ہفتہ، 5 جولائی، 2025

کُلُّ مَنۡ عَلَیۡهَا فَانٍ ( ہر شے کو فنا ہے)

0 تبصرے

 

کُلُّ مَنۡ عَلَیۡهَا فَانٍ      ( ہر شے کو فنا ہے)

(سورۃ الرحمٰن: 26)

از قلم- مبصرالرحمن

دنیا کی چمک دمک، شہرت، دولت، محبت، اور زندگی کی حسین رونقیں… یہ سب کچھ، انسان کو ایسا لگتا ہے جیسے یہ ہمیشہ اسی کے ساتھ رہے گا۔ وہ سمجھتا ہے کہ جس مقام تک وہ پہنچا ہے، وہاں سے اب زوال ممکن نہیں۔ مگر موت، ایک ایسی سچائی ہے جو نہ کسی عمر کی محتاج ہے، نہ مقام کی، نہ وقت کی، نہ تیاری کی۔ وہ آتی ہے… نہ قبل از وقت اطلاع ملتی ہے، نہ الارام بجتی ہے، نہ اعلان کیا جاتا ہے، نہ کسی قسم کی نوٹس تھمائی جاتی ہے… اور اچانک  سب کچھ اپنے ساتھ لے جاتی ہے۔

پرتگالی فٹبالر ڈیوغو جوٹا کی کہانی اِسی اٹل حقیقت کی ایک عبرتناک مثال ہے۔ 29 برس کا وہ نوجوان، جس نے کھیل کے میدانوں میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا، جو دنیا کے مشہور کلب لیورپول کا فخر تھا، جس نے ابھی چند دن پہلے ہی اپنی محبت کو نکاح کا روپ دیا تھا، اور جس کی زندگی کے شب و روز خوشیوں سے بھرے ہوئے تھے ،  وہ اب نہیں رہا۔ایک لمحہ، ایک سڑک، ایک ٹائر کا پھٹنا… اور سب کچھ ختم۔

زندگی کی وہ رَوشن شام، جو محبت، خوابوں اور مستقبل کی امیدوں سے بھری ہوئی تھی، اچانک سیاہ رات میں ڈوب گئی۔ وہ گاڑی، جو شاید کل کسی جشن میں شرکت کے لیے تیار ہوئی تھی، آج ایک جلی ہوئی لاش کی طرح سڑک کے کنارے پڑی تھی۔یہ انجام صرف  یورپ کے مشہور فٹبال کھلاڑی جوٹا کا نہیں، بلکہ ہر اُس انسان کا ہے جو دنیا کو ہمیشہ کی حقیقت سمجھ بیٹھتا ہے۔

جوتا کی زندگی خوابوں کا پیکر تھی ، ایک غریب کلب سے اٹھ کر یورپ کی مشہور ٹیموں تک پہنچنے کا سفر، وہ پاکوس ڈی فیررا کے چھوٹے سے کلب سے ایٹلیٹکو میڈرڈ، پھر پورٹو اور بالآخر لیورپول پہنچا۔ شہرت، دولت، محبت، اولاد  سب کچھ نصیب ہوا۔ مگر موت نے یہ سب ایک لمحے میں چھین لیا۔

یہ واقعہ ہمیں چیخ چیخ کر یاد دلاتا ہے کہ:

"فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ"

(پھر تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے؟)

ہم گاڑیوں میں بیٹھے دوڑتے ہیں، خواب بُنتے ہیں، منصوبے بناتے ہیں، مگر کبھی اُس وقت کے بارے میں نہیں سوچتے جو یقینی ہے  یعنی موت ۔ وہ موت جو نہ عمر کا لحاظ کرتی ہے، نہ شہرت کا، نہ محبتوں کا۔ معروف فٹبال ستارے ڈیوغو جوٹا کی جلی ہوئی گاڑی ہمیں یہ بتاتی ہے کہ انسان کتنی ہی بلندیاں حاصل کر لے، انجام خاک ہونا ہے۔زندگی کا فریب یہی ہے:ہم سمجھتے ہیں کہ وقت ہمارے پاس ہے، مگر اصل میں ہم خود وقت کے پاس گروی رکھے گئے ہیں ، اور جب وہ چاہے، ہمیں لے جاتا ہے۔

لہٰذا، جوٹا کا  کار حادثہ نہ صرف ایک سانحہ ہے بلکہ ہوش کا ایک ناقوس ہے:

  • آج جو ہم میں ہیں، کل شاید نہ ہوں؛
  • آج جو ہنسی ہے، کل شاید آنسو بن جائے؛
  • آج جو ہمارے ساتھ ہیں، کل تصویر میں قید ہو جائیں گے۔

یہ لمحے، یہ رشتے، یہ ساز و سامان، سب فانی ہیں۔

(کُلُّ مَنۡ عَلَیۡهَا فَانٍ)        یہ ایک ایسی سطر ہے جو دنیا کے ہر تاج کو جھکنے پر مجبور کر دیتی ہے۔

آئیے، ہم اس واقعے سے سبق لیں۔

زندگی کو فضول دوڑ میں نہ گنوائیں، اپنوں سے محبت کریں، وقت کی قدر کریں، اور سب سے بڑھ کراپنے خالق کو یاد رکھیں۔

کیونکہ آخرکار

وَیَبۡقَىٰ وَجۡهُ رَبِّكَ ذُو ٱلۡجَلَـٰلِ وَٱلۡإِكۡرَامِ

(اور صرف تیرے رب کی ذات جو عظمت اور عزت والی ہے باقی ره جائے گی۔)

 

0 تبصرے:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