جمعہ، 11 اپریل، 2025

0 تبصرے

سلام، مصافحہ، معانقہ(گلے ملنے) اور بوسے کے اسلامی آداب

https://archive.org/details/@rkurdu


از قلم

ڈاکٹر مبصرالرحمن قاسمی



(سلام)

کسی سے ملاقات ہوتو سب سے پہلے سلام کرے، سلام کرنا سنت ہے اور جواب دینا واجب ہے، سلام ان الفاظ سے کریں(السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ)۔

سلام کے چند  آداب ہیں جن کا خیال رکھنا چاہیے :

-       چلنے والا بیٹھے ہوئے کو سلام کرے۔ (صحیح بخاری)

-       سوار پیدل کو سلام کرے۔ (صحیح بخاری)

-       کم تعداد والے زیادہ تعداد والوں کو سلام کریں۔ (صحیح بخاری)

-       چھوٹا بڑے کو سلام کرے۔ (صحیح بخاری)

-       اتنی آواز سے سلام کرے کہ دوسرا سن لے۔ اور جواب بھی اتنی آواز سے دے کہ سلام کرنے والا سن لے۔(شمائل کبری)

-         اگر کسی مجلس میں آئے اور مجلس میں کوئی خاص گفتگو ہو رہی ہو تو جہراً (بلند آواز سے) سلام نہیں کرنا چاہیے۔ (آداب المعاشرت:40،مولانا تھانوی)

-       جھک کر سلام نہیں کرنا چاہیے۔(آداب المعاشرت: ،  44)

-         اجنبی مرد اجنبی عورتوں کواور اجنبی عورتیں اجنبی مردوں کو سلام نہ کریں۔ (عمل الیوم واللیلۃ لابن السن)

-       سلام ہر مسلمان کو کرناچاہیے، خواہ اُسے پہچانتا ہو یا نہ پہچانتا ہو۔ (صحیح بخاری)

-       تلاوت، ذکر، وظیفہ وغیرہ میں مشغول شخص کو سلام نہ کر نا چاہیے۔

-       علمی مشغلہ میں مصروف شخص کو سلام نہیں کرنا چاہیے۔

-       اگر کوئی سونے کے لیے لیٹاہو تو اتنی آواز سے سلام کیا جائے کہ اگر وہ جاگ رہا ہو تو جواب دے دے اور اگر سو رہا ہو تو بیدار نہ ہو۔ (جامع ترمذی)

-         اذان کے دوران سلام نہیں کرنا چاہیے۔ (جامع الفتاوی: 313/3،تالیفات اشرفیہ)

-         جب مسجد میں آئے اور لوگ ذکر وغیرہ میں مشغول ہوں تو سلام نہیں کرنا چاہیے۔(امداد الفتاوی: 278/4، دارالعلوم)


 

(مصافحہ)

امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :

" ہر ملاقات میں مصافحہ کرنا مستحب ہے۔ [الأذكار (1/ 266)]۔  

مصافحے کے فضائل :

-       حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے پوچھا: "کیا رسول اللہ کے صحابہ میں مصافحہ کا رواج تھا؟" انہوں نے جواب دیا: "ہاں"؛ [بخاری]۔ 

-       حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب یمن کے لوگ آئے تو رسول اللہ نے فرمایا: "تمہارے پاس یمن والے آگئے ہیں، اور وہ پہلے لوگ ہیں جو مصافحہ لے کر آئے"۔ [أبو داود، صحیح سند کے ساتھ]۔ 

-       حضرت براء رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا:" جب دو مسلمان ملتے ہیں اور مصافحہ کرتے ہیں، تو جدا ہونے سے پہلے ہی ان کے گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں"۔[أبو داود]۔ 

-       حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک شخص نے عرض کیا: یا رسول اللہ! جب ہم میں سے کوئی اپنے بھائی یا دوست سے ملے تو کیا اس کے لیے جھکنا چاہیے؟" آپ نے فرمایا: "نہیں"۔ اس نے پوچھا: "کیا اسے گلے لگا لے یا بوسہ دے؟" آپ نے فرمایا: "نہیں"۔ پھر اس نے پوچھا: "کیا اس کا ہاتھ پکڑ کر مصافحہ کرے؟" آپ نے فرمایا: "ہاں"۔ [ترمذی، حسن حدیث]۔

مصافحہ اور معانقہ کب اور کس سے کریں؟

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ: نبی ﷺ کے صحابہ رضی اللہ عنہم جب آپس میں ملتے تو مصافحہ کرتے، اور جب سفر سے واپس آتے تو ایک دوسرے سے گلے ملتے" [طبرانی نے "الأوسط" میں روایت کیا، اور البانی نے "الصحیحہ" (2647) میں اسے صحیح قرار دیا]۔ 

جوان عورت سے مصافحہ کرنا:

صحیح قول یہ ہے کہ انسان صرف اپنی بیوی یا محرم خواتین (جن سے شادی حرام ہے، جیسے ماں، بہن، بیٹی وغیرہ) سے مصافحہ کر سکتا ہے، اور کسی غیر محرم عورت سے ہرگز مصافحہ نہیں کرنا چاہیے۔ یہ جمہور علماء اور ائمہ اربعہ کا موقف ہے، نیز شیخ الاسلام ابن تیمیہ کا بھی یہی انتخاب ہے۔ 

حضرت امیمہ بنت رقیہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ انہوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! ہم (عورتیں) آپ سے بیعت کرنا چاہتی ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: میں عورتوں سے مصافحہ نہیں کرتا، میرا ایک عورت سے کہنا سو عورتوں سے کہنے کے برابر ہے؛ [احمد، ترمذی، نسائی]۔ 

بوڑھی عورت سے مصافحہ کرنا: 

علماء کے درمیان اس کے حکم میں اختلاف ہے، اور کئی اقوال ہیں: 

1۔کسی بھی صورت میں مصافحہ جائز نہیں  (مالکیہ اور حنابلہ کی ایک روایت)۔ 

2- اگر فتنہ کا اندیشہ نہ ہو تو حائل (کپڑے وغیرہ) کے ساتھ مصافحہ جائز ہے۔ (شافعیہ کا ایک قول)۔ 

3- اگر دونوں طرف سے فتنہ کا خطرہ نہ ہو تو بغیر رکاوٹ کے بھی مصافحہ جائز ہے۔ (حنفیہ اور حنابلہ کی ایک روایت)۔ 

لیکن راجح اور احتیاط والا موقف یہ ہے کہ بوڑھی عورت سے بھی نہ تو بغیر حائل کے مصافحہ کیا جائے اور نہ ہی حائل کے ساتھ۔

دلائل:

- صحیحین میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ: رسول اللہ ﷺ کا ہاتھ کبھی کسی عورت کے ہاتھ کو نہیں لگا۔ 

- طبرانی نے "الکبیر" میں حضرت معقل بن یسار رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: تم میں سے کسی کے سر میں لوہے کی سوئی مار دی جائے، یہ اس کے لیے اس سے بہتر ہے کہ وہ کسی ایسی عورت کو ہاتھ لگائے جو اس کے لیے حلال نہیں۔ [البانی نے اسے "الصحیحہ" میں صحیح قرار دیا]، البتہ بعض محققین نے اسے رسول اللہ ﷺ کی حدیث کے بجائے حضرت معقل بن یسار کا قول قرار دیا ہے۔ 

مصافحہ کے معاملے میں احتیاط ہی بہتر ہے، خاص طور پر غیر محرم خواتین سے ہر قسم کے جسمانی رابطے سے بچنا چاہیے۔

کفار سے مصافحہ کرنا:

- کفار سے مصافحہ انہیں سلام کرنے کے تابع ہے۔ اگر کسی کافر کوپہلے سلام کرنا جائز نہیں، تو اسے پہلے مصافحہ کرنا بھی جائز نہیں۔ البتہ اگر کافر خود سلام کرے اور مصافحہ کے لیے ہاتھ بڑھائے، تو اس کا جواب دینے اور مصافحہ کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ 

دونوں ہاتھوں سے مصافحہ کرنا:

یہ جائز عمل  ہے، لیکن نہ سنت ہے اور نہ ہی بدعت۔ 

-امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی صحیح میں "باب: الأخذ بالیدین" (دونوں ہاتھوں سے پکڑنے کا باب) قائم کیا ہے۔ 

- حماد بن زیدنےعبداللہ بن المبارک کو دونوں ہاتھوں سے مصافحہ کیا۔ 

- حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے مجھے تشہد سکھایا، اور میرا ہاتھ آپ ﷺ کے دونوں ہاتھوں کے درمیان تھا۔ 

شراحِ حدیث کہتے ہیں کہ دونوں ہاتھوں سے مصافحہ کرنا، محبت اور توجہ کی زیادتی کو ظاہر کرتا ہے، اور یہ مصافحہ کرنے والے کے لیے عزت و احترام کا اظہار ہے۔ 

صبح اور عصر کی نمازوں کے بعد مصافحہ کرنا: 

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ سے پوچھا گیا کہ: کیا فجر اور عصر کے بعد مصافحہ کرنا مستحب  اورسنت ہے یا نہیں؟

انہوں نے جواب دیا:  "نماز کے فوراً بعد مصافحہ کرنا بدعت ہے، کیونکہ نہ تو رسول اللہ ﷺ نے ایسا کیا، اور نہ ہی اہل علم نے اسے مستحب قرار دیا ہے۔

خلاصہ:

- کفار سے مصافحہ صرف اس صورت میں جائز ہے جب وہ پہلے سلام کریں اور ہاتھ بڑھائیں۔ 

-  دونوں ہاتھوں سے مصافحہ مباح ہے، لیکن اسے سنت یا بدعت نہیں کہا جائے گا۔ 

-  نماز کے بعد خصوصی طور پر مصافحہ کرنا بدعت ہے، کیونکہ اس کی کوئی شرعی اصل نہیں ہے۔


 

بیٹھے ہوئے لوگوں سے مجلس میں داخل ہوتے وقت مصافحہ کرنا:

لقاء ات الباب المفتوح کے مولف شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں:  "مجلس میں داخل ہوتے وقت سب سے مصافحہ کرنے کے بارے میں مجھے کوئی حدیث نہیں ملی، اس لیے ایسا کرنا مناسب نہیں۔ آج کل بعض لوگ جب مجلس میں داخل ہوتے ہیں تو پہلے شخص سے لے کر آخری شخص تک سب سے مصافحہ کرتے ہیں، لیکن میرے علم کے مطابق یہ عمل مشروع نہیں ہے۔ مصافحہ تو ملاقات کے وقت ہوتا ہے، جبکہ مجلس میں داخل ہوتے وقت ایسا کرنا نہ تو رسول اللہ ﷺ کے طریقے سے ثابت ہے اور نہ ہی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے۔ رسول اللہ ﷺ مجلس میں جہاں جگہ ملتی بیٹھ جاتے تھے، اور ہم نے یہ بھی نہیں سنا ہے کہ جب آپ ﷺ بیٹھ جاتے تو لوگ اٹھ کر آپ سے مصافحہ کرتے تھے۔ لہٰذا اس طرح مصافحہ کرنا مشروع نہیں۔  [الباب المفتوح] 


 

معانقہ یعنی (گلے ملنا)

- مالکیہ کے نزدیک ہر حال میں معانقہ یعنی گلے ملنا مکروہ ہے۔ 

- شافعیہ کے نزدیک سفر سے واپسی یا طویل عرصہ بعد ملاقات  پر معانقہ  یعنی گلے ملنا سنت ہے۔ 

