جمعہ، 8 نومبر، 2013

Islam men Sports Ki Ahmiyat

0 تبصرے
Islam aur Sports
ترجمہ وتلخیص:  مبصرالرحمن قاسمی
جائزوناجائزکھیل کود
اسلام میں پاک اور بامقصد ورزش اور کھیل کود کو جائز قرار دیا گیا ہے، بلکہ ایسی ورزش اور کھیلوں کی ترغیب دی گئی ہے، نیز جسمانی اور غیرجسمانی  قوت کے حصول کی دعوت بھی دی گئی ہے، ارشاد باری تعالی ہے:  تم ان کے مقابلے کے لئے اپنی طاقت بھر قوت کی تیاری کرو (سورہ انفال: 60)
اللہ تعالی نے اپنے نیک بندے طالوت کو بنی اسرائیل میں بادشاہ بناکر مبعو ث فرمایا  تو انھیں علم کے ساتھ جسمانی قوت بھی عطا فرمائی، ارشاد ہے: اللہ تعالیٰ نے اسی کو تم پر برگزیده کیا ہے اور اسے علمی اور جسمانی برتری بھی عطا فرمائی ہے ۔(سور ہ بقرہ: 247)
نبی کریم ﷺ نے توانا وتندرست مومن کی تعریف فرمائی ہے: آپ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے: کمزور مومن کےمقابلے طاقتور وتوانا مومن بہترین ہے اور اللہ کے نزدیک زیادہ محبوب ہے۔ (مسلم) حدیث میں ''قوت'' سے جسمانی قوت کے ساتھ ساتھ ہمت، حوصلہ، شخصیت اور ارادہ  بھی مراد ہے۔ ۔تاکہ اس کے ذریعے بندہ عبادات اور جہاد کے تقاضوں کو پورا کرسکے۔
نبی کریم ﷺ بذات خود بھی توانا اور قومی جسم کے مالک تھے، کتب احادیث میں وارد ہے کہ آپ ﷺ نہ زیادہ لانبے تھے اور نہ زیادہ پست قد تھے، ہتھیلیاں اور دونوں پاوں پرگوشت تھے ، اعضاء کے جوڑ کی ہڈیاں بھی بڑی تھیں، اسی طرح آپ کے دونوں مونڈھوں کے درمیان کی جگہ بھی موٹی اور پرگوشت تھی اور آپ کے ہاتھ اور قدم مبارک پرگوشت تھے۔(شمائل ترمذی)
دلچسپ بات یہ ہے کہ دنیا میں منعقد ہونے والے مردوں کے حسن وصحت  کے مقابلوں میں جسم کے اجزاء میں مذکورہ خصوصیات ہی صحت ومند وبہادر فرد کے انتخاب کا پیمائش شمار کی جاتی ہیں۔
اگر ہم اسلامی عبادات پر غور کریں تو اکثر عبادات جسمانی ورزش کی قسموں میں شمار ہوتی ہیں، نماز کے حرکات وسکنات ایک ایسی ورزش ہے ، جس سے جسم کے تمام اعضاء میں حرکت پیدا ہوتی ہے، جس سے مفاصل کھلتے ہیں اور طبیعت میں نشاط پیدا ہوتا ہے۔ روزہ بھی حفظان صحت اور جسمانی ورزش میں اہم رول ادا کرتا ہے، اسی طرح حج عظیم عبادت کے ساتھ ساتھ ایک منظم ورزش کا سالانہ کیمپ ہے، کعبۃ اللہ کا طواف، صفاء مروہ کی سعی، وقوف عرفہ اور پھر مزدلفہ اور وہاں سے منی کی طرف کوچ کرنا یہ سب ورزشی سرگرمیاں ہیں، جو جسم کو تقویت پہنچاتی ہے اور طبیعت  میں نشاط پیدا کرتی ہیں، جسمانی ورزش کے ساتھ ساتھ یہ سب اعمال رب تعالیٰ کی قربت کا ذریعہ  بھی ہے۔ابن قیم رحمہ اللہ نے ان اعمال میں مزید اضافہ کیا اور فرمایا کہ دوسروں کی حاجت روائی، بھائیوں سے ملاقات،بیماروں کی عیادت، جنازوں کے ساتھ جانا اور جمعہ ومسجد میں جماعت سے نماز ادا کرنے وغیرہ کے لیے چل کر جانا بھی عبادت کے ساتھ ساتھ جسمانی ورزش میں شامل ہے۔
