بدھ، 30 اگست، 2017

Time & Place

0 تبصرے

مبصرالرحمن قاسمی
بچوں کی تربیت کے لیے
مناسب وقت  اور مناسب جگہ سے فائدہ اٹھاتے رہیے
 
 
بچوں کی تربیت کے لیے والدین کو اپنی زندگی کا طویل وقت قربان کرناپڑتا ہے، تربیت کا کام ایک یا دو دن کی محفل سجانے سے پورا نہیں ہوتا ہے بلکہ روز مرہ کی زندگی میں بچوں کی ایک ایک حرکت پر نظر رکھنا  اور مناسب وقت اور جگہ پر ان کی صحیح رہنمائی کرنا تربیت کے اصولوں میں شامل ہے۔

 بچوں کی روز مرہ کی زندگی میں کچھ اوقات ایسے بھی ہوتے ہیں جن میں وہ والدین یا سرپرست کی کسی بات کو سننے اور ماننے کے لیے تیار رہتے ہیں، ایسا وقت بچوں کی صحیح رہنمائی کے لیے بہت زیادہ مفید ہوتا ہے۔

مناسب وقت اور مناسب جگہ  کا انتخاب تربیتی کام کو آسان کردیتا ہے، کیونکہ بچوں کا مزاج بدلتا رہتا ہے، انھیں کبھی کوئی بات اچھی لگتی ہے اور کبھی کسی بات میں مزہ نہیں آتا ہے۔ لہذا والدین کو چاہیے کہ وہ بچوں کے دل کو راغب کرنے والے اوقات اور جگہوں  سے وقتا فوقتا فائدہ اٹھاتے رہیں۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بچوں کی رہنمائی اور ان کے عقیدے کی اصلاح کے سلسلے میں مناسب وقت اور  مناسب جگہ کا اکثر خیال رکھا کرتے تھے، بچوں کی   دنیا اور آخرت کی کامیابی اور ان کے روشن مستقبل کے لیے اگر ہمارے لیے دنیا کی شخصیات میں کوئی بہترین نمونہ ہے تو وہ دنیا کے سب سے بڑے ماہر نفسیات اور ماہر تعلیم وتربیت پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ لہذا  ذیل میں ہم نے آپ ﷺکے طریقہ تربیت کی تین سنہری مثالیں جمع کی ہیں، امید کہ ہر والدین ان سے استفادہ کریں گے۔

۱-  جب پارک میں ہوں، راستے  میں چل رہے ہوں  یا  سواری  پر  ہوں :

بچوں کا یہ حق ہے کہ وہ بڑوں کے ساتھ رہ کر ان سے سیکھیں، اپنی علمی پیاس کو بجھائیں اور علم، حکمت اور تجربے کے گھونٹ اپنے بڑوں سے حاصل کریں، آپ  ﷺنے حضرت انس کو اپنے ساتھ رکھا اور انھیں علم وہنر  کے گھونٹ پلائے، اپنے چچا زاد بھائی جعفر کے فرزندان کو اپنے ساتھ رکھا، اسی طرح اپنے چچا زاد بھائی فضل کو اپنی صحبت میں رکھا، اسی طرح چچازاد  بھائی عبداللہ ابن عباس کو اپنے ساتھ رکھا  اور ان سب حضرات کی ایسی تربیت کی جو علم وحکمت  میں امام بنے۔

 ایک دفعہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ آپ کے ساتھ سواری پر سوار تھے ، آپ ﷺ نےاس موقع کا فائدہ اٹھایا، ایسے موقع پر ذہن خالی ہوتا ہے اور دل قبول کرنے کے لیے تیار رہتا ہے، آپ ﷺ نے  عمر اور ذہنی استعداد کو مد نظر  رکھتے ہوئے بالکل مختصر  اور آسان انداز میں انھیں نصیحت فرمائی۔ ابن عباس خود  کہتے ہیں :   ایک دن وہ نبی ﷺ کے پیچھے سوار تھے، نبی ﷺ نے ان سے فرمایا :اے لڑکے! میں تجھے چند کلمات سکھا رہا ہوں، اللہ کے احکام کی پیرو ی کرو، اللہ تمہاری حفاظت کرے گا، اللہ کے احکام کی پیروی کرو،  تم اللہ کو اپنے سامنے پاؤگے، جب مانگو اللہ سے مانگو، جب مدد چاہو اللہ سے چاہو اور جان رکھو!  کہ اگر ساری دنیا مل کر بھی تمہیں نفع پہنچانا چاہے تو تمہیں نفع نہیں پہنچا سکتی سوائے اس کے جو اللہ نے تمہارے لئے لکھ دیا ہے اور اگر وہ سارے مل کر تمہیں نقصان پہنچانا چاہیں تو تمہیں نقصان نہیں پہنچا سکتے سوائے اس کے جو اللہ نے تمہارے لئے لکھ دیا ہے۔(ترمذی: 2516، وقال: هذا حديث حسن صحيح.)

نبی کریم ﷺ دنیا کے پہلے استاذ اور معلم ہیں جنھوں نے بچوں کی عمر اور  ان کی عقلی استعداد کے مطابق تربیت کا  نظریہ پیش کیا، آپ اپنی صحبت میں رہنے والے بچوں کو ان کی عقل اور ان کی علمی  پیاس کے مطابق انھیں علم  کے گھونٹ پلایا کرتے تھے اور اس کے لیے مناسب ترین وقت اور مناسب ترین جگہ کا انتخاب فرماتے تھے، آپ ﷺ نے حضرت ابن عباس کو توحید ویقین کا سبق کسی بند کمرے میں نہیں دیا بلکہ ایسے کھلے ماحول کا انتخاب فرمایا  جہاں بچے کا دل کسی چیز کو حاصل کرنے کے لیے مکمل طور پر تیار تھا، پھر آپ نے اس بچے کو ایمانی اور تربیتی  گھونٹ پلائے۔

۲۔ کھانا کھانے کے دوران :

بچوں کے خوشی کے  اوقات میں سے ایک کھانا کھانے کے دوران کا وقت  ہے، اس دوران بچوں کو والدین کے ساتھ بات چیت کرنا بہت اچھا لگتا ہے، خصوصا  بچہ بچپن کی عمر میں دستر خوان پر  والدین کی حرکتوں کو بغور دیکھتا ہے اور ان  کی حرکتوں کی نقل کرنے کی کوشش کرتا ہے، لیکن دستر خوان پر بچو ں سے بسا اوقات  ایسی غلطیاں بھی  ہوجاتی ہیں جو  کبھی  کھانے کے آداب کے بہت زیادہ خلاف ہوتی ہیں، اگر والدین دسترخوان پر بچوں کے ساتھ نہ ہوں اور بچے اسی طرح کھاتے رہیں، ہوسکتا کہ بچوں میں بچپن کی غلطیاں اور غلط عادتیں بڑےہونے کے بعد بھی برقرا ر رہیں، لہذا والدین کو کھانے کے دوران بچوں کے ساتھ شریک ہونا چاہیے جس سے بچوں کو خوشی بھی ہوتی ہے اور  ایسے موقع پر ان کی غلطی  کی جانب نرمی اور محبت سے  رہنمائی کی جائی تو وہ خوشی خوشی قبول بھی کرتے ہیں۔حضرت عمر بن ابو سلمہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : میں (ابوسلمہ کے انتقال کے بعد) بچہ تھا رسول اللہ کی پرورش میں تھا، اور کھانے کے وقت میرا ہاتھ پیالے کے چاروں طرف گھومتا( کبھی ادھر سے کھاتا اور کبھی ادھر سے) تو رسول اللہ نے مجھ سے فرمایا: اے بچے! بسم اللہ پڑھو اور اپنے داہنے ہاتھ سے کھاو اور اپنے قریب سے کھاو، اس کے بعد ہمیشہ میرے کھانے کا یہی  طریقہ رہا۔(بخاری 5/ 2056 (5061) ومسلم 3/ 1599 (2022)

۳۔ بچہ جب بیمار ہو :

اگر بڑی عمر کے سخت دل  لوگ بھی بیماری کی حالت میں نرم ہوجاتے ہیں تو بچوں کا کیا کہنا ، بچوں کے دل تو  ہمیشہ تازہ، قبول کرنے کے قابل اور نرم ہوتے ہیں ، خاص بات یہ کہ بیماری کی حالت میں  بچوں میں دو بہت اچھی خوبیاں جمع ہوجاتی ہیں۔ ایک  فطرتی بچپن اور دوسرے رقت قلب یعنی نرم دلی، ان خوبیوں کی وجہ سے بیماری کی حالت میں بچوں میں نصیحت اور اچھی بات  سننے کی استعداد بڑھ جاتی ہے،لیکن بیماری کی حالت میں بچے کو نصیحت کی بات یا اس کی غلط عادت کی اصلاح؛ نرمی، محبت اور پیار سے ہی کرنا چاہیے۔

حضرت انس ؓ فرماتے ہیں کہ ایک یہودی لڑکا تھا جو نبی کریم ﷺ کی خدمت کیا کرتا تھا ۔ جب وہ بیمار ہوا تو نبی کریم ﷺ اس کے پاس تشریف لے گئے چنانچہ آپ ﷺ نے اس کی عیادت کی اور اس کے سر کے قریب بیٹھ گئے اور اس سے فرمایا :کہ تم مسلمان ہو جاؤ، لڑکے نے اپنے باپ کی طرف دیکھا جو اس کے قریب ہی بیٹھا ہوا تھا اس کے باپ نے کہا : ابوالقاسم (یعنی آنحضرت ﷺ) کا حکم مانو ۔ چنانچہ وہ لڑکا مشرف بہ اسلام ہو گیا۔ آنحضرت ﷺ یہ فرماتے ہوئے باہر نکلے کہ  حمد و ثنا اس اللہ کی جس نے اس لڑکے کو (اسلام کے ذریعہ)  آگ سے نجات دی۔(بخاری:1356)

یہ لڑکا آپ ﷺ  کی خدمت کرتا تھا لیکن جب اس نے اسلام قبول کرلیا تب  آپ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالی نے اسے آگ سے نجات دی،  بیماری سے پہلے تک آپ ﷺنے اس لڑکے کو اسلام کی دعوت نہیں دی تھی بلکہ آپ نے مناسب وقت کا انتظار کیا اور جب وہ بیمار پڑا تو  اس کے پاس آئے، اس کی عیادت فرمائی اور اسے اسلام کی دعوت پیش کی،آپﷺ کی یہ عیادت اس لڑکے کے لیے نور اورہدایت کا ذریعہ ثابت ہوئی۔

اس طرح کےمناسب  اوقات  کا فائدہ اٹھاکر ہم بھی اپنے بچوں کی غلط عادتوں کی اصلاح کرسکتے ہیں، اور ایسے موقعوں پر بچوں کی ایمانی ، اخلاقی اور روحانی تربیت  کرسکتے ہیں۔