بدھ، 7 مئی، 2025

0 تبصرے

 

وطن سے محبت

 اور  دین ِ اسلام کی تعلیمات

(خطابِ جمعہ)

از قلم : ڈاکٹر مبصرالرحمن قاسمی


إِنَّ الْحَمْدَ لِلَّهِ، نَحْمَدُهُ وَنَسْتَعِينُهُ وَنَسْتَغْفِرُهُ، وَنَعُوذُ بِاللهِ مِنْ شُرُورِ أَنْفُسِنَا وَمِنْ سَيِّئَاتِ أَعْمَالِنَا، مَنْ يَهْدِهِ اللهُ فَلَا مُضِلَّ لَهُ، وَمَنْ يُضْلِلْ فَلَا هَادِيَ لَهُ، وَأَشْهَدُ أَن لَّا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ، وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ، صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَعَلَى آلِهِ وَصَحْبِهِ وَسَلَّمَ تَسْلِيماً كَثِيرًا. )يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آَمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ حَقَّ تُقَاتِهِ وَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنْتُمْ مُسْلِمُونَ( [آل عمران:102]، )يَا أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُمْ مِنْ نَفْسٍ وَاحِدَةٍ وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالًا كَثِيرًا وَنِسَاءً وَاتَّقُوا اللَّهَ الَّذِي تَسَاءَلُونَ بِهِ وَالْأَرْحَامَ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلَيْكُمْ رَقِيبًا( [النساء:1]، )يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آَمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَقُولُوا قَوْلًا سَدِيدًا * يُصْلِحْ لَكُمْ أَعْمَالَكُمْ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِيمًا( [الأحزاب:70-71].

أَمَّا بَعْدُ:

محترم حضرات!

محترم حضرات!

الحمدللہ! تمام تعریفیں اُس ربِّ کریم کے لیے ہیں جس نے ہمیں آزادی کی نعمت عطا فرمائی، اور ہمیں ایک خوبصورت، باوقار اور عظیم وطن سے نوازا۔ وطن صرف زمین کا ایک ٹکڑا نہیں ہوتا، بلکہ یہ ہماری شناخت، ہمارے ماضی، حال اور مستقبل کا امین ہوتا ہے۔ جس طرح ماں کی گود ہمیں سکون دیتی ہے، ویسے ہی وطن کی فضا، اس کی مٹی، اس کے گلی کوچے ہمارے لیے عزت و افتخار کا ذریعہ ہوتے ہیں۔آئیے! آج ہم اپنے دلوں میں وطن کی محبت کو تازہ کریں، اور یہ عہد کریں کہ ہم اپنے وطن کی خدمت، اس کی ترقی اور اس کے دفاع کے لیے ہر ممکن کوشش کریں گے۔

 دین اسلام اور وطن ؛   انسان کے لیے دو سب سے بڑی نعمتیں ہیں۔ کوئی انسان ایسا نہیں جو اپنے وطن پر فخر نہ کرے۔ وطن ہر انسان کی بچپن کی گود ہوتا ہے، اس کے قدموں کی نشوونما کی جگہ ہوتا ہے، اس کی طفولیت کی چراگاہ ہوتا ہے، اس کی جوانی کا سہارا ہوتا ہے، اس کی یادوں کا سرچشمہ ہوتا ہے، اس کے آباواجداد کا گھر ہوتا ہے، اور اس کے بچوں اور پوتوں کا مستقبل ہوتا ہے۔

