اتوار، 26 اگست، 2012

رمضان کے بعد استقامت

0 تبصرے


رمضان کے بعد استقامت


ایک ماہ سے ہمارے درمیان موجود  معزز مہمان رمضان  المبارک اب ہم سے جدا ہورہا ہے، لیکن کیا ہم نے رمضان کو ہم سے راضی کرکے الوداع کیا، یا پھر رمضان ہم پر اور ہمارے احوال پر حسرت وندامت کے مارے روتےہوئے گذر گیا، ہر سال کی طرح  تورمضان چند خوبصورت لمحے بن کر چلا نہ گیا، ہمیں اس موقع پر اپنے نفس کا محاسبہ کرنا چاہیے اور رمضان کے بعد بھی طاعات وبندگی پرثبات کے لیے ایک ایمانی منصوبہ اور لائحہ عمل بنانا چاہیے، تاکہ شوال سے آئندہ رمضان تک انشاء اللہ ہم اُن ایمانی مقاصد کی تکمیل پر عمل کرسکیں۔
ہر اس فرد کےنام یہ چند نصیحتیں ہیں جسے رمضان کے بعد غفلت اور معاصی کے گڑھے میں دوبارہ گرنے کا خوف ہے:
کیا ہمارا رمضان قبول ہوا یا نہیں؟!
۱۔اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ اس نے رمضان ، اس کے روزے اور قیام کی توفیق بخشی،لیکن ہمیں اپنی عبادتوں پر کبر وفخر نہیں کرنا چاہیے؛ سلف صالحین کا معاملہ یہ تھا کہ اُن پر قبولیت کی فکر سوار رہتی تھی، لہٰذا وہ چھ مہینوں تک قبولیت کے لیے دعائیں کرتے تھے،  یہاں ایک سوال ہے: کیا ہم نے رمضان کے قبولیت کی ضمانت لے لی ہے؟!، کیا روزوں کے مقاصد کی تکمیل ہوگئی ہے؟!
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ۔[البقرة: 183]
’’مومنو! تم پر روزے فرض کئے گئے ہیں جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کئے گئے تھے تاکہ تم پرہیزگار بنو۔‘‘
روزہ کا مقصد تقوی ہے، لہٰذا مہینہ کے ختم کے ساتھ آپ کے اندر تقوی پیدا ہوجائے تو اللہ کے حکم سے یہ قبولیت کی علامت ہے۔
جکڑے ہوئے شیطان کے مکروفریب سے بچیے:
شیطان آپ کا سب سے بڑا دشمن ہے، یہی وجہ ہے کہ رمضان کے پورے مہینے میں اس کے فریب سے روکا گیا ، اب وہ عنقریب تمہیں  ہر قسم کے حقد وحسد اور دھوکہ وفریب میں  تین طریقوں سے ڈالنے کی کوشش کرے گا:
۱۔وہ تمہیں گناہوں اور نافرمانیوں میں ڈالے گا، تاکہ تم مایوس ہوجاؤ، لہٰذا تمہیں اپنے اعمال کا تدارک کرنا چاہیے، اگر گناہ کا ارتکاب ہو تو استغفار اور تعوذ یعنی اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم پڑھیئے۔
۲۔وہ اعمال پر خودپسندی کی دعوت دے گا تاکہ تمہارے اعمال ضائع ہوجائے، ارشاد ربانی ہے:
إِنَّ الَّذِينَ ارْتَدُّوا عَلَى أَدْبَارِهِمْ مِنْ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُمُ الْهُدَى الشَّيْطَانُ سَوَّلَ لَهُمْ وَأَمْلَى لَهُمْ۔[محمد: 25]،
’’جو لوگ راہِ ہدایت ظاہر ہونے کے بعد پیٹھ دے کر پھر گئے شیطان نے یہ کام اُن کو اچھا کردکھایا اور انہیں لمبی عمر کا وعدہ دیا۔‘‘
شیطان تمہیں رمضان میں کیے گئے اعمال کے سلسلے میں یہ بتائے گا کہ رمضان کے اعمال اب تمہارے لیے کافی ہے اور مزید کی ضرورت نہیں، لہٰذا خبردار رہیئے!
