پیر، 24 اپریل، 2023

0 تبصرے

 از- ڈاکٹر مبصرالرحمن قاسمی

 رسول اللہ ﷺ اور صحابہ کی شان میں گستاخی کرنے والوں، زندیقوں اور اسلام کے نہ چاہنے والوں  کی موت پرخوشی کیوں منائیں

رسول اللہ ﷺ اور صحابہ کی شان میں گستاخی کرنے والے اسلام کے دشمنوں کی موت پر خوشی منانا ایک شرعی عمل ہے، بلکہ نہ صرف بندوں کے لیے بلکہ ان کی موت حجر وشجر اور جانوروں پر بھی  اللہ تعالیٰ کی جانب سے  ایک نعمت ہے۔

ہماری اس بات پر بہت سارے دلائل موجود ہیں، جو نصوص قرآنی، احادیث اور آثار وواقعات کی روشنی میں ذیل میں بیان کیے گئے ہیں:

1- ارشاد ربانی ہے:

  يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اذْكُرُوا نِعْمَةَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ جَاءَتْكُمْ جُنُودٌ فَأَرْسَلْنَا عَلَيْهِمْ رِيحًا وَجُنُودًا لَمْ تَرَوْهَا وَكَانَ اللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرًا 

ترجمہ: اے ایمان والو! اللہ کے اس احسان کو یاد رکھو جب (کفار کے) لشکر تم پر چڑھ آئے تھے تو ہم نے آندھی اور ایسے لشکر بھیج دیئے جو تمہیں نظر نہ آتے تھے اور جو کچھ تم کر رہے تھے اللہ اسے خوب دیکھ رہا تھا۔ [الأحزاب: 9]

اس آیت کریمہ میں اس چیز کا بیان ہے کہ اللہ کے دشمنوں کو ہلاک کرنا بھی اللہ تعالی کی مسلمانوں پر نعمتوں میں شامل ہے اور اس نعمت پر اللہ کا شکر  بجالانا چاہیے۔

2-  سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ : "لوگ ایک جنازے کو لے کر گزرے تو لوگوں نے اس کے بارے میں اچھے کلمات کہے، تو حضور اکرم ﷺنے فرمایا: (اس کے لیے واجب ہو گئی۔) پھر لوگ ایک اور جنازے کو لے کر گزرے تو اسے لوگوں نے برا بھلا کہا تو نبی کریمﷺ نے فرمایا: (اس کے لیے واجب ہو گئی۔) اس پر عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے کہا: "کیا چیز واجب ہو گئی؟" تو آپ ﷺفرمایا: (اُس کے بارے میں تم نے اچھے کلمات کہے تو اُس کے لیے جنت واجب ہو گئی، اور اِس کو تم نے برا بھلا کہا تو اس کے لیے جہنم واجب ہو گئی، تم اس دھرتی پر اللہ تعالی کے گواہ ہو۔)"

 اس حدیث کو امام بخاری: (1301) اور مسلم: (949) نے روایت کیا ہے۔

علامہ بدر الدین عینی ؒ اس حدیث کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں:"اگر یہ کہا جائے کہ فوت شدگان کے بارے میں برے کلمات کا استعمال کیسے ٹھیک ہو سکتا ہے؛ حالانکہ صحیح حدیث زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ فوت شدگان کو برا بھلا نہیں کہنا بلکہ ان کا ذکر صرف اچھے الفاظ میں ہی کرنا ہے، تو اس کا جواب یہ ہے کہ فوت شدگان کو برے الفاظ سے یاد کرنے کی ممانعت ایسے لوگوں کے بارے میں ہے جو منافق، کافر، اعلانیہ گناہ یا بدعت کرنے والے نہیں ہوتے؛ کیونکہ ان لوگوں کی برائیوں کو دوسروں کو بچانے کے لیے ذکر کرنا حرام نہیں ہے ، اس کا فائدہ یہ بھی ہوگا کہ لوگ ان کے راستے پر چلنے سے خبردار بھی رہیں گے۔" ختم شد" عمدة القار شرح صحيح البخاری " ( 8 / 195 )

