جمعرات، 13 جون، 2019

Quari Nisaar Kalimi

0 تبصرے

محبِ قرآن    قاری محمد نثار کلیمی  رحمہ الله

طيب الله ثراه ويجعل الجنة مثواه

 

§     از ۔مبصرالرحمن قاسمی

شہر اورنگ آباد کو تاریخ میں محی الدین اورنگزيب عالمگیر کے خصوصی لگاؤ اور ان کے مسکن ابدی، فتاوی عالمگیری کی تدوین اور بابائے اردو مولوی عبد الحق کی سکونت سمیت مولانا ابو الاعلی مودودی صاحب کی جائے پیدائش سے جانا جاتا ہے، دور حاضر کی تاریخ کو بھی اس مبارک شہر نے  مولوی سعید صاحب، مولانا ریاض الدین فاروقی ندوی، مرحوم ڈاکٹر رفیق زکریا جیسے رجال علم وہنر عطا کیے ہیں ،البتہ اس فہرست میں ایک اور نام کا اضافہ کرنا چاہتے ہیں.. یہ نام قاری نثار کلیمی کا ہے، موصوف اگرچہ کسی دینی مدرسے کے سند یافتہ عالم دین نہیں تھے لیکن علم تجوید میں آپ نے ماہرین فن سے استفادہ کیا تھا، آپ نے سرکاری ملازمت کے دوران حیدرآباد میں علوم تجوید کے ماہرین اور بطور خاص حضرت کلیم اللہ حسینی سے خصوصی استفادہ کیا اور پھر دوران ملازمت ہی تعلیم بالغان کے پلیٹ فارم سے قرآن مجید کی تدریس کے ایک طویل سفر کا آغاز کیا، اور حیدر آباد سے پربھنی اور پھر اورنگ آباد تک اپنے تلامذہ کی ایک ایسی زنجیر بنائی جو نہ صرف طویل ہوتی گئی بلکہ اس سلسلے سے کئی سلسلے بنتے گئے اور آج حال یہ ہے کہ شہر اورنگ آباد کی تقریبا ہر گلی اور ہر محلے میں اور علاقہ مراٹھواڑہ کے ہر شہر میں قاری صاحب کے شاگردوں کی ایک لمبی قطار ہے، جن میں علماء وحفاظ بھی ہیں، انجینئرس اور ڈاکٹر بھی ہیں اور تجارت پیشہ افراد بھی، بلکہ آپ کا فیض صرف مرد حضرات تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ شہر اورنگ آباد کی کئی خواتین نے بھی آپ سے علم تجوید سیکھا اور اپنی اپنی جگہوں پر حلقات قرآن قائم کیے.

راقم الحروف کو بھی قاری نثار کلیمی صاحب سے علم تجوید سیکھنے کا موقع ملا، غالبا ریٹائرمنٹ کے بعد قاری صاحب نے خدمت قرآن کے لیے فل ٹائم وقف ہونے کا عزم کیا تھا اور جامعہ اسلامیہ کاشف العلوم اورنگ آباد  سے وابستہ ہوگئے تھے. جامعہ سے آپ کی وابستگی نے ہی آپ کے فیض کو حقیقی معنوں میں پھلنے پھولنے کا موقع دیا، اگرچہ جب آپ نے جامعہ میں تجوید کی تدریس شروع کی تھی تو جامعہ کے بعض اساتذہ نے ان کے طریقے تدریس کو بہتر نہیں سمجھا اور اندر اندر مخالفت بھی کی لیکن مرحوم استاذ محترم مولانا فاروقی کا انتخاب اور قاری صاحب کے خلوص ومقصد نے ان رکاوٹوں کو بے اثر بناکر رکھ دیا... کیونکہ کالجیس اور اسکولوں کے طلباء وطالبات اور پیشہ ور افراد کے مقابلے دینی مدرسوں کے طلباء ہی قاری صاحب کے اس بابرکت مشن کے اصلی حقدار تھے، اور یہ بات چند ہی مہینوں میں حقیقت ثابت ہوئی، جامعہ اسلامیہ کاشف العلوم قاری صاحب کے لیے ایک زرخیز زمین ثابت ہوئی اور یہاں طلباء نے موصوف کی کڑھن اور جذبے کا اندازہ لگالیا اور علم تجوید کے ساتھ ساتھ علم قراءت عشرہ میں بھی اپنے جلوے دکھائے.

قاری صاحب سے قبل بھی جامعہ میں متعدد قراء حضرات نے اپنی خدمات انجام دیں لیکن قاری نثار کلیمی صاحب نے جامعہ کی چہار  دیواری سے باہر شہر کے محلوں اور گھروں تک علم تجوید کے چراغ روشن کیے، اور شہر میں عالمی شہرت یافتہ قراء کو مدعو کرکے عالمی مظاہرہ قراءت کی پرنور محفلوں کے ذریعے ہر عام وخاص میں علم تجوید کی اہمیت اور حب قرآن کا بیج بودیا.

پیارے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا :

خيركم من تعلم القرآن وعلمه

 تم میں بہترین شخص وہ ہے جو قرآن مجید سیکھے اور دوسروں کو اس کی تعلیم دے.

امام جزری فرماتے ہیں :

  والاخذ بالتجوید حتم لازم

      من لم یجود القرآن آثم

یعنی تجوید کا علم حاصل کرنا ضروری ہے۔۔۔ جو قرآن کو تجوید کے ساتھ نہ پڑھے وہ گناہ گار ہے۔۔

علم تجوید اور قرآن مجید سے بے انتہائی لگاؤ اور تعلیم قرآن کے شوق میں قاری صاحب نے ریٹائرمنٹ کے بعد کی اپنی پوری زندگی تعلیم قرآن کے لیے وقف کردی تھی.

مرحوم أستاذ محترم نے علاقہ مراٹھواڑہ میں سیکڑوں شاگردوں کا جال بچھایا، گھر گھر گلی گلی اور مسجد مسجد قرآن مجید کی تلاوت کے حلقے قائم کیے اور چھوٹے بڑے، مرد و خواتین سمیت ہر پیشے اور ہر طبقے کے افراد میں قرآن مجید کو سیکھنے اور سکھانے کا جذبہ پیدا کیا.

اللہ تعالی آپ کے مرقد پر رحمتوں کی برکھا برساتا رہے.

خاک میں ڈھونڈتے ہیں سونا لوگ

ہم نے سونا سپرد خاک کیا