اتوار، 26 اگست، 2012

یوم ماں

0 تبصرے

مدرڈے
(یوم ِماں)
۲۱ مارچ
آج میری ماں سے ملاقات کا دن ہے، اُس بوڑھی ماں سے جو اولڈ ہاؤس میں ہے۔

اے ماں!
انھوں نے پہلے تجھے مظلوم بنایا  اور اب تیرے نام سے عید منارہے ہیں۔۔!!


پیارے بھائیو!
چند عرصے سے ہمارے مسلم معاشروں میں ایک رسم چل پڑی ہے،،جسے مدرڈے یا ’’یوم ماں‘‘ کے نام سے موسوم کیا جارہا ہے۔آخر اس عید کی کیا حقیقت ہے۔۔؟؟ شریعتِ اسلامی میں اس کا کیا حکم ہے۔۔؟؟
مدرڈے کی حقیقت:
پیارے مسلمانو!
سب سے پہلے تو ہم کو یہ جاننا ضروری ہے کہ یہ تقریب مغرب سے آئی ایک رسم ہے، اور یہ ان کے بے شمار عیدوں مثال کے طور پر عید میلاد، سال جدید کی عید، کرسمس، یوم عاشقاں، یومِ مزدور، یومِ خواتین، یومِ اطفال، یوم ِشجرکاری، وغیرہ وغیرہ عیدوں میں سے ایک عید ہے۔
مغرب میں خاندان کی حقیقت:
مغربی معاشروں میں خاندان کے حالات کا جائزہ لینے والا وہاں کہ خاندانی نظام کو بکھرا ہوا،ٹوٹا ہوا اور مکمل طور پر پھوٹا ہوا پائے گا۔۔ افراد خاندان میں کوئی ربط نہیں۔۔ان کے درمیان رحم نام کی کوئی چیز نہیں۔۔رشتہ داری،،،محبت ومودت کا کوئی وجود نہیں،  اس معاشرہ کے بدترین حال کی حد یہ ہے کہ ماں کا اپنی اولاد سے، باپ کا اپنی اولاد سے،بھائیوں کا بھائیوں سے،رشتہ داروں کا دوسرے رشتہ داروں سے اور پڑوسی کا دوسرے پڑوسی سے رشتہ ناطہ ٹوٹ چکا ہے۔
مغرب میں ماں کی حالت:
اہل مغرب کے نزدیک یہ رسم چل پڑی ہے کہ ماں کے بوڑھی ہوجانے کے بعداسے  اولڈ ہاؤس میں پہنچادیا جاتا ہے، یا پھر گھر کے کسی تاریک  گوشے میں تنہاچھوڑ دیا جاتا ہے۔۔۔!!! اب اس کے بیٹوں اور بیٹیوں کو ماں کی یاد اُسی وقت آتی ہے، جب انہیں ماں کے موت کی خبر  پہنچتی ہے، وہ اس کی قبر پر جاتے ہیں، پھول چڑھاتے ہیں اورپھر وہیں لوٹ جاتے ہیں جہاں سے آئے تھے۔
مدرڈے  (یومِ ماں) کا آغاز:
ماں کے ساتھ مذکورہ زیادتیوں کے بعد اہل مغرب کے بعض افراد کے ذہنوں میں  اس عظیم مرض کے علاج کے لیے مدرڈے  منانے کی فکر پیدا ہوئی، یہ مرض کا نام  ماں اور اولاد کے درمیان قطع تعلق  ہے۔ لہٰذا اس کے لیے مغربی دانشمندوں نے  سال میں مارچ کے ایک دن کو ماں اور اولاد کے درمیان رشتہ کو جوڑنے کا دن طے کیا ہے۔تاکہ اولاد اس روز جشن منائیں، ماں سے ملاقات کریں اور اس کے لیے ہدایا اور تحائف پیش کریں۔۔!!!  