پیر، 16 مارچ، 2020

0 تبصرے


    آنکھوں کی ٹھنڈک اورمستقبل کی شخصیت


تحریر : مبصرالرحمن قاسمی
اولاد دنیا وآخرت میں ہمارے لیے آنکھوں کی ٹھنڈک ہیں، وہ رحمن کے بندے اور مساجد کو آباد کرنے والے ہیں، وہ مستقبل کے انسان ہیں، یہی بچے ماضي و مستقبل کے علماء حفاظ، داعی، معلم، مفکر، انجینئرس، طبیب، قائد، وزیر اور مزدور وکسان ہیں۔ وہ معاشروں کی بنیاد  اور سماج کی عمارتوں کی اساس اور اینٹیں ہیں۔ ان ہی کے بازؤں سے معاشرے کی عمارتوں کو قوت وطاقت ملتی ہے۔ یہی وہ رجال کار ہیں جنھوں نے ملکوں کو فتح کیا اور دین کو عام کیا اور بندوں پر حق وانصاف کے ساتھ حکمرانی کی۔
اولاد  بندوں پر اللہ تعالی کا احسان ہیں ، ارشاد باری ہے : ترجمہ : اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے تم میں سے ہی تمہاری بیویاں پیدا کیں اور تمہاری بیویوں سے تمہارے لیے تمہارے بیٹے اور پوتے پیدا کیے اور تمہیں اچھی اچھی چیزیں کھانے کو دیں۔(النحل ۷۲)
حضرت احنف بن قیس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے پوچھا کہیے! اولاد کے سلسلے میں کیا سلوک ہونا چاہئے؟ احنف بن قیس نے کہا امیرالمومنین اولاد ہمارے قلوب کا ثمرہ ہیں۔ ہماری حیثیت ان کے لئے زمین کی طرح ہے۔ جو نہایت نرم اوربے ضرر ہے اورہمارا وجود ان کے لئے سایہ فگن آسمان کی طرح ہے اور ہم انہیں کے ذریعے بڑے بڑے کام انجام دینے کی ہمت کرتے ہیں۔ اگر وہ کچھ آپ سے مطالبہ کریں تو ان کے دلوں کا غم دور کیجئے! نتیجہ میں وہ آپ سے محبت کریں گے آپ کی پدرانہ کوششوں کو پسند کریں گے اورکبھی ان پر ناقابل برداشت بوجھ نہ بنیئے کہ وہ آپ کی زندگی سے اکتا جائیں اور آپ کی موت کے خواہاں ہوں۔ آپ کے قریب آنے سے نفرت کریں۔
 یقینا چھوٹے بچے امت کی امید اور آئندہ نسلوں کا مستقبل ہیں، یہ بچے مستقبل کے ترجمان قرآن، امام التفسیر فقیہ عصر اور حبر الامہ عبداللہ بن عباس اور علی بن ابی طالب ہیں، بچپن میں ہی امام علی بن ابی طالب نے اسلام لایا اور مکہ کے بڑے بڑے لوگوں سے آگے نکل گئے، اسامہ بن زید بھی بچے ہی تھے، جو رسول اللہ ﷺ کے لاڈلے بنے اور رسول اللہ ﷺ نے انھیں شام کی جانب مسلمانوں کے اس لشکر کا کمانڈر بنایا، جس میں بڑے بڑے مہاجر اور انصاری صحابہ شامل تھے۔ اس وقت ان کی عمر بیس برس بھی نہیں تھی۔ سعد بن وقاص اور زید بن ثابت کا شمار بھی بچوں میں ہوتا تھا، وہ سترہ برس کی عمر میں ہی مشرف با اسلام ہوگئے تھے اور صحابہ کرام کے درمیان اپنی ایک خاص خصوصیت کی وجہ سے مشہور تھے، آپ کو مستجاب الدعوہ ہونے کا شرف حاصل تھا۔ جبکہ زید بن ثابت کو گیارہ برس کی عمر میں ہی جناب رسول اللہ ﷺ نے اپنا رازداں بنادیا تھا اور یہودیوں کی زبان سیکھنے کی انھیں ذمہ داری دے دی تھی، انہی کے بارے میں خلیفہ راشد حضرت ابوبکر ؓ نے کہا تھا : تم ایک عقلمند ہوشیار نوجوان انسان ہو ، ہم تم پر کوئی تہمت نہیں لگاسکتے، تم تو رسول اللہ ﷺ کے لیے وحی کو لکھا کرتے تھے۔ یہ ابوہریرہ ؓ ہیں، جنھوں نے جناب رسول اللہ ﷺ کے زیر تربیت عمر کا ایک طویل حصہ گزارا، اور  اللہ تعالی نے ان سے حدیث رسول کی حفاظت کا کام لیا، آپ کا سینہ احادیث رسول کے ذخیرے سے معمور تھا۔ اسی طرح آپ کے بعد امام بخاری، امام مسلم، ائمہ اربعہ کا بچپن اور ان کا مستقبل ہمارے سامنے ہے۔
حضرت عمار بن یاسر ؓ  ابھی جوانی کی جانب گامزن ہی تھے، فتنوں کے زمانے سے دوچار ہوئے، ان کی آنکھوں کے سامنے ان کے والد اور والدہ کو شہید کردیا گیا لیکن اس نوجوان کے لیے دین اسلام اور حب رسول ﷺ کی راہ میں کوئی چیز رکاوٹ نہیں بنی۔
 محمد بن قاسم کا شمار بھی بچوں میں ہی ہوتا تھا، لیکن 17 برس کا یہ نوجوان برصغیر میں اسلامی فتوحات کا شہسوار اور فاتح سند کے القاب سے نوازا گیا۔ اسی طرح محمد فاتح کی عمر 22 برس ہی تھی تو ان کے ہاتھ پر خلافت کی بیعت لی گئی اور جناب رسول اللہ ﷺ نے غالبا ان ہی کے بارے میں پیش گوئی فرمائی تھی : یقینا تم قسطنطنیہ فتح کر لو گے، وہ امیر بھی کیا باکمال ہوگا، وہ لشکر بھی کیا باکمال ہوگا. (مسند احمد (.
ہمارے بچے ہمارے بعد ہمارے جانشین ہونگے اور موت کے بعد ہماری حیات اور اعمال صالحہ کو جاری رکھنے کا ذریعہ ہونگے، جناب رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : جب انسان کی موت ہوجاتی ہے تو اس کے اعمال کا سلسلہ رک جاتا ہے،لیکن تین چیزیں باقی رہتی ہیں۔ ایک صدقہ جاریہ ،دوسری شئے وہ علم جس سے لوگ فائدہ اٹھائیں اور تیسری چیز نیک اولاد جو اس کے لئے دعاکرے ۔ (رواہ مسلم(
مستقبل کا انسان
کیا آپ یہ نہیں چاہتے کہ آپ کی اولاد میں دلیری، بہادری اور شجاعت کی اعلی صفات پیدا ہوں، اللہ تعالی نے مومنین کے درمیان موجود ایسی صفات اور خصوصیات کے حامل مردوں کی ثناخوانی فرمائی ہے: ایسے لوگ جنہیں تجارت اور خرید وفروخت اللہ کے ذکر سے اور نماز کے قائم کرنے اور زکوٰة ادا کرنے سے غافل نہیں کرتی اس دن سے ڈرتے ہیں جس دن بہت سے دل اور بہت سی آنکھیں الٹ پلٹ ہوجائیں گی. (سورۃ النور : ۳۷)
یہی لوگ دراصل مرد کہلائے جانے کے مستحق ہیں، اگر دنیا ان کے سامنے اپنی ساری زیب زینت،لذتوں اور خوبیوں کے ساتھ بھی آجائے تو پل بھر کے لیے بھی دنیا کی یہ دھوکہ بازیاں انھیں رب تعالی کی اطاعت سے غافل نہیں کرسکتیں۔
