پیر، 18 جولائی، 2022

0 تبصرے

 

از۔ مبصرالرحمن قاسمی (ریڈیو کویت)

کویتی عالم دین اور داعی شیخ احمد القطان




شیخ احمد القطان نے مسئلہ فلسطین اور مسجد اقصی کے دفاع کے لیے اپنی پوری زندگی وقف کردی تھی

سرزمین کویت نے گزشتہ ہفتےاپنے عظیم فرزند داعی اسلام شیخ احمد القطان کو نم آنکھوں کے ساتھ الوداع کیا، شیخ احمد القطان کو منبر مسجد اقصی کا دفاعی خطیب لقب سے یاد کیا جاتا ہے، 76 برس کی عمر میں معمولی علالت کے بعد وہ داعی اجل کو لبیک کہہ گئے۔

شیخ احمد نے 1970 کے اوائل میں اپنے دعوتی مشن کا آغاز کیا تھا،وسطیت اور اعتدال پر مبنی نہج پر انھوں نے دعوتی مشن کو اپنا نصب العین بنایا اور امت مسلمہ کے مسائل کے حل اور نئی نسل کی تربیت کے لیے اعتدال اور وسطیت پر مبنی نہج کو ترجیح دی۔1990 میں عراقی جارحیت کے دوران انھوں نے اپنے وطن کویت کے دفاع میں اپنے خطبات کے ذریعے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔فلسطینی عوام کے حق کو کھل کر سپورٹ کرنے والے اپنے موقف اور قابض اسرائیل کے ساتھ خوشگوار تعلقات کے قیام کی اپیلوں کی کھلی مخالفت کی وجہ سے شیخ القطان عالم اسلام میں معروف ہوئے۔دسمبر 1946 کو کویت کے المرقاب علاقے میں شیخ احمد بن عبدالعزیز بن ابراہیم القطان کی پیدائش ہوئی۔مکتب نما شکل کے کتاتیب سے اپنی تعلیم کا آغاز کیا، پھر قتیبہ اسکول کویت سے پرائمری، الشامیہ اسکول سے سیکنڈری اور الخليل بن احمد اسکول سے ہائی اسکول کی تعلیم مکمل کی اور سال 1969 میں ٹیچرس انسٹی ٹیوٹ سے ڈی ایڈ کے مساوی ڈپلومہ کی سند حاصل کی۔

شیخ احمد القطان نے سال 1970 میں کویت کی مسجد الصبیح سے اپنے دعوتی سفر کی ابتدا کی، مسجد الصبیح میں بعد نماز عصر دیئے جانے والے ان کے لیکچرس کی کیسٹس تیار کی جاتی تھیں،اس کے بعد سال 1976 سے الجہرا علاقے میں واقع مسجد البسام سے خطبہ دینا شروع کیا۔ اور مسجد اقصی کے دفاع کے مسئلے کو اپنا موضوع بنایا، اس حوالے سے انھوں نے منبر دفاع  عن مسجد اقصی کی بنیاد رکھی، اور سال 1979 میں الدوحہ علاقے میں اپنے اس مشن کا اعلان کیا، اس مشن کے تحت کویت کی مختلف مساجد میں لیکچرس،تقاریر اور خطبے پیش کیے، بطور خاص انھوں نے مسجد العلبان، مسجد المزینی، مسجد الکلیب، مسجد ضاحیہ جابر العلی جیسی مساجد میں خطبے اور لیکچرس دیئے۔

اسی طرح شیخ مرحوم نے سال 1996 میں ریٹائرمنٹ کے بعد نوجوان مسلم نسل کی درست تربیت اور ان کی درست رہنمائی کے مقصد سے کویت کے اسکولوں میں مستقل طور پر لیکچرس کا آغاز کیا۔ اور قرآن کریم ریڈیو کویت سے مستقل طور متعدد سلسلہ وار دروس پیش کیے۔انھوں نے نہ صرف نوجوانوں کو اپنی محنت کا میدان بنایا بلکہ سماجی کام کرنے والی مردوخواتین کی تنظیموں اور قرآن کریم کے سینٹروں کو بھی اپنی محنت کا میدان بنایا۔

یادگار کارنامے:

عراق نے جب کویت پر حملہ کیا، اس اثنا پورے ملک اور ملک کی قیادت کو باہمی اتحاد اور کسی ایسے فرد کی ضرورت تھی جو ملک کے لوگوں کو متحد رکھ سکے، ایسے وقت میں شیخ احمد القطان نے کویتی باشندوں کی صفوں کو متحد کرنے اور انھیں مطمئن رکھنے میں اہم کردار ادا کیا، اس دوران انھوں نے عرب اقوام کی حمایت حاصل کرنے کے لیے عرب اور دنیا کے ممالک کے سفر کیے، اور بڑے بڑے عوامی اجلاسوں میں مسئلہ کویت کو سمجھایا، وہ الجزائر گئے، فرانس گئے ، برطانیہ اور امریکا گئے اور عام لوگوں میں کویت کے حق اور اس پر  کیے جانے والے ظلم کی حقیقت کو لوگوں کے سامنے پیش کیا اور کویت کی آزادی تک عالمی اور عربی سطح پر عوامی ملاقاتوں کا اپنا سلسلہ جاری رکھا۔

