جمعہ، 27 جنوری، 2023

0 تبصرے

 


 از۔ ڈاکٹرمبصرالرحمن قاسمی


کہانی معروف سعودی داعیِ دین شیخ عبداللہ بانعمہ کی


طیب اللہ ثراہ وجعل الجنۃ مثواہ

 عبداللہ بانعمہ گزشتہ 31 سال سے  اپنے مکمل جسم کے فالج زدہ ہونے کے باوجود دعوتی سرگرمیوں سے وابستہ تھے، طویل علالت کے بعدآج بروز جمعہ 27 جنوری 2023 کو بوقت فجر   وہ اپنے مالک حقیقی سے جاملے۔انا للہ وانا الیہ راجعون

عبداللہ بانعمہ کا پورا جسم مکمل طور پر فالج زدہ تھا، صرف ان کا سر اور جسم کا اوپر والا حصہ سلامت تھا، وہ بستر پر پڑے رہ کر اور  اس قدر معذوری کے باوجود عالم عرب میں ایک کامیاب داعی کا کردار ادا کررہے تھے، ایک معروف داعی کی حیثیت سے مختلف عربی چینلز عبداللہ بانعمہ کی تقریریں نشر کرتے تھے۔وہ معمولی سی بھی حرکت نہیں  کرسکتے تھے، سامنے رکھے ہوئے قرآن کریم کا صفحہ بھی الٹ کر نہیں پڑھ سکتے تھے، عبداللہ بانعمہ نے ٹی وی چینلوں کو دیئے گئے اپنے انٹریوز میں بارہا کہا تھا کہ ان کی یہ حالت والد کی  بددعا کا نتیجہ ہے، والدین کی نافرمانی کے حوالے سے عبداللہ بانعمہ کا قصہ عرب دنیا میں بہت مشہور ہوا، عبداللہ بانعمہ کے  ایک اسپورٹس مین سے داعیِ دین بننے  تک کی کہانی   میں والدین کی نافرمانی کرنے والوں کے لیے بہت سارے سبق ہیں، عبداللہ بانعمہ سال 1976 میں سعودی عرب میں پیدا ہوئے  اور بچپن سے ہی انھیں کھیل کود سے بہت زیادہ لگاو تھا۔وہ اسپورٹس مین بننا چاہتے تھے، دفاعی کھیلوں میں عبداللہ بانعمہ کو پروفیشنل کھلاڑی سمجھا جاتا تھا، انھیں تیراکی بہت پسند تھی، یہی وجہ ہے کہ ہر ہفتے اپنے دوستوں کے ساتھ سوئمنگ پول جایا کرتے تھے۔عبداللہ بانعمہ نے المجد چینل کو ایک انٹرویو میں  اپنے فالج زدہ ہونے کی مکمل کہانی سناتے ہوئے کہا تھا :  اللہ تعالیٰ کا مجھ پر انتہائی فضل و کرم اور احسان ہے کہ اس نے مجھے توبہ کی توفیق بخشی، میں صحیح سلامت تھا، میں جب سیکنڈری  اسکول کا طالب علم تھا تو میں نے بُرے ساتھیوں کی صحبت اختیار کر لی تھی، سگریٹ پینے لگ گیا تھا، اسٹائل کے ساتھ سگریٹ کے کش لینا میری عادت بن گئی تھی، والد محترم کو کسی نے میری اس بُری عادت کے بارے میں اطلاع دے دی تھی۔ ماں باپ کیلئے بہرحال یہ ایک تکلیف دہ بات  ہوتی ہے کہ ان کی اولاد سگریٹ نوشی کرے یا اس طرح کی دیگر بری عادتوں میں مبتلا ہو، چنانچہ میرے والد فوراً میرے پاس تشریف لائے اور غصے میں پوچھا، میں نے سنا ہے کہ تم سگریٹ پینے لگے ہو،کیا یہ بات سچ ہے؟ میں نے جھٹ سےجھوٹ  کا سہارا لیتے ہوئے کہا’’نہیں نہیں، آپ کو یہ جھوٹی بات کس نے بتادی؟ میں نے کبھی سگریٹ کو ہاتھ بھی نہیں لگایا۔‘‘  اس وقت میں نے والد محترم کےساتھ حجت بازی کی اور والد کو ڈانٹ  کر اپنے کمرے سے باہر نکلنے کو کہا، بس میرے والد نے کمرے سے قدم باہر رکھتے ہوئے بڑے درد سے یہ بددعا دے دی ’’اگر تم سگریٹ پیتے ہو تو اللہ تعالیٰ تمہاری گردن توڑ دے‘‘یہ بددعا کا ہی اثر تھا کہ آئندہ دن اسکول سے آنے کے بعد میں سوئمنگ پول گیا اور یکایک میرے ساتھ پانی میں ڈبکی لگانے کے دوران ایسا حادثہ پیش آیا کہ میرا نچلا جسم فالج زدہ ہوگیا۔ عبداللہ بانعمہ مزید کہتے ہیں کہ سوئمنگ پول کے اندر جب میں پانی میں ڈوبا ہوا تھا تو مجھے یقین ہو چکا تھا کہ اب میں زندگی کے آخری مرحلے میں ہوں اور میرا جنازہ آج ہی اٹھایا جائے گا مجھے اس وقت یاد آیا کہ رسول اکرمؐ کی تعلیمات کے مطابق مصیبت کی گھڑی میں اپنے نیک اعمال کا حوالہ دے کر اللہ تعالیٰ سے دعائیں مانگی جائےتو اللہ تعالیٰ قبول فرماتا ہے ۔ میں نے بھی جلدی جلدی اپنے ایک نیک عمل کے حوالے سے دعائیں مانگنی شروع کی۔وہ نیک عمل یہ تھا کہ میں ایک زمانے میں اپنی آمدنی سے کچھ حصہ ایک ضرورت مند بڑھیا کو دے دیاکرتا تھا۔وہ بڑھیا میرے حق میں دعائے خیر کیا کرتی تھی۔میں جب بھی اس کو صدقہ دیتا اس کے دونوں ہاتھ میرے لئے آسمان کی طرف بلند ہو جاتے۔اللہ تعالیٰ نے اسی دوران پانی کے اندر نبی کریمؐ کی اس حدیث کی طرف بھی میری رہنمائی فرمائی ’’دنیا میں جس کا آخری جملہ لا الہ الا اللہ ہو گا، وہ جنت میں داخل ہو گا۔‘‘چنانچہ میں نے کلمہ شہادت کا وِرد شروع کر دیا۔اس دوران میرے پیٹ میں بہت سارا پانی چلا گیا، اب مجھ پر بے ہوشی طاری ہو چکی تھی۔ میرے بھائی کا بیان ہے کہ تقریباً پندرہ منٹ بعد مجھے سوئمنگ پول سے باہر نکالا گیا۔ اگر اس طویل وقفہ کو دیکھیں تو میں ایک مردہ انسان تھا۔ مگر نبی کریمؐ کا ارشاد گرامی ہے’’بھلائی کے کام بُری موت میں رکاوٹ بنتے ہیں۔‘‘ عبداللہ بانعمہ کہتے ہیں : میں نے جوانی میں اپنے والد کی نصیحت کی کوئی پروا نہیں کی۔ غفلت کی زندگی گزاری۔ جھوٹی قسم کا سہارا لیا اور برے ساتھیوں کی صحبت میں رہا، چنانچہ اس کا انجام ِبد اس صورت میں سامنے آیا کہ میں جوانی کے خوشگوار ایام سے محروم رہا۔آج میں آپ کے سامنے ایک اپاہج کی حیثیت سے بستر پر پڑا ہوں۔

عبداللہ بانعمہ نے  شباب میگزن کو دیئے گئے ایک انٹرویو میں کہا تھا : مجھے آج اس بات کا شدید احساس ہے کہ ہماری نئی نسل اپنے ماں باپ کی خدمت میں پیچھے کیوں ہے؟ہم نے آخر اپنے والدین کو کیا دیا ہے؟ جبکہ انہوں نے ہمیں جنم دیا۔ہماری پرورش و پرداخت کی، ہمیں عدم سے وجود میں لانے کا وہی سبب بنے۔ میرے پاس ایک دفعہ 20 یتیموں پر مشتمل ایک ٹیم آئی، وہ لوگ میرے ارد گرد بیٹھ گئے۔ میں نے ان کو  فالج زدہ ہونے کا اپنا واقعہ تفصیل سے سنایا۔ انہوں نے مجھ سے جو کچھ پوچھا میں نے اس کا جواب دیا۔ جب وہ میرے پاس سے اُٹھ کر جانے لگے تو ان میں سے ایک نوجوان میرے پاس ہی کھڑا رہ گیا۔ وہ ٹیم کے ساتھ باہر نکلا۔ وہ زار و قطار رو رہا تھا۔ اس کے آنسو دیکھ کر میرے قریب بیٹھے ہوئے لوگوں کے بھی آنسو نکل پڑے۔ میں نے اس سے دریافت کیا، عزیزم ! آخر تمہیں یکایک کیا ہو گیا کہ تم زار و قطار رونے لگے؟ یتیم  نوجوان نے عرض کیا ’’ جناب عبداللہ!میرے دل میں یہ خواہش پیدا ہو رہی ہے کہ کاش آپ کی جگہ میں ہوتا۔‘‘ میں نے نوجوان سے کہا’’میرے بھائی،اللہ کا خوف کرو، تم کیوں چاہتے ہوکہ میری جگہ تم آ جاو؟‘‘ اس نے انتہائی معصومیت سے کہا، تمہارے پاس ماں باپ ہیں اور ہم ماں باپ کے سائے کے بغیر جی رہے ہیں۔اس کے باوجود کہ آپ ناگفتہ بہ حالت میں ہیں پھر بھی آپ بے حد خوش قسمت ہیں کہ آپ کے والدین ابھی زندہ ہیں اور آپ کے پاس موجود ہیں۔ جبکہ ہمارے پاس یہ عظیم نعمت موجود نہیں۔ بھلا ماں باپ جیسی انمول دولت دنیا میں کہاں ملتی ہے۔

