پیر، 16 مارچ، 2020

DAWAT E DEEN

0 تبصرے


دعوت دین 25 اہم باتیں

تحریر: ڈاکٹر عائض القرنی
ترجمہ: مبصرالرحمن قاسمی
 (پہلی قسط)
***
دعوت ایک ایسا فن ہے، جسے سچے داعی عمدہ طریقے سے اپناتے ہیں، جس طرح ماہر معمارمعماری میں اور صنعتکار صنعت کاری میں اپنے جوہر دکھاتے ہیں، سچے اور مخلص داعی بھی اپنے میدانِ دعوت میں اسی طرح گہرے، پائیداراورخوبصورت نقوش ثبت کرتے ہیں۔داعی کے لیے ضروری ہے کہ وہ دعوت کی فکر کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنائے، لوگوں تک اچھے سے اچھے انداز میں دعوت پہنچائے،کیونکہ داعی پیغمبر اسلام حضرت محمد کے وارث ہیں۔داعی کے لیے ضروری ہے کہ وہ پہلے دعوت کو سیکھے اور اس کے لوازمات، نتائج، اسلوب اور دعوت کے لیے درکار ہر اچھی چیز پر غور کرے، ساتھ ہی یہ بھی ضروری ہے کہ اس عہدوپیمان کے سلسلے میں اللہ سے ہمہ وقت ڈرتا رہے جسے داعی نے معلمِ خیر نبی اکرم سے حاصل کیا ہے۔ کیونکہ دعوت ایک ذمہ داری اور امانت ہے،جسے داعی نے اپنے کندھوں پر لے رکھا ہے۔
مذکورہ باتوں کے بعد یہ بات واضح ہوچکی کہ داعی سے سرزد ہونے والی کوئی بھی چھوٹی یا بڑی غلطی پوری امت کو متاثر کرتی ہے، اس لیے کسی بھی غلطی کے سرزد ہونے یا ناکامی کے ذمہ دار داعی حضرات کو ہی سمجھا جائے گا۔ داعی حضرات کے لیے ہدایت کے پیغامبر بننے کے لیے ذیل میں بیان کیے گئے چند آداب اور اصول سے اپنے آپ کو مزین کرنا ضروری ہے تاکہ  حق وخیر کو اس انداز سے پہنچا پائے جیسا اللہ رب العزت چاہتاہے۔
۱۔ اخلاص:
 کام میں اخلاص کامیابی کی کلید ہے،اس لیے دعوت کا کام کرنے والے کے لیے ضروری ہے کہ وہ دعوت کے کام کو اخلاص کے ساتھ کرے، اپنے کام میں اللہ تعالیٰ کی رضامندی کا طلبگار رہے، دنیا کے ختم ہونے والے نفع پر یکسر توجہ نہ دے بلکہ داعی کی زبان پر ہمہ وقت یہ کلمات رہے:  قُلْ مَا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ مِنْ أَجْرٍ  (سورۃ الفرقان)  ترجمہ: کہیے میں تم سے اس کام پر کوئی اجر نہیں چاہتا۔   قُلْ مَا سَأَلْتُكُم مِّنْ أَجْرٍ فَهُوَ لَكُمْ  (سورۃ  سبأ) ترجمہ: کہہ دیجیے کہ جو بدلہ میں تم سے مانگوں وہ تمہارے لئے ہے میرا بدلہ تو اللہ تعالیٰ ہی کے ذمے ہے۔
داعی کسی منصب، جگہ ومکان اور شہرت کا طلبگار نہیں ہوتا بلکہ اس کا مقصد ایک اللہ کو خوش کرنا ہے۔ وہ تو اس طرح اعلان کرتا ہے:
خذوا كل دنياكم اتركوا فؤادي حرا طليقا غريبا
فإني أعظم ثروة وإن خلتموني وحيدا سليبا
ترجمہ: اے لوگو! تم ساری دنیا لے جاؤ، اور میرے دل کو آزاد اوراجنبی کی طرح چھوڑدو، اگر تم نے مجھے تن ِتنہا اور لوٹا  ہوا بھی چھوڑا تو میرے پاس سب سے بڑی دولت ہے۔
۲- مقصد کا تعین:
 داعی کے سامنے اس کا مقصد واضح ہو،دعوت کا مقصد دین کا قیام، لوگوں کی اصلاح اور دنیا سے فساد کا خاتمہ ہے۔داعی اس ارشاد ربانی کی عملی مثال ہو: إنْ أُرِيدُ إِلَّا الْإِصْلَاحَ مَا اسْتَطَعْتُ ۚ وَمَا تَوْفِيقِي إِلَّا بِاللَّـهِ ۚ عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ وَإِلَيْهِ أُنِيبُ (ترجمہ: میرا ارادہ تو اپنی طاقت بھر اصلاح کرنے کا ہی ہے۔ میری توفیق اللہ ہی کی مدد سے ہے، اسی پر میرا بھروسہ ہے اور اسی کی طرف میں رجوع کرتا ہوں)۔
۳- علم نافع کی طلب:
 داعی کے لیے ضروری ہے کہ وہ نبی اکرم کی وراثت یعنی علم نافع سے اپنے آپ کو مزین کرے، تاکہ علم وبصیرت کی بنیاد پر دعوت دے سکے، اللہ تعالی کا ارشاد ہے: : قُلْ هَـٰذِهِ سَبِيلِي أَدْعُو إِلَى اللَّـهِ ۚ عَلَىٰ بَصِيرَةٍ أَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِي ۖ وَسُبْحَانَ اللَّـهِ وَمَا أَنَا مِنَ الْمُشْرِكِينَ (سورہ یوسف) ترجمہ: ”آپ کہہ دیجیے میری راہ یہی ہے۔ میں اور میرے متبعین اللہ کی طرف بلا رہے ہیں، پورے یقین اور اعتماد کے ساتھ۔ اور اللہ پاک ہے اور میں مشرکوں میں نہیں“۔ مجاہد رحمہ اللہ کے بقول اس آیت میں ”بصیرۃ“سے”علم“مراد ہے، جبکہ دیگر مفسرین آیت بالا میں مذکور لفظ ”بصیرت“سے حکمت اور توحید مراد لیتے ہیں۔ دراصل علم، حکمت اور توحید یہ تینوں معنی ایک دوسرے سے مربوط ہیں، یقینا داعی کے لیے موحد ہونا یعنی اللہ تعالی ٰ کی وحدانیت پر یقین کرنا ضروری ہے، وہ اللہ کے سوا کسی سے ڈرنے والا نہ ہو، نہ اللہ تعالی ٰ کے سوا کسی سے امید لگانے والا ہو اور نہ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کا خوف اس کے دل میں ہو اورسب سے زیادہ محبت کسی کی ہو تو صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی اور پھر اس کے رسول کی۔
داعی کی اہم صفت یہ ہے کہ اس کو دین کا علم ہو،تاکہ لوگوں کو علم ویقین کی بنیاد پر دعوت دے سکے، جتنا ہوسکے اسے قرآن مجید حفظ یاد ہو، اور نبی کریم کی احادیث کا علم ہو، صحیح اور ضعیف احادیث کا بخوبی اندازہ ہو۔
اسی طرح سفر وحضر میں اوقات کی پابندی، اپنی محفلوں میں علمی مسائل پر غوروفکر اور علم کے طلبگاروں کے ساتھ مباحثے کی ہر داعی میں تڑپ ہونی چاہیے۔ اور بڑوں کا ادب چھوٹوں پر شفقت اور علم والوں اور تجربہ کار افراد سے استفادے کی ہر داعی میں جستجو ہونا چاہیے۔ اگر داعی میں یہ خوبیاں پائی جاتی ہیں تو اللہ تعالیٰ اسے اس کے مقصد میں کامیاب کرتا ہے اور اس کی بات  سے لوگوں کو فائدہ ہوتا ہے۔
۴پرتعیش لوگوں کو اپنا نمونہ نہ بنائے۔
داعی کو پرتعیش وآسودہ حال لوگوں کی طرح زندگی نہیں گذارنی چاہیے، بلکہ عاجزی اور انکساری کو اپنی عادت بنانا چاہیے، اور ہر داعی کو یہ خیال رہے کہ وہ غلطیوں سے پاک نہیں ہے، اسی طرح اس کے ذہن میں یہ بات بھی رہے کہ عام لوگ بھی غلطیوں سے پاک نہیں ہے،اس کے ذہن میں ہمیشہ یہ آیت رہنا چاہیے:  وَلَوْلَا فَضْلُ اللَّـهِ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَتُهُ مَا زَكَىٰ مِنكُم مِّنْ أَحَدٍ أَبَدًا وَلَـٰكِنَّ اللَّـهَ يُزَكِّي مَن  يَشَاءُ ۗ وَاللَّـهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ  (سورۃ النور:۲۱) ترجمہ: ”اور اگر اللہ تعالیٰ کا فضل وکرم تم پر نہ ہوتا تو تم میں سے کوئی کبھی بھی پاک صاف نہ ہوتا۔ لیکن اللہ تعالیٰ جسے پاک کرنا چاہے، کر دیتا ہے۔ اور اللہ سب سننے والاسب جاننے والا ہے“۔
صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہی کامل اور تمام عیوب سے پاک ہے جبکہ انسان غلطیوں کا پتلا ہے، لہٰذا داعی کو اس لحاظ سے سوچنا چاہیے،چاہے داعی مرد ہو یا خاتون ہو، ارشاد باری تعالی ہے:  إِنَّ رَبَّكَ وَاسِعُ الْمَغْفِرَةِ ۚ هُوَ أَعْلَمُ بِكُمْ إِذْ أَنشَأَكُم مِّنَ الْأَرْضِ (سورۃ النجم:۲۳)ترجمہ: ”بیشک تیرا رب بہت کشادہ مغفرت والا ہے، وہ تمہیں بخوبی جانتا ہے جبکہ اس نے تمہیں زمین سے پیدا کیا“۔اللہ تعالی نے ہمیں مٹی سے بنایا لہٰذا ہم ہر حال میں ناقص ونامکمل ہیں، اسی لیے نبی کریم لوگوں کے ساتھ ان کے عیب کو مد نظر رکھ کر معاملات فرماتے تھے، آپ ان کے نقص اور کمی کو دیکھ کر ان کی مدد کرتے تھے، ان کی ہمت افزائی فرماتے تھے اور ان کا ہاتھ پکڑ کر راہ دکھاتے تھے۔
جو داعی آئیڈیالسٹ ہو وہ لوگوں کی اصلاح نہیں کرسکتا، داعی کی مثالی زندگی آج کے دور میں دراصل اس کی غلطی ہے، خصوصا ایسے زمانے میں جب نہ نبی موجود ہیں نہ صحابہ ہیں اور اہل علم کی قلت ہے اور خواہشات کی بھرمار ہے۔ جبکہ چہار جانب سے بدعات وخرافات کا دور دورہ ہے، خواہشات نے ہمیں لے ڈوبا ہے اور عالمی صہیونی منصوبہ بند ذرائع کے ساتھ ہماری غیر شعوری جنگ جاری ہے۔لہٰذا ایسے وقت میں ایک عالمِ دین اور ایک داعیِ دین کی ذمہ داری ہے کہ وہ نئی نسل کے ساتھ ان کے مزاج کے مطابق معاملہ کریں اور آج کی نئی نسل سے اس بات کی توقع رکھے کہ ان سے غلطیاں سرزد ہوسکتی ہیں۔


0 تبصرے


    آنکھوں کی ٹھنڈک اورمستقبل کی شخصیت


تحریر : مبصرالرحمن قاسمی
اولاد دنیا وآخرت میں ہمارے لیے آنکھوں کی ٹھنڈک ہیں، وہ رحمن کے بندے اور مساجد کو آباد کرنے والے ہیں، وہ مستقبل کے انسان ہیں، یہی بچے ماضي و مستقبل کے علماء حفاظ، داعی، معلم، مفکر، انجینئرس، طبیب، قائد، وزیر اور مزدور وکسان ہیں۔ وہ معاشروں کی بنیاد  اور سماج کی عمارتوں کی اساس اور اینٹیں ہیں۔ ان ہی کے بازؤں سے معاشرے کی عمارتوں کو قوت وطاقت ملتی ہے۔ یہی وہ رجال کار ہیں جنھوں نے ملکوں کو فتح کیا اور دین کو عام کیا اور بندوں پر حق وانصاف کے ساتھ حکمرانی کی۔
اولاد  بندوں پر اللہ تعالی کا احسان ہیں ، ارشاد باری ہے : ترجمہ : اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے تم میں سے ہی تمہاری بیویاں پیدا کیں اور تمہاری بیویوں سے تمہارے لیے تمہارے بیٹے اور پوتے پیدا کیے اور تمہیں اچھی اچھی چیزیں کھانے کو دیں۔(النحل ۷۲)
حضرت احنف بن قیس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے پوچھا کہیے! اولاد کے سلسلے میں کیا سلوک ہونا چاہئے؟ احنف بن قیس نے کہا امیرالمومنین اولاد ہمارے قلوب کا ثمرہ ہیں۔ ہماری حیثیت ان کے لئے زمین کی طرح ہے۔ جو نہایت نرم اوربے ضرر ہے اورہمارا وجود ان کے لئے سایہ فگن آسمان کی طرح ہے اور ہم انہیں کے ذریعے بڑے بڑے کام انجام دینے کی ہمت کرتے ہیں۔ اگر وہ کچھ آپ سے مطالبہ کریں تو ان کے دلوں کا غم دور کیجئے! نتیجہ میں وہ آپ سے محبت کریں گے آپ کی پدرانہ کوششوں کو پسند کریں گے اورکبھی ان پر ناقابل برداشت بوجھ نہ بنیئے کہ وہ آپ کی زندگی سے اکتا جائیں اور آپ کی موت کے خواہاں ہوں۔ آپ کے قریب آنے سے نفرت کریں۔
 یقینا چھوٹے بچے امت کی امید اور آئندہ نسلوں کا مستقبل ہیں، یہ بچے مستقبل کے ترجمان قرآن، امام التفسیر فقیہ عصر اور حبر الامہ عبداللہ بن عباس اور علی بن ابی طالب ہیں، بچپن میں ہی امام علی بن ابی طالب نے اسلام لایا اور مکہ کے بڑے بڑے لوگوں سے آگے نکل گئے، اسامہ بن زید بھی بچے ہی تھے، جو رسول اللہ ﷺ کے لاڈلے بنے اور رسول اللہ ﷺ نے انھیں شام کی جانب مسلمانوں کے اس لشکر کا کمانڈر بنایا، جس میں بڑے بڑے مہاجر اور انصاری صحابہ شامل تھے۔ اس وقت ان کی عمر بیس برس بھی نہیں تھی۔ سعد بن وقاص اور زید بن ثابت کا شمار بھی بچوں میں ہوتا تھا، وہ سترہ برس کی عمر میں ہی مشرف با اسلام ہوگئے تھے اور صحابہ کرام کے درمیان اپنی ایک خاص خصوصیت کی وجہ سے مشہور تھے، آپ کو مستجاب الدعوہ ہونے کا شرف حاصل تھا۔ جبکہ زید بن ثابت کو گیارہ برس کی عمر میں ہی جناب رسول اللہ ﷺ نے اپنا رازداں بنادیا تھا اور یہودیوں کی زبان سیکھنے کی انھیں ذمہ داری دے دی تھی، انہی کے بارے میں خلیفہ راشد حضرت ابوبکر ؓ نے کہا تھا : تم ایک عقلمند ہوشیار نوجوان انسان ہو ، ہم تم پر کوئی تہمت نہیں لگاسکتے، تم تو رسول اللہ ﷺ کے لیے وحی کو لکھا کرتے تھے۔ یہ ابوہریرہ ؓ ہیں، جنھوں نے جناب رسول اللہ ﷺ کے زیر تربیت عمر کا ایک طویل حصہ گزارا، اور  اللہ تعالی نے ان سے حدیث رسول کی حفاظت کا کام لیا، آپ کا سینہ احادیث رسول کے ذخیرے سے معمور تھا۔ اسی طرح آپ کے بعد امام بخاری، امام مسلم، ائمہ اربعہ کا بچپن اور ان کا مستقبل ہمارے سامنے ہے۔
حضرت عمار بن یاسر ؓ  ابھی جوانی کی جانب گامزن ہی تھے، فتنوں کے زمانے سے دوچار ہوئے، ان کی آنکھوں کے سامنے ان کے والد اور والدہ کو شہید کردیا گیا لیکن اس نوجوان کے لیے دین اسلام اور حب رسول ﷺ کی راہ میں کوئی چیز رکاوٹ نہیں بنی۔
 محمد بن قاسم کا شمار بھی بچوں میں ہی ہوتا تھا، لیکن 17 برس کا یہ نوجوان برصغیر میں اسلامی فتوحات کا شہسوار اور فاتح سند کے القاب سے نوازا گیا۔ اسی طرح محمد فاتح کی عمر 22 برس ہی تھی تو ان کے ہاتھ پر خلافت کی بیعت لی گئی اور جناب رسول اللہ ﷺ نے غالبا ان ہی کے بارے میں پیش گوئی فرمائی تھی : یقینا تم قسطنطنیہ فتح کر لو گے، وہ امیر بھی کیا باکمال ہوگا، وہ لشکر بھی کیا باکمال ہوگا. (مسند احمد (.
ہمارے بچے ہمارے بعد ہمارے جانشین ہونگے اور موت کے بعد ہماری حیات اور اعمال صالحہ کو جاری رکھنے کا ذریعہ ہونگے، جناب رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : جب انسان کی موت ہوجاتی ہے تو اس کے اعمال کا سلسلہ رک جاتا ہے،لیکن تین چیزیں باقی رہتی ہیں۔ ایک صدقہ جاریہ ،دوسری شئے وہ علم جس سے لوگ فائدہ اٹھائیں اور تیسری چیز نیک اولاد جو اس کے لئے دعاکرے ۔ (رواہ مسلم(
مستقبل کا انسان
کیا آپ یہ نہیں چاہتے کہ آپ کی اولاد میں دلیری، بہادری اور شجاعت کی اعلی صفات پیدا ہوں، اللہ تعالی نے مومنین کے درمیان موجود ایسی صفات اور خصوصیات کے حامل مردوں کی ثناخوانی فرمائی ہے: ایسے لوگ جنہیں تجارت اور خرید وفروخت اللہ کے ذکر سے اور نماز کے قائم کرنے اور زکوٰة ادا کرنے سے غافل نہیں کرتی اس دن سے ڈرتے ہیں جس دن بہت سے دل اور بہت سی آنکھیں الٹ پلٹ ہوجائیں گی. (سورۃ النور : ۳۷)
یہی لوگ دراصل مرد کہلائے جانے کے مستحق ہیں، اگر دنیا ان کے سامنے اپنی ساری زیب زینت،لذتوں اور خوبیوں کے ساتھ بھی آجائے تو پل بھر کے لیے بھی دنیا کی یہ دھوکہ بازیاں انھیں رب تعالی کی اطاعت سے غافل نہیں کرسکتیں۔
مستقبل کا انسان تیار کرنے کی راہ میں پہلا قدم انسان کے ایمان ویقین کی تربیت ہے، اللہ تعالی پر پختہ ایمان ویقین کی بنیاد پر ہی وہ اپنے ہر کام میں خدائے تعالی کو حاضر وناظر جانے گا، پھر وہ کسی بھی معصیت یا نافرمانی کے کام کے سامنے کمزور نہیں ہوسکتا، اگر اس کا ایمان پختہ ہوتو دنیا کا جدید سے جدید ترین آلہ، راتوں کی مجلسیں اور سوشل میڈیا جیسے فتنے متاثر نہیں کرسکتے۔ ایمان ہی ایک ایسی چیز ہے جو بچوں میں نیک کام اور اصلاح نفس کے لیے مثبت توانائی فراہم کرتا ہے، ایمان کی تازگی کی وجہ سے بچوں میں اپنے معاشرے وسماج کو نفع پہنچانے کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ ایمان دل کی سختی، برے اخلاق اور کسی پر ظلم وزیادتی سے روکتا ہے اور ایمان ہی اسے ایک ایسی مضبوط شخصیت میں ڈھالتا ہے جو ہزار مصائب اور آزمائشوں کے باوجود اللہ تعالی کےعہد ووفا پر ثابت قدم رکھتا ہے۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے : ترجمہ : مومنوں میں (ایسے) لوگ بھی ہیں جنہوں نے جو عہد اللہ تعالیٰ سے کیا تھا انہیں سچا کر دکھایا، بعض نے تو اپنا عہد پورا کر دیا اور بعض (موقعہ کے) منتظر ہیں اور انہوں نے کوئی تبدیلی نہیں کی۔(الأحزاب:23)
مستقبل کا انسان تیار کرنے کے لیے ہر باپ کو ابتدا سے ہی ملت ابراہیمی کے نہج پر اولاد کی  تربیت کرنا ہوگا، خوشحالی اور مصیبت میں حضرت ایوب علیہ السلام کے صبر کی تعلیم دینی ہوگی، نوجوانی میں حضرت یوسف علیہ السلام کی پاکدامنی وعفت ، حضرت موسی علیہ السلام کی طاقت وامانت، حضرت اسماعیل علیہ السلام کی اطاعت وفرمانبرداری، حضرت سلیمان علیہ السلام کی حکمت وخاکساری، حضرت عیسی علیہ السلام کی نرمی ورحمت اور پیارے نبی ﷺ کی سیرت واخلاق کو سکھانا ہوگا۔
ایک باپ کی حیثیت سے اولاد کے لیے لذیذ کھانے اور خوبصورت اور قیمتی کپڑے فراہم کرنا ہی آپ کی اپنی اولاد سے حقیقی محبت نہیں ہے، بلکہ اولاد سے محبت میں یہ بھی شامل ہے کہ آپ ان کی آخرت کی بھی فکر کریں، ایسا نہ ہوکہ خدائے تعالی کی نافرمانی کے انجام کو جانتے ہوئے بھی اولاد سے پیار کے بہانے آپ انھیں خدائے تعالی کی معصیت ونافرمانی کے کاموں کو کرنے کی اجازت دیں، اللہ تعالی کا حکم ہے ، ترجمہ : (اے ایمان والو! تم اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو اس آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن انسان ہیں اور پتھر جس پر سخت دل مضبوط فرشتے مقرر ہیں جنہیں جو حکم اللہ تعالیٰ دیتا ہے اس کی نافرمانی نہیں کرتے بلکہ جو حکم دیا جائے بجا تے ہیں) سورة تحريم :06.



0 تبصرے

تحرير :  دکتور جاسم المطوع
ترجمہ :  مبصرالرحمن قاسمی

اولاد کی تربیت اور سات قسم کے والدین
میں نے ایک باپ کو اپنے لڑکے کو ڈانٹ ڈپٹ کرتے دیکھا، وہ روزہ مرہ کی ورزش نہ کرنے پر لڑکے پر غصہ ہورہے تھے، میں نے سوچا کہ لڑکا مریض ہوگا اور شاید ڈاکٹر نے اس لڑکے کےلیے بطور علاج یومیہ ورزش تجویز کی ہوگی، لہذا ورزش نہ کرنے پر والد کو غصہ آیا ہو، لیکن جب میں نے اس والد سے غصے کی وجہ پوچھی تو بڑی حیرانی ہوئی، انھوں نے بتایا کہ ورزش زندگی میں ایک اہم ترین عمل ہے، میں اپنے بچوں پر زور دیتا ہوں کہ وہ روزانہ کم از کم مکمل ایک گھنٹہ کھیلیں اور ورزش کریں، یہ والد جن کے بارے میں ہم بات کررہے ہیں اپنی اولاد کی تربیت کے صرف دو پہلووں پر زیادہ توجہ دیتے ہیں، لیکن تیسرے پہلو کو نظر انداز کردیتے ہیں۔
تربیت کا پہلا پہلو ورزش اور دوسرا ان کی تعلیم ہے، ان کے نزدیک نفسیاتی، اخلاقی اور ایمانی تربیت کا کوئی اعتبار نہیں ہے، یہی وجہ ہے کہ ان کا لڑکا ایک بہتر اسپورٹس مین اور کامیاب طالب علم کے طور پر تو نشوونما پارہا ہے لیکن وہ دوسری طرف نفسیاتی، اخلاقی اور دینی اعتبار سے کمزور ہوتا جارہا ہے۔ یہ عمل اولاد کی صحیح تربیت میں ایک رکاوٹ ہے۔ اگرچہ وہ لڑکا زندگی میں ایک کامیاب اسپورٹس مین اور تعلیم یافتہ انسان بن جائے لیکن تربیت کے ایک اہم پہلو کو نظر انداز کرنے کی وجہ سے یہ لڑکا اپنی زندگی میں حقیقی کامیابی حاصل نہیں کرسکتا۔ تربیت کے سلسلے میں ماں باپ کی کئی قسمیں ہیں اور ان میں سے ایک یہ قسم ہے جسے ہم نے بیان کیا۔ اس طرح کے والد کو ہم اسپورٹ اور ایجوکیشن فادر کی قسم میں شمار کرسکتے ہیں۔