تیراندازی:
نبی کریم ﷺ اپنے صحابہ کو مختلف  ورزشی سرگرمیوں میں شرکت کرنے کی ترغیب دیتے تھے، آپ فرماتے تھے: "تیر اندازی کرو میں تمہارے ساتھ ہوں"(بخاری) اور ایک جگہ ارشاد ہے: "سنو! طاقت تیراندازی ہے، سنو! طاقت تیراندازی ہے، سنو! طاقت تیراندازی ہے۔(رواہ مسلم) آپ ﷺ نے گھڑ سواری کی بھی ترغیب دی ، صحیحین میں وارد ہے کہ آپ ﷺ نے گھوڑوں کے درمیان مقابلہ کروایا اور جیتنے والے کو انعام سے نوازا۔
تیراکی:
مکہ ومدینہ اور اس کے مضافات میں سمندر اور نہر نہ ہونے کے باوجود آپ ﷺ نے اپنے صحابہ کو تیراکی کی ترغیب دی۔ تیراکی ایک ایسا واحد کھیل ہے جو جسم کی ورزش کے لیے کھیلوں میں سب سے زیادہ مفید ہے۔تیراکی سے جسم کے تمام اعضاء کو تقویت حاصل ہوتی ہے، اور اعصاب میں بالیدگی ہوتی ہے، نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے: رسولِ کریم  صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: اللہ تعالیٰ کی یاد سے تعلق نہ رکھنے والی ہر چیز لہوولعب ہے، سوائے چار چیزوں کے: (۱) آدمی کا اپنی بیوی کے ساتھ کھیلنا (۲) اپنے گھوڑے سدھانا (۳) دونشانوں کے درمیان پیدل دوڑنا (۴)  اور تیراکی سیکھنا سکھانا۔ (کنزالعمال ۱۵/۲۱۱، الجامع الصغیر۵/۲۳)
نیزہ بازی:
نیزہ زنی اور بھالا چلانا ایک مستحسن کھیل ہے۔ حضرت عائشہ صدیقہ فرماتی ہیں کہ اللہ  کی قسم میں نے نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا آپ میرے حجرے کے دروازہ پر کھڑے ہوگئے۔ جب کہ کچھ حبشی نیزوں کے ساتھ مسجد کے باہر صحن میں نیزوں سے کھیل رہے تھے۔ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم مجھے اپنی چادر سے چھپارہے تھے اور میں آپ کے کان اور کندھوں کے درمیان حبشیوں کو کھیلتے دیکھ رہی تھی۔ (صحیح بخاری مع الفتح)
چہل قدمی: 
نبی ﷺ ورزش کے طور پر چہل قدمی بھی کیا کرتے تھے، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ آپ ﷺ کی چہل قدمی کے وصف کو بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی ﷺ سے زیادہ تیز چہل قدمی کرتے ہوئے کسی کو نہیں دیکھا، ایسا لگتا تھا کہ زمین آپ کے لیے سمیٹ دی گئی ہو، اور جب ہم آپ ﷺ کے ہمراہ چلتے تو خوب مشقت اٹھانی پڑتی تھی، جبکہ آپ ﷺ پر چلنے میں مشقت کے اثرات دکھائی نہیں دیتے تھے، آپ ﷺ نے مکہ سے طائف کا تقریبا 110 کلو میٹر کا فاصلہ پیدل طے کیا تھا۔
آپ ﷺ نے  خود بھی صحابہ کے ساتھ کھیلوں اور ورزشی سرگرمیوں میں حصہ لیا، یہی وجہ ہے کہ اس زمانے میں تیراندازی میں کئی صحابہ کو شہرت حاصل ہوئی، جن میں عم رسول اللہ ﷺ حضرت حمزہ اور حضرت عدی بن حاتم رضی اللہ عنہم کے نام سرفہرست ہیں۔
دوڑ اور ریس :
صحابہٴ کرام عام طور پر دوڑ لگایا کرتے تھے اور ان میں آپس میں دوڑ کا مقابلہ بھی ہوا کرتا تھا۔ بلال بن سعد کہتے ہیں کہ میں نے صحابہٴ کرام کو دیکھا ہے کہ وہ نشانوں کے درمیان دوڑتے تھے اور بعض بعض سے دل لگی کرتے تھے، ہنستے تھے، ہاں! جب رات آتی، تو عبادت میں مشغول ہوجاتے تھے۔ (مشکوٰة ۴۰۷)