۳۔ غروروگھمنڈ اور لمبی امید: ارشاد باری تعالیٰ ہے:
يَعِدُهُمْ وَيُمَنِّيهِمْ وَمَا يَعِدُهُمُ الشَّيْطَانُ إِلا غُرُورًا۔[النّساء: 120]
’’وہ ان کو وعدے دیتا ہے اور امیدیں دلاتا ہے، اور جو کچھ شیطان انہیں وعدے دیتا ہے وہ دھوکا ہی دھوکا ہے۔‘‘
کم ہمتی اور پست حوصلگی سے دور رہیئے:
رمضان کے بعد پانچ چیزوں پر اہتمام اور کسی بھی حال میں ان پانچ چیزوں میں کوتاہی نہ کرنے پر اتفاق کرنا ضروری ہے؛ تاکہ ہمارے دل ایمان پر قائم اور ثابت قدم رہے۔
۱۔باجماعت پانچوں نمازوں کی اور خاص طور پر فجر کی پابندی۔
۲۔قرآن کریم کی یومیہ تلاوت۔
۳۔یومیہ اذکار کا ورداور خالی اوقات میں اللہ کا ذکر۔
۴۔ ایسی چیز اور ایسے دوست وساتھی کا انتخاب جو اللہ کی اطاعت میں ہمارے لیے معین ومددگار ثابت ہو، کیونکہ انسان اپنے دوست کے دین پر ہوتا ہے،اور قیامت کے دن متقین کے علاوہ دوست دوستوں کے دشمن ہونگے۔
۵۔ دعاء کے لیے خاص وقت کا تعین: فرمان باری تعالیٰ ہے:
وَقَالَ رَبُّكُمُ ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ۔[غافر: 60]
’’اورتمہارے پروردگار نے فرمایا ہے تم مجھ سے دعا کرو میں تمہاری دعا قبول  کروں گا‘‘
دعا یہ کرے کہ اللہ تعالیٰ طاعت وبندگی پر قائم وثابت قدم رکھے۔
آفات اور مسائل جن سے نفس کو پاک رکھنا ضروری ہے:
تین آفات اورخراب عادتیں جن سے تم دوچار ہوسکتے ہیں؛ ان سے بچنا بہت ضروری ہے، اس سے بچاؤ کے لیے ایک  عملی پروگرام ترتیب دیجیے، تاکہ آنے والے وقت میں ان آفات سے نجات مل سکے، ساتھ ہی اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ان گناہوں اور آفات سے حفاظت فرمائے، نفس کو درپیش مسائل اور آفات جن سے بچنے کی کوشش کرنا ہے وہ یہ ہیں:
طاعت وبندگی میں کاہلی:
اگر تمہیں یہ معلوم ہوجائے کہ تم طاعت وبندگیِ  رب میں سست اور کاہل واقع ہوئے ہیں،جیسا کہ ارشاد ربانی ہے:
وَإِذَا قَامُوا إِلَى الصَّلاةِ قَامُوا كُسَالَى [النّساء: 142] ’’اور جب یہ نماز کو کھڑے ہوتے ہیں تو سست اور کاہل ہوکر‘‘۔
تواپنی  ہمت کو آواز دیجیے اور سُستی کو ترک کرنے کے لیے اپنے نفس کے ساتھ مجاہدہ کیجیے، تاکہ تمہارا شمار نماز میں سستی کرنے والوں میں نہ ہو۔
طاعات وبندگیِ رب میں عدمِ دلچسپی:
۔لالچ: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
ولا يجتمع الشّحُّ والإيمان في قلب عبدٍ أبدًا۔[رواه النّسائي 3110 وصححه الألباني]،
’’کسی بندے کے دل میں لالچ اور ایمان کبھی  ایک ساتھ جمع نہیں ہوسکتے۔‘‘
اور فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے:  ثلاث مهلكاتٌ، وثلاث منجياتٌ، وثلاث كفاراتٌ، وثلاث درجاتٌ، فأمّا المهلكات: فشحٌّ مطاع۔[حسنه الألباني2607 في صحيح التّرغيب]،

تین چیزیں نجات دلاتی ہیں ، تین ہلاک کرتی ہیں ، تین رفعِ درجات کا سبب ہیں ، اور تین کفارۂ سیئات ہیں۔ بہرحال ہلاک کرنے والی تین چیزوں میں : (پہلی) تو وہ انتہائی کنجوسی  ہے۔


