پیر، 20 اکتوبر، 2025

کوریائی داعی عبداللہ بارک کی مجلہ  المجتمع سے گفتگو

جنوبی کوریا میں اسلام کے پھیلاؤ کی داستان کویت سے شروع ہوئی، تقریباً چالیس سال پہلے، یعنی 1982ء میں۔ کہا جاتا ہے کہ اسی سال کویت کے وزیر اوقاف کے پاس ایک جنوبی کوریا کے وزیر آئے اور کویتی حکام سے کہا:

"ہمارے ہاں ہر مذہب کے مبلغ موجود ہیں، لیکن آپ کے مذہب کے لیے کوئی مبلغ نہیں ہے۔ کیوں نہ آپ آ کر اسلام پھیلائیں؟"

اس پر کویتی وزیر نے حاضرین سے مخاطب ہو کر کہا: "آپ میں سے کون اس ذمہ داری کو قبول کرنے کے لیے تیار ہے؟"

 اس وقت وہاں موجود تھے علامہ ابوالحسن علی ندوی کے شاگرد خاص  ڈاکٹر عبدالوہاب زاہد ندوی، جن کا تعلق شام کے شہر حلب سے تھا، وہ  فوراً بولے: "میں تیار ہوں۔" یوں وہ 1984ء سے لے کر اپنی وفات تک جولائی 2025ء تک جنوبی کوریا میں اسلام کی تبلیغ میں مصروف رہے اور وہاں کے مسلمانوں کے مفتی کے فرائض انجام دیتے رہے۔

ان کی محنت کے ثمرات جلد ظاہر ہوئے۔ آج جنوبی کوریا میں اسلام قبول کرنے والوں کی تعداد دو لاکھ سے زائد ہے، جبکہ ملک کی کل آبادی تقریباً 50 ملین ہے۔ ان میں معروف کوریائی داعی عبداللہ پارک بھی شامل ہیں، جنہوں نے کتاب "حصن المسلم" کو کوریائی زبان میں ترجمہ کیا اور بیس صحابہ کی زندگی پر مشتمل بیس ویڈیوز تیار کیے۔

کویتی میگزن المجتمع کے ساتھ گفتگو میں عبد اللہ پارک نے وہاں کے مسلمانوں کی صورتحال، خاص طور پر نوجوانوں کی مشکلات اور اسلام اختیار کرنے میں درپیش چیلنجز پر روشنی ڈالی۔

عبد اللہ پارک نے بتایا:

"میں جنوبی کوریا میں ایک مسیحی گھرانے میں پیدا ہوا۔ ہائی اسکول مکمل کرنے کے بعد میں نے سچائی کی تلاش میں مختلف مذہبی اور فلسفیانہ کتب پڑھنا شروع کیں ۔ طویل تحقیق اور غور و فکر کے بعد مجھے احساس ہوا کہ اسلام وہ مذہب ہے جو میرے سوالات کا صاف جواب دیتا ہے: خالص توحید، انسان کی تخلیق کا مقصد، اور بغیر کسی واسطے کے خدا سے براہ راست رابطہ ۔ جیسے  بنیادی اعمال  سمیت قرآن مجید اور حضرت محمد اور صحابہ کی زندگی نے نے سب سے زیادہ مجھے متاثر کیا ۔

تاہم، یہ سفر آسان نہیں تھا۔ "ابتداء میں کچھ خاندان کے افراد اور معاشرتی روایات نے مخالفت کی، مگر صبر اور دعا سے اللہ نے میرے لیے راہیں ہموار کر دیں اور میرا ایمان مضبوط کیا۔"

انہوں نے کہا: "اسلام اختیار کرنے کے بعد مجھے احساس ہوا کہ میری ذمہ داری ہے کہ میں اپنے لوگوں کی خدمت کروں۔ میں نے حصن المسلم کا ترجمہ کوریائی میں کیا تاکہ نئے مسلمان اسے بطور علمی مرجع استعمال کرسکیں۔ پھر میں نے بیس ویڈیوز تیار کیں، جن میں صحابہ کی سادہ اور دلچسپ کہانیاں پیش کی گئیں۔"

پارک نے مزید کہا کہ انہوں نے اپنی ترجمہ اور میڈیا کی مہارت استعمال کر کے اسلامی تاریخ کو موجودہ کوریائی نوجوانوں کی زندگی سے جوڑا، اور اللہ کے فضل سے یہ کام بہت وسیع پیمانے پر مقبول ہوا۔

اسلام اختیار کرنے والے کوریائی افراد کے بارے میں پارک  کا کہنا ہے:

"لوگ مختلف وجوہات کی بنا پر اسلام اختیار کرتے ہیں؛ کچھ شادی یا دوستی کی وجہ سے، مگر زیادہ تعداد تحقیق اور غور و فکر کے بعد اسلام قبول کرتی ہے۔"

انہوں نے بتایا کہ ماہر مبلغین کی تعداد بہت کم ہے۔ صرف پانچ افراد نے مدینہ منورہ کی اسلامی یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی ہے، جس کی وجہ بیرون ملک وظائف حاصل کرنے میں مشکلات اور اندرون ملک ادارہ جاتی مدد کا فقدان ہے۔

عبداللہ پارک کے بقول کوریا کی روایتی ثقافت مذہبی کام کے لیے مکمل وقف ہونے کی حوصلہ افزائی نہیں کرتی، مگر نئی نسل کے نوجوان آن لائن تعلیم اور میڈیا کے ذریعے فرداً فرداً اسلام کی تبلیغ میں سرگرم ہیں۔

وہ کہتے ہیں :جنوبی کوریا میں مسلمانوں کی کل تعداد تقریباً دو لاکھ ہے، جن میں زیادہ تر غیر ملکی ملازمین اور طلبہ ہیں۔ مقامی کوریائی مسلمان تقریباً پندرہ ہزار ہیں، جن میں سے صرف چند سو لوگ باقاعدگی سے نماز ادا کرتے اور مسجد میں نظر آتے ہیں۔

جنوبی کوریا میں اسلام کی اشاعت کے ذرائع کے حوالے سے وہ کہتے ہیں  کہ وہاں  اسلام پھیلانے کا اہم ذریعہ شادی ہے، اس کے بعد انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا آتا ہے، جہاں نوجوان ذاتی تحقیق کے ذریعے اسلام سے واقف ہوتے ہیں۔

پارک نے بتایا کہ مذہبی اسکولوں کی کمی اور تربیت یافتہ کوریائی علماء کی عدم موجودگی ایک چیلنج ہے۔ "پورے ملک میں صرف ایک کوریائی امام ہے، اور تعلیمی مراکز بہت محدود ہیں، جن میں ایک چھوٹا مرکز سیول میں بچوں کو انگریزی میں تعلیم دیتا ہے۔"

کچھ تفریق یا ہراسانی کے واقعات سامنے آئے ہیں، مگر حکومت قانونی طور پر تحفظ فراہم کرتی ہے اور جسمانی حملے یا سرکاری امتیاز کی اجازت نہیں دیتی۔

پارک نے بتایا کہ جنوبی کوریا کے نوجوان مسلمان اسلام کی تعلیم اور معلومات آن لائن اور سوشل میڈیا کے ذریعے پھیلا رہے ہیں۔ وہ ترجمہ اور میڈیا میں سب سے زیادہ فعال ہیں۔"

 

ان کے  لیے سب سے بڑے چیلنجز میں سے ایک غیر مسلم خاندانوں کے اعتراضات ہیں۔ "کئی والدین اپنے بچوں کے اسلام اختیار کرنے کے فیصلے کو نہیں سمجھ پاتے، مگر صبر اور مکالمے سے نوجوان اسلام پر قائم رہتے ہوئے خاندان کے ساتھ تعلقات قائم رکھ سکتے ہیں۔"

آج، جنوب کوریا میں اسلام تیزی سے  بڑھتا ہوا مذہب ہے ،   جس کی فکر کویت میں ایک مکالمے  کے دوران پیدا ہوئی،  شیخ  عبدالوہاب زاہد ندوی  نے اس فکر کو عملی جامہ پہنایا، اور اب اس  امانت کو  کوریائی نوجوان علم وعمل کے ذریعے آگے بڑھارہے ہیں۔ 

ہفتہ، 4 اکتوبر، 2025

شیخ بشیر احمد صدیق رحمہ اللہ کی وفات

 

از قلم : ڈاکٹر مبصرالرحمن قاسمی

شیخ القراء مسجد نبوی شریف

شیخ بشیر احمد صدیق رحمہ اللہ  کی وفات

 (ہندوستان سے مدینہ منورہ تک کا سفر)



2
اکتوبر 2025  بروز جمعرات کی صبحِ دمِ فجر، مدینہ منورہ کی مقدس فضا میں مسجد نبوی کے شیخ القراء، شیخ بشير أحمد صديق (رحمہ الله) کی روح اپنے خالق حقیقی سے جا ملی۔ نمازِ فجر بعد روضۂ اقدس کے جوار میں ان کی نمازِ جنازہ ادا کی گئی، اور اہل علم، طلبہ و محبین کی ایک بڑی جماعت نے اشکبار آنکھوں کے ساتھ انہیں جنت البقیع کے پاکیزہ احباب صحابہ کرام و تابعین کے پہلو میں سپردِ خاک کیا۔

