جمعرات، 31 اگست، 2023

0 تبصرے

زمین پر بہشت کا کنواں

:- ڈاکٹر مبصر الرحمن

میرا نام بئرُ غَرْسٍ ہے، یعنی "غَرْسٍ کا کنواں" ، میری بناوٹ،  میرا پانی اور میری گہرائی عام کنووں کی ہی طرح ہے، لیکن ہاں رب تعالی نے دیگر کنوؤں کے مقابلے مجھے فوقیت بخشی ہے، یقینا وہ جسے چاہے چن لیتا ہے، ( وَرَبُّكَ يَخْلُقُ مَا يَشَآءُ وَيَخْتَارُ ) ، میرے وجود کو برسہا برس گزر گئے ہیں، تقریبا 15 صدی پہلے صحابی رسول سعد بن خیثمہ کے دادا مالک بن نحاط نے میری کھدائی کی تھی، اور زمانہ رسول میں سعد بن خیثمہ ہی میرے مالک اور روح رواں رہے، میرے لیے اس روئے زمین پر سب بڑا شرف یہ ہے کہ تاجدار مدینہ نے میرے پانی کو وضو اور غسل کے لیے استعمال کیا، مجھے اپنے لعاب مبارک سے نوازا، اس لعاب کا اثر آج بھی میرے پانی میں موجود ہے، یہی نہیں بلکہ میرے پانی میں تاجدار مدینہ نے اپنے مبارک ہاتھوں سے شہد بھی انڈیلا تھا، اسی طرح میرے ہی پانی سے متعلق تاجدار مدینہ ﷺ نے وصیت کی تھی کہ جب آپ کا وصال ہو جائے تو آپ کو میرے ہی پانی کے 7 مشکیزوں سے غسل دینا۔ اور خاص بات یہ کہ مجھے تاجدار مدینہ نے جنت کا کنواں قرار دیا۔

 کئی برسوں سے بعض لوگوں کی جہالت اور بے جا غلو کے پیش نظر بعض خیر خواہوں نے میرے منہ پر ایسا ڈھکن ڈھانپ دیا تھا کہ میرے وجود کو خطرہ لاحق ہوچکا تھا، کعبے کا رب؛ خادمین کعبہ کو جزائے خیر دے کہ انھوں نے دنیا بھر کے زائرین کے لیے میرے دروازوں کو کھول دیا، میری صفائی کا کام کیا اور میرے پانی تک لوگوں کی رسائی کو آسان بنادیا ہے۔ مشہور عالم دین ابن باز رحمہ اللہ سے کسی نے میرے پانی کے فوائد کے بارے میں سوال کیا تو علامہ کا جواب سن کر مجھے دلی خوشی ہوئی۔

علامہ ابن باز رحمہ اللہ نے میرے پانی کے حوالے سے کہا :

"اللہ تعالٰی نے اس کنوئیں کے پانی میں جلد کی بعض بیماریوں کے لیے شفا رکھی ہے، اس پانی کو علاج کے لیے استعمال کرنے میں کوئی ممانعت نہیں ہے، بلکہ اللہ تعالٰی نے اس میں برکت اور مسلمانوں کے لیے نفع رکھا ہے۔ خلاصہ کلام یہ ہے کہ اللہ تعالٰی نے اس کنویں کے پانی میں بہت سارے فائدے رکھے ہیں"۔

جب آپ مدینہ منورہ کی زیارت کے لیے تشریف لائیں تو مسجد قبا کے مشرقی جانب نصف میل کی دوری پر میرے در پر بھی حاضری دینا، مملکت کی جانب سے اب مجھے ایک سیاحتی مقام بنادیا گیا ہے، ساتھ ہی میرے پانی کی افادیت کے پیش نظر اب دنیا بھر کے زائرین کو میرا قیمتی پانی اپنے ساتھ بھی لے جانے کی اجازت دے دی گئی ہے۔

پیر، 24 اپریل، 2023

0 تبصرے

 از- ڈاکٹر مبصرالرحمن قاسمی

 رسول اللہ ﷺ اور صحابہ کی شان میں گستاخی کرنے والوں، زندیقوں اور اسلام کے نہ چاہنے والوں  کی موت پرخوشی کیوں منائیں