- حنفیہ اور حنابلہ کے نزدیک معانقہ یعنی گلے ملنا مباح عمل ہے۔ 

دلائل:

1. حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ:  حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ جب مدینہ آئے اور رسول اللہ ﷺ میرے گھر میں تھے، تو انہوں نے دروازہ کھٹکھٹایا۔ نبی ﷺ اپنا کپڑا گھسیٹتے ہوئے ان کے پاس آئے، ان سے گلے ملے اور انہیں بوسہ دیا۔  [ترمذی: حسن، البانی نے ضعیف قرار دیا] 

2. حضرت   ابو جحیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ:  جب حضرت  جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ حبشہ کی ہجرت سے واپس آئے تو نبی کریم  ﷺ نے ان کا استقبال کیا، ان سے گلے ملے اور ان کی دونوں آنکھوں کے درمیان بوسہ دیا۔ [طبرانی، ہیثمی: البانی نے اسے اپنی صحیح میں حسن قرار دیا (2667)] 

3. حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ:  نبی کریم ﷺ کے صحابہ جب آپس میں ملتے تو مصافحہ کرتے، اور جب سفر سے واپس آتے تو گلے ملتے۔  [طبرانی، ہیثمی، منذری: البانی نے صحیحہ  میں اسناد جید قرار دیا(2647)] 

4. حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ جب ایک ماہ کے سفر کے بعد حضرت عبداللہ بن انیس رضی اللہ عنہ سے ملے تو دونوں نے ایک دوسرے سے گلے ملے۔  [احمد، بخاری فی الأدب المفرد: البانی نے صحیحہ  میں حسن قرار دیا(6/303)] 

5. شعبی سے روایت ہے کہ: نبی  کریمﷺ کے صحابہ جب ملتے تو مصافحہ کرتے، اور جب سفر سے واپس آتے تو گلے ملتے۔  [بیہقی، طحاوی: ابن مفلح اور البانی نے اسناد جید قرار دیا] 

اہل علم  کے اقوال:

امام بغوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:  معانقہ اور بوسہ اگر محض خوشامد یا تعظیم کے لیے ہو تو مکروہ ہے، البتہ رخصت والے مواقع جیسے: 

- رخصت ہوتے وقت 

- سفر سے واپسی پر 

- طویل عرصہ بعد ملاقات ہو 

- اللہ کی خاطر شدید محبت ہو 

تو ان حالات میں گلے ملنے اور بوسہ لینے کی اجازت ہے۔

لیکن عام حالات میں اس سے احتراز کرنا چاہیے، کیونکہ یہ ہر ایک کا حق نہیں۔ اگر کوئی شخص بعض کے ساتھ گلے ملے اور بعض کو چھوڑ دے تو چھوڑے ہوئے لوگ ناراض ہو سکتے ہیں۔ مکمل سلام وتحیات تو مصافحہ ہی ہے۔   [شرح السنة (12/293)] 

شیخ ابن باز رحمہ اللہ فرماتے ہیں:  عام طور پر ملاقات پر مصافحہ سنت ہے، جبکہ سفر سے واپسی پر معانقہ یعنی گلے ملنا۔ اگر کبھی سر، ہاتھ، گال یا پیر کو بوسہ دے دیا جائے تو کوئی حرج نہیں، بشرطیکہ غلو نہ ہو۔ سفر سے پہلے یا بعد میں معانقہ  یعنی گلے ملنا جائز ہے۔  [شرح رياض الصالحين (294)] 

شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں:  گلے ملنا یا بوسہ دینا یہ ان امور میں شا مل ہے جس میں عرف کو دیکھا جاتا ہے۔ اگر اس سے محبت بڑھتی ہو تو جائز ہے۔ آج کل لوگ سفر کے بعد ملنے پر اور سفر پر جانے سے پہلے گلے ملتے ہیں، تو یہ عادت کے مطابق ہے۔ [اللقاء الشهري (13)] 

