جمعہ، 23 مئی، 2025

MUKHANNAS LOG AUR ISLAM KI TALIMAAT- Third gender or third sex

0 تبصرے

 

از قلم – ڈاکٹر مبصرالرحمن قاسمی

تیسری جنس کے ساتھ ہمارا برتاو کیسا ہونا چاہیے؟

اس سلسلے میں اسلام کی تعلیمات کیا ہیں؟

1- اس سلسلے میں پہلی بات یہ ہے کہ ہمیں "مخنث" اور "خنثی" میں فرق سمجھنے کی ضرورت ہے۔ مرد اور عورت کے علاوہ تیسری جنس کو خنثی کہا جاتا ہے، نہ کہ مخنث۔

 

2- تیسری جنس سے مراد خنثیٰ مشکل ہے، یعنی وہ شخص جس میں مردانہ اور زنانہ دونوں اعضاء موجود ہوں۔ اس قسم کے فرد کی اگر مردانگی کی نشاندہی کرنے والی کوئی علامت ظاہر ہو جائے، جیسے داڑھی کا اگنا، تو اس کے ساتھ مردوں والا سلوک کیا جائے گا۔

 

3- اسی طرح اگر زنانہ علامات ظاہر ہوں، جیسے حیض آنا اور چھاتیوں کا ابھرنا، تو اس بنیاد پر اس کے ساتھ عورتوں والا سلوک کیا جائے گا۔ علامہ خلیل المالکی نے المختصر میں فرمایا: "اگر وہ ایک عضو سے پیشاب کرے، یا زیادہ سے کرے، ، یا اس کی داڑھی اگ آئے، یا اسے حیض آئے یا منی خارج ہو تو کوئی اشکال نہیں۔"

 

4- اس سلسلے میں ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی تمام مخلوق اس کی مرضی اور حکمت سے وجود میں آئی ہے۔ لہٰذا کسی ایسی کمزوری پر کسی کو حقیر سمجھنا جائز نہیں جو اللہ تعالیٰ نے اسے عطا کی ہو اور اس کے لیے منتخب کی ہو۔ اسی طرح جنس، رنگ، نسل یا نسب کی بنیاد پر کسی کو کسی پر فضیلت دینا جائز نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ کے نزدیک تمام انسان برابر ہیں، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

"اے لوگو! ہم نے تمہیں ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا، اور تمہیں قومیں اور قبیلے بنا دیا تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانو۔ بے شک اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ معزز وہ ہے جو تم میں سب سے زیادہ پرہیزگار ہو۔ بے شک اللہ سب کچھ جاننے والا، خبر رکھنے والا ہے۔" (الحجرات: 13)

 

5- اسی طرح ہر وہ شخص جو انسانی فطرت کے مطابق کسی نقص یا خلل میں مبتلا ہو، اسلامی شریعت نے اسے وہ تمام حقوق عطا کیے ہیں جو تمام انسانوں کو دیے گئے ہیں، اور اس کے دین اور امت کے لیے کی گئی خدمات اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس کے مقام کے مطابق اس کا مرتبہ بلند کیا ہے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:

"(الْمُسْلِمُونَ تَتَكَافَأُ دِمَاؤُهُمْ، يَسْعَى بِذِمَّتِهِمْ أَدْنَاهُمْ، وَيُجِيرُ عَلَيْهِمْ أَقْصَاهُمْ، وَهُمْ يَدٌ عَلَى مَنْ سِوَاهُمْ، يَرُدُّ مُشِدُّهُمْ عَلَى مُضْعِفِهِمْ، وَمُتَسَرِّيهِمْ عَلَى قَاعِدِهِمْ)

"مسلمانوں کا خون برابر ہے، ان میں سے ادنیٰ بھی ان کی طرف سے امان دے سکتا ہے، ان میں سے دور دراز کا شخص بھی ان کی حمایت کر سکتا ہے، اور وہ غیروں کے مقابلے میں ایک ہاتھ کی طرح ہیں، ان کا طاقتور ان کے کمزور کی مدد کرے گا، اور ان کا حاضر غائب کی خبرگیری کرے گا۔" (ابو داؤد)

