جمعہ، 6 اکتوبر، 2017

Farshi Al Turab

0 تبصرے

فرشي التُراب

"فرشي التراب" عربی زبان کی ان نشیدوں میں سے ایک ہے جس نے  عالم عرب کو بہت زیادہ متاثر کیا، اس نشید کو بچے، جوان اور بوڑهے اور ہر طبقے کے افراد نے بہت پسند کیا بلکہ اس نشید نے کئی لوگوں کو رلایا بهی، نوجوان کویتی نشید خوان مشاری العرادہ نے اس نشید کو اپنی خوبصورت آواز کا جامہ پہنایا ، یہ نشید  میت کی تدفین کی حالت کو بیاں کرتی ہے، اس کے کلمات اور پهر اسے جس انداز میں مشاری العرادہ نے پیش کیا ہے - اسے سن کر ہر سننے والے کے رونگٹے کهڑے ہوجاتے ہیں -

خدائے تعالی کی سنت اور قانون سے بهلا کون آگے جاسکتا ہے، جس نشید نے عالم عرب کو ابهی کچھ دن پہلے خوب رلایا ، آج اس نشید کے پڑهنے والے نے ایک بار پهر رونے پر مجبور کیا ، گذشتہ کل بروز اتوار ۷ جنوری ۲۰۱۸ کوسعودی عرب میں کویتی نشید خواں مشاری العرادہ کار حادثے کے بعد ۳۵ سال کی عمر میں چل بسے - انا للہ و انا الیہ راجعون –

ان کی مشہور نشید کے کلمات آپ بھی ملاحظہ فرمائیں –

فرشي التراب..     
يضمني..  وهو غطائي..
حولي الرمال..  تلفني..
بل من ورائي ..


واللحد يحكي ..  ظلمةً..
فيها ابتلائي ..  والنور خطّ كتابه.. أُنسي لقائي ..


 والأهل أين حنانهم؟!..
باعوا وفائي .. والصحب أين جموعهم؟!..
تركوا إخائي ..

والمال أينَ هنائه؟!..
صار ورائي ..  والاسم أين بريقه؟! ..  بين الثناء .. هاذي نهاية حالي ..
فرشي التراب.. يضمني .. وهو غطائي ..

والحب ودّع شوقه ..
وبكى رثائي ..
والدمع جفّ مسيره ..
بعد البًكاء ..


والكون ضاق بوسعه ..
ضاقت فضائي ..
فاللحد صار بجثتي ..
أرضي سمائي .. .
.هاذي نهاية حالي ..
والخوف يملأ غربتي ..
والحزن دائي.. أرجو الثبات وإنه.. قسماً دوائي..
والرب أدعو مخلصاً..
أنت رجائي..
أبغي إلاهي جنّة..
فيها هنائي..

بدھ، 30 اگست، 2017

Time & Place

0 تبصرے

مبصرالرحمن قاسمی
بچوں کی تربیت کے لیے
مناسب وقت  اور مناسب جگہ سے فائدہ اٹھاتے رہیے
 
 
بچوں کی تربیت کے لیے والدین کو اپنی زندگی کا طویل وقت قربان کرناپڑتا ہے، تربیت کا کام ایک یا دو دن کی محفل سجانے سے پورا نہیں ہوتا ہے بلکہ روز مرہ کی زندگی میں بچوں کی ایک ایک حرکت پر نظر رکھنا  اور مناسب وقت اور جگہ پر ان کی صحیح رہنمائی کرنا تربیت کے اصولوں میں شامل ہے۔

 بچوں کی روز مرہ کی زندگی میں کچھ اوقات ایسے بھی ہوتے ہیں جن میں وہ والدین یا سرپرست کی کسی بات کو سننے اور ماننے کے لیے تیار رہتے ہیں، ایسا وقت بچوں کی صحیح رہنمائی کے لیے بہت زیادہ مفید ہوتا ہے۔

مناسب وقت اور مناسب جگہ  کا انتخاب تربیتی کام کو آسان کردیتا ہے، کیونکہ بچوں کا مزاج بدلتا رہتا ہے، انھیں کبھی کوئی بات اچھی لگتی ہے اور کبھی کسی بات میں مزہ نہیں آتا ہے۔ لہذا والدین کو چاہیے کہ وہ بچوں کے دل کو راغب کرنے والے اوقات اور جگہوں  سے وقتا فوقتا فائدہ اٹھاتے رہیں۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بچوں کی رہنمائی اور ان کے عقیدے کی اصلاح کے سلسلے میں مناسب وقت اور  مناسب جگہ کا اکثر خیال رکھا کرتے تھے، بچوں کی   دنیا اور آخرت کی کامیابی اور ان کے روشن مستقبل کے لیے اگر ہمارے لیے دنیا کی شخصیات میں کوئی بہترین نمونہ ہے تو وہ دنیا کے سب سے بڑے ماہر نفسیات اور ماہر تعلیم وتربیت پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ لہذا  ذیل میں ہم نے آپ ﷺکے طریقہ تربیت کی تین سنہری مثالیں جمع کی ہیں، امید کہ ہر والدین ان سے استفادہ کریں گے۔

۱-  جب پارک میں ہوں، راستے  میں چل رہے ہوں  یا  سواری  پر  ہوں :

بچوں کا یہ حق ہے کہ وہ بڑوں کے ساتھ رہ کر ان سے سیکھیں، اپنی علمی پیاس کو بجھائیں اور علم، حکمت اور تجربے کے گھونٹ اپنے بڑوں سے حاصل کریں، آپ  ﷺنے حضرت انس کو اپنے ساتھ رکھا اور انھیں علم وہنر  کے گھونٹ پلائے، اپنے چچا زاد بھائی جعفر کے فرزندان کو اپنے ساتھ رکھا، اسی طرح اپنے چچا زاد بھائی فضل کو اپنی صحبت میں رکھا، اسی طرح چچازاد  بھائی عبداللہ ابن عباس کو اپنے ساتھ رکھا  اور ان سب حضرات کی ایسی تربیت کی جو علم وحکمت  میں امام بنے۔

 ایک دفعہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ آپ کے ساتھ سواری پر سوار تھے ، آپ ﷺ نےاس موقع کا فائدہ اٹھایا، ایسے موقع پر ذہن خالی ہوتا ہے اور دل قبول کرنے کے لیے تیار رہتا ہے، آپ ﷺ نے  عمر اور ذہنی استعداد کو مد نظر  رکھتے ہوئے بالکل مختصر  اور آسان انداز میں انھیں نصیحت فرمائی۔ ابن عباس خود  کہتے ہیں :   ایک دن وہ نبی ﷺ کے پیچھے سوار تھے، نبی ﷺ نے ان سے فرمایا :اے لڑکے! میں تجھے چند کلمات سکھا رہا ہوں، اللہ کے احکام کی پیرو ی کرو، اللہ تمہاری حفاظت کرے گا، اللہ کے احکام کی پیروی کرو،  تم اللہ کو اپنے سامنے پاؤگے، جب مانگو اللہ سے مانگو، جب مدد چاہو اللہ سے چاہو اور جان رکھو!  کہ اگر ساری دنیا مل کر بھی تمہیں نفع پہنچانا چاہے تو تمہیں نفع نہیں پہنچا سکتی سوائے اس کے جو اللہ نے تمہارے لئے لکھ دیا ہے اور اگر وہ سارے مل کر تمہیں نقصان پہنچانا چاہیں تو تمہیں نقصان نہیں پہنچا سکتے سوائے اس کے جو اللہ نے تمہارے لئے لکھ دیا ہے۔(ترمذی: 2516، وقال: هذا حديث حسن صحيح.)

نبی کریم ﷺ دنیا کے پہلے استاذ اور معلم ہیں جنھوں نے بچوں کی عمر اور  ان کی عقلی استعداد کے مطابق تربیت کا  نظریہ پیش کیا، آپ اپنی صحبت میں رہنے والے بچوں کو ان کی عقل اور ان کی علمی  پیاس کے مطابق انھیں علم  کے گھونٹ پلایا کرتے تھے اور اس کے لیے مناسب ترین وقت اور مناسب ترین جگہ کا انتخاب فرماتے تھے، آپ ﷺ نے حضرت ابن عباس کو توحید ویقین کا سبق کسی بند کمرے میں نہیں دیا بلکہ ایسے کھلے ماحول کا انتخاب فرمایا  جہاں بچے کا دل کسی چیز کو حاصل کرنے کے لیے مکمل طور پر تیار تھا، پھر آپ نے اس بچے کو ایمانی اور تربیتی  گھونٹ پلائے۔

۲۔ کھانا کھانے کے دوران :

بچوں کے خوشی کے  اوقات میں سے ایک کھانا کھانے کے دوران کا وقت  ہے، اس دوران بچوں کو والدین کے ساتھ بات چیت کرنا بہت اچھا لگتا ہے، خصوصا  بچہ بچپن کی عمر میں دستر خوان پر  والدین کی حرکتوں کو بغور دیکھتا ہے اور ان  کی حرکتوں کی نقل کرنے کی کوشش کرتا ہے، لیکن دستر خوان پر بچو ں سے بسا اوقات  ایسی غلطیاں بھی  ہوجاتی ہیں جو  کبھی  کھانے کے آداب کے بہت زیادہ خلاف ہوتی ہیں، اگر والدین دسترخوان پر بچوں کے ساتھ نہ ہوں اور بچے اسی طرح کھاتے رہیں، ہوسکتا کہ بچوں میں بچپن کی غلطیاں اور غلط عادتیں بڑےہونے کے بعد بھی برقرا ر رہیں، لہذا والدین کو کھانے کے دوران بچوں کے ساتھ شریک ہونا چاہیے جس سے بچوں کو خوشی بھی ہوتی ہے اور  ایسے موقع پر ان کی غلطی  کی جانب نرمی اور محبت سے  رہنمائی کی جائی تو وہ خوشی خوشی قبول بھی کرتے ہیں۔حضرت عمر بن ابو سلمہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : میں (ابوسلمہ کے انتقال کے بعد) بچہ تھا رسول اللہ کی پرورش میں تھا، اور کھانے کے وقت میرا ہاتھ پیالے کے چاروں طرف گھومتا( کبھی ادھر سے کھاتا اور کبھی ادھر سے) تو رسول اللہ نے مجھ سے فرمایا: اے بچے! بسم اللہ پڑھو اور اپنے داہنے ہاتھ سے کھاو اور اپنے قریب سے کھاو، اس کے بعد ہمیشہ میرے کھانے کا یہی  طریقہ رہا۔(بخاری 5/ 2056 (5061) ومسلم 3/ 1599 (2022)

۳۔ بچہ جب بیمار ہو :

اگر بڑی عمر کے سخت دل  لوگ بھی بیماری کی حالت میں نرم ہوجاتے ہیں تو بچوں کا کیا کہنا ، بچوں کے دل تو  ہمیشہ تازہ، قبول کرنے کے قابل اور نرم ہوتے ہیں ، خاص بات یہ کہ بیماری کی حالت میں  بچوں میں دو بہت اچھی خوبیاں جمع ہوجاتی ہیں۔ ایک  فطرتی بچپن اور دوسرے رقت قلب یعنی نرم دلی، ان خوبیوں کی وجہ سے بیماری کی حالت میں بچوں میں نصیحت اور اچھی بات  سننے کی استعداد بڑھ جاتی ہے،لیکن بیماری کی حالت میں بچے کو نصیحت کی بات یا اس کی غلط عادت کی اصلاح؛ نرمی، محبت اور پیار سے ہی کرنا چاہیے۔

حضرت انس ؓ فرماتے ہیں کہ ایک یہودی لڑکا تھا جو نبی کریم ﷺ کی خدمت کیا کرتا تھا ۔ جب وہ بیمار ہوا تو نبی کریم ﷺ اس کے پاس تشریف لے گئے چنانچہ آپ ﷺ نے اس کی عیادت کی اور اس کے سر کے قریب بیٹھ گئے اور اس سے فرمایا :کہ تم مسلمان ہو جاؤ، لڑکے نے اپنے باپ کی طرف دیکھا جو اس کے قریب ہی بیٹھا ہوا تھا اس کے باپ نے کہا : ابوالقاسم (یعنی آنحضرت ﷺ) کا حکم مانو ۔ چنانچہ وہ لڑکا مشرف بہ اسلام ہو گیا۔ آنحضرت ﷺ یہ فرماتے ہوئے باہر نکلے کہ  حمد و ثنا اس اللہ کی جس نے اس لڑکے کو (اسلام کے ذریعہ)  آگ سے نجات دی۔(بخاری:1356)

یہ لڑکا آپ ﷺ  کی خدمت کرتا تھا لیکن جب اس نے اسلام قبول کرلیا تب  آپ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالی نے اسے آگ سے نجات دی،  بیماری سے پہلے تک آپ ﷺنے اس لڑکے کو اسلام کی دعوت نہیں دی تھی بلکہ آپ نے مناسب وقت کا انتظار کیا اور جب وہ بیمار پڑا تو  اس کے پاس آئے، اس کی عیادت فرمائی اور اسے اسلام کی دعوت پیش کی،آپﷺ کی یہ عیادت اس لڑکے کے لیے نور اورہدایت کا ذریعہ ثابت ہوئی۔

اس طرح کےمناسب  اوقات  کا فائدہ اٹھاکر ہم بھی اپنے بچوں کی غلط عادتوں کی اصلاح کرسکتے ہیں، اور ایسے موقعوں پر بچوں کی ایمانی ، اخلاقی اور روحانی تربیت  کرسکتے ہیں۔

اتوار، 2 جولائی، 2017

Tauwheed - Babaon k liye challenge

0 تبصرے

مبصرالرحمن قاسمی

اسلام میں توحید کی تلوار – باباوں کے حربوں کو کاٹ دیتی ہے

دنیا کے مذاہب میں اسلام ہی ایک ایسا پاک صاف اور شفاف مذہب ہے جو اپنے ماننے والوں کو صرف اور صرف ایک اللہ ، ایک خالق ومالک اور رازق کی عبادت، اسی سے  امید لگانے، اسی کے سامنے ہاتھ پھیلانے اور اسی سے اپنی حاجات کی تکمیل کی دعوت دیتا ہے۔اگرچہ اسلام کے ماننے والوں میں بھی آج بہت ساری درگاہوں اور مزاروں پر ایسے نام نہاد  بابا    ڈیرے جمائے ہوئے ہیں جو مسلمانوں اور غیر مسلم بھائیوں اور بہنوں کو اس فریب میں رکھتے ہیں کہ وہ ان کی حاجات اور امیدوں کو پورا کرسکتے ہیں، لیکن  اسلامی تعلیمات کے مطابق یہ دھوکے کے سوا کچھ نہیں، کیونکہ دین اسلام کی بنیادی تعلیم  توحید ہے اور توحید کا مطلب صرف اور صرف ایک اللہ کی عبادت کرنا، اسی سے اپنی حاجات مانگنا اور یہ یقین رکھنا کہ نفع ونقصان کا مالک صرف اللہ تعالی ہی ہے اور اس کے علاوہ ساری مخلوق اللہ کی محتاج ہے ،کوئی چیز اس کی مرضی کے بغیر کسی کو نقصان یا نفع نہیں پہنچاسکتی۔

