ہفتہ، 4 ستمبر، 2021

SHAITAN SE MERI GUFTAGU

0 تبصرے

 

معروف مصنف عائض القرنی کی کتاب "مقامات " سے  ماخوذ، ایک دلچسپ گفتگو  ضرور پڑھیں -

 (ترجمہ : مبصرالرحمن قاسمی)

 

شیطان سے میری گفتگو

تاریک رات تھی، اذان فجر کی آواز کانوں سے ٹکرا رہی تھی، مسجد جانے کے ارادے سے میں بیدار ہی ہونا چاہتا تھا کہ شیطان مردود میرے روبرو ہوا۔

شیطان : ابھی رات بڑی ہے، سوتے رہو-

میں: مجھے ڈر لگتا ہے کہ کہیں تو میری فرض نماز ضائع نہ کروادے۔

شیطان : ارے بھائی  وقت بڑا لمبا ہے -

میں: مجھے ڈر ہے کہ جماعت کی نماز چھوٹ نہ جائے-

شیطان : عبادت کے لیے  اپنے نفس پر اتنی زبردستی مت کیا کرو۔

( میں اس کی باتوں کا شکار ہوگیا اور سورج نکلنے تک اٹھ نہ سکا۔)

شیطان:  نماز کے چھوٹنے پر اتنا افسوس مت کرو، ابھی نماز کے لیے پورا دن پڑا ہے۔

(جب میں ذکر واذکار کے لیے بیٹھا تو میرے سامنے نئے نئے آئیڈیاز کے دفتر کھول دیا-)

میں :( دل ہی دل میں): تونے مجھے دعاء سے غافل کردیا-

شیطان : دعاء اور ذکر واذکار شام میں کرلینا-

(جب میں نے توبہ اور رجوع کا پکا ارادہ کرلیا -)

شیطان : ارے ابھی جوانی کے مزے لے لو۔

میں  :  مجھے موت کا ڈر ہے-

شیطان : ابھی تو بہت عمر باقی ہے۔

(میں قرآن کی تلاوت کے لیے بیٹھ گیا)

شیطان : ارے گانوں کے ذریعے اپنے دل کو  سکون راحت دو-

میں : وہ تو حرام ہے-

شیطان : ارے صاحب ! اس سلسلے میں علماء کے درمیان اختلاف ہے-

میں: میرے پاس ایک کتاب ہے جس میں گانوں کی حرمت پر کئی احادیث ہیں۔

شیطان : ارے  وہ سب ضعیف ہیں۔

(اس اثناء ایک حسین وجمیل عورت  سامنے سے گذری تو میں نے نگاہوں کو نیچے کردیا-)

شیطان : دیکھ لیتے تو کیا حرج  تھا؟

میں : اس میں ہلاکت ہے-

شیطان : ارے جناب !  اس کے حسن وجمال میں تدبر کرو، کیونکہ تدبر اور غوروفکر کرنا حلال ہے-

(میں کعبۃ اللہ  کی طرف نکلا، اس نے راستے میں مجھے روک دیا)

شیطان : اس سفر کا کیا فائدہ؟

میں: عمرے کا ارادہ ہے۔

شیطان : آپ نے عمر ےکی نیت کی اور کئی خطرات مول لے لیے، اگر خیر وبھلائی اور نیکی ہی کرنی ہے تو نیکی اور بھلائی کے اور بھی میدان ہیں، جہاں اس سے زیادہ ثواب مل سکتا ہے۔

میں: حالات کی اصلاح بہت ضروری ہے-

شیطان : آپ جنت میں اعمال کی بدولت نہیں جاوگے۔

(جب میں لوگوں کو نصیحت اور وعظ کے لیے جانے لگا)

شیطان : اپنے آپ کو رسو ا  کیوں کرتے ہو؟

میں: اس سے تو لوگوں کا فائدہ ہوتا ہے-

شیطان : مجھے ڈر ہے کہ آپ شہرت کا شکار ہوجاو گے، آپ کو پتہ ہے؟ شہرت ہی ساری برائیوں کی جڑ ہے۔