رسول اللہ ﷺ اور صحابہ کی شان میں گستاخی کرنے والے اسلام کے دشمنوں کی موت پر خوشی منانا ایک شرعی عمل ہے، بلکہ نہ صرف بندوں کے لیے بلکہ ان کی موت حجر وشجر اور جانوروں پر بھی  اللہ تعالیٰ کی جانب سے  ایک نعمت ہے۔

ہماری اس بات پر بہت سارے دلائل موجود ہیں، جو نصوص قرآنی، احادیث اور آثار وواقعات کی روشنی میں ذیل میں بیان کیے گئے ہیں:

1- ارشاد ربانی ہے:

  يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اذْكُرُوا نِعْمَةَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ جَاءَتْكُمْ جُنُودٌ فَأَرْسَلْنَا عَلَيْهِمْ رِيحًا وَجُنُودًا لَمْ تَرَوْهَا وَكَانَ اللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرًا 

ترجمہ: اے ایمان والو! اللہ کے اس احسان کو یاد رکھو جب (کفار کے) لشکر تم پر چڑھ آئے تھے تو ہم نے آندھی اور ایسے لشکر بھیج دیئے جو تمہیں نظر نہ آتے تھے اور جو کچھ تم کر رہے تھے اللہ اسے خوب دیکھ رہا تھا۔ [الأحزاب: 9]

اس آیت کریمہ میں اس چیز کا بیان ہے کہ اللہ کے دشمنوں کو ہلاک کرنا بھی اللہ تعالی کی مسلمانوں پر نعمتوں میں شامل ہے اور اس نعمت پر اللہ کا شکر  بجالانا چاہیے۔

2-  سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ : "لوگ ایک جنازے کو لے کر گزرے تو لوگوں نے اس کے بارے میں اچھے کلمات کہے، تو حضور اکرم ﷺنے فرمایا: (اس کے لیے واجب ہو گئی۔) پھر لوگ ایک اور جنازے کو لے کر گزرے تو اسے لوگوں نے برا بھلا کہا تو نبی کریمﷺ نے فرمایا: (اس کے لیے واجب ہو گئی۔) اس پر عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے کہا: "کیا چیز واجب ہو گئی؟" تو آپ ﷺفرمایا: (اُس کے بارے میں تم نے اچھے کلمات کہے تو اُس کے لیے جنت واجب ہو گئی، اور اِس کو تم نے برا بھلا کہا تو اس کے لیے جہنم واجب ہو گئی، تم اس دھرتی پر اللہ تعالی کے گواہ ہو۔)"

 اس حدیث کو امام بخاری: (1301) اور مسلم: (949) نے روایت کیا ہے۔

علامہ بدر الدین عینی ؒ اس حدیث کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں:"اگر یہ کہا جائے کہ فوت شدگان کے بارے میں برے کلمات کا استعمال کیسے ٹھیک ہو سکتا ہے؛ حالانکہ صحیح حدیث زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ فوت شدگان کو برا بھلا نہیں کہنا بلکہ ان کا ذکر صرف اچھے الفاظ میں ہی کرنا ہے، تو اس کا جواب یہ ہے کہ فوت شدگان کو برے الفاظ سے یاد کرنے کی ممانعت ایسے لوگوں کے بارے میں ہے جو منافق، کافر، اعلانیہ گناہ یا بدعت کرنے والے نہیں ہوتے؛ کیونکہ ان لوگوں کی برائیوں کو دوسروں کو بچانے کے لیے ذکر کرنا حرام نہیں ہے ، اس کا فائدہ یہ بھی ہوگا کہ لوگ ان کے راستے پر چلنے سے خبردار بھی رہیں گے۔" ختم شد" عمدة القار شرح صحيح البخاری " ( 8 / 195 )

3- ابو قتادہ بن ربعی رضی اللہ عنہ بیان کرتے تھے کہ رسول اللہ ﷺکے پاس سے جنازے کو لے کر گزرا گیا تو آپ ﷺنے فرمایا: (اس نے آرام پا لیا یا لوگوں نے اس سے آرام پا لیا) تو صحابہ کرام نے عرض کیا: کس نے آرام پایا اور کس سے آرام پایا گیا؟ آپ ﷺ نے فرمایا: (مومن شخص دنیا کے رنج و تکلیف سے آرام پا جاتا ہے اور بدکار شخص سے لوگ، شہر، درخت اور جانور آرام پاتے ہیں) اس حدیث کو امام بخاری: (6147) اور مسلم: (950) میں روایت کیا ہے، اور امام نسائی نے اس حدیث پر اپنی کتاب سنن نسائی : (1931) میں عنوان قائم کرتے ہوئے لکھا ہے کہ: "باب ہےکافروں سے راحت پانے کے بارے میں"

