جمعرات، 16 جولائی، 2020

0 تبصرے


آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے

مولانا سردار صاحب ندوی ہمارے درمیان نہیں رہے
از- مبصرالرحمن قاسمی

***
شہر اورنگ آباد کی قدیم دینی درسگاہ اور دارالعلوم ندوۃ العلماء کی شاخ انوار العلوم کے قدیم استاذ وسابق صدرالمدرسین مولانا سردار خاں صاحب ندوی بروز منگل مطابق 17 جون 2020 کو اپنے مالکِ حقیقی سے جاملے، اللہ تعالیٰ مرحوم کی قبر کو نور سے منور کرے۔ مولانا مرحوم کا تعلق شہر اورنگ آباد کے مضافاتی قصبے پیپل واڑی سے تھا، شہراورنگ آباد کو یہ شرف حاصل ہے کہ اس شہر کے یمین ویسار میں دو ایسے قصبے واقع ہیں جس کے ہر گھر میں حفاظ وعلماء ہیں، ایک طرف شہر سے کوئی پانچ کلومیٹر کی دوری پر نائے گاؤں واقع ہے اور دوسری طرف پیپل واڑی اور اس سے ملحقہ قصبہ جات،اگر یوں کہا جائے کہ شہر اورنگ آباد کو یہ دونوں علاقے دینی وروحانی غذا فراہم کرتے ہیں تو غلط نہیں ہوگا، شہر کی زیادہ تر مساجد میں امام اور مدارس میں اساتذہ کا ان دونوں علاقوں سے ہی تعلق ہے۔مولانا سردار صاحب مرحوم  شہر کے صف اول کے علماء میں شمار ہوتے تھے، پورے علاقہ مراٹھواڑہ میں آپ کے شاگردوں کی ایک بڑی ٹیم پھیلی ہوئی ہے، مولانا مرحوم نے کئی سالوں تک مدرسہ انوار العلوم میں بحیثیت معلم اور پھر ایک مدت تک بحیثیت صدر المدرسین خدمات انجام دی۔آپ نے شہراورنگ آباد کے علاقہ عثمان پورہ کی ایک مسجد میں برسوں تک امامت کے فرائض بھی انجام دیئے۔
مولانا مرحوم  بہت ہی ملنسار انسان تھے، سادگی، خلوص اور جذبہ ہمدردی آپ کا شیوہ تھا، اگرچہ راقم الحروف کو مولانا مرحوم کی شاگردی میں رہنے کا بہت زیادہ موقع نہیں ملا، لیکن  راقم الحروف کی زندگی کے وہ دو ہفتے ہمیشہ یاد رہیں گے جو مولانا مرحوم سے ربط اور بار بار ملاقاتوں اور مشوروں میں گذرے تھے۔
جامعہ اسلامیہ کاشف العلوم کے درجہ عالیہ اولی کے سال کے اواخر میں مولانا مرحوم سے کئی دن تک ربط میں رہنے کا موقع ملا تھا، مرحوم بہت ہی ملنسار، شفیق اور ہمدرد طلباء اساتذہ میں شامل تھے، کاشف کے عالیہ اولی کے بعد انوار العلوم سے عالیہ ثانیہ میں ایک سال تعلیم حاصل کرکے ندوہ جانے کی راقم الحروف کی خواہش تھی، اس وقت مولانا مرحوم متحدہ انوار العلوم نگینہ مسجد کے صدر المدرسین تھے، مولانا سے پہلی ملاقات عثمانپورہ میں ان کی مسجد میں ہوئی تھی، جہاں آپ امامت کرتے تھے، جب احقر نے مولانا کو اپنا ارادہ بتایا تو انھوں نے بہت ہی خوشدلی سے اہلا وسہلا کہا اور بتایا تھا کہ دو سال کسی بھی برانچ میں طالبِ علم کا داخلہ رہنا ضروری ہے لیکن میں مرحوم عبد الغفور صاحب کے فرزند سے بات کرکے ضرور داخلہ کروانا کی کوشش کروں گا، پھر انھوں نے مجھے دوسرے دن عصر میں مرحوم مولانا عبد الغفور صاحب کے گھر پہنچنے کے لیے کہا اور جب میں وہاں پہنچا تو آپ مجھ سے پہلے سے وہاں موجود تھے، مجھے ایسا لگا کہ مولانا خود اپنے کام کے لیے موجود ہونگے لیکن مولانا مرحوم نے خاص مجھ جیسے ایک طالب علم کے  لیے اپنا وقت فارغ کیا تھا اور وہاں حسب وعدہ پہنچ گئے اور میری ملاقات کرواکر داخلے کے لیے منظوری حاصل کرلی، اس کے بعد تیسرے دن مجھے مدرسہ آنے کی دعوت دی، جب میں مدرسہ پہنچا تو وہاں کے دیگر اساتذہ نے ندوے کے شرائط کی عدم پابندی پر اعتراض جتایا، لیکن مولانا نے میری کیفیت اور حالت انھیں بتاکر سب کو مطمئن کردیا۔اس کے بعد مزید پیچیدگیوں کے باعث داخلہ نہیں ہوسکا لیکن مولانا نے حوصلہ دیا اور نیک مشوروں سے نوازا....
اللہ  تعالیٰ مولانا مرحوم کو غریقِ رحمت کرے، ان کے درجات کو بلند فرمائے اور ان کے اہل خانہ کو صبر جمیل دے....
اچھے لوگ، مخلص لوگ اپنے پیچھے ڈھیر ساری یادیں چھوڑ جاتے ہیں.... دنیا انھیں یاد کرتی ہے اور فرشتے اس پر آمین کہتے ہیں......

0 تبصرے:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