ہفتہ، 18 اپریل، 2020

0 تبصرے

بانی جماعت  دعوت وتبلیغ کویت  نہیں رہے
  مبصرالرحمن قاسمی
کویت میں جماعت دعوت و تبلیغ کے بانی ابو ابراهيم شیخ راشد الحقان  ماہ رمضان 2020 کی شب قدر کی آخری ساعتوں میں مالک حقیقی سے جا ملے.. اللہ تعالی ان کے مرقد پر رحمتوں کی برکھا برسائے... کویتی اور خلیجی حلقوں میں شیخ الاحباب سے معروف شیخ راشد سال 1954 میں پاکستان کی ایک تبلیغی جماعت کی کویت آمد کے بعد جماعت سے وابستہ ہوئے تھے، جماعت تبلیغ سے وابستگی کے بعد انھوں نے ہندوستان اور پاکستان کے تبلیغی دورے کیے اور کام کو سیکھ کر کویت کی سرزمین پر جماعت دعوت و تبلیغ کی بنیاد رکھی، اس وقت اس کام سے متاثر ہوکر کئی کویتی سرکردہ شخصیات جماعت سے وابستہ ہوئے، جن میں فواد ہاشم البدر، عبد العزیز فیصل المطوع اور فیصل علی عبد الالہ قابل ذکر ہیں.
شیخ راشد اپنی نرم طبیعت، ملنساری اور منکسرالمزاجی کی وجہ سے تمام کویتی حلقوں میں عزت وفخر کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے.
ہر روز بعد نماز فجر کویتی دیوانیوں کے ان کے تبلیغی گشت کو کویتی شہریوں میں بڑی پذیرائی اور مقبولیت حاصل تھی.
شیخ راشد  کوکویت میں جماعت دعوت و تبلیغ کا روحانی باپ سمجھا جاتا ہے۔
جب کویت میں تبلیغی جماعت کے مرکز کے قیام کا مسئلہ آیا تو شیخ نے انسانی آبادی سے دور  صنعتی علاقے کے بیچ وبیچ کی زمین کا مرکز کے لیے انتخاب کیا، آج کویت کی مسجد الدعوہ  جماعت دعوت و تبلیغ کا عظیم الشان مرکز ہے... منطقہ صبحان نام کے اس علاقے میں جہاں آج چیزوں کو بنانے کے کارخانے اور فیکٹریاں واقع ہیں وہیں انسانوں کی اصلاح کے لیے بھی ایک عظیم الشان مرکز دن رات انسان سازی میں مصروف ہے.
وسیع وعریض زمین پر قائم تبلیغ ودعوت کے اس مرکز میں دنیا بھر کی زبانوں میں جہاں قرآن مجید کی تعلیم کے حلقے لگتے ہیں وہیں ہر جمعرات کی شب اس مرکز کے ہر گوشے سے مختلف زبانوں میں قال اللہ وقال الرسول کی آوازیں گونجتی ہیں.
اللہ تعالی مرحوم کے مرقد پر رحمتوں کی بارش برسائے۔

0 تبصرے

دعوت دین کی  25 اہم باتیں
تحریر: ڈاکٹر عائض القرنی
ترجمہ: مبصرالرحمن قاسمی
 (پانچویں قسط)