شیخ قطان نے سال 1984 سے 1994 تک مغربی ممالک میں زیرتعلیم عرب طلباء کے مشیر کی حیثیت سے رہنمائی بھی کی، اس حوالے سے انھوں نے طلباء کی کانفرنسوں اور سالانہ میٹنگوں میں حصہ لیا، انھوں نے نہ صرف کویتی طلباء کے لیے یہ خدمات انجام دی بلکہ مغربی ممالک میں زیر تعلیم تمام عرب طلباء سے مختلف ذرائع کے ذریعے رابطے میں رہے۔

اسی طرح شیخ قطان نے افریقی ممالک سمیت فلپائن اور پاکستان میں مدارس کے قیام، مساجد کی تعمیر اور یتیموں کے اسکولوں کے قیام سے متعلق متعدد منصوبوں کی نگرانی کے فرائض انجام دیئے۔

آپ نے اسلام کے تعارف سے متعلق کویت کی مشہور تنظیم آئی پی سی میں داعی کی حیثیت سے بھی خدمات انجام دی، جبکہ آپ کے ہاتھ پر اندرون اور بیرون کویت ہزاروں داعی حضرات اور علماء کرام نے تربیت حاصل کی۔

تالیفات :

مسلمان خاندان کے لیے ایمان افروز نصیحتوں پر مشتمل سیریز،  اسلام میں تربیت اولاد سے متعلق سیریز، دعوتی افکار پر مشتمل سیریز، سلسلة العفن الفني، مطالعہ ریاض الصالحین سیریز،  فلسطینی عوامی انقلاب سیریز،  سلسلة السيادة لله، سلسلة اعداد الفاتحين، سلسلة المفاتيح الجنة اور نوجوانوں کے امور سے متعلق سیریز شیخ احمد القطان کی معروف کتابیں ہیں۔

اسرائیل کے ساتھ تعلقات کے خلاف :

عرب ممالک میں جب اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کی لہر چل پڑی تو شیخ قطان نے دو ٹوک انداز میں عرب ممالک کی اس پہل کی مخالفت کی اور پرزور انداز میں کہا کہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات کے قیام کا بائیکاٹ کیا جائے، انھوں نے عرب ممالک کی جانب سے تعلقات قائم کرنے کی اس لہر کو ایک خطرناک معاملہ بتاتے ہوئے کہا کہ " قدس، مسجد اقصی اور فلسطین کا مسئلہ ایسا قرآن ہے جس کی تلاوت کی جاتی ہے۔ انھوں نے اپنے اس قول کے ذریعے اسراء والمعراج اور اس رات میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی امامت میں انبیاء کرام کی نماز کی طرف اشارہ کیا۔

شیخ قطان کا کہنا تھا کہ جب تک فلسطین کے عوام کو ان کے جائز حقوق سے محروم رکھا جائے گا اس وقت تک قیام امن اور تعلقات کے قیام کے تمام پروگرام اور منصوبے ناکام ہیں۔

مسئلہ فلسطین کو شیخ احمد القطان نے اپنا اوڑھنا بچھونا بنایا تھا، سال 1987 میں جب پتھر والے بچے نامی انتفاضہ کی پہلی تحریک کا آغاز ہوا تو شیخ قطان نے اپنے دروس، لیکچرس اور عام محفلوں کے موضوعات کو خاص اس مسئلے کے لیے مختص کردیا، ان دنوں آپ فلسطین سے اپنے ساتھ لایا ہوا پتھر ساتھ رکھا کرتے تھے اور با آواز بلند کہا کرتے تھے،  میرے پاس قدس شریف سے یہ پتھر آیا ہے، اور اس پتھر سے یہودی کا سر پھوٹے گا۔ پھر بلند آواز میں یہ شعر کہا کرتے تھے:

خيبر خيبر يا يهود

جند محمد سوف يعود

(اے یہودی خیبر کو یاد کرو، محمد رسول اللہ کا لشکر عنقریب لوٹ آئے گا)

شیخ قطان نے عربوں میں مسئلہ فلسطین کو دوبارہ زندہ کیا، ان کے اندر مسئلہ فلسطین کی اہمیت اور اس حوالے سے مسلمانوں کے اعتقاد ویقین اور جذبات کو نئی زندگی دی۔ انھوں نے یہ باور کرایا کہ مسئلہ فلسطین صرف ایک معمولی اور سیاسی مسئلہ یا عرب لیگ اور اقوام متحدہ کے کسی دیگر مسئلے کی طرح کوئی معمولی معاملہ نہیں ہے بلکہ القدس مسلمانوں کے دین اور عقیدے کا نام ہے۔


دسیوں برسوں تک مسئلہ فلسطین کو مسلمانوں کے دلوں میں زندہ رکھنے کے لیے شیخ قطان نے عالم اسلامی کی سطح پر کلیدی کردار ادا کیا۔ ان کی وفات کے موقع پر حماس کی جانب سے جاری کیے گئے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ شیخ قطان کی تقریریں فلسطین کی گلیوں میں نئی روح پھونکنے کا کام کرتی تھیں، ان کی تقریروں کی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے صہیونی فورس کو شیخ قطان کی تقریروں پر پابندی عائد کرنی پڑی ، حال یہ تھا  اگر کسی فلسطینی کے گھر سےشیخ قطان کی تقریر کی کوئی کیسٹ برآمد ہوتی۔ صہیونی فورس  پورے گھر کو گرفتار کرلیتی، قابض اسرائیلی فورسیز نے ان کی تقریروں کی کیسٹوں کو سننا اور رکھنا جرم قرار دے دیا تھا۔ الغرض شیخ احمد القطان نے اپنی دعوتی زندگی کو مسئلہ فلسطین کے لیے وقف کردیا تھا۔