پیر، 16 مارچ، 2020

DAWAT E DEEN

0 تبصرے


دعوت دین 25 اہم باتیں

تحریر: ڈاکٹر عائض القرنی
ترجمہ: مبصرالرحمن قاسمی
 (پہلی قسط)
***
دعوت ایک ایسا فن ہے، جسے سچے داعی عمدہ طریقے سے اپناتے ہیں، جس طرح ماہر معمارمعماری میں اور صنعتکار صنعت کاری میں اپنے جوہر دکھاتے ہیں، سچے اور مخلص داعی بھی اپنے میدانِ دعوت میں اسی طرح گہرے، پائیداراورخوبصورت نقوش ثبت کرتے ہیں۔داعی کے لیے ضروری ہے کہ وہ دعوت کی فکر کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنائے، لوگوں تک اچھے سے اچھے انداز میں دعوت پہنچائے،کیونکہ داعی پیغمبر اسلام حضرت محمد کے وارث ہیں۔داعی کے لیے ضروری ہے کہ وہ پہلے دعوت کو سیکھے اور اس کے لوازمات، نتائج، اسلوب اور دعوت کے لیے درکار ہر اچھی چیز پر غور کرے، ساتھ ہی یہ بھی ضروری ہے کہ اس عہدوپیمان کے سلسلے میں اللہ سے ہمہ وقت ڈرتا رہے جسے داعی نے معلمِ خیر نبی اکرم سے حاصل کیا ہے۔ کیونکہ دعوت ایک ذمہ داری اور امانت ہے،جسے داعی نے اپنے کندھوں پر لے رکھا ہے۔
مذکورہ باتوں کے بعد یہ بات واضح ہوچکی کہ داعی سے سرزد ہونے والی کوئی بھی چھوٹی یا بڑی غلطی پوری امت کو متاثر کرتی ہے، اس لیے کسی بھی غلطی کے سرزد ہونے یا ناکامی کے ذمہ دار داعی حضرات کو ہی سمجھا جائے گا۔ داعی حضرات کے لیے ہدایت کے پیغامبر بننے کے لیے ذیل میں بیان کیے گئے چند آداب اور اصول سے اپنے آپ کو مزین کرنا ضروری ہے تاکہ  حق وخیر کو اس انداز سے پہنچا پائے جیسا اللہ رب العزت چاہتاہے۔
۱۔ اخلاص:
 کام میں اخلاص کامیابی کی کلید ہے،اس لیے دعوت کا کام کرنے والے کے لیے ضروری ہے کہ وہ دعوت کے کام کو اخلاص کے ساتھ کرے، اپنے کام میں اللہ تعالیٰ کی رضامندی کا طلبگار رہے، دنیا کے ختم ہونے والے نفع پر یکسر توجہ نہ دے بلکہ داعی کی زبان پر ہمہ وقت یہ کلمات رہے:  قُلْ مَا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ مِنْ أَجْرٍ  (سورۃ الفرقان)  ترجمہ: کہیے میں تم سے اس کام پر کوئی اجر نہیں چاہتا۔   قُلْ مَا سَأَلْتُكُم مِّنْ أَجْرٍ فَهُوَ لَكُمْ  (سورۃ  سبأ) ترجمہ: کہہ دیجیے کہ جو بدلہ میں تم سے مانگوں وہ تمہارے لئے ہے میرا بدلہ تو اللہ تعالیٰ ہی کے ذمے ہے۔
داعی کسی منصب، جگہ ومکان اور شہرت کا طلبگار نہیں ہوتا بلکہ اس کا مقصد ایک اللہ کو خوش کرنا ہے۔ وہ تو اس طرح اعلان کرتا ہے:
خذوا كل دنياكم اتركوا فؤادي حرا طليقا غريبا
فإني أعظم ثروة وإن خلتموني وحيدا سليبا
ترجمہ: اے لوگو! تم ساری دنیا لے جاؤ، اور میرے دل کو آزاد اوراجنبی کی طرح چھوڑدو، اگر تم نے مجھے تن ِتنہا اور لوٹا  ہوا بھی چھوڑا تو میرے پاس سب سے بڑی دولت ہے۔
۲- مقصد کا تعین:
 داعی کے سامنے اس کا مقصد واضح ہو،دعوت کا مقصد دین کا قیام، لوگوں کی اصلاح اور دنیا سے فساد کا خاتمہ ہے۔داعی اس ارشاد ربانی کی عملی مثال ہو: إنْ أُرِيدُ إِلَّا الْإِصْلَاحَ مَا اسْتَطَعْتُ ۚ وَمَا تَوْفِيقِي إِلَّا بِاللَّـهِ ۚ عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ وَإِلَيْهِ أُنِيبُ (ترجمہ: میرا ارادہ تو اپنی طاقت بھر اصلاح کرنے کا ہی ہے۔ میری توفیق اللہ ہی کی مدد سے ہے، اسی پر میرا بھروسہ ہے اور اسی کی طرف میں رجوع کرتا ہوں)۔
۳- علم نافع کی طلب:
 داعی کے لیے ضروری ہے کہ وہ نبی اکرم کی وراثت یعنی علم نافع سے اپنے آپ کو مزین کرے، تاکہ علم وبصیرت کی بنیاد پر دعوت دے سکے، اللہ تعالی کا ارشاد ہے: : قُلْ هَـٰذِهِ سَبِيلِي أَدْعُو إِلَى اللَّـهِ ۚ عَلَىٰ بَصِيرَةٍ أَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِي ۖ وَسُبْحَانَ اللَّـهِ وَمَا أَنَا مِنَ الْمُشْرِكِينَ (سورہ یوسف) ترجمہ: ”آپ کہہ دیجیے میری راہ یہی ہے۔ میں اور میرے متبعین اللہ کی طرف بلا رہے ہیں، پورے یقین اور اعتماد کے ساتھ۔ اور اللہ پاک ہے اور میں مشرکوں میں نہیں“۔ مجاہد رحمہ اللہ کے بقول اس آیت میں ”بصیرۃ“سے”علم“مراد ہے، جبکہ دیگر مفسرین آیت بالا میں مذکور لفظ ”بصیرت“سے حکمت اور توحید مراد لیتے ہیں۔ دراصل علم، حکمت اور توحید یہ تینوں معنی ایک دوسرے سے مربوط ہیں، یقینا داعی کے لیے موحد ہونا یعنی اللہ تعالی ٰ کی وحدانیت پر یقین کرنا ضروری ہے، وہ اللہ کے سوا کسی سے ڈرنے والا نہ ہو، نہ اللہ تعالی ٰ کے سوا کسی سے امید لگانے والا ہو اور نہ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کا خوف اس کے دل میں ہو اورسب سے زیادہ محبت کسی کی ہو تو صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی اور پھر اس کے رسول کی۔
داعی کی اہم صفت یہ ہے کہ اس کو دین کا علم ہو،تاکہ لوگوں کو علم ویقین کی بنیاد پر دعوت دے سکے، جتنا ہوسکے اسے قرآن مجید حفظ یاد ہو، اور نبی کریم کی احادیث کا علم ہو، صحیح اور ضعیف احادیث کا بخوبی اندازہ ہو۔
اسی طرح سفر وحضر میں اوقات کی پابندی، اپنی محفلوں میں علمی مسائل پر غوروفکر اور علم کے طلبگاروں کے ساتھ مباحثے کی ہر داعی میں تڑپ ہونی چاہیے۔ اور بڑوں کا ادب چھوٹوں پر شفقت اور علم والوں اور تجربہ کار افراد سے استفادے کی ہر داعی میں جستجو ہونا چاہیے۔ اگر داعی میں یہ خوبیاں پائی جاتی ہیں تو اللہ تعالیٰ اسے اس کے مقصد میں کامیاب کرتا ہے اور اس کی بات  سے لوگوں کو فائدہ ہوتا ہے۔
۴پرتعیش لوگوں کو اپنا نمونہ نہ بنائے۔
داعی کو پرتعیش وآسودہ حال لوگوں کی طرح زندگی نہیں گذارنی چاہیے، بلکہ عاجزی اور انکساری کو اپنی عادت بنانا چاہیے، اور ہر داعی کو یہ خیال رہے کہ وہ غلطیوں سے پاک نہیں ہے، اسی طرح اس کے ذہن میں یہ بات بھی رہے کہ عام لوگ بھی غلطیوں سے پاک نہیں ہے،اس کے ذہن میں ہمیشہ یہ آیت رہنا چاہیے:  وَلَوْلَا فَضْلُ اللَّـهِ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَتُهُ مَا زَكَىٰ مِنكُم مِّنْ أَحَدٍ أَبَدًا وَلَـٰكِنَّ اللَّـهَ يُزَكِّي مَن  يَشَاءُ ۗ وَاللَّـهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ  (سورۃ النور:۲۱) ترجمہ: ”اور اگر اللہ تعالیٰ کا فضل وکرم تم پر نہ ہوتا تو تم میں سے کوئی کبھی بھی پاک صاف نہ ہوتا۔ لیکن اللہ تعالیٰ جسے پاک کرنا چاہے، کر دیتا ہے۔ اور اللہ سب سننے والاسب جاننے والا ہے“۔
صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہی کامل اور تمام عیوب سے پاک ہے جبکہ انسان غلطیوں کا پتلا ہے، لہٰذا داعی کو اس لحاظ سے سوچنا چاہیے،چاہے داعی مرد ہو یا خاتون ہو، ارشاد باری تعالی ہے:  إِنَّ رَبَّكَ وَاسِعُ الْمَغْفِرَةِ ۚ هُوَ أَعْلَمُ بِكُمْ إِذْ أَنشَأَكُم مِّنَ الْأَرْضِ (سورۃ النجم:۲۳)ترجمہ: ”بیشک تیرا رب بہت کشادہ مغفرت والا ہے، وہ تمہیں بخوبی جانتا ہے جبکہ اس نے تمہیں زمین سے پیدا کیا“۔اللہ تعالی نے ہمیں مٹی سے بنایا لہٰذا ہم ہر حال میں ناقص ونامکمل ہیں، اسی لیے نبی کریم لوگوں کے ساتھ ان کے عیب کو مد نظر رکھ کر معاملات فرماتے تھے، آپ ان کے نقص اور کمی کو دیکھ کر ان کی مدد کرتے تھے، ان کی ہمت افزائی فرماتے تھے اور ان کا ہاتھ پکڑ کر راہ دکھاتے تھے۔
جو داعی آئیڈیالسٹ ہو وہ لوگوں کی اصلاح نہیں کرسکتا، داعی کی مثالی زندگی آج کے دور میں دراصل اس کی غلطی ہے، خصوصا ایسے زمانے میں جب نہ نبی موجود ہیں نہ صحابہ ہیں اور اہل علم کی قلت ہے اور خواہشات کی بھرمار ہے۔ جبکہ چہار جانب سے بدعات وخرافات کا دور دورہ ہے، خواہشات نے ہمیں لے ڈوبا ہے اور عالمی صہیونی منصوبہ بند ذرائع کے ساتھ ہماری غیر شعوری جنگ جاری ہے۔لہٰذا ایسے وقت میں ایک عالمِ دین اور ایک داعیِ دین کی ذمہ داری ہے کہ وہ نئی نسل کے ساتھ ان کے مزاج کے مطابق معاملہ کریں اور آج کی نئی نسل سے اس بات کی توقع رکھے کہ ان سے غلطیاں سرزد ہوسکتی ہیں۔


0 تبصرے:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