خلاصہ:

1. مجلس میں داخل ہوتے وقت سب سے مصافحہ کرنا سنت نبوی سے ثابت نہیں۔ 

2. معانقہ یعنی گلے ملنا سفر سے واپسی پر، طویل جدائی کے بعد یا شدید محبت کی صورت میں جائز ہے۔ 

3. عام حالات میں بلا ضرورت معانقہ یعنی گلے ملنا اور بوسہ لینے سے احتراز کرنا چاہیے۔ 

4. مصافحہ ہر ملاقات میں مستحب عمل ہے۔

بوسہ

بچوں کو بوسہ دینا:

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ:  نبی کریم ﷺ نے حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہما کو بوسہ دیا، تو اقرع بن حابس نے کہا: میرے دس بچے ہیں، میں نے کبھی کسی کو بوسہ نہیں دیا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو رحم نہیں کرتا، اس پر رحم نہیں کیا جاتا۔ [بخاری و مسلم] 

بیٹیوں، رشتہ داروں اور محرم خواتین (جیسے بہنیں، پھوپھیاں، خالائیں) کو بوسہ دینا:

1. حضرت براء رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:  میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے ساتھ ان کے گھر گیا، تو دیکھا کہ ان کی بیٹی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بخار کی وجہ سے لیٹی ہوئی ہیں۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ان کے گال کو بوسہ دیا اور پوچھا: بیٹی! تم کیسی ہو؟  [بخاری: 3917] 

2. حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:  میں نے طور طریقہ، عادات و روش اور نیک خصلتی ، اور ایک روایت میں ہے کہ بات چیت اور کلام میں رسول کریم ﷺ کی مشابہت  حضرت فاطمہ  رضی اللہ تعالیٰ عنہا    سے زیادہ کسی شخص میں نہیں دیکھی،حضرت  فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا    جب آ پ صلی اللہ علیہ وسلم   خدمت میں حاضر ہوتیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم    ان کی طرف (متوجہ ہوکر ) کھڑے ہو جاتے،  پھر ان کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے لیتے ، ان کو بوسہ دیتے (یعنی ان کی دونوں آنکھوں کے درمیان پیشانی کو چومتے) اور پھر ان کو اپنے بیٹھنے کی جگہ پر بٹھاتے،  اسی طرح حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم  جب فاطمہ    رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے ہاں تشریف لے جاتے تو وہ آپ کو دیکھ کر کھڑی ہو جاتیں،  آپ کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے لیتیں،  پھر آپ کو بوسہ دیتیں (یعنی آپ کے دست مبارک کو چومتیں)، اور اپنی جگہ پر بٹھاتیں۔ [بخاری: 3762] 

اہل علم کے اقوال: 

1. امام احمد رحمہ اللہ سے پوچھا گیا:  کیا کوئی مرد اپنی محرم خواتین (مثلاً بہن، بیٹی، ماں) کا بوسہ لے سکتا ہے؟ انہوں نے جواب دیا: اگر سفر سے واپس آئے ہو اور اپنے نفس سے بے خوف ہو تو جائز ہے۔

2. ابن مفلح رحمہ اللہ کے بقول ہونٹوں کا بوسہ ہرگز نہ لیا جائے، بلکہ پیشانی یا سر کا لیاجائے۔  [الآداب الشرعیۃ: 2/256] 

3. "الإقناع" (3/156) میں  لکھا ہے:  سفر سے واپسی پر محرم خواتین کا بوسہ لینے میں کوئی حرج نہیں، بشرطیکہ نفس پر خوف نہ ہو، لیکن ہونٹوں پر نہیں، بلکہ پیشانی یا سر کا لیا جائے۔