ابتدائی تعلیم:

شیخ بشير أحمد صديق کا تعلق ماقبل تقسیم برصغیر کے خطہ پنجاب (مظفر گڑھ) کی بستی "لیہ" سے تھا، جہاں وہ 1357ھ / 1938ء میں پیدا ہوئے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں حسنِ صوت، ذکاوتِ ذہن اور حفظ و اتقان کی غیرمعمولی صلاحیتوں سے نوازا تھا۔ بچپن ہی میں قرآن مجید کو حفظ کر لیا اور "حفص عن عاصم" میں مہارت حاصل کی۔ پھر علم القراءات کی وادیوں میں قدم رکھا اور لاہور و کراچی کی عظیم درسگاہوں سے قراءات سبع و عشر کی تکمیل کی۔ اس سفر میں انہیں ایسے جلیل القدر شیوخ کی صحبت نصیب ہوئی جن میں الشيخ عبد العزيز الشوقي، الشيخ فتح محمد الفانيفتي، الشيخ حسن إبراهيم الشاعر اور شیخ القراء بالشام حسین خطاب شامل ہیں۔

ہجرتِ مدینہ و تدریس:

علم کا یہ پیکر 1385ھ میں شوقِ مدینہ لیے، حرمِ نبوی کے پہلو میں آن پہنچا۔ جلد ہی اسے تدریس کے منصب پر فائز کر دیا گیا۔ 1387ھ میں معهد القراءات بالمدینۃ المنورة میں مدرس مقرر ہوئے، پھر اس کے مدیر بنائے گئے۔ نصف صدی سے زیادہ مدت تک وہ مسجد نبوی میں درس دیتے رہے۔ ان کے حلقہ درس سے دنیا بھر کے طالبان علوم قرآن نے استفادہ کیا۔

علمی مقام و خدمات:

شیخ بشير أحمد صديق کی شہرت محض مدرس اور محدث قرآن کی نہ تھی بلکہ وہ ایک مرجع علمی تھے، جن کے سامنے قراءات کے مشکل مسائل حل ہوتے تھے۔ ان کا خاص امتیاز ضبطِ اسانید اور دقتِ تعلیم تھا۔ انہوں نے روایت و درایت دونوں کو جمع کیا۔ انہوں نے نہ صرف مدینہ  منورہ میں بلکہ دنیا کے مختلف ممالک (مغرب، مشرق وسطیٰ، یورپ، افریقہ) میں بھی قرآنی مدارس کا جائزہ لیا اور قراء کی تصحیح کی۔ کئی بار مراکش کے شاہی قصر میں رمضان المبارک میں تلاوت کے لیے مدعو کیے گئے۔

تلامذہ :

شیخ بشیر احمد صدیق کے حلقہ درس سے عظیم قراء کرام کا  ایک قافلہ تیار ہوا، جس نے عالمِ اسلام میں قراءات کی خدمت کو آگے بڑھایا۔ انہی میں دو جلیل القدر ائمہ حرم شیخ محمد ایوبؒ امام مسجد نبوی اور شیخ علی الجابرؒ جیسے نامور شخصیات ہیں جنہوں نے خدمت قرآن کریم میں عالمی شہرت حاصل کی۔ اس کے ہند و پاک، مغرب و الجزائر، مصر و شام سے لے کر جزائر الشرق تک درجنوں ممتاز قراء اور علماء کرام نے ان کے حلقہ درس سے استفادہ کیا۔

تصانیف :

شیخ بشیر احمد صدیق ؒ نے علم القراءات میں کئی گراں قدر تالیفات پیش کیں، جن میں:

1.  أوضح المعالم في قراءة الإمام عاصم بروایۃ شعبہ

2.  جامع المنافع في قراءة الإمام نافع بروايتي قالون وورش

اہم ہیں۔ اسی طرح انہوں نے قرآن کریم کو مختلف روایات (خصوصاً ورش عن نافع) پر ریکارڈ بھی کروایا، جو آج محفوظ ہے۔

اللهم اجزه عن القرآن وأهله خير الجزاء، واجعل قبره روضة من رياض الجنة، وارفع درجته في عليين مع النبيين والصديقين والشهداء والصالحين، وحسن أولئك رفيقًا.

 

فیچر پوسٹ

Watan se Mohabbat Aur Islam

✍ ڈاکٹر مبصرالرحمن قاسمی  وطن سے محبت ۔۔ دین اسلام کی رہنمائی ((ما أطيبَك من بلدٍ! وما أحبَّك إليَّ! ولولا أن قومي أخرجوني منك،...