اس دن بیٹا اور بیٹی اولڈ ہاؤس  یا ماں کی تاریک کوٹھڑی  میں جھوٹی مسکراہٹوں، منافقانہ جذبات اور خشک کلمات کے ساتھ حاضری دیتے ہیں، ساتھ میں سفید رنگ کے پھول ، یا سفید رنگ کا کپڑا یا کوئی معمولی سا ہدیہ لے لیتے ہیں، ماں کے پاس  تھوڑی دیر ظاہری انکساری کےساتھ بیٹھتے ہیں، لیکن باطنی طور پر ان کا دل کبر وغرورسے بھرا ہوا ہوتا ہے، کچھ دیر کے بعد، پھر اس ماں کو الوداع کہتے ہوئے آئندہ برس آنے کاوعدہ کرتے ہیں۔جب یہ دن نکل جاتا ہے وہی قطع رحمی اور ماں کی نافرمانی واپس لوٹ آتی ہے۔۔۔اور ماں اُسی قیدخانے میں اپنی زندگی کے بچے ہوئے دن گذارتی ہے۔۔!!! اولڈ ہاؤس میں مقید  ماؤوں میں سے چند ماؤوں سے جب ان کی خواہش کے بارے میں پوچھا گیا ، تو سب کا ایک ہی جواب تھا: (ہمیں اب محبوب چیز موت ہے)،ان کے اس جواب کی وجہ صرف اور صرف  سخت ترین ضرورت کے وقت اپنے لختِ جگراولاد سے تنہائی کی وجہ سے ا ن کا بڑھتا ہواغم، مایوسی اور غصہ وغضب ہے۔
یومِ ماں یا مدرڈے منانے کے نقصانات:
پیارے مسلمانو!  یومِ ماں سے موسوم تہوار یوم ماں یا مدرڈے منانے  کے خطرناک اثرات اور بڑے بڑے نقصانات کا خدشہ ہے، جن میں سے اہم ذیل میں بیان کیئے جارہے ہیں:
ماں کے تئیں نقصانات:
۱۔ بے اولاد  یا بانجھ خواتین کے لیےیہ اذیت کا باعث ہے، چونکہ ایسی خواتین یہ تمنا کرتی ہیں کہ اگر انھیں بھی اولاد ہوتی تو دیگر ماؤں کی اولاد کی طرح ، ان کی اولاد  بھی ان کے لئے تقریب کا اہتمام کرتی۔
۲۔یہ دن منانا ، اولاد پیدا نہ کرنے کی ایک دعوت ہے،کیونکہ اس موقع پر ماں باپ ضرور اس بات سے واقف ہوجاتے ہیں کہ عنقریب ان کی اولاد بھی ان کی نافرمان نکلیں گی، اور وہ ان سے رشتہ ناطہ ٹوڑ دیں گی، جس طرح آج یہ دن منانے والوں نے اپنے ماں باپ سے رشتہ توڑ کر صرف سال میں ایک دن ان کے لیے مخصوص کیا ہے۔
اولاد کے تئیں نقصانات:
۱۔ اس میں ان اولاد کے لیے اذیت ہے جن کی مائیں فوت ہوچکیں،یہی وجہ ہے کہ یہ خراب رسم بیٹوں اور بیٹیوں کے جذبات واحساسات  کو بھڑکانے کا باعث بن رہی تھی، جس وجہ سے ان کے حزن وبکاء میں اضافہ ہورہا تھا، لہٰذا اس دن کا نام یومِ ماں سے یوم ِخاندان رکھ دیا گیا۔
۲۔اس موقع پر اولاد کو بغیر گناہ کے قانونی مجرم بنادیا جاتا ہے،کہ جو اولاد اپنی ماں کو اگر اس موقع پر ہدیہ لے کر پیش نہیں ہوتی ہے تو ایسی اولاد کو گھٹیا نظر سے دیکھا جاتا ہے، اور اولاد اس بات کو گناہ سمجھتی ہیں۔۔!!!
