جمعرات، 28 نومبر، 2019

Corona Virus

0 تبصرے

 تحریر
   مبصرالرحمن قاسمی- کویت

کورونا وائرس کی دہشت
 بچاؤ کے لیے دین اسلام کی رہنمائی

آج دنیا بھر میں کورونا وائرس کی وبا ہر عام وخاص کے درمیان موضوع سخن بنی ہوئی ہے، دنیا کے بیشتر ممالک میں لوگ اس سے ڈرے ہوئے ہیں، حکومتی سطح پر اس وائرس سے بچاؤ کی تدابیر اختیار کی جارہی ہیں، چین کے بعد جنوبی کوریا، اٹلی، برطانیا اور اب دبئی کے بعد ایران میں یہ وبا بہت تیزی سے پھیل چکی ہے، بحرین اور کویت نے ایران سے اپنے شہریوں کو واپس ملک لانے کے بعد ان دونوں خلیجی ممالک بھی اس مرض کی زد میں آچکے ہیں ۔ جبکہ سعودی عرب نے اس وبا کے پھیلاؤ کے خطرات سے بچنے کے لیے احتیاطی اقدامات کے طور پر عمرے کے لیے آنے والوں پر عارضی پابندی عائد کردی ہے۔
ایسی صورتحال میں بحیثیت مسلمان ہر فرد کو کسی بھی مصیبت اور وبا کے وقت خدائے تعالی کی رسی کو مضبوطی سے تھام لینا چاہیے اور اس مصیبت ووبا کے حل اور علاج کی تدابیر میں خوف خدا اور شرعی رہنمائی کو مقدم رکھنا چاہیے۔ لہذا اس سلسلے میں موجودہ وقت میں ذیل کی چھ باتیں انتہائی اہمیت کی حامل ہیں۔
دین پر مضبوطی سے جمے رہنا اور اللہ تعالی پر ہی بھروسہ رکھنا:
ہر مسلمان کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ ہر حال میں اپنے رب تعالی پر بھروسہ رکھے، اور یہ یقین رکھے کہ تمام امور اسی کے ہاتھ میں ہیں۔ اس ضمن میں قرآن مجید کی ان آیتوں پر غور کرنا ضروری ہے ،   ارشاد ہے :
 مَا أَصَابَ مِن مُّصِيبَةٍ إِلاَّ بِإِذْنِ اللَّهِ وَمَن يُؤْمِن بِاللَّهِ يَهْدِ قَلْبَهُ (التغابن:11)،
ترجمہ: کوئی مصیبت اللہ کی اجازت کے بغیر نہیں پہنچ سکتی، جو اللہ پر ایمان لائے اللہ اس کے دل کو ہدایت دیتا ہے ۔
 یقینا  ہر چیز اللہ تعالی ٰکے اختیار میں ہے، اللہ تعالی اگر کسی چیز کو کرنا چاہے تو وہ چیز واقع ہوتی ہے اور اگر وہ نہ چاہے تو دنیا کی کوئی طاقت کسی کو نہ نقصان پہنچاسکتی ہے اور نہ نفع۔
ارشاد ربانی ہے :
 ُ مَن ذَا الَّذِي يَعْصِمُكُم مِّنَ اللَّهِ إِنْ أَرَادَ بِكُمْ سُوءًا أَوْ أَرَادَ بِكُمْ رَحْمَةً} (الأحزاب:17)،
ترجمہ: پوچھیے! تو کہ اگر اللہ تعالیٰ تمہیں کوئی برائی پہنچانا چاہے یا تم پر کوئی فضل کرنا چاہے تو کون ہے جو تمہیں بچا سکے (یا تم سے روک سکے؟۔
اسی طرح ارشاد ہے :
إِنْ أَرَادَنِيَ اللَّهُ بِضُرٍّ هَلْ هُنَّ كَاشِفَاتُ ضُرِّهِ أَوْ أَرَادَنِي بِرَحْمَةٍ هَلْ هُنَّ مُمْسِكَاتُ رَحْمَتِهِ۔(الزمر:38)۔
ترجمہ : اگر اللہ تعالی مجھے نقصان پہنچانا چاہے توکیا یہ اس کے نقصان کو ہٹا سکتے ہیں؟ یا اللہ تعالیٰ مجھ پر مہربانی کا اراده کرے تو کیا یہ اس کی مہربانی کو روک سکتے ہیں؟ آپ کہہ دیں کہ اللہ مجھے کافی ہے، توکل کرنے والے اسی پر توکل کرتے ہیں}
اور ایک جگہ ارشاد ہے :
 مَا يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ مِن رَّحْمَةٍ فَلا مُمْسِكَ لَهَا وَمَا يُمْسِكْ فَلا مُرْسِلَ لَهُ مِن بَعْدِهِ۔  (فاطر:2)،
ترجمہ:  اللہ تعالیٰ جو رحمت لوگوں کے لئے کھول دے سو اس کا کوئی بند کرنے وا نہیں اور جس کو بند کردے سو اس کے بعد اس کا کوئی جاری کرنے والا نہیں ۔
اور حدیث میں آیا ہے :
  وَاعْلَمْ أَنَّ الأُمَّةَ لَوِ اجْتَمَعَتْ عَلَى أَنْ يَنْفَعُوكَ بِشَيْءٍ لَمْ يَنْفَعُوكَ إِلاَّ بِشَيْءٍ قَدْ كَتَبَهُ اللَّهُ لَكَ وَلَوِ اجْتَمَعُوا عَلَى أَنْ يَضُرُّوكَ بِشَيْءٍ لَمْ يَضُرُّوكَ إِلاَّ بِشَيْءٍ قَدْ كَتَبَهُ اللَّهُ عَلَيْكَ رُفِعَتِ الأَقْلاَمُ وَجَفَّتِ الصُّحُفُ (رواه الترمذي وقال : حديث حسن صحيح ).
ترجمہ:   یہ بات جان لو کہ اگر ساری امت بھی جمع ہوکرتمہیں کچھ نفع پہنچانا چاہے تو وہ تمہیں اس سے زیادہ کچھ بھی نفع نہیں پہنچا سکتی جو اللہ نے تمہارے لیے لکھ دیا ہے، اور اگر وہ تمہیں کچھ نقصان پہنچانے کے لئے جمع ہوجائے تو اس سے زیادہ کچھ نقصان نہیں پہنچاسکتی جو اللہ نے تمہارے لئے لکھ دیا ہے، قلم اٹھالیے گئے اور (تقدیر کے)صحیفے خشک ہوگئے ہیں)۔ اور حدیث میں ہے :
«كَتَبَ اللَّهُ مَقَادِيرَ الْخَلاَئِقِ قَبْلَ أَنْ يَخْلُقَ السَّمَوَاتِ وَالأَرْضَ بِخَمْسِينَ أَلْفَ سَنَةٍ» (صحیح مسلم)
ترجمہ:  اللہ تعالی نے آسمان وزمین کو بنانے سے پچاس ہزار سال پہلے مخلوقات کی تقدیریں لکھ دی تھی )۔ اور ایک حدیث میں ہے :
 «إِنَّ أَوَّلَ مَا خَلَقَ اللَّهُ الْقَلَمَ، فَقَالَ لَهُ: اكْتُبْ. قَالَ: رَبِّ وَمَاذَا أَكْتُبُ؟ قَالَ: اكْتُبْ مَقَادِيرَ كُلِّ شَىْءٍ حَتَّى تَقُومَ السَّاعَة».
ترجمہ: ( اللہ تعالی نے سب سے پہلے قلم بنایا، پھر اس سے کہا : لکھو، اس نے کہا : پروردگار کیا لکھوں ؟ فرمایا : قیامت تک کے ہر چیز کی تقدیریں لکھ دو)۔
لہذا ہر مسلمان کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ اپنے معاملے کو اللہ کے حوالے کرے، اسی سے امید رکھے اور اسی بھروسہ اور توکل رکھے، اپنے رب تعالی کے علاوہ کسی سے عافیت، شفا اور سلامی کی امید نہ رکھے۔ اللہ تعالی کی طرف رجوع اور اسی کی یاد اور بھروسے سے مسائل حل ہوتے ہیں اور مصیبتیں ٹلتی ہیں۔
{وَمَن يَعْتَصِم بِاللّهِ فَقَدْ هُدِيَ إِلَى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ} (آل عمران:101).
ترجمہ: جو شخص اللہ تعالیٰ (کے دین) کو مضبوط تھام لے تو بلاشبہ اسے راه راست دکھادی گئی۔
اللہ تعالیٰ کے احکام کا خیال رکھو اللہ تمہاری حفاظت کرے گا :
ہر مسلمان کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ خدا تعالی کے احکام واوامر کی پابندی اور فرمانبرداری اور منع کردہ کاموں سے اپنے آپ کو دور رکھ کر اللہ تعالی کی بندگی بجالائے، نبی کریم ﷺ نے  ابن عباس کو وصیت کرتے ہوئے کہا تھا :  احْفَظِ اللَّهَ يَحْفَظْكَ، احْفَظِ اللَّهَ تَجِدْهُ تُجَاهَكَ      ترجمہ  :( تم اللہ کے احکام کی حفاظت کرو،وہ تمہاری حفاظت فرمائے گا)۔  لہذا جن کاموں کو کرنے کا حکم دیا گیا ان کی پابندی اور جن سے روکا گیا ان کو ترک کرنا دنیا وآخرت میں بندے کی سلامتی وحفاطت کا سبب ہے۔ اگر بندے پر کوئی مصیبت یا پریشانی آتی ہے تو اس پریشانی ومصیبت کی وجہ سے اللہ تعالی کے نزدیک اس بندے کے درجات بلند ہوتے ہیں، اس سلسلے میں جناب نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے :
 عَجَبًا لأَمْرِ الْمُؤْمِنِ إِنَّ أَمْرَهُ كُلَّهُ خَيْرٌ، وَلَيْسَ ذَاكَ لأَحَدٍ إِلاَّ لِلْمُؤْمِنِ، إِنْ أَصَابَتْهُ سَرَّاءُ شَكَرَ فَكَانَ خَيْرًا لَهُ، وَإِنْ أَصَابَتْهُ ضَرَّاءُ صَبَرَ فَكَانَ خَيْرًا لَهُ- (صحیح البانی)
ترجمہ : ’’ مومن کا معاملہ بڑا عجیب ہے ، اور اس کا ہر معاملہ یقیناً اس کیلئے خیر کا باعث ہوتا ہے ، اور یہ خوبی سوائے مومن کے اور کسی کو نصیب نہیں ہوتی ، اگر اسے کوئی خوشی پہنچے تو وہ شکر ادا کرتا ہے ، تو وہ اس کیلئے خیر کا باعث بن جاتی ہے ، اور اگر اسے کوئی غم پہنچے تو وہ صبر کرتا ہے ، اور یوں وہ بھی اس کیلئے باعثِ خیر بن جاتاہے’’۔
لہذا بندہ مومن اپنی خوشی، غم، مصیبت اور خوشحالی میں ایک خیر سے دوسرے خیر کی طرف بڑھتا ہے، اور یہ صرف بندہ مومن کے لیے ہی ہے، جیسا کہ پیارے نبی ﷺ نے فرمایا : «وَلَيْسَ ذَاكَ لأَحَدٍ إِلاَّ لِلْمُؤْمِنِ». اور یہ خوبی سوائے مومن کے اور کسی کو نصیب نہیں ہوتی۔
اسباب کو اختیار کرنا :
اسلامی شریعت نے اسباب کے استعمال اور علاج کی ترغیب دی ہے، علاج معالجہ اور صحت یابی کی کوشش کرنا  اللہ تعالی پر توکل کے منافی نہیں ہے۔ اسلامی شریعت نے علاج معالجے کے لیے طب کی دو نوعیتوں کی رہنمائی کی ہے، ایک طب وقائی یعنی مرض یا بیماری آنے سے پہلے ہی اس مرض سے بچاؤ کی کوشش کرنا اور دوسری طب علاجی، یعنی مرض لاحق ہونے کے بعد علاج کرنا، ان دونوں طرح کی صورتحال میں اسلام نے امراض کے علاج معالجے کی اجازت دی ہے۔
امراض سے قبل از وقت بچاؤ اور مرض کے لاحق ہونے کے بعد کی صورتحال کے لیے علمائے اسلام نے تحقیقی کتابیں لکھی ہیں، جن میں اصول علاج، اصول شفا اور اصول تداوی وغیرہ شامل ہیں، ان کتابوں میں بندہ مسلم کی دنیا وآخرت میں سلامتی وعافیت کے نسخے بیان کیے گئے ہیں۔ اگر آپ علامہ ابن القیم رحمہ اللہ کی تصنیف طب نبوی کا مطالعہ کریں گے تو اس کتاب میں آپ رسول اللہ ﷺ کی صحیح احادیث کا علاج ومعالجے سے متعلق  ایک حیران کن ذخیرہ پائیں گے۔
طب وقائی یا احتیاطی طب :
اس سلسلے میں جناب رسول ﷺ فرماتے ہیں :
«مَنِ اصْطَبَحَ بِسَبْعِ تَمَرَاتٍ عَجْوَةٍ لَمْ يَضُرَّهُ ذَلِكَ الْيَوْمَ سُمٌّ وَلاَ سِحْرٌ (صحیح بخاری)،
ترجمہ : جو شخص ہر روز صبح کے وقت سات عجوہ کھجوریں کھا لیا کرے، اس دن اسے زہر اور جادو نقصان نہ پہنچا سکے گا۔
اور آپ کا ارشاد ہے، سیدنا عثمان بن عفان ؓ کی روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا :
جو شخص (یہ دعا) صبح شام تین تین دفعہ پڑھے گا اس کو کوئی چیز تکلیف نہیں دے گی:
بِسْمِ اللهِ الّذِيْ لَا يَضُرُّ مَعَ اسْمِهِ شَيْءٌ فِيْ الأَرْضِ وَلَا فِيْ السَّمَاءِ وَهُوَ السَّمِيْعُ العَلِيْمُ،
اس اللہ کے نام سے کہ جس کے نام سے زمین و آسمان کی کوئی چیز نقصان نہیں پہنچاتی اور وہی ذات سننے والی اور جاننے والی ہے۔(صحیح البانی، حسنہ شعيب الأرناؤوط)
ابومسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
مَنْ قَرَأَ بِالآيَتَيْنِ مِنْ آخِرِ سُورَةِ الْبَقَرَةِ فِى لَيْلَةٍ كَفَتَاهُ (صحیح البخاری: 5008 )
جس نے سورۃ البقرہ کی دو آخری آیتیں رات میں پڑھ لیں وہ اسے ہر آفت سے بچانے کے لیے کافی ہو جائیں گی۔
اور عبداللہ بن خبیب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:
خَرَجْنَا فِي لَيْلَةٍ مَطِيرَةٍ وَظُلْمَةٍ شَدِيدَةٍ نَطْلُبُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي لَنَا قَالَ فَأَدْرَكْتُهُ فَقَالَ قُلْ فَلَمْ أَقُلْ شَيْئًا ثُمَّ قَالَ قُلْ فَلَمْ أَقُلْ شَيْئًا قَالَ قُلْ فَقُلْتُ مَا أَقُولُ قَالَ قُلْ قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ وَالْمُعَوِّذَتَيْنِ حِينَ تُمْسِي وَتُصْبِحُ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ تَكْفِيكَ مِنْ كُلِّ شَيْءٍ (صحيح الترمذي:3575).