***

۱۹–موضوع اور ضعیف احادیث کا سہارا نہ لے:
داعی کے لیے مناسب نہیں ہے کہ وہ کسی موضوع اور ضعیف حدیث دلیل کے طور پر پیش کرے،، اسے یہ علم رہے کہ رسول اللہ ﷺ کی تمام احادیث عیوب سے پاک وصاف ہیں اور ان احادیث پر اہل علم کی نظر ہے۔ جب ہارون رشید کے پاس ایک مجرم کو قتل کے لیے لایا گیا جس نے چار ہزار جھوٹی حدیثیں گھڑی تھی، ہارون رشید نے اسے قتل کرنے کے لیے جب تلوار میان سے نکالی تو اس مجرم نے کہا آپ مجھے قتل کریں یا نہ کریں، بخدا!میں نے چار ہزار حدیثیں جھوٹی بنائی ہیں۔ ہارون رشید نے کہا: اے اللہ کے دشمن! تیرے اس کام کو ہمارے ماہرین چیلنج کرسکتے ہیں، ابن مبارک اور ابو اسحاق المروزی جیسے ہمارے علماء ان احادیث میں سے صحیح اور موضوع کو الگ الگ کردیں گے۔ ابھی تین ہی دن گذرے نہیں تھے کہ عبداللہ ابن المبارک نے اس کی تمام احادیث کو موضوع و من گھڑت قرار دے دیا۔لہٰذا اللہ کا شکر ہے کہ تمام موضوع احادیث واضح ہیں، داعی اور واعظین حضرات کو چاہیے کہ وہ لوگوں کو موضوع احادیث سے آگاہ کرتے رہیں، موضوع اور ضعیف حدیثوں کو دعوت کے مفاد میں سمجھ کر بیان نہ کریں بلکہ صحیح احادیث پیش کرنا دعوت کے مفاد میں ہے۔
۲۰– تقریر،خطابت اور وعظ میں نرمی اور شفقت کا خیال رکھے:
داعی کو نرم مزاج ہونا چاہیے، رسول اللہ ﷺ کی گفتگو میں نرمی اور شفقت ہوتی تھی اور آپ کے چہرہ پر بشاشت ہوتی تھی، آپ ﷺ منکسر المزاج اور متواضع تھے، چھوٹے بڑے ہر ایک سے محبت کرتے تھے، بوڑھوں کے ساتھ ہوجاتے اور ان کی ضرورت پوری کرتے تھے، بچوں کو گود میں لیتے تھے اور اگر کوئی بیمار ہوتو اس کی عیادت کے لیے جاتے، فقیر اور کمزور لوگوں سے ملتے اوردیہاتیوں کی سختی کو برداشت فرماتے اور مہمان کا استقبال فرماتے تھے، جب آپ ﷺ کسی شخص سے مصافحہ فرماتے تو اس کا ہاتھ اس وقت تک نہیں چھوڑتے جب تک کہ خود مصافحہ کرنے والا اپنا ہاتھ نہ چھوڑ دے، آپ ﷺ جب کسی شخص کے ساتھ کھڑے ہوتے تو اس کی بات ختم ہونے تک اس سے اپنارخ نہیں موڑتے تھے، آپ ﷺ اپنے صحابہؓ کے سامنے ہمیشہ مسکراتے ہوئے دکھائی دیتے تھے، آپ ﷺ کسی کے ساتھ بداخلاقی سے پیش نہیں آتے تھے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:   فَبِمَا رَحْمَةٍ مِّنَ اللَّـهِ لِنتَ لَهُمْ وَلَوْ كُنتَ فَظًّا غَلِيظَ الْقَلْبِ لَانفَضُّوا مِنْ حَوْلِكَ (سورۃ آل عمران.)ترجمہ:”اللہ تعالیٰ کی رحمت کے باعث آپ ان پر نرم دل ہیں اور اگر آپ بد زبان اور سخت دل ہوتے تو یہ سب آپ کے پاس سے چھٹ جاتے“۔
اللہ تعالی نے دنیا کے سب سے سرکش انسان کے پاس حضرت موسی وہارون علیہما السلام کو بھیجا تو انھیں بھی نرمی کی نصیحت فرماتے ہوئے کہا:  فَقُولا له قَوْلاً لَیِّناً لَعَله یَتَذَکَّرُ أَوْیَخْشَی۔ترجمہ: ”اسے نرمی سے سمجھاؤ کہ شاید وہ سمجھ لے یا ڈر جائے“۔
یقینا نرم گفتگو جادو  کی ایک جائز قسم ہے، کسی اہل علم سے پوچھا گیا کہ جائز جادو کیا ہے؟ انھوں نے کہا:لوگوں سے مسکراکر ملنا۔
لہٰذا داعی حضرات نرمی کو اختیار کریں، لوگوں کے ساتھ غصے اور سخت کلامی کا اظہار نہ کریں بلکہ لوگوں کے لیے رحمت ومہربانی کے پیغامبر بنیں، ارشاد باری تعالی ہے:  وَمَا أَرْسَلْنَاکَ إِلاَّ رَحْمة لِلْعَالَمِینَ۔( اور ہم نے آپ کو تمام جہان والوں کے لئے رحمت بنا کر ہی بھیجا ہے)۔ یقینا آپ ﷺ رحمت ہیں، آپ ﷺ کے ماننے والے رحمت ہیں، آپ ﷺ کے شاگرد رحمت ہیں اور سچے داعی بھی رحمت ہیں۔
۲۱- اپنے ساتھیوں کے ساتھ مشورہ کیا کرے:
داعی کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ دعوت کے کام میں مشورے کو ترجیح دے، مشورہ ان لوگوں سے لے جو اہل علم اور اہل خیر ہوں اور اپنی رائے کو تھوپنے کی کوشش نہ کرے، سورہ آل عمران میں اللہ تعالی کا فرمان ہے:  وَشَاوِرْهم فِي الأَمْرِ (اور کام کا مشورہ ان سے کیا کریں)۔ اورسورہ شوری میں ارشاد ہے:  وَأَمْرُهم شُورَی بَینهم۔( اور ان کا (ہر) کام آپس کے مشورے سے ہوتا ہے)۔
داعی کو چاہیے کہ وہ جس سطح پر دعوت کا کام کررہا ہوں اس سطح پر مشورے کے عمل کو انجام دے، مثال کے طور پر کمرہ جماعت میں ایک مدرس دعوت کا کام کررہا ہو تو اپنے طلبا ء کے ساتھ مشورہ کرے، اگر محلے والوں میں دعوت کا کام کررہا ہو تو محلے والوں کے ساتھ مشورہ کرے، اگر شہر میں دعوت کا کام کررہا ہو تو شہر کے بڑے لوگوں اور اہل علم واہل خیر سے مشورہ لے۔ آپ ﷺ ہر چھوٹے بڑے مسئلے میں اپنے صحابہ ؓکے ساتھ مشورہ فرمایا کرتے تھے۔ (أنظر فتح الباري 13/399باب رقم 28)
۲۲- لوگوں کے ساتھ اچھے معاملات کرے اور ان کے مرتبے ومقام کا لحاظ رکھے:
داعی کو چاہیے کہ وہ اہل خیر حضرات کی ستائش کرے، ان کے اچھے کام پر ان کا شکریہ ادا کرے، اگر داعی اہل خیر کی ستائش کرے گا تو انھیں اس بات کا احساس ہوگا کہ ان کی قدر ہے اور ان کے اچھے کام کو سراہا گیا، اگر اچھا کام کرنے والے کو داعی یوں ہی چھوڑ دے اور شکریہ بھی ادا کرنا گوارا نہ سمجھے تو گویا داعی نے کچھ کیا ہی نہیں۔ داعی کو چاہیے کہ وہ احسان کرنے والے اور کوئی اچھا کام کرنے والے کو کہے کہ آپ نے جو کیا بہت خوب کیا، اور برائی کرنے والے کو اس کی برائی پر ادب اور حکمت کے ساتھ تنبیہ کرے۔ اسی طرح بڑی عمر کے لوگوں کے ساتھ محبت اور عزت کے ساتھ پیش آئے، داعی کو یہ بھی علم رہے کہ معاشرے کے بڑے بزرگ لوگوں کا ان کی بزرگی کی وجہ سے ان کے احترام اور عزت کا ایک حق ہے۔ اسی طرح داعی اپنے علماء، عمائدین شہر اور قبائل وقوموں کے سرداروں اور اسلامی شعراء اور مصنفین اور تاجر پیشہ افراد کا احترام کرے اور ان کے مقام ومرتبے کی قدر کرے۔ نبی کریم ﷺ منبرسے خطبے کے دوران کہا کرتے تھے:  غفر الله لعثمان ما تقدم من ذنبه وما تأخر۔ ( اللہ تعالیٰ عثمان کے اگلے پچھلے گناہوں کو معاف کرے)۔ (أخرجہ أحمد في فضائل الصحابۃ 1/456 رقم 736 وإسنادہ ضعیف، أخرجہ الترمذي 3701 وحسنہ الألبانی فی التعلیق علی المشکاۃ 3/1713) اسی طرح آپ ﷺ حضرت عمرؓ کا شکریہ ادا فرماتے تھے اور حضرت عمر ؓکے کاموں کی تعریف کرتے تھے۔ دراصل یہ تربیت کے نبوی انداز ہیں جنھیں ہر داعی کو اپنانا چاہیے۔
۳ ۲– داعی۔زمانے کے مسائل اور نئے کلچر سے واقف رہے:
داعی کو اپنے زمانے کے مسائل اور حالات سے واقف رہنا بھی ضروری ہے، اسی طرح نئے افکار ونظریات بھی اس کے علم میں رہے، قوموں کے کلچر سے متعلق نئی کتابیں زیر مطالعہ رکھے، نئی کتابوں اور نئے افکار سے ناواقفیت کی بنیاد پر ایک داعی کس طرح لوگوں کے ساتھ دعوتی زندگی گذار سکتا ہے؟ داعی کو چاہیے کہ وہ لوگوں کے طرز زندگی اور ان کے مسائل سے بھی واقف رہے۔ بلکہ میں سمجھتا ہوں کہ داعی کو اخبارات اور میگزنس بھی پڑھنا چاہیے لیکن ان فحش رسالوں سے بچنا چاہیے جو ایمان کو کمزور کرتے ہیں، البتہ میں سمجھتا ہوں کہ ان فحش رسائل کے مقاصد اور ان کے علاج کو سمجھنے کے لیے ایک داعی کو فحش رسائل سے بھی باخبر رہنا چاہیے۔
عرفت الشر لا للشرَّ لکن لتلافيه
ومن لا یعرف الشر جدیر أن یقع فيه
(میں نے برائی سے بچنے کے لیے برائی کو سمجھا، جو برائی کو ہی نہ سمجھے اس کے اس برائی میں ملوث ہونے کا زیادہ امکان ہے)۔ اورحضرت عمر رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے:  ”جو شخص جاہلیت کو نہ سمجھے وہ اسلام کو سمجھ نہیں سکتا“۔
اس لیے داعی کے لیے قوموں کی ثقافتوں سے واقف ہونا ضروری ہے۔
۲۴  –لوگوں سے ان کی سمجھ کے مطابق مخاطب ہو:
داعی کو فن ِخطابت میں ماہر ہونا چاہیے، وہ لوگوں سے ان کی سمجھ بوجھ کے مطابق مخاطب ہو، اگر دیہاتی معاشرے میں جائے تو گاؤں اور دیہات کے مسائل اور طرز زندگی کے مطابق ان سے مخاطب ہو، جب طلبا ء کے درمیان جائے تو ان کی ثقافت، طرزِ زندگی اور سوچ کے مطابق ان سے مخاطب ہو، اور جب درمیانی سطح کے لوگوں سے ملاقات ہو تو ان کی سطح پر اتر کر ان سے دین کی بات کرے۔
۲۵–لوگوں کو فائدہ پہنچا کر دلوں کو جوڑنے کا کام کرے:
داعی کو چاہیے کہ وہ لوگوں کو فائدہ پہنچاکر لوگوں کے دلوں کو جوڑنے کا کام کرے، داعی کا کام صرف لوگوں کے ساتھ دینی بات کرنا، وعظ کرنا اور تقریر کرنا ہی نہیں ہے، بلکہ رسول اللہ ﷺ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے لوگوں کو کبھی کبھار تحفے تحائف دے کر اور کبھی ان کی زیارت کرکے دلوں کو جوڑنے کا کام کرے، کبھی کھانے پر بھی بلایا کرے، رسول اللہ ﷺ لوگوں کو اپنے گھر کھانے کی دعوت بھی دیا کرتے تھے، انھیں ہدیے اور تحفے بھی دیا کرتے تھے بلکہ ایک دفعہ آپﷺ نے ایک شخص کو سو اونٹ عطا کیے۔ بسا اوقات آپﷺ کسی انسان سے گلے ملتے اور اسے اپنی جگہ بٹھادیتے۔ دراصل یہ طریقے ہیں دلوں کو جوڑنے کے۔
اسی طرح داعی کو لوگوں کے دلوں کواللہ کے لیے جوڑنے کے مقصد سے سوشل ورکر بھی ہونا چاہیے، لوگوں کی خوشی اور غم کے موقعوں پر ان کی زیارت کرے، اگر کوئی مریض ہوتو عیادت کرے، اگر کسی کے گھر شادی یا کسی اور خوشی کا موقع ہو تو وہاں پہنچے اور نہ صرف مبارکباد دے بلکہ ان کے کاموں میں مدد بھی کرے اور ان کے مہمانوں کے استقبال کے لیے پیش پیش رہے۔
لوگوں سے کٹے رہنا داعی کا مزاج نہیں ہونا چاہیے، داعی ایک ریفارمر اور مصلح ہوتا ہے، بخاری شریف میں یہ حدیث ہے کہ نبی کریم ﷺ ایک دن ظہر کی نماز میں تاخیر سے پہنچے، آپ کی تاخیر کی وجہ یہ تھی کہ آپ قبیلے عمر بن عوف کے ایک مسئلے کو حل کرنے اور ان کے درمیان صلح کے لیے تشریف لے گئے تھے۔ آپ ﷺ کو جب کسی مریض کے بارے میں علم ہوتا تو آپ اگر وہ مریض مدینہ کے مضافات میں ہی مقیم کیوں نہ ہو اپنے صحابہ کے ساتھ اس کی عیادت کے لیے پہنچ جایا کرتے تھے۔
الغرض دعوتِ دین کے مقصد سے لوگوں کے دلوں میں جگہ بنانے کے لیے رسول اللہ ﷺ کے یہ طریقے سب سے زیادہ مفید ہیں۔
***


0 تبصرے

دعوت دین 25 اہم باتیں
تحریر: ڈاکٹر عائض القرنی
ترجمہ: مبصرالرحمن قاسمی
 (چوتھی قسط)

***

۱۲۔ داعی اپنی عبادتوں میں ممتاز ومنفرد ہو:
ایک داعی کو عبادتوں میں عام لوگوں کی طرح نہیں ہونا چاہیے، بلکہ اسے نوافل اور ذکر ودعاؤں کا خاص اہتمام کرنا چاہیے، داعی کو فجر کے بعد اور مغرب کے بعد خاص اذکار اور دعاؤں اور اشراق کی نماز کا اہتمام کرنا چاہیے، اور ہر روز فجر کے بعد اپنے آپ کا محاسبہ کرے۔ اسی طرح لوگوں کی نظروں سے دور روزانہ کا ورد طئے رکھے، جس میں وہ کثرت سے قرآن مجید کی تلاوت، قرآنی احکام پر غوروفکر اور اسلاف کی زندگی کا مطالعہ کرے، کیونکہ لوگوں کے ساتھ کثرت سے اختلاط دل کو اندھا کردیتا ہے اور ذہن کو منتشر رکھتا ہے اور بسا اوقات کثرتِ اختلاط سے دل کے سخت ہونے کا بھی خوف رہتا ہے۔ لہٰذا داعی کے لیے دن یا رات کے اوقات میں سے ایک یا چند گھنٹوں کی تنہائی ضروری ہے، وہ اس  تنہائی اور خلوت  کی گھڑی میں کسی سے نہ ملے اورنہ فون پر جڑے رہے بلکہ صرف اور صرف تلاوت، دعا واذکار اور اپنے محاسبے کا عمل کرے۔
۱۳- داعی خوش لباس وخوش مظہر ہو:
بعض لوگوں کا خیال ہے کہ داعی نے فقیروں اور مسکینوں کا لباس پہننا چاہیے، یا پھر داعی کو ایسا لباس پہننا چاہیے جو بہت زیادہ متواضع ہو، لیکن یہ صحیح نہیں ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اچھی چیزوں کو حلال کیا ہے اور رسول اللہﷺنے خوبصورتی اختیار کرنے کی دعوت دی ہے آپ ﷺکا ارشاد ہے:  تجملوا کأنکم شامة في عیون الناس۔( خوبصورتی اختیار کرو، اس طور پر کہ تم لوگوں کی نظروں میں بالکل مختلف دکھائی دو)۔اور آپ ﷺ کا فرمان ہے: إن الله جمیل یحب الجمال(أخرجہ أبو داود 4089) ( اللہ تعالیٰ خوبصورت ہے اور خوبصورتی کو پسند کرتا ہے)۔
داعی کے لیے چاہیے کہ وہ خوبصورتی اختیار کرے، خوشبو لگائے، نیز اس کی مجلس بھی اتنی وسیع ہو کہ اس میں ہر قسم کے افراد کا استقبال کیا جاسکے.
۱۴۔ دنیا کو چھوٹا سمجھے اور موت کی تیاری کرے:
داعی کو چاہیے کہ وہ اس دنیا سے رخصتی کے بارے میں ہمہ وقت متفکر رہے، یہ خیال رہے کہ عنقریب اسے کوچ کرنا ہے،  لوگوں کی بھیڑ پر فخر نہ کرے اور لوگوں کے اس کی طرف کثرت سے رجوع پر غرور نہ کرے، بلکہ ارشاد باری تعالیٰ ہر وقت ذہن میں رہے:  إِن كُلُّ مَن فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ إِلَّا آتِي الرَّحْمَـٰنِ عَبْدًا ﴿٩٣ لَّقَدْ أَحْصَاهُمْ وَعَدَّهُمْ عَدًّا ﴿٩٤ وَكُلُّهُمْ آتِيهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فَرْدًا ﴿٩٥  (سورۃ مریم) ترجمہ: آسمان وزمین میں جو بھی ہیں سب کے سب اللہ کے غلام بن کر ہی آنے والے ہیں.ان سب کو اس نے گھیر رکھا ہے اور سب کو پوری طرح گن بھی رکھا ہے,یہ سارے کے سارے قیامت کے دن اکیلے اس کے پاس حاضر ہونے والے ہیں“۔
داعی کو اس بات کا علم رہے کہ تنہا ہی مرنا ہے، تنہا ہی اٹھایا جائے گا، اور ربِ تعالیٰ عنقریب یہ سوال کرے گا کہ دعوت دینے کا کیا مقصد تھا، دین کی بات کرنے کا کیا مقصد تھا؟
اسی طرح داعی کے لیے چاہیے کہ وہ دنیا کو اتنا بھی کمتر نہ سمجھے کہ زحمت ہونے لگے، بلکہ اعمال میں بہترین عمل وہ ہے جو اعتدال کے ساتھ ہو، متوسط طبقے کے لوگوں کی طرح رہائش اختیار کرے، ان ہی کی طرح پہننا اوڑھنا رکھے، لیکن اس سب کے باوجود ایک داعی کے مرتبے ومقام کو باقی رکھے۔
۱۵ –خواتین کے امور کا خیال رکھے:
داعی کے لیے چاہیے کہ وہ خواتین اور عورتوں کی دنیا سے بھی واقف رہے اور ان کے امور کا بھی خیال رکھے، اپنی بات، لیکچرس اور تقریروں میں خواتین کے امور سے غفلت نہ برتے، خواتین؛ انسانی معاشرے کا آدھا حصہ ہے، لہٰذا اس تحریر میں جو بھی باتیں بیان کی گئی ہیں ان کی مخاطب ہر مسلم خاتون بھی ہے۔
۱۶– داعی کے نزدیک محبت یا بغض میں اعتدال ہو:
داعی کو چاہیے کہ وہ لوگوں کی نیکی کے مطابق ان سے محبت کرے اور ان کی معصیت وبدعملی کے مطابق ان سے بغض رکھے، لیکن ایسا نہیں کہ جو نیک ہو تو اس سے صرف محبت ہی کرے اور جو گناہ گار ہو اس سے صرف بغض ہی رکھے، بلکہ ہر انسان سے اس کی نیکی کے بقدر اس سے محبت کرے اور اس کے گناہ کے بقدر اس سے بغض رکھے، کیونکہ کبھی ایک ہی شخص میں محبت وبغض جمع ہوسکتے ہیں، آپ اس سے اس لیے محبت کرسکتے ہیں کیونکہ جماعت کی نماز کا پابند ہے اور بغض اس لیے رکھیں کیونکہ وہ لوگوں کی غیبت کرتا ہے۔ اسی طرح ایک شخص سے اس لیے محبت کریں کیونکہ وہ داڑھی کا اہتمام کرتا ہے اور اس سے بغض اس لیے کیونکہ وہ ٹخنوں کے نیچے پاجامہ لٹکاتا ہے، گویا ایک ہی شخص میں محبت وطاعت اور بغض کے عنصر جمع ہوسکتے ہیں۔ اس لیے داعی کو ان باتوں کا خیال رکھنا چاہیے۔
۱۷–دوسروں کے عیوب کو نہ ٹٹولے:
داعی اپنا نام اونچا کرنے کی غرض سے دوسروں کی تنقید نہ کرے، بعض لوگوں کی یہ عادت ہوتی ہے کہ اپنی شہرت وعزت کے لیے دوسرے کو گرانے کی کوشش کرتے ہیں، ایسے افراد کے سامنے جب کسی عالم دین یا داعیِ دین کا ذکر کیا جائے تو ان کی زبان سے اس عالمِ دین یا داعی ِدین کے خلاف باتیں نکلنا شروع ہوجاتی ہیں کہ فلاں ایسے اور ایسے ہیں، میں فلاں کے نہج اور طریقے کو پسند نہیں کرتا وغیرہ وغیرہ، شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا قول ہے: (بعض لوگ مکھیوں کی طرح ہوتے ہیں انھیں زخم پر بیٹھنا ہی اچھا لگتا ہے۔) کیونکہ مکھی آپ کے خوشبودار سفید لباس کو چھوڑ کر آپ کے انگلی کے زخم پر بیٹھتی ہے۔
۱۸– اداروں، سوسائٹیوں اور تنظیموں وجماعتوں پر ان کے نام لے کر نکتہ چینی سے گریز کرے:
داعی کے لیے مناسب نہیں ہے کہ وہ جماعتوں، تنظیموں، اداروں اور تحریکوں کا نام لے کر نکتہ چینی اور انھیں تنقید کا نشانہ بنائے، بلکہ داعی کا کام یہ ہے کہ وہ صحیح طریقے اور منہجِ حق اور باطل کے درمیان فرق کو واضح کرے، جس سے حق پسند کو حق کا پتہ چل جائے گا اور باطل پسند کو اس کے غلطی پر ہونے کا اندازہ ہوجائے گا، اگر داعی لوگوں کے خلاف کوئی جملہ کسے، یا کسی قبیلے، ادارے، جماعت یا کمپنی کی غلطی کو اس کا نام ظاہر کرکے بیان کرے تو ہزاروں لوگ داعی کے خلاف کھڑے ہوجاتے ہیں اور اس سے نفرت کرنے لگتے ہیں اور اس کی دعوت کو قبول کرنا تو بجا اسے دھتکاردیتے ہیں، لہٰذا یہ طریقہ صحیح نہیں ہے۔ادبِ مفرد میں امام بخاری ؒنے یہ حدیث نقل کی ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا: ان من أفری الفِرَی أن يهجو الشاعر القبیلة بأسرها۔  (  شاعر کا پورے قبیلے کی ایک ساتھ ہجو کرنا سب سے بڑا جھوٹ ہے)۔(أخرجہ البخاري فی الأدب المفرد رقم 126 وہو صحیح، أنظر الصحیح للألباني 2/402)


0 تبصرے


دعوت دین 25 اہم باتیں
تحریر: ڈاکٹر عائض القرنی
ترجمہ: مبصرالرحمن قاسمی
 (دوسری قسط)

***
۵اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہوں:
اگر کوئی نوجوان اپنی پریشانی داعی کے سامنے رکھے یا وہ گناہ میں اپنے ملوث ہونے کی خبر دے تو داعی کو ایسے موقع پر غصہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے، نبی کریم کے پاس ایک شخص کو لایا گیا، اس نے بچاس سے زیادہ مرتبہ شراب پی رکھی تھی، وہ شخص صحابہ میں سے تھا۔ صحیح حدیث میں ہے کہ جب اس شخص کو سزا کے لیے لایا گیا، تو حاضرین میں سے ایک صاحب نے کہا:”اللہ اس پر لعنت کرے، کتنی مرتبہ کہا جاچکا ہے“، آنحضور نے فرمایا کہ ان پر لعنت نہ کرو، اللہ کی قسم! میں نے اس کے متعلق یہی جانا ہے کہ یہ اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہے۔ أخرجہ البخاري (12/75 رقم: 6781/6780) دیکھیے پیارے نبی کا کتنا خوب اور اچھا اندازِ دعوت ہے۔
اسی لیے ہم کہتے ہیں کہ لوگوں سے مایوس مت ہونا، چاہے وہ گناہوں میں کتنے ہی ڈوبے ہوئے کیوں نہ ہوں، انھیں اس اُمت کی امید سمجھیں،امید اس بات کی کہ کسی دن توبہ کا دروازہ ان کے لیے کھل جائے اور پھر آپ انھیں توبہ کرنے والے سچے، مخلص، اور ہمیشہ باوضو رہنے والے لوگوں میں پاؤ۔
لوگوں کی جانب سے دعوت کو قبول نہ کرنے پر داعی نا امید نہ ہو، بلکہ اس پر صبر کرے، جمے رہے اور سجدوں میں ان کے لیے ہدایت اور توفیق مانگے، اس کام کو قبول نہ کرنے کی صورت میں جلدبازی نہ کرے، ہمارے پیارے نبی مکہ مکرمہ میں ۱۳برس تک صرف ”لا الہ الا اللہ“ کی دعوت دیتے رہے، اور اس اثناء آپ سخت تکلیفوں اور لوگوں کی گالی گلوج سے کبھی مایوس نہیں ہوئے۔
یاد رکھیے! دعوت کے راستے میں جو تکلیفیں، پریشانیاں اور آزمائشیں جناب رسول اللہ کو پہنچی ہیں، دنیا کے تمام داعیوں کی تکلیف اور آزمائشیں آپ کی صعوبتوں اور آزمائشوں کے مقابلے کچھ بھی نہیں ہیں۔ لیکن ان سب کے باوجود آپ نے صبر کیا اور کبھی غصہ نہیں ہوئے، حتی کہ ایک وقت آپ کے پاس پہاڑوں پر مامور فرشتہ آگیا اور کہنے لگا: او محمد! ربِ ذوالجلال نے آپ کے قوم کی اس بات کو سن لیا جو انھوں نے آپ سے کی ہیں، میں پہاڑوں کا فرشتہ ہوں، اللہ تعالیٰ نے آپ کی جانب مجھے بھیجا ہے تاکہ آپ کا حکم بجا لاؤں، بولیے کیا چاہتے ہو؟ اگر آپ چاہیں (حکم دیں) تو میں اخشبین کو ان پر ملادوں (مکہ والوں پر مکہ کے دونوں طرف جو پہاڑ ہیں ان دونوں کو ملادوں کہ وہ سب چکنا چور ہوجائیں)، نبی کریم نے فرمایا نہیں،(ایسا مت کرو) بلکہ مجھے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کی نسل سے ایسے لوگوں کو پیدا فرمائے گا جو صرف اللہ تعالیٰ کی عبادت کریں گے اور کسی کو اس کا شریک نہیں ٹھہرائیں گے۔ رواہ مسلم (3 / 1420 رقم 1795)
لہٰذا اللہ تعالیٰ نے ان کافروں کی نسل سے اسلام کے بڑے بڑے سپہ سالار نکالے جنھوں نے اسلام کے پرچم کو سربلند کیا، ولید بن مغیرہ کے خاندان میں خالد بن الولیدؓ، اور ابوجہل کے خاندان میں عکرمہؓ بن ابوجہل جیسے افراد کوپیدا کیا۔
مایوس نہ ہونا داعی کی سب سے بڑی خوبی ہے، داعی کے ذہن میں ہر وقت یہ بات رہے کہ نافرمان بندہ کسی نہ کسی وقت کسی مسجد کا امام، خطیب یا کوئی بڑا عالم دین بھی بن سکتا ہے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ کی رحمت سے داعی مایوس نہ ہو، اللہ تعالیٰ رحمنٰ ورحیم ہے، حدیث قدسی میں ہے، یہ حدیث امام احمد اور ترمذی نے سندِصحیح سے نقل کی ہے:  اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: (اے آدم کے بیٹے! تو مجھ سے جو بھی دعا کرے اور جو بھی امید لگائے میں معاف کردیتا ہوں، اگر تیرے گناہ آسمان تک بھی پہنچ جائے پھر تو مجھ سے مغفرت طلب کرے تومیں تجھے بخش دوں گا، اور مجھے کوئی پرواہ نہیں، اے آدم کی اولاد! اگر تو میرے پاس زمین بھر خطاؤں کے ساتھ آئے پھر تو مجھ سے ملاقات کرے اس حال میں کہ تونے میرے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرایا، تو میں تیرے پاس زمین بھر کر مغفرت کے ساتھ ضرور آؤں گا. أخرجہ الترمذي (3540)
لوگوں کی خطاؤں، غلطیوں اور گناہوں سے داعی کو مایوس ہونے کی ضرورت نہیں ہے، بلکہ داعی کی یہ خوبی ہونی چاہیے کہ وہ ہر قسم کے افراد کے ساتھ اپنا اٹھنا بیٹھنا جاری رکھے، بڑے چھوٹے، نیک وبد، فرماں بردار اور نافرمان تمام قسم کے لوگوں سے میل جول رکھے، یہ ذہن میں رہے کہ یہی گناہ گار کسی دن بڑا داعی بن جائے، اللہ تعالیٰ کا ولی بن جائے، مایوسی کو قریب بھی نہ آنے دیں، بلکہ نافرمان بندے کو آہستہ آہستہ نیکیوں کی جانب راغب کرے، اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے رفتہ رفتہ دین سے قریب کرے اور اس کا بائیکاٹ کرنے کے بجائے اسے برداشت کرے۔
رسول اللہ ﷺ کے پاس قبیلہ ثقیف کا ایک وفد آیا، آپ ﷺ نے انھیں دین کی دعوت دی، انھوں نے کلمہ پڑھ لیا اور اللہ کے ایک ہونے اور رسول اللہ ﷺ کے رسول ہونے کی شہادت دے دی لیکن نماز کے سلسلے میں کہا ہم نماز نہیں پڑھیں گے، زکوۃ نہیں دیں گے اور راہ ِخدا میں جہاد بھی نہیں کریں گے،تو رسول اللہ ﷺ نے کہا: جہاں تک نماز کی بات ہے تو ایسا دین کیا کام کا جس میں نماز نہ ہو، اور رہا صدقہ وزکوۃ تو اسلام لانے کے بعد وہ عنقریب صدقہ بھی دیں گے اور جہاد بھی کریں گے۔(ابوداؤد)۔جب وہ لوگ اسلام میں داخل ہوئے، تو اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں میں ایمان کو اتار دیا، لہٰذا انھوں نے نماز پڑھی، زکوۃ دی اور جہاد کیا، ان ہی میں سے بعض نہر سیحون اور جیحوں کے اُس پار راہِ خدا میں شہید ہوئے اور بعض قندھار کی سرزمین میں۔
لہٰذا اللہ تعالی ٰ کے راستے کی دعوت دینے میں کسی انسان کو مایوس ہونے کی ضرورت نہیں ہے، بلکہ داعی کو یہ  امید  رکھنا ہوگا کہ جنھیں دعوت دی جارہی ہے وہ ہدایت پانے کے کئی مراحل میں سے کسی مرحلے پر پہنچ چکے ہیں اور عنقریب انھیں ہدایت نصیب ہوگی۔آپ کسی شرابی، کبابی اور چوری کرنے والے حتی کہ کسی قاتل سے بھی نا امید مت ہوئیے کہ وہ توبہ نہیں کرے گا، بلکہ ان کے لیے ہدایت چاہیے اور انھیں یہ کہتے رہیے کہ ایک پروردگار ہے جو بڑا رحم کرنے والا ہے، وہ رب بندوں کے تمام گناہوں کو معاف کردیتا ہے، سورہ آل عمران کی یہ آیت یاد رکھیے:  وَالَّذِينَ إِذَا فَعَلُوا فَاحِشَةً أَوْ ظَلَمُوا أَنفُسَهُمْ ذَكَرُوا اللَّـهَ فَاسْتَغْفَرُوا لِذُنُوبِهِمْ وَمَن يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلَّا اللَّـهُ وَلَمْ يُصِرُّوا عَلَىٰ مَا فَعَلُوا وَهُمْ يَعْلَمُونَ ۔ ترجمہ: جب ان سے کوئی ناشائستہ کام ہو جائے یا کوئی گناہ کر بیٹھیں تو فوراً اللہ کا ذکر اور اپنے گناہوں کے لئے استغفار کرتے ہیں، فی الواقع اللہ تعالیٰ کے سوا اور کون گناہوں کو بخش سکتا ہے؟ اور وہ لوگ باوجود علم کے کسی برے کام پر اڑ نہیں جاتے“۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ کا قول ہے: ”حکیم وہ ہے جو لوگوں کو اللہ کی رحمت سے مایوس نہیں کرتا اور نہ انھیں اللہ تعالیٰ کی معصیت میں مبتلا کرتا ہے“۔
 اسی طرح داعی کا کام ہے کہ وہ لوگوں کی نافرمانیوں اور گناہوں کو معمولی نہ سمجھے بلکہ ان میں خوفِ خدا پیدا کرے، اور ایسے لوگوں کو اس طور پر دعوت دے کہ ان میں نہ بہت زیادہ ڈر اور خوف پیدا کرے اور نہ بہت زیادہ امیدیں دلائے کہ وہ امیدوں کے سہارے گناہ کرتے جائیں۔ بلکہ درمیانی راہ اختیار کرکے ان کی اصلاح کرے۔ بعض داعی حضرات لوگوں کے بداعمالیوں کو بہت معمولی سمجھتے ہیں اور جب بھی کوئی شخص کوئی گناہِ کبیرہ کر بیٹھتا ہے تو اسے کوئی بات نہیں  کہہ کر آگے بڑھ جاتے ہیں۔
داعی کے ذہن میں یہ بات ہر وقت تازہ رہنا چاہیے کہ جب بھی کوئی شخص شرعی حدود سے آگے بڑھتا ہے تو اللہ تعالی ٰکو غصہ آتا ہے اور اللہ تعالیٰ کو یہ بات ہرگز پسند نہیں کہ کوئی شخص حرام چیزوں کا ارتکاب کرے۔ صحیح حدیث میں آیا ہے: سعد بن عبادہ ؓ نے کہا کہ اگر میں اپنی بیوی کے ساتھ کسی غیر مرد کو دیکھوں تو سیدھی تلوار سے اس کی گردن ماردوں،پھر یہ بات رسول اللہ ﷺ تک پہنچی تو آپ نے فرمایا: کیا تمہیں سعد کی غیرت پر حیرت ہے،بلاشبہ میں ان سے زیادہ غیرت مند ہوں اور اللہ مجھ سے زیادہ غیرت مند ہے اور اللہ نے غیرت ہی کی وجہ سے فواحش کو حرام کیا ہے۔ أخرجہ البخاري (13/399 رقم 7416) ومسلم (2 / 1136 رقم 1499)