پیدل دوڑ میں مثالی شہرت رکھنے والے صحابی حضرت سلمہ بن الاکوع کہتے ہیں: کہ ہم ایک سفر میں چلے جارہے تھے، ہمارے ساتھ ایک انصاری نوجوان بھی تھا، جو پیدل دوڑ میں کبھی کسی سے مات نہ کھاتا تھا، وہ راستہ میں کہنے لگا، ہے کوئی؟ جو مدینہ تک مجھ سے دوڑ میں مقابلہ کرے، ہے کوئی دوڑ لگانے والا؟ سب نے اس سے کہا: تم نہ کسی شریف کی عزت کرتے ہو اور نہ کسی شریف آدمی سے ڈرتے ہو۔ وہ پلٹ کر کہنے لگا ہاں! رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ مجھے کسی کی پرواہ نہیں۔ میں نے یہ معاملہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں رکھتے ہوئے عرض کیا: میرے ماں باپ آپ پر قربان یا رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم! مجھے اجازت دیجیے کہ میں ان سے دوڑلگاؤں۔ آپ نے فرمایا ٹھیک ہے، اگر تم چاہو؛ چنانچہ میں نے ان سے مدینہ تک دوڑلگائی اور جیت گیا۔ (صحیح مسلم)
حضرت عبداللہ بن عمر کا بیان ہے کہ حضرت عمر فاروق اور زبیربن العوام میں دوڑ کا مقابلہ ہوا۔ حضرت زبیر آگے نکل گئے، تو فرمایا: رب کعبہ کی قسم میں جیت گیا۔ پھر کچھ عرصہ بعد دوبارہ دوڑ کا مقابلہ ہوا، تو حضرت فاروق آگے نکل گئے، توانھوں نے وہی جملہ دہرایا: ربِ کعبہ کی قسم میں جیت گیا۔ (کنزالعمال ۱۵/۲۲۴)
کُشتی اورکبڈی:
 اس کھیل میں ورزش کا بھرپور سامان ہے۔ اگر ستر کی رعایت اور انہماک کے بغیر کھیلا جائے، تو جائز ہوگا؛ بلکہ نیک مقصد کے لیے مستحسن قرار دیاجائے گا۔ عرب کا ایک مشہور پہلوان رُکانہ نے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم سے کشتی ٹھیرائی، تو آپ نے اس کو کشتی میں بچھاڑ دیا۔ (ابوداؤد فی المراسیل) مذکورہ تمام کھیل چوں کہ احادیث وآثار سے ثابت ہیں؛ اس لیے ان کے جواز؛ بلکہ استحباب میں کوئی کلام نہیں ہوسکتا، اورکبڈی کا حکم بھی کشتی کی طرح ہے۔
الغرض دین اسلام میں اسپورٹس اور ورزش کو بے پناہ اہمیت  حاصل ہے اور اس کے ذریعے طاقت وقوت کے حصول پر زور دیا گیا ہے، آپ ﷺ نے افراد امت میں صحت وجسمانی قوت کے حصول کے لیے  مذکورہ کھیلوں کو ایک ذریعہ سمجھا، تاکہ امت؛ صحت اور جسمانی قوت کے ذریعے اپنا دفاع کرسکے اور اپنے آپ کی حفاظت کرسکے۔
موجودہ کھیلوں کی شرعی حیثیت:
مستحب کھیل:
تیراندازی، تیراکی ، گھڑ سواری اور دوڑ  یہ سب کھیل مستحب کھیلوں میں شامل ہیں۔اور یہ کھیل جہاد میں کارگر ثابت ہوتے ہیں۔
مکروہ کھیل:
پرندوں  سے کھیلنا مکروہ کھیل ہے، اس طرح کے کھیل شریف النفس انسان کے لیے زیبا نہیں دیتے، بسااوقات اس طرح کے کھیل حرام کے درجے تک پہنچ جاتے ہیں، امام احمد اور ابوداود نے نقل کیا ہے کہ آپ ﷺ نے ایک شخص کو دیکھا جو ایک کبوتر کا پیچھا کررہا تھا، تو آپ ﷺ نے فرمایا: ایک شیطان ہے جو شیطان کا پیچھا کررہا ہے۔
اسی طرح ہر وہ بے فائدہ کھیل مکروہات میں شامل ہے ، جس میں وقت کا ضیاع ہے اور جس کی وجہ سے نماز اور عبادات میں غفلت پیدا ہوتی ہو۔
حرام کھیل:
ہر وہ کھیل  جس میں بازی لگائی گئی ہو کہ جیتنے والا ہارنے والے سے فلاں چیز لے گا۔ جسے ہم جوا اور سٹہ کہتے ہیں۔آزادنہ کشتی، مکہ بازی (باکسنگ) مرغ کو آپس میں مقابلہ بازی پر آمادہ کرنا اور جانوروں کو ٹکربازی پر اکسانا وغیرہ کھیل بھی حرام کھیلوں میں شامل ہے، کیونکہ ان کھیلوں میں انسان اور حیوان کو نقصان پہنچتا ہے۔ اگر باکسنگ اور کشتی میں جانبین کو کسی نقصان کا خدشہ نہ ہوتو پھر یہ دونوں کھیل مباح کھیلوں میں شامل ہے۔ نبی کریم ﷺ نے  زمانے جاہلیت کے مشہور پہلوان رکانہ کے ساتھ کشتی لڑی اور آپ ﷺ اس پر غالب آئے۔
بعض کھیل جائز ہیں لیکن کبھی جائز کھیل بھی کراہت اور حرمت کے درجے تک پہنچ جاتے ہیں، مثال کے طور پر شکار؛ کسی ضرورت اور مقصد کے تحت شکار کرنا جائز ہے، لیکن اگر شکار کا مقصد صرف لہو ولعب ہوتو اس صورت  میں شکار بھی مکروہات میں شامل ہے، اور اگر شکار کے ذریعے لوگوں پر ظلم ہورہا ہو، ان کے مال اور زراعت کو نقصان پہنچ رہا ہو تو  پھر ایسا شکار حرام ہے۔ نبی ﷺ نے بے مقصد شکار سے خبردار کرتے ہوئے ارشاد فرمایا : کوئی شخص  اگر کسی چڑیا  یا اس سے ادنی چیز کو اس کے حق کے بغیر قتل کرے، اللہ تعالی اس کے بارے میں سوال کریں گے، دریافت کیا گیا اے اللہ کے رسول! اس کا حق کیا ہے؟ فرمایا: اس کا حق یہ ہےکہ  اسے ذبح کرکے کھایا جائے اور اس کے سر کو کانٹ کر پھینکا نہ جائے۔(رواہ النسائی، والحاکم وقال صحیح الاسناد ووافقہ الذہبی) ایک جگہ ارشاد ہے:  جس نے کسی چڑیا کو بے فائدہ قتل  کیا ، وہ چڑیا کل قیامت کے روز اللہ تعالی سے مخاطب ہوکر کہے گی، اے میرے پروردگار!م فلاں نے مجھے بے مقصد قتل کیا اورمجھے قتل کرکے کوئی فائدہ نہیں اٹھایا۔(رواہ النسائی، وابن حبان فی صحیحہ)
پیشہ ورانہ کھیل:
یعنی ہر وہ کھیل  جسے کوئی شخص کسب معاش اور روزی روٹی کے حصول کے لیے مستقل طور پر اور منظم انداز میں کھیلتا ہے، اور کھیلنے پر ہی اس کی کمائی منحصر ہوتی ہے۔معاصر علماء کے اس سلسلے میں تین مختلف قول ہیں: اس طرح کے کھیل مطلق حرام ہے، جائز لیکن مکروہ ہے اور تیسرا قول ہے چند شرائط واصول کی بنیاد پر جائز ہے۔
ابن قیم رحمہ اللہ  فرماتے ہیں: ہر وہ کھیل جو ظاہری وباطنی واجبات سے غافل کرے ، تو تمام علماء کے نزدیک ایسا کھیل حرام میں شامل ہے، اسی طرح نمازکے علاوہ کسی واجب؛ جیسے اہل خانہ کی ضروریات، امر بالمعروف، نہی عن المنکر، والدین کی اطاعت وحسن سلوک یا ولایت وامامت کی ذمہ داریوں سے غافل کرے، یا اس کھیل سے کوئی حرام چیز متعلق ہو، ایسے تمام کھیل متفقہ طورپر حرام ہیں۔ (الذرائع: 1/85)
ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: اگر کھیل اطاعت باری تعالی میں رکاوٹ کا سبب بنے، نہ صرف کھیل بلکہ  نوافل، تلاوت، ذکر اور قرآن کے معانی میں غوروتدبر کا عمل بھی فرائض کو عمدا ترک کرنے پر آمادہ کرے تو اس صورت میں یہ نیک اعمال بھی حرام کے دائرے میں شامل ہیں۔
کھیل اور ورزش میں  ذیل کے اصولوں کا خیال رکھا جائے:
1۔نیت:  کھیل اور ورزش نیک نیتوں کی بنیاد پر ہوں، کیونکہ تمام اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے۔ اگر بندہ مومن اچھی نیت سے ورزش اور کھیل کود کا عمل کرے تو  ایسا عمل بھی باعث ثواب ہے۔ امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: مباح عمل میں بھی اگر اللہ کی رضا شامل ہوتو ایسا عمل اطاعت میں شامل ہوجاتا ہے، اور اس پر صاحب عمل کو اجر وثواب ملتا ہے، نبی کریم ﷺ نے اس جانب اشارہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: یہاں تک کہ تمہارا اپنی بیوی کے منہ میں لقمہ رکھنا بھی صدقہ ہے۔(بخاری)
2- ستر:  مرد اور عورت کے لیے شریعت کے متعین کردہ جسم کے مخصوص حصوں کو ایک دوسرے سے چھپانا ضروری ہے، اسی طرح عورت کا مردوں سے پردہ کرنا ضروری ہے، اللہ تعالی بھی پردے کو پسند فرماتے ہیں، لہذا عورت کو چاہیے کہ کھیل کے میدان یا ورزشی کے کلب میں بھی پردے کا اہتمام کرے، اور اپنی خواہش کو رب تعالی کے حکم پر ترجیح نہ دے۔ ارشاد باری تعالی ہے: (مسلمان عورتوں سے کہو کہ وه بھی اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی عصمت میں فرق نہ آنے دیں اور اپنی زینت کو ظاہر نہ کریں، سوائے اس کے جو ظاہر ہے اور اپنے گریبانوں پر اپنی اوڑھنیاں ڈالے رہیں، اور اپنی آرائش کو کسی کے سامنے ظاہر نہ کریں، سوائے اپنے خاوندوں کے یا اپنے والد کے یا اپنے خسر کے یا اپنے لڑکوں کے یا اپنے خاوند کے لڑکوں کے یا اپنے بھائیوں کے یا اپنے بھتیجوں کے یا اپنے بھانجوں کے یا اپنے میل جول کی عورتوں کے یا غلاموں کے یا ایسے نوکر چاکر مردوں کے جو شہوت والے نہ ہوں یا ایسے بچوں کے جو عورتوں کے پردے کی باتوں سے مطلع نہیں۔ اور اس طرح زور زور سے پاؤں مار کر نہ چلیں کہ ان کی پوشیده زینت معلوم ہوجائے، اے مسلمانو! تم سب کے سب اللہ کی جناب میں توبہ کرو تاکہ تم نجات پاؤ )
3-دوستی ودشمنی کا معیار:
کھیل کے مقابلوں اور کھلاڑیوں کی بنیاد پر دوستی ودشمنی کا معیار قائم نہ کیا جائے، دوستی ودشمنی صرف اللہ کے لیے ہو، ارشاد باری تعالی ہے: مومن مرد وعورت آپس میں ایک دوسرے کے (مددگار ومعاون اور) دوست ہیں۔ (توبہ: 71)
4-کھیل یا ورزش سے کوئی خطرہ لاحق نہ ہو:
اگر کھیل سے کھیلنے والے کو یا کسی دیگر شخص کو کوئی نقصان پہنچنے کا خدشہ ہوتو ایسا کھیل ممنوع ہے، کیونکہ  کھیل کا مقصد بغیر ایذارسانی اور نقصان کے جسمانی ورزش کرنا ہے، ارشاد باری تعالی ہے: اللہ تعالیٰ کی راه میں خرچ کرو اور اپنے ہاتھوں ہلاکت میں نہ پڑو ۔ (بقرہ: 195) اور آپ ﷺ کا ارشاد ہے: نہ کسی کو نقصان دو اورنہ ہی خود نقصان اٹھاؤ  ۔ ( سنن ابن ماجہ ، مستدرک حاکم)
