اتوار، 26 اگست، 2012

0 تبصرے


بسم الله الرحمن الرحيم

الله أكبر.. الله أكبر.. الله أكبر.. لا إله إلا الله.. الله أكبر.. الله أكبر. ولله الحمد

بسم الله... والحمد لله والصلاة والسلام على رسول الله وعلى آله وصبحه ومن والاه... وبعد:

اللہ تعالیٰ آپ کی ساری عبادتوں کو قبول فرمائے۔
فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے:

قدمت المدينة ولأهل المدينة يومان يلعبون فيهما في الجاهلية، و إن الله -تعالى- قد أبدلكم بهما خيرا منهما: يوم الفطر ويوم النحر۔[صححه الألباني]
(میں مدینہ آیا تو اہل مدینہ کے دو دن تھے، جاہلیت میں یہ لوگ ان دنوں میں کھیلتے کودتے تھے، لیکن اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے اُن دو دنوں کو ان سے بہتر دنوں سے بدل دیا: (اور وہ)عید الفطر اور عید قربانی کے دن ہیں۔)
پیارے بھائیو! عید خوشی ومسرت کا موقع ہے، مسلمانوں کی خوشیوں اور مسرتوں اور ان کی عید میں ان کے خالق ومالک کی رضامندی اور خوشنودی بھی شامل ہے، نہ کہ بہت سے لوگوں کا جیسا خیال ہے کہ عید صرف کھانے پینے، کھیل کود اور صرف نئے نئے ملبوسات زیب تن کرنے کا نام ہے، بلکہ عید تو ان سب خوشیوں کے ساتھ ساتھ شکر، تکبیر وتھلیل اور ذکر باری تعالیٰ کا بھی دن ہے۔
پیارے مسلمانو!
عید الفطر کی مناسبت سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت چند سنتیں ہم آپ کو بتاتے ہیں:
۱۔ عید کی رات سے تکبیر کہنا اور عید کی نماز تک جاری رکھنا مشروع ہے، مرد حضرات کا مساجد، بازاروں اور گھروں میں بلند آواز سے تکبیر کہنا اور اللہ کی عظمت وپاکی بیان کرنا نیز شکر اور خوشی ومسرت کا اظہار کرنا سنت ہے۔ اورخواتین  کاآہستہ آہستہ تکبیریں کہنا مسنون ہے۔(تکبیر انفرادی طور پر کہنا مشروع ہے نہ کہ اجتماعی طور پر)
۲۔ عید کی نماز کا اہتمام۔
۳۔ عید کی نماز کو جانے سے قبل غسل کرنا، مردوں کے لیے خوشبو کا استعمال کرنا، اچھے اور خوبصورت ملبوسات زیب تن کرنا، (لیکن کپڑوں کے ٹخنوں کے نیچے لٹکانے اور داڑھی کے کاٹنے سے مکمل طور پر بچنا ضروری ہے)۔
۴۔ عید الفطر کی نماز سے قبل کچھ تناول کرنا، طاق عدد کھجور کھانا مستحب ہے۔
۵۔ نماز کے لیے تکبیر کہنا۔
۶۔عیدگاہ میں مرد، خواتین اور بچوں کا عید کی نماز ادا کرنا، (حائضہ اور نفاس والی خواتین خطبہ میں شریک رہیں گی اور نماز ادا نہیں کریں گی)۔
۷۔ عیدگاہ (اگر ہوسکے تو) چل کر جائے اور واپسی میں راستہ بدل کر لوٹے۔
۸۔عیدگاہ میں تحیۃ المسجد پڑھنا ثابت نہیں ہے۔
۹۔ عید کی دو رکعت نماز ہے، پہلی رکعت کا آغاز تکبیر تحریمہ کے علاوہ سات تکبیروں کے ساتھ ہوگا، اور دوسری رکعت قیام کی تکبیر کے علاوہ پانچ تکبیروں سے ، امام کا دو رکعت ہونے کے بعد کھڑے رہ کر خطاب کرنا مسنون ہے۔
۱۰۔عید کی مبارک دینا۔
۱۱۔ رشتہ داری کو جوڑنے کی کوشش،فقراء، مساکین اور یتیموں میں خوشی ومسرت پیدا کرنے کی کوشش۔
اہم ملاحظہ:
مسلمان پر عید سے پہلے صدقہ فطر نکالنا ضروری ہے، ورنہ وہ گناہگار ہوگا۔
اخیر میں:
شوال کے چھ روزے رکھنا نہ بھولیئے، اپنے گھروالوں، بچوں، اور بھائیوں کو چھ روزوں کی  یاد دہانی کرائیے، تاکہ اللہ کے حکم سے اجر عظیم پانے میں کامیاب وکامران ہوں،ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے:
من صام رمضان ثم أتبعه ستا من شوال كان كصيام الدهر»[رواه مسلم]
(جس رمضان کے روزے رکھے، پھر اس کے ساتھ شوال کے چھ روزے رکھے، گویا سال بھر کے روزے رکھے۔)
خلاصہ:
پیارے بھائیو!
عید نام ہے شکر کا نہ کہ فسق وفجور کا، لہٰذا عید کے موقع پر رب تعالیٰ کے احکام کو بجالائیں،اور اس موقع پر اپنے گھر کی خواتین، بچوں اور بھائیوں کی اللہ کی اطاعت وبندگی میں مدد کریں۔۔۔
اللہ تمہاری ساری عبادتوں کو قبول فرمائے۔
ہماری دعا ہے کہ ہر برس آپ خیر وبھلائی پاتے رہیں۔۔۔
والسلام عليكم ورحمۃ الله وبركاتہ
ترجمہ: مبصرالرحمن قاسمی

0 تبصرے:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