۶- لوگوں اور شخصیات پر ان کے ناموں کو بیان کرکے حملہ نہ کرے:
داعی کو چاہیے کہ وہ شخصیات پر ان کے نام بیان کرکے حملے نہ کرے، لوگوں کے سامنے منبر سے ان کی حقارت نہ کرے، بلکہ داعی کو چاہیے کہ پیارے نبی ﷺکے طریقے کو اپنائے آپ جب کسی شخص کو اس کی غلطی سے آگاہ کرنا ہوتو فرماتے تھے:  ما بال أقوام یفعلون کذا وکذا (ان قوموں اور افراد کا کیا کہنا جو ایسا ایسا کرتے)آپ ﷺکے اس انداز سے غلطی والا اپنی غلطی کو سمجھ لیتا تھا، آپ ﷺ اس کی غلطی کی تشہیر نہیں فرماتے تھے۔
یہ الگ بات ہے کہ اگر کوئی فرد اپنی تصانیف، انحرافات، اپنے ادب اوردعوت کے ذریعے بدعت وانحرافات کی علانیہ تشہیر کرے تو اہل علم کے نزدیک اس کی تشہیر کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے، علماء نے جہم بن صفوان کے خلاف کھلا مورچا کھول رکھا تھا، ابن مبارک نے جہم کے بارے میں یہاں تک کہہ دیا: یہ وہ مجرم ہے جو گمراہی کی جانب امت کی قیادت کررہاہے اور دین میں نئی نئی چیزیں پیدا کررکھی ہے۔ آگے کہا: مجھے ایسے دجال پر بڑا تعجب ہے جس نے لوگوں کو جہنم کی دعوت دی ہے اور جہنم سے ہی اپنے نام کو نکالا ہے، وہ علماء کے درمیان جعد بن درہم نام سے بھی مشہور ہے، بلکہ علماء کرام نے احادیث کی کتابوں میں اس طرح کے افراد کے خطرات سے بچنے کے لیے ان کے نام بھی لکھ دیئے ہیں۔ اور لوگوں کو عام وخاص محفلوں میں ان سے متنبہ کیا ہے۔ لہٰذا اس طرح کے افراد کی غلطیوں کو علانیہ بیان کیا جاسکتا ہے۔ لیکن وہ لوگ جو بھلائی چاہتے ہیں لیکن ان سے غلطی سرزد ہوجاتی ہے یا پھر وہ لوگ جنھوں نے زندگی کے کسی مرحلے میں غلطی کی تھی تو اس طرح کے افراد کے ناموں کو بھی سیاہ فہرست میں شامل کرنےکا عمل دراصل انھیں بغاوت کی جانب ڈھکیلتا ہے اور کبھی کبھی عزت وناموس انھیں گناہ پر بھی آمادہ کردیتی ہے۔
۷- داعی کو لوگوں کے درمیان اپنی پاکیزگی آپ بیان کرنے سے بچنا چاہیے:
 داعی کو ہر کام میں اپنے آپ کو ناقص تصور کرنا چاہیے، اسے اس بات پر خدائے تعالیٰ کا شکر کرنا چاہیے کہ اللہ تعالی نے اسے اپنے کام کا ترجمان بنایا، رسول اللہ ﷺ کا قاصد بنایا، داعی کو ان نعمتوں پر شکر کرنا چاہیے نہ کہ اپنی پاکیزگی اور دعوتی کام سے اپنی نسبت کی وجہ سے لوگوں کے درمیان اپنے آپ کو بلند وبرتر سمجھنا چاہیے۔ ارشاد باری تعالی ہے: وَلَوْلَا فَضْلُ اللَّـهِ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَتُهُ مَا زَكَىٰ مِنكُم مِّنْ أَحَدٍ أَبَدًا ۔ (اور اگر اللہ تعالیٰ کا فضل وکرم تم پر نہ ہوتا تو تم میں سے کوئی کبھی بھی پاک صاف نہ ہوتا)۔ اور ارشاد باری تعالیٰ ہے:  إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللَّـهِ وَالْفَتْحُ ﴿١ وَرَأَيْتَ النَّاسَ يَدْخُلُونَ فِي دِينِ اللَّـهِ أَفْوَاجًا ﴿٢ فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَاسْتَغْفِرْهُ ۚ إِنَّهُ كَانَ تَوَّابًا ﴿٣  ۔ اہل علم ان آیتوں کی تفسیر میں کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے دعوت کے کام کی تکمیل کے بعد آپ ﷺ کو استغفار کا حکم دیا ہے۔
خدائے تعالیٰ کے اس فرمان سے واضح ہوتا ہے کہ داعی کو اپنی پاکی وصفائی کا ڈھنڈورا نہیں پیٹنا چاہیے، اسے یہ کہنے کا حق نہیں کہ: ”میں تمہیں حکم دیتا ہوں اور تم میری نافرمانی کرتے ہو“، ”میں تمہیں منع کرتا ہوں اور تم میری اتباع نہیں کرتے“۔ ”میں ہمیشہ اپنے آپ سے پوچھتا ہوں کہ یہ امت اپنے رب کی کب تک معصیت کرتی رہے گی؟“وغیرہ۔ اس طرح کے جملے کسی داعی کو زیب نہیں دیتے ہیں۔ اس طرح کے جملوں سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ داعی خود ان تمام گناہوں اور نافرمانیوں سے پاک وصاف ہے، دراصل یہ تو داعی کی غلطی ہے۔ بلکہ داعی کو لوگوں سے جب مخاطب ہوتو اس طرح کہنا چاہیے: ہم سب سے یہ غلطی ہوئی، ہم سب نے غلطی کی، ہم سب ایک خاندان کی طرح ہیں، کیونکہ سامعین کے درمیان بسا اوقات کوئی شخص داعی سے زیادہ پرہیزگار اور اس داعی سے زیادہ اللہ سے محبت کرنے والا ہوسکتا ہے۔