مذہب کا سخت پابند باپ :
یہ دوسری قسم ہے، مذہبی اعتبار سے سخت باپ میں بھی ہم پہلی قسم کے باپ کی طرح صفات پاتے ہیں، لیکن اس کی ساری شدت اور سختی تربیت کے صرف دینی پہلو پر ہوتی ہے، اس کا برتاؤ اولاد کے ساتھ کچھ اس طرح ہوتا ہے کہ وہ جب بھی اولاد کو نماز کی تاکید کرتا ہے تو ڈانٹ ڈپٹ اور پٹائی کا سہارا لیتا ہے، ساتھ ہی اولاد کی طرف سے کسی ناجائز اور شریعت مخالف کام سرزد ہونے پر انھیں سخت سزا دیتا ہے۔اور اولاد کو عبادتوں کی جانب راغب کرنے کے لیے تشدد کا سہارا لیتا ہے۔ اس قسم کے والد کے نزدیک بات چیت اور سمجھانا کوئی معنی نہیں رکھتا ، ساتھ ہی اولاد کی تعلیم یا ان کے کھیل کود کے تربیتی پہلو پر اس کی کوئی توجہ نہیں ہوتی ہے۔
لاپرواہ باپ :
یہ تیسری قسم ہے، اس قسم کے باپ کو اپنی اولاد کو لفظ نہیں کہنے کی بھی ہمت نہیں ہوتی ہے، وہ اپنی اولاد کو نہ اخلاق کی تعلیم دینے اور نہ انھیں عبادتوں کی ترغیب دینے کو ضروری سمجھتا ہے بلکہ وہ اولاد کی ہر جائز وناجائز خوشی پر لبیک کہتا ہے اور ان کی خوشی کی خاطر انھیں ان کی خواہشات کے مطابق زندگی گزارنے کا اختیار دیتا ہے۔
مال جمع کرنے والا باپ :
اس قسم کے باپ خاندان میں اپنی ذمہ داری بس یہی سمجھتے ہیں کہ ان کا اولاد کی تربیت کے سلسلے میں بس یہی کام ہے کہ وہ ان کے مستقبل کے لیے مال جمع کریں، اس قسم کے باپ اولاد کی خاطر اپنے آپ کو خوب تھکاتے ہیں اور مال جمع کرنے میں دن رات لگے رہتے ہیں اور وہ اسی کو اولاد کی تربیت کا اہم حصہ سمجھتے ہیں۔
تجارت پیشہ باپ :
اس قسم کے باپ یہ سمجھتے ہیں کہ اپنے کاروبار اور تجارت کو اپنی اولاد کو سکھانا ہی اولاد کی تربیت کا سب سے اہم حصہ ہے، وہ اپنی اولاد میں بچپن سے ہی کاروبار کے ہنرکو منتقل کرنے کے لیے کوشاں رہتے ہیں تاکہ بڑے ہونے کے بعد یہ اولاد ان کی طرح ہی تاجر اور کاروباری بنیں۔
گھر سے غائب اور اولاد کے امور سے لاعلم باپ :
یہ سب سے خطرناک قسم ہے، کیونکہ اس طرح کے باپ کو اپنی اولاد کی تربیت کی کوئی فکر نہیں ہوتی ہے، اسے اولاد کی تربیت کے کسی بھی گوشے سے کوئی دلچسپی نہیں ہوتی ہے، چاہے ان کی تعلیم کا مسئلہ ہو، چاہے ان کی دینی تربیت ہو یاپھر ان کی صحت سے متعلق امور ہوں۔