۔ریاء اور دکھلاوا:  ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے:
إنّ أخوف ما أخاف عليكم الشّرك الأصغر الرّياء، يقول الله عزَّ وجلَّ إذا جزى النّاس بأعمالهم: اذهبوا إلى الّذين كنتم تراؤون في الدّنيا، فانظروا هل تجدون عندهم جزاء۔[صححه الألباني 32 في صحيح التّرغيب]
’’مجھے تم پر جس چیز کا سب سے زیادہ ڈر ہے وہ شرک اصغر یعنی ریاء کا ہے، اللہ تعالیٰ جب بندوں کو ان کے اعمال کا بدلہ دیں گے تو فرمائیں گے: جاؤ ان لوگوں کے پاس جنھیں تم دنیا میں دکھایا کرتے تھے، اور دیکھو کہ کیا ان کے پاس تمہارا کوئی بدلہ بھی ہے۔‘‘
۔غفلت: یہ دل پر اثر انداز ہونے کا ایک سبب ہے، لیکن اس کا علاج ان باتوں سے کیا جاسکتا ہے:
۱۔ اللہ تعالیٰ کی اس کے اسماء اور صفات کے ساتھ معرفت۔
۲۔عدم قبول کا خوف، یہی قبولیت کا صحیح طریقہ ہے۔
۳۔رمضان کے بعد اطاعت وبندگی پر ثابت قدمی، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:
إنّ لكلّ عمل شرّة، ولكل شرّة فترة، فمن كانت فترته إلى سنّتي، فقد اهتدى، ومن كانت فترته إلى غير ذلك فقد هلك» [رواه ابن خزيمة 2105 وصححه الألباني]
’’ ہر عمل كے ليے نشاط و رغبت ہوتى ہے، اور ہر نشاط و رغبت كے ليے ايك مدت ہے، جس كى مدت ميرى سنت كى جانب ہو تو وہ كامياب ہے، اور جو اس كے علاوہ ہو تو وہ ہلاك ہو گيا‘‘۔
اطاعت وبندگی پر مداومت:
اطاعت وبندگی کی پابندی اللہ کے مومنین بندوں کی صفت ہے، اطاعت وبندگی پر پابندی کرنا انبیاء کے لیے اللہ کاحکم ہے، فرمان باری تعالیٰ ہے:
وَاعْبُدْ رَبَّكَ حَتَّى يَأْتِيَكَ الْيَقِينُ۔[الحجر: 99]
لہٰذا نیک اعمال وبندگی پر مداومت کی کوشش کیجیے، گرچہ عمل تھوڑا ہو، ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے:
«يا أيُّها النّاس! عليكم من الأعمال ما تطيقون. فإنّ الله لا يملّ حتى تملّوا. وإن أحبّ الأعمال إلى الله ما دووم عليه وإن قل» [رواه مسلم 782]
’’اے لوگو! تم پر وہی اعمال واجب ہے جس کے کرنے کی تم میں طاقت ہو، بیشک اللہ تعالیٰ اکتاتے نہیں، بلکہ (اعمال کرتے کرتے) تم اکتا جاؤ، اللہ تعالیٰ کو سب سے محبوب عمل وہ ہے جو مسلسل کیا جائے اگرچہ وہ تھوڑا ہی ہو۔‘‘
رمضان کے بعد:
ماہ رمضان المبارک خیر واطاعت اور بندگی وعبادت کا موسم تھا، لیکن آخرت کی تیاری کے لیے ہر وقت انسان کےلیے فرصت ہے،لہٰذا پیارے مسلمان بھائی! آپ  کے لیے ضروری ہے کہ نماز، روزے، صدقہ وخیرات، ذکر وتلاوت اور تمام عبادتوں کےذریعے نیک اعمال کو جاری رکھیں، چونکہ اعمال کے قبولیت کی علامت ہی یہی ہے کہ نیک اعمال کے بعد پھر نیک عمل کرنے کی توفیق ہوتی ہے،لہٰذا وقت نکلنے سے پہلے جلدی کیجیے، اپنی زندگی، اپنی جوانی، اور اپنے فارغ اوقات کو غنیمت جانیے اور مشروع اعمال میں خرچ کیجیے، ذیل میں اشارہ کیے گئے اعمال پر توجہ دیجیے:
نفل روزہ: روزہ اللہ تعالیٰ سے قریب کرنے کا سب سے افضل طریقہ ہے، نفل روزہ بندے کو جہنم سے دور کرتا جاتا ہے، ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے:
ما من عبدٍ يصوم يومًا في سبيل الله. إلا باعد الله، بذلك اليوم، وجهه عن النّار سبعين خريفًا۔[رواه مسلم 1153]
’’جو بندہ اللہ کے راستے میں روزہ  رکھتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کے چہرے کو اس دن سے جہنم کی آگ سے ستر خریف دور کردیتے ہیں۔‘‘
لہٰذا نفل روزوں میں پیر اور جمعرات کا روزہ، ماہ محرم کے روزے، عاشوراء کا روزہ، شعبان کے روزے، عرفہ کا روزہ اور ان سب روزوں میں افضل ترین روزہ ایک دن روزہ اور ایک دن بے روزہ رہنا ہے۔
یومیہ ورد:
ہر نماز کے بعد روزانہ چار صفحے کتاب اللہ کی تلاوت پر مشتمل اپنا یومیہ ورد طے کیجیے، تاکہ ہر ماہ ایک قرآن ختم ہوسکے، شیخ ابن باز کے بقول: انسان جو بھی میسر ہو پڑھے، اگر ایک دن میں آٹھواں حصہ پڑھتا ہے اور دوسرے دن کچھ زیادہ اور  کبھی ایک پارہ پڑھتا ہے، حسب سہولت تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں، انسان کے لیے جتنا بھی آسان ہو چار صفحے، ربع، نصف یا پورا پارہ پڑھ لیا کرے، لیکن تلاوت سے غافل نہ رہے، اگر پورے مہینے میں ایک مرتبہ ختم کرسکتا ہو یا پھر دو مہینوں میں ایک مرتبہ ختم کرسکے کوئی حرج نہیں۔۔بلکہ اللہ کا شکر ہی ہے۔
زبان کی حفاظت:
حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
إذا أصبح ابن آدم فإن الأعضاء كلها تكفر اللسان فتقول: اتّق الله فينا، فإنّما نحن بك، فإنِ استقمت استقمنا، وإن اعوججت اعوججنا۔[رواه التّرمذي 2407 وحسنه الألباني]
’’جب آدمی صبح کرتا ہے تو اس کے سارے اعضاء عاجزی اور لجاجت کے ساتھ زبان سے کہتے ہیں کہ ہمارے بارے میں خدا سے ڈر کیونکہ ہم تو تیرے ہی ساتھ بندھے ہوئے ہیں۔ تو ٹھیک رہی تو ہم ٹھیک رہیں گے اور اگر تو نے غلط روی اختیار کی تو ہم بھی غلط روی کریں گے۔‘‘
شیخ ابن باز ؒ فرماتے ہیں: اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر اپنی زبانوں کی حرام چیزوں سے حفاظت واجب کی ہے، ارشاد ربانی ہے:
مَا يَلْفِظُ مِنْ قَوْلٍ إِلا لَدَيْهِ رَقِيبٌ عَتِيدٌ۔[ق: 18]
’’کوئی بات اُس کی زبان پر نہیں آتی مگر ایک نگہبان اس کے پاس لکھ لینے کو تیار رہتا ہے۔‘‘
لہٰذا حرام سے زبان کی حفاظت ایک مسلمان پر واجب ہے، غیبت، چغلی، گالی گلوج، جھوٹ، جھوٹی گواہی، ان میں سے ہر ایک سے زبان کو محفوظ رکھنا واجب ہے، مومن طعنہ دینے والا، لعن کرنے والا اور گندی اور خراب بات کرنے والا نہیں ہوتا۔
حُسن اخلاق:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے لوگوں کو جنت میں کثرت سے داخل کرنے والے عمل سے متعلق پوچھا گیا: توآپ نے ارشاد فرمایا: اللہ کا ڈر اور حسن اخلاق۔(سُئل رسول الله -صلَّى الله عليه وسلَّم عن أكثر ما يدخل النّاس الجنّة؟ فقال: «تقوى الله وحسن الخلق۔[رواه التّرمذي 2004 وصححه الألباني]