4- ایک خارجی شخص جس کا نام "المخدج" تھا، اس کے قتل ہونے پر سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے سجدہ کیا تھا، یہ خارجی آپ سے لڑتے ہوئے مارا گیا تھا۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:"امیر المومنین علی بن ابو طالب رضی اللہ عنہ نے خوارج کے خلاف جہاد کیا، آپ نے خارجیوں سے قتال کے بارے میں رسول اللہ ﷺکی احادیث بیان کیں، پھر ان کے قتل ہونے پر خوشی کا اظہار بھی کیا، نیز جب خارجیوں کے سر غنّے ذو الثدیہ کو مقتولین میں دیکھا تو اللہ تعالی کے لیے سجدہ شکر بھی کیا۔

5- ابن کثیرؒسن 568 ہجری میں فوت ہونے والے لوگوں کے تذکرے میں لکھتے ہیں:

"حسن بن صافی بن بزدن ترکی کا تعلق ان بڑے امیروں میں سے تھا جو کہ ملکی سطح پر اثر و رسوخ رکھتے تھے، تاہم یہ شخص متعصب درجے کا خبیث رافضی تھا، اور رافضیوں کی حد درجہ طرف داری کرتا تھا،یہ رافضی اسی کی ناک تلے پھل پھول رہے تھے، یہاں تک کہ اللہ تعالی نے مسلمانوں کو اس شخص سے ماہ ذو الحجہ میں نجات دی اور مسلمانوں نے سکھ کا سانس لیا، اسے اسی کے گھر میں دفن کیا گیا جسے بعد میں قریش کے قبرستان میں منتقل کر دیا گیا ، اس پر اللہ کا ہی شکر ہے اور اسی کی تعریف ہے۔جس وقت وہ مرا تو اہل سنت اس کے مرنے پر بہت زیادہ خوش ہوئے، انہوں نے علی الاعلان اللہ تعالی کا شکر ادا کیا،  صورت حال یہ تھی کہ سب کے سب مسلمان اس کی موت پر  بلا استثنا اللہ کا شکر ادا کر رہے تھے۔" ختم شد" البدایہ والنہانیہ " ( 12 / 338)

6- خطیب بغدادی ؒ عبید اللہ بن عبد اللہ بن الحسین ابو القاسم الحفاف جو کہ ابن نقیب کے نام سے مشہور تھے ان کے حالات زندگی بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

"میں نے ان سے حدیث لکھی ہے، ان کی سنی ہوئی احادیث بالکل صحیح تھیں، آپ عقیدے میں بہت پختہ تھے، مجھے ان کے بارے میں یہ بات پہنچی کہ جس وقت رافضیوں کا سرغنہ ابن المعلم فوت ہوا تو انہوں نے خصوصی طو ر پر مبارکبادی کی محفل کا انعقاد کیا، اور کہنے لگے: اب مجھے کوئی پروا نہیں ہے کہ مجھے جس وقت مرضی موت آ جائے؛ کیونکہ میں نے ابن المعلم رافضی کو مرتے دیکھ لیا ہے" تاريخ بغداد " ( 10 / 382)

ابن سعد نے طبقات میں ذکر کیا ہے کہ جب حجاج الثقفی کی وفات ہوئی تو ابراہیم نخعی نے سجدہ شکر ادا کیا، راوی حماد کہتے ہیں: مجھے کوئی ایسا شخص نظر نہیں ایا جو اس کی موت پر خوشی کے مارے رو نہیں رہا ہو، بلکہ ابراہیم نخعی بھی خوشی میں رونے لگ گئے تھے۔طبقات ابن سعد (6/280)

یہ اور اس طرح کی بہت ساری دلیلیں ہیں، جن سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ گستاخوں اور فاجروں کی موت پر خوشی کا اظہار کرنا چاہیے اور اللہ تعالیٰ کا شکر بجالانا چاہیے۔

 

 

 

 


ہفتہ، 1 اپریل، 2023

0 تبصرے

 

ڈاکٹر مبصرالرحمن قاسمی

دو رکعتیں، جس نے مجھے تاریخی بنادیا

(مسجد اجابہ کی کہانی)


