ہفتہ، 29 اگست، 2015

shaitan se Guftagu

0 تبصرے

معروف مصنف عائض القرنی کی کتاب "مقامات " سے  ماخوذ، ایک دلچسپ گفتگو  ضرور پڑھیں - (ترجمہ : مبصرالرحمن قاسمی)

شیطان سے گفتگو
تاریک رات تھی، اذان فجر کی آواز کانوں میں گونج رہی تھی، مسجد جانے کے ارادے سے میں بیدار ہی ہونا چاہتا تھا کہ شیطان مردود سے میری بات چیت شروع ہوئی۔
کہنے لگا : ابھی رات بڑی ہے، سوتے رہو-
میں نے کہا: مجھے ڈر لگتا ہے کہ کہیں تو میری فرض نماز ضانع نہ کردے۔
کہنے لگا : ارے بھائی  وقت بڑا لمبا ہے -
میں نے کہا : مجھے ڈر ہے کہ جماعت کی نماز چھوٹ نہ جائے-
کہنے لگا : عبادت کے لیے  اپنے نفس پر اتنی زبردستی مت کرو۔
لہذا میں  اس کی باتوں کا شکار ہوگیا اور سورج نکلنے تک اٹھ نہ سکا۔
تو کان میں کہنے لگا : نماز کے چھوٹنے پر اتنا افسوس مت کرو، ابھی نماز کے لیے پورا دن پڑا ہے۔
جب میں ذکر واذکار کے لیے بیٹھا تو میرے سامنے فکروں کے دفتر کھول دیا-
میں نے دل ہی دل میں کہا : تونے مجھے دعاء سے غافل کردیا-
کہنے لگا : دعاء اور ذکر واذکار شام میں کرلینا-
میں نے توبہ اور رجوع کا پکا ارادہ کیا -
کہنے لگا : ارے ابھی جوانی کے مزے لے لو۔
میں نے کہا : مجھے موت کا ڈر ہے-
کہنے لگا : ابھی تو بہت عمر باقی ہے۔
میں قرآن پڑھنے بیٹھا-
کہنے لگا : ارے گانوں سے اپنے دل کو راحت پہنچاو-
میں نے کہا: وہ تو حرام ہے-
کہنے لگا : اس سلسلے میں علماء کے درمیان اختلاف ہے-
میں نے کہا : میرے پاس ایک کتاب میں گانوں کی حرمت پر کئی احادیث ہیں۔
کہنے لگا : ارے  وہ سب ضعیف ہیں۔
اسی اثناء ایک حسین وجمیل عورت گذری تو میں نے نگاہوں کو نیچے کردیا-
کہنے لگا : دیکھنے میں کیا حرج ہے؟
میں نے کہا : اس میں ہلاکت ہے-
کہنے لگا : ارے اس کے حسن وجمال میں غوروفکر کرو، کیونکہ غوروفکر کرنا حلال ہے-
میں کعبۃ اللہ جانے لگا، اس نے راستے میں مجھے روک دیا-
اور کہنے لگا : اس سفر کا کیا فائدہ؟
میں نے کہا : عمرے کا ارادہ ہے۔
کہنے لگا : تم نے عمر  ےکے ارادے سے کئی خطرات مول لے لیے، اگر خیر وبھلائی اور نیکی ہی کرنی ہے تو نیکی اور بھلائی کے اور بھی میدان ہیں، جہاں اس سے زیادہ ثواب مل سکتا ہے۔
میں نے کہا : حالات کی اصلاح بہت ضروری ہے-
کہنے لگا : تم جنت میں اعمال کی بدولت نہیں جاوگے۔
جب میں لوگوں کو نصیحت اور وعظ کے لیے جانے لگا-
کہنے لگا : اپنے آپ کو رسو ا نہ کرو-
میں نے کہا : اس سے تو لوگوں کو فائدہ ہوتا ہے-
کہنے لگا : مجھے ڈر ہے کہ تم شہرت کا شکار ہوجاو گے، پتہ ہے آپ کو شہرت ہی ساری برائیوں کی جڑ ہے۔
میں نے اس سے پوچھا : پھر جو لوگ مشہور ہوئے ان کے بارے میں تیری کیا رائے ہے؟
کہنے لگا : ذرا مجھے مشہور شخصیات کے نام گناو۔
میں نے کہا : احمد بن حنبل؟
کہنےلگا : مجھے ان کے قول "سنت کو لازم پکڑو اور قرآن منزل من اللہ ہے" نے ہلاک کردیا۔
میں نے کہا : ابن تیمیہ؟
کہنے لگا : ان کی پھٹکار تو مجھے ہر روز پڑتی ہے۔
میں نے کہا : بخاری کے بارے میں کیا خیال ہے؟
کہنے لگا : انھوں نے تو اپنی کتاب کے ذریعےمیرے گھر دار کو خاکستر کررکھا۔
پھر میں نے اس کےسامنے حجاج کا ذکر کیا۔
کہنے لگا : کاش کہ ہر گھر میں ایک ہزار حجاج پیدا ہوتے، اس کا کردار ہمارے لیے باعث خوشی ہے، اور اس کا طریقہ کار ہمارے لیے علاج ہے۔