دوست مزاج اور بردبار باپ :
باپ کی  یہ ساتویں اور مثالی قسم ہے، اس قسم کے باپ کو مثالی باپ کہا جاتا ہے جو اپنی اولاد کے ساتھ ایک دوست اور عزیز کی طرح رہتا ہے، وہ ہر وقت اور ہر لمحہ ان سے قریب ہوتا ہے، اگر وہ بچے ہیں تو ان کے ساتھ بچوں کی طرح کھیلتا ہے، اگر وہ بڑی عمر کے ہیں تو ان کے ساتھ ان کے امور میں رائے مشورے اور بات چیت کرتا ہے،وہ اپنی اولاد کے ساتھ بردباری کا رویہ اپناتا ہے، شدت  اور غصے سے مکمل پرہیز کرتا ہے، اولاد کے ساتھ اس کا رویہ نرمی کا ہوتا ہے اور بردباری کے ساتھ وہ اولاد کو اخلاق واقدار کے گھونٹ پلاتا ہے۔ بردبار باپ اولاد کے ساتھ خوشگوار تعلقات اور بات چیت کے ذریعے ان کی بہتر تربیت کرتا ہے، وہ گالی گلوج ، زیادتی، مارپیٹ اور چیخ وپکار کا سہارا نہیں لیتا ہے بلکہ وہ اولاد میں محبت وشفقت سے اعلی اخلاق پیدا کرنا پسند کرتا ہے۔
اوپربیان کی گئیں چھ قسمیں اولاد کی تربیت کے لیے مفید نہیں ہیں اور نہ ہی تربیتی اعتبار سے درست ہیں۔ ان چھ قسم کے والدین سے اولاد کی بہتر تربیت کی توقع نہیں کی جاسکتی، البتہ ساتویں قسم تربیت اولاد کے لیے ایک مثال اور بہترین نمونہ ہے۔
بسا اوقات یہ ممکن ہے کہ ماں اور باپ دونوں الگ الگ قسم سے ہوں، مثلا باپ تاجر ہواور ماں اوپر بیان کی گئی قسموں میں سے چھٹی قسم سے ہو یعنی اولاد کی تربیت کے سلسلے میں لاپرواہ اور ہمیشہ غائب رہنے والی ہوں تو اس طرح کے حالات میں گھر کے اندر تربیتی بحران پیدا ہوجاتا ہے۔
کبھی باپ دوسری قسم سے ہوتا ہے یعنی وہ مذہبی طور پر بہت سخت ہوتا ہے اور ماں پہلی قسم سے تعلق رکھتی ہیں یعنی وہ اولاد کے اسپورٹس اور تعلیم کی خواہش مند ہوتی ہیں۔اس طرح کی صورتحال میں اولاد کی تربیت کا کام بڑے تذبذب اور غیریقینی حالت کا شکار ہوجاتا ہے،اس طرح کے حالات سے بچوں کے نفسیاتی توازن پر اثر پڑتا ہے۔
اس لیے والدین کے درمیان اپنی اولاد کی تربیتی پالیسی پر اتفاق ہونا بہت ضروری ہے، والدین جس قدر ایک دوسرے سے قریب اور ایک دوسرے کے ہم خیال اور متفق ہوتے ہیں، اسی قدر اولاد پر مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ زیادہ تر ماؤں اور باپوں کے درمیان ہر بات میں اتفاق کی توقع نہیں کی جاسکتی ہے لیکن اولاد کی تربیت کے لیے صحیح اور مناسب ماڈل اور نمونے کو جاننا اور اس پر عمل کرنا دونوں کے لیے بہت ضروری ہے۔
آخری اور اہم بات۔۔۔۔ اولاد کی بہتر سے بہتر تربیت کے لیے والدین کو ایمانی، نفسیاتی، اخلاقی، جنسی اور سماجی پہلؤوں پر توجہ دینا چاہیے اور ان تمام پہلؤوں کو ضروری سمجھنا چاہیے۔