مریض کی عیادت:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:  
ما من مسلمٍ يعود مسلمًا غدوةً؛ إلا صلَّى عليه سبعون ألف ملك حتى يمسي، وإن عاد عشيةً؛ إلا صلَّى عليه سبعون ألف ملك حتى يصبح، وكان له خريف في الجنّة۔ [صححه الألباني 3476 في صحيح التّرغيب]
(جب کوئی مسلمان کسی دوسرے مسلمان کی عیادت کے لئے صبح کے وقت جاتا ہے توشام تک ستر ہزار فرشتےاس کے حق میں مغفرت اور رحمت کی دعا کرتے رہتے ہیں ۔ اورجو مسلمان رات کے وقت کسی مسلمان کی عیادت کے لئے جاتا ہے تو صبح تک ستر ہزار فرشتے مغفرت اور رحمت کی دعا کرتے رہتے ہیں یہاں تک کہ اس کے لئے جنت میں ایک باغ مخصوص کردیا جاتا ہے ۔)
حبیب کی وصیت:
پیارے نبی کی وصیت پر عمل کرنے اور زندگی میں اسے اپنے اوپر نافذ کرنے کی کوشش کیجیے، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
أوصاني خليلي -صلَّى الله عليه وسلَّم- بثلاث لا أدعهنّ في سفر ولا حضر: ركعتي الضّحى، وصوم ثلاثة أيام من الشّهر، وأن لا أنام إلا على وتر۔[رواه أبو داود 1432 وصححه الألباني]
’’ ميرے خليل صلى اللہ عليہ وسلم نے مجھے تين چیزوں كى نصيحت فرمائى كہ ميں انہيں نہ تو سفر ميں ترك كروں اور نہ ہى حضر ميں: چاشت كى دو ركعت، اور مہينہ ميں تين يوم كے روزے ركھنا، اور وتر ادا كر كے سونا‘‘
جنت میں داخلے کا طریقہ:
یہ جنت میں داخلے کا سب سے آسان طریقہ ہے، ہفتے یا مہینے میں ایک بار اس پر عمل کی کوشش کیجیے، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے: فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
من أصبح منكم اليوم صائمًا؟ قال أبو بكر: أنا. قال: فمن تبع منكم اليوم جنازة؟ قال أبو بكر: أنا. قال: فمن أطعم منكم اليوم مسكينًا؟ قال أبو بكر: أنا. قال: فمن عاد منكم اليوم مريضًا؟ قال أبو بكر: أنا. فقال رسول الله -صلَّى الله عليه وسلَّم-: ما اجتمعن في امرئ إلا دخل الجنّة۔[رواه مسلم 1028]
’’آج کس نے حالت روزہ میں صبح کی؟ ابوبکر نے فرمایا: میں نے، پھر آپ ﷺ نے فرمایا: آج کس نے جنازے میں شرکت کی؟ ابوبکر نے فرمایا: میں نے، پھر آپ ﷺ نے فرمایا: آج کس نے مسکین کو کھانا کھلایا؟ ابوبکر نے فرمایا: میں نے، پھر آپ ﷺ نے فرمایا: آج کس نے مریض کی عیادت کی؟ ابوبکر نے کہا: میں نے،  تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس شخص میں یہ سب خوبیاں پائی جائیں وہ جنت میں داخل ہوگیا۔‘‘
سنتوں اور نوافل کی پابندی:
فرائض کے بعد سنتوں اور نوافل کا اہتمام کیجیے، ۱۲ رکعت سنتیں ہیں، ظہر سے قبل چار رکعت، ظہر کے بعد دو رکعت، مغرب کے بعد دو رکعت، عشاء کے بعد دو رکعت اور فجر سے پہلے دورکعت۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:  
ما من عبدٍ مسلمٍ يصلِّي لله كلّ يومٍ ثنتي عشرة ركعةً تطوعًا، غير فريضة، إلا بني الله له بيتًا في الجنًة أو إلا بني له بيت في الجنّة۔[رواه مسلم 728]