اگر ہم جانور کی بات کریں تو وہ  بھی اپنی فطرت میں وطن کی محبت کی ایک گہری چنگاری لیے پھرتے ہیں۔ وہ کسی اور سرزمین پر چین نہیں پاتے، نہ وہاں دل لگاتے ہیں۔ جب وقت آئے، تو وہ اپنے آشیانے، اپنی پہچان، اپنی مٹی کے لیے ہر قیمتی شے قربان کر دیتے ہیں، پرندوں کو دیکھیں! جنہیں اگرچہ ریشم کے بستر، سنہری پنجرے اور قیمتی دانے پیش کیے جائیں، پھر بھی وہ اپنے سادہ مگر محفوظ گھونسلوں کو ترجیح دیتے ہیں، کہ ان کے لیے راحت کا مفہوم وطن سے بندھا ہے، نہ کہ عیش و عشرت سے۔سمندر کی تہوں میں بسی مچھلیاں، جو موجوں کے دوش پر ہزاروں میل کا سفر طے کرتی ہیں، آخر کار پلٹ کر وہیں آتی ہیں جہاں سے ان کا تعلق جڑا ہوتا ہے ،  اپنے آبی وطن کی آغوش میں۔ صحراؤں کی ریت پر چلنے والی ایک چھوٹی سی چیونٹی بھی، اپنے حجم میں کتنی ہی حقیر سہی، مگر عزم میں عظیم ہے۔ دن بھر کا سفر ہو، چٹانیں ہوں یا گرم ریت، شام ہوتے ہی وہ اپنے گھر کی راہ لیتی ہے ، گویا اسے بھی معلوم ہے کہ قرار صرف اپنی خاک میں ہے۔کچھ مخلوقات ایسی بھی ہیں جنہیں اگر ان کے وطن سے جدا کر دیا جائے تو ان کے وجود کی ڈور ٹوٹ جاتی ہے، وہ مرجھا جاتی ہیں، مٹ جاتی ہیں۔ یہ جذبہ، یہ کشش، یہ لازوال وفاداری اس بات کی دلیل ہے کہ وطن کی محبت اللہ تعالیٰ نے ہر جاندار کی سرشت میں رکھ دی ہے۔ تو پھر انسان، جو اشرف المخلوقات ہے، اس فطری صفت سے کیسے خالی ہو سکتا ہے؟ درحقیقت، انسان میں تو یہ جذبہ سب سے زیادہ شدید اور شعوری ہوتا ہے، وہ نہ صرف محسوس کرتا ہے بلکہ اپنے وطن کے لیے جان قربان کر دینے کا جذبہ بھی رکھتا ہے۔اسی فطری تعلق کی عظمت کو واضح کرنے کے لیے ربِّ ذوالجلال نے بلد امین ( امن والے شہر ) کی قسم کھائی، اور فرمایا:

﴿ وَهَٰذَا ٱلْبَلَدِ ٱلْأَمِينِ ﴾ التين: 3
"اور قسم ہے اس امن والے شہر (مکہ) کی۔"

اور ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا:

﴿ أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا جَعَلْنَا حَرَمًا آمِنًا ﴾ العنكبوت: 67
"کیا وہ دیکھتے نہیں کہ ہم نے اس شہر (مکہ) کو پرامن بنایا؟"

یہی آیات ہمیں باور کراتی ہیں کہ وطن کی محبت نہ صرف فطری جذبہ ہے، بلکہ ربانی شعور بھی ہے، جو انسان کو اپنی سرزمین سے محبت، وفاداری اور حفاظت کی طرف بلاتا ہے۔

حضراتِ گرامی!

کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ ایک انسان، اپنی آرام طلب فطرت کے باوجود، تپتے صحرا کی جھلسا دینے والی دھوپ میں کیسے زندگی بسر کرتا ہے؟ جہاں ریت کے ذرات بھی انگاروں کی مانند تپتے ہیں، اور درجہ حرارت ساٹھ درجے کو چھو لیتا ہے۔ یا پھر وہ سرد و ساکت سرزمینیں  قطب شمالی کے برف پوش علاقے جہاں ہوا بھی خنجر کی طرح چبھتی ہے، اور سانسیں برف میں قید ہو جاتی ہیں۔ کہیں وہ خطرناک جنگلات جن میں ہر قدم پر ایک ان دیکھے خطرے کا سایہ منڈلاتا ہے، یا بے آب و گیاہ بیابان، جہاں تنہائی اور خوف ہم سفر ہوتے ہیں، تو سوچنے کا مقام ہے کہ انسان آخر ان سب مقامات پر کیوں رہتا ہے؟ کس جذبے کے تحت وہ اپنے آرام و آسائش کو ترک کر کے ان کٹھن حالات کو قبول کرتا ہے؟یہ کوئی مجبوری نہیں، کوئی نفع کا سودا نہیں ، یہ محبت ہے، اور وہ بھی وطن سے محبت! وہی محبت جو انسان کے دل میں اس مٹی کی نسبت سے پیدا ہوتی ہے جہاں اس نے آنکھ کھولی، پہلا قدم رکھا، پہلی بار مسکرایا، اور جہاں کے آسمان تلے اُس نے اپنے رب کو پکارا۔
یہ وہی مٹی ہے جس سے اس کے رشتے بندھے، اور جس کی فضاؤں میں اس نے اپنے رب کی عبادت کی، جس کی زمین سے وہ رزق پاتا ہے، اور جس کی ہواؤں میں اسے سکون میسر آتا ہے۔ یہ عشقِ وطن ہے، جو انسان کو سختیوں میں جینا سکھاتا ہے، جو اسے قربانی کا حوصلہ دیتا ہے، اور جو اس کے وجود کو اپنے وطن کی خاک سے ہمیشہ کے لیے وابستہ کر دیتا ہے۔

میرے بھائیو! اسلام نے وطن کی محبت کو فطرت کا حصہ قرار دیا۔ یہ حق ہے اس زمین کا جس کی خیرات ہم کھاتے ہیں، جس کے آسمان تلے ہم اللہ کی بندگی کرتے ہیں۔ اس کا سب سے بڑا حق ہے کہ ہم اس سے سچی محبت کریں۔ ہمارے نبی  کریم ﷺنے مکہ مکرمہ کو الوداع کہتے ہوئے فرمایا تھا:

"ما أطيبكِ من بلد، وأحبَّكِ إليَّ، ولولا أن قومي أخرجوني منكِ ما سكنتُ غيركِ"(رواه الترمذي، الحديث رقم 3926، ص880)

(اے مکہ! تو کتنا پاکیزہ شہر ہے، تو مجھے کتنا پیارا ہے! اگر میری قوم نے مجھے تجھ سے نہ نکالا ہوتا، میں تیرے سوا کہیں اور نہ رہتا۔)۔

 یہ الفاظ غم، حسرت اور شوق سے بھرے تھے۔ اگر نبی  کریم صلی اللہ علیہ وسلم،  جو پوری انسانیت کے معلم ہیں، اپنے وطن سے ایسی محبت کرتے تھے، تو ہم کیوں نہ کریں؟

آپ ﷺجب جحفہ  نامی مقام پہنچے تو مکہ کی یاد نے آپ کے دل کو بے قرار کردیا۔ تب اللہ  تعالیٰ نے آیت نازل فرمائی:

(إِنَّ الَّذِي فَرَضَ عَلَيْكَ الْقُرْآنَ لَرَادُّكَ إِلَى مَعَادٍ) [القصص: 85]

( جس اللہ نے آپ پر قرآن نازل فرمایا ہے وه آپ کو دوباره پہلی جگہ لانے والا ہے،)  ۔یہ وہ  وعدہ تھا کہ وطن کی محبت کبھی رائیگاں نہیں جاتی۔ جب آپ ﷺمدینہ تشریف لائے، تو آپ نے اسے اپنا وطن بنا لیا اور آپ ﷺنے دعا مانگی:

"اللهم حبب إلينا المدينة كحبنا مكة أو أشد"(رواه البخاري برقم 4-99)

(اے اللہ! ہمیں مدینہ سے ایسی محبت عطا فرما جیسے مکہ سے ہے، بلکہ اس سے بھی زیادہ)۔ آپ ﷺنے مدینہ کے لیے برکت مانگی، اس کی کھجوروں، اس کے پانی، اس کی زمین کے لیے دعائیں کیں۔ یہ وطن کی محبت کا عملی نمونہ ہے۔ آپ ﷺفرمایا کرتے تھے:

اللهم بارك لنا في تمرنا، وبارك لنا في مدينتنا، وبارك لنا في صاعنا، وبارك لنا في مدنا، اللهم إن إبراهيم عبدك وخليلك ونبيك، وإني عبدك ونبيك، وإنه دعاك لمكة، وأنا أدعوك للمدينة بمثل ما دعا لمكة، ومثله معه"(رواه مسلم برقم 1373).

