جمعرات، 28 مئی، 2020

Allah ka Khauf Kaise Paida Karen

0 تبصرے

ازقلم : مبصرالرحمن قاسمی 
بچوں میں اللہ کا خوف کیسے پیدا کریں؟


ہر والدین کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ وقتا ًفوقتا ًبچوں میں اللہ کی محبت، اس کا خوف اور یہ احساس پیدا کریں کہ اللہ تعالیٰ بندے کے ہر عمل کو دیکھ رہا ہے اور اس کے ہر عمل کا حساب لینے والا ہے اور کوئی چیز اس کے علم سے پوشیدہ نہیں ہے۔
سَوَآءٌ مّنْكُمْ مّنْ أَسَرّ الْقَوْلَ وَمَنْ جَهَرَ بِهِ وَمَنْ هُوَ مُسْتَخْفٍ بِالْلّيْلِ وَسَارِبٌ بِالنّهَارِ
ترجمہ: تم میں سے کسی کا اپنی بات کو چھپا کر کہنا اوربآوازبلند اسے کہنا اور جو رات کو چھپا ہوا ہو اور جو دن میں چل رہا ہو، سب اللہ پر برابر ویکساں ہیں۔(سورۃ الرعد: ۰ ۱)
اگر والدین بچوں کو ان باتوں سے وقتاً فوقتاً آگاہ کرتے رہیں تو وہ تنہائی میں بھی گناہ کے کاموں کو کرنے کی ہمت نہیں کریں گے، جب بچہ اللہ کی قدرت اور اس کے خوف سے واقف ہوجائے گا تو وہ نامناسب کاموں اور باتوں کی جانب بڑھنے سے شرمائے گا اور اس کے ذہن میں یہ بات رہے گی کہ اللہ تعالیٰ دیکھ رہا ہے۔ہم بچوں کو اس بات کی بھی یاد دہانی کرائیں کہ اللہ تعالی نے ہر انسان کے ساتھ اپنے فرشتوں کو لگائے رکھا ہے، یہ فرشتے انسان کے ساتھ ہی ہوتے ہیں اور صرف اُس وقت انسان سے جُدا ہوتے ہیں جب وہ پیشاب یا پاخانے کی اپنی ضرورت  پوری کرتا ہے۔اللہ تعالیٰ کی جانب سے مقرر یہ فرشتے انسان کے ہر کام کی نگرانی کرتے ہیں اور اُسے لکھ دیتے ہیں، سیدھے کندھے پر ایک فرشتہ ہوتا ہے جس کا کام نیکیوں کو لکھنا ہے اور بائیں کندھے پر ایک فرشتہ مقرر ہے جس کا کام بندے کے ہر بُرے عمل اور گناہوں کو لکھنا ہے۔ بچوں کو یہ بھی بتائیں کہ اگر گناہ ہوجائے یا کوئی غلط کام ہوجائے تو فرشتے کے لکھنے سے پہلے پہلے فورا ًاللہ تعالیٰ سے معافی مانگے، استغفار یعنی اللہ تعالیٰ سے معافی مانگنے پر فرشتے کو وہ گناہ یا غلط کام کو مٹانے کا حکم دیا جاتا ہے اور اس کے بدل میں اللہ تعالیٰ کے حکم سے نیکی لکھنے والا فرشتہ ایک نیکی لکھ دیتا ہے۔یہ اس لیے کیونکہ اللہ تعالیٰ ہم سے پیار کرتا ہے اور ہمارے لیے ہر وقت اچھا ہی چاہتا ہے۔
اگرچہ کم سن بچے اپنی عمر کے اس مرحلے میں غیر مکلف ہیں، ان کا کوئی حساب کتاب نہیں ہے لیکن بچپن میں ہی بچوں میں اللہ کے خوف کا بیج بونا ضروری ہے تاکہ وہ اللہ کے خوف کے احساس کے ساتھ بڑے ہوں اور یہ احساس انھیں زندگی بھر ایمان پر قائم رکھ سکے۔
ہم بچوں کو یہ بتائیں کہ نماز، روزے،زکوٰۃ اور حج سمیت تمام نیک کام صرف اللہ کے لیے ہیں، اور اللہ تعالیٰ ہی ان کا انعام وبدل بندوں کو عطا کرتا ہے، اور وہ ہر وقت اور ہر جگہ ہم پر نظر رکھے ہوئے ہے۔
اللہ کا خوف پیدا کرنے کے لیے والدین سچے قصوں کاسہارا لے سکتے ہیں، کیونکہ بچوں میں فطری طور پر قصے کہانیاں سننے کا شوق ہوتا ہے اور وہ قصے کہانیوں کو بہت غور سے بھی سنتے ہیں، اس کے لیے آپ انھیں چرواہا بچے کا یہ قصہ سنا سکتے ہیں:  ”حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ ایک سفر میں تھے، انھیں ایک بچہ نظر آیا جو بکریاں سنبھال رہا تھا،تو ابن عمر ؓنے اس بچے سے کہا:کیا تم ان بکریوں میں سے ایک بکری فروخت کروگے؟بچے نے کہا: یہ بکریاں میری نہیں ہیں۔ ابن عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: بکریوں کے مالک سے کہہ دینا کہ ایک بکری کو بھیڑیا اٹھا لے گیا، بچے نے اس بات پرکہا: پھر اللہ کہاں ہے؟ بکریوں کا مالک نہیں دیکھ رہا ہوتو کیا ہوا؟میرا اللہ تو دیکھ رہا ہے نا۔“