’’جو مسلمان بندہ ہر روز ۱۲ رکعت  فرض کے علاوہ نفل(سنت مؤکدہ) پڑھتا  ہے؛ اللہ تعالیٰ اس کے لیے جنت میں ایک گھر تعمیر فرماتے ہیں۔‘‘
صالحین کا طریقہ: رات کے اپنے حصے کو نہ بھولیے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:
وأفضل الصّلاة بعد الفريضة صلاة الليل۔[رواه مسلم 1163]
فرض نماز کے بعد سب سے افضل نماز رات کی نماز ہے۔(یعنی تہجد) رات کی نماز میں وتر بھی شامل ہے، وتر کی کم از کم ایک رکعت ہے، اور زیادہ سے زیادہ گیارہ یا تیرہ رکعتیں ہیں، قیام اللیل میں ان میں مزید اضافہ بھی کرسکتے ہیں، اس حدیث کی بناء پر:
صلاة الليل مثنى مثنى]متفقٌ عليه[
(رات کی نماز دو دو رکعت ہے۔)
اپنی زندگی کو بدلیے:
 اپنی زندگی کا رُخ برائی سے اچھائی اور بھلائی کی جانب کیجیے، گانوں اور نغموں کی سماعت سے تلاوت کلام پاک کی سماعت سے بدلیے، والدین کی نافرمانی سے ان کی فرمانبداری کی جانب آئیے، سیگریٹ نوشی ترک کرکے مسواک کا اپنے آپ کو عادی بنائیے، قطع رحمی سے صلہ رحمی کا رُخ کیجیے، کبروغرور کو بھول کر تواضع اور انکساری پیدا کیجیے، نمازوں میں کاہلی اور سُستی چھوڑ کر مساجد میں پابندی سے نماز پڑھنے کا اہتمام کیجیے، بدسلوکی کو حسن سلوک سے بدلیئے، ناپسندیدگی، کراہیت، اور حسد وکینہ کو محبت وپیار سے بدلیئے، بخل وکنجوسی کو صدقہ وخیرات سے بدلیئے۔
شیخ ابن جبرین ؒ کی رمضان کے بعد والی زندگی سے متعلق دس وصیتیں:
اللہ کے نام سے شروع کرتا ہوں۔۔پیارے بھائی ! رمضان کے بعد نیک اعمال پر جمنے کے لیے تمہارے لیے یہ دس ذرائع ہیں:
۱۔ہر چیز سے قبل ہدایت اور ثابت قدمی کے لیے اللہ تعالیٰ کی مدد ، اللہ تعالیٰ نے علم میں راسخ لوگوں کی دعا کی تعریف فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا:
رَبَّنَا لا تُزِغْ قُلُوبَنَا بَعْدَ إِذْ هَدَيْتَنَا وَهَبْ لَنَا مِنْ لَدُنْكَ رَحْمَةً إِنَّكَ أَنْتَ الْوَهَّابُ۔[آل عمران:08]
’’اے پروردگار جب تو نے ہمیں ہدایت بخشی ہے تو اس کے بعد ہمارے دلوں میں کجی نہ پیدا کردیجیو اور ہمیں اپنے ہاں سے رحمت عطا فرما تو تو بڑا عطا فرمانے والا ہے۔‘‘
۲۔صالحین کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا اور عام ذکر والی محفلوں میں شرکت کرنا ، مثال کے طور پر دینی لیکچرز اور گشت وغیرہ۔
۳۔کتابوں کے مطالعے اور کیسٹوں کی سماعت کے ذریعے صالحین کی سیرت وسوانح سے متعارف ہونا، خاص طور پر صحابہ کی سیرت کے مطالعے کا اہتمام کرنا، کیونکہ یہ  انسان میں ہمت وحوصلہ پیدا کرتی ہے۔
۴۔موثر اسلامی کیسیٹوں جیسے خطبے، مواعظ وغیرہ کا کثرت سے سننا ۔
۵۔فرائض کی پابندی جیسے پانچوں نمازوں اور رمضان کے روزوں کا اہتمام، کیونکہ فرائض میں خیر عظیم ہے۔
۶۔نوافل کا اہتمام گرچہ چند ہی رکعت کیوں نہ ہو، حدیث میں ہے:
«أحبّ الأعمال إلى الله -عزّ وجلّ- أدومه، وإن قل۔[رواه النّسائي 761 وقال الألباني: حسنٌ صحيح]
