قرآن کے
سائنسی اعجاز کا عظیم مفسر
ڈاکٹر زغلول النجار: ایک منفرد علمی سفر کا
اختتام
========
ازقلم: ڈاکٹر
مبصرالرحمن قاسمی
9 نومبر بروز اتوار کو امتِ
اسلامیہ اپنے ایک عظیم عالم اور داعی، ڈاکٹر زغلول النجار سے محروم ہو گئی۔ انا لله وإنا إليه راجعون ...
ڈاکٹر زغلول النجار کا شمار
قرآنِ مجید کے
سائنسی اعجاز کے بیان میں پیش پیش رہنے والے عظیم علما میں
ہوتا ہے۔ انہوں نے اپنی پوری زندگی قرآن کے سائنسی معجزات کو سمجھنے، بیان کرنے اور
جدید سائنسی تحقیقات سے جوڑنے میں صرف کی۔ ان کی یہ علمی کاوشیں نہ صرف مسلم دنیا بلکہ
پوری انسانیت کے لیے ایک قیمتی خزانہ ثابت ہوئیں۔ مرحوم کا اسلوب اس قدر معیاری تھا
کہ وہ اس میدان کے ایک معتبر اور عالمی سطح کے مرجع بن گئے۔
ڈاکٹر زغلول النجار نے جیالوجی
کے میدان میں کئی تحقیقی مقالے لکھے اور قرآن کریم کے سائنسی معجزات پر اپنی تحقیقات
کے لئے شہرت حاصل کی۔
ولادت اور ابتدائی
زندگی:
ڈاکٹر زغلول راغب محمد النجار
17 نومبر 1933 کو مصر کے صوبہ الغربية کے شہر مشاری، مرکز بسیون میں پیدا ہوئے۔ انہوں
نے بچپن میں ہی قرآن مجید حفظ کر لیا تھا، اور یہ کام انہوں نے اپنے والد کی رہنمائی
میں کیا جو خود ایک مدرس تھے۔ والد نے ہمیشہ اپنے بچوں کی تربیت میں دینی اور اخلاقی
قدروں کی اہمیت پر زور دیا، ان کے گھر میں یہ معمول تھا کہ وہ ہر کھانے کے وقت گھر
والوں کو سیرت، فقہ یا حدیث کا درس دیتے۔
ڈاکٹر زغلول ہمیشہ اپنے والد
کا ذکر کرتے ہوئے ایک دلچسپ بات بتاتے تھے، وہ کہتے تھے کہ والد قرآن کی تعلیم دیتے
وقت کبھی نیند میں بھی غفلت نہیں برتتے تھے اور اگر کوئی غلطی کرتے تو فوراً درست کردیتے۔
ڈاکٹر زغلول نے اپنی ابتدائی
تعلیم کے بعد 1951 میں قاہرہ یونیورسٹی میں داخلہ لیا اور 1955 میں جیالوجی میں گریجویشن
کیا۔ وہ اپنی کلاس میں اول آئے اور انہیں بیچلر آف سائنس کی ڈگری میں اعزاز حاصل ہوا۔
عنفوان شباب:
جوانی کے عالم میں ڈاکٹر زغلول
النجار پر اسلامی فکر کا گہرا اثر ہوا، خصوصا بیسویں صدی کے آغاز میں مختلف دینی شخصیات
نے انھیں متاثر کیا۔ اس فکر کے اثرات کی وجہ سے ان کی زندگی میں مشکلات آئیں، اور اس
وجہ سے انہیں قاہرہ یونیورسٹی میں تدریس کے لیے منتخب نہیں کیا گیا، حالانکہ وہ اپنی
جماعت میں سب سے نمایاں طالب علم تھے۔ اس کے بعد ڈاکٹر زغلول 1955 سے 1963 تک مختلف
ملازمتوں سے وابستہ رہے، جن میں صحارا پیٹرولیم کمپنی، قومی تحقیقاتی مرکز اور پھر
فاسفیٹ کی کانوں میں ملازمت شامل ہے۔ وہاں ان کی محنت اور علمی قابلیت کا سکہ چل گیا
اور انہوں نے "ابو طرطور" کی کانوں سے چھ ماہ میں تجارتی فاسفیٹ کی پہلی
