جمعہ، 4 نومبر، 2016

0 تبصرے




جاسم المطوع – کویت
ترجمہ وتلخیص : مبصرالرحمن قاسمی  -  ریڈیو کویت


بچوں کی تربیت  اور والدین کی ۲۰غلطیاں

بچوں کی پرورش اور تربیت کا موضوع نہایت ہی اہم ہے، خصوصا آج کے دور میں بچوں کی تربیت کا کام بہت زیادہ مشکل ہوگیا ہے، بچوں کی تربیت آپ سے وقت اور منصوبہ بندی کا تقاضا کرتی ہے تربیت کا عمل آپ کی ذمہ داری ہے جسے بھرپور توجہ چاہیے۔  بچے زندگی کے اصول قاعدے اور طور طریقے نہیں سیکھ سکتے اس کے لئے وہ والدین اور سرپرستوں کے محتاج ہوتے ہیں۔ ماہرین نفسیات کی یہ رائے ہے کہ بچے ہمیشہ والدین کے غلط سلوک سے بگڑتے ہیں اگرچہ اس میں دوسرے عوامل بھی شامل ہیں لیکن عام طور پر والدین کی غلطیوں کا بچوں پر اثر پڑتا ہے۔ذیل میں ہم نے چند اہم غلطیوں کی جانب اشارہ کیا ہے جنھیں اکثر والدین  اپنے بچوں کے ساتھ کرتے ہیں :

۱- غصہ :  یہ عام مشاہدہ ہے کہ والدین بچوں پر ان معمولی کاموں کی وجہ سے غصہ ہوجاتے ہیں، جن پر غصہ ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی ، غصہ کی وجہ سے  زندگی میں دباو کی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے اور اس دباو اور بے چینی کی اس کیفیت کی وجہ سے بچے والدین سے آہستہ آہستہ بدگمان ہونے لگتے ہیں۔  

۲- ذلیل  کرنا : بعض والدین اپنے بچوں کو ان کے دوستوں اور گھر کے دوسرے افرادکے سامنے رسوا کرتے ہیں، مثال کے طور پر اگر بچے میں بستر میں پیشاب کرنے کی عادت ہے یا پھر زبان میں لکنت ہے تو بچے کی ان خامیوں کو اس کی موجودگی میں کسی کو بیان کرنا ، اس عمل سے بچے کی نفسیات پر منفی اثرات پڑتے ہیں اور پھر بچہ میں رسوائی کے باعث انتقام کا جذبہ پروان چڑھتا ہے۔

۳-تجسس : بچوں کے کپڑوں اور ان کے بیگوں کی جانچ کرنے سے بچے اور والدین کے تعلق  کو نقصان پہنچتا ہے اور اس سے بچے کا والدین سےاعتماد بھی ختم ہوتا ہے، بہتر یہ ہے کہ کپڑوں اور بیگوں کی جانچ سے پہلے والدین بچے سے اجازت لیں۔

۴-نگرانی : آج کل بعض والدین بچوں کی نگرانی ۲۴ گھنٹوں والے کیمرے سے زیادہ کرنے لگے ہیں، اور ساتھ ہی ان والدین کی یہ شکایت بھی ہے کہ ان کے بچے سنتے نہیں ہیں، اس سلسلے میں  بہتر طریقہ یہ ہے کہ ہم بچوں کو آزادی دیں، انھیں کچھ وقت کے لیے ایسی جگہ فراہم کریں جہاں وہ والدین کی نظروں سے دور ہوں تاکہ ان میں خود اعتمادی پیدا ہوسکے۔

۵- مارنا پیٹنا :  بچوں  کو مارپیٹ کر اطمینان حاصل کرنا تربیتی نقطہ نظر سے ایک تباہ کن طریقہ ہے، بچوں کو مارنے یا انھیں سزا دینے سے ان کے ذہنی ارتقاءکا عمل متاثر ہوتا ہے سزا والدین کے خلاف ردعمل ظاہر کرنے پر آمادہ کرتی ہے اور بعض صورتوں میں شدید قسم کی بغاوت پیدا ہوتی ہے۔یہ طریقہ پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے بھی خلاف ہے، حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں : نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی کسی کو اپنے ہاتھ سے نہیں مارا، نہ کسی عورت کو نہ کسی خادم کو، سوائے اللہ کی راہ میں جہاد کے۔

۶- مداخلت : بچوں کی زندگی کی تمام تفصیلات میں ہر وقت جھانکتا یا مداخلت کرنا مناسب نہیں ہے، مثال کے طور پر ان کے کپڑوں، کھانوں اور کھیل کے سلسلے میں بار بار مداخلت کرنا، اس طرح کی مداخلت سے کمزور سوچ والے بچے میں عدم اعتمادی پیدا ہوتی ہے، اس سلسلے میں بہتر یہ ہے کہ ہم بچوں کو اپنی نگرانی میں یاد ور سے ان پر نظر رکھ کر خود فیصلہ کرنے کا موقع فراہم کریں۔

۷- حد سے زیادہ خیال : یکلوتی اولاد یا کسی مرض کے شکار بچے پر حد سے زیادہ توجہ دینے یا ان کا خیال رکھنے سے بچے میں والدین کے خلاف سرکشی پیداہوتی ہےاور بسااوقات بچہ والدین پر مسلط ہوجاتا ہے۔

۸-بھرپائی : بعض والدین چاہتے ہیں کہ وہ اپنے بچپن میں جونہ کرسکے یا سیکھ نہ سکے وہ اپنے بچوں کو وہ چیز سکھائیں گے یا کرائیں گے، اگرچہ بچوں کی اس چیز میں دلچسپی نہ ہو تب بھی والدین اپنی خواہش کو پورا کرنےکا اصرار کرتے ہیں، میں ایک ماں کو جانتا ہوں جنھوں نے انگریزی زبان میں اپنی کمزوری کی بھرپائی اپنے بچوں میں پوری کرنے کی کوشش کی، لیکن آج وہ افسردہ اس لیے ہیں کہ ان کے بچوں نے انگریزی تو سیکھ لی لیکن آج وہ  نہ تو عربی زبان   پڑھ سکتے ہیں اور نہ قرآن مجید۔

۹- بچوں کی حفاظت میں غیر ضروری زیادتی :  تحفظ بچے کی بنیادی ضرور ت ہے۔ لیکن بچوں کی حفاظت میں حد سے تجاوز کرنا دراصل بچے کو کمزور اوربزدل بناتاہے، اس سے بچے کے دل میں ہر چیز کا ڈر بیٹھ جاتا ہے اور پھر  ڈر کی وجہ سے بچہ ذمہ داری کو سنبھالنے سے کترانے لگتا ہے ،بہتر یہ ہے کہ ہم بچوں کے ساتھ ہر کام میں توازن کو برقرار رکھیں نہ زیادتی کریں اور نہ کمی۔

۱۰- الزام تراشی :   بعض والدین بغیر کسی واضح دلیل کے بچوں پر الزام تراشی کی انگلی اٹھاتے ہیں، والدین اس طرح کے  الزام صرف اور صرف ذاتی جذبات واحساسات کی بنیاد پر لگاتے ہیں، اس کی وجہ سے بچےمیں والدین کے سلسلے میں نارضگی پیدا ہوتی ہے اور والدین سے اعتماد ختم ہونے لگتا ہے، نیز یہ چیز بچے میں والدین کے خلاف انتقام کا جذبہ بھی پیدا کرسکتی ہے، بسا اوقات بچپن کی کسی الزام تراشی کی یاد بچوں کو بڑے ہونے کے بعد بھی آتی ہے۔

۱۱- بار بار کی تنقید : بعض والدین بچوں کے روزانہ کے کاموں پر بار بار تنقید کرتے ہیں، لہذا ایسی صورت میں یہ والدین بچوں کی تربیت شک کی بنیاد پر کررہے ہوتے ہیں، صحیح طریقہ ہے کہ تنقید کرنے کے بجائے ان کے کاموں کے سلسلے میں ان سے بات چیت کی جائے اور قصے کہانیوں کے ذریعے ان کے کام کی اصلاح کی جائے۔

۱۲-ہمیشہ کی تنقید :  بعض والدین بچوں کی چھوٹی بڑی غلطی پر نکتہ چینی کرتے ہیں، بہتریہ ہے کہ بعض غلطیوں کو نظر انداز کیا جائے، یا دو تین غلطیوں کی ایک مرتبہ اصلاح کی جائے ، تاکہ بچوں کے سامنے روز روز غلطیوں کی اصلاح پر بات کرنے سے ان میں بے زاری پیدا نہ ہو۔

۱۳- بچوں کے لیے دعاء نہ کرنا :  اکثر والدین بچوں کی تربیت کی تمام فکر تو کرتے ہیں لیکن ان کے حق میں دعاء نہیں کرتے ، حالانکہ بچے کی پیدائش سے پہلے ہی ہمیں  پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لیے دعاء کا حکم دیا ہے اور یہ دعاء سکھائی ہے : اللہم جنبنا الشیطان وجنب الشیطان ما رزقتنا(اے اللہ ہمیں بھی شیطان سے محفوظ رکھ اور جو اولاد تو ہمیں عطا کرے گا اسے بھی شیطان سے محفوظ رکھ