بدھ، 15 اپریل، 2020

0 تبصرے

دعوت دین 25 اہم باتیں

تحریر: ڈاکٹر عائض القرنی
ترجمہ: مبصرالرحمن قاسمی
 (تیسری قسط)
  

***
 ۸- انتشار پسندوں اور نافرمانوں کی کثرت اور غلبے کو دیکھ کر ہمت نہ ہارے:
لوگوں میں سے اکثریت کے نافرمانیوں اور گناہوں میں ملوث ہونے پر داعی کو ہمت نہیں ہارنی چاہیے، بلکہ دنیا میں اللہ تعالیٰ کی یہ سنت رہی ہے کہ اللہ تعالی ٰکے فرماں بردار بندے کم ہی ہوتے ہیں،اللہ تعالی نے قرآن مجید میں واضح کردیا ہے کہ نافرمان اور گمراہ لوگ زمین میں اکثریت میں ہوتے ہیں اور شکر گذار اور فرماں بردار اقلیت میں ہوتے ہیں، ارشاد باری تعالیٰ ہے: وَقَلِيلٌ مِّنْ عِبَادِيَ الشَّكُورُ ۔(سورۃ سبا)  ( اور میرے شکرگذار بندے کم ہیں)، اور ارشاد ہے: وَإِنْ تُطِعْ أَکْثَرَ مَنْ فِي الأَرْضِ یُضِلُّوك عَنْ سَبِیلِ اللهِ۔ (سورہ الانعام: ۶۱۱)  ( اور دنیا میں زیادہ لوگ ایسے ہیں اگر آپ ان کا کہنا ماننے لگیں تو وہ آپ کو اللہ کی راہ سے بے راہ کردیں گے)۔
لہٰذا داعی کے ہاتھ میں نہ کوڑا ہواور نہ ڈنڈا بلکہ داعی کو محبت اور نرمی کے ساتھ لوگوں کو ایسی جنت کی دعوت دینے کی ہدایت دی گئی ہے جس کی وسعت آسمان وزمین کے برابر ہے، اگر لوگ بات مانتے ہیں تو اللہ کا شکر ادا کرے اور اگر وہ انکار کرتے ہیں تو ان کے معاملے کو اللہ کے حوالے کردے۔ بعض علماء نے کہا ہے: روئے زمین پر کفار مسلمانوں سے زیادہ ہیں، اہل بدعت اہل سنت سے زیادہ ہیں اور اہل سنت میں مخلص بندے،  غیر اخلاص والوں سے کم ہیں۔
داعی کی یہ خوبی ہے کہ وہ لوگوں کے احوال اور ان کے طرز زندگی سے واقف رہتا ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے:  وَکَذَلِکَ نُفَصِّلُ الآیَاتِ وَلِتَسْتَبِینَ سَبِیلُ الْمُجْرِمِینَ۔ (الأنعام)  ترجمہ: ”اسی طرح ہم آیات کی تفسیر کرتے رہتے ہیں تاکہ مجرمین کا طریقہ واضح ہوجائے“۔ اللہ تعالی کی یہ حکمت تھی کہ اس نے اپنے رسول ﷺ کو مکہ میں چالیس سال رکھا، جہاں آپ نے مکہ کی وادیوں میں زندگی کے اہم دن گزارے، مکے میں قیام کے دوران آپ ﷺ مکے کے لوگوں کے طرز زندگی اور ان کے مسائل سے بخوبی واقف ہوچکے تھے، آپ کو اہلِ مکہ کے گھروں اور خاندانوں کا علم تھا یہی وجہ ہے کہ کفار نے آپ کی نبوت پر اعتراض جتاتے ہوئے کہا:  لَوْلا أُنزِلَ عَلَيه مَلَک۔(سورۃ الأنعام) کہ آپ ﷺ کے پاس کوئی فرشتہ کیوں نہیں اتارا گیا؟ اس لیے اللہ تعالیٰ نے واضح کردیا کہ انسانوں کے لیے پیغمبر کوئی فرشتہ نہیں بلکہ ان ہی میں سے ہی کوئی انسان ہو، جو لوگوں کے درمیان رہا ہو، ان کے دکھ درد اور مسائل کو جانتا ہو اور ان کی ضروریات سے واقف ہو۔اس لیے داعی کے لیے ضروری ہے کہ وہ حالات کو پڑھے، اپنے معاشرے سے مستفید ہو، ملک کے حالات سے واقفیت رکھے، ملک میں جاری مسائل سے باخبر رہے، بلکہ چیزوں کی قیمتوں کے اتار چڑھاؤ کا بھی علم رکھے، اسے تاجروں، کسانوں، لوگوں کے طبقات، ملک کے مقامات، بازاروں، جامعات اورکھیل کے کلبوں کا بھی علم رہے۔اسی لیے اہل علم نے کہا ہے کہ داعی کے لیے ضروری ہے کہ جب وہ کسی ملک جائے تو اس ملک کی تاریخ پڑھے، ہمارے بعض علما ء جب کسی دوسرے شہر یا ملک کا سفر کرتے تھے تو وہ اس ملک کی تاریخ، اس کا جغرافیہ، اس ملک کے پارک، ملک اور شہر کا ماحول ومزاج اور اس شہر اور ملک کے لوگوں کی طرز زندگی اورپسند وناپسند اور اس شہر اور ملک میں تربیت کے انداز سے واقفیت حاصل کرتے تھے تاکہ پورے یقین اور حکمت کے ساتھ اس ملک اور شہر کے لوگوں کے سامنے دین کی باتیں رکھ سکیں۔
۹-کتاب اللہ کی تعلیمات سے تجاوز نہ کرے:
بعض واعظین اور داعی حضرات دین کے سلسلے میں حد سے زیادہ فکر مند ہوجاتے ہیں اور دین کے بارے میں ایسی باتیں کرنے لگتے ہیں جو قرآن وحدیث میں نہیں ہیں، جب وہ کسی گناہ کی بات کرتے ہیں تو اس کی سزا کی مقدار خدا کی بتائی ہوئی مقدار سے زیادہ بیان کر بیٹھتے ہیں، اگر کسی کو سگریٹ نوشی سے منع کرنا ہوتو مثال کے طور پر زبان سے اس طرح کے الفاظ نکال دیتے ہیں: (اے اللہ کے بندے! جس نے سگریٹ پی اللہ نے اس پر جنت حرام کردیا ہے)داعی کی اس طرح کی حرکت ایک بڑی غلطی ہے، اس لیے کہ شریعت میں ہر چیز کا ایک پیمانہ ہے، مثال کے طور پر شرک؛جس سے ایک مسلمان ملت سے نکل جاتا ہے، اسی طرح گناہ کبیرہ اور گناہ صغیرہ ہیں، مباحات ہیں، الغرض اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کی ایک مقدار طے کر رکھی ہے۔ داعی کو ان سب چیزوں کو ہر وقت مد نظر رکھنا چاہیے۔
۱۰۔   لوگوں کو ان کا مقام دے:
داعی کے لیے چاہیے کہ وہ لوگوں کے مقام ومرتبہ کا خیال  رکھ کر ان سے ہم کلام ہو، سب لوگ ایک جیسے نہیں ہوتے، اگر عالم دین ہے تو اس کا ایک مقام ومرتبہ ہے، معلم کا ایک مقام ہے، قاضی کا ایک مقام ہے، اس طرح ہر ایک کا اپنا ایک مقام ومرتبہ ہے، اسی وجہ سے قرآن مجید نے   قَدْعَلِمَ کُلُّ أُنَاسٍ مَشْرَبهم کہہ کر اس جانب اشارہ کیا، لہٰذا لوگوں میں سب لوگ ایک مقام ومرتبہ کے حامل نہیں ہوتے۔ یہ بات لوگوں میں تفریق کی نہیں ہے، بلکہ یہ تو اسلام کے آداب میں سے ہے، کیونکہ ہر فرد کے ملنے جلنے کا انداز، مہمان نوازی، طبیعت اور مزاج میں اختلاف ہوتا ہے۔لہٰذا لوگوں کو ان کا مقام ومرتبہ دینا حکمت ہے اور داعی کو اس خوبی سے آراستہ ہونا چاہیے، نبی کریم ﷺ خود لوگوں کے مقام ومرتبے کا خیال فرماتے تھے۔(صحیح مسلم، مسند ابوداؤد)
۱۱ – داعی۔ اپنا محاسبہ کرے اور خدائے تعالی کے سامنے گڑگڑائے:
داعی کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ اپنے قول وفعل کا جائزہ لیتا رہے اور اپنے کاموں کا محاسبہ کرتا رہے کہ اس نے؛ لوگوں کو جو کہا یا کہتا ہے کیا وہ خود اس پر عمل پیرا ہے یا نہیں؟ اور محاسبے کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ سے مدد طلب کرتا رہے، جب کسی سے دین کی بات کرے تو پہلے اللہ تعالیٰ سے قبولیت اور ہدایت مانگے۔ خصوصا ًدین کی بات کرنے سے پہلے احادیث میں مذکور یہ کلمات کہنا زیادہ مؤثر ہے:  اللهم بِكَ اَصُولُ، وَبِكَ اَجُولُ، وَبِكَ اُحَاوِلُ(اے اللہ! میں تیرے ہی نام کی برکت سے شروع کرتا ہوں، تیرے ہی نام کی برکت سے حرکت کرتا ہوں اور تیرے ہی نام کی برکت سے کوشش کرتا ہوں)۔
ہمارے علماء کرام جب درس دیتے تو اسی دعا سے شروع کرتے تھے، اور بعض علما ء یہ بھی دعا پڑھا کرتے تھے: اللهم افتَحْ عَلَيّ مِنْ فُتُوحَاتِك(اے اللہ اپنی فتوحات کو مجھ پر کھول دے)۔اگر انسان اپنی صلاحیتوں، قابلیت، یادداشت اور آواز پر بھروسہ کرلے تو خدائی مدد کے تمام راستے بند ہوجاتے ہیں، لہٰذا اللہ کے سوا مدد کرنے والا کوئی نہیں ہے۔اس لیے داعی جب منبر پر چڑھے تو پہلے اللہ تعالیٰ سے دعا کرے کہ اسے صحیح بولنے کی توفیق دے اور سیدھے راستے کی ہدایت عطا کرے اور اس کی بات سے لوگوں کو نفع پہنچائے اور اس کے دل میں اچھی بات ڈالے۔