آج ہمارے سماج میں ہمارے غیر مسلم بھائیوں کے ساتھ ساتھ مسلمان بھائی اور بہنیں بھی باباوں کے دھوکے میں آجاتے ہیں، ان سے نذر ونیاز اور منتیں مرادیں کرتے ہیں، ان کے سامنے ماتھا ٹیکتے ہیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اندھی عقیدت میں ساری حدیں پار کردیتے ہیں۔  ٹھیک ہے ایک غیر مسلم بہن یا بھائی  اگر کسی بابا کے دھوکے کا شکار ہوتو ہم مان سکتے ہیں کہ ان کے مذہب میں اس دھوکےسے روکنے کے لیے کوئی تعلیمات نہیں ہیں لیکن دین اسلام کی پہلی تعلیم ہی توحید ہے کہ کوئی بابا، کوئی ولی، کوئی بزرگ یا کوئی مخلوق  کو یہ طاقت حاصل نہیں ہے کہ وہ کسی کو نفع یا نقصان پہنچائے، کسی کی پریشانی کو دور کرے، بے اولاد کو اولاد دے، بھٹکے ہوئے کو راہ راست پر لائے، کبابی، شرابی اور زانی کی اللہ کی توفیق کے بغیر اصلاح کرے۔ اگر کوئی ولی، بابا یا بزرگ  سے کوئی غیر معمولی واقعہ پیش  آ بھی جائے تو اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ وہ خدائی طاقت رکھتا ہے۔ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث میں تو یہاں تک بتادیا گیا کہ دجال اپنے ماننے والوں کو جنت دے گا اور نہ ماننے والوں کو اس کی دوزخ میں ڈالے گا، اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اس کے جنت بتانے کی وجہ سے ہم اسےاللہ کا ولی سمجھ بیٹھیں، بلکہ تماشا دکھانا، غیر معمولی حرکتیں کرنا یہ سب شیطان کے دھوکے ہیں اور ان دھوکوں کا شکار وہ شخص نہیں ہوسکتا جس کے دل میں ذرہ برابر بھی ایمان ہو ۔ جو  بابا حقیقی اللہ کے ولی ہوتے ہیں وہ غیر محرم عورتوں سے نہ مصافحہ کرتے ہیں اور نہ ان پر نظر ڈالتے ہیں اور نہ اپنے ماننے والے کسی فرد کا غلط استعمال کرتے ہیں بلکہ اللہ کے حقیقی ولی تو وہ ہوتے ہیں جو دین اسلام کی بنیادی تعلیمات جیسے نماز ، روزہ ، زکوۃ اور اگر استطاعت ہوتو حج کی پابندی کرتے ہیں،  اپنے عقیدت مندوں کے مال ودولت پر نظر نہیں رکھتے ،قناعت کی زندگی کو ترجیح دیتے ہیں اور اپنے ماننے والوں کو  ایک اللہ کی عبادت کرنے، تمام انسانوں کو نفع پہنچانے اور ہر قسم کے  گناہ سے بچنے کی دعوت دیتے ہیں اور خود بھی  دین اسلام کی تمام تعلیمات اورپیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک ایک سنت اور ادا  پر عمل کرتے ہیں ، اللہ کے حقیقی ولی وہ ہوتے ہیں جنھیں نہ روزی روٹی کا ڈر ہوتا ہے اور نہ دولت وسرمایے کے ضائع ہونے کا غم ، وہ تو صرف ایک اللہ پر بھروسہ کرتے ہیں۔( لاخوف علیہم ولاھم یحزنون)۔