دنیا کے گوشے گوشے سے لوگ میری زیارت کے لیے آتے ہیں، فرمانبردار بھی آتے ہیں اور نافرمان بھی، بچے بھی آتے ہیں، جوان بھی اور بوڑھے بھی،  لوگ بڑی عقیدت سے میرے آنگن میں سربسجود ہوتے ہیں، میری درودیوار کو دیکھ کر اپنی آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچاتے ہیں اور کچھ لمحے گزار کر چلے جاتے ہیں، بہت کم اللہ کے بندے ایسے ہوتے ہیں جو میرے نصیب اور نسبت پر ربِ تعالٰی کا شکر بجالاتے ہیں اور بقیہ زندگی نیکی کے راستے پر چلنے کا عزم کرکے لوٹتے ہیں۔

میں آج آپ کو میری داستانِ سعادت سنانا چاہتی ہوں، ایک مرتبہ دن کا کوئی وقت تھا، رحمت ِعالمﷺ کا میری گلی سے گزر ہوا، اسی اثنا پروردگارِ عالم کا حکم آیا اور رحمت ِعالم ﷺکے مبارک قدم میرے آنگن میں پڑے، آپ نے دو رکعت نماز پڑھی اور بڑی لمبی دعا فرمائی، کیاآپ کو پتہ ہے؟ اگر یہ دعا آپ ﷺ نہ فرماتے تو ہوسکتا پچھلی قوموں کی طرح ایک ہی ضرب میں آپ اور میں غضبِ الٰہی کا شکار ہوجاتے، یا ہوسکتا مجموعی طور پر پوری امت کسی ظالم کے پنجے تلے محکوم بنادی جاتی، لیکن پروردگار ِعالم کا شکر ہے ، اس نے میرے حبیب ﷺ کی لاج رکھی اور میرے آنگن میں آپ ﷺ کی ان دعاوں کو قبول فرمادیا، لیکن  مجھے ہمیشہ ملال رہتا ہے کہ  پروردگارِ عالم نے رحمتِ عالم ﷺ کی ایک دعا کو قبول نہیں کیا ، یقینا اس میں ربِ تعالیٰ کی کوئی حکمت رہی ہوگی۔اللہ بھلا کرے ابوالحسن مسلم بن حجاج نیساپوری کا اور ابوعبدالرحمن احمد بن شعیب نسائی کا ، جنھوں نے میرے حوالے سے اس حدیث کوآپ تک پہنچایا۔ میں یہ دعا آپ کو سنانا چاہتی ہوں۔  میرے آنگن میں طویل دعا کرنے کے بعد آپﷺ نے اپنے اصحاب سے کہا : میں نے دعا کی کہ اللہ تعالیٰ اس امت کو اس طرح تباہ نہ کرے‘ جس طرح پچھلی امتیں مختلف عذابوں سے ہلاک ہوئیں (مثلاً پانی میں غرق ہو کر‘ تیز آندھی کی وجہ سے‘ زلزلہ کے ذریعے‘ آسمان سے پتھر برسا کر )دوسری دعا  یہ کی کہ غیر مسلم دشمن ان پر اس طرح غالب نہ آجائیں کہ انہیں بالکل ختم کردیں اور تیسری دعا یہ کی کہ وہ خواہشاتِ نفس کی وجہ سے آپس میں اختلاف کرکے مختلف گروہ اور پارٹیاں نہ بن جائیں۔ رحمتِ عالم ﷺ  نے فرماتے ہیں ’’پروردگارِعالم نے اپنے فضل سے پہلی دو دعائیں قبول کرلی اور تیسری دعا کسی حکمت کی بنا پر قبول نہیں فرمائی۔ وہ حکمت صرف اللہ تعالیٰ ہی کو معلوم ہے۔

جس جگہ یہ عظیم دعائیں قبول ہوئیں وہ خوش بخت  میں ہی مسجد اجابہ ہوں، آج دنیا مجھے اسی دعا کی وجہ سے مسجد اجابہ کہتی ہیں، اس سے پہلے تک اصحابِ رسولﷺ مجھے مسجد بنی معاویہ  کہتے تھے۔ پروردگار ِعالم تیرا شکر ہے کہ تونے مجھے دنیا کے انسانوں کے درمیان تاریخی بنادیا۔

  