۳۔لڑکوں کی شادی میں دلچسپی کم ہوتی ہے، اس خدشہ کی بنیاد پر  کہ اولاد نافرمان نہ نکل جائے، اسی وجہ سے ہم دیکھتے ہیں کہ سماج میں غیرقانونی طور پہ گلرز فرینڈکا ماحول بن رہا ہے ۔
ملاحظہ:
اس ناجائز جنسی تعلقات کے نتیجے میں عورت  ناچاہتے ہوئے ناجائز اولاد  کو جنم دیتی ہے(باوجود منع حمل کے لیے احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کے ) امریکا میں سالانہ دیڑھ ملین ناجائز اولاد کا جنم ہوتا ہے، فرانس میں سال 1997 میں  بغیر شادی کے ناجائز ہونے والی اولادکا تناسب 40 فیصد تھا، یہی کچھ دیگر مغربی ممالک کا حال ہے۔ ان بچوں  کو تربیتی مراکز میں ڈال دیا جاتا ہے۔جس کے نتیجے میں مجرم پیشہ نسل پیدا ہوتی ہے، جو معاشرہ اور سماج کے لیے خطرناک ثابت ہوتے ہیں،چونکہ ان کے مزاج میں اپنے اردگرد موجود ہر چیز سے نفرت پیدا ہوجاتی ہے، یہ بچے اپنے آپ کوبے گناہ  قیدی سمجھتے ہیں(اوریہ حقیقت ہے)۔۔اس اللہ کی تعریف ہے جس نے ہمیں اس آفت سے بچایا۔
تنبیہ:
ذرائع ابلاغ کا بے ماں لڑکوں اور لڑکیوں  اور بے اولاد ماؤں کی اذیت کو بڑھانے میں اہم ہاتھ ہے، چاہے: گانوں کے ذریعے، یا مقالات ، کتابوں، کہانیوں ، ڈراموں اور افسانوں کے ذریعے۔۔ذرائع ابلاغ یہ دردناک اور کربناک موقع کی مناسبت سے بے ماں لڑکوں اور لڑکیوں اور بے اولاد ماؤں کے غم کو دوچند کرنے میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔
والدین کی نافرمانی۔۔اور خاتون ِمغرب کا کتوں کی پرورش کا راز:
اللہ تعالیٰ نے عورت میں محبت وعاطفت کا جذبہ ودیعت کیا ہے،لہٰذا اسے بچوں کے پیدا کرنے کی شدید خواہش ہوتی ہے، تاکہ وہ ماں کی حیثیت سے اپنے جذبات واحساسات کے بوجھ کو ہلکا کرسکے، لیکن خاتون ِمغرب یہ جانتی ہے کہ اس کی اولاد میں اسے اس کی محبت وعاطفت  کا کوئی بدل نہیں ملے گا، بھلا ایسی اولاد سے اسے محبت کیسی ملے گی جو کبھی کبھار اس سے ملاقات کے لیے آئے گی، یہ بھی ہوسکتا ہے کہ مکمل طور پر اس سے وہ اولاد کٹ بھی جائے۔لہٰذا خاتونِ مغرب اپنے محبت وعاطفت کے جذبات کے بوجھ کو ہلکا کرنے کے لیے کتوں اور دیگر حیوانات کا سہارا لینے پر مجبور ہوئی،چونکہ وہ جانتی ہے کہ کتے اور حیوانات(بدصورت اوران سے خطرناک امراض کے پیدا ہونے کے خدشہ کے باوجود) اس کے لیے اولاد سے زیادہ وفادار ووفا شعار ہیں۔!! حتی کہ بعض خواتین کے واقعات ہیں کہ انھوں نے اپنی دولت کا ایک بڑا حصہ  اپنی موت کے بعد ان کتوں اور حیوانوں کے نام لکھا۔۔!!
ملاحظہ: ایک خاتون نے ملین ڈالر سے زیادہ رقم کی  اپنے محبوب کتے کے نام وصیت لکھی، اور تقریبا 5 ملین ڈالر کی خطیر رقم  کی اپنے دوسرے کتوں کے نام وصیت لکھی۔۔!! جب کہ  دوسری جانب دنیا    کے انسانوں پر نظر ڈالی جائے تو  بہت ساری قومیں  بھوک ، پیاس اور مرض کی وجہ سے ہلاک ہوتی دکھائی دیتی ہے۔۔!!!