جمعہ، 21 اپریل، 2017

0 تبصرے

تحریر:مبصرالرحمن قاسمی
اولاد کے لیےوالدین کی دعا کیوں ضروری ہے؟
اولاد والدین کے آنکھوں کی ٹھنڈک، دل کا سرور اورازدواجی  زندگی  کا ثمرہ  اور زندگی میں خوشیوں کے چشموں میں سے ایک چشمہ ہے۔ والدین کے لیے اولاد  زندگی کی زینت  اور الہی انعام ہے، قرآن مجید میں صاف الفاظ میں کہا گیا : مال اور اولاد زندگی کی زینت ہے۔ انسان کے پاس چاہے جتنا بھی مال وزر اور دولت جمع ہوجائے اسے اُس وقت تک خوشی نہیں ملتی جب تک کہ وہ اپنی اولاد کو خوشحال نہ دیکھ لے، لیکن وہ والدین قابل تعریف ہیں جن کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ ان کی اولاد نیک وصالح اور فرماں بردار بنے، خدا کی عبادت کرنے والی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حقیقی اتباع کرنے والی بنے۔ اللہ تعالی کا بھی یہ اصول رہا ہے کہ نیک گھرانوں  سے نیک وصالح اولاد کا ہی ظہور ہوتا ہے، ایک گھر کا نیک ہونا پورے خاندان اور کنبے کے نیک وصالح ہونے کی علامت ہے، لیکن کبھی کبھی اللہ تعالی کا یہ اصول اور قاعدہ بدلتا بھی ہے، جس طرح نوح علیہ السلام اور ان کے بیٹے کے قصے سے معلوم ہوتا ہے۔یہ اس لیے کہ لوگ اس بات کو جان لیں کہ ہدایت اور اصلاح اللہ رب العزت کے ہاتھ میں ہے، لہذا اولاد کی ہدایت، اصلاح اور دینی کامیابی کے لیے  والدین کی دعائیں اور کوششیں انتہائی  ضروری ہیں۔اللہ تعالی سے لینے  اوراپنی امنگوں، امیدوں اور خوابوں کی تکمیل کے لیے دعا سب سے بڑا دروازہ ہے، اللہ تعالیٰ وہ کریم ذات ہے جسے پسند ہے کہ بندہ اس کے سامنے ہاتھ پھیلائے اور اپنی ضروریات مانگے۔
الله يغضب إن تركت سؤاله .......... وبني آدم حين يسأل يغضب
(سوال  چھوڑنے پر اللہ تعالیٰ ناراض ہوتا ہے، اور بنی آدم کا حال یہ ہے کہ جب کوئی اس سے سوال کرتا ہے تو ناراض ہوجاتا ہے)
ایک مسلمان کی زندگی میں عموما اور اولاد کی اصلاح کے سلسلے میں خصوصا دعا کی بڑی تاثیر اور اہمیت ہے، کیونکہ والدین کی اولاد کے حق میں دعا قبول ہوتی ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے : تین دعا قبول ہوتی ہیں : مظلوم کی دعا، مسافر کی دعا اور والد کی اپنی اولاد کے لیے دعا (رواہ ابن ماجہ والترمذی وحسنہ ).
تاریخ  کے صفحات ایسی مقبول اور سچی  دعاؤں سے ُپر ہیں، جن کی وجہ سے گمراہوں کو ہدایت ملی، بے راہ کو راستہ ملااور فاسق وفاجر کی اصلاح ہوئی، قرآن مجید ہماری رہنمائی کرتا ہےکہ ہم اولاد کے لیے دعا کریں ، یقینا دعا ایک ایسا راستہ اور طریقہ ہے جس کے ذریعے لوگوں کی اصلاح ہوئی، انھیں ہدایت کا نور ملا اور والدین کو اس طریقے کے ذریعے اپنی اولاد کی تربیت کرنے میں  کامیابی ملی۔
یہ ابراہیم خلیل اللہ  علیہ السلام ہیں، آپ کی عمر اس لائق نہیں تھی کہ انھیں اولاد ہوتی، لیکن اُمید خدا برقرار تھی، بڑھاپے کی عمر میں اللہ تعالی کے سامنے ہاتھ اٹھایا اور اولاد کی خواہش ظاہر کرتےہوئے کہا :
 رَبِّ هَبْ لِي مِنَ الصَّالِحِين (اے میرے رب مجھے نیک اولاد عطا کر) (الصافات:۱۰۰)
نتیجہ یہ ہوا کہ آسمان دنیا سے اعلان ہوا : فبشرناه بغلام حليم (ہم نے انھیں ایک بردبار بچے کی خوشخبری دی)
 خوشخبری لیے فرشتے آپ کے دربار میں حاضر ہوئے اور کہنے لگے : إنا نبشرك بغلام عليم(ہم آپ کو ایک صاحب علم فرزند کی بشارت دیتے ہیں)، اور سورہ ہود میں اس منظر کو اس طرح بیان کیا گیا :
{ ان کی بیوی جو کھڑی ہوئی تھی وه ہنس پڑی، تو ہم نے انھیں اسحاق کی اور اسحاق کے پیچھے یعقوب کی خوشخبری دی }(سورہ ھود:۷۱).
ابراہیم خلیل اللہ نے اولاد کے حق میں صرف اس دعا پر ہی اکتفا نہیں فرمایا بلکہ ان کے لیے برابر دعا کرتے رہے : آپ دعا کرتے تھے :
{رَبِّ اجْعَلْ هَٰذَا الْبَلَدَ آمِنًا وَاجْنُبْنِي وَبَنِيَّ أَن نَّعْبُدَ الْأَصْنَامَ
}(سورہ ابراہیم:۳۵)،  اے میرے پروردگار! اس شہر کو امن والا بنادے، اور مجھے اور میری اولاد کو بت پرستی سے پناه دے۔
آپ یہ دعا بھی کرتے تھے: {رب اجعلني مقيم الصلاة ومن ذريتي ربنا وتقبل دعاء}(ابراہیم:۴۰) اے میرے پالنے والے! مجھے نماز کا پابند رکھ اور میری اولاد سے بھی، اے ہمارے رب میری دعا قبول فرما ،
اسی طرح آپ نے اپنی اولاد کے لیے یہ بھی دعا فرمائی :
 {رَبَّنَا وَاجْعَلْنَا مُسْلِمَيْنِ لَكَ وَمِن ذُرِّيَّتِنَا أُمَّةً مُّسْلِمَةً لَّكَ}(البقرہ:۱۲۸). اے ہمارے رب! ہمیں اپنا فرمانبردار بنا لے اور ہماری اولاد میں سے بھی ایک جماعت کو اپنی اطاعت گزار رکھ ۔
یہ اللہ کے پیارے نبی زکریا علیہ السلام ہیں، آپ نے بھی اولاد کے لیے رب تعالیٰ سے یہ دعا کی:
{رَبِّ هَبْ لِي مِن لَّدُنكَ ذُرِّيَّةً طَيِّبَةً ۖ إِنَّكَ سَمِيعُ الدُّعَاءِ}(آل عمران:۳۸). اے میرے پروردگار! مجھے اپنے پاس سے پاکیزه اولاد عطا فرما، بے شک تو دعا کا سننے والا ہے۔
اللہ تعالی نے آپ کی دعا کو قبول فرمایا اور یہ خوشخبری سنائی :  اے زکریا!  ہم تجھے ایک بچے کی خوشخبری دیتے ہیں جس کا نام یحيٰ ہے، ہم نے اس سے پہلے اس کا ہم نام بھی کسی کو نہیں کیا ۔(سورہ مریم:۷)، ساتھ میں اللہ تعالی نے اس بچے کی خوبیاں بھی اس طرح بیان کردی :  (اے یحيٰ ! میری کتاب کو مضبوطی سے تھام لے اور ہم نے اسے لڑکپن ہی سے دانائی عطا فرما دی۔ اور اپنے پاس سے شفقت اور پاکیزگی بھی، وه پرہیزگار شخص تھا۔ اور اپنے ماں باپ سے نیک سلوک کرنے والا  تھا وه سرکش اور گناه گار نہ تھا۔ اس پر سلام ہے جس دن وه پیدا ہوا اور جس دن وه مرے اور جس دن وه زنده کرکے اٹھایا جائے۔)یحی علیہ السلام کو یہ ساری خوبیاں اور انعامات ان کے والد کے دعاوں کے نتیجے میں ملی ہیں۔
ما ں کی اولا د کے لیے دعا :
باپ کے ساتھ ساتھ اولاد کے حق میں دعائیں کرنے میں ماں کا بھی اہم کردار ہے، قرآن مجید نے ہمارے لیے ایک  منفرد مثال بیان کی ہے ، جس میں ایک خاتون نے اپنی اولاد کے حق میں نیک دعا کی تھی،یہ مثال مریم علیہا السلام کی والدہ اور حضرت عمران کی اہلیہ کی ہے، حضرت عمران کی اہلیہ اپنے پیٹ میں موجود جنین کے لیے دعا کرتی تھیں کہ وہ اپنی ہونے والی اولاد کو رب تعالیٰ کے گھر کی خدمت کے لیے وقف کردیں گی۔ قرآن نے اس دعا کو نقل کیا ہے :
  إِنِّي نَذَرْتُ لَكَ مَا فِي بَطْنِي مُحَرَّرًا فَتَقَبَّلْ مِنِّي ۖ إِنَّكَ أَنتَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ ( اے میرے رب! میرے پیٹ میں جو کچھ ہے، اسے میں نے تیرے نام آزاد کرنے کی نذر مانی، تو میری طرف سے قبول فرما! یقیناً تو خوب سننے والا اور پوری طرح جاننے والا ہے) (آل عمران:۳۵)۔ لیکن حضرت عمران کے گھر میں جب بیٹی کی ولادت ہوئی، تو بھی ان کی اہلیہ نے اولاد کے حق میں دعا کرنا نہیں چھوڑا بلکہ رب تعالی سے دعا کی کہ اس ہونے والی بیٹی کی حفاظت فرمائے اور اس سے اچھی اولاد عطا کرے بلکہ اس سے بڑھکر یہ بھی دعا کرلی کہ :
 وَإِنِّي سَمَّيْتُهَا مَرْيَمَ وِإِنِّي أُعِيذُهَا بِكَ وَذُرِّيَّتَهَا مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ (آل عمران:36).( میں نے اس کا نام مریم رکھا، میں اسے اور اس کی اولاد کو شیطان مردود سے تیری پناه میں دیتی ہوں۔)
اللہ تعالی نے اس ماں کی دعا کو قبول فرمایا، اس کی بیٹی میں برکت عطا کی اور ماں کی دعا پر اس بیٹی کو دنیا کی تمام خواتین پر فضیلت سے نوازا، یہی نہیں بلکہ بغیر باپ کے ان کے بطن سے حضرت عیسی علیہ السلام کو پیدا کرکے اس بیٹی کو اپنی نشانیوں میں سے ایک عظیم نشانی کے طور پر بھی منتخب کرلیا اور مریم علیہا السلام اور ان کے فرزند کو شیطان سے محفوظ کرلیا ، اور یہ سب نیک ومبارک ماں کی دعاوں کی برکت سے ہوا۔
اب آئیے ہم سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم پر نظر ڈالتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی ایک ایک ادا  اور سنت ہر طرح کے خیر وبھلائی کی عملی مثال ہے، آپ ﷺ اپنی بیٹی فاطمہ، ان کے شوہر حضرت علی ؓبن ابی طالب اور اپنے نواسوں حسن وحسینؓ کے لیے اور تمام مسلمانوں کے لیے دعا کیا کرتے تھے۔ آپ نے انس بن مالک ؓکے حق میں دعا کی تھی کہ اللہ تعالی ان کے مال اور اولاد میں برکت دے تو حضرت انس لوگوں میں سب سے زیادہ مالدار ہوگئے تھے، اور اس دعا کی برکت سے ان کی اولاد کی تعداد تقریبا  ۱۰۰ کے قریب ہوئی تھی، نہ صرف یہ بلکہ ان کی زراعت میں بھی اس قدر برکت ہوئی تھی کہ سال میں دومرتبہ وہ اناج نکالا کرتے تھے۔
مسلمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اپنے بچوں کو لایا کرتے تھے، آپ ان کی تحنیک  یعنی کھجور چباکر انھیں کھلاتے، ان کا نام رکھتے اور ان بچوں کے لیے برکت کی دعا فرماتے تھے۔
ہر والدین کو چاہیے کہ وہ اپنی اولاد کے لیے دعا ئیں کرتے رہا کریں، ان کے حق میں دعا کرنے میں کبھی بخل سے کام نہ لیں، خصوصا مبارک اوقات میں اپنی اولاد کو دعاؤں میں ضروریاد رکھیں۔حدیث کی مشہور کتابیں بخاری ومسلم  میں رسول اللہ ﷺکی یہ حدیث موجود ہے کہ : ’’کوئی شخص  جب اپنی اہلیہ کے پاس (ہم بستری کے ارادے) سے آئے تو کہے :  باسم الله، اللهم جنبنا الشيطان، وجنب الشيطان ما رزقتنا، (اس دعا کے پڑھنے کے بعد ) اگر ان دونوں کی اس ہم بستری کے نتیجے میں اولاد ہوئی تو اسے کبھی شیطان نقصان نہیں پہچاسکے گا۔(متفق علیہ)
قرآن مجید میں نیک لوگوں کی یہ خوبی بتائی گئی ہے کہ وہ  اپنی اولاد کے لیے یہ دعا کرتے ہیں :
 { رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ أَزْوَاجِنَا وَذُرِّيَّاتِنَا قُرَّةَ أَعْيُنٍ وَاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِينَ إِمَامًا}(سورہ فرقان:۷۴). اے ہمارے پروردگار! تو ہمیں ہماری بیویوں اور اولاد سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا فرما اور ہمیں پرہیزگاروں کا پیشوا بنا۔
اللہ تعالی نے بندوں کو یہ دعا سکھائی ہے اور اس میں اولاد کے صرف آنکھوں کی ٹھنڈک ہونے کی ہی دعا پر اکتفا نہیں کرایا گیا بلکہ اس سے آگئے بڑھ کر اللہ تعالی نے  یہ بھی سکھایا ہے کہ اولاد کے لیے بھی اور خود کے لیے متقی وپرہیزگار لوگوں کا امام  وپیشوا بنائے جانے کی بھی دعا کرو۔ لہٰذا اپنی دعاؤں میں اپنی اولاد کو کثرت سے یاد کیجیے اور اولاد کی دنیا وآخرت میں کامیابی کے لیے خاص طور پر دعا کرتے رہا کیجیے۔
اللہ تعالی ہماری اور تمام مسلمانوں کی اولاد کی اصلاح فرمائے اور انھیں شیطان کے شرور اور فتنوں سے محفوظ رکھے۔ آمین