جمعہ، 27 جنوری، 2023

0 تبصرے

 


 از۔ ڈاکٹرمبصرالرحمن قاسمی


کہانی معروف سعودی داعیِ دین شیخ عبداللہ بانعمہ کی


طیب اللہ ثراہ وجعل الجنۃ مثواہ

 عبداللہ بانعمہ گزشتہ 31 سال سے  اپنے مکمل جسم کے فالج زدہ ہونے کے باوجود دعوتی سرگرمیوں سے وابستہ تھے، طویل علالت کے بعدآج بروز جمعہ 27 جنوری 2023 کو بوقت فجر   وہ اپنے مالک حقیقی سے جاملے۔انا للہ وانا الیہ راجعون

عبداللہ بانعمہ کا پورا جسم مکمل طور پر فالج زدہ تھا، صرف ان کا سر اور جسم کا اوپر والا حصہ سلامت تھا، وہ بستر پر پڑے رہ کر اور  اس قدر معذوری کے باوجود عالم عرب میں ایک کامیاب داعی کا کردار ادا کررہے تھے، ایک معروف داعی کی حیثیت سے مختلف عربی چینلز عبداللہ بانعمہ کی تقریریں نشر کرتے تھے۔وہ معمولی سی بھی حرکت نہیں  کرسکتے تھے، سامنے رکھے ہوئے قرآن کریم کا صفحہ بھی الٹ کر نہیں پڑھ سکتے تھے، عبداللہ بانعمہ نے ٹی وی چینلوں کو دیئے گئے اپنے انٹریوز میں بارہا کہا تھا کہ ان کی یہ حالت والد کی  بددعا کا نتیجہ ہے، والدین کی نافرمانی کے حوالے سے عبداللہ بانعمہ کا قصہ عرب دنیا میں بہت مشہور ہوا، عبداللہ بانعمہ کے  ایک اسپورٹس مین سے داعیِ دین بننے  تک کی کہانی   میں والدین کی نافرمانی کرنے والوں کے لیے بہت سارے سبق ہیں، عبداللہ بانعمہ سال 1976 میں سعودی عرب میں پیدا ہوئے  اور بچپن سے ہی انھیں کھیل کود سے بہت زیادہ لگاو تھا۔وہ اسپورٹس مین بننا چاہتے تھے، دفاعی کھیلوں میں عبداللہ بانعمہ کو پروفیشنل کھلاڑی سمجھا جاتا تھا، انھیں تیراکی بہت پسند تھی، یہی وجہ ہے کہ ہر ہفتے اپنے دوستوں کے ساتھ سوئمنگ پول جایا کرتے تھے۔عبداللہ بانعمہ نے المجد چینل کو ایک انٹرویو میں  اپنے فالج زدہ ہونے کی مکمل کہانی سناتے ہوئے کہا تھا :  اللہ تعالیٰ کا مجھ پر انتہائی فضل و کرم اور احسان ہے کہ اس نے مجھے توبہ کی توفیق بخشی، میں صحیح سلامت تھا، میں جب سیکنڈری  اسکول کا طالب علم تھا تو میں نے بُرے ساتھیوں کی صحبت اختیار کر لی تھی، سگریٹ پینے لگ گیا تھا، اسٹائل کے ساتھ سگریٹ کے کش لینا میری عادت بن گئی تھی، والد محترم کو کسی نے میری اس بُری عادت کے بارے میں اطلاع دے دی تھی۔ ماں باپ کیلئے بہرحال یہ ایک تکلیف دہ بات  ہوتی ہے کہ ان کی اولاد سگریٹ نوشی کرے یا اس طرح کی دیگر بری عادتوں میں مبتلا ہو، چنانچہ میرے والد فوراً میرے پاس تشریف لائے اور غصے میں پوچھا، میں نے سنا ہے کہ تم سگریٹ پینے لگے ہو،کیا یہ بات سچ ہے؟ میں نے جھٹ سےجھوٹ  کا سہارا لیتے ہوئے کہا’’نہیں نہیں، آپ کو یہ جھوٹی بات کس نے بتادی؟ میں نے کبھی سگریٹ کو ہاتھ بھی نہیں لگایا۔‘‘  اس وقت میں نے والد محترم کےساتھ حجت بازی کی اور والد کو ڈانٹ  کر اپنے کمرے سے باہر نکلنے کو کہا، بس میرے والد نے کمرے سے قدم باہر رکھتے ہوئے بڑے درد سے یہ بددعا دے دی ’’اگر تم سگریٹ پیتے ہو تو اللہ تعالیٰ تمہاری گردن توڑ دے‘‘یہ بددعا کا ہی اثر تھا کہ آئندہ دن اسکول سے آنے کے بعد میں سوئمنگ پول گیا اور یکایک میرے ساتھ پانی میں ڈبکی لگانے کے دوران ایسا حادثہ پیش آیا کہ میرا نچلا جسم فالج زدہ ہوگیا۔ عبداللہ بانعمہ مزید کہتے ہیں کہ سوئمنگ پول کے اندر جب میں پانی میں ڈوبا ہوا تھا تو مجھے یقین ہو چکا تھا کہ اب میں زندگی کے آخری مرحلے میں ہوں اور میرا جنازہ آج ہی اٹھایا جائے گا مجھے اس وقت یاد آیا کہ رسول اکرمؐ کی تعلیمات کے مطابق مصیبت کی گھڑی میں اپنے نیک اعمال کا حوالہ دے کر اللہ تعالیٰ سے دعائیں مانگی جائےتو اللہ تعالیٰ قبول فرماتا ہے ۔ میں نے بھی جلدی جلدی اپنے ایک نیک عمل کے حوالے سے دعائیں مانگنی شروع کی۔وہ نیک عمل یہ تھا کہ میں ایک زمانے میں اپنی آمدنی سے کچھ حصہ ایک ضرورت مند بڑھیا کو دے دیاکرتا تھا۔وہ بڑھیا میرے حق میں دعائے خیر کیا کرتی تھی۔میں جب بھی اس کو صدقہ دیتا اس کے دونوں ہاتھ میرے لئے آسمان کی طرف بلند ہو جاتے۔اللہ تعالیٰ نے اسی دوران پانی کے اندر نبی کریمؐ کی اس حدیث کی طرف بھی میری رہنمائی فرمائی ’’دنیا میں جس کا آخری جملہ لا الہ الا اللہ ہو گا، وہ جنت میں داخل ہو گا۔‘‘چنانچہ میں نے کلمہ شہادت کا وِرد شروع کر دیا۔اس دوران میرے پیٹ میں بہت سارا پانی چلا گیا، اب مجھ پر بے ہوشی طاری ہو چکی تھی۔ میرے بھائی کا بیان ہے کہ تقریباً پندرہ منٹ بعد مجھے سوئمنگ پول سے باہر نکالا گیا۔ اگر اس طویل وقفہ کو دیکھیں تو میں ایک مردہ انسان تھا۔ مگر نبی کریمؐ کا ارشاد گرامی ہے’’بھلائی کے کام بُری موت میں رکاوٹ بنتے ہیں۔‘‘ عبداللہ بانعمہ کہتے ہیں : میں نے جوانی میں اپنے والد کی نصیحت کی کوئی پروا نہیں کی۔ غفلت کی زندگی گزاری۔ جھوٹی قسم کا سہارا لیا اور برے ساتھیوں کی صحبت میں رہا، چنانچہ اس کا انجام ِبد اس صورت میں سامنے آیا کہ میں جوانی کے خوشگوار ایام سے محروم رہا۔آج میں آپ کے سامنے ایک اپاہج کی حیثیت سے بستر پر پڑا ہوں۔

