پیر، 16 مارچ، 2020

0 تبصرے

تحرير :  دکتور جاسم المطوع
ترجمہ :  مبصرالرحمن قاسمی

اولاد کی تربیت اور سات قسم کے والدین
میں نے ایک باپ کو اپنے لڑکے کو ڈانٹ ڈپٹ کرتے دیکھا، وہ روزہ مرہ کی ورزش نہ کرنے پر لڑکے پر غصہ ہورہے تھے، میں نے سوچا کہ لڑکا مریض ہوگا اور شاید ڈاکٹر نے اس لڑکے کےلیے بطور علاج یومیہ ورزش تجویز کی ہوگی، لہذا ورزش نہ کرنے پر والد کو غصہ آیا ہو، لیکن جب میں نے اس والد سے غصے کی وجہ پوچھی تو بڑی حیرانی ہوئی، انھوں نے بتایا کہ ورزش زندگی میں ایک اہم ترین عمل ہے، میں اپنے بچوں پر زور دیتا ہوں کہ وہ روزانہ کم از کم مکمل ایک گھنٹہ کھیلیں اور ورزش کریں، یہ والد جن کے بارے میں ہم بات کررہے ہیں اپنی اولاد کی تربیت کے صرف دو پہلووں پر زیادہ توجہ دیتے ہیں، لیکن تیسرے پہلو کو نظر انداز کردیتے ہیں۔
تربیت کا پہلا پہلو ورزش اور دوسرا ان کی تعلیم ہے، ان کے نزدیک نفسیاتی، اخلاقی اور ایمانی تربیت کا کوئی اعتبار نہیں ہے، یہی وجہ ہے کہ ان کا لڑکا ایک بہتر اسپورٹس مین اور کامیاب طالب علم کے طور پر تو نشوونما پارہا ہے لیکن وہ دوسری طرف نفسیاتی، اخلاقی اور دینی اعتبار سے کمزور ہوتا جارہا ہے۔ یہ عمل اولاد کی صحیح تربیت میں ایک رکاوٹ ہے۔ اگرچہ وہ لڑکا زندگی میں ایک کامیاب اسپورٹس مین اور تعلیم یافتہ انسان بن جائے لیکن تربیت کے ایک اہم پہلو کو نظر انداز کرنے کی وجہ سے یہ لڑکا اپنی زندگی میں حقیقی کامیابی حاصل نہیں کرسکتا۔ تربیت کے سلسلے میں ماں باپ کی کئی قسمیں ہیں اور ان میں سے ایک یہ قسم ہے جسے ہم نے بیان کیا۔ اس طرح کے والد کو ہم اسپورٹ اور ایجوکیشن فادر کی قسم میں شمار کرسکتے ہیں۔
مذہب کا سخت پابند باپ :
یہ دوسری قسم ہے، مذہبی اعتبار سے سخت باپ میں بھی ہم پہلی قسم کے باپ کی طرح صفات پاتے ہیں، لیکن اس کی ساری شدت اور سختی تربیت کے صرف دینی پہلو پر ہوتی ہے، اس کا برتاؤ اولاد کے ساتھ کچھ اس طرح ہوتا ہے کہ وہ جب بھی اولاد کو نماز کی تاکید کرتا ہے تو ڈانٹ ڈپٹ اور پٹائی کا سہارا لیتا ہے، ساتھ ہی اولاد کی طرف سے کسی ناجائز اور شریعت مخالف کام سرزد ہونے پر انھیں سخت سزا دیتا ہے۔اور اولاد کو عبادتوں کی جانب راغب کرنے کے لیے تشدد کا سہارا لیتا ہے۔ اس قسم کے والد کے نزدیک بات چیت اور سمجھانا کوئی معنی نہیں رکھتا ، ساتھ ہی اولاد کی تعلیم یا ان کے کھیل کود کے تربیتی پہلو پر اس کی کوئی توجہ نہیں ہوتی ہے۔
لاپرواہ باپ :
یہ تیسری قسم ہے، اس قسم کے باپ کو اپنی اولاد کو لفظ نہیں کہنے کی بھی ہمت نہیں ہوتی ہے، وہ اپنی اولاد کو نہ اخلاق کی تعلیم دینے اور نہ انھیں عبادتوں کی ترغیب دینے کو ضروری سمجھتا ہے بلکہ وہ اولاد کی ہر جائز وناجائز خوشی پر لبیک کہتا ہے اور ان کی خوشی کی خاطر انھیں ان کی خواہشات کے مطابق زندگی گزارنے کا اختیار دیتا ہے۔
مال جمع کرنے والا باپ :
اس قسم کے باپ خاندان میں اپنی ذمہ داری بس یہی سمجھتے ہیں کہ ان کا اولاد کی تربیت کے سلسلے میں بس یہی کام ہے کہ وہ ان کے مستقبل کے لیے مال جمع کریں، اس قسم کے باپ اولاد کی خاطر اپنے آپ کو خوب تھکاتے ہیں اور مال جمع کرنے میں دن رات لگے رہتے ہیں اور وہ اسی کو اولاد کی تربیت کا اہم حصہ سمجھتے ہیں۔
تجارت پیشہ باپ :