بڑی مقدار پیدا کی، جس کے بعد ان کی کامیابی کی بدولت کئی عالمی سطح پر انعامات ملے۔
تعلیمی اسفار
اور کامیابیاں:
ڈاکٹر زغلول نے 1963 میں برطانیہ
کی یونیورسٹی آف ویلز سے جیالوجی میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ اس کے بعد انہیں پوسٹ
ڈاکٹریٹ ریسرچ کے لیے ایک اہم اسکالرشپ دی گئی، جس کی سفارش ان کے برطانوی استاد نے
کی، ڈاکٹر زغلول کے لئے یہ موقع ایک سنگ میل ثابت ہوا، اور ان کی تحقیقاتی خدمات نے
انہیں عالمی سطح پر ایک اہم مقام دلایا۔
یہ ان کی سچائی، محنت اور
علم کی تڑپ کا نتیجہ تھا کہ انہوں نے اپنے پورے کیریئر میں علمی اور تحقیقی دنیا میں
نمایاں کامیابیاں حاصل کیں اور سائنسی معجزات پر اپنی تحقیقی خدمات پیش کیں۔
علمی خدمات:
ڈاکٹر زغلول نے انگلینڈ میں
قیام کے دوران جیالوجی کے شعبے میں چودہ تحقیقی مقالے پیش کیے اور ریسرچ کمیٹی نے ان
کی تحقیقات کے مکمل نشر کیے جانے کی سفارش کی، اور اس دوران 600 صفحات پر مشتمل ایک
یادگاری نمبر تیار کیا جس میں ڈاکٹر زغلول کی تحقیقات کو برطانوی شاہی میوزیم میں شامل
کیا گیا۔ یہ مجموعہ اب تک سترہ بار شائع ہوچکا ہے۔
اس کے بعد ڈاکٹر زغلول النجار
نے 1967 میں کویت منتقل ہوکر وہاں جیالوجی کے شعبے کی بنیاد رکھی، اور تدریسی میدان
میں ترقی کرتے ہوئے 1972 میں پروفیسر کے عہدے پر فائز ہوئے، اسی سال انہیں جیالوجی
کے شعبے کا سربراہ بھی مقرر کیا گیا۔
پھر 1978 میں ڈاکٹر زغلول
نے قطر کا رخ کیا، جہاں 1979 تک جیالوجی کے شعبے کے سربراہ کے طور پر خدمات انجام دیں۔
اس سے پہلے، 1977 میں، انہوں نے ایک سال کے لیے یونیورسٹی آف کیلیفورنیا میں بطور وزیٹنگ
پروفیسر تدریس کی۔
ڈاکٹر زغلول نے جیالوجی کے
شعبے میں تقریباً پچاسی تحقیقی مقالے شائع کیے، جن میں سے زیادہ تر عرب ممالک کی زمین
کی ساخت پر مرکوز تھے جیسے مصر، کویت اور سعودی عرب۔ ان میں سے چند اہم تحقیقات درج
ذیل ہیں:
·
مصر
میں مختلف زمین کی تہوں کا تجزیہ
·
مصر
میں ابو طرطور فاسفیٹ
·
قدرتی
طور پر پائے جانے والے تیل کا مطالعہ
·
سعودی
عرب میں زیر زمین پانی
·
سعودی
عرب کے شمال مغربی حصے میں فاسفیٹ
·
سعودی
عرب کی زمین میں محفوظ توانائی
·
کویت
کی جیالوجی 600 ملین سال قبل
ان کے تحقیقی کام میں انسانی
تاریخ اور کائنات کے آغاز سے متعلق مختلف مسائل بھی شامل ہیں، جیسے:
·
زمین
کی عمر کا اندازہ
·
انسان
اور کائنات کی تاریخ
·
علمِ
نجوم اور کائنات کی ابتدا
مزید برآں، ڈاکٹر زغلول نے
تقریباً چالیس اسلامی سائنسی مقالے بھی لکھے، جن میں سائنس کی اہمیت اسلامی نقطہ نظر
سے، اسلامی معاشرے میں سائنس اور ٹیکنالوجی
کی اہمیت، قرآن میں جیالوجی کے علوم، حجرِ اسود کی کہانی
وغیرہ شامل ہیں۔
ان کی مشہور کتابوں میں سے
کچھ درج ذیل ہیں:
الجبال في القرآن
إسهام المسلمين الأوائل في علوم
الأرض
أزمة التعليم المعاصر
قضية التخلف العلمي في العالم
الإسلامي المعاصر
صور من حياة ما قبل التاريخ
اس کے علاوہ، ان کے دو تحقیقی
مقالے اسلامی تحریکوں اور مسلمانوں کی موجودگی پر ہیں:
·
النشاط الإسلامي في أمريكا
·
المسلمون في جنوب أفريقيا
دکٹر زغلول النجار نے قرآن
کے سائنسی معجزات پر اپنی تحقیق کو ایک نمایاں مقام دیا، اور ان کی علمی خدمات نے انہیں
ایک معتبر اور عالمی سطح کا محقق بنا دیا۔ انہوں نے تقریباً چالیس مشاورتی رپورٹس اور
غیر شائع شدہ تحقیقی مقالے لکھے ہیں، اور مصر، جزیرہ نما عرب، اور خلیج عرب کی جیالوجی
پر تین سو سے زائد ماسٹرز اور ڈاکٹریٹ کی تھیسس کی نگرانی کی ہے۔
ڈاکٹر زغلول کی
علمی خدمات اور اعزازات:
ڈاکٹر زغلول النجار نے بحر
شمال کی تہہ کی پہلی جیالوجیکل نقشہ سازی کی۔
انہیں کئی اہم انعامات سے
نوازا گیا، جن میں 1975 میں عرب پٹرولیم کانفرنس کے لیے بہترین تحقیقاتی مقالے کا ایوارڈ
اور مصطفی برکہ جیالوجی ایوارڈ شامل ہیں۔
ڈاکٹر زغلول انگلینڈ میں Markfield
Institute of Higher Education کے تعلیمی ادارے کے نگراں
بھی رہے، یہ ادارہ مختلف اسلامی شعبوں جیسے معاشیات، بینکاری، اسلامی تاریخ، موجودہ
اسلامی فکر، معاصر تحریکات، خواتین کے حقوق اور ان کے آزادی کے حوالے سے ماسٹرز اور
ڈاکٹریٹ کی ڈگریاں فراہم کرتا ہے۔
ڈاکٹر زغلول النجار
بحیثیت عالم دین وداعی اسلام:
ڈاکٹر زغلول النجار کا تعلق
ایک وسیع اور معروف علمی میدان سے ہے، خاص طور پر "قرآن مجید میں سائنسی اعجاز"
کے حوالے سے ان کی گہری دلچسپی رہی۔ ان کا ماننا تھا کہ اللہ تعالیٰ کی طرف دعوت دینے
کا یہ سب سے اہم اور مؤثر طریقہ ہے ۔ وہ علماء کرام کے تءیں اس حوالے سے افسوس کا اظہار
کرتے ہوئے کہتے تھے: "اگر مسلمانوں کے علماء سائنسی اعجاز پر توجہ دیتے اور اسے
واضح علمی دلائل کے ساتھ پیش کرتے، تو یہ اللہ کی دعوت کے سب سے اہم وسائل میں سے ایک
بن سکتا تھا۔" ان کا خیال تھا کہ علماء کے پاس وہ علمی اور دینی صلاحیت ہے جس
کے ذریعے وہ ان دونوں پیغامات کو یکجا کر کے دنیا کے سامنے پیش کر سکتے ہیں۔
ڈاکٹر زغلول نے اپنی زندگی
کا بیشتر حصہ اس مقصد کے لیے وقف کیا، اور اپنے علمی و دینی عقائد کی بنیاد پر اس پیغام
کو پھیلایا۔ انہوں نے دنیا بھر میں سفر کیا، اور دعوت دین کے لیے مختلف سیمینارز، کانفرنسوں،