اے اللہ کے بندو! قرآن نے وطن کی محبت کو نفس اور دین سے جوڑا ہے۔ اللہ فرماتا ہے:

وَلَوْ أَنَّا كَتَبْنَا عَلَيْهِمْ أَنْ اقْتُلُوا أَنفُسَكُمْ أَوْ اخْرُجُوا مِنْ دِيَارِكُمْ مَا فَعَلُوهُ إِلاَّ قَلِيلٌ مِنْهُمْ [النساء: 66]

 کہ لوگ اپنی جانوں اور اپنے گھروں کو چھوڑنے سے گھبراتے ہیں۔ یہ فطرت ہے کہ انسان اپنے وطن سے جڑا رہتا ہے۔ وطن اس کی جائے پیدائش ہے، اس کی عبادت کی جگہ ہے، اس کی عزت اور شرف کا مقام ہے۔ اسی زمین سے وہ رزق پاتا ہے، اسی کے پانی سے سیراب ہوتا ہے، اسی کی حفاظت کرتا ہے۔ وطن اللہ کی نعمت ہے، اور وطن کی محبت فطرت کا حصہ ہے۔

انسان اپنے وطن کو اس وقت تک نہیں چھوڑتا جب تک کہ کوئی مجبوری اسے اس سے دور نہ کرے، جیسا کہ ہمارے نبی  حضرت محمد ﷺکے ساتھ ہوا، جب کافروں نے انہیں مکہ سے نکال دیا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

(إِلاَّ تَنصُرُوهُ فَقَدْ نَصَرَهُ اللَّهُ إِذْ أَخْرَجَهُ الَّذِينَ كَفَرُوا ثَانِيَ اثْنَيْنِ إِذْ هُمَا فِي الْغَارِ إِذْ يَقُولُ لِصَاحِبِهِ لا تَحْزَنْ إِنَّ اللَّهَ مَعَنَا) [التوبة: 40]

(اگر تم ان (نبی کریم ﷺ) کی مدد نہ کرو تو اللہ ہی نے ان کی مدد کی اس وقت جبکہ انہیں کافروں نے (دیس سے) نکال دیا تھا، دو میں سے دوسرا جبکہ وه دونوں غار میں تھے جب یہ اپنے ساتھی سے کہہ رہے تھے کہ غم نہ کر اللہ ہمارے ساتھ ہے)۔

 اسی طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام کو بھی ان کے وطن سے نکلنے پر مجبور ہونا پڑا، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

فَلَمَّا قَضَى مُوسَى الأَجَلَ وَسَارَ بِأَهْلِهِ آنَسَ مِنْ جَانِبِ الطُّورِ نَاراً [القصص: 29]

(جب حضرت موسیٰ علیہ السلام نے مدت پوری کرلی اور اپنے گھر والوں کو لے کر چلے تو کوه طور کی طرف آگ دیکھی)۔

 امام ابو بکر بن العربی المالکی کہتے ہیں: "اہل علم نے کہا ہے کہ جب موسیٰ ؑ نے مدت پوری کی تو انہیں اپنے گھر والوں اور وطن کی یاد ستانے لگی"۔ (أحكام القرآن، 3/1470، تحقیق: علی محمد البجاوي)

