جمعہ، 3 ستمبر، 2021

بچوں کا مستقبل ۔۔۔۔ امت کا مستقبل ہے

0 تبصرے

چھوٹے دینی مدارس کے ذمہ داران اپنے طلباء کے مستقبل کے بارے میں غور کیوں نہیں کرتے؟

 

یقینا دینی ادارے وطن عزیز میں وقت کی سخت ضرورت ہے، لیکن ذمہ داران کو اس بات پر بھی نظر رکھنا ہوگا کہ جو لوگ ان پر اعتماد کرکے اپنی اولاد کو حوالے کرتے ہیں، کیا وہ ان کے اعتماد کو باقی رکھ پاتے ہیں...

میرے ایک قریبی ہیں، ان کے فرزند نے صرف حفظ قرآن کے لیے چودہ سال لگادیے لیکن وہ بچہ ابھی بھی صحیح ڈھنگ سے حافظ بن نہ سکا.... کیا وہ بچہ کند ذہن تھا؟ نہیں.... کیا وہ بچہ کمزور تھا؟ نہیں... کیا وہ بچہ شرارت پسند تھا؟ نہیں

وہ بچہ آج اٹھارہ سال کی عمر کو چھورہا ہے اور جس باپ نے اسے مدینہ بھیجنے کے مقصد سے مدرسہ میں ڈالا تھا آج وہ بچہ بوڑھا ہوتے باپ اور چھوٹے بھائی بہنوں کی خاطر ایک کمپنی میں لیبر کے طور پر کام کررہا ہے.

اس لیے کہ اس کی عمر کا ایک بڑا حصہ صرف حفظ کرنے میں گزر گیا....

دراصل اس بچے کی کہانی ہم آپ کو سناتے ہیں، یہ اس لیے کہ جو حضرات شعبہ حفظ چلارہے ہیں وہ بچوں کی عمر کو ضائع کرنے سے بچ سکیں.

حمد (نام بدل کر) نے سات سال کی عمر میں ہی پربھنی میں واقع فیض القرآن میں داخلہ لیا تھا، جہاں اس نے ہردوئی کی طرز پر نورانی قاعدہ، تیسواں پارہ اور پنج سورے کا حفظ مکمل کرلیا تھا، وہ اپنی جماعت کا ہونہار طالب علم تھا، لیکن گھریلو حالات کے باعث اس کے والد نے اسے رنجنی میں اشاعت العلوم اکل کوا کی شاخ میں داخل کروادیا، کیونکہ اس کے والد دینی علوم سے نا واقف تھے تو یہاں کے ذمہ داروں نے اس بچے کو ایک بار پھر دو سال کے لیے شعبہ ناظرہ میں ڈال دیا، جہاں استاذ گدی پر بیٹھے گپ شپ کرتے تھے اور حمد پوری جماعت کو ناظرے کا سبق ایک آواز میں پڑھاتا تھا، کیونکہ اس کا ناظرہ پہلے ہی سے بہتر تھا، اور وہ شعبہ حفظ کے قابل تھا لیکن ہمارے اداروں کے اصول طلباء کے مستقبل سے زیادہ اہم ہوتے ہیں.... بہر حال وہ یہاں بھی حفظ شروع نہیں کرسکا... گھریلو حالات کے باعث حمد کے والد نے اس ذہین اور محنتی طالب علم کو ایک جاننے والے مولانا کے مشورے پر اورنگ آباد میں واقع ایک چھوٹے سے مدرسہ میں داخل کردیا، جہاں اس بچے نے حفظ تو شروع کردیا تھا لیکن اس ادارے کا ماحول اور اس کے استاذ کے سالانہ تبلیغی چلے، ماہانہ سہ روزے نے مزید تین سال اس کے ضائع کردیئے اور اس طرح ناظرہ اور حفظ کی دہلیز پر قدم رکھنے میں ہی اس کے دس سال گزر گئے...

           .......... 

ابھی ابھی ایک صاحب سے بات ہوئی، ان کے فرزند نے واٹس گروپ میں ہماری نگرانی میں تین پارے گزشتہ سال ہی مکمل حفظ کرلیے تھے، بچے کے ذوق حفظ اور درست تلاوت کی بنیاد پر ہم نے انھیں شعبہ حفظ میں داخل کرانے کا مشورہ دیا تھا، لہذا جس ادارے میں اس بچے کو داخل کرایا گیا، ان کا اصول ہے کہ طالب علم کا پہلے مکمل ناظرہ ہونا حفظ کے لیے شرط ہے... خیر، آج ہم نے ان سے دریافت کیا کہ ناظرہ ایک سال میں تو ہوہی جانا چاہیے، کیوں نہیں ہوا تو کہنے لگے کہ مولوی صاحب کا کہنا ہے کہ وہ ان کے ادارے کو مثالی بنانا چاہتے ہیں اس لیے ناظرے کی ہلکی سی غلطی بھی قابل قبول نہیں ہوسکتی....

 

لیجیے.... اپنی انا کی خاطر امت کے مستقبل کی بربادی

 

یہ دو صرف مثالیں ہیں، ایسے کتنے بچے ہونگے، جن کی عمر کا ایک بڑا حصہ اداروں اور کم فہم اساتذہ کے من مانی اصولوں کے نذر ہوجاتا ہوگا....

 

حفظ قرآن سب سے افضل عمل ہے، لیکن اس عمل سے لوگوں کو مایوس مت کیجیے....

 


0 تبصرے:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