میں نے پھر فرعون کا تذکرہ کیا ۔
کہنے لگا : اس کے لیے تو ہماری ہر مدد اور تعاون شامل رہی۔
پھر میں نے اخلاق سوز فحش  میگزن کا ذکر کیا۔
کہنے لگا : یہ تو ہمارا دستور ہے-
میں نے کہا : قہوہ خانوں کے بارے میں کیا رائے ہے؟
کہنے لگا : اس میں تو ہم ہر غافل کا استقبال کرتے ہیں۔
میں نے پوچھا : تمہارا ذکر کیا ہے؟
کہنے لگا : گانے ہمارا ذکر ہے۔
میں نے کہا : تمہارا کام کیا ہے؟
بتایا : امنگیں اور خواہشات ہمارا کام ہے۔
میں نے  بازار کے بارے میں اس کی رائے طلب کی-
کہنے لگا : یہاں تو ہمارےدوست واحباب جمع ہوتے ہیں۔
میں نے اس سے پوچھا : تم لوگوں کو گمراہ کیسے کرتے ہو؟
کہنے لگا : شہوتوں، شبہات، لایعنی باتوں، امنگوں اور گانوں کے ذریعے۔
میں نے پوچھا : اور عورتوں کو ؟
کہنے لگا : زیب وزینت، بے پردگی اور گناہوں میں ملوث کرکے۔
پھر میں نے اس دریافت کیا : تم علماء کو کیسے گمراہ کرتے ہو؟
کہنے لگا : عجب اور خودپسندی کی محبت  سے، غرور وتکبر میں مبتلا کرکے اور ان کے دلوں کو ایک دوسرے کے حسد سے بھر کر۔
میں نے کہا : عام لوگوں کو کیسے گمراہ کرتے ہو؟
کہنے لگا : غیبت ، چغلی اور فضول بات چیت کے ذریعے۔
میں نے کہا : تاجروں کو گمراہ کرنے کا کیا طریقہ ہے؟
کہنےلگا : ہم تاجروں کو  سود کے ذریعے، صدقات سے روک کر اور فضول خرچی کے ذریعے گمراہ کرتے ہیں۔
میں نے کہا : نوجوانوں کو کیسے گمراہ کرتے ہو؟
کہنے لگا : غزل، عشق، دھوکہ دہی اور  ناجائز وحرام کاموں کے ارتکاب کے ذریعے۔
میں نے  اس سےاس موقع پر ایک اہم سوال کیا : اور پوچھا ،  اسرائیل کے بارے میں کیا خیال ہے؟
بغیر تاخیر کے کہنے لگا : ارے ارے غیبت نہ کرو، اسرائیل تو ایک محبوب ملک ہے، اس کا ہمارے دل میں  بڑا  احترام ہے۔
میں نے کہا : تونے قارون سے کیا کہا تھا ؟
کہنےلگا : میں نے قارون سے کہا اے بوڑھی ماں کے فرزند کا میابی چاہتے ہوتو اپنے خزانوں کی حفاظت کرو، لوگ تمہیں یاد کریں گے۔
میں نے کہا : اور فرعون سے کیا کہا ؟
کہنے لگا : میں نے اس سے کہا، اے عظیم محلات کے مالک  !کہہ ! میں مملکت مصر کا  مالک ہوں، مدد ونصرت میرا ہی حق ہے۔
میں نے کہا : شرابی کا کیسے حوصلہ بڑھاتے ہو؟
کہنے لگا : میں اس سے کہتا ہوں اے معزز ماں کے فرزند ! شراب پیا کر، غم دور ہوتے ہیں،  کوئی فکر کی بات نہیں ہے،  توبہ کا دروازہ ابھی کھلا ہی ہے۔
میں نے کہا : کون سی چیز ہے جو تجھے قتل کرتی ہے؟
کہنے لگا : آیۃ الکرسی – اس سے میں بہت زیادہ تنگی محسوس کرتا ہوں، جب تک بندہ پڑھتا رہتا ہے میں اپنے آپ کو ایک  قیدی محسوس کرتا ہوں۔
میں نے کہا : تو لوگوں میں سب سے زیادہ کن سے محبت کرتا ہے؟
کہنے لگا : گلوکاروں سے، شاعروں سے، گناہگاروں سے، فتنہ پروروں سے اور ہر اس فرد سے جو اپنے ذہن میں خباثت کو جگہ دیتا ہے۔
میں نے کہا : تجھے لوگوں میں سب سے زیادہ کن سے بغض ہے؟
بڑے افسوس کے ساتھ کہنے لگا : آہ !  مسجد والوں سے، ہر رکوع ، سجدہ کرنے والے سے، ہر زاہد ، عابد اور مجاہد سے۔

میں نے کہا : أعوذ بالله منك، میرے اس کہنے پر وہ غائب ہوگیا، ایسا غائب ہوا گویا زمین میں دھنس گیا، دراصل ہر جھوٹے، کذاب کا یہی حشر ہے۔



0 تبصرے:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