جمعہ، 2 اکتوبر، 2020

کیا آپ اپنے جسم کے مالک ہیں؟

0 تبصرے

از- مبصرالرحمن قاسمی

کیا آپ اپنے جسم کے مالک ہیں؟

بچوں میں  اپنی حفاظت آپ سے متعلق بیداری کے نام پر دنیا بھر میں اور خاص طور پر ترقی یافتہ ملکوں میں   My body is mine کے فریب زدہ نعرے کے تحت ایک مہم چلائی گئی ، اورعرب ملکوں کے اسکولوں میں (جسدی ملکی) عنوان کے تحت اس سوچ کو فروغ دیا جارہا ہے۔ اس مہم کا مقصد جنسی زیادتی سے بچوں کی حفاظت بتایا جاتا ہے، یقینا بچوں کی حفاظت کے تئیں یہ مقصد بہت ہی شاندار بھی ہے اور اس کی ضرورت بھی ہے، لیکن اس مقصد کے لیے جس عبارت اور عنوان کا استعمال بچوں اور بطور خاص لڑکیوں میں عام کیا جارہا ہے وہ سراسر غلط ہے۔

اگر ہم یہ تسلیم کرلیں کہ انسان اپنے جسم کا مالک ہے، تو پھر انسان کو اپنے جسم کو اپنی منشا کے مطابق استعمال کی آزادی مل جائے گی، دراصل یہ سوچ ہم مسلمانوں کے عقیدے سے ٹکراتی ہے، کیونکہ اس بات کو تسلیم کرنے کا مطلب ہی یہ ہے کہ انسان کو اپنے جسم میں اپنی مرضی کے مطابق جو چاہے اور جیسے چاہے تبدیلی اور استعمال کا حق ہے، مثال کے طور پر  اگر کوئی آدمی شادی شدہ ہے اور وہ کسی غیر عورت کے ساتھ تعلق قائم کرکے زنا میں ملوث ہوتاہے تو اس شخص کی بیوی کو اپنے شوہر پر اعتراض کا کوئی حق نہیں ہوگا، کیونکہ اس کا شوہر اپنے جسم کا خود مالک ہے، یہی بات عورت کی ہے کہ اگر وہ اپنے جسم کی مالک ہیں تو پھر وہ اپنے جسم کو جیسا چاہے استعمال کرسکتی ہیں، جہاں چاہے فحش یا عریانہ لباس زیب تن کرکے جاسکتی ہیں،اسے کوئی روک نہیں سکتا، کیونکہ وہ اپنے جسم کی مالک ہیں۔

اسی طرح اگر کوئی شخص خودکشی کرتا ہےتو کسی کو اُسے خودکشی سے روکنے کا حق نہیں ہوگا کیونکہ وہ شخص اپنے جسم کا خود مالک ہے۔

کسی بچے کے ساتھ اگر کوئی شخص جنسی زیادتی کرے اور دوسرے افراد اُسے بچانے کی کوشش کرے لیکن بچہ خود یہ اعتراض کرے کہ میں اپنے جسم کا مالک ہوں، ہمارے درمیان آپ لوگ مداخلت نہ کریں، میں اس عمل پر راضی ہوں۔

اسی طرح منشیات کے عادی  یا کسی شرابی کو اس کے غلط کام سے روکنے پر وہ یہی کہہ سکتا ہے کہ میں اپنے جسم کا مالک ہوں، میں آزاد ہوں۔

اس سوچ کے نتیجے میں اس طرح کے واقعات آج دنیا میں حقیقت کی شکل اختیار کررہے ہیں، لیکن ہم مسلمان ہیں، بدن،جسم اور زندگی کے حوالے سے ہمارا عقیدہ وایمان بالکل الگ ہے، اسی طرح جو مال ودولت آج ہمارے ہاتھوں میں ہے وہ بھی ہمارا نہیں ہے،اللہ تعالیٰ نے عطا کیا ہوا جسم وبدن بھی ہماری ملکیت نہیں ہے، بلکہ ساری دنیا ہماری ملکیت نہیں ہے،  ہمارا یہ عقیدہ  وایمان ہے کہ انسان اس دنیا میں خالی ہاتھ آتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم کو زندگی، جسم، مال، صحت، اہل وعیال اور بہت ساری نعمتیں ایک محدود وقت کے لیے عطا کرتا ہے اور پھر یہ ساری نعمتیں ہم سے واپس لے لیتا ہےاور وہیں سے ہماری دنیاوی زندگی ختم ہوتی ہے اور آخرت کی زند گی شروع ہوجاتی ہے۔اس لیے اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ ہر چیز کو ہم مسلمان اپنے نزدیک ایک امانت تصور کرتے ہیں نہ کہ اسے اپنی ملکیت سمجھتے ہیں، زندگی اور جو کچھ بھی مال ومتاع ہمارے پاس موجود ہوتا ہے ہر مسلمان کا اس سلسلے میں یہی ایمان ویقین ہوتا ہے کہ یہ سب امانت ہے۔ ہمارا جسم؛ روح  اورنفس یعنی جان سے مربوط ہے، لیکن جسم مردہ ہو یا زندہ ؛ہر حال میں ہمارے پاس اس کا احترام کیا جاتا ہے۔ اس لیے انسانی جسم بھی ایک امانت ہے اور اس امانت کو ضائع کرنا یعنی اس کا غلط استعمال کرنا یا  خود کشی کرنا اسلام میں حرام ہے، کیونکہ انسان اپنی جان کا مالک نہیں ہے کہ وہ اسے مرضی سے قتل کردے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :  

(وَلَا تَقْتُلُوا أَنفُسَكُمْ ۚ إِنَّ اللَّـهَ كَانَ بِكُمْ رَحِيمًا ، وَمَن يَفْعَلْ ذَٰلِكَ عُدْوَانًا وَظُلْمًا فَسَوْفَ نُصْلِيهِ نَارًا ۚ وَكَانَ ذَٰلِكَ عَلَى اللَّـهِ يَسِيرًا (29-30 سورۃ النساء)

ترجمہ : اور اپنے آپ کو قتل نہ کرو یقین مانو کہ اللہ تمہارے اوپر مہربان ہے، جو شخص ظلم و زیادتی کے ساتھ ایسا کرے گا اُس کو ہم ضرور آگ میں جھونکیں گے اور یہ اللہ کے لیے کوئی مشکل کام نہیں ہے۔

اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ ہر چیز کے بارے میں ہم سے پوچھ ہوگی، صرف جسم اور بدن کے حوالے سے ہی نہیں بلکہ سننے اور دیکھنے کی نعمت کے بارے میں بھی پوچھا جائے گا، اللہ تعالی فرماتا ہے :

وَلَا تَقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ ۚ إِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ كُلُّ أُولَـٰئِكَ كَانَ عَنْهُ مَسْئُولًا ﴿الاسرا: ٣٦

ترجمہ : کسی ایسی چیز کے پیچھے نہ لگو جس کا تمہیں علم نہ ہو یقیناً آنکھ، کان اور دل سب ہی کی باز پرس ہونی ہے۔

عارضی نفع پر یقین رکھنے والے دنیا کے مذاہب کے پیروکاروں کے لیے اشتہاربازی کی غرض سے اپنے جسم وبدن کی نمائش کی اجازت ہوسکتی ہے ، کیونکہ ان کا یہی یقین ہے کہ ہر فرد اپنے جسم کا خود مالک ہے، لیکن ہم مسلمانوں کے نزدیک جسم وبدن ایک امانت ہے اور اس امانت کے  بارے میں اللہ تعالیٰ ہم سے پوچھے گا، رسول اکرم ﷺ نے فرمایا : روز قیامت ابن آدم کے پاؤں اس وقت تک اللہ تعالیٰ کے پاس سے نہیں کھسک سکیں گے، جب تک اس سے چار چیزوں کے بارے میں پوچھ گچھ نہ کر لی جائے گی، اس کی عمر کے بارے میں کہ اس نے اپنی عمر کہاں فنا کی؟ اس کے جسم کے بارے میں کہ اسے کہاں کھپایا اس کے مال کے بارے میں کہ  مال کہاں سے اور کیسے کمایا؟ اور کہاں خرچ کیا؟

ذرا اس حدیث کے الفاظ پر غور کریں کہ قیامت کے روز ہمارے جسم کے سلسلے میں  بھی سوال کیا جائے گا،جسم ایک امانت ہے اور اس کی دیکھ بھال کرنا ، اسے پاک وصاف رکھنا، اسے راحت دینا، اسے بروقت کھانا فراہم کرنا، اسے نقصان نہ پہنچانا اور اس کے اعضا کو بیچنے سے پرہیز کرنا جسم کے بنیادی حقوق ہیں۔

انسانی جسم وبدن  کے حوالے سے مسلمانوں کی سوچ  اور عقیدہ  وقتی نفع  کےاصو ل  یعنی (میرا جسم میری ملکیت)کے نظریے  سے بالکل مختلف ہے۔یہ  ایک شیطانی نعرہ  ہے جودراصل جنسی شہوت کی راہیں ہموار کرتا ہے نہ کہ جنسی زیادتی کو روکتا ہے۔