ٹی وی شو، اور مذاکروں میں حصہ لیا۔ وہ ہمیشہ اس بات پر زور دیتے تھے کہ ہر نوجوان
کو دین کو سمجھنا چاہیے اور اس کی تعلیمات کو دوسرے تک پہنچانا چاہیے۔ ایک محاضرے میں
انہوں نے کہا: "ہم مسلمان اس وحی کے حامل ہیں جو اللہ کی طرف سے ہے، جسے اللہ
نے ہر حرف اور ہر لفظ میں محفوظ رکھا ہے، اور یہ وحی چودہ سو سال پہلے آئی تھی۔ میں
اس بات کو اس لیے کہتا ہوں کہ میں چاہتا ہوں کہ ہر مسلمان نوجوان اس بات کو اپنے دل
و دماغ میں ریکارڈ کرے تاکہ وہ اس امانت کا احساس کرے جو وہ اپنے کاندھوں پر اٹھا رہا
ہے۔"
ڈاکٹر زغلول کا ایمان تھا
کہ ہمیں علم کے فائدے کو اپنے تمام وسائل کے ذریعے استعمال کرنا چاہیے، اور اس کا صحیح
استعمال صرف مسلم عالم ہی کر سکتا ہے۔ وہ کہتے تھے: "ہم ایسے دور میں جی رہے ہیں
جس میں انسان نے کائنات اور اس کے اجزاء کے بارے میں ایسی معلومات حاصل کی ہیں جو کسی
بھی پچھلے دور میں ممکن نہ تھیں۔ علم کا دریا مسلسل بڑھ رہا ہے اور اللہ تعالیٰ نے
انسان کو وہ وسائل دئے ہیں جن کے ذریعے وہ کائنات کا جائزہ لے سکتا ہے اور اللہ کے
قوانین کو سمجھ سکتا ہے۔" ایک اور مقام پر وہ کہتے ہیں: "چونکہ کائناتی علم
مسلسل ترقی کر رہا ہے، اس لیے امت مسلمہ پر فرض ہے کہ ہر دور میں کچھ علماء کائنات
کے ان علوم کی مدد سے اللہ کی کتاب کو سمجھنے کے لیے اپنی ضروری تدابیر سے لیس ہوں۔"
ڈاکٹر زغلول یہ بھی واضح کرتے
تھے کہ قرآن مجید دراصل انسانیت کی رہنمائی کے لیے ہے، نہ کہ یہ قدرتی سائنس یا انسانی
علوم کا مکمل منبع ہے۔ وہ اس بات کی وضاحت کرتے ہیں: "قرآن میں تقریباً ایک ہزار
آیات ایسی ہیں جو کائنات اور اس کے اجزاء کے بارے میں ہیں، اور ان آیات کا مقصد اللہ
کی تخلیق کے کمالات کی نشاندہی کرنا ہے۔ یہ آیات اس لیے نہیں آئی ہیں کہ انسان کو سائنسی
معلومات فراہم کریں، بلکہ یہ اللہ کی تخلیقی عظمت اور قدرت کو سمجھنے کے لیے ہیں۔"
ڈاکٹر زغلول ہمیشہ اس بات پر زور دیتے ہیں کہ ہر ماہر کو اپنے شعبے میں علمی اعجاز
کو سمجھنا چاہیے اور جو کچھ وہ جانتا ہے، اسی پر اصرار کرنا چاہیے۔ وہ کہتے ہیں:
"کائناتی اعجاز کے لیے صرف ثابت اور قطیعی سائنسی حقائق کو ہی استعمال کرنا چاہیے،
اور ہر ماہر کو صرف اپنے تخصص میں ہی اس پر بحث کرنی چاہیے۔"
قطر کی وزارت اوقاف اور اسلامی
امور نے ڈاکٹر زغلول النجار کے مختلف کتابوں کا مجموعہ شائع کیا ہے، جن میں قرآن میں
بیان کیے گئے زمین، آسمان اور دیگر مخلوقات کے سائنسی اعجاز کو بیان کیا گیا ہے، اور
ان میں نہایت عمدہ توازن اور سچائی کے ساتھ ان اعجازات کو پیش کیا گیا ہے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں