ہفتہ، 6 اگست، 2016

0 تبصرے
بچوں کو حفظِ قرآن کیوں کرائیں؟
از – مبصرالرحمن قاسمی   (ریڈیو کویت)
بچوں کو قرآن مجید کا حافظ بنانا نہ صرف بچوں کے لیے دینی اعتبار سے انتہائی فائدہ مند ہے بلکہ قرآن مجید کو حفظ کرنے کے بعد بچوں میں کسی بھی علم، زبان اور فن کو سیکھنے کی صلاحیت پیدا ہوجاتی ہے، اسے ہم قرآن کا معجزہ   یا پھر دل میں  اس مقدس کتاب کو محفوظ کرنے کی برکات کہہ سکتے ہیں۔یقینا  کوئی بھی عمارت جتنی پختہ، بلند اور عظیم الشان ہوتی ہے اس کی بنیادیں بھی اتنی ہی مضبوط  اور پائیدار ہوتی ہیں۔

تاریخ کی عظیم شخصیات میں جابر بن حیان، الکندی، الخوارزی، الرازی، ثابت بن قرہ، البنانی، حسنین بن اسحق الفارابی، ابراہیم ابن سنان، المسعودی، ابن سینا، ابن یونس، الکرخی، ابن الہیثم، علی بن عیسیٰ، البیرونی، الطبری، ابوالوحی، علی ابن عباس، ابوالقاسم، ابن الجزار، الغزالی، الزرقالی، اورعمرخیام وغیرہ یہ سب وہ لوگ ہیں جنھوں نے قرآن کو اپنے علم کی بنیاد بنائی اور دنیا کے عظیم سائنسدانوں اور کئی اشیاء کے تخلیق کاروں  میں شامل ہوئے۔ ان مایۂ ناز مسلم سائنس دانوں کے نام نہایت قلیل مدت میں ہی یعنی ۷۵۰ سے ۱۱۰۰ عیسوی کے درمیان ہی آسمان ایجادات پر ستاروں کی طرح جگمگا  اٹھے اور پوری دنیانے دیکھا کہ کس طرح ان مسلم سائنس دانوں نے قرآن کریم سے ہدایت پا کر نظام قدرت کے رازوں کو جاننے میں کامیابی حاصل کی۔

ہمارے بزرگوں میں قرآن مجید کو حفظ کرنے اور اس کی تعلیم حاصل کرنے کا خاص ذوق رہا ہے،  ابووائل شقیق بن سلمہؒ  کے بارے میں مذکور ہے کہ انھوں نے دو ماہ میں قرآن کریم حفظ کر لیا تھا اور امام بخاریؒ دس سال کی عمر میں حفظِ قرآن سے فارغ ہوگئے تھے۔ اورابن حجر محدثؒ نے ۹/ برس کی عمر میں قرآن حفظ کرلیا تھا جبکہ  امام ابوحنیفہؒ کے مایہ ناز شاگرد امام محمد ؒنے سات دن میں قرآن کریم یاد کیا۔ (بلوغ الامانی سیرۃ الامام محمد بن الحسن الشیبانی)

قرآنِ پاک کو دیگر مذہبی وغیر مذہبی کتابوں کے مقابلے کئی اعتبار سے امتیازی شان حاصل ہے، کوئی دوسری کتاب خواہ وہ مذہبی ہو یا اخلاقی یا کسی بھی موضوع پر ہو اور حجم میں قرآن مجید سے کچھ کم ہی کیوں نہ ہو حرف بہ حرف کبھی یاد نہیں ہوسکتی۔ اللہ کا کلام ہونے کے اعتبار سے اس کا حفظ کرنا اعلیٰ درجے کی نیکی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ لاکھوں مسلمان بچوں، جوانوں اور بوڑھوں نے اس کتاب کو حفظ کر رکھا ہے۔

معروف مستشرق جيمس ونچیز کے بقول دنیا میں پڑھی جانے والی کتابوں میں قرآن مجید کو سب سے زیادہ پڑھا جاتا ہے، اور اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ دنیا کی یہ واحد کتاب ہے جسے حفظ کرنا سب سے زیادہ آسان ہے۔  (الطاعہ وأثرها فی  القرآن الكريم- تحقیق - دكتور شعبان رمضان)

علامہ شیخ عبدالرحمن سعدی "ولقد یسرنا القرآن" کی تفسیرمیں لکھتے ہیں : اس آیت کا مفہوم  یہ ہے کہ ہم نے قرآن کو اس کے الفاظ کے حفظ اور ادائیگی میں اور اس کے معانی کو سمجھنے میں آسان کردیا، اس لیے کہ لفظ کے اعتبار سے یہ سب سے اچھا کلام ہے، معنی کے اعتبار سے سب سے سچا ہے، اور وضاحت میں سب سے واضح کلام ہے۔ اس لیے قرآن مجید کا حفظ کرنا تمام علوم میں  آسان تر ہے۔

لیکن  آج کل کچھ والدین اپنے بچوں کو قرآن حفظ کرانے کی ہمت نہیں کرتے وہ سمجھتے ہیں کہ اس کام میں تین سال لگ جائیں گے اور بچہ اپنے اسکول کے ساتھیوں سے پیچھے رہ جائے گا۔ بہ ظاہر یہ بات ٹھیک لگتی ہے لیکن حقیقت کے اعتبار سے یہ درست نہیں، کیوں کہ حافظ کے وقت اور صلاحیت میں برکت آجاتی ہے اور مشاہدہ گواہ ہے کہ حافظ نے اپنی زندگی کے جو سال حفظ میں صرف کیے ہوئے ہیں، وہ اس کو محنتی بنا دیتے ہیں اور محنت کی یہ عادت دنیاوی زندگی کے امتحانات میں کام یابی کا باعث بنتی ہے۔

الحمدللہ  اب مدارس اسلامیہ میں اسکول اور کالج میں تعلیم حاصل کرنے والے طلباء کے لیے بھی حفظ قرآن کے علاحدہ شعبوں کا نظم کیا جارہا ہے اور اسے بڑی مقبولیت بھی حاصل ہورہی ہے، نہ صرف یہ بلکہ اسکول اور کالجس اور یونیورسٹی کے اساتذہ بھی  یہ محسوس کررہے ہیں کہ وہ اپنی اولاد کو عصری علوم کے ساتھ ساتھ دینی علوم بھی دیں یا کم از کم انھیں حفظ قرآن کروائیں۔

مولانا الیاس ندوی بھٹکلی چین کے اپنے سفرنامے  کے ذیل میں چند واقعات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

دو سال قبل میرا علی گڑھ جانا ہواتھا ،مسلم یونیورسٹی میں اکیڈمک اسٹاف کالج (u.g.c) کے ڈائرکٹرڈاکٹرعبدالرحیم قدوائی صاحب نے اپنے چھوٹے بچہ سے ملاقات کراتے ہوئے بتایا کہ وہ عصری تعلیم کے ساتھ الحمدللہ حفظ قرآن مجید کی سعادت سے مالامال ہورہاہے، اسی طرح برطانیہ میں زیر تعلیم اپنے بڑے لڑکے کے متعلق بھی بتایا کہ وہ بھی وہاں برطانوی یونی ورسٹی میں دن بھر پڑھائی میں مشغول رہنے کے باوجود رات کو اپنے کمرہ میں آکر ایک دورکوع روزانہ حفظ کرکے یہاں ہندوستان میں علی گڑھ میں اپنی والدہ کو یاد کیا ہواوہ حصہ سناتاہے،اس طرح اس نے قرآن کابڑا حصہ عصری تعلیم کے ساتھ حفظ کرلیا ہے اور جلد اس کے حافظ قرآن بننے کی امید ہے، ڈاکٹر صاحب کے خاندانی دینی پس منظراور مولانا عبدالماجدصاحب دریابادی کے نواسے ہونے کی وجہ سے مجھے اس پر حیرت نہیں ہوئی، لیکن جب مجھے یہ معلوم ہواکہ یونیورسٹی کے بہت سارے پروفیسر صاحبان ادھردوتین سال سے اپنے بچوں کو اسکولوں وکالجز کی تعلیم کے ساتھ پارٹ ٹائم حفظ کرارہے ہیں تو مجھے تعجب ہوا کہ ان میں سے بعض لوگوں کے لیے تو پانچ وقت کی نماز کاپابندی سے اہتمام بھی دشوار ہے تو اس کے باوجود ان میں کلام اللہ سے اس قدر محبت وتعلق کا پس منظر کیا ہے ؟ میرے اس استعجاب پر میرے میزبان نے بتایا کہ ادھر چندسالوں سے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی میڈیکل وانجینئرنگ کی محدود سیٹوں کے لیے ہزاروں طلباء کے درمیان جومسابقتی امتحانات ہورہے ہیں تو ان میں عصری تعلیم کے ساتھ حفظ کرنے والے حفاظ طلباء ہی امتیازی نمبرات سے کام یاب ہوکرفری سیٹوں کے مستحق بن رہے ہیں،دوسرے الفاظ میں حفظ کلام اللہ کی برکت سے ان کی ذہانت میں غیر معمولی اضافہ ہورہاہے اور اسی لالچ میں دھڑا دھڑ لوگ اپنے بچوں کو اب حافظ قرآن بنارہے ہیں، میری زبان سے بے ساختہ نکلا کہ وہ دن دور نہیں کہ اگر غیرمسلموں کو بھی معلوم ہوجائے تو وہ بھی اس فارمولے کو اپنانے کے لیے اپنے بچوں کو حافظ قرآن بنائیں گے اور اسی بہانے انشاء اللہ ان کے لیے اللہ تعالی کی طرف سے ہدایت کے فیصلے بھی ہوں گے۔(الفاروق کراچی- شمارہ جمادی الثانی۱۴۳۵ھ)

ہمارے شہر اورنگ آباد میں واقع مراہٹواڑہ کی عظیم الشان دینی درسگاہ  جامعہ اسلامیہ کاشف العلوم سے بھی ہر سال اسکول وکالجز کے کئی طلباء حفظ قرآن کی سعادت سے حاصل کررہے ہیں، لیکن  گذشتہ دوسے تین سال پہلے ایک طالب علم جو کالج کے ایک پروفیسر صاحب کے فرزند ہیں نے حفظ قرآن کیا اور اس کے بعد سیٹ میں اعلی نمبرات  سے کامیاب ہوکر آج وہ گورنمنٹ میں  ایم بی بی ایس  کررہا ہے۔یہ اور اس طرح کی حفاظ قرآن کی کئی تازہ مثالیں  ہیں جن سےہر والدین نے سبق حاصل کرنا چاہیے اور قرآن مجید کی تمام برکتوں اور رحمتوں سےاستفادہ کرنا چاہیے۔ اب آئیے ہم قرآن مجید کے چند اہم فوائد سے آپ کو روشناس کراتے ہیں۔

قرآن حفظ کرنے سے حافظہ تیز ہوتا ہے:

قرآن مجید کو حفظ کرنے سے ذہانت میں غیر معمولی برکت پیدا ہوتی ہے، جس سے ذہن تیز ہوتا ہے، استحضار یعنی ہر وہ چیز جو ذہن میں موجود ہے حفظ قرآن کی بدولت بہت جلد اور بروقت ذہن میں آتی ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے : جس کے دل میں قرآن کا کچھ بھی حصہ نہیں ہے وہ دل ویران گھر کی طرح ہے۔ (ترمذی حسن صحیح)

بڑھاپے کے باوجود حافظ قرآن کی عقل صحیح سلامت رہتی ہے:

حافظ قرآن کی عمر چاہتے کتنی بھی لمبی ہو، قرآن کے دل میں ہونے کی برکت سے اس کی عقل پر کوئی فرق نہیں پڑتا ہے، تاریخ گواہ ہے کہ سیکڑوں حفاظ قرآن مجید ایسے گذرے ہیں جن کی عمریں ۹۰ سال سے زیادہ ہوئیں لیکن ان کی عقلیں صحیح سلامت رہیں، عبدالملک بن عمیر کے بقول : یہ بات مشہور ہے کہ لوگوں میں بڑھاپے کی عمر میں سب سے زیادہ صحیح سلامت عقل والے قرآن کے قاری ہوتے ہیں۔ اور بعض بزرگوں کے مطابق : جس نے قرآن مجید حفظ کرلیا اس نے اپنی عقل سے پورا  پورا فائدہ اٹھالیا۔

قرآن مجید / حافظ قرآن اور اس کے اہل خانہ کے لیے باعث برکت ہے:

قرآن مجید/ حافظ اور اس کے گھر والوں کے لیے برکت ہی برکت ہے، کیونکہ شیطان ایسے گھروں سے دوربھاگتے ہیں جہاں قرآن پڑھا اور سنا جارہا ہو، حدیث میں آیا ہے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جس گھر میں سورہ بقرہ پڑھی جاتی ہو شیطان اس گھر سے دور بھاگتا ہے۔

(رواہ مسلم)

حافظ قرآن کی موجودگی گھر میں شیطانی اثرات سے حفاظت کا ذریعہ ہے :

