منگل، 9 اکتوبر، 2012

Watan se Mohabbat Aur Islam

0 تبصرے


ڈاکٹر مبصرالرحمن قاسمی 

وطن سے محبت ۔۔ دین اسلام کی رہنمائی

((ما أطيبَك من بلدٍ! وما أحبَّك إليَّ! ولولا أن قومي أخرجوني منك، ما سكنتُ غيرَك)) رواه الترمذي.

"اے وطن ! کتنا پاکیزہ شہر ہے تو اور تو کتنا مجھے محبوب ہے، میری قوم نے مجھے تجھ سے نہ نکالا ہوتا تو میں تیرے سوا کہیں اور نہ رہتا"
 
یہ کلمات پیغمبر اسلام حضرت محمد ﷺ نے اس وقت  کہے تھے جب آپ مکہ مکرمہ کو چھوڑ کر مدینہ کی طرف ہجرت کے لیے نکل رہے تھے، یہ کلمات وطن سے، اس کے درودیور سے، اس کے پہاڑوں، وادیوں، چٹانوں، اس کی آب وہوا اور گردوغبار سے  آپ ﷺ کی  گہری محبت  اورتعلق کی جانب اشارہ کرتے ہیں۔
صحیح حدیث میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا روایت فرماتی ہیں کہ نبی کریم ﷺ علاج کے طور پر دم کرتے تو یہ دعا پڑھتے تھے:
 ((باسم الله، تُرْبَةُ أَرْضِنا، ورِيقَةُ بَعْضِنا، يَشْفَى سقيمُنا بإذن ربنا))؛ رواه البخاري ومسلم.
’’اﷲ کے نام سے یہ ہماری زمین کی مٹی ہے اور ہمارے بعض بزرگوں کا لعاب (تھوک)، یہ شفاء بخشے گا ہمارے بیمار کو، ہمارے رب کے حکم سے‘‘ (متفق علیہ)
اللہ تعالی نے محبوب کی بو  اور اس کے متعلقات میں بھی شفاء رکھی ہے، اسی لیے آپ نے اس دعاء میں  زمین کی مٹی کی جانب خاص اشارہ فرمایا۔ جیسا کہ یوسف علیہ السلام کی بینائی محبوب بیٹے کے قمیص کو ان پر ڈالنے کی وجہ سے بحکم خداوندی لوٹ آئی تھی۔
مکہ مکرمہ وہ شہر تھا جہاں آپ کی ولادت ہوئی،  جہاں آپ ﷺ نے پرورش پائی،  جہاں آپ ﷺ  کی شادی ہوئی، جہاں کی یادیں کبھی بھلائی نہیں جاسکتی تھیں، لہذا وطن انسان کی یادوں کا مجموعہ ہوتا ہے، جس میں اس کے دوست ہوتے ہیں احباب ہوتے ہیں اور  اس سے انسان کا آبائی تعلق ہوتا ہے۔
یقینا وطن سے محبت ہر دل میں  پوشیدہ ہوتی ہے، وطن سے محبت ایک فطری جذبہ ہے، وطن سے محبت وجدان میں محبت وعقیدت کے تخم کو پیدا کرتی ہے، شعراء کے جذبات کو مہمیز کرتی ہے،اور اس سے ادباء کے منبرومحراب جگمگاتے ہیں۔
ارفعی القزوینی کے بقول: اگر مادروطن سے نفسی لگاؤ نہ ہوتا تو آیت قرآنی :(ترجمہ) اے پیغمبر جس اللہ نے تم پر قرآن کے احکام کو فرض کیا ہے وہ تمہیں پہلی جگہ لوٹا دے گا. [سورۃ القصص 85]  نازل نہ ہوتی۔
آیت کی تفسیر میں آیا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے نبی کو مکہ سے نکالے جانے کے بعد عنقریب مکہ لوٹائے گا۔
وطن سے محبت ایک ایسا جذبہ ہے جس سے انبیاء علیہم السلام کے دل بھی خالی نہیں رہے، یہ ایسا شوق و ولولہ ہے جس میں صحابہ کرام اور امت کے عمدہ ترین افراد کے قلوب بھی دیوانے ہوئے- حکماء کے بقول رُشد کی علامت یہ ہے کہ نفس اپنے وطن کی جانب لپکنے لگے۔ادباء کے بقول: اگر تمہیں کسی فرد کو پہچاننا ہو تو یہ دیکھو کہ اپنے وطن کے تئیں اس کے احساسات وجذبات کیا ہیں؟ عمر بن خطاب ؓ فرماتے ہیں: اللہ تعالیٰ ملکوں کو وطن کی محبت سے آبادکرے۔
یقینا کوئی ملک اس وقت تک ترقی نہیں کرسکتا جب تک کہ اس کے باشندے اس سے محبت نہ کرنے لگیں، سیدنا عمر بن خطاب ؓ  کا قول ہے : اگر وطن سے محبت نہ ہو تو بدکار لوگوں کا ملک برباد ہوجائے''
وطن سے محبت انسان کی ایک عمدہ صفت اور خوبی ہے، جسے اللہ تعالیٰ نے ہر انسان میں ودیعت فرمائی ہے، انسان جس جگہ پیدا ہوتا ہے، تو وہاں کا پانی پیتا ہے، وہاں کی ہواؤں میں سانس لیتا ہے ، لہٰذا اس کی فطرت وہاں کی ہواؤں اور پانی سے مربوط ہوجاتی ہے؛ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں وطن کی محبت کو حب نفس کے ساتھ  بیان فرمایا۔ 
لا يَنْهَاكُمُ اللَّهُ عَنِ الَّذِينَ لَمْ يُقَاتِلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَلَمْ يُخْرِجُوكُم مِّن دِيَارِكُمْ أَن تَبَرُّوهُمْ وَتُقْسِطُوا إِلَيْهِمْ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ
(ترجمہ): جن لوگوں نے تم سے دین کے بارے میں جنگ نہیں کی اور نہ تم کو تمہارے گھروں سے نکالا انکے ساتھ بھلائی اور انصاف کا سلوک کرنے سے اللہ تم کو منع نہیں کرتا۔ اللہ تو انصاف کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے(۔ [سورۃ الممتحنۃ: 08]
وطن سے محبت کے باب میں سید الوری ﷺ کی ذات بابرکت تمام انسانوں کے لیے  بہترین نمونہ ہے، آپﷺ نے وطن سے محبت وعقیدت کو کبھی راز میں نہیں رکھا بلکہ مختلف موقعوں پر اپنے محبوب شہر مکہ مکرمہ سے دلی محبت وعقیدت اور گہرے تعلق کا اظہار فرمایا۔
امام ذھبی ؒ محبوبات نبوی ﷺ گناتے ہوئے رقمطرار ہیں:" آپ ﷺ حضرت عائشہ اور ان کے والد سے محبت کرتے تھے، اسامہ سے محبت کرتے تھے، اپنے نواسوں سے محبت کرتے تھے، میٹھی چیز اور شہد پسند فرماتے تھے، احد  کے پہاڑ سے محبت کا اظہار فرماتے تھے اور آپ ﷺ اپنے وطن سے محبت وپیار کا اظہار فرماتے تھے"۔
وحی  کے آغاز کے واقعے پر ہم غورکریں، جب سیدہ خدیجہ کبری ؓ آپ ﷺ کو اپنے چچا زاد  بھائی ورقہ بن نوفل بن اسد بن عبدالعزی کے پاس لے گئیں اور کہا: بھائی جان! آپ اپنے بھتیجے کی بات سنیں۔ ورقہ نے کہا: بھتیجے! تم کیا دیکھتے ہو؟ رسول اللہ ﷺ نے جو کچھ دیکھا تھا بیان فرمادیا۔ اس پر ورقہ نے آپ ﷺ سے کہا: یہ تو وہی ناموس ہے جسے اللہ نے موسیؑ پر نازل کیا تھا، کاش میں اس وقت توانا ہوتا، کاش میں اس وقت زندہ ہوتا، جب آپ کی قوم آپ کو نکال دے گی۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اچھا! تو کیا یہ لوگ مجھے نکال دیں گے؟ ورقہ نے کہا: ہاں! جب بھی کوئی آدمی اس طرح کا پیغام لایا جیسا تم لائے ہوتو اس سے ضرور دشمنی کی گئی اور اگر میں نے تمہارا زمانہ پالیا تو تمہاری زبردست مددکروں گا۔
لہٰذا ہجرت کے موقع پر جب آپ ﷺ مکہ سے نکل رہے تھے، ایک بلند ٹیلے پر ٹھہرگئے، مکہ کی جانب الوداعی نظریں ڈالی، آنکھیں اشک بار تھیں، آپ ﷺ مکہ کی وادیوں اور اس کے پہاڑوں کو الوداع الوداع کہتے ہوئے فرمارہے تھے: اللہ کی قسم! اے مکہ! تو اللہ کی سرزمین میں سب سے بہتر ہے، اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب ہے، اگر مجھے نکالا نہ جاتا تو کبھی تجھے الوداع نہ کہتا"۔
اللہ  کی قسم ! صدق وسچائی کے جذبات واحساسات سے بھرے ان کلمات کا اگر مکہ جواب دیدیتا تو ضرور مکہ کی وادیاں چیخ اٹھتیں۔
جب آپ ﷺ نے مدینہ کو اپنا وطن بنایا تو رب تعالیٰ سے یہ دعا فرمائی:
 "ائے اللہ! ہمارے نزدیک مدینہ کو اسی طرح محبوب کر دے جیسے مکہ محبوب تھا یا  اس سے بھی زیادہ اور مدینہ کی فضاء صحت بخش بنادے اور اس کے صاع اور مد (غلے کے پیمانوں) میں برکت دے اور اس کا بخار منتقل کرکے جحفہ پہنچادے" ( صحیح بخاری ومسلم)
اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کی دعا سن لی اور سرزمین مدینہ آپ کے لئے بے حد محبوب ہوگئی، پھر آپ ﷺ نے مدینہ منورہ کو وفات تک نہیں چھوڑا، جب مکہ فتح ہوا، تو بعض انصار کے دلوں میں یہ خیال آیا کہ اب نبی ﷺ نے اپنے خاندان اور قوم کو پالیا ہے، اور اب آپﷺ دوبارہ مدینہ نہیں لوٹیں گے، یہ بات نبی کریم ﷺ کو معلوم ہوئی تو آپ ﷺ نے انصار کی ان باتوں کا جواب دیتے ہوئے فرمایا: میں اللہ کا بندہ ہوں،اور اس کا رسول ہوں،زندہ بھی تمہارے پاس رہنا ہے اور مرنا بھی تمہارے پاس۔
جب آپ ﷺ مدینہ لوٹ رہے تھے تو مدینہ کی آبادی کے آثار دیکھ کر خوشی کا اظہار فرمارہے تھے۔حضرت انس ؓ روایت کرتے ہیں کہ جب نبی کریم ﷺ کسی سفر سے لوٹتے  تو مدینہ کی دیواروں کی جانب نظر فرماتے،اوراپنی سواری کو تیز دوڑاتے،اگر کسی جانورپر سوارہوتے تو مدینہ کی محبت میں اسے حرکت میں لاتے ۔
وطن سے محبت وعشق کے باب میں نبی کریم ﷺ کی زندگی کا یہ ایک درخشان پہلو ہے اور حب وطن کے تئیں نبی کریم ﷺ کی ذات ہمارے لیے بہترین نمونہ ہے۔وطن سے محبت وعقیدت کا اظہار صرف جذبات واحساسات پر منحصر نہیں ہے، بلکہ محبت کے اظہار کے لیے باتوں کے ساتھ ساتھ کاموں کی بھی ضرورت ہے۔وطن سے محبت کے اظہار کے لیے  پہلی چیز وطن کے لیے دعا کرنا ہے، صحیح مسلم میں آپ ﷺ کی یہ دعا منقول ہے:
اللهم باركْ لنا في تمرنا، وبارك لنا في مدينتنا، وبارك لنا في صاعِنا، وبارك لنا في مُدِّنا، اللهم إن إبراهيمَ عبدُك وخليلُك ونبيُّك، وإني عبدُك ونبيُّك، وإنه دعاك لمكة، وأنا أدعوك للمدينة بمثل ما دعا لمكة، ومثله معه))
ترجمہ: اے اللہ ہمارے کھجوروں میں برکت عطا فرما، ہمارے شہر میں برکت عطا فرما، ہمارے پیمانوں میں برکت دے، ہمارے شہروں میں برکت دے، اے اللہ ! ابراہیم تیرے بندے ، تیرے دوست اور تیرے نبی تھے، میں بھی تیرا بندہ اور نبی ہوں، انھوں نے تجھ سے مکہ کے لیے دعا کی تھی میں تجھ سے مدینے کے لیے دعا کرتا ہوں جس طرح انھوں نے مکہ کے لیے دعا کی تھی۔