3- ابو قتادہ بن ربعی رضی اللہ عنہ بیان کرتے تھے کہ رسول اللہ ﷺکے پاس سے جنازے کو لے کر گزرا گیا تو آپ ﷺنے فرمایا: (اس نے آرام پا لیا یا لوگوں نے اس سے آرام پا لیا) تو صحابہ کرام نے عرض کیا: کس نے آرام پایا اور کس سے آرام پایا گیا؟ آپ ﷺ نے فرمایا: (مومن شخص دنیا کے رنج و تکلیف سے آرام پا جاتا ہے اور بدکار شخص سے لوگ، شہر، درخت اور جانور آرام پاتے ہیں) اس حدیث کو امام بخاری: (6147) اور مسلم: (950) میں روایت کیا ہے، اور امام نسائی نے اس حدیث پر اپنی کتاب سنن نسائی : (1931) میں عنوان قائم کرتے ہوئے لکھا ہے کہ: "باب ہےکافروں سے راحت پانے کے بارے میں"

4- ایک خارجی شخص جس کا نام "المخدج" تھا، اس کے قتل ہونے پر سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے سجدہ کیا تھا، یہ خارجی آپ سے لڑتے ہوئے مارا گیا تھا۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:"امیر المومنین علی بن ابو طالب رضی اللہ عنہ نے خوارج کے خلاف جہاد کیا، آپ نے خارجیوں سے قتال کے بارے میں رسول اللہ ﷺکی احادیث بیان کیں، پھر ان کے قتل ہونے پر خوشی کا اظہار بھی کیا، نیز جب خارجیوں کے سر غنّے ذو الثدیہ کو مقتولین میں دیکھا تو اللہ تعالی کے لیے سجدہ شکر بھی کیا۔

5- ابن کثیرؒسن 568 ہجری میں فوت ہونے والے لوگوں کے تذکرے میں لکھتے ہیں:

"حسن بن صافی بن بزدن ترکی کا تعلق ان بڑے امیروں میں سے تھا جو کہ ملکی سطح پر اثر و رسوخ رکھتے تھے، تاہم یہ شخص متعصب درجے کا خبیث رافضی تھا، اور رافضیوں کی حد درجہ طرف داری کرتا تھا،یہ رافضی اسی کی ناک تلے پھل پھول رہے تھے، یہاں تک کہ اللہ تعالی نے مسلمانوں کو اس شخص سے ماہ ذو الحجہ میں نجات دی اور مسلمانوں نے سکھ کا سانس لیا، اسے اسی کے گھر میں دفن کیا گیا جسے بعد میں قریش کے قبرستان میں منتقل کر دیا گیا ، اس پر اللہ کا ہی شکر ہے اور اسی کی تعریف ہے۔جس وقت وہ مرا تو اہل سنت اس کے مرنے پر بہت زیادہ خوش ہوئے، انہوں نے علی الاعلان اللہ تعالی کا شکر ادا کیا،  صورت حال یہ تھی کہ سب کے سب مسلمان اس کی موت پر  بلا استثنا اللہ کا شکر ادا کر رہے تھے۔" ختم شد" البدایہ والنہانیہ " ( 12 / 338)

6- خطیب بغدادی ؒ عبید اللہ بن عبد اللہ بن الحسین ابو القاسم الحفاف جو کہ ابن نقیب کے نام سے مشہور تھے ان کے حالات زندگی بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

"میں نے ان سے حدیث لکھی ہے، ان کی سنی ہوئی احادیث بالکل صحیح تھیں، آپ عقیدے میں بہت پختہ تھے، مجھے ان کے بارے میں یہ بات پہنچی کہ جس وقت رافضیوں کا سرغنہ ابن المعلم فوت ہوا تو انہوں نے خصوصی طو ر پر مبارکبادی کی محفل کا انعقاد کیا، اور کہنے لگے: اب مجھے کوئی پروا نہیں ہے کہ مجھے جس وقت مرضی موت آ جائے؛ کیونکہ میں نے ابن المعلم رافضی کو مرتے دیکھ لیا ہے" تاريخ بغداد " ( 10 / 382)

ابن سعد نے طبقات میں ذکر کیا ہے کہ جب حجاج الثقفی کی وفات ہوئی تو ابراہیم نخعی نے سجدہ شکر ادا کیا، راوی حماد کہتے ہیں: مجھے کوئی ایسا شخص نظر نہیں ایا جو اس کی موت پر خوشی کے مارے رو نہیں رہا ہو، بلکہ ابراہیم نخعی بھی خوشی میں رونے لگ گئے تھے۔طبقات ابن سعد (6/280)

یہ اور اس طرح کی بہت ساری دلیلیں ہیں، جن سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ گستاخوں اور فاجروں کی موت پر خوشی کا اظہار کرنا چاہیے اور اللہ تعالیٰ کا شکر بجالانا چاہیے۔

 

 

 

 