میرے بھائیو اور نوجوانو! وطن سے نکلنا اور وطن کو چھوڑنا؛ انسانی  نفس کے لیے انتہائی سخت اور دشوار ہوتا ہے، مہاجرین صحابہ کی فضیلتوں میں یہ بھی شامل ہے کہ انہوں نے اللہ کے لیے اپنے وطنوں کی قربانی دی۔اسی لیے مہاجرین کو انصار پر وطن چھوڑنے کی برتری حاصل ہے، جو اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ وطن چھوڑنا نفس کے لیے کوئی آسان کام نہیں۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے اس پر ان کی تعریف کی اور فرمایا:

(لِلْفُقَرَاءِ الْمُهَاجِرِينَ الَّذِينَ أُخْرِجُوا مِنْ دِيارِهِمْ وَأَمْوَالِهِمْ يَبْتَغُونَ فَضْلاً مِنْ اللَّهِ وَرِضْوَاناً وَيَنْصُرُونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ أُوْلَئِكَ هُمْ الصَّادِقُونَ)[الحشر: 8].

 (فیء کا مال) ان مہاجر مسکینوں کے لیے ہے جو اپنے گھروں سے اور اپنے مالوں سے نکال دیئے گئے ہیں وه اللہ کے فضل اور اس کی رضامندی کے طلب گار ہیں اور اللہ تعالیٰ کی اور اس کے رسول کی مدد کرتے ہیں یہی راست باز لوگ ہیں) [الحشر: 8]۔

حضرت بلال رضی اللہ عنہ، جنہوں نے اپنے عقیدے اور دین کے لیے سب کچھ قربان کر دیا، وہی بلال تھے جو دار ہجرت میں مکہ ، اس کی وادیوں اور مقامات کے شوق میں یہ  اشعار گنگایا کرتے تھے:

أَلَا لَيْتَ شِعْرِي هلْ أبِيتَنَّ لَيْلَةً ... بوَادٍ وحَوْلِي إذْخِرٌ وجَلِيلُ

وَهلْ أرِدَنْ يَوْمًا مِيَاهَ مَجَنَّةٍ ... وهلْ يَبْدُوَنْ لي شَامَةٌ وطَفِيلُ

(کاش میں جان سکتا! کیا میں ایک رات وادی میں گزاروں گا، جہاں میرے اردگرد اذخر (خوشبودار گھاس) اور جلیل (ایک پودا) ہو؟ اور کیا میں کبھی مجنہ کے میٹھے پانیوں کو پینے کے لیے جاؤں گا؟ کیا وہ مجھے شامہ اور طفیل (پہاڑیاں) دکھائی دیں گی؟"

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے مکہ کی سرسبزی کی خبر سن کر نبی ﷺکو بلایا۔ جب آپ نے مکہ کی خوبصورتی کا ذکر سنا، تو فرمایا: حسبك يا أُصَيْل لا تُحْزِنّا (اے اصیل! بس کرو، ہمیں غمگین نہ کرو)۔یہ وطن کی محبت تھی جو ان کے دلوں میں موجزن تھی۔

میرے بھائیو ! سچا مسلمان اپنے وطن سے سب سے زیادہ وفادار ہوتا ہے۔ وہ اس کے لیے جان دیتا ہے، مال دیتا ہے، ہر قربانی دیتا ہے۔ یہ محبت کوئی دعویٰ نہیں، بلکہ فطرت ہے، عقیدہ ہے، سنت ہے۔ ایک عرب  بدوی سے پوچھا گیا کہ صحرا  میں جب گرمی کا سخت موسم ہوتا ہے  تو تم  کیا کرتے ہو؟ اس نے کہا: "میں ایک میل چلتا ہوں، پسینے سے تر ہوجاتا ہوں، اپنی لاٹھی گاڑتا ہوں، اس پر کپڑا ڈالتا ہوں، اور اس کے سائے میں بیٹھ جاتا ہوں، یقین جانو! وہ لمحہ میرے لیے کسریٰ کے ایوان سے کم نہیں لگتا۔" یہ ہے وطن کی محبت!

حضرات ! آئیے! اب ہم اپنے پیارے وطن "ہندوستان" کی بات کرتے ہیں۔

یہ وہ سرزمین ہے جہاں اسلام تلوار سے نہیں بلکہ کردار، اخلاص، علم اور محبت سے پھیلا۔ یہاں کے علما، صوفیا، مجاہدین اور عوام نے اس ملک کو صرف آباد نہیں کیا بلکہ اس کی روحانی، تعلیمی اور سیاسی بنیادوں میں اپنا خون شامل کیا۔

-       سن 1857ءکی پہلی جنگ آزادی کو انگریزوں نے "جنگ غدر" کہا، لیکن اصل حقیقت یہ ہے کہ یہ تحریک علمائے کرام کی قیادت میں ایک منظم جہاد تھا۔

-       مولانا فضل حق خیرآبادیؒ نے نہ صرف وطن کے دشمن کے خلاف فتوٰی دیا بلکہ انگریزوں کے خلاف عسکری قیادت بھی کی۔ بعد ازاں انہیں جزیرۂ انڈمان (کالا پانی) میں شہید کیا گیا۔

- مولانا احمد اللہ شاہ مدراسیؒ، جنہیں پورے جنوبی ہند میں "شیرِ دکن" کہا جاتا تھا، انگریزوں کے خلاف کئی محاذوں پر لڑے۔

-سید احمد شہیدؒ اور شاہ اسماعیل شہیدؒنے وطن کی خاطر شہادت نوش کی۔

یہ وہ علماء تھے جنہوں نے وطن عزیز ہندوستان میں مدارس کو قلعۂ اسلام بنایا، مساجد کو مرکزِ حریت بنایا، اور محراب و منبر کو ملک کے دشمن کے خلاف آوازِ بغاوت بنایا۔

-       سال 1866 میں قائم ہونے والا دارالعلوم دیوبند صرف ایک مدرسہ نہیں، بلکہ حب وطن کی ایک تحریک ہے۔ یہاں سے نکلنے والے علما نے جہاں اسلام کی تعلیم دی، وہیں انگریزوں کے خلاف پورے ہندوستان میں انقلابی لہر دوڑائی اور ملک کے ہر شہری کو ملک سے محبت کا  دائمی پیغام دیا۔

- شیخ الہند مولانا محمود حسنؒ نے "تحریکِ ریشمی رومال" کے ذریعے خلافت و آزادی کی خفیہ جدوجہد کی۔ وہ مالٹا میں قید ہوئے لیکن آزادی کی امید نہ توڑی۔ان کے شاگرد مولانا حسین احمد مدنیؒ نے متحدہ قومیت کی آواز بلند کی کہ "ہندوستان سب کا وطن ہے، اور ہم اس کی حفاظت اپنے ایمان کا حصہ سمجھتے ہیں!

میرے بھائیو! ہندوستان کے چپے چپے پر موجود لاکھوں مساجد و مدارس صرف دینی درسگاہیں نہیں ہیں بلکہ:

یہ مدارس اور مساجد ؛ ہندوستانی قوم کی اخلاقی تربیت گاہیں ہیں۔

یہ امن، صبر، مساوات اور اخوت کی اکیڈمیاں ہیں۔

یہ  مدارس اور مساجد ملک سے وفاداری اور جذبۂ خدمت کے مراکزہیں۔

کیا دارالعلوم دیوبند، ندوۃ العلماء لکھنؤ، جامعہ سلفیہ بنارس، یا علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کو بھلایا جا سکتا ہے؟

یہی وہ ادارے ہیں جنہوں نے سرسید، مولانا شبلی، مولانا آزاد، مولانا ابواللیث ندوی، مولانا عبدالباری فرنگی محلی اور  مولانا سید ابوالحسن علی ندوی جیسے رہنما اور محبین وطن پیدا کیے، یہ شخصیات آج ہم سب کے لیے نمونہ ہیں، جنھوں نے اپنی پوری  پوری زندگیاں وطن کی محبت اور اہل وطن کی خدمت کے لیے وقف کردی تھیں۔

قرآن کہتا ہے:

" اخْرُجُوا مِن دِيَارِكُم" (النساء: 66)

وطن سے نکلنا گویا جان سے نکلنے کے مترادف ہے۔

نبی کریم ﷺ نے دعا فرمائی:

"اللّٰہم حبب إلینا المدینۃ کحبنا مکۃ أو أشد"

(اے اللہ! مدینہ کی محبت ہمیں مکہ کی محبت جتنی یا اس سے بھی زیادہ عطا فرما!)(بخاری و مسلم)

کیا وطن کی محبت پر اس سے زیادہ واضح دلیل ہو سکتی ہے؟

آج بھی جب پیارے وطن ہندوستان کو ڈاکٹروں، انجینئروں، فوجیوں، ماہرینِ تعلیم، سائنسدانوں، آئی اے ایس افسران یا عدلیہ کے دیانت دار نمائندوں کی ضرورت پڑتی ہے تو مسلمانوں کی موجودگی قابلِ رشک ہوتی ہے۔

مسلمان سائنسدان ISRO، DRDO اور دیگر اہم اداروں میں خدمات انجام دے رہے ہیں

-       ڈاکٹر اے پی جے عبدالکلام  ایک مسلمان ہی تھے جو پورے  ہندوستان کا فخر ہیں

-       - اشفاق اللہ خانؒ – کاکوری کیس کے ہیرو، جنہوں نے ملک کے لیے جان دے دی۔

-مولانا ابوالکلام آزادؒ – ملک کے پہلے وزیر تعلیم تھے، جنہوں نے جامعہ ملیہ اسلامیہ کو نئی پہچان دی۔

اگر کوئی یہ کہے کہ مسلمان وطن دشمن ہیں تو وہ تاریخ کے مجرم ہیں، اور سچائی کے قاتل!

جب انگریزوں کے ایجنٹ خاموش تھے، تو یاد رکھنا مسلمان عالم قید میں تھے!

جب دوسروں نے انگریزوں کا ساتھ دیا،  تومسلمان جیلوں میں سڑ رہے تھے!

جب دولت، حکومت اور مراعات کی لالچ میں کئی قومیں بک گئیں، مسلمان خون دے رہے تھے!

میرے بھائیو اور نوجوانو! یہ وطن ہمارا ہے، اس کی مٹی ہماری ہے، اس کے دریا، پہاڑ، گلیاں، زبانیں، تہذیب، سب ہماری شناخت ہیں۔ ہمارا دین؛ ہمیں وطن سے محبت، عدل و انصاف، وفاداری اور خدمت کا حکم دیتا ہے۔

ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے بچوں کو حب الوطنی، قربانی، اور یکجہتی کا درس دیں۔ نفرتوں کو ختم کریں، اخوت کو عام کریں، تاکہ یہ ملک ترقی کرے اور دنیا میں امن و اخلاق کی مثال بنے۔

اے ایمان والو! وطن کی محبت ہمارے ایمان کا حصہ ہے۔ یہ وہ جذبہ ہے جو ہمیں اپنی زمین کی حفاظت، اس کی ترقی، اور اس کی عزت کے لیے کام کرنے پر مجبور کرتا ہے۔ آئیں! اس محبت کو اپنے اعمال میں ڈھالیں، وطن کی خدمت کریں، اور اسے دنیا میں سربلند کریں۔ یہ ہمارا فرض ہے، یہ ہماری فطرت ہے، اور یہ ہمارا ایمان ہے!

اے اللہ! ہمارے وطن کی حفاظت فرما!

اے اللہ! ہمارے علماء، مدارس، مساجد اور دینی اداروں کی حفاظت فرما!

اے اللہ! جو اس ملک کے خیر خواہ ہیں، ان کی نصرت فرما، اور جو شر کے خواہاں ہیں، ان کے شر سے ہمارے پیارے وطن کی حفاظت فرما۔آمین یا رب العالمین!

 

و آخر دعوانا أن الحمد للہ رب العالمین۔

 

0 تبصرے:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