اللہ تعالیٰ کے نزدیک ہمیشہ کیے جانے والے عمل پسندیدہ ہے گرچہ تھوڑا  تھوڑاہو۔
۷۔ قرآن کریم کے حفظ کا آغاز، تلاوت کی پابندی، اور جو حفظ کیا ہو اسے نوافل اور دیگر نمازوں میں پڑھنا۔
۸۔کثرت سے ذکر واذکار اور استغفار کا اہتمام، کیونکہ یہ ایک آسان کام ہے لیکن عظیم نفع کا حامل ہے، ایمان کو بڑھاتا ہے اور دل کو تقویت پہنچاتا ہے۔
۹۔مفسداتِ قلب سے مکمل پرہیز، اسی طرح بُرے دوستوں اور ساتھیوں سے مکمل دوری، اور اخلاق اور عقل کو بگاڑنے والے چینلس سے پرہیز، گانوں اور نغموں کی سماعت سے پرہیز اسی طرح فحش میگزن کے مطالعے سے دور رہنا۔
۱۰۔ اخیر میں ، میں اپنے پیاروں کو جلد توبہ کی وصیت کرتا ہوں، ایسے توبہ کی جس کے بعد اللہ کی معصیت نہ ہو، یقینا جب بندہ توبہ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ کو بے پناہ خوشی ہوتی ہے۔
پیارے بھائی! آپ اس قوم کا حصہ نہ بننا جو اپنے رب کو صرف رمضان میں ہی جانتے ہیں، ان لوگوں کے بارے میں سلف کا قول ہے: ’’بُرا ہو ، اس قوم کا جو اللہ کو صرف رمضان میں جانتے ہیں‘‘۔ پیارے بھائی پھر ہم آئندہ رمضان میں ملیں گے، اس حال میں کہ آپ صحت، عافیت،  دین پر استقامت کے ساتھ ہو، یہ قیمتی اور مفید نصیحتیں ہیں اس شخص کے لیے جو اسے پڑھے اور اس پر عمل کرے، ہم ان نصیحتوں کو نشر کرنے کی بھی وصیت کرتے ہیں۔
ان کلمات کو افتاء کمیٹی کے رکن عبداللہ بن عبدالرحمن الجبرین نے کہا اور قلمبند کیا۔( 13/10/1415)
علامہ شیخ عبدالعزیز بن باز ؒ فرماتے ہیں:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے کہ آپ نے فرمایا:
«من صام رمضان ثمّ أتبعه ستًّا من شوال كان كصيام الدّهر۔[أخرجه الإمام مسلم 1164 في الصّحيح]
’’جس نے رمضان المبارک کے روزے رکھنے کے بعد شوال کے چھ روزے رکھے تو یہ ایسا ہے جیسے پورے سال کے روزے ہوں‘‘۔
یہ ایام مہینے میں متعین اور خاص نہیں ہے بلکہ مہینے بھر میں کسی بھی دن بندۂ مومن روزہ رکھ سکتا ہے، اگر وہ چاہے تو آغاز میں رکھ لے، یا درمیان میں یا اخیر میں اور اگر چاہے تو چھوڑ چھوڑ کر رکھے اور اگر چاہے تو ایک ساتھ رکھے، اللہ کا شکر ہے کہ اس سلسلے میں حکم میں وسعت  اور کشادگی ہے، لیکن اگر مہینہ کے آغاز میں ہی رکھ لیے جائیں تو زیادہ افضل ہے، کیونکہ یہ خیر کی جانب عجلت کے باب سے ہے، مسلمان پر یہ روزے فرض نہیں ہے، بلکہ کسی برس اگر وہ ترک  بھی کرے تو اس کے لیے جائز ہے، لیکن ان روزوں کو پابندی سے رکھنا افضل ہے، کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:
أحبّ العمل إلى الله ما داوم عليه صاحبه، وإن قل۔[رواه مسلم 782]
’’اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب اعمال وہ ہیں جس پر صاحب عمل پابندی کرے اگرچہ تھوڑا ہو۔‘‘
سلسلة العلامتين
ترجمہ: مبصرالرحمن قاسمی
زیراہتمام: مرکز وذکر
http://www.wathakker.info/flyers/view.php?id=1533

0 تبصرے:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