میں: پھر جو لوگ مشہور ہوئے ان کے بارے میں تیری کیا رائے ہے؟

شیطان : ذرا مجھے مشہور شخصیات کے نام  تو بتاو۔

میں  :  احمد بن حنبلؒ؟

شیطان: مجھے ان کے قول "سنت کو لازم پکڑو اور قرآن منزل من اللہ ہے" نے ہلاک کردیا۔

میں  : امام  ابن تیمیہؒ؟

شیطان : مجھے ہر روز ان کی پھٹکار پڑتی ہے۔

میں: امام  بخاریؒ کے بارے میں کیا خیال ہے؟

شیطان : انھوں نے تو اپنی کتاب کے ذریعےمیرے گھر دار کو خاک  کررکھا ہے۔

(پھر میں نے اس کےسامنے حجاج ثقفی کا ذکر کیا۔)

شیطان : کاش کہ ہر گھر میں ایک ہزار حجاج جیسے لوگ پیدا ہوتے، اس کا کردار میرے لیے باعث خوشی ہے، اور اس کا طریقہ کار میرے لیے علاج ہے۔

(میں نے پھر فرعون کا تذکرہ کیا ۔)

شیطان : اس کے لیے تو ہماری ہر قسم کی  مدد اور تعاون شامل رہا۔

(پھر میں نے اخلاق سوز فحش  میگزن کا ذکر کیا۔)

شیطان : ارے جناب !  یہ تو ہمارا دستور ہے-

میں  : قہوہ خانوں کے بارے میں کیا رائے ہے؟

شیطان : اس میں تو ہم ہر غافل اور دین بیزار انسان  کا استقبال کرتے ہیں۔

میں  : تمہاری عبادت کیا ہے؟

شیطان : گانے  گانا اور سننا ہمارا ذکر وعبادت ہے۔

میں  : تمہارا کام کیا ہے؟

شیطان : تمنائیں اور خواہشات ہمارا کام ہے۔

میں :بازار کے بارے میں کیا کہتے ہو؟

شیطان : یہاں تو ہمارےدوست واحباب جمع ہوتے ہیں۔

میں: لوگوں کو تم گمراہ کیسے کرتے ہو؟

شیطان : شہوتوں، شبہات، لایعنی باتوں، امنگوں اور گانوں کے ذریعے۔

میں : اور عورتوں کو ؟

شیطان : زیب وزینت، بے پردگی اور گناہوں میں ملوث کرکے۔

میں : تم لوگ علماء کو کیسے گمراہ کرتے ہو؟

شیطان : عجب ، خودپسندی ، غرور وتکبر میں مبتلا کرکے اور ان کے دلوں کو ایک دوسرے کے حسد سے بھر کر۔

میں: عام لوگوں کو کیسے گمراہ کرتے ہو؟

شیطان :  غیبت ، چغلی اور فضول  اورلایعنی باتوں میں مصروف کرکے۔

میں: تاجروں کو گمراہ کرنے کا کیا طریقہ ہے؟

شیطان : ہم شیطان کی جماعت سود کے ذریعے، صدقات سے روک کر اور فضول خرچی کے ذریعے تاجروں کو گمراہ کرتی ہے۔

میں: نوجوانوں کو کیسے گمراہ کرتے ہو؟

شیطان : غزل گوئی، عشقیہ کاموں، دھوکہ دہی اورناجائز وحرام کاموں کے ارتکاب کے ذریعے۔

میں :( ایک اہم سوال )اسرائیل کے بارے میں کیا خیال ہے؟

شیطان (بغیر تاخیر کے) : ارے ارے غیبت نہ کرو، اسرائیل تو ایک محبوب ملک ہے، اس کا ہمارے دل میں بڑا  احترام ہے۔

میں: تونے قارون سے کیا کہا تھا ؟

شیطان: میں نے قارون سے کہا اے بوڑھی ماں کے فرزند کا میابی چاہتے ہوتو اپنے خزانوں کی حفاظت کرو، لوگ تمہیں یاد کریں گے۔

میں : اور فرعون کو کیا نصیحت کی تھی؟

شیطان : میں نے اس سے کہا، اے عظیم الشان محلات کے مالک! یہ دعوی کردے کہ میں مملکت مصر کا  مالک ہوں اور مدد ونصرت میرا ہی حق ہے۔

میں: شرابی کا  حوصلہ کیسے بڑھاتے ہو؟

شیطان : میں اس سے کہتا ہوں اے معزز ماں کے فرزند ! شراب پیا کر، غم دور ہوتے ہیں،  فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے،  توبہ کا دروازہ ابھی کھلا ہے۔

