جمعہ، 2 اکتوبر، 2020

کیا آپ اپنے جسم کے مالک ہیں؟

0 تبصرے

از- مبصرالرحمن قاسمی

کیا آپ اپنے جسم کے مالک ہیں؟

بچوں میں  اپنی حفاظت آپ سے متعلق بیداری کے نام پر دنیا بھر میں اور خاص طور پر ترقی یافتہ ملکوں میں   My body is mine کے فریب زدہ نعرے کے تحت ایک مہم چلائی گئی ، اورعرب ملکوں کے اسکولوں میں (جسدی ملکی) عنوان کے تحت اس سوچ کو فروغ دیا جارہا ہے۔ اس مہم کا مقصد جنسی زیادتی سے بچوں کی حفاظت بتایا جاتا ہے، یقینا بچوں کی حفاظت کے تئیں یہ مقصد بہت ہی شاندار بھی ہے اور اس کی ضرورت بھی ہے، لیکن اس مقصد کے لیے جس عبارت اور عنوان کا استعمال بچوں اور بطور خاص لڑکیوں میں عام کیا جارہا ہے وہ سراسر غلط ہے۔

اگر ہم یہ تسلیم کرلیں کہ انسان اپنے جسم کا مالک ہے، تو پھر انسان کو اپنے جسم کو اپنی منشا کے مطابق استعمال کی آزادی مل جائے گی، دراصل یہ سوچ ہم مسلمانوں کے عقیدے سے ٹکراتی ہے، کیونکہ اس بات کو تسلیم کرنے کا مطلب ہی یہ ہے کہ انسان کو اپنے جسم میں اپنی مرضی کے مطابق جو چاہے اور جیسے چاہے تبدیلی اور استعمال کا حق ہے، مثال کے طور پر  اگر کوئی آدمی شادی شدہ ہے اور وہ کسی غیر عورت کے ساتھ تعلق قائم کرکے زنا میں ملوث ہوتاہے تو اس شخص کی بیوی کو اپنے شوہر پر اعتراض کا کوئی حق نہیں ہوگا، کیونکہ اس کا شوہر اپنے جسم کا خود مالک ہے، یہی بات عورت کی ہے کہ اگر وہ اپنے جسم کی مالک ہیں تو پھر وہ اپنے جسم کو جیسا چاہے استعمال کرسکتی ہیں، جہاں چاہے فحش یا عریانہ لباس زیب تن کرکے جاسکتی ہیں،اسے کوئی روک نہیں سکتا، کیونکہ وہ اپنے جسم کی مالک ہیں۔

اسی طرح اگر کوئی شخص خودکشی کرتا ہےتو کسی کو اُسے خودکشی سے روکنے کا حق نہیں ہوگا کیونکہ وہ شخص اپنے جسم کا خود مالک ہے۔

کسی بچے کے ساتھ اگر کوئی شخص جنسی زیادتی کرے اور دوسرے افراد اُسے بچانے کی کوشش کرے لیکن بچہ خود یہ اعتراض کرے کہ میں اپنے جسم کا مالک ہوں، ہمارے درمیان آپ لوگ مداخلت نہ کریں، میں اس عمل پر راضی ہوں۔

اسی طرح منشیات کے عادی  یا کسی شرابی کو اس کے غلط کام سے روکنے پر وہ یہی کہہ سکتا ہے کہ میں اپنے جسم کا مالک ہوں، میں آزاد ہوں۔

اس سوچ کے نتیجے میں اس طرح کے واقعات آج دنیا میں حقیقت کی شکل اختیار کررہے ہیں، لیکن ہم مسلمان ہیں، بدن،جسم اور زندگی کے حوالے سے ہمارا عقیدہ وایمان بالکل الگ ہے، اسی طرح جو مال ودولت آج ہمارے ہاتھوں میں ہے وہ بھی ہمارا نہیں ہے،اللہ تعالیٰ نے عطا کیا ہوا جسم وبدن بھی ہماری ملکیت نہیں ہے، بلکہ ساری دنیا ہماری ملکیت نہیں ہے،  ہمارا یہ عقیدہ  وایمان ہے کہ انسان اس دنیا میں خالی ہاتھ آتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم کو زندگی، جسم، مال، صحت، اہل وعیال اور بہت ساری نعمتیں ایک محدود وقت کے لیے عطا کرتا ہے اور پھر یہ ساری نعمتیں ہم سے واپس لے لیتا ہےاور وہیں سے ہماری دنیاوی زندگی ختم ہوتی ہے اور آخرت کی زند گی شروع ہوجاتی ہے۔اس لیے اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ ہر چیز کو ہم مسلمان اپنے نزدیک ایک امانت تصور کرتے ہیں نہ کہ اسے اپنی ملکیت سمجھتے ہیں، زندگی اور جو کچھ بھی مال ومتاع ہمارے پاس موجود ہوتا ہے ہر مسلمان کا اس سلسلے میں یہی ایمان ویقین ہوتا ہے کہ یہ سب امانت ہے۔ ہمارا جسم؛ روح  اورنفس یعنی جان سے مربوط ہے، لیکن جسم مردہ ہو یا زندہ ؛ہر حال میں ہمارے پاس اس کا احترام کیا جاتا ہے۔ اس لیے انسانی جسم بھی ایک امانت ہے اور اس امانت کو ضائع کرنا یعنی اس کا غلط استعمال کرنا یا  خود کشی کرنا اسلام میں حرام ہے، کیونکہ انسان اپنی جان کا مالک نہیں ہے کہ وہ اسے مرضی سے قتل کردے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :  

(وَلَا تَقْتُلُوا أَنفُسَكُمْ ۚ إِنَّ اللَّـهَ كَانَ بِكُمْ رَحِيمًا ، وَمَن يَفْعَلْ ذَٰلِكَ عُدْوَانًا وَظُلْمًا فَسَوْفَ نُصْلِيهِ نَارًا ۚ وَكَانَ ذَٰلِكَ عَلَى اللَّـهِ يَسِيرًا (29-30 سورۃ النساء)

ترجمہ : اور اپنے آپ کو قتل نہ کرو یقین مانو کہ اللہ تمہارے اوپر مہربان ہے، جو شخص ظلم و زیادتی کے ساتھ ایسا کرے گا اُس کو ہم ضرور آگ میں جھونکیں گے اور یہ اللہ کے لیے کوئی مشکل کام نہیں ہے۔

اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ ہر چیز کے بارے میں ہم سے پوچھ ہوگی، صرف جسم اور بدن کے حوالے سے ہی نہیں بلکہ سننے اور دیکھنے کی نعمت کے بارے میں بھی پوچھا جائے گا، اللہ تعالی فرماتا ہے :

وَلَا تَقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ ۚ إِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ كُلُّ أُولَـٰئِكَ كَانَ عَنْهُ مَسْئُولًا ﴿الاسرا: ٣٦

ترجمہ : کسی ایسی چیز کے پیچھے نہ لگو جس کا تمہیں علم نہ ہو یقیناً آنکھ، کان اور دل سب ہی کی باز پرس ہونی ہے۔

عارضی نفع پر یقین رکھنے والے دنیا کے مذاہب کے پیروکاروں کے لیے اشتہاربازی کی غرض سے اپنے جسم وبدن کی نمائش کی اجازت ہوسکتی ہے ، کیونکہ ان کا یہی یقین ہے کہ ہر فرد اپنے جسم کا خود مالک ہے، لیکن ہم مسلمانوں کے نزدیک جسم وبدن ایک امانت ہے اور اس امانت کے  بارے میں اللہ تعالیٰ ہم سے پوچھے گا، رسول اکرم ﷺ نے فرمایا : روز قیامت ابن آدم کے پاؤں اس وقت تک اللہ تعالیٰ کے پاس سے نہیں کھسک سکیں گے، جب تک اس سے چار چیزوں کے بارے میں پوچھ گچھ نہ کر لی جائے گی، اس کی عمر کے بارے میں کہ اس نے اپنی عمر کہاں فنا کی؟ اس کے جسم کے بارے میں کہ اسے کہاں کھپایا اس کے مال کے بارے میں کہ  مال کہاں سے اور کیسے کمایا؟ اور کہاں خرچ کیا؟

ذرا اس حدیث کے الفاظ پر غور کریں کہ قیامت کے روز ہمارے جسم کے سلسلے میں  بھی سوال کیا جائے گا،جسم ایک امانت ہے اور اس کی دیکھ بھال کرنا ، اسے پاک وصاف رکھنا، اسے راحت دینا، اسے بروقت کھانا فراہم کرنا، اسے نقصان نہ پہنچانا اور اس کے اعضا کو بیچنے سے پرہیز کرنا جسم کے بنیادی حقوق ہیں۔

انسانی جسم وبدن  کے حوالے سے مسلمانوں کی سوچ  اور عقیدہ  وقتی نفع  کےاصو ل  یعنی (میرا جسم میری ملکیت)کے نظریے  سے بالکل مختلف ہے۔یہ  ایک شیطانی نعرہ  ہے جودراصل جنسی شہوت کی راہیں ہموار کرتا ہے نہ کہ جنسی زیادتی کو روکتا ہے۔


پیر، 7 ستمبر، 2020

فجر کی سنت اور فرض کے درمیان پڑھے جانے والے ایک وظیفہ کی تحقیق

0 تبصرے



ایک صاحب نے اس وظیفے کی تحقیق کی درخواست کی تھی، ملاحظہ فرمائیں : 

 اس ورد کو أبو بكر عثمان بن محمد شطا الدمياطي البكري نے اپنی مشہور زمانہ تالیف اعانۃ الطالبین میں ذکر کیا ہے اوترمذی کے حوالے سے نقل کیا ہے ، 

جو اس طرح ہے :

)فائدة) لتثبيت الايمان مجربة عن كثير من العارفين بإعلام النبي (ص) وأمره بذلك في المنام بين سنة الصبح والفريضة: يا حي يا قيوم لا إله إلا أنت، أربعين مرة.

وعن الترمذي الحكيم قال: رأيت الله في المنام مرارا فقلت له: يا رب إني أخاف زوال الايمان.

فأمرني بهذا الدعاء بين سنة الصبح والفريضة إحدى وأربعين مرة.

وهو هذا: يا حي يا قيوم يا بديع السموات والارض، يا ذا الجلال والاكرام، يا الله لا إله إلا أنت، أسألك أن تحيي قلبي بنور معرفتك، يا الله يا الله يا الله، يا أرحم الراحمين.

 یہ ترمذی دراصل ترمذیحکیم  ہیں، جو مشہور صوفی گذرے ہیں،  آپ کا اسمِ گرامی ابو عبد اللہ محمد بن علی بن الحسن بن بشر حکیم ترمذی تھا۔ کنیت: ابوعبداللہ تھی۔

بعض لوگ امام ترمذی اور ترمذیحکیم  کو بھی ایک ہی سمجھ لیتے ہیں، حالانکہ اس نام سے دو شخصیات معروف ہیں، 

امام ترمذی مشہور امام حدیث ابو عیسیٰ محمد بن عیسیٰ السلمی الترمذی ( ولادت 209ھ وفات 279ھ) ہیں جو جامع الترمذی اور الشمائل النبویہ کے جامع اور مرتب ہیں-

 آپ نے واٹس اپ پر جو ورد ہمیں بھیجا ہے، یہ دراصل ترمذیحکیم  کا روایت کردہ ہے، نہ کہ امام حدیث ابو عیسیٰ محمد بن عیسیٰ السلمی الترمذی کا۔

 اس ورد یا وظیفے کے حوالے سے دو باتیں یاد رکھنا ضروری ہے، ورد، دعا یا وظیفہ کی دو قسمیں ہیں، ایک مطلق یعنی وہ جو قرآن مجید اور صحیح احادیث سے ثابت ہیں اور ایک خاص یعنی وہ جو بزرگان دین یا کوئی فرد شریعت کی روشنی میں اپنے تجربے کی بنیاد پر اختیارکرے۔

یہ جو ورد ہے تجربات اولیا وبزرگان دین کے باب میں آتا ہے، اس کی تائید میں امام ابن تیمیہ سمیت کئی بزرگان دین کا عمل موجود ہے۔

 ابن قیم مدارج السالکین میں کہتے ہیں : سالکین کے تجربات میں سے یہ ہیں جس کا انھوں نے تجربہ کیا اور اسے درست پایا کہ جو شخص یہ کہنے  کا عادی بن جائے : يا حي يا قيوم لا اله الا انت

تو اسے دل ودماغ کا سکون حاصل ہوتا ہے.