4. الموسوعة الفقهية  (14/130) میں  لکھا ہے:   مرد کے لیے کسی دوسرے مرد کے ہونٹوں، ہاتھ یا جسم کے کسی حصے کو بوسہ لینا جائز نہیں، اسی طرح عورت کا عورت کو بوسہ دینا بھی ناجائز ہے، اگر یہ شہوت کی وجہ سے ہو۔ تمام فقہاء اس پر متفق ہیں... البتہ اگر بوسہ ہونٹوں کے علاوہ کسی اور جگہ (مثلاً پیشانی) پر ہو اور محبت، عزت یا رحم کی وجہ سے ہو، جیسے ملاقات یا رخصتی کے وقت، تو اس میں کوئی حرج نہیں۔" 

خلاصہ:

1. بچوں کا بوسہ لینا رحمت اور پیار کا اظہار ہے، اور شریعت میں  اس کی ترغیب دی گئی ہے۔ 

2. محرم خواتین (بیٹی، بہن، ماں وغیرہ) کو بوسہ دینا جائز ہے، لیکن ہونٹوں پر نہیں، بلکہ پیشانی یا سر پر دیا جائے۔ 

3. سفر سے واپسی یا خاص مواقع پر بوسہ لینے کی گنجائش ہے، بشرطیکہ شہوت یا فتنے کا اندیشہ نہ ہو۔ 

4. غیر محرم کا بوسہ لینا حرام ہے۔

بیوی کا بوسہ لینا:

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ:  نبی  کریم ﷺ اپنی بعض بیویوں کا بوسہ لیتے، پھر نماز پڑھتے اور وضو نہیں کرتے تھے۔   [ابو داود، صححہ الالبانی، مسند احمد (6/207) (صحیح) ‏‏‏‏] 

ایک اور روایت میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:  رسول اللہ ﷺ روزے کی حالت میں بوسہ لیتے اور اپنی بیوی سے مباشرت (چھونا وغیرہ) کرتے تھے، لیکن آپ ﷺ تم سب سے زیادہ اپنے نفس پر قابو رکھنے والے تھے۔

شرعی حکم:

شوہر کے لیے اپنی بیوی کے جسم سے لطف اندوز ہونا جائز ہے، چاہے بوسہ لے کر ہو یا دیگر جائز طریقوں سے۔ 

بوسہ کی اقسام:

بعض علماء نے بوسے کو مندرجہ ذیل اقسام میں تقسیم کیا ہے: 

1. محبت کا بوسہ: بچے کے رخسار پر۔

2. رحمت کا بوسہ: والدین کے سر یا پیشانی پر۔ 

3. شفقت کا بوسہ: بھائی کی پیشانی پر۔ 

4. شہوت کا بوسہ: بیوی یا لونڈی کے ہونٹوں پر۔ 

5. تکریم واحترام کا بوسہ: علماء یا والدین کے ہاتھ پر۔ 

6. عبادت کا بوسہ: حجر اسود (حاجی یا معتمر کے لیے)۔ 

میت کو بوسہ دینا:   

1. بخاری  شریف میں روایت ہے کہ:  حضرت ابوبکر ؓ اپنی رہائش گاہ سُخ سے گھوڑے پر سوار ہو کر آئے۔ پھر سواری سے اتر کر مسجد میں داخل ہوئے اور لوگوں سے بالکل ہم کلام نہ ہوئے۔ سیدھے عائشہ ؓ کے پاس آئے اور رسول اللہ ﷺ کا قصد کیا۔ آپ کو دھاری دار یمنی چادر میں ڈھانپا گیا تھا۔ انہوں نے آپ کے چہرہ انور سے کپڑا اٹھایا، پھر آپ پر جھکے اور آپ کے چہرہ انور کو بوسہ دیا اور رو پڑے، پھر فرمایا: میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں! اللہ تعالٰی آپ پر دو موتیں جمع نہیں کرے گا۔ بہرحال ایک موت جو آپ کے لیے لکھی جا چکی تھی وہ تو ہو چکی۔ [بخاری: 1241] 

2. حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:  میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا کہ آپ نے حضرت عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ کی میت کو بوسہ دیا، یہاں تک کہ میں نے دیکھا کہ آپ کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔  [ابو داود، ترمذی، ابن ماجہ، احمد:شیخ البانی نے صحیح قرار دیا] 


 

خوبصورت نوجوان لڑکے (اَمرد) کو بوسہ دینا: 

- اگر لڑکا خوبصورت نہ ہو، تو عام مردوں کی طرح اسے رخصت  کرتے وقت یا شفقت کی نیت سے بوسہ دینا جائز ہے، بشرطیکہ شہوت کی نیت نہ ہو۔ 

- اگر لڑکا خوبصورت ہو اور اس کی طرف میلان ہو، تو اس کا حکم عورت جیسا ہے، یعنی مصافحہ، بوسہ یا معانقہ  یعنی گلے ملنا حرام ہے، کیونکہ یہ شہوت پر مبنی ہوگا۔ 

 

خلاصہ:

1. بیوی کا بوسہ لینا جائز ہے، بلکہ مستحب ہے۔ 

2. میت کو بوسہ دیناجائز ہے، جیسا کہ نبی ﷺ اور صحابہ سے ثابت ہے۔ 

3. خوبصورت لڑکوں کو بوسہ دینا اگر شہوت کی نیت سے ہو تو حرام ہے۔ 

4. ہونٹوں پر بوسہ صرف بیوی کے لیے خاص ہے، غیر محرم کے لیے ہرگز جائز نہیں۔


 

ہاتھ چومنا

اکثر علمائے کرام نے والد، عالم دین اور عادل بادشاہ کے ہاتھ کو  بطور عزت و احترام چومنا جائز بتایا ہے۔ البتہ امام مالک وغیرہ نے اسے مکروہ قرار دیا اور اسے "سجدہ صغری" سے تعبیر کیا ہے۔

دلائل:

1. حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ: ہم نبی کریم ﷺ کے قریب گئے اور آپ کا ہاتھ چوما۔[ابو داود، البانی نے اس روایت کو ضعیف قرار دیا]

2. حضرت صفوان بن عسال رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: ایک یہودی نے اپنے ساتھی سے کہا: چلو اس نبی کے پاس چلیں۔ وہ رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے اور نو آیات بینات کے بارے میں پوچھا... پھر انہوں نے آپ کے ہاتھ اور پیر چومے اور کہا: ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ نبی ہیں۔[ابو داود، ترمذی، نسائی، ابن ماجہ - ترمذی نے اس روایت کو حسن صحیح کہا، نووی نے اسناد صحیح قرار دیا، البانی نے ضعیف کہا]

3.امام  بخاری کی "الأدب المفرد" میں ہے: بعض تابعین سلمہ بن الاکوع کے پاس آئے، انہوں نے ایک ہاتھ دکھایا (راوی کہتے ہیں: اونٹ کے کھر جیسا) تو ہم نے کھڑے ہو کر اسے چوما۔[البانی نے صحیح قرار دیا]

اہل علم کے اقوال:

1. امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

"کسی شخص کا ہاتھ اس کے زہد، صلاح، علم، شرافت یا دینی امور کی وجہ سے چومنا  مکروہ نہیں ہے بلکہ مستحب ہے۔ لیکن اگر یہ اس کی دولت، طاقت یا دنیاوی حیثیت کی وجہ سے ہو تو یہ عمل سخت مکروہ ہے"۔[الأذكار للنووي (1/262)]

2. شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:ہاتھ چومنا صحابہ کا عام طریقہ نہیں رہا بلکہ صحابہ کا اس پر بہت کم عمل رہا ۔ لوگوں سے اپنا ہاتھ چومنے کے لیے پیش کرنا یا اس کا ارادہ کرنا بلا اختلاف ممنوع ہے، خواہ کوئی بھی ہو۔ البتہ اگر چومنے والا خود یہ اقدام کرے تو اس کی گنجائش ہے۔[مختصر الفتاوي المصریہ (2/26)]

3. شیخ ابن باز رحمہ اللہ فرماتے ہیں:صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم عام طور پر نبی کریم ﷺ سے ملاقات پر مصافحہ ہی کرتے تھے، ہاتھ نہیں چومتے تھے۔ بعض اوقات کسی صحابی نے آپ کا ہاتھ چوما بھی، لیکن یہ کم واقع ہوا۔ سنت یہی ہے کہ عام حالات میں مصافحہ کیا جائے۔ اگر کبھی کسی شرعی مصلحت کے تحت ہاتھ چوم لیا جائے تو کوئی حرج نہیں، لیکن اسے عادت بنانا سنت کے خلاف ہے"۔[فتاوى نور على الدرب]

4. شیخ البانی رحمہ اللہ کہتے ہیں: ہاتھ چومنے کے بارے میں متعدد احادیث و آثار موجود ہیں جو اس کے جواز پر دلالت کرتے ہیں، بشرطیکہ:

1. یہ عادت نہ بن جائے

2. عالم میں تکبر پیدا نہ ہو

3. سنت مصافحہ معطل نہ ہو۔[السلسلة الصحيحة]

ہاتھ چومنا جائز تو ہے لیکن بہتر یہی ہے کہ:

-   والدین، اساتذہ یا بزرگان دین کے ہاتھ صرف خاص مواقع پر چومے جائیں۔

- اسے عادت نہ بنایا جائے۔

- مصافحہ کی سنت کو ترجیح دی جائے۔

- کسی کی دنیاوی حیثیت کی وجہ سے ہاتھ نہ چوما جائے۔


 

سر یا پیشانی کو بوسہ دینا

آج کل سر یا پیشانی کو بوسہ دینا عام ہے، حالانکہ شرعی نصوص میں اس کا ذکر بہت کم بلکہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ نبی کریم ﷺ سے اس بارے میں کوئی صحیح حدیث ثابت نہیں ہے۔ شیخ عبدالرحمن البراک نے اسے مباح قرار دیا ہے، یعنی اصل حکم جواز پر ہے، لیکن اسے عادت نہیں بنانا چاہیے۔ 

پیر یا پاؤں کو بوسہ دینا:

حضرت صفوان بن عسال رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ: 

"ایک یہودی نے اپنے ساتھی سے کہا: چلو اس نبی کے پاس چلیں۔ وہ رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے اور نو واضح احکام کے بارے میں پوچھا... پھر انہوں نے آپ کے ہاتھ اور پیر چومے اور کہا: ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ نبی ہیں۔ [ابو داود، ترمذی، نسائی، ابن ماجہ – ترمذی نے "حسن صحیح" کہا، نووی نے اسناد صحیح قرار دیا، البانی نے ضعیف کہا] 

لیکن:

- اکثر اہل علم نے "پیر چومنا" والے الفاظ کو شاذ یعنی (ضعیف/منکر) قرار دیا ہے، کیونکہ یہ نبی ﷺ یا صحابہ سے ثابت نہیں ہے۔ 

- نہ تو نبی ﷺ سے، نہ ہی سلف صالحین سے پیر چومنے کی کوئی صحیح دلیل ملتی ہے۔ 

لہٰذا:

- والدین یا کسی بزرگ کے پیر چومنا درست نہیں ہے، بلکہ اس سے پرہیز کرنا ہی افضل ہے۔

- ہاتھ چومنا (اگرچہ جائز ہے)  لیکن اس کی بھی عادت نہیں بنانا چاہیے، کیونکہ اصل سنت مصافحہ ہے۔ 


 


 



0 تبصرے:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