پیارے بھائیو! : یہ مغربی تہذیب کی ایک بھیانک تصویر ہے۔۔جس کی بعض مسلمانوں نے بھی پیروی کرنا پسند کیا ہے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔
دین اسلام میں والدین کا درجہ ومقام:
اے مسلمانو!
دین اسلام میں ماں کے لیے کسی خاص دن کی ضرورت نہیں ہے، جیسا کہ اہل مغرب نے ’’یومِ ماں‘‘مخصوص کیا ہے،تاکہ ماں کے اردگرد اس کی اولاد جمع ہوں اور کچھ وقت  اس کے ساتھ ہنسی خوشی سے گذارے، اللہ تعالیٰ نے تو ہمیں ماں  اور باپ کے تئیں ہر وقت اور ہر جگہ  اُن  کی دیکھ ریکھ اور اُن  پر خصوصی  توجہ دینے  کی تاکید فرمائی ہے۔ارشاد ربانی ہے:
وَقَضَى رَبُّكَ أَلاَّ تَعْبُدُواْ إِلاَّ إِيَّاهُ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِندَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُمَا أَوْ كِلاَهُمَا فَلاَ تَقُل لَّهُمَآ أُفٍّ وَلاَ تَنْهَرْهُمَا وَقُل لَّهُمَا قَوْلاً كَرِيمًا وَاخْفِضْ لَهُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ وَقُلْ رَبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِي صَغِيرًا    (سورة بنی اسرائیل23۔24)
ترجمہ: اورآپ کے رب نے فیصلہ کردیا ہے کہ تم اس کے علاوہ کسی اور کی عبادت نہ کرو ، اور والدین کے ساتھ بہتر سلوک کرو۔ اگران میں سے کوئی ایک یا دونوں تمہارے سامنے بڑھاپے کی عمر کو پہنچ جائیں تو انھیں اُف تک نہ کہو۔ اورنہ ہی انہیں جھڑکو اور ان سے احترام کے ساتھ بات کرواور ان پر رحم کرتے ہوئے انکساری سے ان کے سامنے جھک کر رہو۔ اور ان کے حق میں دعا کیا کروکہ اے میرے رب !ان پر رحم فرماجیسا کہ انہوں نے رحمت وشفقت کے ساتھ مجھے بچپن میں پالا تھا ۔
مسلم ماں تو ہر دن اپنی نیک وشریف اولاد کے ہمراہ خوشی کے ایام گذارتی ہیں، ان اولاد کے ساتھ جو ماں کی خوشی وشادمانی کے لیے ہر قسم کے وسائل اور ذرائع  اور شکلیں اختیار کرتے ہیں، وہ اولاد جانتی ہیں کہ ان کے جنت میں داخلے کا راستہ  اسی ماں کے ساتھ حسن سلوک اور حسن معاملات  سے جڑا ہوا ہے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ایک صحابی کو اپنی والدہ کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دیتے ہوئے ارشاد فرمایا: ’’ماں کا پیر پکڑو اور جنت میں داخل ہوجاؤ‘‘ (حسن البانی)
