جمعہ، 11 نومبر، 2016

10 Points about Memorizing The Holy Quran

0 تبصرے



حفظ قرآن مجید
  دس اہم نکات

امام شافعی کا قول ہے : ( من تعلَّم القرآن عظُمتْ قيمته ) 
||جس نے قرآن سیکھا اس کی حیثیت دوسرے لوگوں کے مقابلے بڑھ جاتی ہے ||

۱-  قرآن مجید کو حفظ  کرنا آسان ہے :

ارشاد باری تعالی ہے : (ولقد يسرنا القرآن للذكر)

 ترجمہ: اور ہم نے قرآن کو سمجھنے کے لئے آسان کردیا ہے ۔

اس بات کی سب سے بڑی دلیل بچوں، جوانوں ، بوڑھوں اور غیر عربوں کا قرآن کو زبانی یاد کرنا ہے۔مذکورہ آیت کی تفسیر کے بعد ابن جزی لکھتے ہیں : مشاہدے سے پتہ چلتا ہے کہ دوسری کتابوں کے مقابلے قرآن مجید ہی واحد کتاب ہے جسے کم عمر بچے بھی پوری صحت کے ساتھ حفظ کرتے ہیں۔

یوٹیوب پر عالمی حفظ قرآن کے مسابقوں کے آپ کو ایسے کئی ویڈیوز دکھائی دیں گے، جس میں چھوٹے چھوٹے غیر عرب بچے قرآنی آیات کو ان کے نمبروں اور صفحہ نمبر اور معانی کے ساتھ پوری مہارت کے ساتھ پڑھتے ہوئے ملیں گے۔ بڑی عمر کے لوگوں کی مثالیں تو اس کثرت سے ہے کہ ہم شمار بھی نہیں کرسکتے، یہ ابن جوزی ہیں، جنھوں نے ۸۰ سال کی عمر میں قراءات عشر سیکھی، اسی طرح اورنگ زیب  جو وقت کے بادشاہ ہیں اور عمر کی ۶۰ ویں بہار میں قرآن مجید کو حفظ کیا۔

۲-  جب حفظ قرآن کرنے کا  ارادہ کرلو تو اللہ تعالی پر بھروسہ کرلیجیے :

اگر قرآن مجید کو حفظ کرنے پر دل پوری طرح تیار ہوجائے تو اس موقع  کو ہاتھ سے جانے نہ دیں، دل کا تو حال یہ ہے کہ کبھی ہاں اور کبھی نہ کہتا ہے، لہذا نہ سے ہاں بہتر ہے ، کسی عربی شاعر نے بجا کہا ہے :

إذا هَـبَّتْ رياحُك فاغتنمْها = فإنّ لكل خافقـةٍ ســــــــــــــــــــــكونُ
ولا تزهَدْ عن الإحسان فيها = فما تدري السكونُ متى يكونُ
وإن دَرَّتْ نياقك فاحتلبها = فما تدري الفصيل لمن يكـــــــــــــون

جب بہاریں چلنے لگیں تو اسے غنیمت جانیے، کیونکہ ہر اُفق میں ٹھہراو ہوتا ہے۔ لہذا اس ٹھہراو کے وقت اچھے کام کرنے سے نہ کتراو، پتہ نہیں اس طرح کا موقع پھر ہاتھ آئے نہ آئے، اگر اونٹنیوں کے تھن بھر آئے تو دودھ نکال لو، پتہ نہیں کہ دیری کی صورت میں دودھ  سےمحروم ہوجاو-

ان  چند نکات کو پیش کرنے کا ہمارا مقصد یہ ہے کہ آپ حفظ قرآن کے لیے آمادہ ہوجائیں ، اس میں کوئی شک بھی نہیں کہ کلام اللہ سے بڑھ کر کوئی چیز نہیں ہوسکتی، لہذا دیر کس بات کی، اور حفظ قرآن کو شروع کرنے میں تذبذب کس بات کا۔

إذا كُنتَ ذا رأيٍ فكُنْ ذا عزيمَةٍ = فإنَّ فسادَ الرأيِ أنْ تَترددا

ترجمہ : اگر آپ صاحب رائے ہیں تو عزم وحوصلہ کرلیجیے، رائے کا بگاڑ آپ کو تردد اور تذبذب میں ڈال سکتا ہے۔

۳- حفظِ قرآن کا سب سے اچھا طریقہ :

اکثر لوگ یہ سوال کرتے ہیں کہ قرآن کو حفظ کرنے کا آسان اور صحیح طریقہ کیا ہے ؟

میرے خیال میں یہ سوال ہی صحیح نہیں ہے، عمومی طور پر قرآن کو حفظ کرنے کا آسان اور صحیح یا کوئی افضل طریقہ نہیں ہے، ایک طریقہ کسی شخص کے لیے بہتر ہوسکتا ہے تو ضروری نہیں کہ دوسرے کے لیے بھی وہی طریقہ حفظ بہتر یا اچھا ہو، اسی طرح کسی اور کے لیے ایک طریقہ مفید ہو تو ضروری نہیں کہ تیسرے فرد کے لیے وہی طریقہ افضل یا اچھا ہو۔

اہم بات تو یہ ہے کہ قرآن حفظ کرنے کے طریقے سے متعلق آپ جس کسی  ماہرسے  بھی رہنمائی لے رہے ہوں، اس شخص کو آپ کی صلاحیتوں، کام کی نوعیت اور مصروفیت  کا پتہ ہونا چاہیے، کیونکہ ایک ملازمت پیشہ انسان طالب علم کی طرح  نہیں ہوتا ہے، اسی طرح بیوی بچوں والا انسان  غیر شادی شدہ فرد کی طرح نہیں ہوتا ہے، ہر ایک کی مصروفیات   مختلف ہوتی ہیں۔

۴-  قرآن کی آیات کو حفظ شروع کرنے سے پہلے  یہ یقین کرلیجیےکہ آپ ان کی صحیح ادائیگی کرسکتے ہیں :

اکثر حفاظ بعض آیتوں میں بار بار غلطیاں کرتے ہیں، ان سے جب اس کی وجہ  پوچھی جاتی ہے تو وہ کہتے ہیں کہ بہت پہلے میں نے ایسا ہی یاد کرلیا تھا اور ایک زمانے تک کسی نے میری اصلاح نہیں کی تو اب جب بھی پڑھتا ہوں زبان پر غلط ہی آجاتا ہے۔لہذا حفظ شروع کرنے سے پہلے کسی مُتقن وماہر استاذ کو یاد کی جانے والی آیتیں سنائیے یا پھر کم از کم کسی اچھے قاری کی آواز میں ان آیتوں کی ریکارڈنگ سنیے، آج اس کے لیے تمام ذرائع مہیا ہیں، اس کے لیے آپ اپنے موبائل فون میں کسی اچھے قاری کا ایپ بھی لوڈ کرسکتے ہیں۔

۵- حفظ کے دوران اس کے نتائج کے حصول میں جلدی نہ کیجیے :

یہ اہم نہیں ہے کہ آپ نے کتنا یاد کیا، اہم تو یہ ہے کہ آپ نے کیسا یاد کیا،ہمارا دین بھی ہمیں یہ تعلیم دیتا ہے کہ ہم جو بھی کام کریں اس میں مہارت حاصل کریں،ماہرین کی تھوڑی تعداد  نااہلوں کی کثرت سے بہتر ہے، ذرا غور کیجیے ! اس آیت پر (هو الذي خلق الموت والحياة ليبلوكم أيكم أحسن عملًا) ترجمہ : جس نے موت اور حیات کو اس لیے پیدا کیاکہ تمہیں آزمائے کہ تم میں سے اچھے کام کون کرتا ہے، آیت میں احسن یعنی اچھا کام مطلوب بتایا گیا نہ کہ زیادہ ۔ عربی کی کہاوت ہے :

ما حُفِظ سريعًا= نُسِيَ سريعًا

ترجمہ : جو جتنا تیز یاد کیا جاتا اتنی ہی تیزی کے ساتھ اس کی بھول بھی ہوجاتی ہے۔

حضرت ابن عمر کے بارے میں مشہور ہے کہ آپ نے سورہ بقرہ کو چار سال میں سیکھا، میمون بن مہران کہتےہیں کہ ابن عمر  نےسورہ بقرہ کو سیکھنے میں چار سال لگائے، الزرقانی ان کے اس عمل پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں : اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ حضرت ابن عمر کا حفظ کمزور تھا، بلکہ انھوں نے سورہ بقرہ کو اس کے فرائض، احکامات، اصول اور ضوابط کے ساتھ سیکھا، بغیر سمجھ کر  اور جلدی جلدی قرآن حفظ کرنا سنت نبوی کے مطابق مکروہ ہے،  کیا یہ ممکن ہے کہ کیا کوئی فرد کسی خوبصورت اور نعمتوں سے بھرے باغ میں داخل ہو اور پھر وہ اس باغ سے نکلنے میں جلدی کرے؟ جب آپ قرآن کو حفظ کرتے ہیں تو آپ دنیا کی جنت میں ہوتے ہیں،پھر اس دنیاوی جنت سے نکلنے میں جلدی کیوں؟

۷-  ||وقت گذرچکا ||   نہ کہیے :

آپ کی جو بھی عمر ہو اورجو بھی کام یا ملازمت ہو، آپ قرآن مجید کو مکمل یا اس کا اکثر حصہ حفظ کرسکتے ہیں، ہم نے اوپر ابن جوزی کے بارے میں بتایا ، جنھوں نے ۷۰ سال کی عمر میں قرآن مجید کو پڑھنے کے ۱۰ طریقے  یعنی قراءات عشر سیکھا اور اورنگ زیب رحمہ اللہ نے ۶۰ سال کی عمر میں حفظ قرآن مکمل کیا۔

یہ توہوئی بات عمر کی، لیکن آج بھی کیسے ایسے افراد ہیں جو مختلف پیشوں سے وابستہ ہیں ، انھوں نے اپنے پیشوں کو جاری رکھتے ہوئے قرآن مجید کو حفظ کیا،یہاں کویت میں کئی ایسے غیر عرب نوجوان ہیں جو گھروں میں ڈرائیور کا کام کرتے ہیں اور بعض افراد مختلف کمپنیوں میں مختلف ملازمتوں سے وابستہ ہیں، یہ لوگ اپنے فارغ اوقات میں قرآن مجید کے حلقوں میں بیٹھ کر حفظ قرآن کی سعادت حاصل کررہے ہیں، ان میں سے کئی افراد نے تجوید کے ساتھ قرآن کے کئی کئی پاروں کا حفظ کرلیا ہے۔ ایک شخص صبح صبح لوگوں کی گاڑیاں دھونے کا کام کرتا ہے، معلوم ہوا کہ وہ قرآن کا حفظ کررہا ہے اور صحیح بخاری ومسلم شریف بھی پڑھ رہا ہے۔ ابن قیم رحمہ اللہ نے بجا فرمایا :

من لاح له فجر الأجر= هانت عليه مشقة التكليف

مطلب یہ ہے کہ جسے صبح سویرے کے کام کا چسکا لگ جائے  اس کے لیے مشکل کام بھی آسان ہوجاتا ہے۔

۷- گھر کی تعمیر سے پہلے سامانِ گھر میں مصروف نہ ہوجائیے۔

.بعض لوگ حفظ کے دوران تجوید اور اس کے چھوٹے بڑے مسائل کو سیکھنے میں ہی کافی وقت خرچ کرتے ہیں، بعض کا یہ خیال ہے کہ تجوید کے تمام مسائل سے واقفیت کی وجہ سے حفظ میں مہارت  اور پختگی پیدا ہوتی ہے۔ تجوید ضرور اہم ہے،  لیکن  ابتداء میں کلمات کی صحیح ادائیگی اور تجوید کے  ان بنیادی قواعد کا جاننا کافی ہے جو قرآن میں بار بار آتے ہیں، باقی تمام چھوٹے بڑے اور دقیق قواعد واصول کو  حفظ قرآن کے بعدعلاحدہ سے سیکھا جاسکتا ہے، یہ اس لیے کہ حفظ قرآن کا طالب علم اگر ایک عرصہ تجوید کے چھوٹے بڑے تمام مسائل کو سیکھنے میں ہی گذار دے تو ہوسکتا ہے کہ وقت کے گذرنے کے ساتھ اس کا حوصلہ جواب دے۔لہذا تجوید کے بنیادی قواعد سیکھنے اور کلمات کی صحیح ادائیگی کے بعد حفظ قرآن شروع کردینا چاہیے۔

۸- پورا قرآن مجید حفظ کرنا شرط نہیں ہے :

بہت سے لوگ حفظ قرآن مجید سے اس لیے کتراتے ہیں کہ وہ قرآن مجید کو مکمل حفظ کرنےکی طاقت نہیں رکھتے ، جس کی وجہ سے وہ قرآن مجید کے کچھ حصے کو بھی حفظ نہیں کرپاتے، اس طرح کی سوچ سے انسان ایک عظیم خیر سے محروم ہوجاتا ہے۔

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں تمام صحابہ نے پورا قرآن حفظ نہیں کیا تھا، بلکہ ا ن میں سے بعض نےسورہ بقرہ اور آل عمران حفظ کر رکھا تھا اور بعض نے مفصل یعنی سورہ ق سے سورہ ناس حفظ کررکھا تھا، اس طرح صحابہ نے قرآن کی برکت سے اپنے آپ کو محروم نہیں کیا تھا اور نہ ہی مکمل قرآن کو حفظ کرنے کی سوچ ان کے لے حفظ قرآن کی راہ میں رکاوٹ بنی۔