المجد چینل نے عبداللہ بانعمہ سے یہ سوال کیا تھا کہ آپ  کے تجربوں کی روشنی میں بتائیں کہ ایک معذور انسان اپنی معذوری کے ساتھ ساتھ  دین کے بنیادی اصولوں کو تھامنے اور اللہ تعالی ٰ کی طرف دعوت دینے جیسے مشغلوں سے کیسے  وابستہ رہ سکتا ہے؟

عبداللہ بانعمہ کا جواب تھا کہ سب سے پہلے میں ہر معذور شخص کو یہ کہنا چاہتا ہوں کہ جو انسان جسم سے معذور ہے وہ حقیقت میں معذور نہیں ہے بلکہ معذور تو وہ ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اپنی اطاعت اور فرماں برداری سے محروم رکھا۔ دوسری بات : میری طرح معذور اور مریض انسان کے لیے دعوت الی اللہ کا کام کیسے ممکن ہے؟ میں ایک واقعہ سنانا چاہتا ہوں، اس واقعے نے مجھے بہت زیادہ متاثر کیا، میرے پاس ایک صحیح سلامت ہٹا کٹا نوجوان آیا تھا، اس نے مجھ سے کہا: میں ایک معجزہ ہوں، میں نے کہا وہ کیسے؟ کہنے لگا: میری پیدائش امریکا میں ہوئی، میں جس دن پیدا ہوا، اسی دن اسی ہسپتال میں میرے ساتھ اور دیگر 300 بچوں کی ولادت ہوئی تھی، میں نے پوچھا: اس میں معجزے کی کیا بات ہے؟ وہ نوجوان کہنے لگا : ان تین سو بچوں میں سے میں اکیلا ہوں، جسے اللہ تعالیٰ نے ایک مسلمان کے طور پر منتخب کیا ہے۔ میں اس نوجوان کی اس فکر پر بہت متاثر ہوا، کیونکہ اس کی ماں اور اللہ تعالیٰ کے درمیان کوئی دوسرا شخص اس نومولود میں چھپے اسلام کے نور کو نہیں جانتا تھا، ہر نومولود فطرت اسلام پر پیدا ہوتا ہے ، یہی بچہ جو آج نوجوان ہے اللہ تعالی نے اس کو اس کے والدین کے مسلمان بننے کا ذریعہ بنایا تھا۔ اس واقعے نے مجھے داعی بنایا، کیونکہ انسان کے لیے سب سے بڑی نعمت اسلام ہے، نعمہ کہتے ہیں: اللہ تعالیٰ ہر انسان کو اس کی طاقت کے بقدر آزماتا ہے، بس انسان یا تو شکر ادا کرتاہے صبر کرتا ہے یا پھر کفر پر اترآتا ہے۔

پی ڈی ایف فائل کے لیے