ترجمہ: ہم ایک بارش والی سخت تاریک رات میں رسول اللہ ﷺ کو تلاش کرنے نکلے تاکہ آپ ہمیں نماز پڑھادیں، چنانچہ میں آپ کو پاگیا، آپ نے کہا: پڑھو تو میں نے کچھ نہ کہا: کہو آپ نے پھر کہامگرمیں نے کچھ نہ کہا۔آپ نے پھر فرمایا:کہو میں نے کہا: کیا کہوں؟ آپ نے کہا: قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ اور الْمُعَوِّذَتَيْنِ (یعنی سورہ فلق اور سورہ ناس) صبح وشام تین مرتبہ پڑھ لیا کرو، یہ سورتیں تمہیں ہر شر سے بچائیں گی اور محفوظ رکھیں گی۔
اسی طرح سیدنا عبداللہ بن عمر کی ایک حدیث ہے وہ کہتے ہیں کہ وہ صبح وشام ان دعاؤں کو پڑھنا چھوڑتے نہیں تھے :
«اللَّهُمَّ إِنِّى أَسْأَلُكَ الْعَافِيَةَ فِى الدُّنْيَا وَالآخِرَةِ، اللَّهُمَّ إِنِّى أَسْأَلُكَ الْعَفْوَ وَالْعَافِيَةَ فِى دِينِى وَدُنْيَاىَ وَأَهْلِى وَمَالِى، اللَّهُمَّ اسْتُرْ عَوْرَاتِى، وَآمِنْ رَوْعَاتِى، اللَّهُمَّ احْفَظْنِى مِنْ بَيْنِ يَدَىَّ وَمِنْ خَلْفِي وَعَنْ يَمِينِي وَعَنْ شِمَالِي وَمِنْ فَوْقِي وَأَعُوذُ بِعَظَمَتِكَ أَنْ أُغْتَالَ مِنْ تَحْتِي-(سنن ابوداود: 5074 )
ترجمہ: اے للہ! میں تجھ سے دنیا و آخرت میں عافیت کا طالب ہوں، اے اللہ! میں تجھ سے عفو و درگزر کی، اپنے دین و دنیا، اہل و عیال، مال میں بہتری و درستگی کی درخواست کرتا ہوں، اے اللہ! ہماری ستر پوشی فرما۔ اے اللہ! ہماری شرمگاہوں کی حفاظت فرما، اور ہمیں خوف و خطرات سے مامون و محفوظ رکھ، اے اللہ! تو ہماری حفاظت فرما آگے سے، اور پیچھے سے، دائیں اور بائیں سے، اوپر سے، اور میں تیری عظمت کی پناہ چاہتا ہوں اس بات سے کہ میں اچانک اپنے نیچے سے پکڑ لیا جاؤں۔
یہ دعا ہر لحاظ سے بندے کے لیے مکمل حفاظت کا ایک ذریعہ ہے۔
اسی طرح انس ابن مالک رضی اللہ عنہ کی ایک حدیث ہے وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "جو شخص اپنے گھر سے نکلتے ہوئے یہ کہے: "بِسم الله تَوَكَّلتُ على اللهِ، وَلاَ حول ولا قُوَّة إِلَّا بالله '' تو (اس وقت) اس سے کہا جاتا ہے: تجھے ہدایت دے دی گئی، تیری طرف سے کفایت کر دی گئی اور تو بچا لیا گیا اور ( یہ سن کر) شیطان اس سے پرے ہٹ جاتا ہے"۔ ابو داود کی روایت میں یہ الفاظ زیادہ ہیں: "اس پر ایک شیطان دوسرے سے کہتا ہے: اس آدمی پر تمہارا بس کیسے چلےگا جسے ہدایت دےدی گئی، جس کی طرف سے کفایت کر دی گئی اور جسے بچا لیا گیا؟  - (صحيح. رواه أبو داود والترمذي)
ادویہ کے ذریعے علاج :
 یعنی شہد، پیاز اور حکما کی معتمد جڑی بوٹیوں کے ذریعے علاج ، عربی زبان میں اس علاج کے لیے الطب العلاجی کی اصطلاح کا استعمال کیا جاتا ہے، اس ضمن میں رسول اللہ ﷺ کے عظیم الشان ارشادات اور نصائح کتابوں میں درج ہیں، یہاں ان احادیث واقوال کو بیان کرنا یا ان کی طرف اشارہ کرنا طویل ہو گا، لہذا اس سلسلے میں ابن قیم ؒ کی تصنیف زاد المعاد کا مطالعہ کیا جاسکتا ہے جس میں اس موضوع پر تفصیل سے روشنی ڈالی گئی ہے۔
افواہوں سے خبردار :
ہر مسلمان کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ جھوٹی افواہوں کی طرف توجہ نہ دے، اس لیے کہ ایسی صورتحال کے وقت بعض لوگ بہت ساری ایسی باتوں کو پھیلاتے اور ایسی چیزوں کو بیان کرنے لگ جاتے ہیں جن کی نہ کوئی حقیقت ہوتی ہے اور نہ ان کے صحت کی کوئی بنیاد ہوتی ہے، ایسی جھوٹی خبروں اور افواہوں کی وجہ سے لوگوں میں خوف اور دہشت کا ماحول پیدا ہوتا ہے۔ اس لیے ہر مسلمان کا یہ فریضہ ہے کہ وہ افواہوں پر ہرگز توجہ نہ دے اور نہ افواہوں کو دوسروں تک پھیلانے کا ذریعہ بنے۔ جھوٹی باتوں اور افواہوں کے زد میں آنا بھی رب تعالی پر حسن توکل اور کمال ایمان ویقین کے منافی ہے۔
صبر اور ثواب کی امید :
بندہ مسلم کو پہنچنے والی ہر مصیبت چاہے مرض کی شکل میں ہو، یا مال وتجارت میں نقصان کی شکل میں شکل میں ہو، اگر بندہ مسلم اس مصیبت وپریشانی پر صبر کرتا ہے اور آنے والی اس مصیبت پر اجر وثواب کی امید رکھتا ہے تو یہ مصیبت اس کے لیے اللہ تعالیٰ کے پاس درجات کی بلندی کا سبب بنتی ہے ۔ جیسا کہ ارشاد ہے :
وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْءٍ مِّنَ الْخَوفْ وَالْجُوعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الأَمَوَالِ وَالأنفُسِ وَالثَّمَرَاتِ وَبَشِّرِ الصَّابِرِينَ (155) الَّذِينَ إِذَا أَصَابَتْهُم مُّصِيبَةٌ قَالُواْ إِنَّا لِلّهِ وَإِنَّـا إِلَيْهِ رَاجِعونَ (156)أُولَـئِكَ عَلَيْهِمْ صَلَوَاتٌ مِّن رَّبِّهِمْ وَرَحْمَةٌ وَأُولَـئِكَ هُمُ الْمُهْتَدُونَ} (البقرة:155-157)،
 ( ترجمہ : اور ہم کسی نہ کسی طرح تمہاری آزمائش ضرور کریں گے، دشمن کے ڈر سے، بھوک پیاس سے، مال وجان اور پھلوں کی کمی سے اور ان صبر کرنے والوں کو خوشخبری دے دیجیئے ۔ جنہیں، جب کبھی کوئی مصیبت آتی ہے تو کہہ دیا کرتے ہیں کہ ہم تو خود اللہ تعالیٰ کی ملکیت ہیں اور ہم اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں۔ان پر ان کے رب کی نوازشیں اور رحمتیں ہیں اور یہی لوگ ہدایت یافتہ ہیں۔)
اللہ تعالیٰ اپنے بندے کو آزماتا ہے، تاکہ اس کے شکوے، اس کی رونے، اس کی دعاؤں، اور اس کے صبر واستقامت کو سنے اور یہ دیکھے کہ کیا بندہ اللہ تعالی ٰکے فیصلوں پر راضی ہوتا ہے یا نہیں ۔ مصائب اور پریشانیوں کے ذریعے اللہ تعالیٰ بندوں کا امتحان لینا چاہتا ہے، اس لیے جو بھی مرض لاحق اور جو بھی مصیبت وپریشانی آئے بندے کو اس پر اللہ تعالیٰ سے ثواب کی امید باندھے رکھنا چاہیے اور صبر ورضا کے دامن کو تھامے رکھ کر صابرین کے زمرے میں شامل ہونا چاہیے اور جسے اللہ تعالی عافیت سے رکھے اسے اللہ کا شکر کرکے شاکرین کے زمرے میں شامل ہونا چاہیے۔
سب سے بڑی آفت :
سب سے بڑی آفت اور مصیبت دین میں پیدا ہونے والی آفت ہے، یہ دنیا وآخرت کی سب سے بڑی آفت اور مومن کے لیے دنیا آخرت کا سب سے بڑا خسارہ ہے، اگر بندہ مومن کو کوئی مرض لاحق ہوجائے، یا اس کے مال وتجارت میں کوئی بڑا نقصان ہوجائے لیکن اس کا دین وایمان محفوظ رہے تو بندہ مومن کو اس پر اللہ تعالیٰ کا شکر بجالانا چاہیے، بیہقی نے شعب الایمان میں قاضی شریح کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ وہ کہا کرتے تھے : مجھ پر جب کوئی مصیبت وآفت آتی تو میں اس پر چار بار اللہ کا شکر ادا کرتا اور الحمدللہ کہتا، میں الحمد للہ اس لیے کہتا کہ جو مصیبت وآفت آتی وہ اصل مصیبت وآفت سے بڑی نہیں ہوتی، میں الحمد للہ اس لیے کہتا کیونکہ اللہ تعالی نے مجھے مصیبت وآفت پر صبر کی توفیق بخشی، میں الحمد اللہ اس لیے کہتا کیونکہ مصیبت پر مجھے ثواب کی امید کی اللہ تعالیٰ توفیق دیتا اور مصیبت کے وقت میں الحمد للہ اس لیے کہتا ہوں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے میرے دین میں مصیبت نہیں بھیجی۔