آگے وہ لکھتے ہیں : شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ اس کا بہت زیادہ اہتمام فرماتے تھے، انھوں نے ایک دن مجھ سے کہا: یہ دونوں اسم یعنی حي ، القیوم کی دل کی زندگی پر عظیم تاثیر ہے.. آپ کہا کرتے تھے کہ یہ دونوں اسم، اسم اعظم ہیں، ابن قیم مزید کہتے ہیں :

جو شخص فجر کی سنت اور فجر کی فرض کے درمیان چالیس مرتبہ یہ کلمات پڑھنے کا اہتمام کرے، اسے دل کا سکون حاصل ہوجاتا ہے اور اس کا دل مرتا نہیں ہے وہ کلمات یہ ہیں 👇

 يا حي يا قيوم، لا إله إلا أنت، برحمتك استغيث

 ابن مفلح نے المقصد الارشد فی ذکر اصحاب الامام احمد میں بیان کیا ہے کہ : امام احمد فجر کی سنت اور فرض کے درمیان چالیس مرتبہ (يا حي يا قيوم لا إله إلا أنت) کہا کرتے تھے۔

اسی طرح ابن رجب نے طبقاب حنابلہ کے ذیل میں اور امام ذہبی نے تاریخ الاسلام نے اس بات کا ذکر کیا ہے۔

 اسی طرح ابن ملقن نے طبقات اولیا میں ابوبکر محمد بن علي بن جعفر الكتاني البغدادي ثم المكي، المتوفى سنة 322 ه  کے تذکرے میں لکھا ہے، کہ انھوں نے کہا : میں نے نبی کریم ﷺ کو خواب میں دیکھا، میں نے کہا اے اللہ کے رسول ! اللہ سے میرے لیے دعا فرمائیں کہ میرے دل کی کیفیت مردہ نہ رہے، تو آپ ﷺ نے فرمایا : ہر روز چالیس مرتبہ کہا کرو :  "يا حي! يا قيوم! لا إله إلا أنت" اس سے تمہارے دل کی مردہ کیفیت ختم ہوگی اور تمہارے دل کو سکون ملے گا۔

اس بات کو قشیری نے بھی اپنے رسالے میں بیان کیا ہے۔

البتہ سنت نبوی سے ذیل کے کلمات ہی ثابت ہے۔

جہاں تک سنت نبوی میں آیا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو جب کوئی پریشانی لاحق ہوتی تو آپ کہا کرتے تھے :

يا حي يا قيوم برحمتك استغيث

(رواه الترمذي والمحاكم وصححه وحسنه الألباني )

 اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ و سلم نےاپنی بیٹی حضرت فاطمہ رضي الله عنها سے کہا : تم صبح وشام یہ کلمات کہا کرو :

 يا حي يا قيوم برحمتك استغيث، أصلح لي شأني كله، ولا تكلني إلى نفسي طرفة عين

(رواه النسائي والبزار والضياء والمحاكم صححه هو والمنذري وحسنه الضياء و الألباني)

 


جمعرات، 16 جولائی، 2020

0 تبصرے

ٍعربی زبان وادب اور دینی علوم کا انسائیکلوپیڈیا

علامہ شیخ حسن دِدُوکی داستان ِحیات ان ہی کی زبانی

ماں نےعربی اشعار پڑھایا، والد کے پاس حفظ قرآن کیا اور دادا نے 48 علوم سکھائے اور خود علامہ دِدُو نے اپنے پایہ کے بڑے علما ء ِدین تیار  کرنے کے لیے علماء فارمیشن سینٹر نام سے ایک عظیم الشان ادارہ  قائم کیا۔

از :  ابراہیم الدویری

        ترجمہ وتلخیص:  مبصرالرحمن قاسمی   


موریتانیہ کا شہر شنقیط زمانہ قدیم سے ہی اپنی علمی اور ادبی سرگرمیوں کی وجہ سے اسلامی دنیا میں مشہور ہے، شنقیط میں روایتی طرز کی تعلیم گاہوں کو المحظرہ کہا جاتا ہے، جو شکل وصورت میں برصغیر کے مکاتیب کی طرح ہی ہوتے ہیں لیکن ان کا تعلیمی معیار ابتدائیہ سے لے کر کالجوں اور جامعات کی سطح تک بلند ہے۔ شیخ دودو بھی اسی محظرہ کے تربیت یافتہ ہیں، جب ان سے دریافت کیا گیا کہ انھوں نے محظرہ میں کیا سیکھا تو شیخ ددو کا جواب تھا کہ انھوں نے المحظرہ میں عربی اور اسلامی کلچر سے تعلق رکھنے والے 48 علوم سیکھے۔

نہ صرف مضبوط حافظہ اور تشریح وتوضیح کے وسائل کو بخوبی استعمال کرنا المحظری نظام تعلیم کا معیار ہے بلکہ محظرہ کا بنیادی مقصد فہم اور عبارت کے درمیان فعال تعامل کو انجام دینا ہے جو محظری طالب علم کے دل ودماغ کو جوڑے رکھتا ہے۔

علماء فارمیشن سینٹر کے صدر علامہ محمد الحسن الدودو شنقیط علاقے میں  پھیلے عرب طرز کی اس روایتی تعلیم کی نمائندگی کرتے ہیں، جو شہر شنقیط کو متعدد سلسلوں سے حاصل ہوا ہے بطور خاص اندلس کے علمی ورثے سے المحظرہ کے اس سلسلے نے استفادہ کیا ہے۔ علامہ ددو کی گفتگو پر غور کرنے سے شیخ ددو اور ان کے ہم عصر دیگر علاقوں کے علماء کے درمیان فرق کا قوی احساس ہوتا ہے، شیخ ددو کی گفتگو میں دینی، ادبی اور تاریخی متون کا سیلاب بہتا دکھائی دیتا ہے، اور وہ اپنے علمی خزانے کو بہت ہی سلاست، پختگی اور اعتماد کے ساتھ پیش کرتے ہیں۔

شیخ ددو کے ساتھ ہم نے جہاں ان کے علمی رسوخ پر بات کی وہیں  انسائیکلوپیڈیائی علمی گہرائی کے اس ماڈل کو تیار کرنے میں وہ جن حالات، طریقوں اور  کیفیتوں سے گزرے ہیں اس پر بھی بات کی ہیں۔ ہماری بات چیت میں محظری تہذیب کی تعلیمی کنجیوں اور بطور خاص صدیوں پر محیط اسلامی اسکالرز اور علماء ِدین کے درمیان مشہور اس علمی اور تاریخی  نظام تعلیم ہماری بات چیت کا مقصد رہا ہے، تعلیم وتربیت کا یہ نظام مجموعی طور پر علم ومعرفت کی نمائندگی کرتا ہے جو ہمہ جہت بھی ہے اور اپنے اندر  آزاد علمی اسپیشلائزیشن کی خاصیت بھی رکھتا ہے۔

شیخ سے ہم نے ان کے بچپن کے حوالے سے بھی بات کی، بچپن میں شیخ نے گھر کی خواتین سے زباندانی اور شعر وسخن سیکھا اور المحظرہ کی دنیا کے لیے درکار تربیت حاصل کی، جی ہاں، المحظرہ کی زندگی ایک ایسی علمی دنیا ہے جس میں طالب علم اپنی تمام چیزوں کے ساتھ ایک علمی ماحول میں داخل ہوتا ہے، فجر کے پہلے سے اس کی سرگرمیوں کا آغاز ہوتا ہے اور دیر رات گئے تک جاری رہتا ہے، اس محظری ماحول میں علمی کتابوں کے متن ایک دوسرے سے ٹکراتے ہیں لیکن علوم ومعارف ایک دوسرے سے جدا جدا رہتے ہیں، محظری نظام تعلیم کی ایک خاصیت یہ ہے کہ یہاں ذہنی وقلبی تعلق میں پختگی پیدا ہوتی ہے جو طالب علم کو تحصیل علم کے تینوں پہیوں سے جوڑے رکھتی ہے: یعنی استاذ، کتاب اور رفیق جماعت۔

 

ابتدائی زندگی :

ورثہ سے متعلق اس خاص صفحے کے لیے اپنا قیمتی وقت دینے اور اس صفحے کے آغاز کے بعد اس کے لیے اولین انٹرویو دینے پر ہم آپ کے شکرگذار ہیں، سب سے پہلے تو جس طرح قارئین کی خواہش ہوتی ہے کہ علماء کرام اور نمایاں شخصیات سے ان کی ابتدائی زندگی کے بارے میں پوچھیں تو کیا آپ ہمیں اپنی نشوونما اور اپنی محظری تعلیم کے حوالے سے کچھ بتائیں گے؟ نیز محظری نظام تعلیم نے آپ کی زندگی اور علمی سفر میں کیا کردار ادا کیا؟

-

گفتگو کےآغازمیں یہ بتانا چاہتاہوں کہ میری زندگی اس لائق نہیں ہے کہ اس کی پیروی کی جائے، اور میں اس قابل بھی نہیں ہوں کہ مجھے یاد کیا جائے، کیونکہ حصول علم میں، میں کمزور ہوں اور میرا علم بھی کمزور ہے۔ جہاں تک زندگی کی ابتدا کی بات ہے تو مجھے جتنا یاد ہے وہیں سے میری زندگی کا آغاز ہوتا ہے، مجھے اپنی زندگی کا ایک دن یاد ہے جب میں تقریبا پانچ سال کا تھا،ایک رشتہ دار جو مجھ سے دو سال بڑے تھے،ان کے لیے لکڑی کی تختی پر حروف تہجی کا سبق دیا گیا،تو مجھے اس پر غیرت کا احساس ہوا اور میں نے رو لیا، تو گھر کی ایک خاتون نے مجھے ایک تختی ہدیے میں دیں اور اس میں میرے لیے بھی حروف تہجی لکھا، پھر میری پھوپھی نے بہت کم مدت میں مجھے حروف تہجی پڑھایا، اسکے بعد میں نے بروایت ورش عن نافع مدنی کے مطابق ناظرہ قرآن شریف شروع کیا اور سات برس کی عمر میں اسی روایت میں حفظ کی تکمیل کی۔(قرآن مجید کی تلاوت کے سات طریقوں میں سے ایک طریقہ بروایت ورش ہے۔)

اس زمانے میں ہمارے یہاں لوگوں کی یہ عادت تھی کہ چھوٹے بچوں کی تعلیم کا آغاز ایک بدوی پروگرام سے کیا جاتا تھا، اس پروگرام کا نام تمییز المامی تھا، علامہ محمد المامی شنقیطی نے یہ پروگرام شروع کیا تھا، اسی وجہ سے اس پروگرام کے نام کو ان ہی کی طرف منسوب کیا جاتا ہے،جبکہ اس پروگرام کو چلانے والوں کے نزدیک تمییز کا مطلب یہ تھا کہ بچے؛ کلام کی قسموں یعنی اسم، فعل اورحرف کے درمیان فرق کرنے کے قابل بن جائیں۔ تمییز المامی پروگرام بچوں کی عمر اور ان کی سمجھ کی سطح کے مناسب عربی زبان کی تعلیم پر مشتمل تھا، اس پروگرام کے تحت مغرب اور عشا کے درمیان مائیں گھروں میں بچوں کو تعلیم دیتی تھیں۔

اس پروگرام کا ایک نمونہ یہ تھا کہ ماں بچوں کے سامنے کوئی شعر یا قرآن مجید کی کوئی آیت یا کوئی حدیثِ رسول پڑھ کر سناتی تھیں، بچے اُسے سن کر زبانی یاد کرتے تھے، اس کے بعد ماں اس شعر یا آیت قرآنی یا حدیثِ رسول کے معنی کے بارے میں بچوں سے سوال کرتی  تھیں۔ تمییز المامی پروگرام کے تحت بچوں کو جو اشعار یاد کرائے جاتے تھے ان میں سب سے پہلے بوصیری کے یہ اشعار پڑھائے جاتے تھے :

قد تُنْكِرُ العَينُ ضوءَ الشمسِ مِنْ رَمَدٍ ** ويُنْــكِرُ الفمُ طــعْمَ الماءِ مِنْ سَقَمِ

(کبھی  آشوب چشم کیوجہ سے آنکھیں سورج کی روشنی کو دیکھ نہیں سکتیں اور بسا اوقات بیماری کی وجہ سے منہ پانی کے ذائقے سے محروم ہوجاتا ہے۔)

اس شعر کے دونوں مصرعے نحوی قواعد کے لحاظ سے برابر ہیں، ماں اس شعر میں موجود نحوی قواعد کے حوالے سے اپنے بچوں سے ایک سوال کے جواب کے بعد دوسرا سوال کرتیں اور یہی سلسلہ تعلیمی گھنٹہ ختم ہونے تک جاری رہتا۔ مثال کے طور پر وہ بچوں سے اوپر بیان کیے گئے شعر میں آئے لفظ قد کے بارے میں پوچھتی کہ یہ کلمہ کیا ہے؟ یعنی یہ اسم ہے یا فعل ہے یا حرف؟ اور کیا یہ معرب ہے یا مبنی ؟ اس کے بعد ان سے حرف قد کے معنی کے بارے میں سوال کرتی، پھر انھیں یہ بتاتی کہ قد تین معنوں کے لیے استعمال کیا جاتا ہے(تقلیل، تقریب اور تحقیق ) پھر ماں اپنے بچوں سے اس شعر میں آئے حرف قد کے عمل کے بارے میں سوال کرتی ہیں۔

حرف قد کے بعد شعر کے اگلے کلمے(تُنْكِرُ) کی طرف بڑھتی ہیں اور بچوں سے اس کے بارے میں سوال کرتی ہیں کہ کیا یہ اسم ہے یا فعل ہے یا حرف؟ مثال کے طور پر اگر بچے؛ اسے فعل کہتے ہیں تو ان سے مزید سوال کرتی ہیں کہ فعل کی کونسی قسم ہے؟ اور کیا یہ فعل معرب ہے یا مبنی؟ اس کا اعراب کیا ہوگا؟ اور اعراب کی علامت کیا ہے؟اس کے بعد ماں؛ فعل (تُنْكِرُ)کے اصل مادے اور اس مادے سے بننے والے دیگر مفردات کے حوالے سے سوال کرتی ہیں، جس کے حروف کی ترکیب کی جائے تو تقریبا چھ مفردات بنتے ہیں  ( نَكَرَ – نَرَكَ – كَرَنَ – كَنَرَ – رَكَنَ – رَنَكَ )، اسی کے ساتھ ہر مفرد کے معنی کے بارے میں سوال کرتی ہیں اور یہ بھی پوچھتی ہیں کہ کونسا مفرد بے معنی ہے اور کونسا بامعنی ہے اور کونسا مفرد عربی زبان میں استعمال کیا جاتا ہے۔

رات کے اوقات میں بچوں کے لیے چلنے والے خصوصی درس کا یہ خلاصہ ہے، درس کے سوالات میں بسااوقات بچے درست جواب دیتے تھے اور بسا اوقات غلطیاں کرتے تھے تو مائیں ان کی غلطیوں کی اصلاح کرتی تھیں، مجھے آج بھی یاد ہے کہ ہم جب چھوٹے تھے تو میری والدہ ہمیں ایک شعر سنایا کرتی تھیں، وہ شعر ہے :

شَجاكَ أظُنُّ رَبْعُ الظاعنينا ** ولمْ تَعْبأ بقولِ العاذلينا!

میں نے اس شعر کی ترکیب بتاتے ہوئے کہا تھا : اس شعر میں کلمہ شجاک فعل ماضی ہے، اس کا فاعل پوشیدہ ضمیر ہے اور اس کا مفعول حرف ک ہے، اس پر میری بہنوں نے مجھ پر خوب ہنسا تھا، کیونکہ میں نے غلطی کی تھی،اس لیے کہ کلمہ شجاک  فعل نہیں ہے بلکہ مصدر اضافی ہے،  آج بھی مجھے میرے رونے کی وہ کیفیت یاد ہے جب بہنوں نے میری غلطی پر ہنسا تھا۔

اس عمر میں بچے اس مرحلے کے لیے بعض کتابوں کی تعلیم بھی حاصل کرتے تھے، ہم نےعلم ِنحو کے اصول کی کتاب الآجرومیہ کے منظوم اشعار پڑھے تھے، مجھے ابھی بھی یاد ہے کہ ہم نے اس منظوم مجموعے کو لکڑیوں کی تختیوں یا کاغذ پر لکھ کریاد کیا تھا، اس کے بعد ہم نے فقہ کے موضوع پر مختصر الاخضری پڑھا۔

قصے اور اشعار :

اس مرحلے میں بچے اپنی ماؤں سے سیرت نبوی ﷺ کے قصوں کو سن کر حیات نبوی ﷺ اور سیرت صحابہ بھی پڑھتے تھے، ہر شب ایک قصہ سنتے تھے، جو قصے طویل ہوتے تو انھیں دو راتوں میں تقسیم کیا جاتا، مائیں؛ ان قصوں کو موریتانیا میں رائج الحسانیہ لہجے میں بیان کرتی تھیں، ان قصوں کے ذریعے بچے؛ مرد وخواتین شخصیات کے ناموں اور ان کے سلسلہ نسب سے واقف ہوتے تھے، جب میں چھوٹا تھا تو مجھ سے میرے ایک ماموں نے سوال کیا تھا: کیا آپ عبداللہ بن عمر(وفات  73 ھ /693م)کو جانتے ہیں؟میں نے جھٹ سے ہاں میں جواب دیا، کیونکہ ہم بچپن سے ہی جانتے تھے کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کی کنیت ابوعبدالرحمن ہے، ان کی والدہ کا نام زینب بنت مظعون جمحیہ ہے، اسی طرح ان کے والد کا سلسلہ نسب بھی یاد تھا، یہ بھی معلوم تھا کہ جب عبداللہ بن عمر بچے ہی تھے تو والد نے ان کو لے کر ہجرت کی تھی اور جب ان کی عمر چودہ برس ہوگئی تھی تو ہجرت کے تین سال گزرچکے تھے، اس کے علاوہ ان کے سلسلے میں دیگر معلومات کا علم تھا، یہاں تک عبداللہ بن عمر کو ہم ان کی شکل وصورت سے پہچاننے لگ گئے تھے۔ اس طرح بچے؛ ماؤں کے ذریعے سنائے جانے والے قصوں کی مدد سے تمام صحابہ کی زندگی سے واقف ہوتے تھے۔ مزید یہ کہ ان قصوں میں اشعار بھی شامل کیے جاتے، بچوں کو یہ اشعار زبانی یاد کرنا ضروری تھا، چاہے حسان بن ثابتؓ کے غزوہ بدر یا غزوہ احد کے ہی اشعار کیوں نہ ہوں، مثال کے طور پر ان کا مشہور قصیدہ جس کا مطلع ہے :

مَنَعَ النَومَ بالعشاءِ الهُمومُ ** وخَيالٌ إِذا تَغورُ النُجومُ

اور فتح ِمکہ کے موقع پر کہا گیا ان کا قصیدہ :

عَفَت ذاتُ الأَصابِعِ فَالجِواءُ ** إلى عَذراءَ مَنزِلُها خَلاءُ

اسی طرح حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ اور دیگر صحابہ ؓکے قصیدے بچوں کو زبانی یاد کرائے جاتے تھے، ان قصائد کے علاوہ مشرکین شعرا کے اسلام قبول کرنے سے پہلے کے قصائد بھی یاد کرائے جاتے تھے، جیسے عبداللہ بن زبعری، ضرار بن خطاب وغیرہ ، ان قصوں کے ذریعے بچے؛ سیرت نبوی ﷺ سے واقف ہوتے تھے، اس کے بعد قرآن مجید میں بیان کیے گئے نبیوں کے قصوں سے واقف ہوتے تھے۔ مجھے یاد ہے کہ جب ہم حضرت یوسف علیہ السلام اور دیگر قصوں کو سنتے تھے تو بہت زیادہ روتے تھے، بچپن میں ان قصوں نے ہمیں بے حد متاثر کیا۔

اسی مرحلے میں بچے؛ عقیدے سےمتعلق مختصر کتابوں کو زبانی یاد کرکے اس کی تعلیم حاصل کرتے تھے، جبکہ سالانہ اور ہفت وار چھٹیاں حفظِ قرآن کے آموختے میں استعمال کی جاتی تھیں، عموما سالانہ تعطیلات رمضان یا ربیع الاول میں ہوا کرتی تھیں، اسی طرح عید الفطر اور عید الاضحی کی بھی چھٹیاں ہوتی تھیں، ان چھٹیوں میں مائیں اپنے بچوں کے لیے مخصوص تعلیمی ترتیب بنایا کرتی تھیں۔اس ترتیب میں عموما شعر جاہلی کے مبادیات کو شامل کیا جاتا تھا، اس وقت اس ترتیب کے نصاب میں شنفری کا لامیۃ العرب نامی قصیدہ، چھ جاہلی شعراء کے دیوان سمیت جاہلی مرثیے جیسے حضرت خنساء کے اپنے بھائی صخر سے متعلق کہے گئے مرثیے،اور منتشر بن وہب الباہلی کے لیے اعشی کا مرثیہ کے بعض اشعار شامل تھے۔ چھ شعراء کے کلام جو تقریبا ایک ہزار اشعار ہوتے ہیں کو زبانی یاد کرنے کے بعد بچے؛ بعض اسلامی شعراء کے اشعار کو یاد کرنا شروع کرتے تھے، جیسے حسان بن ثابت کے غزوات کے علاوہ کے اشعار مثال کے طور پر ان کا آل جفنہ الغسانیین کی مدح میں کہا گیا قصیدہ اور غساسنہ کے بادشاہ جبلہ بن الایہم کی مدح میں کہا گیا قصیدہ۔ بسا اوقات اس عمر میں بچوں کے ذہن میں موریتانیا کے علاقائی اشعار بھی گردشت کرتے تھے،میرا حال بھی کچھ اسی طرح تھا۔ بچے؛ جہاں جدید اور معاصر شعراء کے کلام میں دلچسپی رکھتے تھے وہیں موریتانیا کے قدیم شعراء کے کلام کی بھی ان کے نزدیک اہمیت تھی،وہ ایسا زمانہ تھا کہ بچے؛ اپنے بڑوں کو قصیدے لکھنے کا اہتمام کرتے دیکھتے تھے تو بچے بھی ان کے ساتھ ان قصیدوں کی تحریر میں حصہ لیتے تھے تاکہ وہ بھی ان قصیدوں کے راویوں میں شمار ہوسکیں۔ اسی لیے میں بھی اپنے نانا علامہ محمد عالی بن عبدالودود کے شعری کلام کو لکھ کر روایت کرتا تھا، یہ سب میں نے بچپن میں ہی کیا۔ان کے ساتھ ایک دفعہ ایک واقعہ پیش آیا تھا، ہم ایک مرتبہ ان کےایک ساتھی کے گھر تعزیت کے لیے گئے تھے جو عالم دین تھے، اس موقع پر شیخ نے دورانِ سفر اپنے متوفی ساتھی کی یاد میں مرثیہ بنانا شروع کیا، گاڑی میں وہ مجھے ایک ایک مصرعہ املا کرانے لگے،ساتھ ہی کہتے تھے: اسے یاد کرلو، اس کے بعد دوسرا مصرعہ بناتے اور اسی طرح کہتے : اسے یاد کرلو، جب ہم متوفی کے گاؤں پہنچ گئے تو مجھ سے کہا:محمد حسن! جو قصیدہ میں نے املا کروایا اسے پڑھو، میرے لیے یہ حکم بہت بھاری محسوس ہوا، لیکن میں نے دورانِ سفر گاڑی میں بیٹھ کر زبانی یاد کیے گئے اس قصیدے کو وہاں پڑھ کر سنادیا، یہ مرثیہ بیس سے زیادہ اشعار پر مشتمل تھا۔

 

تین سنہرے ستون :

موروثی تعلیم میں تین لازمی ستونوں کے حوالے سے اگر ہم بات کرتے ہیں یعنی شیخ(استاذ)، المحظرہ کا طالب علم اور نصاب تعلیم توآپ اس حوالے سے کیا کہیں گے؟

یقینا یہ لازمی اور ضروری امور ہیں، اگرچہ صرف ان تینوں کے سہارے موروثی تعلیم کی تکمیل نہیں ہوسکتی، لیکن یہ ناگزیر ہیں۔ جہاں تک شیخ یعنی استاذ کی بات ہے تو انسان؛ استاذ کے بغیر سیکھنے کے عمل کو مکمل نہیں کرسکتا، اسی لیے تو ابوحیان اندلسی کو یہ کہنے پر مجبور ہونا پڑا :

إِذَا رُمْتَ العُلُومَ بِغَيْرِ شَـيْخٍ ** ضَلَلْتَ عَنِ الــصِّرَاطِ المُسْتَقِيمِ

وَتَلْتَبِسُ الأمورُ عَلَيْكَ حَتَّى ** تَصِيرَ أَضَلَّ مِنْ "تُومَا" الحَكِيمِ

(جب تم علوم کو استاذ کے بغیر حاصل کروگے تو صراط مستقیم سے گمراہ ہوجاؤ گے،اور اس اثنا بہت ساری باتوں میں تم ایسے بھٹک جاؤگے کہ تم توما نامی حکیم سے بھی زیادہ بڑے گمراہ کہلاؤگے۔ـ)

قرآن وحدیثِ رسول ﷺ میں آیا ہے کہ علم دین حاصل کرنے کے لیے استاذ کی تربیت میں رہنا ضروری ہے،جناب ِنبی کریم ﷺ پر جب وحی اترنا شروع ہوئی تو آپ کے پاس حضرتِ جبریل علیہ السلام کو بھیجا گیا،اسی طرح موسی علیہ السلام نے حضرت خضر علیہ السلام کے سامنے درخواست کی کہ : { هَلْ أَتَّبِعُكَ عَلَىٰ أَن تُعَلِّمَنِ مِمَّا عُلِّمْتَ رُشْدًا}؛ (  کیامیں آپ کی تابعداری کروں؟ کہ آپ مجھے اس نیک علم کو سکھا دیں جو آپ کو سکھایا گیا ہے) اس لیے استاذ کی صحبت اور شاگردی میں رہنا ضروری ہے، لیکن شیخ واستاذ خیرخواہ، تجربہ کار اور عالم دین ہونا چاہیے، اگر اُسے چند ہی علوم پر دسترس حاصل ہے تو اس سے وہ علوم حاصل کرنے کے بعد دیگر علوم کے لیے اس میں مہارت ودسترس رکھنے والے دوسرے اساتذہ کا رخ کرنا چاہیے۔

استاذ وشیخ کے بعد کتاب کا درجہ ہے، کتاب ہر متعلم کے لیے زادِ سفر اور شیخِ ثانی کی حیثیت رکھتی ہے، حفظ میں وہ متعلم کے لیے سہارا ہے، یادداشت میں کمی بیشی پر متعلم اپنی کتاب کاہی سہارا لیتا ہے، اسی لیے علماء کرام کتابوں کو بھی استاذ کا مقام دیتے تھے، البتہ کتابوں میں علاحدہ علاحدہ درجہ بندی کا اہتمام ضروری ہے، مثلا درس کی کتابیں جن میں متون کی وہ کتابیں شامل ہیں جنھیں ہمارے محظروں میں پڑھایا جاتا ہے یا جنھیں علماء ومشایخ نصاب میں شامل کرتے ہیں تاکہ لوگ انھیں پڑھیں اور زبانی یاد کریں، ہم نے محظروں کا جو نظام دیکھا، ان میں 48 خصوصی علوم پڑھائے جاتے تھے، ان علوم کو بچے؛ آسانی سے مشکل کی طرف بالترتیب سیکھتے تھے، اس کے بعد مزید علوم سکھائے جاتے تھے، جن میں سے بعض تو صرف مطالعہ کے ذریعے ہی سیکھنا پڑتا تھا۔

درسی کتاب کے بعد مطالعے کے لیے منتخب کی گئی کتابوں کا درجہ ہے، یہ کتابیں محظری نظام کے نصاب کا حصہ نہیں ہوتی تھیں، بلکہ یہ کتابیں صرف مطالعے کے لیے خاص کی جاتی تھیں۔ مطالعہ ضروری ہے، انسان کو مطالعے کا عادی بننا چاہیے، چاہے وہ اخبار اور میگزن کا مطالعہ ہی کیوں نہ ہو، بچپن میں جب ہمارے پاس میگزن اور اخبار آتے تھے تو ہم مطالعے کے بعد ایک دوسرے میں باری باری منتقل کرتے تھے۔بہت ساری کتابیں وہ ہوتی ہیں جو حقیقی معنوں میں مطالعے کے لیے ہی لکھی جاتی ہیں، ان کتابوں کی تشریح وتوضیح کی ضرورت نہیں ہوتی، بلکہ وہ کتابیں اپنے آپ میں یا تو شرح، یا کسی شرح پر حاشیے کے طور پر لکھی ہوتی ہیں یا پھر فکری کتابیں ہوتی ہیں، ضروری نہیں ہے کہ ان کتابوں کو اساتذہ کی صحبت میں ہی رہ کر ان کی تشریح کو سنا جائے۔ مطالعے کی اہم چیز ذوق اور اس میں دلچسپی ہے۔ عجیب بات ہے کہ مطالعہ؛ لوگوں کی عقلوں پر غالب آجاتا ہے اور لوگ اس میں اس حدتک منہمک ہوجاتے ہیں کہ انسان اس دوران کھانا پینا بھی بھول جاتا ہے، بلکہ کبھی کبھی وہ کسی کتاب میں غرق ہوجائے اور کوئی ایسا موضوع اس کے ہاتھ لگ جائے جسے وہ اخیر تک پڑھنا چاہتا ہے تو پھر وہ نماز کی ادائیگی کو بھی بھول جاتا ہے اور اپنے اطراف کی چیزوں کا بھی اسے احساس نہیں رہتا۔ ہم لوگوں کو کتابوں سے بہت زیادہ لگاؤ تھا، مجھے یاد ہے ایک دن؛ میں ایک ایسی کتاب پڑھ رہا تھا جسے میں نے پہلی مرتبہ دیکھاتھا، یہ کتاب تاریخ نویس محی الدین مراکشی کی المُعجِب في تلخيص أخبار المَغرب تھی، مطالعہ کرتے کرتے دولت موحدیہ کی تاریخ تک پہنچ گیا، اس وقت میں گاؤں میں مقیم تھا اور مطالعے میں اس قدر منہمک تھا کہ میرے اطراف پورا اندھیرا چھاگیا اور مغرب کی نماز کا وقت بھی ہوچکاتھا، لیکن جب کتاب اور میرے درمیان اندھیرا ہوگیا تو مجھے پتہ چلا کہ وقت ہوچکا اور میں نے اب تک نماز نہیں پڑھی۔

یہی معاملہ ادب وشعر اور قصے وکہانیوں کی کتابوں کا ہے، انسان میں اس طرح کی کتابوں کا شوق ہوتا ہے، ہمارے زمانہ طالب علمی  میں زیادہ تر بچے جب رات میں سوتے تھے تو کتابیں ان کے سینوں پر رکھی دکھائی دیتی تھیں، بچپن میں میرا بھی حال یہی تھا، دورانِ مطالعہ نکسیر شدید بہتی تھی یہاں تک کہ کتاب پر گرنے لگتی تو مجھے اس کا احساس ہوتا تھا، یہی وجہ ہے کہ آج ہمارے پاس ایک بڑی تعداد ایسی کتابوں کی ہیں جن کے صفحات پر اسی نکسیر کے خون کے دھبے ہیں۔

شیخ اور کتاب کے بعد حریف رفیق جماعت یا ساتھی کا مسئلہ ہے، یہ بھی حصول علم کی ایک اہم بنیاد ہے۔ محظری نطام میں طالب علم اپنی اولین درسگاہ یعنی ماں کی درسگاہ میں حفظ قرآن اور چھوٹی کتابوں کو پڑھتا ہے، جہاں مائیں ان کتابوں کی ان بچوں کے لیے تشریح وتوضیح کرتی ہیں، اس کے بعد تعلیم بالغاں کے حلقوں میں شامل ہوتا ہے، جہاں سب سے پہلے اسے اپنے حریف ساتھی کی تلاش ہوتی ہے، دو ہم جماعت ساتھیوں کے درمیان اس مقابلے کی بہت زیادہ اہمیت ہے، ہم جماعت ساتھیوں کے درمیان پڑھائی میں مقابلے سے طالب علم کی صلاحیتوں میں نکھار پیدا ہوتا ہے۔ زمانہ قدیم سے ہی باہم حریف لوگ چاہے وہ ایک دوسرے کے دشمن رہے ہوں یا دوست ان کے آپسی مقابلے نے انھیں تیار کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ اسی لیے شاعر نے کہا ہے:

عِدايَ لهمْ فضلٌ عليّ ومِنَّةٌ ** فلا أبعدَ الرحـمنُ عني الأعـاديا!

همُ بحثوا عن زَلّتي فاتقيتُها ** وهمْ نافسوني فاكتسبتُ المعالـيا!

(میرے دشمنوں کا مجھ پر فضل واحسان ہے، خدا مجھ سے میرے دشمنوں کو دور نہ کرے، وہ میری غلطیاں تلاش کرتے ہیں اور میں ان غلطیوں کی اصلاح کرتا ہوں، وہ مجھ سے مقابلہ کرتے ہیں اور میں بلندیوں کو پاتا ہوں۔)

اس لیے طالب علمی کے زمانے میں انسان کو کسی حریف کی ضرورت ہوتی ہے، اس کے ساتھ وہ اپنی کتابوں کو سمجھ سکتا ہے اور مطالعے، حفظ اور مذاکرے میں اس کا مقابلہ کرسکتا ہے، اسی طرح خوش نویسی  میں بھی حریف ساتھی کے ساتھ مقابلہ مفید ثابت ہوتا ہے، اُن دنوں ہمارے پاس محاظر میں خوش نویسی سکھائی نہیں جاتی تھی، تو طلبا خوش نویسی میں مہارت کے لیے ایک دوسرے سے مقابلہ کرتے تھے، خاص طور پر ہمارے ملک میں مطبعہ خانے نہیں تھے اور زیادہ تر کتابیں مسودوں کی  شکل میں ہوتی تھیں، اسی طرح اس زمانے میں زیادہ تر کتابوں کے نسخے طالب علم خود ہی اپنے ہاتھوں سے لکھتے تھے۔

کبھی ایسا بھی ہوتا کہ مائیں اپنے بچوں کی کتابیں خود لکھا کرتی تھیں، وہ بچوں سے کہتی : تم زبانی یاد کرکے اپنے ہم جماعت ساتھیوں کے مقابلے میں لگے رہو، تمہارے ساتھی جو لکھ رہے ہیں وہ میں خود تمہارے لیے لکھتی رہوں گی۔

ہمارے پاس ہماری دادی کے ہاتھوں سے لکھی ہوئی تقریبا 41 جلدیں ہیں، ان کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ بچے تحصیلِ علم کے لیے فارغ رہیں، ان کے ہاتھوں سے لکھی ہوئی کتابوں میں ہمارے پاس فقہ کے موضوع پر علامہ عبدالقادر بن محمد مجلسی شنقیطی کی کتاب ثِماني الدُّرَر في شرح المختصر آج بھی محفوظ ہے۔ اس کتاب کی مسودے کی شکل میں سات جلدیں ہیں، اگر ان کی طباعت کی گئی تو 21 جلدیں ہوجائیں گی۔

علوم سے بھرپور پروگرام :

پہلے استاذ یا شیخ جن سے آپ کا تعارف ہوا کون ہیں ؟ اور ان کا طریقہ تدریس کیسا تھا؟

ماؤں یعنی والدہ، دادی، والدہ کی پھوپھی اور والد کی خالہ اور میری پھوپھی سے براہ راست تعلیم حاصل کرنے کے بعد والد سے قرآن مجید کی مختلف قرائتیں سیکھی، ان قرائتوں میں ان ہی سے سند حاصل کی، اسی طرح قرآن مجید کے ابتدائی علوم جیسے رسم، ضبط، تجوید اور حروف کے مخارج سیکھنے کے بعد والد صاحب کے پاس ہی بروایت عیسی بن مینا المصری جو قالون نام سے معروف ہے کی قرائت میں اجازت لی۔ اس طرح میرے اولین شیوخ واساتذہ  گھر کی یہ خواتین رہیں اور ان کے بعد والد۔

پھر میں اپنے دادا علامہ محمد عالی کے پاس تعلیم کے لیے فارغ ہوا، 9 برس تک آپ ہی کی خدمت میں رہا، ان کے پاس میں نے حدیث شریف کی 9 کتابیں، عربی گرامر نحو وصرف کی 58 کتابیں اور ابن قدامہ المقدسی کی کتاب المغنی کی طرح مسلک مالکی اور دیگر مسلکوں کی درجنوں کتابیں پڑھی۔ میں نے اپنے دادا سے قاضی عیاض کی کتاب الشفا کو 13 مرتبہ سنا، ابن حجر کی فتح الباری کو مکمل 5 مرتبہ سنا، جبکہ تفسیر قرطبي کو 6 مرتبہ پڑھ کر انھیں سنایا۔ پڑھنے اور سننے کا یہ عمل علمی متون کی تشریح کے لیے مختص وقت کے علاوہ اوقات میں منعقد ہونے والی علمی محفلوں میں انجام دیا جاتا تھا۔

جہاں تک دادا کے طریقہ تدریس کی بات ہے تو ان کا طریقہ تدریس بہت مشہور ومعروف ہے، وہ متن کے الفاظ کا انتہائی باریکی اور تفصیل کے ساتھ لغوی واصطلاحی تجزیہ کرتے تھے، سبق ختم ہونے کے بعد سبق کے ہر حصے کو دلیلوں اور اس کی اصل بنیادوں کے ساتھ واضح کرتے تھے۔

کیا وہاں تدریس کی محفل میں مضامین کی کوئی ترتیب ہوتی تھی؟ نیز آپ کے شیخ کا یومیہ پروگرام کیسا ہوتا تھا؟

تعلیمی کتابوں کی ترتیب لازمی تھی، کیونکہ محاظر میں ایسا بہت کم ہوتا تھا کہ ایک ہی طالب علم کو وقت واحد میں دو مضامین پڑھائے جائیں، البتہ میرے شیخ و دادا کبھی کبھی ہمارے لیے اس اصول کو ٹوڑا کرتے تھے، مثال کے طور پر میں صبح کے وقت دیگر طلبہ کے ساتھ پڑھتا تھا اور رات میں شیخ میرے لیےسماعت (سنی جانے) والی کتابوں کے علاوہ مزید ایک دوسری کتاب کا انتخاب کرتے تھے۔

جہاں تک شیخ کے یومیہ پروگرام کی بات ہے تو ہمیں یہ اندازہ نہیں تھا کہ وہ کب بیدار ہوتے ہیں لیکن رات کے اخیر حصے میں یعنی تقریبا رات میں چار بجے وہ ہمیں بیدار کردیتے تھے، تاکہ ہم ذکر واذکار، وضو اورمسواک سے فارغ ہوجائیں اور نماز کی تیاری کرسکیں، اس کے بعد وہ خود فجر کی اذان دیتے تھے اور والد کی امامت میں نماز فجر پڑھتے تھے، کیونکہ میرے والد مسجد کے امام تھے۔ نماز فجر کے بعد اشراق تک اپنی ہی جگہ بیٹھ کر ذکر واذکار کرتے اور دو رکعت پڑھ کر گھر لوٹتے تھے، جہاں وہ طلبہ کو اپنی اپنی جگہ پر پڑھائی کے لیے تیار پاتے تھے۔

محظرہ میں طلبہ کی دو قسمیں تھیں : انفرادی طور پر پڑھنے والے طلبہ اور اجتماعی شکل میں پڑھنے والے طلبہ، انفرادی شکل میں پڑھنے والے طلبہ کو فُرادی کہا جاتا تھا، جبکہ اجتماعی شکل میں پڑھنے والوں کو  الدُوَل، فُرادی اس شخص کو کہا جاتا تھا جو کسی ایک کتاب کو انفرادی شکل میں پڑھتا، عام طور پر ہمارے شیخ فُرادی طلبہ سے پہلے الدُوَل طلبہ یعنی اجتماعی شکل میں پڑھنے والے طلبا کو پڑھاتے تھے، اگر فرادی طلبہ میں کسی کے پاس سفر یا مرض جیسا کوئی عذر ہوتا تو اسے پہلے پڑھاتے تھے۔

شیخ کے پاس جو طلبہ سب سے پہلے حاضر ہوتے شیخ انہی کو پہلے پڑھایا کرتے تھے، ان کے پاس ایک شخص طلبہ کے سبق لکھنے پر مامور تھا، طلبہ کے سبق کی تختی شیخ کے سامنے رکھی ہوتی تھی، وہ شخص طلبہ کو فردا فردا شیخ کے سامنے پیش کرتا تھا۔ شیخ جب پڑھانے کا کام شروع کرتے تو ظہر تک اپنی جگہ سے نہیں اٹھتے تھے، عموما شیخ کے زیادہ تر درس تمام حاضرین کے لیے منعقد ہوتے تھے، نمازِ ظہر کے بعد وہ مسجد میں آتے، مہمانوں اور مسائل پوچھنے والوں سمیت ضرورت مندوں سے ملاقات کرتے تھے، اس کے بعد گھر لوٹ کر کچھ دیر آرام کرتے اور پھر نماز عصر کی اذان کے لیے بیدار ہوجاتے تھے۔ بعد نماز عصر رسم ِ اجازت کا وقت شروع ہوتا تھا، جس میں طلبہ شیخ کو زبانی یاد کیا ہوا سبق پڑھ کر سناتے تھے، شیخ انھیں سن کر اصلاح کرتے تھے اور اس طرح طلبہ شیخ کی صحیح متصل سند سے روایت کو زبانی یاد کرکے شیخ کی سند متصل سے جڑ جاتے تھے، بسا اوقات شیخ؛ متن کی مختلف روایتیں پڑھتے تھے۔رسم اجازہ کے اس عمل کے بعد شیخ قرآن مجید کا اپنا یومیہ ورد کرتے تھے، وہ ہر دن قرآن کا ایک چوتھائی حصہ پڑھتے تھے، پھر مطالعہ کا سبق شروع کرتے، جس میں عام طور پر طلبہ شریک نہیں ہوتے تھے بلکہ اس میں شیخ کے اہل خانہ اور بہت کم افراد شرکت کرتے تھے، اس حوالے سے مجھے یاد ہے کہ شیخ کی ان محفلوں میں میں نے تفسیر، شرح اور احادیث کی بہت ساری کتابیں پڑھی۔ جہاں تک شیخ کا رات کا معمول تھا تو آپ رات کے وقت صرف خواتین کو پڑھاتے تھے، جہاں وہ نماز عشاء کے بعد جمع ہوجاتی تھیں اور بعض خواتین بعض سے تعلیم حاصل کرتی تھیں اور بعض خواتین شیخ سے، شیخ سے تعلیم حاصل کرنے والی خواتین گھر کی محفلوں میں بھی شریک ہوتی تھیں اور شیخ کی نفل نمازوں میں بھی،اسی طرح سبق سنانے میں ان کا نام سب سے پہلے لکھا جاتا تھا۔ موریتانیا کے تاریخ نویس علامہ مختار بن حامد نے میرے دادا کی مجلس میں خواتین کی تعلیم کو بیاں کرتے ہوئے کچھ اس طرح  کہا ہے :

يجـــتمع النــــــساءُ كلَّ لــــــيلةِ ** مِن بعدما صَلَّيْنَ في الجماعــــــــــةِ

خلفَ مُميتِ الجهلِ مُحيي السُّنةِ ** مبارَكِ التـــعبيرِ عالي الرتبةِ

يَعينَ ما يَسمـــــعنَ من موعظةِ ** حســــنةٍ وحكـــــمةٍ بالــــــــــــغةِ

(ہر شب خواتین کا اجتماع ہوتا ہے جہاں وہ محی السنہ، جہالت کو مات دینے والی اور عالی مرتبت شخصیت کے پیچھے  باجماعت نمازیں پڑھتی ہیں اور اس عظیم شخصیت کی نصیحتوں اور حکمتوں سے فیضاب ہوتی ہیں)۔

 

محظرہ میں آپ نے کونسے علوم سیکھے؟

میں نے محظرہ میں 48 علوم پڑھے، جو فروعات پر مشتمل ہیں، مثلا علم قرآن میں ہم نے علم تجوید، رسم، ضبط، تفسیر، احکام سے متعلق آیتوں کی تفسیر، مفسرین کے طبقات، قرآن مجید کی مختلف قرائتیں،اسی طرح حدیث شریف میں علم علل، علم تخریج، علم اسانید، علم رجال، احادیث کے متن، شروحات اور تاریخ حدیث پڑھی۔ جبکہ علم فقہ میں ہم نے فقہ مذہبی، فقہ مقارن، علم اقضیہ ونوازل، علم میراث، شرعی آداب، علم اصول فقہ، فقہی قواعد، تخریج الفروع علی الاصول، الاشباہ والنظائر، علم فروق واستثنا، فقہی مباحثہ اور مختلف مسلکوں کے فقہا کی سیرت۔

علم لغت میں ہم نے علم مفردات، شعر، نحو وصرف، بلاغہ کے تینوں علوم، علم عروض، قوافی، اشتقاق کے تینوں علوم اور علم لسانیات پڑھی، جبکہ علم روایت میں سیرت، انساب، اسلامی اورعام تاریخ، فتوح الامصار اور ہسٹری آف سویلائزیشن پڑھی۔

اسی طرح علوم عقلی میں ہم نے علم کلام، منطق اور فلسفہ پڑھا۔ جبکہ تربیت کے میدان میں ہم نے تصوف وسلوک، اور آداب میں سفر وحضر کے آداب اور آداب صحبت پڑھا۔ علماء فارمیشن سینٹر جسے ہم نے موریتانیا کے دارالحکومت نواکشوط میں قائم کیا ہے وہاں ان علوم کے علاوہ دیگر نصاب کو بھی شامل کیا گیا تو اب جملہ 63 علوم ہمارے پاس پڑھائے جاتے ہیں۔

-  وہ کونسا اہم تعلیمی نصاب ہے جس نے علماء شناقطہ کو تیار کیا، جن کا علمی ڈنکا آج مصر، حجاز، اردن، عراق اور بھارت جیسے ملکوں میں ہے۔

علم تو اس پوری امت کا مشترکہ ورثہ ہے، البتہ شہری مصروفیات سے وابستہ لوگ اس سےمحروم رہ جاتے ہیں، وہ لوگ جنھیں اللہ تعالیٰ کی جانب سے بھرپور نعمتیں عطا ہوئی ہوں اور دائمی راحت بھی انھیں نصیب ہیں تو ہمیشہ ایسے افراد کا اس موروثی علم میں بہت کم حصہ ہوتا ہے، جہاں تک وہ لوگوں کی بات ہے جو مصیبتوں، تکلیفوں اور پریشانیوں میں گذر بسر کرتے ہیں انھیں اس علم کا بڑا حصہ نصیب ہوتا ہے، اگرچہ یہ بات ہمیشہ ایک جیسی نہیں ہوتی ہے، لیکن یہ حقیقت ہے کہ حالات سے دوچار اور غربت میں رہنے والے لوگوں کی زیادہ کتابوں تک رسائی نہیں ہوپاتی ہے اس لیے وہ بڑے شہروں کے لوگوں کے مقابلے کتابوں کو زبانی یاد کرنے کا سہارا لیتے ہیں۔

اگر کوئی موریتانیا کے قصبوں کا قاہرہ یا حیدرآباد یا کسی ایسے شہر سے موازنہ کرے جہاں مطبع خانے ہیں تو یہ موازنہ اس شخص کا غلط خیال ہے، ایک زمانے تک موریتانیا میں طبع شدہ کتابیں خال خال ہی پہنچتی تھیں، اسی لیے علماء شناقطہ کو اگر کوئی طبع شدہ کتاب پہنچتی تو وہ خوشی میں اس کتاب کے بارے میں شعر کہدیتے تھے، میرے دادا کہا کرتے تھے کہ اگرکسی کتاب کا مکمل مطالعہ نہیں کیا گیا تو وہ کتاب پڑھی گئی کتابوں کے لیے غیر محرم ہے، یعنی ان کے مطابق اس کتاب کو ان کتابوں کے ساتھ رکھنا جائز نہیں ہے۔ بہت کم ایسی کتابیں تھیں جنھیں زبانی یاد نہیں کیا گیا تھا، اور محظرہ کے اساتذہ بھی طلبہ کو اس وقت تک سبق کی تشریح نہیں کرتے تھے جب تک کہ طلبہ اس سبق کو حفظ نہ کرلیں۔

مثال کے طور پر زمانہ طالب علمی میں نحو اور صرف کی کتابوں کے جن متون کو میں نے زبانی یاد کیا تھا ان میں ابن مالک اندلسی کی کتاب لامیۃ العرب، ساتھ ہی حسن بن زین شنقیطی نے لکھا ہوا اس کتاب کا حاشیہ طرۃ، الفیہ ابن مالک، علامہ مختار بن بونا شنقیطی کی کتاب جامع بین التسہیل والخصاصہ، ابن ہشام مصری کی کتاب اوضح المسالک اور ان کی دیگر کتابوں سمیت ابن مالک کی نحو پر لکھی گئی دیگر کتابوں کو میں نے زبانی یاد کیا تھا۔

محظری نظام تعلیم میں فن حدیث میں بچوں کو سب سے پہلے امام نووی ؒ کی اربعین نووی، مقدسی کی العمدۃ، پھر امام مالک کی موطا، پھر امام بخاری وامام مسلم کی صحیحین اور پھر حدیث کی بقیہ کتابیں پڑھائی جاتی تھیں۔

سیرت وانساب کا آغاز علامہ احمد بدوی شنقیطی کی منظومات سے ہوتا تھا، جس میں نظم الغزوات، نظم الانساب، الکبیر (1380 شعر)، تاریخ خلفاء راشدین اور اسلامی مملکتوں کے حوالے سے نظم الخاتمہ، اسی طرح ابن خطیب اندلسی کی نظم الدُوَل، شمائل نبویہ میں امام ترمذی ؒ کی شمائل ترمذی، ابن کثیرؒ کی شمائل رسول اور علامہ ابن متالی شنقیطی کی نظم الشمائل پڑھائی جاتی تھی۔

مصطلح حدیث کی کتابوں میں علامہ سیدی عبداللہ شنقیطی کی منظوم کتاب طلعۃ انور، اس کے بعد الفیہ حافظ عراقی پڑھائی جاتی تھی، بعض طلبہ ان کتابوں کے ساتھ مقدمہ ابن صلاح اور امام سیوطی کی کتاب تدریب الراوی بھی پڑھتے تھے۔

علم فقہ کی ابتدا مختصرات سے کی جاتی تھی، جنھیں گھروں میں مائیں ہی اپنے بچوں کو پڑھاتی تھیں، مثلا مختصر الاخضری، نظم ابن عاشر کا متن. ان مختصر کتابوں کے بعد طلبہ بڑے اساتذہ کے پاس متن الرسالہ، مختصر خلیل  سمیت شنقیطی، مصری اور مراکشی علماء  کی لکھی ہوئی شروحات پڑھتے تھے۔

فقہ مقارن یعنی فقہی مسائل میں مختلف مسلکوں اور مکاتب فکر کی  رائے کو جمع کرنا اور ان کا تقابلی مطالعہ کرنا، اس میدان میں محظری طلبہ کو سب سے پہلے ابن جزی اندلسی کی قوانین فقہیہ پڑھائی جاتی تھی، پھر فقہی مسالک کی بڑی کتابیں تدریجی طور پر پڑھائی جاتی تھیں۔ اسی طرح اصول فقہ میں امام حرمین جوینی کی ورقات، پھر امام سیوطی کی الکوکب الساطع (جو 1450 اشعار پر مشتمل ہے)پڑھائی جاتی تھی۔اسی طرح سیدی عبداللہ شنقیطی کی مراقی السعود بھی پڑھائی جاتی تھی (جو 1001 اشعار پر مشتمل ہے)۔

علمی رسوخ:

جیساکہ آپ نے ورثہ سے تعلق رکھنے والے علوم کی کثرت اور ان کی کثیر تعداد پر روشنی ڈالی، علوم کی اس کثرت اور ان کی اتنی قسموں کے سائے میں ایک طالب علم اپنے آپ میں ایک  انسائیکلوپیڈیا  کا مقام کیسے حاصل کرتا ہے؟

ماہر علماء تیار کرنےسے عاجز یونیورسیٹیوں کے نصاب کے حوالے سے ہمارا تنقیدی نقطہ نظر  رہاہے، اسی کو مد نظر رکھتے ہوئے ہم نے علماء فارمیشن سینٹر میں اس خلا کو پُر کرنے کی کوشش کی ہے، ہمارے سینٹر کا تعلیمی نصاب جامع بھی ہے اور اس پر مکمل توجہ بھی دی جاتی ہے، ساتھ ہی اس نصاب میں ہم نے تربیتی پہلو کا بھی اضافہ کیا ہے جو جدید جامعات اور مدارس میں دکھائی نہیں دیتا ہے، تربیتی پہلو کو مد نظر رکھتے ہوئے ہم نے اسلامی اخلاق کو مقدم رکھا ہے۔ساتھ ہی ہمارے پاس طلبہ کے لیے ایک تربیتی پروگرام ہے جو سنتِ نبوی کی روشنی میں شب وروز کے وظائف پر مبنی ہے، اس تربیتی محنت کے نتیجے میں ہمارے پاس باعمل علماء تیار ہوتے ہیں۔علماء فارمیشن سینٹر میں ہم نے دور حاضر کے تقاضوں کو بھی نظر انداز نہیں کیا، ہمارے پاس طلبہ کوتقابلی ریسرچ تیار کرنا لازمی ہے، ہمارے طلبہ دیگر تعلیمی اداروں کے دورے بھی کرتے ہیں تاکہ ان اداروں کے سود مند تجربوں سے استفادہ کرسکیں، ساتھ ہی ہمارے طلبہ کی شدید خواہش ہوتی ہے کہ 226 فنون پر مشتمل کتابوں کے نصاب کو ازبر کیا جائے، انھیں مکمل طور پر سمجھا جائے اور جیسا کہ ہم نے کہا کہ 63 فنون میں ملکہ حاصل کرنا ہمارے طلبہ کی خواہش ہوتی ہے۔ ہمارے سینٹر سے فارغ ہونے والا ہر طالب علم اپنے آپ میں 63 پی ایچ ڈی کی ڈگریاں حاصل کرنے والے کی برابری کرتا ہے، کیونکہ اسے ان فنون میں اسی طرح اسپیشلائزیشن حاصل رہتا ہے جس طرح دور حاضر کے ڈاکٹرس میں صرف ایک فن میں ہوتا ہے۔

متون اور حفظ کے حوالے سے تنقید کی جاتی ہے اور بعض لوگ پوچھتے ہیں کہ کیا کوئی انسان بغیر اسٹڈی کرے اور ان متون کو زبانی یاد کرے بغیر عالم بن سکتا ہے؟

ان متون کو حفظ کرنے کی جہاں تک بات ہے تو بنیادی طور پر انسان متون کو یاد کرے بغیر طالب علم شمار ہی نہیں کیا جاسکتا، صرف مطالعہ انسان کو عالم نہیں بناسکتا، کیونکہ مطالعہ کرنے والے کے پاس چند بکھرے مفاہیم کے علاوہ کچھ بھی نہیں رہتا ہے، البتہ انسان جو حفظ کرلیتا ہے تو وہ اس کے پاس ہمیشہ محفوظ ہوجاتا ہے، امام شافعی کہتے ہیں :

علمي معي حيــــثـــــــــــــــما يمَّـــــمْتُ يتبعني

 

قلــــــبي وعـــــــــــــــــــــــــــاءٌ له لا جــــــــوفُ صندوقِ

إن كنتُ في البيتِ كان العلم فيه معي

 

أو كنتُ في السُّوقِ كان العلمُ في السُّوقِ

 (میں جہاں بھی جاؤں میرا علم میرے ساتھ ہوتا ہے، وہ خالی صندوق نہیں ہے، اگر گھر میں رہوں تو میرا علم میرے ساتھ گھر میں ہوتا ہے، یا میں بازار میں رہوں تو علم بازار میں ہوتا ہے۔)

ان متون کو زبانی یاد کرنے اور ان میں مہارت حاصل کرنے سے ہی یہ علوم انسان کے ساتھ رہتے ہیں اور پھر ہر وقت اسے ان علوم کا استحضار رہتا ہے۔ بعض علما شناقطہ علمی متن کے یومیہ درس کو ایک ہزار مرتبہ پڑھا کرتے تھے یہاں تک کہ وہ اسے بہت اچھی طرح زبانی یاد کرلیتے تھے، اسی طرح وہ اپنے شیخ کی اس متن کے حوالے سے تشریح کو سو دفعہ دہراتے تھے۔ کیونکہ علوم کو مکمل طرح سمجھنے کے لیے حفظ شرط ہے، حفظ کی وجہ سے ان علوم میں سے مسائل کو اخذ کرنے میں مدد ملتی ہے

آپ نے یونیورسٹی تعلیم کے لیے مشرق کے ممالک کا سفر کیا، اس تعلیمی سفر نے آپ کے علم میں کیا اضافہ کیا؟ اور آپ جدید طرز کی ان یونیورسٹیوں کو کس نظر سے دیکھتے ہیں؟

مشرق کے ملکوں میں سفر کے حوالے سے جہاں تک بات ہے تو میں نے 1408ہجری مطابق 1988 میں پہلا سفر کیا تھا، اسی وقت میں نے میرا پہلا حج ادا کیا تھا، اس کے بعد سے الحمد للہ مسلسل تقریبا تیس دفعہ حج ادا کرنے کا موقع ملا، میرے لیے حج اور عمرے کے ایام علماء کرام اور دنیا بھر سے آنے والے مشائخ سے ملاقات کا ایک بڑا موقع ثابت ہوا۔اس سفر میں، میں نے ریاض میں واقع امام محمد بن سعود اسلامی یونیورسٹی میں دو برس تعلیم حاصل کی، اسی یونیورسٹی سے علم فقہ میں ماسٹر پاس کیا اور پھر اسی یونیورسٹی میں ڈاکٹریٹ کی تکمیل کی۔

مجھے اس سفر میں معاصر طریقہ تعلیم، طریقہ ریسرچ اور لیکچرس پیش کرنے کے طریقہ کو سیکھنے کا موقع ملا، اس کے علاوہ تحقیق وریسرچ کے ان ذرائع سے واقفیت ہوئی، جن سے اس وقت ہمارے ملک کے لوگ واقف نہیں تھے۔ اسی طرح میں نے دور حاضر سے متعلق چند مخصوص علوم سیکھے، جامعہ میں داخلے سے پہلے مجھے اس کا کوئی علم نہیں تھا، مثال کے طور پر اسلامی معاشیات، جدید طریقہ تدریس اور مخطوطات کی تحقیق۔

اسی طرح  یونیورسیٹی میں مجھے دورحاضر کی فکر کے حوالے سے لکھی گئی کتابوں کا علم بھی ہوا اور مشائخ کے ساتھ ملاقات ، بحث ومباحثے اور ان کی فکر وسوچ سے میں نے استفادہ کیا۔میں نے صرف حجاز کا ہی سفر نہیں کیا، بلکہ مصر بھی گیا، جہاں مصر کے کئی علماء سے ملاقاتیں کی، اسی طرح شام کا بھی سفر کیا اور وہاں کے علماء کرام سے بھی استفادہ کیا۔

جہاں تک ان جامعات اور یونیورسٹیوں کی حیثیت کا سوال ہے تو میں ان جامعات کوصرف محققین پیدا کرنے والے مراکز سمجھتا ہوں، کیونکہ جامعات سے وابستہ زیادہ تر مشائخ کے پاس مطلوبہ حفظ، روایت اور فن میں مہارت نہیں ہوتی ہے بلکہ ان پر ان کا اسپیشلائزین حاوی ہوتا ہے، اگرچہ ان میں سے بعض اپنے میدان میں انسائیکلوپیڈیا کی حیثیت رکھتے ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ تعلیمی اداروں اور موجودہ دور کی جامعات کی بنیاد  کا مقصد کسی بھی طور پر علماء تیار کرنا نہیں ہےبلکہ ان جامعات کی بنیاد مغربی جامعات کی طرز پر ماہر وممتاز محققین اور اپنےزمانے کے علوم پر دسترس رکھنے والےافراد پیدا کرنا ہے۔اسی لیے جب ہم دور حاضر کی جامعات کے نصاب تعلیم پر نظر ڈالتے ہیں تو ہم ان جامعات کی علمی اور اکیڈمک مجلسوں کو دیکھ سکتے ہیں جن کے لیے کسی بھی علم سے بالکل مختصراور شارٹ نصاب تیار کیا جاتا ہے اور جب امتحانات کا وقت قریب آتا ہے تو استاذ؛ طلبہ کے مطالعے کے لیے اس شارٹ نصاب میں سے بھی صرف کچھ ہی حصہ متعین کرتا ہے، صورتحال یہ ہوتی ہے کہ استاذ کو خود بھی اس سبجیکٹ پر مکمل عبور حاصل نہیں رہتا ہے جسے وہ پڑھاتا ہے۔ اس لیے ہمارا خیال ہے کہ اس طریقہ تعلیم سے ایک سنجیدہ محقق تیار نہیں ہوسکتا تو پھر کئی فنون کا ماہر کیسا پیدا ہوسکتا ہے؟

علمی شروحات :

ریاض میں دوران تعلیم آپ نے اپنی علمی محفلوں میں کن موضوعات پر علمی درس دیئے اور اس عرصے میں کن کتابوں کے متن کی شروحات کو مکمل کیا؟

متون کی شروحات کو محفوظ کرنا میری عادت نہیں ہے، ہاں بعض طلبہ ان دروس کی ریکارڈنگ کرتے ہیں اور نشر کرنے کا اہتمام کرتے ہیں۔ میں نے یونیورسٹی کی تعلیم کے عرصے میں متعدد اداروں کی جانب سے مدعو کیے جانے پر کئی کتابوں کے درس دیئے، مثال کے طور پر امام محمد بن سعود اسلامی یونیورسٹی کی مسجد میں مجھے درس کی دعوت دی گئی تو میں نے وہاں صحیح بخاری، منطق کی کتاب السلم المرونق کی شرح، علم صرف کی کتاب لامیۃ الافعال کا دو دفعہ درس، علم نحو کی کتاب الفیہ ابن مالک کا درس سمیت علم اصول فقہ کی کئی کتابوں کے درس دیئے ، جن میں امام سیوطی کی الکوکب الساطع، ابن عاصم الغرناطی کی مرتقی الاصول، علامہ محنج بابہ شنقیطی کی کی سلم الاصول اور اسحاق شیرازی کی شرح اللمع شامل ہیں۔اسی طرح میں نے دوران تعلیم امام سعود یونیورسٹی کی مسجد میں علم حدیث سے متعلق کتاب الفیہ عراقی اور فقہ حنبلی کی کتاب العمدہ پڑھائی۔

اسی طرح قطری وزارت اوقاف کی جانب سے بھی کئی دروس منعقد کیے گئے، جن میں ہم نے المعلقات کی تشریح کی، اس درس میں سے صرف امرئ القیس کا معلقہ نشر ہوا، اسی طرح ان دروس میں اسنوی کی کتاب التمهيد في تخريج الفروع على الأصول کا درس دیا۔ کویت وزارت اوقاف نے بھی کئی دروس منعقد کیے جن میں اصول فقہ کی کتاب مراتب دلالہ کی میں نے شرح کی، اس شرح کو وزارت اوقاف نے طبع بھی کیا ہے۔ اس کے علاوہ منذری کی احکام کے دلائل سے متعلق کتاب الأربعون المنذرية کا بھی درس دینے کا موقع ملا۔اسی طرح یورپ کے کئی ممالک میں بھی درس کا موقع ملا۔

 

گراں قدر کوششیں:

عربی ورثے کی کتابوں کے مطالعے کے لیے آپ کے نزدیک کونسا مثالی طریقہ ہے؟ کیونکہ اکثرلوگوں کو عربی ورثے کے اصل سرچشموں سے آگاہی کے بحران کی شکایت ہے۔

ورثے سے متعلق کتابوں سے آگاہی خاص طور پر طالب علم، دانشوران اور محققین کے لیے ضروری ہے، اگر کسی نے ورثے سے قریب کرنے والی کتابیں بھی پڑھی ہو، تب بھی طالب علم کے لیے بنیادی کتابوں کا مطالعہ ضروری ہے، بلکہ بعض موروثی کتابوں کو تو گہرے مطالعے کی ضرورت ہوتی ہے،اسی وقت ہم ان کتابوں کے موتیوں اور خزانوں کو پاسکتے ہیں، مثال کے طور پرعلم نحو پڑھانے والے کو سیبویہ کی الکتاب اور الفیہ ابن مالک ضرور پڑھنا چاہیے، ان دونوں کتابوں کی طرح ہر فن کی بنیادی کتابوں کو طالب علم نے پڑھنا چاہیے۔

جہاں تک ورثے کی کتابوں سے آگاہی اور مطالعے کی بات ہے تو آج کے زمانے میں مطالعے کے طریقوں میں بہت زیادہ ترقی ہوگئی ہے، مطالعے کا طریقہ ہر شخص کا مختلف ہوسکتا ہے اور شخصیت کی علمی قابلیت کے مطابق اس میں تبدیلی ہوسکتی ہے۔ بعض طلبہ اپنے ہم عصر اور ساتھی طلبہ کے ساتھ مباحثے اور مذاکرے کے ذریعے اپنے مطالعے سے فائدہ اٹھاتے ہیں، دوسرے کی عقل وسمجھ سے نفع حاصل کرنے کا یہ ایک بہترین طریقہ ہے۔ بعض مطالعہ کرنے والے مطالعے کے لیے تنہائی کے عادی ہوتے ہیں۔ میرے نزدیک سب سے بہتر طریقہ ان دونوں طریقوں کو ملانا ہے یعنی انسان تنہائی میں بھی مطالعہ کرے اور اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر بھی، اس زمانے میں محققین کی علمی پختگی کے لیے اہم چیز ورثے کی کتابوں پر تحقیق کرنا اور ماہرین کے ساتھ پر ان پر بحث ومباحثہ کرنا ہے، موجودہ زمانے میں علمی تحقیق علم کی حفاظت کا ایک ذریعہ ہے۔

آج کل نئی نئی کتابیں منظر عام پر آرہی ہیں جن میں ورثے کے علوم وفنون کو آسان بناکر پیش کرنے کی کوشش کی جارہی ہے، مثال کے طور پر علوم فقہ، اصول، حدیث اور نحو کی قدیم کتابوں کی بنیاد پر جدید طرز کی کتابوں کے حوالے سے آپ کیا کہتے ہیں .

ہر زمانے کے افراد کی ان کی زبان، ان کے کلچر اور ان کے فہم کے سطح کی کتابیں اور تالیفات ہونا چاہیے، لہٰذا میں دور حاضر کی جدید طرز کی کتابوں کے سلسلے میں کوئی حرج نہیں سمجھتا ہوں، جو آسانی اور فہم کی غرض سے ورثے کے تقریبا علوم وفنون میں تالیف کی گئی  ہیں۔ ان کتابوں میں کئی چھوٹی بڑی کتابیں اپنے علمی معیار کی وجہ سے مشہور بھی ہوئی ہیں، یہ ایک فطری امر ہے۔ میں کہتا ہوں کہ اہل زمانہ کو اپنے زمانے کی روشنی میں فقہی کتابوں کی ضرورت ہے، جن میں قدیم مثالوں کے بجائے دور حاضر کی مثالیں پیش کی جائیں، کیونکہ نظریے اور مثالوں کے حوالے سے حالیہ مالیاتی معاملات قدیم معاملات سے بنیادی طور پر بالکل مختلف ہیں۔

زمانہ حاضر میں ورثہ کی مختلف کتابوں کی تحقیق کی تحریک شروع ہوئی، اس تحریک کی مستشرقین، عرب اور اسلامی تناظر میں کوششوں کو آپ کیسے دیکھتے ہیں؟آپ کی معلومات کے مطابق دور حاضر کے محققین میں کون سب سے بہتر ہیں؟

مستشرقین، عرب اور اسلامی سطح پر ورثہ کی کتابوں پر ہمارے زمانے میں جوبھی کام کیا جارہا ہے، وہ اس امت کا ورثہ ہے جس سے اللہ تعالیٰ اس امت کو فائدہ پہنچارہا ہے،تحقیق کے اس کام نے قدیم روایت کی ہی جگہ لی ہے جب طلبہ صرف کتابوں کے مطالعے پر اکتفا نہیں کرتے تھے بلکہ وہ نقل کیے گئے نسخوں کا اصل نسخوں سے موازنہ کرتے تھے اور ان کی تصحیح کے ساتھ ساتھ ان نقل شدہ نسخوں پر اضافے اور حاشیے لکھا کرتے تھے، حقیقت یہ ہے کہ مسلمانوں نے مخطوطات پر ریسرچ میں غیروں کو پیچھے چھوڑا ہے، شرف الدین یونینی ؒ (ت 701هـ/1301م)نے صحیح بخاری کے کئی نسخوں کو حاصل کیا اور  ان نسخوں کے موازنے کے لیے 16 ماہر علماء کو جمع کیا جن میں امام مالک نحوی بھی شامل تھے، ان ماہر علماء نے ان نسخوں کا ایک دوسرے سے موازنہ کیا، اور ہر نسخے میں علامتیں اور اختلاف کے اشارے لکھے،آج بخاری کا جو منفرد اور اصل نسخہ موجود ہے وہ یونینی کی تحقیقی کوششوں کا ہی ثمرہ ہے اور یونینی کے بعد آنے والے بخاری کے شارحین اور معاصر محققین نے اسی نسخے  پر اعتماد کیا ہے۔ جہاں تک مستشرقین کی کوششوں کا سوال ہے تو تراث یا ورثے کے حوالے سے ان کی خدمات یکساں نہیں ہیں، بعض مستشرقین نے اسلام اور مشرق کے خلاف حاسدانہ ومعاندانہ سامراجی پس منظر میں ورثے پر ریسرچ کی ہے، بعض کی ریسرچ تحریف اور ردوبدل کے مقصد سے کی گئی، جیسا کہ مستشرقین نے ابن ابوداود سجستانی کی کتاب المصاحف پر اپنی تحقیق میں کیا ہے، اس سب کے باوجود ہم بعض مستشرقین کی کوششوں کی قدر کرتے ہیں، جنھوں نے ورثے کی کتابوں پر واقعی علمی تحقیق کی ۔

جہاں تک اسلامی تحقیقات کی بات ہے تو اس حوالے سے کئی لوگوں نے گراں قدر کاوشیں کی ہیں، آل شاکر اس سلسلے میں قابل ذکر ہیں، احمد شاکر، ان کے برادر محمود شاکر اور ان کے ماموں زاد بھائی عبدالسلام ہارون نے ورثہ پر قابل قدر تحقیقی کام کیا ہے، انھوں نے شرعی، لغوی اور ادبی ورثے کے ذخائر کو منظر عام پر لایا اور آج بھی ان لوگوں کی تحقیقات کو برابر اعتماد حاصل ہے۔ان کے علاوہ مصر کے عظیم محققین میں محمد ابوالفضل ابراہیم، علی محمد البجاوی اور ان کے بعد شیخ عبدالفتاح الحلو بھی اسلامی تحقیقات کے حوالے سے قابل ذکر ہیں۔

مصر کے علاوہ مراکش، جزائر، جزیرہ عرب، شام وعراق اور بھارت سے بھی مسلم محققین نے تحقیق وریسرچ کے میدان میں قابل قدر محنتیں کی ہیں۔ یہاں ہم قاہرہ، دمشق اور بغداد کی مجامع اللغہ کی کاوشوں کو نظر انداز نہیں کرسکتے، جہاں سے ورثے کی کتابوں کی معیاری طریقے سے اشاعت عمل میں آئی۔ شیخ محمد ابوالاجفان مشہور محقق گزرے ہیں، جنھوں نے فقہ مالکی کی ورثے کی کتابوں پر عظیم الشان کام کیا ہے، اسی طرح عراقی محقق بشار عواد نے امام ذہبی کے ورثے کو اپنی کوششوں کا میدان بنایا۔ اسی طرح حدیث رسول ﷺ کو ضیعف احادیث سے چھانٹنے اور صحیح اور ضعیف کی تحقیق میں کئی محققین نے اہم خدمات انجام دی ہیں، لیکن شیخ البانی اس میدان کے شہسوار ثابت ہوئے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اسلامی دنیا میں تحقیق کے حوالے سے ایک بڑا انقلاب آیا، جس سے علم واہل علم کو فائدہ ہوا اور ورثے کو تحفظ ملا  لیکن تحقیق ونشر کا کام تجارت اور حصول نفع کا ذریعہ بن گیا ہے، ساتھ ہی تراث یا ورثے کی بعض تحقیق شدہ کتابوں میں بسا اوقات سنگین غلطیاں ہوتی ہیں، جس کی وجہ محقق کی جانب سے صرف کسی ایک نسخے پر اعتماد ہوسکتی ہے یا پھر کسی وجوہات کے پیش نظر ان سطور کو مٹادیا جاتا ہے۔

آپ کی نظر میں تراث یا ورثہ میں کسی کتاب کو شامل کرنے کے لیے کیا معیار ہونا چاہیے؟ کیا صرف اسلامی تہذیب کے پروردہ مسلمان لکھاریوں کی کتابیں ہی ورثے میں شامل ہیں؟

تراث جو دراصل موروثی چیز ہوتی ہے جسے محفوظ رکھنے کا ہر کوئی خواہش مند رہتا ہے، ہماری تہذیب میں اس ورثے کی کئی قسمیں ہیں : پہلی قسم : زمانہ اسلام میں مسلمانوں اور غیر مسلموں کی تخلیقات، دوسری قسم : جاہلین ِعرب کے واقعات واشعار، تیسری قسم : دیگر اقوام کے حوالے سے ترجمے جیسے یونان، فارس، بھارت وغیرہ،یہ تمام اقسام اس امت کا ورثہ ہے، اس لیے کہ ورثے کی ان تمام قسموں نے امت اسلامیہ کی ثقافتی اور اس کی ادبی فکر کی آبیاری کی اور امت کی شخصیات کو تیار کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے، اس لیے چھ جاہلی شعراء کی شاعری اور دیوان حماسہ سمیت دیگر جاہلی شعراء کی شاعری ہمارا ورثہ ہے، اسی طرح یونانی منطق وفلسفے کے تراجم سمیت دیگر اقوام کے ترجمے جیسے کلیلہ ودمنہ بھی ہمارے ورثے میں شامل ہیں۔

دیگر اقوام کے ورثے کو قبول کرنے اور رد کرنے کے حوالے سے مسلمانوں کو کن اصول کو اپنانا چاہیے، ایسے وقت جب کہا جاتا ہے کہ اسلامی سیاسی فکر پر ایرانی ساسانی افکار کے اثرات ہیں ؟

جہاں تک ہماری بات ہے تو ہم ایک ہاتھ بھی تنگی نہیں کرتے ہیں اور نہ اس بات کو چھپاتے ہیں کہ ہم دیگر اقوام سے متاثر ہوئے، ہم تو یہ تسلیم کرتے ہیں کہ تمام تہذیبیں ایک عالمی مشترکہ انسانی ورثہ ہے، نبی کریم ﷺ نے اہل فارس کی تہذیب سے متاثر ہوکر خندق کی کھدائی کا فیصلہ کیا تھا، اسی طرح رسمی پیغامات پر مہر کے لیے رومی تہذیب سے مہر کی فکر کو قبول کیا، مسلمانوں کے نزدیک دیگر اقوام کی سود مند اور صحیح چیزوں کو اپنانے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے، خاص طور پر ٹیکنالوجی کی اس مادی تہذیب کے مسائل کو اختیار کرنے میں تو کوئی مضائقہ ہی نہیں ہے۔ رہی بات سیاسی پہلو کی تو عربوں کے نزدیک کوئی ایک نظام حکومت نہیں تھا، وہ ایک خانہ بدوش قوم تھی، اسلامی مملکت کی توسیع کے بعد عربوں کو جب ضرورت پڑی تو انھوں نے دیگر اقوام سے ان کی اچھی چیزوں کو اپنانا شروع کیا، لیکن اس وقت دیگر اقوام کی خوبیوں کو اپنانے کا یہ عمل بے ساختہ نہیں تھا بلکہ  مسلمانوں نے تجربے اور غوروفکر کے بعد دیگر اقوام کی خوبیوں کو اختیار کیا، اس اہم ترین مشن کو ان تہذیبوں اور زبانوں کے ماہر مترجمین کے ذریعے انجام دیا گیا، اس زمانے میں کوئی اسلامی ملک کو کسی معاون کتاب کی ضرورت پڑتی تھی تو اس کتاب کے ترجمے پر بڑی بڑی رقومات خرچ کی جاتی تھیں۔اس کے مقابلے میں دیگر اقوام نے بھی اسلامی تہذیب سے اثر لیا، جس میں جدید یورپی انقلاب قابل ذکر ہے، نیپولین کے فرانسیسی قانون کے لیےتو فقہ مالکی کا سہارا لیا گیا ہے، اسی طرح یورپیوں اور دیگر اقوام نے ہماری عظیم شخصیات سے بہت کچھ سیکھا ہے، جن میں طب کے میدان میں فارابی، ابن سینا، ابن رشد، ابن الہیثم اورابن بیطارکی خدمات سے استفادہ کیا گیا  اور ان ہی کی خدمات کی بنیاد پر انھوں نے طب جدید اور فلسفہ کی بنیاد رکھی، جب کہ جغرافیا اور علم فلکیات تو دنیا کی ساری اقوام کو مسلمانوں سے ہی ملا ہے۔

 

 

 

 

 

Rounded Rectangle: https://mubassir2011rahman.blogspot.com