آپ اپنے بچوں کو دودھ بیچنے والی کایہ قصہ بھی سناسکتے ہیں: حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایک قانون جاری کیاتھا، جس کے مطابق دودھ میں پانی ملانے سے روکا گیا تھا لیکن ہر مخالف کام کو قانون کی آنکھ دیکھ سکتی ہے اور نہ کسی دھوکہ باز اور خیانت والے کو پکڑ سکتی ہے،دودھ میں پانی ملانے سے روکنے کا یہ قانون دھوکہ بازوں اور خیانت والوں کے سامنے بالکل معمولی تھا، لیکن انسان کو اللہ تعالیٰ پر ایمان اور اللہ تعالی کا خوف ہی ہر منع کی گئی چیز سے بچاتے ہیں۔اس سلسلے میں ایک ماں اور بیٹی کا ایک بہت مشہور قصہ ہے: ”ماں زیادہ فائدے کی لالچ میں چاہتی تھیں کہ دودھ میں پانی ملایا دیا جائے اور ایمان والی بیٹی اس ماں کو امیر المومنین کے حکم کو یاد دلاتی تھی، حضرت عمررضی اللہ عنہ خود بیان کرتے ہیں کہ ایک دن آپؓ رعایا کی خبرگیری کے لیے گشت کر ر ہےتھے، تھکاوٹ کے باعث ایک گھر کے قریب کچھ دیر بیٹھ گئے تو اس گھر میں ایک عورت اپنی بیٹی سے کہہ ر ہی تھیں، بیٹی!دودھ تھوڑا ہے پانی ملادو،۔ بیٹی نے کہا:اماں!دودھ میں پانی ملا کر بیچنے سے امیر المومنین نے منع کیا ہے، ماں نے کہا: بیٹی!امیر امو منین کہاں دیکھ رہے ہیں، بیٹی نے اس بات پر خوبصورت جواب دیا:  اماں! امیرالمو منین نہیں دیکھ رہے ہیں،  انکا خدا تو دیکھ رہا ہے!!۔
آپ سہل بن عبداللہ تستری کے اس قصے کے ذریعے بھی بچوں میں خوفِ خدا پیدا کرنے کی تربیت کرسکتے ہیں: سہل بن عبداللہ تستری کہتے ہیں: ”میں تین سال کا تھا، رات کے وقت میں اٹھ جاتا تھا اور اپنے ماموں محمد بن سوار کو دیکھتا تھا، ایک دن انھوں نے مجھ سے کہا: کیا تم اس کو یاد نہیں کرتے جس نے تمہیں پیدا کیا؟ میں نے کہا: کیسے یاد کروں؟ تو انھوں نے کہا:جب تم رات میں بستر پر جاؤ تو زبان کو حرکت دیئے بغیر دل ہی دل میں تین مرتبہ یہ جملے کہو۔ اَللّهُ معي، اَللّهُ نَاظِرٌ إِلَیَ، اَللٰه ُشَاهدِيْ۔ (ترجمہ: اللہ میرے ساتھ ہے، اللہ مجھے دیکھ رہا ہے،اللہ گواہ ہے۔). میں نے  یہ عمل کئی راتیں کیا او ر پھر انھیں  اپنی کیفیت بتائی، تو انھوں نے مجھ سے کہا کہ اب ہر رات سات مرتبہ یہی کلمات کہو، میں نے ایسا ہی کیا اور پھراپنی کیفیت انھیں بتائی ، پھر انھوں نے مجھ سے کہا کہ ہر رات گیارہ مرتبہ یہی الفاظ دل ہی دل میں کہو، میں نے ایسا ہی کیا، جس کی وجہ سے میرے دل میں اس عمل کی مٹھاس محسوس ہونے لگی،ایک سال کے بعد ماموں جان نے مجھ سے کہا: میں نے جو سکھا یا اُسے قبر میں جانے تک ہمیشہ یاد رکھو، یہ عمل تمہیں دنیا وآخرت میں فائدہ دے گا، میں نے کئی سال تک اس پر عمل کیا تومجھے اس کی حلاوت کا احساس ہوا۔ پھر ایک دن ماموں جان نے مجھ سے کہا: سہل! کیا خیال ہے جس کے ساتھ اللہ ہواور اسے اللہ تعالیٰ دیکھ رہا ہو، کیا وہ شخص گناہ کرسکتا ہے؟ خبردار! اللہ تعالیٰ کی نافرمانی نہ کرنا“۔
اسی طرح والدین بچوں کو یہ بھی بتائیں کہ اللہ تعالیٰ دوسروں کے سلسلے میں ان کے احساسات اور جذبات کی بھی نگرانی کرتا ہے، تاکہ بچے ایک صاف ستھرے احساس وشعور کے ساتھ جوانی کی عمر کو پائیں، اس طرح کی تربیت سے بچوں میں حسد، کینہ، چغلی اور بغض جیسے عناصر جنم نہیں لیتے۔اور یہ بھی بتائیں کہ جب جب بھی ان کے ذہن میں شیطان کوئی غلط خیال ڈالے تو فورا ًاللہ تعالیٰ سے مغفرت طلب کریں یعنی”اَسْتَغْفِرُ اللّهَ“ کہیں اور ”اَعُوذُ بِاللّهِ مِنَ الشّیْطَانِ الرَّجِیمْپڑھیں۔
***