 خلاصہ کلام : 
·      ہر مرض اور وبا  سے حفاظت کے لیے ہر روز صبح سات عدد عجوہ کھجور کھائیں۔
·      صبح شام تین تین بار  اس دعا کو پڑھنے کا اہتمام کریں۔
بِسْمِ اللهِ الّذِيْ لَا يَضُرُّ مَعَ اسْمِهِ شَيْءٌ فِيْ الأَرْضِ وَلَا فِيْ السَّمَاءِ وَهُوَ السَّمِيْعُ العَلِيْمُ،
·      ہر رات سوتے وقت سورۃ البقرہ کی دو آخری آیتیں پڑھنے کی پابندی کریں۔
·      صبح وشام تین مرتبہ قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ اور الْمُعَوِّذَتَيْنِ (یعنی سورہ فلق اور سورہ ناس) پڑھنے کی پابندی کریں۔
·      صبح وشام اس دعا کو پابندی سےپڑھیں۔ «اللَّهُمَّ إِنِّى أَسْأَلُكَ الْعَافِيَةَ فِى الدُّنْيَا وَالآخِرَةِ، اللَّهُمَّ إِنِّى أَسْأَلُكَ الْعَفْوَ وَالْعَافِيَةَ فِى دِينِى وَدُنْيَاىَ وَأَهْلِى وَمَالِى، اللَّهُمَّ اسْتُرْ عَوْرَاتِى، وَآمِنْ رَوْعَاتِى، اللَّهُمَّ احْفَظْنِى مِنْ بَيْنِ يَدَىَّ وَمِنْ خَلْفِي وَعَنْ يَمِينِي وَعَنْ شِمَالِي وَمِنْ فَوْقِي وَأَعُوذُ بِعَظَمَتِكَ أَنْ أُغْتَالَ مِنْ تَحْتِي-(سنن ابوداود: 5074 )
ترجمہ: اے للہ! میں تجھ سے دنیا و آخرت میں عافیت کا طالب ہوں، اے اللہ! میں تجھ سے عفو و درگزر کی، اپنے دین و دنیا، اہل و عیال، مال میں بہتری و درستگی کی درخواست کرتا ہوں، اے اللہ! ہماری ستر پوشی فرما۔ اے اللہ! ہماری شرمگاہوں کی حفاظت فرما، اور ہمیں خوف و خطرات سے مامون و محفوظ رکھ، اے اللہ! تو ہماری حفاظت فرما آگے سے، اور پیچھے سے، دائیں اور بائیں سے، اوپر سے، اور میں تیری عظمت کی پناہ چاہتا ہوں اس بات سے کہ میں اچانک اپنے نیچے سے پکڑ لیا جاؤں۔
·      اپنے گھر سے نکلتے ہوئے یہ کہے: "بِسم الله تَوَكَّلتُ على اللهِ، وَلاَ حول ولا قُوَّة إِلَّا بالله ''
اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کے ایمان ویقین کی حفاظت فرمائے اور ہر مسلمان کو دینی اور دنیاوی مصیبتوں، آزمائشوں اور پریشانیوں سے محفوظ رکھے۔ آمین۔