میں: کون سی چیز ہے جو تجھے قتل کرتی ہے؟

شیطان : آیۃ الکرسی – اس سے میں بہت زیادہ تنگی محسوس کرتا ہوں، جب تک بندہ پڑھتا رہتا ہے میں اپنے آپ کو ایک  قیدی محسوس کرتا ہوں۔

میں: لوگوں میں سب سے زیادہ کس  سے محبت کرتے ہو؟

شیطان : گلوکاروں سے، شاعروں سے، گناہگاروں سے، فتنہ پروروں سے اور ہر اس شخص سے جو اپنے ذہن میں خباثت کو جگہ دیتا ہے۔

میں: لوگوں میں سب سے زیادہ کس سے نفرت اور بغض ہے؟

شیطان : (بڑے افسوس کے ساتھ ) آہ،مسجد والوں سے، ہر رکوع  اور سجدہ کرنے والے سے، ہر زاہد ، عابد اور مجاہد سے۔

میں: أعوذ بالله منك، میری اس دعا پر وہ نظروں سے غائب ہوگیا، ایسا غائب ہوا، گویا زمین میں دھنس گیا، حقیقت میں  ہر جھوٹےاور کذاب کا حشر  یہی ہے۔

 

جمعہ، 3 ستمبر، 2021

بچوں کا مستقبل ۔۔۔۔ امت کا مستقبل ہے

0 تبصرے

چھوٹے دینی مدارس کے ذمہ داران اپنے طلباء کے مستقبل کے بارے میں غور کیوں نہیں کرتے؟

 

یقینا دینی ادارے وطن عزیز میں وقت کی سخت ضرورت ہے، لیکن ذمہ داران کو اس بات پر بھی نظر رکھنا ہوگا کہ جو لوگ ان پر اعتماد کرکے اپنی اولاد کو حوالے کرتے ہیں، کیا وہ ان کے اعتماد کو باقی رکھ پاتے ہیں...

میرے ایک قریبی ہیں، ان کے فرزند نے صرف حفظ قرآن کے لیے چودہ سال لگادیے لیکن وہ بچہ ابھی بھی صحیح ڈھنگ سے حافظ بن نہ سکا.... کیا وہ بچہ کند ذہن تھا؟ نہیں.... کیا وہ بچہ کمزور تھا؟ نہیں... کیا وہ بچہ شرارت پسند تھا؟ نہیں

وہ بچہ آج اٹھارہ سال کی عمر کو چھورہا ہے اور جس باپ نے اسے مدینہ بھیجنے کے مقصد سے مدرسہ میں ڈالا تھا آج وہ بچہ بوڑھا ہوتے باپ اور چھوٹے بھائی بہنوں کی خاطر ایک کمپنی میں لیبر کے طور پر کام کررہا ہے.

اس لیے کہ اس کی عمر کا ایک بڑا حصہ صرف حفظ کرنے میں گزر گیا....

دراصل اس بچے کی کہانی ہم آپ کو سناتے ہیں، یہ اس لیے کہ جو حضرات شعبہ حفظ چلارہے ہیں وہ بچوں کی عمر کو ضائع کرنے سے بچ سکیں.

حمد (نام بدل کر) نے سات سال کی عمر میں ہی پربھنی میں واقع فیض القرآن میں داخلہ لیا تھا، جہاں اس نے ہردوئی کی طرز پر نورانی قاعدہ، تیسواں پارہ اور پنج سورے کا حفظ مکمل کرلیا تھا، وہ اپنی جماعت کا ہونہار طالب علم تھا، لیکن گھریلو حالات کے باعث اس کے والد نے اسے رنجنی میں اشاعت العلوم اکل کوا کی شاخ میں داخل کروادیا، کیونکہ اس کے والد دینی علوم سے نا واقف تھے تو یہاں کے ذمہ داروں نے اس بچے کو ایک بار پھر دو سال کے لیے شعبہ ناظرہ میں ڈال دیا، جہاں استاذ گدی پر بیٹھے گپ شپ کرتے تھے اور حمد پوری جماعت کو ناظرے کا سبق ایک آواز میں پڑھاتا تھا، کیونکہ اس کا ناظرہ پہلے ہی سے بہتر تھا، اور وہ شعبہ حفظ کے قابل تھا لیکن ہمارے اداروں کے اصول طلباء کے مستقبل سے زیادہ اہم ہوتے ہیں.... بہر حال وہ یہاں بھی حفظ شروع نہیں کرسکا... گھریلو حالات کے باعث حمد کے والد نے اس ذہین اور محنتی طالب علم کو ایک جاننے والے مولانا کے مشورے پر اورنگ آباد میں واقع ایک چھوٹے سے مدرسہ میں داخل کردیا، جہاں اس بچے نے حفظ تو شروع کردیا تھا لیکن اس ادارے کا ماحول اور اس کے استاذ کے سالانہ تبلیغی چلے، ماہانہ سہ روزے نے مزید تین سال اس کے ضائع کردیئے اور اس طرح ناظرہ اور حفظ کی دہلیز پر قدم رکھنے میں ہی اس کے دس سال گزر گئے...

           .......... 

ابھی ابھی ایک صاحب سے بات ہوئی، ان کے فرزند نے واٹس گروپ میں ہماری نگرانی میں تین پارے گزشتہ سال ہی مکمل حفظ کرلیے تھے، بچے کے ذوق حفظ اور درست تلاوت کی بنیاد پر ہم نے انھیں شعبہ حفظ میں داخل کرانے کا مشورہ دیا تھا، لہذا جس ادارے میں اس بچے کو داخل کرایا گیا، ان کا اصول ہے کہ طالب علم کا پہلے مکمل ناظرہ ہونا حفظ کے لیے شرط ہے... خیر، آج ہم نے ان سے دریافت کیا کہ ناظرہ ایک سال میں تو ہوہی جانا چاہیے، کیوں نہیں ہوا تو کہنے لگے کہ مولوی صاحب کا کہنا ہے کہ وہ ان کے ادارے کو مثالی بنانا چاہتے ہیں اس لیے ناظرے کی ہلکی سی غلطی بھی قابل قبول نہیں ہوسکتی....

 

لیجیے.... اپنی انا کی خاطر امت کے مستقبل کی بربادی

 

یہ دو صرف مثالیں ہیں، ایسے کتنے بچے ہونگے، جن کی عمر کا ایک بڑا حصہ اداروں اور کم فہم اساتذہ کے من مانی اصولوں کے نذر ہوجاتا ہوگا....

 

حفظ قرآن سب سے افضل عمل ہے، لیکن اس عمل سے لوگوں کو مایوس مت کیجیے....

 


ہفتہ، 17 جولائی، 2021

0 تبصرے



(اردو ترجمے کے ساتھ )

واقعۂ طائف کیسے بنا کلیر کے اسلام قبول کرنے کی وجہ



 

0 تبصرے


 

0 تبصرے

 

ڈاکٹر جاسم المطوع

ترجمہ: مبصرالرحمن قاسمی

حج ایک عظیم الشان سماجی وخاندانی درسگاہ

پانچ ارکان پانچ واقعات

عموما حج سے پہلے ایمانی اور شرعی پہلوؤں پر ہی بات کی جاتی ہے، لیکن یہاں ہم نے مناسکِ حج کے سماجی پہلوؤں پر بات کرنے کا ارادہ کیا ہے۔ اگر آپ حج کے ارکان پر تھوڑا غور کریں گے تو آپ کو حج کے ہر رکن کے پس منظر میں سماج اور خاندان سے جڑا ایک واقعہ دکھائی دےگا۔

پہلا واقعہ :  کعبہ شریف مسلمانوں کا قبلہ ہے اور طوافِ کعبہ حج کا ایک رکن ہے، لہٰذا کعبہ شریف کی بنیاد ایک خاندانی وسماجی واقعے سے شروع ہوتی ہے، سیدنا ابراہیم ؑ اپنی دوسری بیوی  حضرت ِہاجرہ ؑ کے ساتھ شادی کرتے ہیں اور انھیں لے کر مکہ مکرمہ پہنچ جاتے ہیں، جہاں ان کے بطن سے حضرت  اسماعیل ؑ کی ولادت ہوتی ہے اور جب اسماعیل ؑ تھوڑے بڑے ہوتے ہیں تو کعبہ شریف کی تعمیرکے پروجیکٹ میں اپنے والد کا ساتھ دیتے ہیں۔باپ اور بیٹے کے درمیان کا یہ تعاون کعبہ شریف کا طواف کرنے والے ہر حاجی کے لیے ایک پیغام ہے کہ وہ  اپنی زندگی کی تعمیر اور دنیا وآخرت کے منصوبوں کے سلسلے میں اپنی اولاد کا تعاون حاصل کرے۔

