جمعہ، 11 نومبر، 2016

TAHAFFUZ E SHARIAT K TARIQE

0 تبصرے

مبصرالرحمن قاسمی 

تحفظ شریعت کے طریقے

دین اسلام کو شروع سے ہی مخالفین کا سامنا رہا ہے، اگر ہم نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے پر ہی نظر ڈالیں تو آج کے چیلنجز ان کے سامنے کچھ بھی نہیں، نبوی دور کے بعد خلفاء راشدین کی شہادتیں اسی شریعت اور دین کے تحفظ کی راہ میں ہوئی ہیں، صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین نے بھی اپنے زمانے میں دین اور اس کی تعلیمات کی حفاظت کے لیے جو قربانیاں دی ہیں وہ ناقابل فراموش ہیں، اگر اسلاف کی زندگی پر نظر ڈالی جائے تو امام احمد بن حنبل، امام ابن تیمیہ، امام بخاری اور  وطن عزیز میں دور جدید کے علماء میں شاہ ولی اللہ دہلوی اور ان کے بعد کے  علماء کی زندگی  تحفظ شریعت کے سلسلے میں ہمارے لیے بہترین نمونہ ہے۔ 

حال میں ایک بار پھر ملک  میں دین وشریعت اور شرعی تعلیمات  کو مٹانے کے لیے ایک طوفان آیا ہوا ہے، خدا کرے یہ طوفان یوں ہی بے نتیجہ گذرجائے، لیکن اس طرح کی آندھیاں ماضی میں بھی آئی ہیں اور مستقبل میں بھی آسکتی ہیں،  البتہ مومنین کو پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ تعلیم دی ہے کہ وہ ہر آزمائش وآفت کے وقت چوکنا ہوجائیں اور جہاں خدائے باری تعالی سے رجوع ہوں وہیں اس آزمائش کی وجوہات کا پتہ لگاکر ان کے حل کی کوشش میں لگ جائیں اورمایوس ہونے کی بجائے پرامید رہیں۔

حضرت خباب بن ارت رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے  شکایت کی، آپ اس وقت اپنی ایک چادر اوڑھے کعبہ کے سائے میں ٹیک لگاکر بیٹھے ہوئے تھے، ہم نے آپ کی خدمت میں عرض کی کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے لیے مدد کیوں نہیں طلب کرتے، ہمارے اللہ سے دعاء کیوں نہیں کرتے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ (ایمان لانے کی سزا میں) گذشتہ امتوں کے افراد کے لیے گڑھا کھودا جاتا تھا اور انھیں اس میں ڈال دیا جاتا تھا، پھر آرا ان کے سر پر رکھ کر ان کے دوٹکڑے کردیئے جاتے تھے، اور یہ سزا بھی انھیں ان کے دین سے روک نہیں سکتی تھی، لوہے کے کنگھے ان کے گوشت میں دھنسا کر ان کی ہڈیوں اور پٹھوں پر پھیرے جاتےتھے، اور یہ سزا بھی انھیں ان کے دین سے نہیں روک سکتی  تھی، خدا گواہ ہے کہ یہ امر (اسلام) بھی کمال کو پہنچے گا اور ایک زمانہ آئے گا کہ ایک سوار مقام صنعاء سے حضر موت تک سفر کرے گا، لیکن(راستوں کے قطعا محفوظ ہونے کی وجہ سے) اسے اللہ کے سوا اور کسی کا خوف نہیں ہوگا یا پھر اسےنہ بھیڑیوں کا خوف ہوگا کہ کہیں اس کی بکریوں کو نہ کھا جائے، لیکن تم عجلت سے کام لیتے ہو۔(بخاری )

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کی اس طرح تربیت فرمائی کہ انھیں چھوٹی آزمائش کے مقابلے بڑی آزمائش کی  یاد دلائی اور پرامید رہنے کی ہدایت کی۔