اللہ رب العزت نے والدین کی نافرمانی اور ان سے قطع تعلق پر خبردار کیا ہے، اور ماں کی نافرمانی سے جہاں خاص طور پر ڈرایا گیا ہے وہیں ماں کے ساتھ حسن سلوک کی خصوصی طور پر تاکید کی گئی ہے،کیونکہ ماں کا  اولاد کی تربیت میں سب سے زیادہ حصہ ہوتا ہے،ماں کو ہی حمل، رضاعت اور تربیت کا بوجھ برداشت کرنا ہوتا ہے، نبی کریم ﷺ کے پاس ایک شخص آیا اور کہا: اے اللہ  کےرسول! میرے حسن سلوک کا سب سے زیادہ کون مستحق ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تمہاری ماں‘‘ پھر اس نے پوچھا: پھر کون؟ آپ نے ارشاد فرمایا: ’’تمہاری ماں‘‘ اس کے بعد پھر اس نے دریافت کیا: پھر کون؟ آپ نے فرمایا: ’’تمہاری ماں‘‘ پھر اس نے پوچھا: اس کے بعد کون؟ تو آپ نے فرمایا: ’’تمہارا باپ‘‘ (متفق علیہ)
اسلام میں والدین کے ساتھ حسن سلوک کے فضائل:
والد ین کے ساتھ حسن سلوک اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب زیادہ محبوب عمل ہے، اگرچہ کے ماں اور باپ دونوں  اسلام کے علاوہ کسی اور دین پر قائم ہو، حضرت اسماء ؓ سے مروی ہے: فرماتی ہیں: نبی کریم ﷺ کے زمانے میں میری ماں میرے پاس آئی، وہ مشرکہ تھی، تو میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مسئلہ دریافت کرتے ہوئے کہا: میری ماں میرے پاس آئی ہے، اس کی خواہش ہے کہ میں اس کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آؤں، تو کیا میں اپنی ماں کا حُسن ِاستقبال کرسکتی ہوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب میں ارشاد فرمایا: ’’ہاں اپنی ماں کے ساتھ رشتہ جوڑے رکھو‘‘(متفق علیہ)
حسنِ سلوک میں یہ بھی شامل ہے کہ والدین کے دوست واحباب ، ان کے رشتہ دار اور ان کے اقرباء کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آئے،والدین کے لیے صدقہ کریں،ان کے لیے دعا کریں، ان کی نیت سے نیک اعمال کریں، اور یہ سب اعمال ان کی موت کے بعد بھی جاری رکھیں۔
ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے: ’’بہت بڑی نیکیوں میں سے ایک یہ ہے کہ آدمی اپنے والد کی غیرموجودگی میں بھی ان کے دوستوں سے حسن سلوک کرے‘‘(صحیح البانی)
جشن ِیوم ماں سے متعلق چند ملاحظات:
۱۔ مغربی ممالک میں یوم  ماں کا تہوار ماں کے ساتھ حسن سلوک کے خلاف ماں کی نافرمانی، اس کے ساتھ ظلم وزیادتی اور مطلق احسان فراموشی  پر مشتمل ہے،۔۔ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کی اس سے حفاظت فرمائی۔۔اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ اس ذات نے ہمیں اس دین کی نعمت سے سرفراز کیا،دین اسلام نے والدین کو لفظ ’’اف‘‘ کہنے کو بھی ان کی نافرمانی قرار دیا۔
۲۔اس روایت کو وہی شخص اچھا سمجھ سکتا ہے جو شریعت الہٰی ہے سے دور ہے، اور وہ مغربی طرز زندگی کےمطابق اپنے والدین کے ساتھ نافرمانی پر مشتمل اپنے تعلقات قائم رکھتا ہے۔۔!!