اس قسم کے باپ یہ سمجھتے ہیں کہ اپنے کاروبار اور تجارت کو اپنی اولاد کو سکھانا ہی اولاد کی تربیت کا سب سے اہم حصہ ہے، وہ اپنی اولاد میں بچپن سے ہی کاروبار کے ہنرکو منتقل کرنے کے لیے کوشاں رہتے ہیں تاکہ بڑے ہونے کے بعد یہ اولاد ان کی طرح ہی تاجر اور کاروباری بنیں۔
گھر سے غائب اور اولاد کے امور سے لاعلم باپ :
یہ سب سے خطرناک قسم ہے، کیونکہ اس طرح کے باپ کو اپنی اولاد کی تربیت کی کوئی فکر نہیں ہوتی ہے، اسے اولاد کی تربیت کے کسی بھی گوشے سے کوئی دلچسپی نہیں ہوتی ہے، چاہے ان کی تعلیم کا مسئلہ ہو، چاہے ان کی دینی تربیت ہو یاپھر ان کی صحت سے متعلق امور ہوں۔
دوست مزاج اور بردبار باپ :
باپ کی  یہ ساتویں اور مثالی قسم ہے، اس قسم کے باپ کو مثالی باپ کہا جاتا ہے جو اپنی اولاد کے ساتھ ایک دوست اور عزیز کی طرح رہتا ہے، وہ ہر وقت اور ہر لمحہ ان سے قریب ہوتا ہے، اگر وہ بچے ہیں تو ان کے ساتھ بچوں کی طرح کھیلتا ہے، اگر وہ بڑی عمر کے ہیں تو ان کے ساتھ ان کے امور میں رائے مشورے اور بات چیت کرتا ہے،وہ اپنی اولاد کے ساتھ بردباری کا رویہ اپناتا ہے، شدت  اور غصے سے مکمل پرہیز کرتا ہے، اولاد کے ساتھ اس کا رویہ نرمی کا ہوتا ہے اور بردباری کے ساتھ وہ اولاد کو اخلاق واقدار کے گھونٹ پلاتا ہے۔ بردبار باپ اولاد کے ساتھ خوشگوار تعلقات اور بات چیت کے ذریعے ان کی بہتر تربیت کرتا ہے، وہ گالی گلوج ، زیادتی، مارپیٹ اور چیخ وپکار کا سہارا نہیں لیتا ہے بلکہ وہ اولاد میں محبت وشفقت سے اعلی اخلاق پیدا کرنا پسند کرتا ہے۔
اوپربیان کی گئیں چھ قسمیں اولاد کی تربیت کے لیے مفید نہیں ہیں اور نہ ہی تربیتی اعتبار سے درست ہیں۔ ان چھ قسم کے والدین سے اولاد کی بہتر تربیت کی توقع نہیں کی جاسکتی، البتہ ساتویں قسم تربیت اولاد کے لیے ایک مثال اور بہترین نمونہ ہے۔
بسا اوقات یہ ممکن ہے کہ ماں اور باپ دونوں الگ الگ قسم سے ہوں، مثلا باپ تاجر ہواور ماں اوپر بیان کی گئی قسموں میں سے چھٹی قسم سے ہو یعنی اولاد کی تربیت کے سلسلے میں لاپرواہ اور ہمیشہ غائب رہنے والی ہوں تو اس طرح کے حالات میں گھر کے اندر تربیتی بحران پیدا ہوجاتا ہے۔
کبھی باپ دوسری قسم سے ہوتا ہے یعنی وہ مذہبی طور پر بہت سخت ہوتا ہے اور ماں پہلی قسم سے تعلق رکھتی ہیں یعنی وہ اولاد کے اسپورٹس اور تعلیم کی خواہش مند ہوتی ہیں۔اس طرح کی صورتحال میں اولاد کی تربیت کا کام بڑے تذبذب اور غیریقینی حالت کا شکار ہوجاتا ہے،اس طرح کے حالات سے بچوں کے نفسیاتی توازن پر اثر پڑتا ہے۔
اس لیے والدین کے درمیان اپنی اولاد کی تربیتی پالیسی پر اتفاق ہونا بہت ضروری ہے، والدین جس قدر ایک دوسرے سے قریب اور ایک دوسرے کے ہم خیال اور متفق ہوتے ہیں، اسی قدر اولاد پر مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ زیادہ تر ماؤں اور باپوں کے درمیان ہر بات میں اتفاق کی توقع نہیں کی جاسکتی ہے لیکن اولاد کی تربیت کے لیے صحیح اور مناسب ماڈل اور نمونے کو جاننا اور اس پر عمل کرنا دونوں کے لیے بہت ضروری ہے۔
آخری اور اہم بات۔۔۔۔ اولاد کی بہتر سے بہتر تربیت کے لیے والدین کو ایمانی، نفسیاتی، اخلاقی، جنسی اور سماجی پہلؤوں پر توجہ دینا چاہیے اور ان تمام پہلؤوں کو ضروری سمجھنا چاہیے۔


0 تبصرے:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