اللہ تعالی  نے قرآن مجید میں اپنے دوست  ونبی  کے حوالے سے اس دعا کو نقل فرمایا ہے جس میں آپ نے مکہ کے لیے دعا فرمائی تھی :

وَإِذْ قَالَ إِبْرَاهِيمُ رَبِّ اجْعَلْ هَذَا بَلَدًا آمِنًا وَارْزُقْ أَهْلَهُ مِنَ الثَّمَرَاتِ مَنْ آمَنَ مِنْهُمْ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ قَالَ وَمَنْ كَفَرَ فَأُمَتِّعُهُ قَلِيلًا ثُمَّ أَضْطَرُّهُ إِلَى عَذَابِ النَّارِ وَبِئْسَ الْمَصِيرُ(البقرة: 126.)
جب ابراہیم نے کہا، اے پروردگار! تو اس جگہ کو امن  والا شہر بنا اور یہاں کے باشندوں کو جو اللہ تعالیٰ پر اور قیامت کے دن پر ایمان رکھنے والے ہوں، پھلوں کی روزیاں دے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: میں کافروں کو بھی تھوڑا فائده دوں گا، پھر انہیں آگ کے عذاب کی طرف بےبس کردوں گا، یہ پہنچنے کی جگہ بری ہے۔
لہذا ہم وطن کے حق میں دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ہمارے وطن کو امن وامان کا گہوارہ، نعمت ورحمت کا سرچشمہ اور ظاہری وباطنی شروروفتن سے محفوظ پناہ گاہ بنا۔
ایک مسلمان کی پہچان یہ ہے کہ وہ اپنے وطن سے محبت کرتا ہے، وہ وطن  کی بھلائی وترقی کے لیے کام کرتا ہے، اس کی خدمت میں اپنی جان نچھاور کرتا ہے اور اس کے دفاع کے لیے اپنی جان بھی قربان کرنے کے لیے تیار رہتا ہے۔
عربی شاعر کے بقول:
بلادي هواها في لساني وفي فمي
يمدها قلبي ويدعولهــــــــــــــــا فمي
وطن  کی تمنا اور آرزو میری زبان اور منہ پر ہے،  جبکہ میرے دل میں اس کی عزت وسربلندی پنہاں ہے،اوراس کے حق میں میں دعاگو ہوں۔
شاعر مشرق علامہ اقبال نے انتہائی دلنشین طریقہ سے وطن کے ساتھ گہرے لگائو اور محبت کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے:
سارے جہاں سے اچھا ہندوستان ہمارا
ہم بلبلیں ہیں اس کی یہ گلستاں ہمارا
غربت میں ہوں اگر ہم رہتا ہے دل وطن میں
سمجھو وہیں ہیں ہم بھی، دل ہو جہاں ہمارا
مذہب نہیں سکھاتا آپس میں بیر رکھنا
ہندی ہیں ہم، وطن ہے ہندوستان ہمارا
یونان و مصر و روما ، سب مٹ گئے جہاں سے
اب تک مگر ہے باقی نام و نشاں ہمارا

   

0 تبصرے:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