آج تحفظ شریعت کے ضمن میں ملک میں مختلف سرگرمیاں سرانجام دی جارہی ہیں، جو قابل ستائش ہیں، لیکن دین وشریعت کے تحفظ کے لیے آج ہمیں کئی سطحوں پر کام کرنے کی ضرورت ہے، یہ ذمہ داری صرف ایک ادارے یا پھر  کسی جماعت تک محدود نہیں ہے، بلکہ اس میں تمام   افراد ، ادارے، تنظیمیں اور جماعتیں یکساں طور پر ذمہ دار ہیں۔جب شریعت اور دین پر آنچ آنے کا ڈر محسوس ہوا تو اسی وقت ہمارے اکابرین نے دین کے تحفظ کے لیے  اپنی کوششیں شروع کردیں اور مسلم پرسنل لاء کا قیام عمل میں آیا،اوراپنے قیام کے پہلے دن سے ہی بورڈ شریعت میں کسی بھی تبدیلی کو قبول کرنے سے انکار کرتا آیا ہے، یقینا قانونی کوششیں کرنا ہماری اولین ذمہ داری ہے ، لیکن اس کے ساتھ ہمیں بھی اپنے معاشرے کے اندر پنپنے والی ایسی خامیوں کو دور کرنے کی ضرورت ہے جن سے شریعت کو نقصان پہنچنے کا ڈر ہو۔ اس کے لیے ہمیں کئی اعتبار سے محنت کرنے کی ضرورت ہے ۔یہاں ہم نے چند اہم طریقوں کی جانب اشارہ کیا ہے، اگر کم از کم ان طریقوں پر بھی ہم پختگی  کے ساتھ عمل کریں تو ان شاء اللہ کئی راہیں ہموار ہوں گی۔

۱-  اتحاق واتفاق

اتحاد کی تعلیم جتنی اسلام میں دی گئی ہے، شایدہی کسی مذہب کی تعلیمات میں شامل ہیں، لیکن اس کے باوجود ہم مختلف ٹکڑیوں میں بٹے ہوئے ہیں، آج ہمیں تحفظ دین کی خاطر متحد ہونے کی سخت ضرورت ہے، رنگ ونسل ، ذات پات اور فقیر وامیر  کے پیمانوں کو بھلاکر آج ہم سب کو اسی طرح متحد رہنے کی ضرورت ہے جس طرح ہم مسجد میں ایک ساتھ کھڑے ہوکر خدائے باری تعالی کے سامنے پیش ہوتے ہیں ،یہ خصوصیت صرف اسلام کی ہی ہے کہ یہاں ایک ہی صف میں محمود وایاز کھڑے ہوجاتے ہیں،  نماز کے ذریعے جہاں دیگر کئی چیزوں کی روحانی تربیت مقصود ہے وہیں پانچ وقت بغیر کسی تفریق کے  ایک صف میں  کھڑے کرواکر متحد رہنے کی تعلیم دی جاتی ہے، جب تک ہمارے درمیان اختلاف رہے گا تحفظ شریعت کا کام ناقص ہی رہے گا ، لہذا مسلکوں اور جماعتوں کے اختلافات کو بھلا کر آج ہمیں صرف  اور صرف  دین کے نام پر متحد ہونے کی ضرورت ہے۔

۲- باشعور نوجوانوں پر مشتمل رابطہ کمیٹیوں کا قیام:

اب وقت آچکا ہے کہ ہم اپنی قیادت کو نوجوانوں کے حوالے کریں، اور ہمارے اکابرین/ نوجوانوں کی سرپرستی کے فرائض انجام دیں، کیونکہ یہ وقت کا تقاضا ہے کہ ہم اپنی  نوجوان نسل کو  قیادت حوالے کرکے مستقبل کے چلینجوں کے مقابلے کے لیے آج سے ہی انھیں تیارکریں، تحفظ شریعت کے ضمن میں صوبائی سطح پر ہر مسلک وجماعت اور طبقے سے تعلق رکھنے والے باشعور نوجوانوں کو جوڑا جائے اور مسلم پرسنل لاء کے پرچم تلے ان سے رضاکارانہ خدمات حاصل کی جائیں، ہر صوبے کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے نوجوان افراد  کی ایک ایک کمیٹی تشکیل دی جائے اور انھیں ملت کے مختلف کاموں کی نگرانی کی ذمہ داری دی جائے، نیز کمیٹی کے ان باشعور نوجوانوں کو ملکی سطح پر متعارف بھی کیا جائے تاکہ ملت کے افراد ان کا تعاون کرسکیں۔ یقینا  آج کئی باصلاحیت نوجوان ہمارے پاس ہیں لیکن ان کا صحیح استعمال کرنے کے لیے ہم تیار نہیں ہیں۔

۳-  مسلکی وجماعتی اختلافات کا ازالہ:

آج ہم ٹیکنالوجی اور تیز رفتار انٹرنیٹ کی دنیا میں جی رہے ہیں، لیکن  اس کے باوجود انتہائی معمولی مسائل کی بنیاد پر آج بھی ہمارے درمیان غلطی فہمیاں عام ہیں، جنھیں بہت آسانی کے ساتھ دور کیا جاسکتا ہے اور سب کو جوڑا جاسکتا ہے، لیکن یہ ہماری کاہلی کہیں یا پھر  معلوم ہونے کے باوجود ہم چاہتے ہی نہیں ہیں کہ محمد عربی کی یہ امت متحد ہوجائے۔ تحفظ شریعت کے لیے ہمیں تمام جماعتوں اور مسالک کے ذمہ داران کو وقتا فوقتا  ایک جگہ جمع کرکے  اختلافات کا ازالہ کرنا چاہیے اور پھر جدید ذرائع کے استعمال کے ذریعے امت کو اس سے واقف کرانا چاہیے۔تمام مسلکوں اور جماعتوں کے ذمہ داران کو جب قوم ایک جگہ دیکھی گی تو ان شاء اللہ غلطیوں فہمیوں کا ازالہ بہت جلد ممکن ہے، تحفظ شریعت کے خاطر بعض کی بعض  چیزوں کو  نظر انداز کرکے کلمہ  کی بنیاد پر  جوڑ ہو تو ان شاء اللہ  تمام غلط رسومات بھی بہت جلد دور ہوسکتی ہیں۔

۴- مسلم پرسنل لاء کی ویب سائٹ پر ہندی اور انگریزی زبانوں میں شبہات کے ازالے پر مشتمل لٹریچر:

مسلم پرسنل لاء بورڈ ملک کے تمام مسلمانوں کے نزدیک شرعی ادارہ تسلیم کیا جاتا ہے، اور ہم اسے تسلیم بھی کروانے کی کوشش کرتے ہیں، بورڈ اپنے قیام کے پہلے ہی روز سے مختلف میدانوں میں  سیمیناروں، کانفرنسوں اور اجلاسوں کے ذریعے کام کررہا ہے، بورڈ کی ایک ویب سائٹ بھی ہے، جو وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے، ویب سائٹ پر اردو زبان میں شبہات کے ازالے اور مسائل سےمتعلق کئی ایک کتابچے بھی پیش کیے گئے ہیں، لیکن  ہندی اور انگلش میں راقم الحروف کی تحقیق کے مطابق  کوئی بھی مواد نہیں ہے، حالانکہ آج کے ترقی یافتہ دور میں جب بھی کوئی مسئلہ پیش آتا ہے تو نوجوان نسل اور خصوصا میڈیا کے لوگ نیٹ پر اس مسئلے سے متعلق کھوج کرنے لگ جاتے ہیں، جب مسلم پرسنل لاء کا مسئلہ عروج پر ہوتو یقینا لوگ/ بورڈ کی ویب سائٹ سے ہی رجوع ہونگے اور اس سلسلےمیں بات کرنے سے پہلے وہ بورڈ سے متعلق تمام معلومات کا جائزہ لیں گے،  اس موقع پر بورڈ کی ویب سائٹ پر شبہات کے ازالے پر مشتمل ہندی اور انگلش زبانوں میں بھر مور مواد ہونا چاہیے تھا، تاکہ دوسرے مذاہب کے لوگ طلاق  جیسےمسائل کو یہیں سمجھ جاتے  اور  بے لگام زبان درازی سے پرہیز کرتے۔ اگر بورڈ کے ذمہ داران اس جانب توجہ دیں تو یہ کام بہت آسان ہے،اس کے لیے ہر صوبے کی رابطہ کمیٹی کو  اس صوبے کی زبان میں مختلف عناوین تقسیم کردیئے جائیں اور ساتھ ہی صفحات کا بھی تعین کیا جائے، ہمارے پاس لکھنے والے افراد کی کمی نہیں ہے، شرط ہے کہ ہم انھیں استعمال کریں۔ تحفظ شریعت کے لیے بورڈ کی ویب سائٹ پر شبہات کے ازالے پر مشتمل ہر زبان میں مدلل اور سائنٹفک انداز میں مواد پیش کرنا بھی ایک بڑی  ذمہ داری ہے۔

۵- میڈیا میں موثر نمائندگی:

یہ دور ذرائع ابلاغ کا ہے، ہر دور کی ایک خصوصیت ہوتی ہے، اور اسلام بھِی  اس خصوصیت کا خیر مقدم کرتا ہے،  جب جادو کا بول بالا تھا، تو اللہ تعالی نے حضرت موسی علیہ السلام کو جادو کا معجزہ دیا تھا، اور انسانوں کو اس معجزے کے ذریعے اپنی قدرت دکھائی تھی، جب  شعروشاعری عروج پر تھی، لوگ زباندانی پر فخر کرتے تھے تو اللہ تعالی نے اسی کے مطابق  قرآن کا نزول فرمایا اور انسانوں نے قرآن کے اعجاز کو تسلیم کیا، اسی طرح جب فلسفہ عام ہوا تو ہمارے اسلاف نے فلسفے کی جانب توجہ دی اور دین کی تعلیمات کو فلسفے کی روشنی میں سمجھایا، اب ذرائع ابلاغ کا زمانہ ہے، ہمیں چاہیے کہ ہم اس جانب توجہ دیں اور انسانوں کو اس اسٹیج سے اپنا دین سمجھائیں، میڈیا کے بھی چند اصول وضوابط ہیں،  قبل اس کے کہ ہم میڈیا میں شریعت کی نمائندگی کریں ہمیں اس کے اصول وضوابط سے واقف ہونا ضروری ہے،اس کے لیے نوجوانوں کو تیار کیا جائے اور جو نوجوان تیار ہیں ، ان کو تلاش کرکے ان کا استعمال کیا جانا چاہیے، تحفظ شریعت کے لیے میڈیا میں صحیح نمائندگی وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے، ہمارا نظام شریعت منصفانہ ہے، لیکن ہماری صحیح نمائندگی نہ ہونے کے باعث یہی میڈیا اسے ظالمانہ بناکر پیش کرتا آیا ہے۔

۶- تعلیم وتربیت:

دین اسلام کی بنیاد ہی تعلیم پر رکھی گئی ہے، اگر علم نہ ہوتو انسان وحدانیت کو بھی سمجھنے سے قاصر رہتا ہے، لہذا سب سے پہلے قرآنی آیت اقرا نازل ہوئی،جس سے صاف الفاظ میں علم کے حصول کی تعلیم دی گئی،  تحفظ شریعت کے لیے  قصبہ قصبہ، گاوں گاوں اور شہر شہر مسلمانوں میں تعلیم کو عام کرنے کی ضرورت ہے۔یقینا کئی ادارے اس میدان میں کام کررہے ہیں، لیکن اگر مسلم پرسنل لاء کی نگرانی میں رابطہ کمیٹیوں کی تشکیل کے ذریعے  مسلمانوں میں مسلک وجماعت کی تفریق کے بغیر تعلیم پر نگرانی کا  کام کیا جائے تو ان شاء اللہ بہتر نتائج ملنے کی توقع ہے۔

۷- تعلیم بالغان اور بیروزگاری کے خاتمے کے لیے اجتماعی کوشش :

شریعت کو نقصان پہنچانے میں کچھ ایسے واقعات  کا بڑا حصہ ہے جو ہم سے ہی سرزد ہوجاتے ہیں، جس کی بڑی وجہ لاعلمی ، جہالت ، بے روزگاری اور بے دینی ہے، آج ہمیں ایسے نوجوانوں تک فردا فردا رسائی کی ضرورت ہے ، جو دینی، معاشی اور سماجی اعتبار سے کمزور ہیں، اصلاح  کےبہت کام جاری ہیں، لیکن یہ کام یا تو امیرزادوں میں یا پھر شہروں میں انجام دیے جارہے ہیں، چھوٹے مقامات اور گاوں ، دیہاتوں میں  آج بھی اصلاحی کاموں کی سخت ضرورت ہے، تحفظ شریعت کے تئیں علماء اور باشعور نوجوانوں کی کمیٹیاں تشکیل دے کر وقتا فوقتا چھوٹے چھوٹے مقامات  پر جاکر نوجوانوں سے فردا فردا ربط کرنے ، انھیں دین کی تعلیمات سے آگاہ کرنے اور ان کے معاشی وسماجی مسائل کو حل کرنے کی کوشش ہونی چاہیے۔

۷- خواتین کو دین کے اہم مسائل سے واقف کرانا:

دین کی تعلیمات سے واقفیت کا جتنا حق مردوں کا ہے اتنا ہی خواتین کا بھی ہے، لیکن ہمارے معاشرے میں خواتین کو گھر کی چہاردیواری تک ہی محدود کردیا جاتا ہے، عمومی طور پر خواتین کو دین کی تعلیمات سے آگاہ کرنے کے لیے ہمارے پاس کوئی نظم نہیں ہے، آج بھی ملک کے کئی علاقوں میں خواتین کے لیے دینی اجتماعات ، دینی تعلیم کے حلقوں اور دین کے اہم مسائل سے واقف کرانے کا کوئی رواج نہیں ہے۔ یوں بھی ہم نےخواتین کو مکمل طور پر مسجد سے دور کردیا ہے، حالانکہ نماز کو نہیں تو کم از کم ان کے دینی پروگرامس مساجد میں منعقد کیے جاسکتے ہیں، اس سلسلے میں تو کوئی ممانعت نہیں ہے، اس کے علاوہ کئی ایسے مسلمان ہیں جو بچیوں کو عصری تعلیم تو ضرور دیتے ہیں لیکن دین کی تعلیم دینےکے بارےمیں انھیں ذرہ برابر بھی فکر نہیں ہوتی ہے، جس کے باعث ان سے ایسےمخالف کام سرزد ہوجاتے ہیں جس سے شریعت کو بڑا نقصان ہوتا ہے۔