5۔کھیل میں مردوزن کے اختلاط سے اجتناب:
نبی ﷺ کا ارشاد گرامی ہے: میرے بعد مردوں کے لیے سب سے خطرناک فتنہ عورتیں ہیں۔
6۔ حرام کمائی سے اجتناب :
موجودہ دور کے اکثر کھیلوں میں جوا اور سٹہ عام ہے،لہذا جس کھیل میں سٹہ بازی کی گئی ہو وہ کھیل، اس کے کھیلنے والے، اور ناظرین سب حرام کام میں شریک ہوں گے۔
7۔انسان اور حیوانات کو تکلیف میں نہ ڈالنا:
مثال کے طور پر نشانہ بازی ، نیزہ بازی اور تیز اندازی کے دوران پرندوں کو مشق کے طور پر نشانہ بنانا، اسی  طرح کھیل کے طور پر پرندوں یا جانوروں کو باہم ٹکربازی کے لیے آمادہ کرنا، جیسے بیلوں کی کشتی کا کھیل وغیرہ۔
8۔ کھیل سے امت مسلمہ کا فائدہ مقصود ہو:
کھیل سے امت کا مفاد وابستہ ہو، ورنہ ہر وہ کھیل جس سے امت  کا کوئی مفاد وابستہ نہ ہو فائدے سے خالی ہے۔ارشاد  باری تعالی ہے: کیا تم یہ گمان کئے ہوئے ہو کہ ہم نے تمہیں یوں ہی بیکار پیدا کیا ہے اور یہ کہ تم ہماری طرف لوٹائے ہی نہ جاؤ گے۔ (مومنون: 115)
اور ارشاد  باری تعالی ہے: ہم نے زمین اور آسمانوں اور ان کے درمیان کی چیزوں کو کھیل کے طور پر پیدا نہیں کیا۔  (دخان: 38)
9۔لباس وپوشاک :
 لباس اور پوشاک کے سلسلے میں یہ ضروری ہے کہ کھلاڑی کھیل کے درمیان ایسا لباس پہنے، جو ساتر ہو یعنی جسم کا وہ حصہ چھپ جائے، جن کا چھپانا واجب ہے، یعنی مرد کے لیے ناف سے لے کر گھٹنے تک اور عورت کے لیے ہتھیلی اور چہرہ کو چھوڑ کر پورا جسم ستر میں داخل ہے، ان کا ڈھکا ہوا ہونا واجب ہے۔ لباس اتنا باریک اور چست بھی نہ ہو کہ جسم کے اعضا نمایاں ہوں۔ اسی طرح اس لباس میں کفّار کے ساتھ ایسی مشابہت نہ ہو کہ اس لباس کو دیکھنے سے کوئی خاص قوم سمجھ میں آتی ہو۔ اور نہ اس لباس کا تعلق غیر اسلامی شعار سے ہو۔ مردوں کے لیے یہ بھی لازم ہے کہ وہ لباس ٹخنوں سے نیچے نہ ہو۔ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: جو شخص بھی ٹخنوں سے نیچے پاجامہ پہنے گا، اسے جہنم کی آگ میں جلنا پڑے گا۔ (بخاری: 5450)۔ ایک دوسری روایت میں ہے: کہ عبداللہ بن عمرو بن العاص کہتے ہیں کہ: رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ کو زعفرانی رنگ کا کپڑا پہنے دیکھا، تو آپ نے فرمایا : یہ کفار کا لباس ہے اس لیے اسے مت پہنو۔ (مسلم، مشکوٰة ۳۷۴) حضرت عبداللہ بن عمر بن خطاب سے منقول  ہے:رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس نے کسی قوم کے ساتھ مشابہت اختیار کی اس کا تعلق اسی قوم کے ساتھ سمجھا جائے گا۔(احمد،ابوداؤد، مشکوٰة ۳۷۴)
(الوعی الاسلامی کویت شمارہ: نومبر 2010)

0 تبصرے:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