ہفتہ، 1 اپریل، 2023

0 تبصرے

 

ڈاکٹر مبصرالرحمن قاسمی

دو رکعتیں، جس نے مجھے تاریخی بنادیا

(مسجد اجابہ کی کہانی)


دنیا کے گوشے گوشے سے لوگ میری زیارت کے لیے آتے ہیں، فرمانبردار بھی آتے ہیں اور نافرمان بھی، بچے بھی آتے ہیں، جوان بھی اور بوڑھے بھی،  لوگ بڑی عقیدت سے میرے آنگن میں سربسجود ہوتے ہیں، میری درودیوار کو دیکھ کر اپنی آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچاتے ہیں اور کچھ لمحے گزار کر چلے جاتے ہیں، بہت کم اللہ کے بندے ایسے ہوتے ہیں جو میرے نصیب اور نسبت پر ربِ تعالٰی کا شکر بجالاتے ہیں اور بقیہ زندگی نیکی کے راستے پر چلنے کا عزم کرکے لوٹتے ہیں۔

میں آج آپ کو میری داستانِ سعادت سنانا چاہتی ہوں، ایک مرتبہ دن کا کوئی وقت تھا، رحمت ِعالمﷺ کا میری گلی سے گزر ہوا، اسی اثنا پروردگارِ عالم کا حکم آیا اور رحمت ِعالم ﷺکے مبارک قدم میرے آنگن میں پڑے، آپ نے دو رکعت نماز پڑھی اور بڑی لمبی دعا فرمائی، کیاآپ کو پتہ ہے؟ اگر یہ دعا آپ ﷺ نہ فرماتے تو ہوسکتا پچھلی قوموں کی طرح ایک ہی ضرب میں آپ اور میں غضبِ الٰہی کا شکار ہوجاتے، یا ہوسکتا مجموعی طور پر پوری امت کسی ظالم کے پنجے تلے محکوم بنادی جاتی، لیکن پروردگار ِعالم کا شکر ہے ، اس نے میرے حبیب ﷺ کی لاج رکھی اور میرے آنگن میں آپ ﷺ کی ان دعاوں کو قبول فرمادیا، لیکن  مجھے ہمیشہ ملال رہتا ہے کہ  پروردگارِ عالم نے رحمتِ عالم ﷺ کی ایک دعا کو قبول نہیں کیا ، یقینا اس میں ربِ تعالیٰ کی کوئی حکمت رہی ہوگی۔اللہ بھلا کرے ابوالحسن مسلم بن حجاج نیساپوری کا اور ابوعبدالرحمن احمد بن شعیب نسائی کا ، جنھوں نے میرے حوالے سے اس حدیث کوآپ تک پہنچایا۔ میں یہ دعا آپ کو سنانا چاہتی ہوں۔  میرے آنگن میں طویل دعا کرنے کے بعد آپﷺ نے اپنے اصحاب سے کہا : میں نے دعا کی کہ اللہ تعالیٰ اس امت کو اس طرح تباہ نہ کرے‘ جس طرح پچھلی امتیں مختلف عذابوں سے ہلاک ہوئیں (مثلاً پانی میں غرق ہو کر‘ تیز آندھی کی وجہ سے‘ زلزلہ کے ذریعے‘ آسمان سے پتھر برسا کر )دوسری دعا  یہ کی کہ غیر مسلم دشمن ان پر اس طرح غالب نہ آجائیں کہ انہیں بالکل ختم کردیں اور تیسری دعا یہ کی کہ وہ خواہشاتِ نفس کی وجہ سے آپس میں اختلاف کرکے مختلف گروہ اور پارٹیاں نہ بن جائیں۔ رحمتِ عالم ﷺ  نے فرماتے ہیں ’’پروردگارِعالم نے اپنے فضل سے پہلی دو دعائیں قبول کرلی اور تیسری دعا کسی حکمت کی بنا پر قبول نہیں فرمائی۔ وہ حکمت صرف اللہ تعالیٰ ہی کو معلوم ہے۔

جس جگہ یہ عظیم دعائیں قبول ہوئیں وہ خوش بخت  میں ہی مسجد اجابہ ہوں، آج دنیا مجھے اسی دعا کی وجہ سے مسجد اجابہ کہتی ہیں، اس سے پہلے تک اصحابِ رسولﷺ مجھے مسجد بنی معاویہ  کہتے تھے۔ پروردگار ِعالم تیرا شکر ہے کہ تونے مجھے دنیا کے انسانوں کے درمیان تاریخی بنادیا۔