۸- غیر مسلم بھائیوں کے ساتھ تعلقات :

برادران وطن سے تعلقات میں جو فاصلے ہم نے بنا رکھے ہیں انھیں کم کرنے کی ضرورت ہے، اگر ہم ان سے فاصلے بنائے رکھیں گے تو وہ دین وشریعت کو کیسے سمجھ سکیں گے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ ہمارے لیےبہترین نمونہ ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ صرف  غیر مسلموں کی جنازے میں شرکت اور ان کی تعزیت کی بلکہ ان کے ساتھ تجارتی تعلقات بھی قائم کیے۔ تحفظ شریعت کے لیے ہمیں تعلیم سمیت ہر سطح پر برادران وطن کے ساتھ  خوشگوار تعلقات قائم کرنے کی ضرورت ہے۔

۹- ملکی سطح پر ائمہ مساجد کے نیٹ ورک کا قیام:

ٹیکنالوجی اور انٹرنیٹ کے اس زمانے میں یہ کام کوئی مشکل نہیں رہا ہے، ائمہ مساجد معاشرے میں فعال کردار ادا کرتے ہیں، انھیں معاشرے کے افراد کے ساتھ فردا فردا ملاقات  کا موقع  ملتا ہے، اگر ملکی اور صوبائی سطح پر مسلم پرسنل لاء بورڈ کی زیر نگرانی ہی ائمہ مساجد کا ایک نیٹ ورک قائم کیا جائے اور ذمہ داریوں کو تقسیم کیا جائے تو ان شاء اللہ تحفظ شریعت کے کام میں بڑا تعاون ملے گا۔

۱۰- جمعے کے خطبوں  سے صحیح استفادہ :

جمعہ کا خطبہ معاشرے کی اصلاح اور ان تک پیغام پہنچانے کا ایک بڑا ذریعہ ہے، لیکن عموما یہ دیکھا جاتا ہے کہ ہمارے بعض ائمہ کرام جمعے کے خطبے کے لیے اختلافی موضوع کا انتخاب کرتے ہیں، جس سے امت کا فائدہ تو درکنار امت کو نقصان ہی پہنچتا ہے۔اگر مسلم پرسنل لاء کی صوبائی فعال رابطہ کمیٹیوں کے ذریعے اور ائمہ کرام کے ملکی وصوبائی نیٹ ورک کی مدد سے جمعے کے خطبوں کاصحیح استعمال کیا جائے تو ان شاء اللہ تحفظ شریعت کے کام کو تقویت ملے گی۔

۱۱-  مدارس اور کالجز کے اساتذہ سے ربط:

اسکول اور کالجز کے اساتذہ کا معاشرے کی اصلاح وترقی میں اس سے زیادہ کردار ہوتا ہے جو ایک امام یا خطیب مسجد کےمنبر سے ادا کرتا ہے، کیونکہ بچے ہی ہمارا مستقبل ہے، اور بچپن میں جو بیچ بویا جائے پھل بھی ویسے ہی اگتے ہیں، لہذا  ہمیں اسکولوں اور کالجز کے اساتذہ کو  نظر انداز نہیں کرنا چاہیے بلکہ خصوصا مسلم پرسنل لاء بورڈ اور اس کے ماتحت اداروں کو  اسکولوں اور کالجز کے اساتذہ سے گہرے روابط قائم کرنا چاہیے اور انھیں تحفظ شریعت کے کام سے وقتا فوقتا واقف کرانا چاہیے۔

ان چند طریقوں، تقاضوں  اور ذمہ داریوں کے علاوہ اور بھی بہت سارے کام ہیں لیکن اگر مذکورہ طریقوں کو ہی صحیح انداز میں سرانجام دیا جائے تو ان شاء اللہ سیاسی، سماجی، تعلیمی اور قانونی اعتبار سے  ہمارے لیےآزادانہ  طور پراپنے  دین وایمان کے ساتھ جینے کے مواقع اللہ تعالی کی جانب سے خود بخود پیدا ہونگے۔

0 تبصرے:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