مستقبل کا انسان تیار کرنے کی راہ میں پہلا قدم انسان کے ایمان ویقین کی تربیت ہے، اللہ تعالی پر پختہ ایمان ویقین کی بنیاد پر ہی وہ اپنے ہر کام میں خدائے تعالی کو حاضر وناظر جانے گا، پھر وہ کسی بھی معصیت یا نافرمانی کے کام کے سامنے کمزور نہیں ہوسکتا، اگر اس کا ایمان پختہ ہوتو دنیا کا جدید سے جدید ترین آلہ، راتوں کی مجلسیں اور سوشل میڈیا جیسے فتنے متاثر نہیں کرسکتے۔ ایمان ہی ایک ایسی چیز ہے جو بچوں میں نیک کام اور اصلاح نفس کے لیے مثبت توانائی فراہم کرتا ہے، ایمان کی تازگی کی وجہ سے بچوں میں اپنے معاشرے وسماج کو نفع پہنچانے کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ ایمان دل کی سختی، برے اخلاق اور کسی پر ظلم وزیادتی سے روکتا ہے اور ایمان ہی اسے ایک ایسی مضبوط شخصیت میں ڈھالتا ہے جو ہزار مصائب اور آزمائشوں کے باوجود اللہ تعالی کےعہد ووفا پر ثابت قدم رکھتا ہے۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے : ترجمہ : مومنوں میں (ایسے) لوگ بھی ہیں جنہوں نے جو عہد اللہ تعالیٰ سے کیا تھا انہیں سچا کر دکھایا، بعض نے تو اپنا عہد پورا کر دیا اور بعض (موقعہ کے) منتظر ہیں اور انہوں نے کوئی تبدیلی نہیں کی۔(الأحزاب:23)
مستقبل کا انسان تیار کرنے کے لیے ہر باپ کو ابتدا سے ہی ملت ابراہیمی کے نہج پر اولاد کی  تربیت کرنا ہوگا، خوشحالی اور مصیبت میں حضرت ایوب علیہ السلام کے صبر کی تعلیم دینی ہوگی، نوجوانی میں حضرت یوسف علیہ السلام کی پاکدامنی وعفت ، حضرت موسی علیہ السلام کی طاقت وامانت، حضرت اسماعیل علیہ السلام کی اطاعت وفرمانبرداری، حضرت سلیمان علیہ السلام کی حکمت وخاکساری، حضرت عیسی علیہ السلام کی نرمی ورحمت اور پیارے نبی ﷺ کی سیرت واخلاق کو سکھانا ہوگا۔
ایک باپ کی حیثیت سے اولاد کے لیے لذیذ کھانے اور خوبصورت اور قیمتی کپڑے فراہم کرنا ہی آپ کی اپنی اولاد سے حقیقی محبت نہیں ہے، بلکہ اولاد سے محبت میں یہ بھی شامل ہے کہ آپ ان کی آخرت کی بھی فکر کریں، ایسا نہ ہوکہ خدائے تعالی کی نافرمانی کے انجام کو جانتے ہوئے بھی اولاد سے پیار کے بہانے آپ انھیں خدائے تعالی کی معصیت ونافرمانی کے کاموں کو کرنے کی اجازت دیں، اللہ تعالی کا حکم ہے ، ترجمہ : (اے ایمان والو! تم اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو اس آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن انسان ہیں اور پتھر جس پر سخت دل مضبوط فرشتے مقرر ہیں جنہیں جو حکم اللہ تعالیٰ دیتا ہے اس کی نافرمانی نہیں کرتے بلکہ جو حکم دیا جائے بجا تے ہیں) سورة تحريم :06.



0 تبصرے:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