دوسرا واقعہ : زمزم کے پانی کا واقعہ ہے، جب سیدنا ابراہیم ؑ اپنی اہلیہ اور اپنے بچے کو ایک بے آب وگیاہ زمین میں چھوڑنے لگے تو ہاجرہ ؑ نے کہا : کیا اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس کا حکم دیا ہے؟ سیدنا ابراہیم ؑ نے کہا : ہاں، تو ہاجرہؑ نے اپنے معاملے کو اللہ کے سپرد کردیا ۔ اللہ تعالیٰ کو اس بیوی کی یہ ادا اتنی پسند آئی کہ انھیں زمزم کے پانی کے اعزاز سے نوازا۔بحیثیت بیوی حضرتِ ہاجرہ ؑ کے اس عمل میں ہرخاتون کے لیے ایک پیغام ہے، کہ وہ اپنے شوہر کی کس قدر اطاعت کرے، اس کی غیر حاضری پر کس قدر صبر کرے، اور شوہر کی غیر موجودگی میں اپنی اولاد کی کیسی تربیت کرے۔ اگر بیوی اس طرح اپنے شوہر کی اطاعت کرے گی تو اللہ تعالیٰ ایسی نعمت سے نوازے گا جو نہ دنیا میں ختم ہوگی اور نہ آخرت میں۔اسی لیے نبی کریم ﷺ نے زمزم کے پانی کے سلسلے میں فرمایا :  آبِ زمزم ہر اس (جائز) مقصد اور حاجت (کی حصول یابی) کے لیے کافی ہے جس کے لیے اسے پیا جائے۔ (سنن ابن ماجہ، المناسک، باب الشرب من زمزم ۲/ ۱۰۱۸، )امام شافعی ؒ  کہا کرتے تھے : میں نےزمزم کا پانی تین مقاصد کے حصول کے لیے پیا: تیر اندازی کے لیے، میرے دس نشانے میں سے دسوں صحیح جگہ لگ جاتے تھے یا دس میں سے نو صحیح لگ جاتے، اور میں نے جنت میں داخلے کے مقصد سے زمزم پیا اور جنت کے حصول کی امید کرتا ہوں۔

امام ترمذی کا زمزم کے حوالے سے ایک تجربہ ہے، آپ فرمایا کرتے تھے: میں اندھیری رات میں طواف  کے لیے گیا، مجھے پیشاب کی سخت ضرورت محسو س ہونے لگی، میں اسے روکنے لگا، حتی کہ مجھے تکلیف ہوئی تو میں نے مسجد سے باہر نکلنا چاہا، چند ہی قدم چلا تھا ، حج کے دن تھے، اس دوران  مجھے یہ حدیث رسول یاد آگئی  کہ آبِ زمزم ہر اس (جائز) مقصد اور حاجت (کی حصول یابی) کے لیے کافی ہے جس کے لیے اسے پیا جائے۔ ، تو میں زمزم کی طرف گیا اور دل بھر کے زمزم پی لیا، تو پیشاب کی یہ حاجت فجر تک مجھے محسوس نہیں ہوئی۔اسی طرح ابن عباس رضی اللہ عنہ کا زمز م کے حوالے سے ایک تجربہ ہے، وہ زمزم پیتے وقت یہ دعا کیا کرتے تھے : اللهم إني أسألك علما نافعا ورزقا واسعا وشفاء من كل داء

(ترجمہ: اے میں تجھ سے نفع دینے والے علم، کشادہ روزی اور ہر مرض سے صحت یابی کا سوال کرتا ہوں)

ان واقعات اور تجربوں کے علاوہ بھی بہت سارے واقعات ہیں جن سے آب زمزم کی برکتوں کا اندازہ ہوتا ہے۔ مجھے یاد ہے کئی سال پہلے میں ایک حج کے قافلے میں شریک تھا،  ہمارے پاس ایک شخص آیا، وہ بہت زیادہ غمزدہ تھا، طواف افاضہ کے دوران اس کی والدہ اس سے بچھڑگئی تھیں،لوگ اسے مشورہ دے رہے تھے کہ پولس اور سول ڈیفینس کے افراد کو بتائے، لیکن میں نے اس شخص کو کہا: زمزم پی لو اور اللہ تعالیٰ سے دعا کرو کہ تمہیں تمہاری ماں مل جائے، اس بات پر وہ شخص مجھے بڑی حیرت سے دیکھنے لگا، لیکن اس نے میری بات پر عمل کیا اوردوبارہ حرم کے اندر اپنی ماں کو  ڈھونڈنے نکل گیاتو مروہ کے پاس ماں کو بیٹھی ہوئی پایا  اور بہت خوش ہوا۔ پھر میرے پاس آیا اور کہنے لگا کہ زمزم کے پانی کے اس قدر جلدی اثر کی مجھے توقع نہیں تھی۔

تیسرا واقعہ : کنکری مارنے کا واقعہ ہے، یہ عمل بھی حج کا ایک رکن ہے، حضرت ابراہیم ؑ نے جب خواب میں اپنے فرزند حضرت اسماعیل ؑ کو ذبح کرتے دیکھا تو بیٹے سے کہا :  (يا بني إني أرى في المنام أني أذبحك فانظر ماذا ترى)  (ابراہیم علیہ السلام) نے کہا میرے پیارے بچے! میں خواب میں اپنے آپ کو تجھے ذبح کرتے ہوئے دیکھ رہا ہوں۔ اب تو بتا کہ تیری کیا رائے ہے؟

یہاں ہر حاجی کے لیے یہ پیغام اور سبق ہے کہ ماں باپ کو اپنی اولاد کے ساتھ بات چیت کرنا چاہیے، ان کے ساتھ مشورہ کرنا چاہیے، انھیں بتانا چاہیے کہ خاندان کا پہلا دشمن ابلیس ہے، وہ پوری انسانیت کا دشمن ہے،  اپنے بچوں کو شیطان کے منصوبے بتانا چاہیے کہ وہ انسان کو کس طرح بہکاتا ہے اور  اس سے بچنے کے لیے انسان کو کس طرح اللہ تعالیٰ کی مدد طلب کرنا چاہیے۔

اگرچہ اس واقعے کا اختتام یہ بتاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم ؑ اور ان کے فرزند ؑ کو ایک دوسرے کو سننے اور اطاعت کرنے، اپنے رب کے حکم کو بجالانے اور اولاد کے ساتھ بات چیت اور مشورے کا طریقہ اپنانے کے بدلے میں ایک دنبے سے نوازا، اور اس کی قربانی کی گئی۔اور پھر اس قربانی نے قیامت تک کے لیے ایک سنت کادرجہ حاصل کرلیا۔باپ اور بیٹے کا یہ عمل دنیا کے ہر خاندان کے لیے ایک پیغام ہے کہ عید الاضحی کا دن دراصل باہمی رابطے اور خاندانی بات چیت کو زندہ کرنے کا دن ہے۔

چوتھا واقعہ :  صفا اور مروہ کے درمیان سعی کا واقعہ ہے، ماں ہاجرہ ؑ نے ٍصفا اور مروہ کی ان ہی پہاڑیوں کے درمیان اپنے ننھے کے لیےپانی کی تلاش میں چکر لگائے تھے، اور پھر ان کا یہ دوڑ لگانے کا عمل حج کا ایک رکن بن گیا، آج دنیا کا ہر مرد اور عورت جب حج کے لیے جاتے ہیں تو حضرت ہاجرہؑ کی اقتدا میں صفا ومروہ کے درمیان( سعی)  یعنی دوڑ لگانے کا عمل کرتے ہیں۔اور اس عمل کے دوران ہر حاجی کے ذہن میں یہ بات ہوتی ہے کہ ہم حضرت ہاجرہؑ کے اپنے فرزند حضرت اسماعیل کے لیے پانی کی تلاش میں کی جانے والی سعی کی نقل کررہے ہیں۔ یہ عمل سعی کرنے والے ہر حاجی کے لیے یہ پیغام ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے مومن  بندے کی کوشش کو ضائع نہیں کرتا ہے۔

پانچواں واقعہ :  عرفہ کے پہاڑ  کی عظیم داستان ہے،(اگر روایات میں صحت ہوتو)  کہا جاتا ہے کہ حضرت آدم اور حوا علیہما السلام کے درمیان زمین پر پہلی بار تعارف اسی جگہ ہوا تھا اور پھر یہ واقعہ انسانی زندگی کا  ایک خاندانی و سماجی فیسٹول ثابت ہوا ۔مناسک حج کے یہ پانچ خاندانی وسماجی واقعے حج کے ایک عظیم الشان سماجی وخاندانی درسگاہ  ہونے کی دلیل ہے۔

 

جمعرات، 7 جنوری، 2021