******

جمعرات، 13 جون، 2019

Quari Nisaar Kalimi

0 تبصرے

محبِ قرآن    قاری محمد نثار کلیمی  رحمہ الله

طيب الله ثراه ويجعل الجنة مثواه

 

§     از ۔مبصرالرحمن قاسمی

شہر اورنگ آباد کو تاریخ میں محی الدین اورنگزيب عالمگیر کے خصوصی لگاؤ اور ان کے مسکن ابدی، فتاوی عالمگیری کی تدوین اور بابائے اردو مولوی عبد الحق کی سکونت سمیت مولانا ابو الاعلی مودودی صاحب کی جائے پیدائش سے جانا جاتا ہے، دور حاضر کی تاریخ کو بھی اس مبارک شہر نے  مولوی سعید صاحب، مولانا ریاض الدین فاروقی ندوی، مرحوم ڈاکٹر رفیق زکریا جیسے رجال علم وہنر عطا کیے ہیں ،البتہ اس فہرست میں ایک اور نام کا اضافہ کرنا چاہتے ہیں.. یہ نام قاری نثار کلیمی کا ہے، موصوف اگرچہ کسی دینی مدرسے کے سند یافتہ عالم دین نہیں تھے لیکن علم تجوید میں آپ نے ماہرین فن سے استفادہ کیا تھا، آپ نے سرکاری ملازمت کے دوران حیدرآباد میں علوم تجوید کے ماہرین اور بطور خاص حضرت کلیم اللہ حسینی سے خصوصی استفادہ کیا اور پھر دوران ملازمت ہی تعلیم بالغان کے پلیٹ فارم سے قرآن مجید کی تدریس کے ایک طویل سفر کا آغاز کیا، اور حیدر آباد سے پربھنی اور پھر اورنگ آباد تک اپنے تلامذہ کی ایک ایسی زنجیر بنائی جو نہ صرف طویل ہوتی گئی بلکہ اس سلسلے سے کئی سلسلے بنتے گئے اور آج حال یہ ہے کہ شہر اورنگ آباد کی تقریبا ہر گلی اور ہر محلے میں اور علاقہ مراٹھواڑہ کے ہر شہر میں قاری صاحب کے شاگردوں کی ایک لمبی قطار ہے، جن میں علماء وحفاظ بھی ہیں، انجینئرس اور ڈاکٹر بھی ہیں اور تجارت پیشہ افراد بھی، بلکہ آپ کا فیض صرف مرد حضرات تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ شہر اورنگ آباد کی کئی خواتین نے بھی آپ سے علم تجوید سیکھا اور اپنی اپنی جگہوں پر حلقات قرآن قائم کیے.

راقم الحروف کو بھی قاری نثار کلیمی صاحب سے علم تجوید سیکھنے کا موقع ملا، غالبا ریٹائرمنٹ کے بعد قاری صاحب نے خدمت قرآن کے لیے فل ٹائم وقف ہونے کا عزم کیا تھا اور جامعہ اسلامیہ کاشف العلوم اورنگ آباد  سے وابستہ ہوگئے تھے. جامعہ سے آپ کی وابستگی نے ہی آپ کے فیض کو حقیقی معنوں میں پھلنے پھولنے کا موقع دیا، اگرچہ جب آپ نے جامعہ میں تجوید کی تدریس شروع کی تھی تو جامعہ کے بعض اساتذہ نے ان کے طریقے تدریس کو بہتر نہیں سمجھا اور اندر اندر مخالفت بھی کی لیکن مرحوم استاذ محترم مولانا فاروقی کا انتخاب اور قاری صاحب کے خلوص ومقصد نے ان رکاوٹوں کو بے اثر بناکر رکھ دیا... کیونکہ کالجیس اور اسکولوں کے طلباء وطالبات اور پیشہ ور افراد کے مقابلے دینی مدرسوں کے طلباء ہی قاری صاحب کے اس بابرکت مشن کے اصلی حقدار تھے، اور یہ بات چند ہی مہینوں میں حقیقت ثابت ہوئی، جامعہ اسلامیہ کاشف العلوم قاری صاحب کے لیے ایک زرخیز زمین ثابت ہوئی اور یہاں طلباء نے موصوف کی کڑھن اور جذبے کا اندازہ لگالیا اور علم تجوید کے ساتھ ساتھ علم قراءت عشرہ میں بھی اپنے جلوے دکھائے.

قاری صاحب سے قبل بھی جامعہ میں متعدد قراء حضرات نے اپنی خدمات انجام دیں لیکن قاری نثار کلیمی صاحب نے جامعہ کی چہار  دیواری سے باہر شہر کے محلوں اور گھروں تک علم تجوید کے چراغ روشن کیے، اور شہر میں عالمی شہرت یافتہ قراء کو مدعو کرکے عالمی مظاہرہ قراءت کی پرنور محفلوں کے ذریعے ہر عام وخاص میں علم تجوید کی اہمیت اور حب قرآن کا بیج بودیا.

پیارے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا :

خيركم من تعلم القرآن وعلمه

 تم میں بہترین شخص وہ ہے جو قرآن مجید سیکھے اور دوسروں کو اس کی تعلیم دے.

امام جزری فرماتے ہیں :

  والاخذ بالتجوید حتم لازم

      من لم یجود القرآن آثم

یعنی تجوید کا علم حاصل کرنا ضروری ہے۔۔۔ جو قرآن کو تجوید کے ساتھ نہ پڑھے وہ گناہ گار ہے۔۔

علم تجوید اور قرآن مجید سے بے انتہائی لگاؤ اور تعلیم قرآن کے شوق میں قاری صاحب نے ریٹائرمنٹ کے بعد کی اپنی پوری زندگی تعلیم قرآن کے لیے وقف کردی تھی.

مرحوم أستاذ محترم نے علاقہ مراٹھواڑہ میں سیکڑوں شاگردوں کا جال بچھایا، گھر گھر گلی گلی اور مسجد مسجد قرآن مجید کی تلاوت کے حلقے قائم کیے اور چھوٹے بڑے، مرد و خواتین سمیت ہر پیشے اور ہر طبقے کے افراد میں قرآن مجید کو سیکھنے اور سکھانے کا جذبہ پیدا کیا.

اللہ تعالی آپ کے مرقد پر رحمتوں کی برکھا برساتا رہے.

خاک میں ڈھونڈتے ہیں سونا لوگ

ہم نے سونا سپرد خاک کیا