ہوسکتا کہ مکمل قرآن مجید حفظ کرنے کے لیے آپ کے پاس وقت نہ ہو، اور یہ بھی ہوسکتا کہ عمردرازی کی وجہ سے مکمل قرآن مجید کے حفظ کے لیے آپ کی یادداشت ساتھ نہ دے، لہذا جتنا ممکن ہوسکے حفظ کیجیے، اور سورہ بقرہ، آل عمران، کہف، سورہ ملک جیسی سورتوں کو کم از کم حفظ کیجیے۔ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان آپ کے ذہن میں تازہ رکھیے :

 (إن الذي ليس في جوفه شيء من القرآن كالبيت الخَرِب). ترجمہ : وہ شخص جس کے پیٹ میں کچھ بھی قرآن نہیں، وہ اجڑے ہوئے گھر کی طرح ہے۔

۹- حفظِ قرآن سب کے لیے :

موجودہ دور کا یہ فتنہ ہے کہ لوگوں نے معاشرے کو دو گروہوں میں تقسیم کردیا ہے، ایک گروہ دیندار لوگوں کا اور دوسرا بے دین لوگوں کا، حالانکہ یہ سوچ بالکل غلط ہے، قرآن تو سب کے لیے ہدایت ہے، بلکہ قرآ ن میں دعوت غوروفکر والی آیتوں کے مخاطب کفار بھی ہیں،  جس نے قرآن کو حفظ کیابرکتیں اور اجر وثواب اسے ڈھانک لیتے ہیں، اور جو برکت اور اجر وثواب سے اپنے آپ کو دور رکھے، گویا اس نے اپنے نفس پر  زیادتی کی،  قرآن کو حفظ کرنا دنیا وآخرت میں فخر وشرف اور بلندی کا ذریعہ ہے، یہ ایسا مقام ہے جس کے لیے ہر مسلمان کو کوشش کرنی چاہیے۔

حامد ایک عام نوجوان تھا، جس کا مشغلہ گلی کوچوں میں  بیٹھنا، دوست واحباب کے ساتھ ہنسی ٹھٹا کرنا اور دیگر نوجوانوں کی طرح کھیل کود میں وقت ضائع کرنا تھا، حامد نے ایک دن اپنی روحانی پیاس بجھانے کی غرض سےقرآن کی کچھ آیتیں حفظ کرنے کا ارادہ کیا،جیسا جیسا وہ قرآن کی آیتیں یاد کرنے لگا، اسے زندگی میں خوشی، راحت اور اطمینان محسوس ہوا، اسی دُھن میں اس نے ایک ماہر استاذ کےپاس  پورا قرآن مجید حفظ کرلیا  یہاں تک کہ آج حامد کا شمار ایک ماہر اور انتہائی خوبصورت آواز میں قرآن پڑھنے والے حفاظ میں ہوتا ہے، نہ صرف یہ بلکہ کئی دنوں سے حامد کا یہ معمول ہے کہ وہ روزانہ پانچ پاروں کا دور کرتا ہے ، اور یہی وہ حامد ہے جو آج سعودی عرب کے جدہ شہر میں قرآن مجید کے ایک ادارے کا ذمہ دار ہے۔حامد کی معمولی حرکت کی وجہ سے اسے  کتاب اللہ جیسی عظیم نعمت کی خدمت  کا یہ موقع ملا ہے۔

 ۱۰- دعاء :

دعاء کی اہمیت سے کون انکار کرسکتا ہے، ہم نے اس نکتے کو اخیر میں اسی لیے بیان کیا ہے کیونکہ انسان تمام تر کوششیں کرلے، اپنی تمام صلاحیتوں کا استعمال کرلے، لیکن اللہ تعالی کی جانب سے ہدایت نہ ہوتو تمام کوششیں بے فائدہ ہیں، اس لیے حفظ ٍقرآن مجید کے دوران اللہ تعالی سے اس عظیم نعمت کے حصول اور اس کی قدرانی کی دعائیں کرنا ہر حافظ قرآن کے لیے ضروری ہے۔اس عظیم کام میں اگر اللہ تعالی کی مددشامل نہ ہوتو بندہ ایک آیت بھی حفظ نہیں کرسکتا، اللہ تعالی ہم سب کو قرآن مجید کی قدردانی کرنے والا بنائے۔
تلك عشرة كاملة (وعلى الله قصد السبيل ومنها جائر ولو شاء لهداكم أجمعين)

:حفظ قرآن کی آسانی کے لیے ایک قیمتی چارٹ

0 تبصرے:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