جمعہ، 14 اپریل، 2017

Team Work aur Hamare Ulama

0 تبصرے

تحریر  ۔مبصرالرحمن قاسمی

ٹیم ورک ۔ ہمارے اکابر علماء کرام کی خوبی ہے
اگر کوئی عالم دین تمام نیکی کے کام انجام دے اوراس میں ہر اچھی خوبی پائی جائے تو بیشک ایسا عالم دین ایک ممتاز اور قابل قدر عالم ہے، لیکن علمی تحریک کی ترقی اور امت کی بیداری کے لیے صرف اتنا ہی کافی نہیں ہے، بلکہ علم اور امت؛  اجتماعی کوششوں اور سرگرم توانائی کا تقاضا کرتے ہیں، اور اس تقاضے کی تکمیل اُسی وقت ممکن ہے ، جب ایک عالم دین دیگر علماء کے ساتھ ہاتھ بٹائے اور علم میں اپنے ہم عصر علماء اور سابقین کی  کوششوں پر سنجیدگی کے ساتھ نظر رکھے۔

ایک ٹیم کے ساتھ کام کرنے ، دوسروں کے ساتھ  ہاتھ بٹانے  اور کسی کے بقیہ کام کی تکمیل کو ٹیم ورک کہاجاتا ہے،ٹیم ورک سے کئی اہم مقاصد کی تکمیل میں آسانی ہوتی ہے، مثلا کام میں نکھار پیدا ہوتا ہے، کام تیزی کے ساتھ مکمل ہوتا ہے، کم وقت میں زیادہ کام ہوتا ہے ،کام میں پختہ مہارت حاصل ہوتی ہے اور اعلی صلاحیتوں کا اظہار ہوتا ہے۔یہ ساری خوبیاں انفرادی کام میں مفقود ہوتی ہیں۔

ہمارے اکابر علماء  کرام کے نزدیک ٹیم ورک کی اہمیت تھی، انھوں نےتمام میدانوں میں علمی زندگی کو ترجیح دی اور ملی، تہذیبی  اورثقافتی  انقلاب برپا کیا۔

امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ ٹیم ورک کی اہمیت سے بخوبی واقف تھے، آپ کے مسلک  کا چرچا ہوچکا تھا، لیکن اس کے باوجود آپ حماد بن سلیمان کے تعلیمی حلقے میں حاضری دیتے تھے، اپنے شیخ حماد کی وفات کے بعد ان کے تعلیمی حلقے کی ذمہ داری آپ نے خودسنبھالی توحماد کے شاگرد پھر امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے علمی چشمے سے سیراب ہونے لگے،لیکن اب اپنے حلقے میں مسائل کے حل کرنے میں امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا طریقہ کار خاص تھا، آپ درس کے آغاز سے ہی مسئلے کی وضاحت نہیں فرماتے تھے، بلکہ اپنے طلباء کی ٹیم کے حوالے وہ مسئلہ کردیتے تھے، پھر ہر شاگرد اس مسئلے پر اپنی رائے دیتا تھا، امام صاحب ان سب کی رائے کو جمع کرتے تھے اور پھر ان پر بحث کرتے تھے اور اخیر میں جو حل زیادہ مناسب اور صحیح ہو اس کو ہری جھنڈی دکھاتے تھے، اس اجتماعی عمل سے علمی کام میں حُسن پیدا ہوتا تھا اور افضل سے افضل ترین حل تک رسائی ہوتی تھی۔

موسی بن شاکر کے فرزندان  کی مثال : ٹیم ورک کی اہمیت ہمارے اکابرین کےنزدیک صرف شرعی علوم تک محدود نہیں رہی ، بلکہ لائف سائنس میں بھی  انکا یہی طریقہ کار رہا ہے، عباسی خلیفہ مامون کے زمانے میں کرہ ارض  کی پیمائش کے لیے مسلم علماء نے پہلی کامیاب کوشش کی تھی، اس کوشش میں علماء کی دو ٹیموں نے حصہ لیا تھا، اس  میں موسی بن شاکر کے فرزندان کی ایک ٹیم تھی، اس سلسلے میں  مستشرق نلینو کہتا ہے : عرب مسلمانوں کا کرہ ارض کی پیمائش  کا کام پہلا کام ہے، جسے طویل مسافت کے تمام تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے براہ راست طور پر انجام دیا گیا، اور اس کام کو عرب مسلمانوں کی ایک بڑی ٹیم نے انجام دیا ،یہ عربوں کا ایک عظیم سائنسی کارنامہ ہے۔ (علم الفلک عند العرب)۔ علم ہندسہ اورمیکانزم کے موضوع پر لکھی گئی کتاب "الحیل" موسی بن شاکر کے فرزندان کی اجتماعی کاوشوں کا ہی نتیجہ ہے، یہ کتاب ٹیم ورک کی روح کو اجاگرکرتی ہے، اس کتاب میں جگہ جگہ آپ کو اس طرح کی عبارتیں دکھائی دیں گی "ہم چاہتے کہ اس مسئلے تک پہنچ جائیں"، اسی کی ہمیں کھوج تھی، اور  اس کتاب میں زیادہ ترعربی زبان کے وہ صیغے استعمال کیے گئےہیں جن میں میں کے بجائے ہم کا استعمال ہوتا ہے  جو اس ٹیم کی اجتماعیت کی جانب اشارہ کرتے ہیں ، جیسے"ہم بیان کرتےہیں"، ہمارا کہنا ہے، ہم چاہتے ہیں، اس طرح کے الفاظ اجتماعیت  اور ٹیم ورک کی جانب اشارہ کرتے ہیں۔