۱۴- کھیل کود میں بے ضابطگی : اکثر والدین بغیر کسی وصول وقاعدے کے  بچوں کو الیکٹرانک کھیلوں کے حوالے کردیتے ہیں، حالانکہ بہتر طریقہ یہ ہے کہ ان کے لیے کھیل کا ایک وقت متعین کیا جائے اور ان کے ساتھ لمحہ بہ لمحہ کھیل کر ان کے کھیلوں کی نوعیت کو معلوم کریں۔

۱۵- دوستوں  کا مذاق :  بعض والدین بچوں کے سامنے ان کے دوستوں کا مذاق اڑاتے ہیں، خصوصا ۱۰ سے ۱۴ سال کی عمر کے بچوں کے دوستوں کی، اس مرحلے میں بچے اپنے دوستوں کے ساتھ والدین سے زیادہ گہرا تعلق رکھتے ہیں، لہذا بہتر یہ ہے کہ والدین بچوں کے دوستوں کے بارے میں معلومات لیں اور پھر ان کے ساتھ تعلقات قائم کرائیں۔

۱۶- ہر مشکل کا حل بتادینا : اکثر والدین بچوں کو درپیش کسی بھی مشکل پر اس کا حل فورا بتادیتے ہیں، اس سے  ان میں ایک منفی شخصیت پروان چڑھتی ہے،سستی ، کاہلی ان کا مزاج بنتا ہے اور دوسروں کے سہارے جینے کے عادی بنتے ہیں۔لہذا  بہتر طریقہ یہ ہے کہ بعض مسائل کو ان پر چھوڑ دیا جائے اور انھیں خود اس کا حل ڈھونڈنے کا موقع فراہم کریں۔

۱۷- لاقانونیت : گھر میں لاقانونیت یعنی بچوں کے  کھانے کے اوقات کا کوئی تعین نہ ہونا،ان کے چیزوں کو ڈھنگ سے رکھنے کا کوئی سلیقہ نہ ہونا اورکپڑوں کے سلسلے میں کوئی پرواہ نہ کرنا ، اسی طرح  دوستوں کے ساتھ ان کے  اٹھنے بیٹھنے کے سلسلے میں کوئی  نظام  نہ ہونا، بچوں کے لیے نقصاندہ ہے۔

۱۸- تکلیف دہ جملے : میں تمہارا سر پھوڑ دوں گا، ذبح کردوں گا، مجھے تم پسند نہیں، میں تمہیں قتل کردوں گا، یہ وہ الفاظ ہیں جنھیں بعض والدین غصے کی حالت میں بچوں کو کہتا ہے، اگر والدین اس طرح کے جملے اپنی والدین کے لیے کہیں گے تو مستقبل میں یقینا ایسی اولاد والدین کی دشمن بنے گی۔لہذا ایسے جملے اور الفاظ نہ صرف اپنی اولاد کو نہیں کہنے چاہیے بلکہ کسی اور انسان  کے لیے بھی اس طرح کے جملے کہنے سے پرہیز کرنا چاہیے۔

۱۹- تضاد :  بعض والدین  اگر بچے نے انھیں گالی دی یا انھیں مارا تو اس پر ہنستے ہیں، اور اگر اسی بچے نے کسی مہمان کو گالی دے دی تو اس پر غصہ ہوتے ہیں، والدین کے اس رویے سے بچے کی نشوونما ایک متضاد شخصیت کا روپ اختیار کرتی ہے۔

۲۰- والدین کی مصروفیت : بعض والدین دن بھر اپنے کام میں مصروف رہتے ہیں اور یہ امید کرتے ہیں کہ ان کا بچہ ہونہار ، تخلیق کار، لائق وفائق ، نمازی اور باادب بنے گا، ایسا ہرگز نہیں ہوسکتا،بچوں کی کامیابی کے لیےوالدین کو بھی اپنا وقت دینا ہوگا۔

یہ ۲۰ غلطیاں ہیں، میں جس گھر میں بھی تربیتی مسائل کے حل کے لیے گیا وہاں میں نے یہی ۲۰ غلطیاں کثرت سے پائی ہے، میں نے چاہا کہ اس نوٹ کرلوں تاکہ والدین  کے علم میں آجائے اور وہ ان غلطیوں سے بچ سکیں، یہ غلطیاں اگرچہ ان میں کی بعض غلطیاں بہت معمولی ہیں لیکن جب کسی پتھر پر قطرہ قطرہ پانی گرنے لگتا ہے تو یہی پانی کا قطرہ  کچھ وقت کے بعد پتھر میں سوراخ کردیتا ہے، والدین کے لیے میرا مشورہ ہے کہ وہ اس مضمون کو پڑھیں اور اس مضمون کے ہر پوائنٹ پر غورکریں۔

0 تبصرے:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