شیخ علی عبداللطیف الجسارؒ: کویت میں ابلاغی دعوت کے بانی
از قلم : ڈاکٹر مبصرالرحمن قاسمی
آج ہم کویت کے اُن جلیل القدر عالمِ دین کو یاد کررہے ہیں
جن کا نام تاریخِ کویت کے سنہرے اوراق میں ثبت ہے۔ یہ ہیں شیخ علی عبداللطیف
الجسارؒ۔ سال 2006ء میں آج ہی کی تاریخ کو وہ 84 برس کی عمر میں اس دارِ فانی سے
رخصت ہوئے۔ ان کی زندگی صرف ایک فرد کی زندگی نہ تھی، بلکہ کویت کی علمی، دینی اور
ابلاغی تاریخ کا ایک پورا باب تھی۔ وہ ان اولین شخصیات میں تھے جنہوں نے کویت ٹیلی
وژن کے ذریعے دعوت و ہدایت کا پیغام عام کیا۔ یوں کہا جا سکتا ہے کہ کویت کے ذرائع
ابلاغ کا ذکر ان کے ذکر کے بغیر نامکمل ہے۔
1922ء میں آپ کی ولادت مرقاب کے اس
خانوادے میں ہوئی جو دیانت، شرافت اور علمِ دین کا امین تھا۔ آپ کا تعلق قبيلة عتيبة کی معروف شاخ (الأساعدة) کے
خاندان (الروقہ) سے تھا۔ یہ وہ خانوادہ ہے جس کے نسبی
شجرے کی شاخیں کویت کے نامور اور معزز خاندانوں سے جا ملتی ہیں۔
شیخ الجسار نے ابتدائی تعلیم "الکُتّاب" سے حاصل
کی، پھر المبارکیہ اورالاحمدیہ اسکولوں میں تین برس تک باقاعدہ تعلیم جاری رہی۔ مگر حالات نے آگے کا راستہ روک دیا
اور یوں شیخ الجسار عملی میدان میں اتر آئے۔ جوانی میں ہی سردیوں کے کھردرے لباس
اور گرمیوں کی جھلسا دینے والی دھوپ کو سہہ کر انہوں نے اپنی ذات کو صبر و محنت سے
تراشا۔ انہی اوصاف نے انہیں قوم کے اعتبار اور اعتماد کے لائق بنایا۔ انہیں النقرة علاقے
کا مختار مقرر کیا گیا اور بعد ازاں کئی اہم قومی اداروں میں بھی ذمہ داریاں سونپی
گئیں۔
لیکن شیخ الجسار کی شخصیت کا سب سے نمایاں پہلو ذرائع ابلاغ
میں تھا۔ اخبارات ہوں، ریڈیو یا ٹیلی وژن ہر پلیٹ فارم پر ان کی آواز گونجی۔ ان کے
وعظ و نصیحت صرف جملے نہ تھے، بلکہ دلوں کو جھنجھوڑ دینے والے پیغام تھے، جو سامع
کے دل میں اترتے اور ذہن کو منور کرتے۔
اہلِ مرقاب گواہ ہیں کہ اٹھارہ برس کی عمر کو
پہنچنے سے پہلے ہی وہ ہر وقت کتاب ساتھ رکھتے۔ نماز کے بعد (مسجد المطران)، جو آج مسجد العتيقي کے نام سے معروف ہے، میں اہلِ محلّہ کو خطاب کرتے۔ اگر کبھی خطیب غیر حاضر ہوتا تو
یہ نوجوان بے تیاری کے باوجود منبر پر کھڑے ہو جاتے اور خطابت کے ایسے جوہر دکھاتے
کہ سامعین عش عش کر اٹھتے۔ گویا علم و حکمت کا دریا ان کے دل میں موجزن تھا۔
شعر وادب سے بھی ان کو خاص شغف تھا۔ ان کی گفتگو میں اشعار
کا ہونا لازم تھا۔ چاہے وہ فصیح و بلیغ عربی کے اشعار ہوں یا کویت کے عظیم شاعر (زيد الحرب) کا
پرزور مقامی کلام، سب ان کی زبان پر رواں رہتا۔
الغرض، شیخ علی عبداللطیف الجسارؒ کویت کی دینی، سماجی اور
ابلاغی تاریخ کے وہ درخشاں چراغ ہیں جن کی جدوجہد، اخلاص اور دعوتی خدمات آنے والی
نسلوں کے لیے مینارِ ہدایت ہیں۔

کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں