پیر، 25 جولائی، 2016

0 تبصرے

   
نبی کریم rکا پڑوسیوں کے ساتھ برتاؤ
از- مبصرالرحمن قاسمی   (ریڈیو کویت)
 
بعثت نبوی ﷺ کے وقت لوگوں میں پڑوسیوں کے ساتھ بدسلوکی عام تھی، ہر آدمی اپنی جگہ ظالم تھا، ایک پڑوسی دوسرے پڑوسی کے ساتھ بدسلوکی اور ایذاررسانی  کا معاملہ کرتا تھا، ان دنوں پڑوسی کوتکلیف دینا  کوئی معیوب بات نہیں تھی، اور نہ ہی اسے غلط تصور کیا جاتا تھا، جب جعفر بن ابوطالب نجاشی کے دربار میں خطاب کررہے تھے تو انھوں نے اپنے خطاب میں اہل مکہ کے ظلم وجور کی جانب اشارہ کرتے ہوئے  فرمایا تھا: ہم جاہل قوم تھی، بتوں کو پوجتے تھے، مردار کھاتے تھے، فحش کام کیاکرتے تھے، رشتہ داری کو توڑا کرتے تھے اور پڑوسیوں کے ساتھ بدسلوکی سے پیش آیا کرتے تھے۔ (رواه أحمد (3/180) وصححه الألباني (115) في فقه السّيرة.)
حالات اس حد تک بگڑے ہوئے تھے کہ ایک پڑوسی کو اپنے دوسرے پڑوسی کے شر سے حفاظت کا یقین نہ تھا، بلکہ ایک پڑوسی دوسرے پڑوسی کی جانب سے ہر لمحہ شر کا منتظر ہوا کرتا تھا، ایسے حالات میں نبی کریم ﷺ کی بعث ہوئی، آپ ﷺ نے حسن جوار اورپڑوسی کی اہمیت پر زور دیا، اور پڑوسی کو بے شمار حقوق سے نوازا، جس کی وجہ سے معاشرے کی حفاظت، اور افراد کے درمیان محبت، امن، سلامتی اور باہمی تعاون کی بنیادیں  قائم ہوئیں۔
نبی کریم ﷺ کا مشن صرف عبادت اور دین کی اصلاح کی حد تک محدود نہیں ہے، بلکہ آپ کا مشن انسانی زندگی کی اصلاح، معاشرے کی امن وسلامتی اور تمام قسم کے معاملات میں اصلاح کی دعوت دینا ہے،آپ کامشن زندگی کے مختلف النوع گوشوں کی اصلاح پر مشتمل ا یک پیغام ہے، یہی وجہ ہے کہ نبی کریم ﷺ پہلے فرد ہے جنھو ں نے انسانیت کے تئیں ان حقوق اور ذمہ داریوں کو عمل میں لایا اور ساری انسانیت کے لئے عملی نمونہ ثابت ہوئے۔
رسالت نبوی ﷺاور  پڑوسی کے حقوق:
پڑوسی کے حق سے متعلق قرآن کریم  میں متعدد آیات وارد ہیں، ارشاد ربانی ہے:
[وَاعْبُدُوا اللَّهَ وَلا تُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا وَبِذِي الْقُرْبَى وَالْيَتَامَى وَالْمَسَاكِينِ وَالْجَارِ ذِي الْقُرْبَى وَالْجَارِ الْجُنُبِ وَالصَّاحِبِ بِالْجَنْبِ وَابْنِ السَّبِيلِ وَمَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ إِنَّ اللَّهَ لا يُحِبُّ مَنْ كَانَ مُخْتَالا فَخُورًا} [النّساء: 36[
(ترجمہ: اور خدا ہی کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ بناؤ اور ماں باپ اور قرابت والوں اور یتیموں اور محتاجوں اور رشتہ دار ہمسائیوں اور اجنبی ہمسائیوں اور رفقائے پہلو (یعنی پاس بیٹھنے والوں) اور مسافروں اور جو لوگ تمہارے قبضے میں ہوں سب کے ساتھ احسان کرو کہ خدا (احسان کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے اور) تکبر کرنے والے بڑائی مارنے والے کو دوست نہیں رکھتا۔)
ابن کثیر آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں: جارذی القربی اورجارالجنب سے کیا مراد ہے؟ جارذی القربی وہ پڑوسی ہے جو رشتہ دارہوں، جبکہ جارالجنب سے مراد وہ پڑوسی ہے،جس کا آپس میں رشتہ داری کا کوئی تعلق نہ ہو،اس سلسلے میں بعض علماء کا قول  منقول ہے: جارذی القربی سے مراد مسلم پڑوسی ہے اور جار الجنب سے مراد غیر مسلم پڑوسی، تاہم دونوں قول میں  پڑوسی سے متعلق  وصیت ہے۔ تفسير ابن كثير (1/424)
نبی کریم ﷺ سے متعدد ایسی احادیث منقول ہیں جس میں پڑوسی سے متعلق شدت سے وصیت فرمائی گئی،جس کی وجہ پڑوسی کا مقام اور اس کے تئیں مسلمان پر  واجب حقوق ہیں، پڑوسی کے سلسلے میں حضرت جبرئیل نے آپ ﷺ کو اتنی وصیت فرمائی کہ پڑوسی کو بھی وارث  کا درجہ دیئے جانے اور خاندان کا ایک فرد بنائے جانے  کا آپ ﷺ کوگمان ہونے لگا تھا۔
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے: نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
«ما زال جبريل يوصيني بالجار، حتَّى ظننت أنه سيوَّرثه]  متفقٌ عليه[
(ترجمہ: جبرئیل مجھ سے ہمسائے کے بارے میں وصیت کرتے رہے یہاں تک کہ مجھے یہ گمان ہونے لگا کہ اسے وارث قرار دیا جائے گا۔)
دین اسلام نے بہترین پڑوسی اس شخص کو قرار دیا جو اپنے پڑوسیوں کے لئے بہتر ہو، حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
«خير الأصحاب عند الله خيرُهم لصاحبه، وخير الجيران عند الله خيرُهم لجاره [رواه التّرمذي (1944) وصححه الألباني.]
(ترجمہ: اللہ تعالیٰ کے نزدیک بہترین ساتھی وہ ہے جو اپنے ساتھیوں کے لئے بہتر ہو، اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک بہترین پڑوسی وہ ہے جو اپنے پڑوسی کے لئے بہتر ہو۔)
نبی کریم ﷺ نے ہمسائے کو تکلیف پہنچانے کو ایک  قبیح عمل ، اللہ تعالیٰ کی نافرمانی اور پڑوسی کے حق میں خیانت  قرار دیا ہے، چونکہ ایک پڑوسی کا دوسرے پڑوسی پر یہ حق ہے کہ وہ اپنے ہمسائے کے مال کا امین ہواوراس کی عزت وناموس کا محافظ ہو، حضرت مقداد بن اسود نبی کریم ﷺ کا قول نقل فرماتے ہیں: کہ آپ ﷺ نے ایک دن اپنے صحابہ سے دوران گفتگو فرمایا:
«ما تقولون في الزّنا؟ قالوا: حرام، حرّمه الله ورسوله، فهو حرامٌ إلى يوم القيامة. قال: فقال رسول الله: لأن يزني الرجل بعشر نسوة؛ أيسر عليه من أن يزني بامرأة جاره، قال: ما تقولون في السّرقة؟ قالوا: حرّمها الله ورسوله، فهي حرامٌ. قال: لأن يسرق الرّجل من عشرة أبياتٍ؛ أيسر عليه من أن يسرق من جاره۔ [صححه الألباني (2549) في صحيح التّرغيب.]
(ترجمہ: زنا کے بارے میں کیاکہتے ہو؟ہم نے عرض کیا اس کو اللہ اوراس کے رسول نے حرام قراردیاہے اوروہ قیامت تک  حرام ہے۔فرمایا دس عورتوں کے ساتھ زناکرنے سے زیادہ برایہ ہے کہ کوئی شخص اپنے پڑوس کی عورت سے زناکرے۔۔(پھرفرمایا) چوری کے بارے میں تمہاراکیاخیال ہے۔ہم نے عرض کیا ۔حرام ہے اس کو اللہ نے حرام قراردیاہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا دس گھروں سے چوری کرنے سے زیادہ برایہ ہے کہ اپنے پڑوسی کے گھر میں چوری کرے ۔)
حضرت ابن مسعود ؓ سے روایت ہے:
سألت النّبيّ -صلّى الله عليه وسلّم: أيّ الذّنب أعظم عند الله؟ قال: أن تجعل لله ندًا وهو خلقك. قلت: إن ذلك لعظيم، قلت: ثمّ أيّ؟ قال: وأن تقتل ولدك تخاف أن يطعم معك. قلت: ثمّ أيّ؟ قال: أن تزاني حليلة جارك ۔ [متفقٌ عليه.]
(فرماتے ہیں: میں نے نبی کریم ﷺ سے دریافت کیا: اللہ تعالیٰ کے پاس سب سے بڑا گناہ کونسا ہے؟ فرمایا: تم اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو مددگار بناؤ حالانکہ اس نے تمہیں پیدا کیا،  میں نے کہا: بیشک یہ بہت بڑا گناہ ہے، پھر میں نے کہا: اس کے بعد کونسا گناہ ہے؟ فرمایا: تم اپنی اولاد کو اس خوف سے قتل کردو کہ وہ تمہارے ساتھ کھائیں گی،  پھر میں نے کہا: اس کے بعد کونسا گناہ سب سے بڑا ہے؟ فرمایا:تمہارا اپنے ہمسائے کی بیوی کے ساتھ زنا کرنا۔)
حضرت عائشہ صدیقہ ؓ نبی کریم ﷺ سے دریافت کرتی ہیں: میرے دو ہمسائے ہیں، اگر میرے پاس ہدیے کے لئے ایک ہی چیز ہو،تو میں ان دونوں میں سے کسے ہدیہ دوں، نبی کریم ﷺ نے فرمایا: اس شخص کو دینا جس کا دروازہ تمہارے دروازے سے زیادہ قریب ہو۔
نبی کریم ﷺ نے پڑوسی پڑوسی کے درمیان مسکراہٹ کے تبادلے  اور آپس میں خوش دلی سے ملنے کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے اور اپنے کھانے میں پڑوسی کو شریک کرنے کی اہمیت کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا:  «
لا تحقرنّ من المعروف شيئًا، ولو أن تلقى أخاك بوجهٍ طلقٍ»
ترجمہ: نیکی میں کسی بھی چیز کو حقیر نہ سمجھو اگرچہ تم اپنے بھائی سے خندہ پیشانی سے ہی ملو.( صحیح مسلم:جلد سوم:حدیث نمبر 2193)
اور آپ ﷺ نے حضرت ابوذر سے فرمایا:
«يا أبا ذرٍّ! إذا طبخت مرقةً، فأكثر ماءها، وتعاهد جيرانك [رواه مسلم 2625 :[
(ترجمہ: ابوذر! جب تم شوربہ بناؤ، تو اس میں پانی کا اضافہ کرلو، اور اپنے پڑوسی کا خیال رکھو۔)
نبی کریم ﷺ نےتعلیم دی کہ پڑوسی کا دوسرے پڑوسی پر خوشی اور غم کے موقع پر ساتھ دینے کا حق ہے، نیز  آپ ﷺ نے پڑوسی کو اپنے کھانے میں شریک کرنے، اس کے مرتبہ کا خیال رکھنے، اسے ایذانہ پہنچانے، اور اس کی غیرموجودگی میں اس کے  اہل واولاد کی حفاظت کرنے کی تعلیم دی۔
نبی کریم ﷺ نے ہمسائے سے محبت، اس کے احترام، اس کے ساتھ حسن سلوک وحسن معاملات اور اس سے لگاؤ ،اس کے مریضوں کی عیادت، اور اس کی خدمت کرنے نیز وقت ضرورت اس کے کام آنے ، اس کے لئے خیرخواہی  چاہنے اور اس کے گھر کی عورتوں سے نگاہ نیچی رکھنے کی وصیت فرمائی۔
ارشاد نبوی ﷺ ہے: چار چیزیں سعادت مندی کی علامت ہیں:  نیک بیوی، کشادہ گھر، نیک ہمسایہ اور آرام دہ سواری، اور آپﷺ نے فرمایا: چار چیزیں بدبختی کی علامت ہیں:  خراب پڑوسی، بدمزاج عورت، تکلیف دہ سواری، اور تنگ گھر۔
نبی کریم ﷺ نے پڑوسیوں کے ساتھ عملی سرگرمیوں کو راسخ کرنے پر زور دیا تاکہ اُن مفاہیم اور مطالب کا نفاذ ہو جس پر آپ نے زور دیا، مثال کے طور پر آپ ﷺ نے ایذا رسانی سے بازرہنے کی عملی مشق کرائی؛کیونکہ ایک پڑوسی دوسرے پڑوسی کے راز سے واقف ہوتا ہے، اور بسااوقات  پڑوسی اپنے پڑوسی کی ان خامیوں سے بھی واقف ہوتا ہے جو اس کے علاوہ کسی کے علم میں نہیں ہوتیں، لہٰذا ممکن ہے کہ پڑوسی اپنے دوسرے پڑوسی کی ان خامیوں کو مد نظر رکھ کر اس کا استحصال کرنا چاہے، لہٰذا  پڑوسی کی جانب سےدوسرے پڑوسی کو تکلیف دوسروں کی ایذا رسانی کے مقابلے میں بہت زیادہ درد والم کا باعث ہوتی ہے، چونکہ پڑوسی اپنے پڑوسی کے عیوب اور زخموں سے اچھی طرح واقف ہوتا ہے ، اسے علم رہتا کہ کونسا زخم اپنے ہمسایے کے لئے زیادہ دردوالم کا باعث ہے، یہی وجہ ہے کہ نبی کریم ﷺ نے پڑوسی کو تکلیف دینا ایمان کی سلامتی کے لئے خطرہ بتایا ہے، فرمان نبوی ﷺ ہے:
من كان يؤمن بالله واليوم الآخر فلا يؤذِ جاره .
  (ترجمہ: جو شخص اللہ اور اس کے رسول پر ایمان رکھتا ہو، اپنے پڑوسی کو تکلیف نہ پہنچائے۔)
حضرت ابوہریرہ ؓ فرماتے ہیں:ایک شخص نے کہا:
 يا رسول الله إن فلانةً يُذكر من كثرة صلاتها وصدقتها وصيامها غير أنّها تؤذي جيرانها بلسانها قال: «هي في النّار»، قال: يا رسول الله! فإن فلانةً يُذكر من قلة صيامها [وصدقتها] وصلاتها، وإنّها تتصدق بالأثوار من الإقط، ولا تؤذي جيرانها [بلسانها] قال: «هي في الجنّة۔ [صححه الألباني (2560) في صحيح التّرغيب]
ترجمہ: اے اللہ کے رسول!(ﷺ) فلاں خاتون نماز، صدقہ اور اپنے روزوں کی وجہ سے مشہور ہے، تاہم وہ اپنے پڑوسیوں کے ساتھ زبان کا غلط استعمال کرتی ہیں، آپ ﷺ نے فرمایا: وہ جہنم میں ہے، اس شخص نے  پھر کہا: اے اللہ کے رسول(ﷺ) فلاں خاتون ہے، جس کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ بہت کم روزے رکھتی ہیں، بہت کم صدقہ وخیرات کرتی ہیں اور بہت کم نماز پڑھتی ہیں لیکن اپنے پڑوسیوں کو زبان سے تکلیف نہیں پہنچاتی؛ آپ ﷺ نے فرمایا: وہ جنتی ہے۔
حضرت ابوہریرہ ؓ سے مروی ہے ،نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
«لا يدخل الجنّة من لا يأمن جاره بوائِقَهُرواه مسلم (46].
( ترجمہ: وہ شخص جنت میں داخل نہیں ہوگا جس کا پڑوسی اس کے شرور سے محفوظ نہ ہو)
اسی طرح آپ ﷺ نے پڑوسی کے تعلق سے رہنمائی فرماتے ہوئے  حکم دیا کہ اگر ایک  پڑوسی اپنے دوسرے پڑوسی کے چیزوں کے استعمال کی اجازت چاہے تو دوسرے پڑوسی کو اپنے پڑوسی کے مطالبہ کو پورا کرنا چاہیے،حضرت ابوہریرہ ؓ سے مروی ہے ؛ نبی کریم ﷺ نے ارشا د فرمایا:
«لا يمنع جارٌ جاره أن يغرز خشبه في جداره۔] متفقٌ عليه[
(ترجمہ:تم میں سے کسی سے اس کا پڑوسی اس کی دیوار میں لکڑی گاڑنے کی اجازت مانگے تواس کومنع نہ کرے۔)
کبھی کبھی  کوئی  پڑوسی  اپنے اہل خانہ کی ضرورت پوری کرنے کا محتاج ہوجاتا ہے، ایسے موقع پر وہ اپنے ہمسایے سے اپنی ضرورت پوری کروانے کا ارادہ رکھتا ہے ،لہٰذا بندۂ مومن کو اس کی اس ضرورت کو پورا کرنا چاہیے، چونکہ جب تک بندہ اپنے بھائی کی مدد میں لگا رہتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی مدد فرماتے رہتے ہیں۔نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے:
ما آمن بي من بات شبعانًا وجاره جائعٌ إلى جنبه وهو يعلم [صححه الألباني (2561) في صحيح التّرغيب.].
(ترجمہ:وہ مومن نہیں ہے جو خود توپیٹ بھرکر سوئے اوراس کا پڑوسی بھوکاہواو راس بات  کا  اسے علم بھی ہو۔)
یقینا نبی کریم پیغمبر اسلام حضرت محمد رسول اللہ ﷺ انسانوں میں سب سے بہترین اور سب سے افضل پڑوسی تھے۔

(یہ مضمون عربی کا ایک مقالہ ہے، جسے احقر نے مرکز وذکر کویت کے لیے اردو میں ترجمہ کیا )

0 تبصرے:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