ابن خلکان موسی بن شاکر کے فرزندان کے سلسلے میں کہتے ہیں کہ یہ تین بھائی تھے، جنھیں قدیم علوم کو حاصل کرنے کا بڑا حوصلہ تھا، انھوں نے ان علوم کو حاصل کرنے کے لیے خوب محنت کیں، حتی کہ روم تک سفر کیا اور دور دراز سے علوم وفنون کی کتابیں جمع کیں اور حکمت ودانش کے رازوں کو کھولا۔ (ابن خلكان: وفيات العيان 6/161)۔ دراصل یہ ان تینوں بھائیوں کی ٹیم ورک کا نتیجہ تھا۔

ابن رشد اور ابن زہرکو میدان طب ومیڈیکل کے ماہرین کہاجاتا ہے، الکلیات ابن رشد کی طب کی مشہورکتاب ہے، اس کتاب میں اس نے علم طب کے نظریات اور علم امراض کی بنیادوں اور اصولوں کو جمع کیا ہے، اس نے جب اس کتاب کی تالیف کی تو اسے اس کتاب کی تکمیل کے لیے ایک اور کتاب کی ضرورت محسوس ہوئی،اس کے لیے ابن رشد نےاندلس کے مشہور طبیب ابن زہرکا رُخ کیا،یہ دونوں آپس میں دوست تھے،لہذا ابن رشد نے ابن زہر سے اپنی کتاب کی تکمیل کے لیے ایک اور کتاب تالیف کرنے کی درخواست کی، ابن زہر نے دوست کی اس خواہش کی تکمیل کی اور  "التيسير في المداواة والتدبير" نام سے ایک عظیم طبی انسائیکلوپیڈیا تیار کرلیا۔(عيون الأنباء في طبقات الأطباء 3/320،319)

علامہ شبلی نعمانی رحمہ اللہ ہمارے ملک کی ایک عظیم شخصیت ہے، علامہ سید سلیمان ندوی آپ کے شاگرد خاص تھے، استاد وشاگرد کی اس جوڑی نے سیرت کے موضوع پر اردو زبان میں ضخیم ومفصل اور مایہ ناز کتاب لکھی،لیکن اس کام کی تکمیل سے پہلے ہی علامہ شبلی کی وفات ہوگئی تو آپ کے شاگرد خاص علامہ سید سلیمانی ندوی نے اس عظیم کام کی تکمیل کی اور یہ کتاب سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم عنوان سے آج ہمارے کتب خانوں کی زینت بنی ہوئی ہے۔

یہ اور اس طرح کی بے شمار مثالیں ہیں جو ٹیم ورک کی اہمیت کو اجاگر کرتی ہیں، نہ صرف شرعی میدان میں بلکہ ہمارے اکابرین نے ہر میدان میں ٹیم ورک یعنی اجتماعی عمل کے نظریے کو اختیار کرکے اُمت کی ترقی، بیداری اور خوشحالی کے لیے کوششیں کیں،ان کی ان ہی اجتماعی کوششوں کے نتیجے میں مشرق ومغرب اور شمال وجنوب میں اُمت کا چراغ روشن ہوا ۔آج بھی ہمیں اُمت کی بیداری، ترقی اور خوشحالی کے لیے ہر میدان میں ٹیم ورک کے ذریعےکام کرنے کی ضرورت ہے، جس میں برکت بھی ہے  اور خیر بھی۔

 

ہفتہ، 8 اپریل، 2017

Students Results se Na Ummeed Na Hoon

0 تبصرے

تحریر: مبصرالرحمن قاسمی

طلباء متوقع نتائج نہ آنے پر اپنا احتساب کریں، ناامید نہ ہوں
 
 

ایک مسلمان طالب علم لڑکے اور لڑکی کی اصل کامیابی تو آخرت کی کامیابی ہے، اسکول اور کالج کا امتحان تو آخرت کی اُس کامیابی کی جانب بڑھنے کاایک راستہ  اور ذریعہ ہے جس پر اللہ تعالی  نے جنت الفردوس کے وعدے کر رکھے ہیں،مسلمان طلباء وطالبات کی یہ خوبی ہونی چاہیے کہ وہ سال بھر اپنے اسکول اور کالج  کی کتابوں میں خوب محنت کریں اور پوری امانتداری کے ساتھ امتحان دیں، امتحان ہال میں ایک ایسا ماحول پیدا کریں کہ ہمارے برادران وطن بھائی  اور بہنیں ہمیں دیکھ کر شرمانے لگیں اور پھر امتحان کے بعد اچھے سے اچھا نتیجہ آنے کی اللہ تعالی سے امید باندھے رکھیں، اور اس کے بعد اگر نتیجہ کچھ خراب آئے تو پھر اللہ تعالی کے فیصلے پر خوش ہوجائیں کہ اسی میں اللہ تعالی نے آپ کے لیے کوئی بڑا خیر اور فائدہ رکھا ہے، جس کا آپ کو آپ کے مستقبل میں ضرور فائدہ ہوگا۔

ناامیدی کفر ہے : ایک مسلمان طالب علم کبھی ناامید نہیں ہوتا ہے، اگرچہ اسے اپنے امتحان میں سخت محنت کے بعد بھی متوقع نتیجہ حاصل نہیں ہو،تب بھی وہ اللہ تعالی  کی حکمت اور فیصلے کو سلام کرتا ہے، کیونکہ قرآن مجید  ناامیدی سے روکتا ہے، قرآن کہتا ہے کہ "اللہ تعالی کی رحمت سے مایوس مت ہونا"  لیکن مسلمان طالب علم کی یہ بھی خوبی ہوتی ہے کہ وہ اپنی  ناکامی کی وجوہات اور کمزوریوں کو جان کر پھر سے اپنی خامیوں اور کمیوں کو پورا کرنے کی کوشش کرتا ہے۔

ناامیدی اور مایوسی کی وجہ سے اپنے آپ پر ظلم کرنا  گناہ ہے: امتحانات میں سخت محنت کے بعد مایوسی اور ناامیدی کا شکار ہونا اور پھر اپنی ہی ذات کو کوسنا ، یا اپنی ہی جان سے ہاتھ دھو بیٹھنا یہ دراصل انسان کی سب سے بڑی ناکامی اور اللہ تعالی کے نزدیک سب سے بڑا گناہ ہے۔ایک مسلمان طالب علم کے لیے مناسب نہیں ہے  کہ وہ سماج  اور دوست واحباب  کے ڈر سےصرف اس لیے مایوسی  اور ڈیپریشن کا شکار ہوجائے کہ اس کا نتیجہ ویسا نہیں آیا جیسے کی اسے امید تھی۔

بھروسہ اللہ تعالی پر رہے : طالب علمی کا زمانہ یقینا انسان کو بننے اور تیار ہونے کا زمانہ ہے، لیکن اگر کوئی طالب علم پڑھائی میں بہت زیادہ ذہین ہے  اور ممکن ہے وہ صوبائی سطح اور ملکی وعالمی سطح پر تعلیم میں اعلی مقام حاصل کرلے، لیکن اگر اللہ تعالی کی جانب سے اس کا رزق کشادہ نہیں ہے تو اس کی پڑھائی اور قابلیت اسے کوئی فائدہ نہیں دے سکتی، اسی طرح اگر کوئی شخص معمولی پڑھا لکھا ہے لیکن اللہ تعالی نے اس کے مستقبل کواس کی تقدیر میں روشن لکھا ہے تو اس کو اس کا لکھا ہوا مقدر ضرور ملے گا۔ لہذا محنت کرنا اور اللہ تعالی سے مانگنا انسان کا کام ہے، مستقبل کے فیصلے کرنا  یہ صرف اور صرف اللہ تعالی کا ہی کام ہے۔اس لیے ہر طالب علم کو  اور بچوں کا روشن مستقبل تلاش کرنے والے والدین کو یہ  یقین کامل رکھنا چاہیے کہ اگر  مطلوبہ کورس میں نمبرات کی کمی کی وجہ سے یا کسی اور وجہ سے محنت کرنے کے باوجود داخلہ  نہیں مل سکا تو یہ اللہ تعالی کی طرف سے ہے، اب ایسے طالب علم لڑکے اور لڑکی  اور ان کے والدین کو اللہ تعالی کے فیصلے کو خوش دلی سے قبول کرلینا چاہیے اور جو مناسب راہ ملے اسے جلد از جلد اختیار کرلینا چاہیے۔

 

پیر، 3 اپریل، 2017

0 تبصرے



 
                                                                                                                                     تحریر   : مبصرالرحمن قاسمی
رمضان اور ہمارے بچے

رمضان المبارک ہمارے بچوں کے لیے ایک تربیتی INCUBATOR  ہے، جس میں ایمانی و اجتماعی فضاوں کے درمیان ہمارے بچوں کو بے شمار تربیتی گھونٹ پلائے جاتے ہیں، آپ ہی تصور کرلیں کہ اگر آپ کا ننھا اور کم عمر بچہ روزہ دار ہو تو آپ کی ایمانی کیفیت کیا ہوتی ہے؟

اکثر بچے روزہ رکھنے سے ڈرتے ہیں،کیونکہ انھیں فکر ہوتی ہے کہ عنقریب انھیں کھانے ، پینے اور چاکلیٹ وغیرہ سے ایک لمبے وقفے کے لیے محروم ہونا ہے ، لہذا بعض بچوں کو اس مہینے میں  اس خوف کا احساس رہتا ہے کہ وہ روزہ نہیں رکھ سکتے۔ لیکن  رمضان کے اس مبارک مہینے میں بعض بچے ایسے بھی ہوتے ہیں جو پوری ہمت اور حوصلے کے ساتھ  اس ماہ میں داخل ہوتے ہیں اور کم عمری کے باوجود پورا مہینہ  روزہ رکھتے ہیں، دراصل روزے سے ڈرنے والے اور روزوں کو پوری ہمت وحوصلے کے ساتھ رکھنے والے بچوں کے درمیان فرق اُن کے تربیتی خلاء کا ہے۔اگر گھر کے تمام بڑے افراد نماز، روزہ، زکوۃ اور حج سمیت اسلامی شعائر کا احترام کرتے ہیں، رمضان کی آمد پر رمضان کا پرتپاک استقبال کرتے ہیں اور رمضان کی ایک ایک گھڑی کی قدر کرتے ہیں تو ایسے گھرانوں کے بچے بھی کم عمری کے زمانے سے ہی  اپنے بڑوں کے نقش قدم پر چلنا شروع کردیتے ہیں۔

بچوں میں رمضان کا شوق اور محبت  کیسے پیدا کریں؟

صحابہ رضی اللہ عنہم رمضان میں اپنے بچوں کو روزہ رکھواتے تھے، اور انھیں اس مہینے کے دن کے اوقات میں کھانے پینے سے دور رکھتے تھے، لیکن اس کے بدل میں ان کے لیے کھلونے وغیرہ کا نظم کرتے تھے اور ان کھلونوں کے ذریعے  بھوک وپیاس کی جانب ان کی توجہ ہونے نہیں دیتے تھے۔ یہ صحابہ کرام کا طریقہ کار تھا، ہمیں بھی اپنے بچوں کے ساتھ اس طریقے کو اپنانا چاہیے، کیونکہ یہ ضروری ہے کہ بچے رمضان کی عظمت، تقدس، برکت اور رحمت کو سمجھیں اور ان کے دلوں میں رمضان کا شوق اور محبت بیٹھے۔ بچپن سے ہی بچوں میں رمضان کی قدر وقیمت، محبت اور احترام کو پیدا کرنا ضروری ہے تاکہ وہ بڑے ہوکر اس عظیم الشان مہینے کی قدر کرسکیں، اکثر والدین کی یہ شکایت رہتی ہے کہ ان کا بچہ رمضان کے روزے نہیں رکھتا یا رمضان میں دن کے اوقات میں سگریٹ پیتا ہے، افسوس ہے کہ ہمارے معاشرے میں اس طرح کی مثالوں میں آئے دن اضافہ ہی ہوتا جارہا ہے، یہ صرف اور صرف والدین کی اس کمزوری کی وجہ سے ہورہا ہے کہ انھوں نے بچپن میں بچوں کے دلوں میں اس عظیم الشان اور برکت ورحمت والے مہینے کی محبت پیدا نہیں کیں۔

اس مبارک مہینے کو بچوں کے لیے مفید کیسے بنائیں؟

نماز تراویح  بچوں میں رمضان کا شوق اور محبت  پیدا کرنے کے لیے ایک بڑا ذریعہ ہے، بعض بچوں میں مسجد سے بہت زیادہ لگاو رہتا ہے اور وہ مسجد میں زیادہ دیر تک ٹھہرنے کو پسند کرتے ہیں، ایسے بچے بڑوں کے ساتھ شوق  سے  تراویح کی مکمل نماز پڑھتے ہیں ، بلکہ بعض تہجد اور اعتکاف میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔ لیکن بعض بچےاپنے والدین کے ساتھ عشاء  کی نماز ادا کرتے ہیں اور پھر اس کے بعد مسجد کے باہر ہی چیخ پکار میں لگ جاتےہیں، اور بعض بچوں کا تو حال یہ ہوتا ہے کہ وہ والدین اور گھر کے افراد کے ساتھ ساتھ خود بھی ٹی وی  کے سامنے بیٹھ جاتے ہیں یا اسمارٹ فونس میں مصروف ہوجاتے ہیں۔اس طرح کے بچے انسانی شیطانوں کی تیار کردہ زیب وزینت کے شکار ہوجاتے ہیں۔رمضان کا مہینہ  بچوں میں ایمانی بیج بونے کے لیے ایک سنہرا موقع ہے، ہم اپنے بچوں کے لیے اس سنہرے اور خوبصورت موقع کو ضائع نہ کریں۔

رمضان میں نمازوں کو چھوڑ کر صرف روزہ رکھنا  نہ صرف بچوں بلکہ  بعض بڑوں کی بھی عادت بن جاتی ہے، لیکن ایسی صورتحال میں بچوں کو ڈانٹ ڈپٹ کرکے نماز کے بارے میں نہ بولا جائے اور نہ ہی انھیں اس بات کا احساس دلایا جائے کہ نماز چھوڑنے کی وجہ سے ان کا روزہ قبول نہیں ہوگا، بلکہ اس موقع پر بچے کے والد یا ماں بچے کو اس طرح کہے:" بیٹا!  اگر تم روزے کی حالت میں نماز کی پابندی کروگے تو اللہ تعالی تم سے اور زیادہ محبت کرے گا، تم تو شروع مہینے سے ہی روزہ رکھ رہے ہو، تم قابل تعریف ہو، اگر نمازوں کی پابندی کروگے  تو اللہ تعالی کے نزدیک اور بھی مقبول اور اچھے شمار ہوگے"۔اس طرح کی حوصلہ افزا عبارتیں روزے کے سلسلے میں بچوں کے جذبات کو نقصان نہیں پہچاتی ہیں بلکہ انھیں محبت کے ساتھ اللہ تعالی کی مزید اطاعت وفرمانبردارپر آمادہ کرتی ہیں۔