آج اکثر لوگ شکوک وشبہات ، مختلف خاندانی اور دیگرمسائل  سمیت اثرات، جادو اور نظر لگنے  جیسے مسائل سے دوچار دکھائی دیتے ہیں، ان تمام قسم کے مسائل اور بیماریوں کا واحد علاج قرآن مجید ہے، ہم قرآن مجید کی برکت کے ذریعے  ہر طرح کے غم، پریشانی، فتنے، اثرات اور مسائل  سے بچ سکتے ہیں۔حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہا کرتے تھے :  وہ گھر جس میں اللہ کی کتاب کی تلاوت کی جاتی ہے، اس کے رہنے والوں کے لیے کشادہ ہوجاتا ہے، اس گھر میں بھلائی اور خیر کی زیادتی ہوجاتی ہے، فرشتے اس گھر کی حفاظت کرتے ہیں اورشیطان ایسے گھر سے دور بھاگ جاتے ہیں۔ اور وہ گھر جس میں اللہ کے کتاب کی تلاوت نہیں کی جاتی، اس کے رہنے والوں کے لیے تنگ ہوجاتا ہے، اس میں خیر اور بھلائی کی کمی ہوجاتی ہے، فرشتے ایسے گھر سے دور ہوجاتے ہیں اور شیطان ایسے گھر کو اپنا ٹھکانہ بنادیتے ہیں۔(ابن ابی شیبہ)اگر ہماری اولاد حافظ قرآن  بنے گی تو  گھروں کی چہار دیواری میں قرآن کی آواز گونجنے لگے گی اور اس سے نہ صرف گھر میں دینی ماحول پیدا ہوگا بلکہ تمام قسم کے اثرات سے بھی گھر کی حفاظت ہوگی۔

قرآن مجیددینی وعصری علوم کا سرچشمہ  اور تمام مسائل کا حل ہے:

قرآن مجید  ہر علم وفن کا دروازہ ہے، چاہے وہ دینی علم ہو یا پھر عصری ، قرآن مجید کی آیتیں اس بات کی واضح دلیل ہیں، ان ہی آیتوں نے مغرب کے بڑے بڑے دانشوروں، سائنسدانوں اور  ماہرین کی اسلام کی جانب رہنمائی کی ہیں، مغربی ماہرین کو جب قرآن مجید کی آیتوں میں سائنسی کمال واعجاز کا پتہ چلا تو انھوں نے قرآن مجید اور اس کے دین کو اپنے گلے سے لگالیا۔ قرآن مجید کی مقبولیت کی ایک تازہ مثال سابق برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیئر  کا روزانہ قرآن پڑھنا ہے، روزنامے ڈیلی میل میں شائع ہوئےایک انٹریو کے مطابق ان کا کہنا ہے کہ وہ روزانہ قرآن پاک پڑھتے ہیں تاکہ کچھ چیزیں سمجھ سکیں جو دنیا میں پیش آرہی ہیں۔(قصۃ الاسلام :راغب السرجانی)

وكان بلير، الذي اعتنق الكاثوليكية بعد أشهر من استقالته من منصب رئيس الوزراء في عام 2007، قد انتقد دعوة القس الأمريكي تيري جونز العام الماضي إلى إحراق نسخ من المصحف الشريف تزامناً مع الذكرى التاسعة لهجمات الحادي عشر من سبتمبر 2001 في الولايات المتحدة، ودعا إلى "قراءة القرآن بدلاً من إحراقه".

حفظ قرآن کا دنیا وآخرت میں دائمی فائدہ :

قرآن  کو حفظ کرنے کی برکت سے  قرآن مجید کل قیامت کے دن حافظ قرآن کا سفارشی بن کر کھڑ ا ہوگا، حدیث میں آیا ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : قرآن کو پڑھتے رہو کیونکہ قرآن قیامت کے دن اپنے پڑھنے والوں کے لیے سفارشی بنے گا۔ (رواہ مسلم)، یہ قرآن مجید کی ہی برکت ہے کہ اس کی بدولت جنت میں درجات بلند ہوتے ہیں جیسا کہ حدیث میں آیا ہے، صاحب قرآن سے کہا جائے گا، پڑھتا جا اور آگے بڑھتا جا،اور ویسا ہی پڑھ جیسا تو دنیا میں ترتیل سے پڑھتا تھا، تیرا مقام اور رتبہ تیری (حفظ کی ہوئی)آخری آیت پر منحصر ہے۔

 (ابوداود، ترمذی وقال حسن صحیح)

قوموں کی ترقی قرآن کو گلے  لگانے سے وابستہ ہے: 

دنیا ایک تاریکی ہے اور قرآن نور ہے، جس کے ذریعے انسان خدا کو پہنچاتا ہے، دنیا میں  جینے کے طریقے سیکھتا ہے، اور دنیا کی آفتوں اور مصیبتوں کا مقابلہ بھی اسی کتاب کی رہنمائی میں کرسکتا ہے، کسی بھی قوم کی ترقی اور مسقبل قرآن کے بغیر نامکمل اور ناقص ہے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے : بلاشبہ اللہ تعالی اس کتاب کے ذریعے کچھ قوموں کو عروج عطا کرتا ہے اور کچھ کو ا س کے ذریعے سے ذلیل کرتا ہے۔ ۔(رواہ مسلم ، احمد و ابن ماجہ)




0 تبصرے:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