6-  نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں بھی تیسری جنس کے بعض افراد کا وجود ملتا ہے، جیسے انجشہ اور ھِیت، یہ دونوں تیسری جنس سے تعلق رکھتے تھے۔ حافظ ابن حجر نے اپنی کتاب الاصابہ فی تمییز الصحابہ میں ان کا ذکر کیا ہے۔ اور یہ ثابت ہے کہ تیسری جنس کے یہ لوگ صحابہ کرام کے درمیان باعزت زندگی گزارتے تھے، اپنے فرائض ادا کرتے تھے اور اپنے حقوق حاصل کرتے تھے۔ روایتوں میں ان کی تحقیر یا ایذا رسانی کا کوئی ذکر نہیں ملتا، البتہ ان کے لیے بعض خصوصی فقہی احکام تھے جو اس قسم کے لوگوں کی جنس کے بارے میں احتیاط پر مبنی تھے۔ پس مردوں کے درمیان ان کے ساتھ عورتوں جیسا اور عورتوں کے درمیان مردوں جیسا سلوک کیا جاتا تھا۔ ان کے بارے میں بہت سی فقہی تفصیلات ہیں جن کا یہاں ذکر کرنا ممکن نہیں، انہیں مفصل کتابوں میں دیکھا جا سکتا ہے۔

7- تیسری قسم کی جنس یعنی خنثی کے ساتھ ہمارا برتاؤ کیسا ہو؟ ایسے لوگوں کے ساتھ معاملات میں اللہ تعالیٰ سے ڈریں، ان کے علاج اور مصیبت سے نکلنے میں ان کے مددگار بنیں، اور ایسی تنظیمیں قائم کی جائیں جو انہیں ان کے تمام حقوق حاصل کرنے اور پوری عزت کے ساتھ زندگی گزارنے میں مدد کریں۔

 

8- جہاں تک مخنث کی بات ہے تو شریعت میں مخنث اس شخص کو کہا جاتا ہے جو مرد ہونے کے باوجود عورت کی شکل اختیار کرے، یعنی جس کے اندر تمام مردانہ علامتیں موجود ہوں، لیکن وہ عورتوں جیسا طرزِ عمل اختیار کرے؛ یا وہ عورت جو عورت ہونے کے باوجود مردوں جیسا طرزِ عمل اختیار کرے۔

جو لوگ اپنی مرضی سے اپنی اصل جنس کے مخالف مردوں یا عورتوں کی مشابہت اختیار کرتے ہیں، ان پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے لعنت کی گئی ہے، جیسا کہ احمد اور اصحابِ سنن نے ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے:

"(لَعَنَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمُخَنَّثِينَ مِنَ الرِّجَالِ، وَالْمُتَرَجِّلَاتِ مِنَ النِّسَاءِ)

"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مردوں میں سے عورتوں کی مشابہت اختیار کرنے والوں پر اور عورتوں میں سے مردوں کی مشابہت اختیار کرنے والیوں پر لعنت فرمائی ہے۔"

ایک اور روایت میں ہے:

"لَعَنَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمُتَشَبِّهَاتِ مِنَ النِّسَاءِ بِالرِّجَالِ، وَالْمُتَشَبِّهِينَ مِنَ الرِّجَالِ بِالنِّسَاءِ"

"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مردوں کی مشابہت اختیار کرنے والی عورتوں پر اور عورتوں کی مشابہت اختیار کرنے والے مردوں پر لعنت فرمائی ہے۔"

لہٰذا ایک مسلمان کے لیے ایسے لوگوں کے ساتھ میل جول رکھنا جائز نہیں ہے۔

خلاصہ کلام:

اس تحریر میں خنثی اور مخنث کے فرق کو واضح کیا گیا ہے۔ خنثی وہ فرد ہے جس میں مرد اور عورت دونوں کی علامات پائی جاتی ہوں، جس کے ساتھ اسلامی تعلیمات کے مطابق انصاف، عزت اور شریعت کے دائرے میں سلوک کیا جانا چاہیے۔ جبکہ مخنث وہ شخص ہے جو جان بوجھ کر اپنی اصل جنس کے برعکس ظاہر ہوتا ہے، اور ایسے افراد پر رسول اللہ نے لعنت فرمائی ہے۔ اسلام میں ہر انسان کی عزت و حقوق کا خیال رکھا گیا ہے، اور تیسری جنس کے افراد کو بھی شریعت میں وہی مقام حاصل ہے جو عام انسانوں کو ہے، بشرطیکہ وہ فطرت پر رہیں اور اپنی اصل جنس کی مخالفت نہ کریں۔

0 تبصرے:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