رمضان اور روزے سے بچوں کوحاصل ہونے والے فائدے:

۱- صبر : روزےکے ذریعے بچے میں صبر پیدا ہوتا ہے اور بھوک وپیاس کو برداشت  کرنے کا جذبہ پروان چڑھتا ہے۔

۲۔مراقبہ  : (یعنی اللہ تعالی کا خوف اور توجہ) بچہ  روزے کی حالت میں کھانے پینے سے اس لیے بچا رہتا ہے کیونکہ اس کا یہ یقین رہتا ہےکہ اللہ تعالی دیکھ رہا ہے۔

۳۔مسجد سے لگاو اور محبت : والد کے ساتھ نماز تروایح میں اور دیگر نمازوں میں مسجد میں حاضری اورمسجد کے خصوصی پرگراموں میں شرکت بچے میں ایمانی روح پیدا کرتی ہے، جب وہ بڑا ہوتا ہے تو اسے یہ تمام باتیں یاد رہتی ہیں، اور بڑا ہونے کے بعد  یہی چیزیں اسے توبہ اور اطاعت وفرمانبرداری پر وقتا فوقتا آمادہ کرتی رہتی ہیں۔

۴- قرآن سے لگاو : رمضان میں جب بچہ اپنے والدین اور بڑے بہن بھائیوں کو کتاب اللہ کی تلاوت میں مشغول دیکھتا ہے تو وہ بھی بڑا ہونے کے بعد گھر کے اس ماحول کو اپناتا ہے، اس میں بھی قرآن سے محبت اور لگاو پیدا ہوتا ہے،نہ صرف یہ بلکہ اس ماحول کی وجہ سے بچہ بہت ہی آسانی کے ساتھ قرآن بھی پڑھنے لگتا ہے اور بڑا ہونے کے بعد اس کی زبان قرآن پڑھتے وقت اٹکتی نہیں ہے،کیونکہ وہ قرآن کے ماحول سے مانوس رہتا ہے۔

۵۔ خاندانی جوڑ  اور رشتہ داری میں ربط :  یہ مقدس مہینہ خاندان اور رشتہ دار کو جوڑنے اور خاندانی ربط کو مضبوط کرنے کے لیے ایک اہم موقع ہے، اس مہینے میں پورا خاندان ایک ہی دسترخوان پر دن میں کم ازکم دو مرتبہ جمع ہوتا ہے، اس  جمع ہونے کا بچوں کی شخصیت پر گہرا اثر پڑتا ہے، اس کی شخصیت میں مضبوطی اور پختگی پیدا ہوتی ہے۔ایک جڑے ہوئے اور مربوط خاندان کا بچہ ؛بکھرے ہوئے اور رشتے ناطے ٹوٹے ہوئے خاندان کے بچے کے مقابلے نفسیاتی، ذہنی اور عقلی طور پر بہت زیادہ مستحکم اور مضبوط ہوتا ہے۔ اسی طرح خاندان کے افراد کے  درمیان ایک دوسرے کے پاس آنے جانے کا عمل بچوں میں رشتہ داری کو جوڑے رکھنے کی اہمیت پیدا کرتا ہے۔

۶- جود وسخاوت : رمضان میں دیگر مہینوں کے مقابلے آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کی سخاوت میں اضافہ ہوجاتا تھا، والدین ؛رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس سنت کو رمضان میں زندہ کریں اور صدقہ وخیرات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے کر رمضان کی مبارک ساعتوں میں بچوں میں صدقہ دینے کا شوق پیدا کریں۔

بچوں میں ماہ رمضان کا شوق  پیدا کرنے کے چند مفید طریقے :

۱۔ سجاوٹ : راستوں اور خصوصا گھروں میں ماہ رمضان کی آمد کے موقع پر سجاوٹ اور زیب وزینت کا بچوں پر بڑا اثر ہوتا ہے، خاص طور پر اگر بچوں کو بھی گھر کو پررونق بنانے اور سجاوٹ کے اس کام میں شریک کیا جائے تو بچے اس ماہ کی آمد کے بہت زیادہ منتظر ہوتے ہیں۔ اس موقع پر "خوش آمد ید رمضان"،" ماہ صیام کی آمد مبارک" اور"مرحبا ماہ غفران"، جیسی عبارتیں لکھی جائیں اور جگہ جگہ چسپاں کی جائیں تو بچےاس مقدس مہینے کو عید تصور کرنے لگتے ہیں اور پھر اس مہینے کے تمام تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے نفسیاتی طور پر آمادہ رہتے ہیں۔

۲۔ تحفہ اور کھلونے : ماہ رمضان کے آغاز سے پہلے ہی مبارک مہینے کی نسبت سے بچوں کے لیے تحفے تحائف اور کھلونے لائیے، تاکہ بچوں کے دلوں میں اس مہینے کی بے شمار خیر وبرکات سے محبت پیدا ہوں اور وہ روزہ رکھنے پر خود ہی  آمادہ ہوجائیں۔

۳۔ روزے رکھوانے میں تدریج سے کام لیجیے : یہ ضروری نہیں ہے کہ بچے شروع مہینے سے اخیر مہینے تک پورے روزے رکھیں، بلکہ ایک دن روزہ رکھوائیے اور پھر ایک سے دو دن کے ناغے کے بعد پھر بہلا کر روزہ رکھنے پر آمادہ کیجیے، اس کے لیے بچوں کے درمیان مقابلہ رکھیے، اس طور پر کہ  بچوں کو یہ بتائیے کہ جو زیادہ سے زیادہ روزے رکھے گا اس کے لیے سب سے بڑا انعام، جو  مکمل نماز تراویح پڑھے گا اس کے لیے یہ اور یہ انعام وغیرہ۔

۴۔ نئے کپڑے خریدیئے : رمضان کی آمد سے پہلے بچوں کے لیے نئے کپڑے خریدیئے اور انھیں بتائیے کہ یہ عبادت کےکپڑے ہیں،لڑکے کے لیے نیا لباس، قرآن مجید کا نیا نسخہ اور ایک تسبیح خریدیئے، اور لڑکی کے لیے نیا برقع، اسکارف اور قرآن مجید کا نیا نسخہ خریدیئے تاکہ بچے مسجد جانے اور قرآن مجید کو پڑھنے کے لیے نفسیاتی طور پر تیار ہوں۔

۵۔ رمضان میں ٹی وی بند کردیجیے : ماہ مقدس کی ان برکتوں اور رحمتوں والی ساعتوں میں ٹی وی بے فائدہ اور بے کار ہیں، اب آپ خود ہی گھر کے خاص پروگرام بنائیے مثلا آپ اس طرح کےپروگرام سیٹ کرسکتے ہیں:  گھریلو حفظ قرآن کامسابقہ ، یومیہ اجتماع جس میں گھر کے تمام افراد اکھٹا ہوں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کا مذاکرہ کیا جائے، گھر کےتمام افراد پر مشتمل ختم  قرآن مجید کا حلقہ  جس میں ہر فرد تھوڑا تھوڑا پڑھیں اور سب سنیں،  گھر کے تمام افراد کی نماز تراویح میں شرکت، رشتہ داروں اور دوست واحباب سے خصوصی ملاقات اور رمضان میں ایک سے زائد مرتبہ ختم قرآن کرنے والوں کے درمیان مسابقہ، وغیرہ ۔ اس طرح کے پروگرام آپ کی قیمتی ساعتوں کو روحانی بنائیں گے، ٹی وی سے بے نیاز کریں گے، بچوں کے دلوں میں رمضان کی محبت اور شوق اور اطاعت کا جذبہ پیدا کریں گے۔