کوریائی
داعی عبداللہ بارک کی مجلہ المجتمع سے
گفتگو
جنوبی کوریا میں اسلام کے
پھیلاؤ کی داستان کویت سے شروع ہوئی، تقریباً چالیس سال پہلے، یعنی 1982ء میں۔ کہا
جاتا ہے کہ اسی سال کویت کے وزیر اوقاف کے پاس ایک جنوبی کوریا کے وزیر آئے اور کویتی
حکام سے کہا:
"ہمارے
ہاں ہر مذہب کے مبلغ موجود ہیں، لیکن آپ کے مذہب کے لیے کوئی مبلغ نہیں ہے۔ کیوں نہ
آپ آ کر اسلام پھیلائیں؟"
اس پر کویتی وزیر نے حاضرین
سے مخاطب ہو کر کہا: "آپ میں سے کون اس ذمہ داری کو قبول کرنے کے لیے تیار ہے؟"
اس
وقت وہاں موجود تھے علامہ ابوالحسن علی ندوی کے شاگرد خاص ڈاکٹر عبدالوہاب زاہد ندوی، جن کا تعلق شام کے
شہر حلب سے تھا، وہ فوراً بولے: "میں
تیار ہوں۔" یوں وہ 1984ء سے لے کر اپنی وفات تک جولائی 2025ء تک جنوبی کوریا میں
اسلام کی تبلیغ میں مصروف رہے اور وہاں کے مسلمانوں کے مفتی کے فرائض انجام دیتے رہے۔
ان کی محنت کے ثمرات جلد ظاہر
ہوئے۔ آج جنوبی کوریا میں اسلام قبول کرنے والوں کی تعداد دو لاکھ سے زائد ہے، جبکہ
ملک کی کل آبادی تقریباً 50 ملین ہے۔ ان میں معروف کوریائی داعی عبداللہ پارک بھی شامل
ہیں، جنہوں نے کتاب "حصن المسلم" کو کوریائی زبان میں ترجمہ کیا اور بیس
صحابہ کی زندگی پر مشتمل بیس ویڈیوز تیار کیے۔
کویتی میگزن المجتمع کے ساتھ
گفتگو میں عبد اللہ پارک نے وہاں کے مسلمانوں کی صورتحال، خاص طور پر نوجوانوں کی مشکلات
اور اسلام اختیار کرنے میں درپیش چیلنجز پر روشنی ڈالی۔
عبد اللہ پارک نے بتایا:
"میں
جنوبی کوریا میں ایک مسیحی گھرانے میں پیدا ہوا۔ ہائی اسکول مکمل کرنے کے بعد میں نے
سچائی کی تلاش میں مختلف مذہبی اور فلسفیانہ کتب پڑھنا شروع کیں ۔ طویل تحقیق اور غور
و فکر کے بعد مجھے احساس ہوا کہ اسلام وہ مذہب ہے جو میرے سوالات کا صاف جواب دیتا
ہے: خالص توحید، انسان کی تخلیق کا مقصد، اور بغیر کسی واسطے کے خدا سے براہ راست رابطہ
۔ جیسے بنیادی اعمال سمیت قرآن مجید اور حضرت محمد ﷺ
اور صحابہ کی زندگی نے نے سب سے زیادہ مجھے متاثر کیا ۔
تاہم، یہ سفر آسان نہیں تھا۔
"ابتداء میں کچھ خاندان کے افراد اور معاشرتی روایات نے مخالفت کی، مگر صبر اور
دعا سے اللہ نے میرے لیے راہیں ہموار کر دیں اور میرا ایمان مضبوط کیا۔"
انہوں نے کہا: "اسلام
اختیار کرنے کے بعد مجھے احساس ہوا کہ میری ذمہ داری ہے کہ میں اپنے لوگوں کی خدمت
کروں۔ میں نے حصن المسلم کا ترجمہ کوریائی میں کیا تاکہ نئے مسلمان اسے بطور علمی مرجع
استعمال کرسکیں۔ پھر میں نے بیس ویڈیوز تیار کیں، جن میں صحابہ کی سادہ اور دلچسپ کہانیاں
پیش کی گئیں۔"
پارک نے مزید کہا کہ انہوں
نے اپنی ترجمہ اور میڈیا کی مہارت استعمال کر کے اسلامی تاریخ کو موجودہ کوریائی نوجوانوں
کی زندگی سے جوڑا، اور اللہ کے فضل سے یہ کام بہت وسیع پیمانے پر مقبول ہوا۔
اسلام اختیار کرنے والے کوریائی
افراد کے بارے میں پارک کا کہنا ہے:
"لوگ
مختلف وجوہات کی بنا پر اسلام اختیار کرتے ہیں؛ کچھ شادی یا دوستی کی وجہ سے، مگر زیادہ
تعداد تحقیق اور غور و فکر کے بعد اسلام قبول کرتی ہے۔"
انہوں نے بتایا کہ ماہر مبلغین
کی تعداد بہت کم ہے۔ صرف پانچ افراد نے مدینہ منورہ کی اسلامی یونیورسٹی سے تعلیم حاصل
کی ہے، جس کی وجہ بیرون ملک وظائف حاصل کرنے میں مشکلات اور اندرون ملک ادارہ جاتی
مدد کا فقدان ہے۔
عبداللہ پارک کے بقول کوریا
کی روایتی ثقافت مذہبی کام کے لیے مکمل وقف ہونے کی حوصلہ افزائی نہیں کرتی، مگر نئی
نسل کے نوجوان آن لائن تعلیم اور میڈیا کے ذریعے فرداً فرداً اسلام کی تبلیغ میں سرگرم
ہیں۔
وہ کہتے ہیں :جنوبی کوریا
میں مسلمانوں کی کل تعداد تقریباً دو لاکھ ہے، جن میں زیادہ تر غیر ملکی ملازمین اور
طلبہ ہیں۔ مقامی کوریائی مسلمان تقریباً پندرہ ہزار ہیں، جن میں سے صرف چند سو لوگ
باقاعدگی سے نماز ادا کرتے اور مسجد میں نظر آتے ہیں۔
جنوبی کوریا میں اسلام کی
اشاعت کے ذرائع کے حوالے سے وہ کہتے ہیں
کہ وہاں اسلام پھیلانے کا اہم ذریعہ
شادی ہے، اس کے بعد انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا آتا ہے، جہاں نوجوان ذاتی تحقیق کے ذریعے
اسلام سے واقف ہوتے ہیں۔
پارک نے بتایا کہ مذہبی اسکولوں
کی کمی اور تربیت یافتہ کوریائی علماء کی عدم موجودگی ایک چیلنج ہے۔ "پورے ملک
میں صرف ایک کوریائی امام ہے، اور تعلیمی مراکز بہت محدود ہیں، جن میں ایک چھوٹا مرکز
سیول میں بچوں کو انگریزی میں تعلیم دیتا ہے۔"
کچھ تفریق یا ہراسانی کے واقعات
سامنے آئے ہیں، مگر حکومت قانونی طور پر تحفظ فراہم کرتی ہے اور جسمانی حملے یا سرکاری
امتیاز کی اجازت نہیں دیتی۔
پارک نے بتایا کہ جنوبی کوریا
کے نوجوان مسلمان اسلام کی تعلیم اور معلومات آن لائن اور سوشل میڈیا کے ذریعے پھیلا
رہے ہیں۔ وہ ترجمہ اور میڈیا میں سب سے زیادہ فعال ہیں۔"
ان کے لیے سب سے بڑے چیلنجز میں سے ایک غیر مسلم خاندانوں
کے اعتراضات ہیں۔ "کئی والدین اپنے بچوں کے اسلام اختیار کرنے کے فیصلے کو نہیں
سمجھ پاتے، مگر صبر اور مکالمے سے نوجوان اسلام پر قائم رہتے ہوئے خاندان کے ساتھ تعلقات
قائم رکھ سکتے ہیں۔"
آج، جنوب کوریا میں اسلام تیزی سے بڑھتا ہوا مذہب ہے ، جس کی فکر کویت میں ایک مکالمے کے دوران پیدا ہوئی، شیخ عبدالوہاب زاہد ندوی نے اس فکر کو عملی جامہ پہنایا، اور اب اس امانت کو کوریائی نوجوان علم وعمل کے ذریعے آگے بڑھارہے ہیں۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں