرب کے جدہ شہر میں قرآن مجید کے ایک ادارے کا ذمہ دار ہے۔حامد کی معمولی حرکت کی وجہ سے اسے  کتاب اللہ جیسی عظیم نعمت کی خدمت  کا یہ موقع ملا ہے۔

 ۱۰- دعاء :

دعاء کی اہمیت سے کون انکار کرسکتا ہے، ہم نے اس نکتے کو اخیر میں اسی لیے بیان کیا ہے کیونکہ انسان تمام تر کوششیں کرلے، اپنی تمام صلاحیتوں کا استعمال کرلے، لیکن اللہ تعالی کی جانب سے ہدایت نہ ہوتو تمام کوششیں بے فائدہ ہیں، اس لیے حفظ ٍقرآن مجید کے دوران اللہ تعالی سے اس عظیم نعمت کے حصول اور اس کی قدرانی کی دعائیں کرنا ہر حافظ قرآن کے لیے ضروری ہے۔اس عظیم کام میں اگر اللہ تعالی کی مددشامل نہ ہوتو بندہ ایک آیت بھی حفظ نہیں کرسکتا، اللہ تعالی ہم سب کو قرآن مجید کی قدردانی کرنے والا بنائے۔
تلك عشرة كاملة (وعلى الله قصد السبيل ومنها جائر ولو شاء لهداكم أجمعين)

:حفظ قرآن کی آسانی کے لیے ایک قیمتی چارٹ