عبداللہ بانعمہ نے  شباب میگزن کو دیئے گئے ایک انٹرویو میں کہا تھا : مجھے آج اس بات کا شدید احساس ہے کہ ہماری نئی نسل اپنے ماں باپ کی خدمت میں پیچھے کیوں ہے؟ہم نے آخر اپنے والدین کو کیا دیا ہے؟ جبکہ انہوں نے ہمیں جنم دیا۔ہماری پرورش و پرداخت کی، ہمیں عدم سے وجود میں لانے کا وہی سبب بنے۔ میرے پاس ایک دفعہ 20 یتیموں پر مشتمل ایک ٹیم آئی، وہ لوگ میرے ارد گرد بیٹھ گئے۔ میں نے ان کو  فالج زدہ ہونے کا اپنا واقعہ تفصیل سے سنایا۔ انہوں نے مجھ سے جو کچھ پوچھا میں نے اس کا جواب دیا۔ جب وہ میرے پاس سے اُٹھ کر جانے لگے تو ان میں سے ایک نوجوان میرے پاس ہی کھڑا رہ گیا۔ وہ ٹیم کے ساتھ باہر نکلا۔ وہ زار و قطار رو رہا تھا۔ اس کے آنسو دیکھ کر میرے قریب بیٹھے ہوئے لوگوں کے بھی آنسو نکل پڑے۔ میں نے اس سے دریافت کیا، عزیزم ! آخر تمہیں یکایک کیا ہو گیا کہ تم زار و قطار رونے لگے؟ یتیم  نوجوان نے عرض کیا ’’ جناب عبداللہ!میرے دل میں یہ خواہش پیدا ہو رہی ہے کہ کاش آپ کی جگہ میں ہوتا۔‘‘ میں نے نوجوان سے کہا’’میرے بھائی،اللہ کا خوف کرو، تم کیوں چاہتے ہوکہ میری جگہ تم آ جاو؟‘‘ اس نے انتہائی معصومیت سے کہا، تمہارے پاس ماں باپ ہیں اور ہم ماں باپ کے سائے کے بغیر جی رہے ہیں۔اس کے باوجود کہ آپ ناگفتہ بہ حالت میں ہیں پھر بھی آپ بے حد خوش قسمت ہیں کہ آپ کے والدین ابھی زندہ ہیں اور آپ کے پاس موجود ہیں۔ جبکہ ہمارے پاس یہ عظیم نعمت موجود نہیں۔ بھلا ماں باپ جیسی انمول دولت دنیا میں کہاں ملتی ہے۔

المجد چینل نے عبداللہ بانعمہ سے یہ سوال کیا تھا کہ آپ  کے تجربوں کی روشنی میں بتائیں کہ ایک معذور انسان اپنی معذوری کے ساتھ ساتھ  دین کے بنیادی اصولوں کو تھامنے اور اللہ تعالی ٰ کی طرف دعوت دینے جیسے مشغلوں سے کیسے  وابستہ رہ سکتا ہے؟

عبداللہ بانعمہ کا جواب تھا کہ سب سے پہلے میں ہر معذور شخص کو یہ کہنا چاہتا ہوں کہ جو انسان جسم سے معذور ہے وہ حقیقت میں معذور نہیں ہے بلکہ معذور تو وہ ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اپنی اطاعت اور فرماں برداری سے محروم رکھا۔ دوسری بات : میری طرح معذور اور مریض انسان کے لیے دعوت الی اللہ کا کام کیسے ممکن ہے؟ میں ایک واقعہ سنانا چاہتا ہوں، اس واقعے نے مجھے بہت زیادہ متاثر کیا، میرے پاس ایک صحیح سلامت ہٹا کٹا نوجوان آیا تھا، اس نے مجھ سے کہا: میں ایک معجزہ ہوں، میں نے کہا وہ کیسے؟ کہنے لگا: میری پیدائش امریکا میں ہوئی، میں جس دن پیدا ہوا، اسی دن اسی ہسپتال میں میرے ساتھ اور دیگر 300 بچوں کی ولادت ہوئی تھی، میں نے پوچھا: اس میں معجزے کی کیا بات ہے؟ وہ نوجوان کہنے لگا : ان تین سو بچوں میں سے میں اکیلا ہوں، جسے اللہ تعالیٰ نے ایک مسلمان کے طور پر منتخب کیا ہے۔ میں اس نوجوان کی اس فکر پر بہت متاثر ہوا، کیونکہ اس کی ماں اور اللہ تعالیٰ کے درمیان کوئی دوسرا شخص اس نومولود میں چھپے اسلام کے نور کو نہیں جانتا تھا، ہر نومولود فطرت اسلام پر پیدا ہوتا ہے ، یہی بچہ جو آج نوجوان ہے اللہ تعالی نے اس کو اس کے والدین کے مسلمان بننے کا ذریعہ بنایا تھا۔ اس واقعے نے مجھے داعی بنایا، کیونکہ انسان کے لیے سب سے بڑی نعمت اسلام ہے، نعمہ کہتے ہیں: اللہ تعالیٰ ہر انسان کو اس کی طاقت کے بقدر آزماتا ہے، بس انسان یا تو شکر ادا کرتاہے صبر کرتا ہے یا پھر کفر پر اترآتا ہے۔

پی ڈی ایف فائل کے لیے