۳۔مغرب کے نزدیک یوم ماں سے موسوم اس تہوار کو منانے کا مقصد اولاد کا اپنے والدین کی ظاہری نافرمانی کو ختم کرنا، اور ماوں کو خوش کرنا تھا، لیکن اس تقریب کےآغاز کو سو سال گذرچکے ، نتیجہ یہی ہے کہ اولاد  کا اپنے والدین کی فرمانبرداری کیا نافرمانی اور ان سے قطع تعلق میں ہی اضافہ ہوتا گیا۔۔اور اس تہوار کے نتیجے میں ماؤں کو سکون وراحت اور خوشی ومسرت کیا حاصل ہوتی  بلکہ شقاوت وبدنصیبی کا ہی سامنا کرنا پڑا۔
تنبیہ: مذکورہ حقائق کے پیش نظر یہ ثابت ہوگیا ہے کہ’’انعقاد یومِ ماں  ‘‘ تحریک اپنے تمام مقاصد میں ناکام ہوگئی ہے۔ لہٰذا  بعض افراد کی جانب سے اس کی دعوت۔۔؟؟ اس تقریب کے انعقاد کی ترغیب آخر کیوں؟؟؟ لا حول ولا قوۃ الا باللہ۔
یوم ماں کی مناسبت سے جشن منانے کے حکم کے بارے میں دائمی کمیٹی کا فتوی: (86\3)
یوم ماں سے موسوم عید یا تہوار  اور اس کی طرح دیگر بدعتی عیدوں کا منانا جائز نہیں ہے؛ ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے: ’’ جس نے کوئی ایسا کام کیا جو ہمارے دین میں نہیں ہے وہ قابل رد ہے‘‘ یوم ماں منانا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل نہیں ہے، نہ ہی آپ کے صحابہ ؓ کا عمل ہے اور نہ ہی اسے امت کے سلف صالحین نے کیا، بلکہ یہ ایک بدعت عمل ہے اور کفار سے مشابہت ہے۔اھ
وارننگ:
اس خراب رسم سے متعلق  اس رسم کے منانے کی نیت سے پھول، کارڈ، اور  ہر قسم کے ہدیہ وتحائف کا خریدنا، بیچنا،اور ہدیہ دینا ناجائز ہے۔
اپیل: ہم تمام والدین، مدرسین، معلمین،ائمہ کرام، مساجد کے خطباء اور ذرائع ابلاغ سے تعلق رکھنے والے تمام ہی حضرات سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ اس بدعت سے اپنی اولاد کو آگاہ کریں،اور والدین کے ساتھ حسن سلوک کی اہمیت کو اجاگر کریں، اور اللہ اور اس کے رسول کے حکم کے مطابق اپنی اولاد کو والدین کے ساتھ حسن سلوک پر آمادہ کریں۔
اور اخیر میں:
ایک مسلمان پر ضروری ہے کہ وہ اپنے والدین کی زندگی کو غنیمت جانے، ان کے ساتھ اچھا برتاؤ کرے، ہاں اگر کسی شخص نے والدین کی نافرمانی کی ہو، اور ان کی وفات کے بعد توبہ کرلی ہوتو ، اللہ تعالیٰ توبہ قبول کرنے والے ہیں۔۔اس کے سامنے والدین کی نافرمانی کے تدارک کے لیے دروازہ برابر کھلا ہے، لہٰذا ان کے لیے ثواب کی نیت سے نیک اعمال میں حصہ لے،،لیکن حسن سلوک تو زندگی میں ہی زیادہ افضل اور بابرکت ہے ۔ اے مسلمانو! آگاہ ہوجاؤ اور اپنی کوتاہیوں کی بھرپائی کرو۔۔
اختتام:
یہ چند کلمات جو عبرت بھی ہے اور خوشخبری بھی
بیان کیا جاتا ہے کہ ایک بیٹا بازار میں اپنے باپ کو مارر ہا تھا، لوگوں نے اس سے کہا: کیا باپ کو مار رہا ہے؟؟ تو باپ نے کہا: اسے مارنے دو، کیونکہ میں بھی اپنے والد کے ساتھ یہی برتاؤ کرتا تھا۔۔!! پیارے بھائی۔۔!! عبرت حاصل کرو۔۔!!جیسا تم اپنے والد کے ساتھ برتاؤ کروں گے تمہاری اولاد بھی تمہارے ساتھ وہی معاملہ کریں گی۔اگر تم کسی باپ کے فرمانبردار بیٹے کو دیکھو تو اسے اس کی اولاد کے اس کے ساتھ  کیئے جانے والے حسن سلوک کی خوشخبری دیدو۔۔جیسا کروگے ویسا بھروگے۔۔
اللہ تعالیٰ تمام مسلمانوں کو والدین کی فرمانبرداری کی توفیق دے۔ وجزاکم اللہ خیرا۔












0 تبصرے:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